ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی
ڈونلڈ ٹرمپ جب دوسری بار امریکی صدارتی دوڑ میں کامیاب ہوا تو اس نے امریکی عوام کو امید دلا کر ووٹ لیے کہ اب امریکہ دنیا میں امن کا علمبردار بنے گا، امریکی فوج کو لاحاصل جنگوں سے نکالا جائے گا، اور معاشی خوشحالی کا راستہ کھلے گا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی طاقت کو صرف امریکہ کی سرحدوں تک محدود رکھے گا اور غیر ملکی مداخلتوں کا سلسلہ ختم ہوگا۔
لیکن اقتدار سنبھالتے ہی جو منظر دنیا نے دیکھا، اس نے ثابت کر دیا کہ ٹرمپ نہ امن کا پیامبر ہے اور نہ کوئی اصولی سیاستدان بلکہ وہ بھی صیہونی اسلحہ سازوں اور اسرائیلی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلنے والا ایک اور مہرہ ہے۔
دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے سب سے پہلے اس نے معاشرے کے سب سے کمزور طبقے، غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ میں لاکھوں خاندانوں کو تقسیم کیا گیا، بچوں کو والدین سے جدا کر کے حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور اگر چاہے تو نہتے، بے بس اور کمزور لوگوں کو روند کر اپنی برتری ثابت کر سکتی ہے۔
لیکن طاقت کا مظاہرہ صرف اتنا کافی نہیں تھا۔ فلسطین میں، امریکہ کے اسلحے، مالی امداد اور سیاسی پشت پناہی سے اسرائیل نے عورتوں اور بچوں کو محصور کر کے غزہ کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ خاموش رہا بلکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ویٹو پاور کا بے دریغ استعمال کرتا رہا۔
پھر باری آئی کمزور ریاستوں کی۔ یمن، صومالیہ، عراق اور شام کو پراکسی جنگوں کے ذریعے کمزور کیا گیا۔ کہیں امریکہ براہِ راست حملہ آور ہوا، کہیں اسرائیل اور اس کے دوسرے اتحادیوں کو آگے بڑھایا گیا۔ ہر جگہ خون، بارود اور تباہی نے یہ پیغام دیا کہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی تباہ کن قوت ہے۔
روس جیسی بڑی فوجی طاقت کے خلاف بھی امریکہ نے سازشوں کا دائرہ بڑھایا۔ یوکرین کی جنگ میں نیٹو اور امریکی مداخلت نے روس کو اشتعال دلایا اور یہاں تک نوبت آئی کہ روس کے اندر ہوائی اڈوں پر کھڑے جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ امریکہ نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کے گھر کے اندر گھس کر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن اس بار اسرائیل اور امریکہ نے جنگی تھیٹر میں بھارت کو شامل کیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی شدت بڑھائی اور پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان نے نہ صرف سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارت کو جواب دیا بلکہ عسکری سطح پر بھی بھارت کی جارحیت کو ناکام بنا دیا۔ یوں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ چال ناکام ہوئی اور پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور امریکی سازشوں کے باوجود اس کی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔
جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کر کے اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا تو ایران نے نہایت محتاط انداز میں جواب دیا۔ اسرائیل پر میزائل برسے اور امریکہ کو اندازہ ہوا کہ ایران کوئی عام ملک نہیں، نہ اسے لبنان یا شام سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے پاس جنگ بندی کا ڈھونگ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ یوں دنیا کو بتایا گیا کہ جنگ ختم ہو گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف وقتی خاموشی ہے۔
شام میں ایک نئی چال چلی گئی۔ اسرائیل کی شہہ پر ایک مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مذہبی بنیاد پر شام میں نئی خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ فی الحال اس واقعے کو میڈیا سے چھپا لیا گیا ہے لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ شام کی سرزمین کو امریکہ اور اسرائیل جب چاہیں جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔
ٹرمپ، جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتا تھا، آج ثابت کر چکا ہے کہ وہ درحقیقت اسرائیل کے اشاروں پر چلنے والا ایسا جوکر ہے جو ہر گھنٹے بعد اپنا بیان بدلتا ہے، جو وعدے کرتا ہے مگر ان پر کبھی عمل نہیں کرتا۔ نیتن یاہو جیسے بچوں کے قاتل اور انسانیت کے دشمن کی کٹھ پتلی بن کر، ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔
اقوام عالم کے سامنے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے صدر کی شخصیت کا پول کھل چکا ہے ۔ کیا امریکی عوام کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کا نمائندہ امریکہ کے صدر کی بجائے ، نیتن یاہوجیسے جنگی مجرم کی کٹھ پتلی کا کرادار ادا کر رہا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں