جمعہ، 25 دسمبر، 2020

شمع و شعلہ




شمع اور شعلہ دونوں دونوں کی ابتداء آگ ہے۔ شمع نور کا استعارہ ہے اور روز اول سے ہی اہل علم اس سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ شمع کے بارے مین کہا جاتا ہے وہ اپنا وجود جلا کر ماحول کو منور کرتی ہے ۔ اس کے برعکس شعلہ دوسروں کے وجود سے اس وقت تک توانائی لے کر روشن رہتا ہے جب تک کہ جلنے والے مواد کو بالکل ہی بھسم نہ کر دے۔
مکہ کے خاندان قریش میں بنو ہاشم میں دو بھائی گذرے ہیں ایک کا وجود شمع کی طرح تھا جو اپنے ہی وجود کو جلا کر اپنے قبیلے کی حفاظت کرتا رہا۔ جب قریش نے ابو طالب (۵۳۹ ا۔۔۶۹۱) سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے سگے بھائی عبدللہ کے یتیم بیٹے کے سر سے بنو ہاشم قبیلے کی حفاظتی چھتری ہٹا لے تو اس مر د وفا شعار نے شرافت، قرابت اور انصاف کی پاسداری اپنے وجود کی قربانی کی شمع روشن کر کے کی۔ اور اپنے قببلے سمیت شعب ابو ظالب میں زندگی کا مشکل ترین وقت گذارا ۔ مگر قریش کے رسول اللہ ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ تسلیم کیا نہ ان کو قبیلہ بدر کیا۔ ان کی وفات کے سال کو عام الحزن کا نام خود رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا۔
ابو لہب (۵۴۹۔۔۶۲۴) بھی عبدالمطلب ہی کا بیٹا تھا البتہ اس کی ماں کا تعلق قبیلہ خزاع سے تھا جو قریش کا حریف تھا۔ اس کی بیوی قریش کے سرادار ابو سفیان کی بہن تھی۔ سردار عبدلمظلب کی وفات کے بعد جب منصب تقسیم ہوئے اور سرداری ابوطالب کے حصے میں ائی تو کعبہ کے چڑہاواوں کی امانتوں کی رکھوالی ابو لہب کے حصے میں ٓئی تھی۔ اس کی ہوس اور لالچ اس دن مکہ والوں پر عیاں ہو گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ اس نے کعبہ کے خزانے کے دو سونے کے ہرن چرا لیے ہیں۔

وہ ابو ظالب کا بھائی ہونے کے باوجود انتہائی بخیل، ہمسائیگی کی روایات سے لا تعلق، قرابت کی ذمہ داریوں سے دور انتہائی ہٹ دہرم اور ذاتی انا کا شکارانسان تھا۔ نام تو اسکا عبد العزیٰ تھا مگر دراصل وہ لالچ کا بندہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کا سبب ان ﷺ کا یتیم اور دنیاوی دولت سے محروم ہونا تھا۔ اس نے ساری عمر بنو ہاشم کے خلاف قریش کا ساتھ دے کر گذاری مگر بزدلی کا عالم یہ تھا کہ جنگ بدر میں جانے کا وقت آیا تو بیمار ہو گیا۔
اہل مکہ نے اس کی کمینگی کی انتہا اس دن دیکھی جن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسم فوت ہوئے تو اس نے جشن منایا تھا


ابو لہب کی موت بڑے عبرت ناک انداز میں ہوئی ۔ اس کے جسم پر ایک دانہ نمودار ہوا جس سے گندگی اور بدبو خارج ہوتی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھالہ اس کے تمام بدن پر چھا گیا ۔ خوف کے باعث کوئی آدمی اس کے قریب نہ ۤآتا ۔ سات دنوں میں اس کا سارا وجود گل گیا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔ اس کی موت کو منحوس قرار دیا گیا اور کوئی آدمی اس کی میت کے قریب نہیں جاتا تھا۔ تین دنوں بعد بد بو سے تنگ آ کر اس کے بیٹوں نے مکہ کے قبرستان کی بجائے ایک پہاڑی پر ایک گڑھا کھودا اور لکڑیوں کی مدد سے لاس کو دھکیلتے ہوئے اس گڑہے میں کر کر دور سے پتھر پھینک کر اس گڈہے کو بند کر دیا۔

جمعہ، 20 نومبر، 2020

صالح اور طالح

صالح اور طالح

راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے ایک پسماندہ علاقے چنگا  بنگیال سے تعلق رکھنے والا ایک گیارہ سالہ لڑکا جب کرکٹ اکیڈمی چلانے والے آصف باجوہ کے پاس آیا تو آصف باجوہ نے اس بچے میں بڑا کرکٹر بننے کی صلاحیت کو   تاڑ    لیا تھا۔ اور پھر یہ بچہ راولپنڈی سے لاہور  اور پھر لندن منتقل ہو گیا۔ لندن کے ایک اخبار نے اس پر سٹے بازی کا الزام لگایا تو آصف باجوہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا یہ محمد عامر کی صحبت کا اثر ہے۔

فارسی زبان کی ایک کہاوت ہے

    صحبت صالح تیرا صالح کنند۔ صحبت طالح تیرا طالح کنند    

جو لوگ بھیڑیں پالتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھیڑ بیمار ہوتی ہے تو اسے دوسری بھیڑوں سے علیحدہ کردینا چاہیے۔ورنہ وہ سارے ریوڑ ہی کو بیمار کر دیتی ہیں۔ صحرا کے بدو خارش زدہ اونٹ کو دوسرے اونٹوں سے دور ہی رکھتے ہیں۔ صحبت ہر جاندار پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ انسان مگر سب سے زیادہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے۔ 

جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں کہ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ دکھا تو ہمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ہمارے ارد گرد ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان صحبت کے غلط چناو کے باعث اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے لیے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں۔ شیخ سعدی نے اپنی بوستان میں پرندوں کے ایک جوڑے کا ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی کو دیکھ کرمادہ نے کہا کہ اس کا ارادہ شکار کرنے کا ہے نر نے کہا یہ لباس سے شکاری نہیں لگتا۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے تیر نکالا اور نر پرندے کو شکار کر لیا۔ لاہور والے علی ہجویری  (داتا صاحب)  نے اپنی کتاب کشف المجوب میں تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین کی ہے ایک ایسے جاہل جنھوں نے صوفی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو۔دوسرے ایسے مبلٖٖغین جو اپنے ہی کہے پر عمل نہ کرتے ہوں اور تیسرے وہ فقراء جو قرض کی دلدل میں اتر چکے ہوں۔ یہ تینوں کسی وقت میں اپنا تیر نکال کر شکار کر سکتے ہیں۔

گئے وقتوں میں صحبت سے مراد لوگوں میں المشافہ اٹھنا بیٹھنا اور دوستیاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں صحبت کے دائرے فیس بک، نوئٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ تک ہی محدود  رہ کر لا محدود ہو چکے ہیں۔ تخم تاثیر کی عدم واقفیت کے باعث بعض اوقات ناقابل یقین واقعات جنم پذیر ہوتے ہیں۔ 

محمد عامر کی کہانی میں    نوٹ    تو مجید نامی آدمی نے گنے تھے مگر بدنامی محمد عامر کے حصے میں آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ سنبھل گیا اور کردار پر ملی گئی کالک کو اپنے عمل سے دہو ڈالا مگر ہر انسان  محمد عامر نہیں ہوتا۔ ٹخم تاثیر ہر جگہ حاوی نہیں ہوتا اکثر بری صحبتیں انسان کو تباہ کردیتی ہیں۔


 

جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

اردو کالم اور مضامین: جواب آں غزل

اردو کالم اور مضامین: جواب آں غزل: میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو  Add  نہیں کر ...

جمعرات، 27 اگست، 2020

جواب آں غزل



میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو 
Add
 نہیں کر رہا ۔ اس گلے سے بچنے کے لئے میں وقت کے ساتھ ساتھ چھانٹی کا عمل جاری رکھتا ہوں لیکن اس کے با وجود اس لسٹ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو معاشرتی اور دینی حوالے سے مجھ سے مختلف سوچ رکھتے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کر کے بات کو سنتے اور کچھ حاصل کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ ْ اختلاف باعث رحمت ْ اسی وقت تک ہے جب ہماری نیت رحمت کے حصول کی ہو البتہ نیت اگر فرقہ پرستی اور اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی ہو تو ایسی پوسٹ کی حقیقت کی طرف اشارہ کر دینا میرا اخلاقی منصب ہے۔۔
میرے ایک دوست نے اسلام آبا د میں میرے پیر و مرشد کے سانحہ ارتعال پر میرے لکھے ہوئے ایک  شذرے کو بنیا د بنا کر  بلند درگا ہ گولڑہ شریف کے بلند کنگروں پر سنگ باری کی کوشش ہے اور قبلہ پیر مہر علی شاہ کے صاحبزادگان کے بارے میں اپنی ذہنی پستگی اور زہر آلودہ زبان کو دراز کرتے ہوئے لکھا ہے ْ افسوس کہ پیران گولڑہ شریف ۔۔۔ 
فتنہ قادیانیت ، اس کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے قلوب پر ْ گولڑہ شریف ْ نے جو چرکہ لگایا تھا لگتا ہے وہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس پیپ زدہ ْ چرکےْ سے بدبودار مواد خارج ہوتا رہتا ہے ۔ جو کبھی ْ انسانیتْ کے لفافے میں چھپایا جاتا ہے تو کبھی ْ مسلک ْ کے کیپسول میں اور اج کل ْ لبرل ازمْ کے پھول دار شاپر میں ڈہانپا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ْ بدبوْ کیسی ہی خوش شکل بوتل میں بند کر دی جائے ، ڈھکنا کھلنے پر گردو پیش کو کثیف ہی کرتی ہے ۔
میرا یہ نا دیدہ دوست ْ احمد رضا خان بریلوی کی حسام الحرمین کو جہالت اور فتنہ خیزیْ بتاتا ہے مگرْ سیف چشتائی ْ کا ذکر اس لیے نہیں کرتا کہ یہ گستاخون کی زبان درازیوں کی قاطع ہے۔
ہم لوگوں کہ یہ ریت رہی ہے کہ ذاتی تنقید اور شخصی یاوہ گوئی پر بھی مسکرا دیا کرتے ہیں۔ کہ ہمارے مرشد اعلیٰ ، رہبر کامل رسول اللہ ﷺ نے جو دین عطا فرمایا ہے اس دین کی میزان میں عفو درگذر، معافی اور احسان کا پلڑا سدا انکسار کی طرح جھکا ہی رہا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب خاتم المرسلیں کا خون مبارک نعلین مبارک کو تر کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نازل ہو کر منتظر حکم نبی ﷺ تھا تو ہمارے رحیم آقا کے لبوں سے وہ تاریخ ساز خیر خواہی ادا ہوئی کہ طائف والوں کی نسلیں سرخرو ہو رہی ہیں۔ہم اسی تعلیم کو لے کر چل رہے ہیں۔ ہم اس شجاع علی ابن طالب کے پیرو کار ہیں جو دشمن کو مغلوب کر لینے کے بعد ذاتی عناد کے شک پر عدو کے سینے سے اتر آتے ہیں ۔ ہم نے سبق یہ سیکھا کہ اصل شجاعت غصے کی حالت میں بھی حق کو تھامے رکھنے میں ہی ہے۔ 





گولڑہ شریف کے مکین رحمت العالمین کی تعلیمات کے مبلغ ہیں، ان کی نسبتیں علی سے ہوتی ہوئی مہر علی سے گذر کر یہاں تک پہنچی ہیں ۔ تدبر، فراست رواداری ن کا ہی نہیں ان کے متعلقین کا بھی زاد راہ ہے۔ اور قبلہ عالم حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے کنگروں کو اس قدر بلند فرما گئے ہیں کہ مسلکی بغض وعناد کا مارا لکھاری کیسی بھی سنگ باری کی کوشش کر لے ، اس کے سنگ کا علم و حکمت اور فیضان نبی ﷺ کے بلند کنگروں تک رسائی پانا ممکن ہی نہیں ہے۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ آسمان کی طرف منہ کر کے تھوکتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان کے عمل پر غصہ کیا جائے۔ یہ صاحب ْ افغانستان کے ملا عمرْ اور ْ کفر کو بر سر عام برہنہ کرنے والا حق نواز جھنگھو ی ْ کو اپنا مسلکی سرمایہ جانتے ہیں، ہمیں کیا اعتراض ہے ، البتہ شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کاندہلوی کے بارے ، جو امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے ، مدعی کا دعویٰ حقائق کے بر 
خلاف  ہے ۔کہ انھوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب فضائل اعمال  میں فضائل صحابہ کے صفحہ 
142
 پر اللہ کا فرمان نقل فریایا ہے ْ جو میرے کسی ولی کو ستائے اس کو میری طرف سے لڑائی کا اعلان ہےْ اور ان کی اسی کتاب کے اصل نسخہ میں وہ عبارت حذف کر دینا جو نبی اکرم کی شان میں انھوں نے اپنے ایمان کا حصہ بتائی ہیں اور یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ان ہی کے ْ ہاںْ سے پرنٹ شدہ ہے ورنہ تبلیغی جماعت والے تو عکسی ایڈیشن ہی استعمال کرتے ہیں۔ شیخ الحدیث محمد ذکریا کاندھلوی ، جن کو اس گئے گذرے دور میں جنت البقیع میں دفن ہونے کا شرف حاصل ہے,  کی تما م تصانیف کی ایڈٹنگ کر لیں اس کے بعد ہی آپ ان کو حق نواز جھنگوی کا ہم مسلک بتاہئے گا۔ 
مولانا اشرف علی تھانوی کو اہل تصوف کا دشمن بنا کر پیش کرنے والے ان کی مثنوی روم کی شرع میں لکھی درجن سے زیادہ جلدوں کو کہاں چھپائیں گے اور حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کی ذات پر یاوہ گوئی پر اتنا ہی عرض ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی کوشش میں بعض اوقات بے وقوف گر کر اپنی ریڑھ کی ہڈی ہی کا نقصان کر بیٹھتا ہے۔
عرض ہے ہم نے ستر سالوں میں سوائے تنقید کے کچھ نہ کیا کہ یہ کام سہل ترین ہے اور رنگ بھی چوکھا لاتا ہے ۔ اب بطور تجربہ ہی سہی ، تنقید کو چھوڑ کر تعمیر کی بات کریں۔ اہل حدیث کافر، ادیوبندیوں کے
22
  فرقے کافر، بریلویوں کے
4
  فرقے کافر،

 شیعوں کے 
21
 فرقے کافر۔   اور یہ معرکہ تنقیدی ذہن کے مولویوں ہی کا مارا ہوا ہے۔

ہم میں ایک مسلمان,  نام اان کا اشفاق احمد تھا انھوں نے بجا فرمایا تھا کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں یہ غیر مسلم ہی ہیں جو سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ 
کبھی سر سے تنقیدی ٹوپی اتار کر، مسلکی دھاری داررومال سے منہ صاف کر کے ، اس بات پر غور کی جیے گا کہ لفظ مولوی جو استا د کا ہم معنی تھا ۔ معاشرے میں گالی کیوں بن گیا۔ امام مسجد ، جو ہمارے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا ، اس کے لیے دو رکعت کے امام کی اصطلاح کسی کالجیٹ بابو نے ایجاد نہیں کی ہے۔ اور اب مولوی کو مولبی بنانے میں بھی کسی لبرل نے حصہ نہیں ڈالا ہے۔
اس حقیقت کو کون جھٹلائے گا کہ دنیا کی محرومی اور علم نافع کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور رہے گا۔ آپ کو رہنے کے لیے اٹیچڈ باتھ والا بیڈ روم چاہیں ، ڈرائنگ روم قالینوں اور فانوسوں سے آاراستہ ہو ، علم برائے فروخت کا کتبہ سیائیڈ ٹیبل پر سجا ہو، گاڑی ائر کنڈیشنڈ ہو ، عباء و جبہ لشکارے مارے اور منہ جب بھی کھلے آگ برسائے۔ اور توقع یہ ہو کہ آپ کو سب سے بڑا مسلمان سمجھا جائے کہ آپ کے پاس جنگجو لوگوں کا جتھہ ہے جو کلاشنکوف کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اور طاقت سے اسلام کا اپنا ورژن صیح ثابت کرنے کے لئے انسانی لاشے گرا کر کامیابی کا جشن مناتا ہے ۔ ہر کمزور آپ کو منافق اور محمد ﷺ کا نام لیوا آپ کو بدعتی نظر آتا ہے۔ 
آپ کو ْ گمراہْ اور ْ جاہل ْ لوگوں کے دھرنے میں ناچ اور گانا ہی نظر آیا ۔ جان کی امان ہو تو پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے جشمے کا نمبر کیا ہے۔
آپ نے یہ شعر بھی جڑ دیا ہے
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

بھائی ہم امن پسند مسلمان اور پاکستانی ہیں ، مسلمانوں کے سب فرقے ہی نہیں غیر مسلم بھی ہمارے لئے محترم ہیں، ہمیں اپنے رحمت العالمین بنی ﷺ کی تعلیمات عزیز ہیں۔ ہم اول و آخر مصطفوی ہیں اور اس پر ہم شرمندہ نہیں ہیں ، ہمیں خنجر اٹھانے کی ضرورت ہے نہ تلوار ، ہمار ا ایک مقصد حیات ہے اور وہ کتاب میں درج ہے جو محفوظ ہے اور اس کا محافظ رب محمد ﷺ خود ہے ۔
آخر میں ایک واقعہ :
یہ
1984
کی بات ہے ، میں حکومت کویت کا ملازم تھا ۔ بغداد شریف سے درگاہ غوث پاک کے سجادہ نشین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ، محفل میں عرب بھی شامل تھے ۔ ایک عمر رسیدہ شخص نے دوران گفتگو کہا ْ کوئی شخص آپ کے پر دادا کی بے ادبی کرے تویہ شدید تر ہے اس سے کہ کوئی آپ کے والدکی بے ادبی کرے ۔ مگر بسبب زمانی طور پر قریب تر ہونے کے ، آپ والد کی بے ادبی پر زیادہ رد عمل کا اظہار کریں گے ْ

ہمارے پیر اور مرشد ہمارے استاد ہوتے ہیں، ہم استادوں کی جوتیاں سیدہی کر کے ان سے علم پاتے ہیں اور ادب سیکھتے ہیں۔ ان کا رتبہ والد ہی کی طرح کا ہوتا ہے اور والد زمانی طور پر پڑدادا سے قریب تر ہوتا ہے۔ 

جمعہ، 21 اگست، 2020

بلوچستان کا سہروردی



نئے پاکستان میں سیاست دان چور اور لٹیرے بتائے جاتے ہیں اور آمروں کے دور کی خوشحالی کو یاد کر کے سرد آہ بھری جاتی ہے۔پرانے پاکستان میں کالا باغ ڈیم اورنظام مصطفی پر سیاست کی جاتی تھی تو نئے پاکستان میں انفراسٹرکچرکی تعمیر اور ذرائع آمد و رفت کی سہولیات  میں عوام کوشامل کرنے کے عمل پر چار حرف بھیجنے کی سیاست عام ہے۔ پہلے MRD   اور  ARD  بنائی جاتی تھیں اب  JIT  کا دور ہے۔  پرانے پاکستان میں سچ اشاروں کنایوں میں بولا جاتا تھا۔ اب جھوٹ ٹی وی کی سکرینوں پر دہڑلے سے بولا جاتا ہے۔ اس نئے پاکستان میں ایوان بالا کے سابق چیرمین جناب رضا ربانی نے میر حاصل بزنجو کی رحلت پر کہا ہے کہ    ان جیسا ایمان دار سیاست دان پورے پاکستان میں نہیں ہو گا    یہ منفرد قسم کا خراج تحسین ہے ۔ 

  میر حاصل بزنجو   ضیاء اور مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے۔ گرفتاریوں نے ان کا سیاسی قد اونچا کیا تو جیل نے متحمل مزاج مدبر بنانے میں کردار ادا کیا۔الیکٹڈ اور سیلیکٹڈ کی بحث میں الجھے اس معاشرے میں وہ جو دہیمے لہجے میں گہری بات کرنے کے ہنر سے آشنا تھے انھوں نے ایوان بالا میں تاریخی الفاظ کہے تھے 

               یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری طاقتیں پارلیمان سے زیادہ طاقتور ہیں   ۔

جامعہ کراچی سے تعلیم یافتہ  میر حاصل کے والد جناب غوث بخش بزنجو بلوچستان کے پہلے غیر فوجی گورنر اور آئین ساز کمیٹی کے رکن تھے تو ان کے دادا ریاست قلات کی سیاست کے روح رواں تھے ان کا عہدہ گورنر کے عہدے کے ہم پلہ تھا۔

میر حاصل بزنجو  زیادہ صوبائی اور علاقائی خود مختاری کے حامی تھے۔ جناب عمران خان بھی اقتدار حاصل ہونے سے پہلے ایسی ہی خود مختاری کے علمبردار تھے اور پولیس تک کو میونسپل کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔جناب حاصل بزنجو مسلح مزاحمت کے مخالف اور سیاسی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے ان کی رحلت پر  بجا طور پر کہا کہ    دستور، پارلیمان اور جمہوریت کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں   ۔دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار ایوان بالا کے ممبر منتخب ہونے والے میر حاصل بزنجو نے چیرمین کے انتخاب کے بعد کہا تھا    آج مجھے پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے    ان کی موت کے بعد کاش یہ شرم جمہوریت مخالف جتھوں کو آنا شروع ہو جو ملکی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج کا پیدا کرنے کا سبب ہیں۔

ان کے والد کی وسیع لاہبریری میں کارل مارکس اور لینن کی کتابوں کو دیکھ کر انھیں مارکس اور لینن کا پیروکار بتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عملی سیاست میں ان کو پیپلز پار ٹی کے قریب لانے میں کسی کتاب کا نہیں مگر  شہید بی بی کا کردار تھا۔ بی بی کی شہادت کے بعد اس کردار کو جناب آصف علی زرداری نے نبھایا حقیقت مگر یہ ہے کہ نواز شریف کے مقناطیسی مزاج نے اس جمہوریت پسند کو اپنی طرف راغب کر لیا تھا۔ وہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے کے باوجود نواز شریف کے سیاسی اتحادی تھے۔

 وہ پسماندہ طبقوں اور بے انصافی سے کچلے گئے عوام کی توانا آواز تھے۔ عدالت سے بالا بالا نظریاتی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے وہ  ناقد، معلوم اور نا معلوم کے نام پر لوگوں کے پیاروں کو اپنوں سے جدا کر دینے کے مخالف اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظلومین کو طاقت سے کچلنے پر چپ نہ رہ سکنے والے انسان تھے۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ان کی سرشت میں تھا اور ظالموں کو گلہ تھا کہ وہ سردار ہو کر لکیر کے دوسری طرف کیوں کھڑے ہیں۔   میر حاصل بزنجو بلوچستان کے    حسین شہید سہروردی    تھے۔  جون ایلیاء نے شائد ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ

                                        جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں  


بدھ، 5 اگست، 2020

ان پڑھ جاہل



ہم یقین رکھتے ہیں کہ علم کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے۔  اس فانی زمین پر علم جس شہر میں اتارا گیا۔ اس کے اکلوتے دروازے 
پر کنندہ ہے کہ ظلم  تو برداشت کر لیا جاتا ہے مگر بے انصافی تباہی لاتی ہے۔  اس جملے کو یوں ہی کہا جا سکتا ہے کہ میرٹ کے بغیر شہر کھوکھلے ہو جایا کرتے ہیں۔ کھوکھلا درخت ہو کہ معاشرہ تیز ہواوں کے سامنے سر نگوں ہو جاتا ہے۔ 
حکومت کے  لیے دولت و قوت بنیادی عوامل ہوتے ہیں اور 1947 میں جب پاکستان بن رہا تھا۔ تاج برطانیہ کے پاس دولت کی کمی تھی نہ قوت کی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد وہ فاتح قوم تھی۔ مگر ہندوستان میں اس کی اخلاقی برتری محض اس لیے ختم ہو چکی تھی وہ کچھ طبقات کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام تھی۔ 
بہادر شاہ ظفر کو اگر دو گز زمین نہ ملی تو اس کا سبب انگریزوں کے ساتھ اس کے اپنے بھی تھے جن کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تھا۔ ترکی کے سلیمان دی گریٹ جس کی حکومت  بیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی کے وارثین جب دستبرداری کے معاہدے پر عمل کر رہے تھے تو ان کے اپنے وزیر و مشیر ان کے ساتھ نہ تھے۔اور ان کو بے انصافی نے دشمنوں کی گود میں جا بٹھایا تھا۔ یہ ماضی کی نہیں حال کی تاریخ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہم خود ستائی کے دور گذر رہے ہیں۔ ہر زبان غدار وطن اور ہر لفظ کافر دین  قرار پاتا ہے۔  دشنام طرازی سے بڑھ کر بات اغواء  باالجبر اور گولی سے بھی آگے جا چکی ہے۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ نظریات پر روٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کا جواب تھا روٹی کا بندوبست کرو نظریہ قبول ہو جائے گا۔ ایک سیاسی اجتماع کے دوران ایک صاحب نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں مقدس کتاب پکڑ کر لوگوں کو روٹی پر کتاب کو ترجیح دینے کی نصیحت کی تھی ووٹ مگر روٹی کو ملے تھے۔ انسان  کی بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے اسی لیے  سب سے بڑی نیکی لوگوں کو کھلانا ہے تو سب سے بڑی بے انصافی خدا کے کنبے کو بھوکا رکھنا ہے۔ 
 ہم اسلام کے جس قلعے کے باسی ہیں اس کی دیواریں ضخیم اور بلند ہیں۔ اس قلعے کے اندر بعض چھتیں عام چھتوں سے چالیس گناہ زیادہ مضبوط ہیں۔ اس کی منڈیر کے کنگروں پر ایٹمی ابابیل اس قلعے کی حفاظت کرتی ہیں تو ایٹمی چھتری اس قلعے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔  مگر اس قلعے کے باہر ہمارے کہے کا اثر نہیں ہوتا۔ ہماری دہمکیاں ہوا بھرے غبارے ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طاقت ہمارا بوجھ بن جاتی ہے۔ ہمارا نظریاتی ٖ فخرخاک راہ ثابت ہوتا ہے۔ہمارے ہمدرد بے سروپا کر دیے جاتے ہیں۔  اس قلعے کے اندر ہماری محنتیں بے ثمر رہ جاتی ہیں۔ ہماری قابلیت اور ہنر بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے فتوے نا قابل عمل بن جاتے  ہیں۔ امید وہ سہارا ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر انسان زندگی بسر کر لیتا ہے مگر مایوسی کے لشکر اس مضبوط قلعے کے خفیہ راستوں سے مانوس ہو چکے ہیں۔
ملکوں میں سویت یونین اور شخصیات میں حسین شہید سہروردی، دونوں ہی داستان بن چکے مگر ہم داستانوں سے کیا سبق سیکھیں گے۔ 
آج کل پاکستان میں ارطغرل کے کارناموں پر عوام کو ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ دنیا پر 600 سال تک حکمرانی کرنے والے اس گروہ کے بارے میں کتابوں میں درج ہے وہ یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم دلوایا کرتے تھے۔پاکستان میں میٹرک تک مفت تعلیم مہیا کرنا آئینی تقاضا ہے مگر عملی طور پر     آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے    جس کا مقام   ردی کی ٹوکری    ہے ۔  اور بیانیہ یہ ہے کہ قوم ان پڑھ اور جاہل ہے۔

اتوار، 2 اگست، 2020

چاند اور ستارے


دوسرے نے پہلے کو بد دعائیں دیں۔  پہلے نے تحمل سے سنا اور جواب دیا 

  اگر روز جزا  میزان کا  پلڑا میرے گناہوں سے جھک گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے، میں اس سے بھی بد تر ہوں اور اگر گناہوں کا پلڑا  ہلکاہو کر اوپر اٹھ گیا  تو جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہے 
 
اس جملے کے پیچھے تقوی ٰ کا پہاڑ ہی نہیں علم کا گہرا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ایسا جواب کسی دوسرے نے نہیں بلکہ اس پہلے نے دیا تھا۔ جسے سابقین میں پہلا  خودعالمین کے صادق اور اللہ کے آخری نبی  ﷺ  نے بتایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل ؓ  نے اپنی وفات سے قبل کہا تھا    علم کو ان کے پاس تلاش کرنا    ۔
ان کو خود اللہ کے رسول  ﷺ  نے 300 کھجور کے درختوں اور 600  چاندی کے درہموں کے عوض عثمان بن العشال سے خرید ا ۔آزادی کا پروانہ  حضرت علی بن ابو ظالب نے لکھا اور نام  سلمان  خود رسول اللہ ﷺ  نے رکھا ۔ ان کو اپنے نام سلمان پر فخر تھا  مگر جب بات دین کی آئی تو کہا میرا نام اسلام ہے ۔ صاحب تاریخ مشائخ نقشبند نے لکھا ہے کہ کسی نے سلمان فارسی سے پوچھا تھا    آپ کا نسب کیا ہے   تو انھوں نے جواب دیا تھا    اسلام     اور کہا کہ جب ہمارا دین  اسلام ہے تو ہمارا سب کچھ اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں  باپ، بہن بھائی سے زیادہ عزیز ہے 
 
سلمان فارس میں خوشفودان نامی زرتشت کے گھر پیدا ہوئے تو ان کا نام مابہ رکھا گیا۔ اور سولہ سال کی عمر تک انھیں آتش پرستی کی تعلیم دے کر ایک معبد کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ علم کی تاثیر ہے کہ وہ اپنے طالب کے اندر مزید علم کے حصول کی آتش کو بھڑکاتا ہے۔اس آتش پرست نوجوان کی آتش بھڑکی تو اس نے شام کا ارادہ کیا۔ خاندان کے لاڈلے بیٹے کو گھر والوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکے۔ اور شام میں عیسائی راہبوں کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔ علم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے طالب پر حقیقت آشکار کرتی ہے۔ شام میں ہی انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ اصل کامیابی  کا علم اس نبی کے پاس ہو گا جن کے سارے ہی صاحبان علم منتظر تھے۔ انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی آمد یثرب میں ہوگی۔ ان نبی آخر الزمان کی پہچان کی نشانیاں بھی انھوں نے ازبر کر لیں تو یثرب کے ارادے سے بنو کلب کے کاروان کے ساتھ ہو لیے۔ وقت نے انھیں بنو قریظہ کے عثمان بن العشال کا غلام بنا دیا۔ 
خندق کی کھدائی کا مشورہ دینے والے اس ساسانی پردیسی کہ اہمیت اس وقت کھلی جب مہاجرین نے کہا سلمان ہم میں سے ہے  مگر انصار کا صرار تھا  سلمان ہم سے ہے ۔ بات اللہ کے رسول  ﷺ  تک پہنچی تو فرمایا۔     سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے   یہ ایسا شرف تھا جو صرف  حضرت  سلمان ؓ  کے حصے میں آیا ۔
صحابہ کرام ہمارے قمر نبوت کے نجوم ہیں۔ بات ستاروں کی ہو مگر استعاروں میں ہو تو علم فلکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہر ہر ستارے کی اپنی وسعت ہے۔ آسمان پر اورین بلٹ  میں تین ستارے چمکتے ہیں  
.  النقاط1
.  النیلم
  المنظقہ
یہ تینوں ستاروں کی دنیا دوسرے آسمانی ستاروں سے مختلف ہے۔ ان کی چمک کا انداز ایسا روشن ہے کہ رات کے وقت آسمان کی وسعتوں میں ان کی نشان دہی مشکل نہیں ہوتی۔ روشنی، روشنی ہی ہوتی ہے مگر روشنیوں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ قمر نبوت کے نجوم میں تین نام دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان ناموں میں:
۔  سلمان فارسی
۔ صہیب رومی 
۔  بلال حبشی ۔ شامل ہیں 
اللہ کے رسول نے ایک دفعہ چار ناموں کا ایک چارٹ بنایا تو اپنے نام کے ساتھ ان تین پردیسیوں کے نام شامل کیے۔ رسول اللہ کے دنیا سے وصال کے بعدیہ   مہاجرین   مسلمانوں کے قلوب میں  ایسے    انصار   بن کے رہے کہ  حضرت بلال کو مسلمانوں کے خلیفہ    یا سیدی    سے مخاطب ہوتے تھے  تو حضرت سلمان کو مدائن کی فرمان روائی پیش کی جاتی تھی ۔  
اصحاب رسول  ﷺ  ایسے لوگ تھے جن کے دلوں میں اللہ تعالی ٰ  نے ایمان ثبت کر دیا تھا  (المجادلہ؛؛۲۲) البتہ مسلمانوں پر دین کا یہ قرض باقی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کے فرمان کی روشنی میں قمرو  نجوم کے استعاروں کو کھولیں تاکہ تشنگان علم  کے قلوب میں ایمان کی رسوخیت کی کونپلیں کھل کر پھول بن جائیں۔ 

جمعرات، 30 جولائی، 2020

گولڑے والے پیر



جون   22، 1974 کو جب حضرت بابو جی نے دنیا سے پردہ فرمایا تھا تو ہم یہ سوچ کر گریہ کناں تھے کہ اب تشنہ قلوب کو 
ضیائے نور کہان سے حاصل ہو گا مگر جب چھوٹے لالہ جی حضرت پیر شاہ عبدلحق بن غلام محی الدین بن مہر علی شاہ بن سید نذرالدین بن سید غلام شاہ بن روشن دین  نے اپنے دست مبارک سے ہمارا ہاتھ تھاما تو ادراک ہوا کہ ہدائت کے طلبگاروں کے لیے نور ہدائت ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اپنے والد گرامی سے بڑھ کر ہمارے دلوں میں احترام پانے والے ہمارے رفیق راہ، پیر، مرشداور نفس کو قابو رکھنے کے ہنر سے آشنا کرنے والے ہمارے اتالیق نے ہماری ترببیت الفاظ کے انبار سے نہیں کی مگر عمل کرنے کی تحریک سے دل روشناس کرایا تھا۔ یہ تحریک ایسی قوی ہوئی کہ اس کے مقابل جسم بھی تسلیم خم ہو گیا۔ دوران گفتگو چھوٹے چھوٹے جملے ایسی ایسی گرہیں کھولتے جو ضخیم کتب کے مطالعہ سے بھی نہ کھل پاتی تھیں۔ 
لالہ جی کی بیٹھک کے دروازے کے سامنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر یہ شکستہ تحریر لکھ رہا ہوں تو سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا ہوا کرتا تھا۔ آج وہ بند مٹھی کھل گئی ہے جس میں برسوں کا صبر پوشیدہ تھا۔وہ سہارا ٹوٹ گیا ہے جسے شیشے کی کھڑکی سے دیکھ کر دل مطمن ہو جایا کرتا تھا۔ وہ لمبا کپڑا اج لپیٹ دیا گیا ہے جس کے ایک سرے پر ہاتھ کر کر درد مند اپنے مرشد کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا کرتے تھے۔ دربار گولڑہ کے رازوں کا امین میرا  مغفور بھائی حاجی سلطان محمود جنجوعہ کے ادا کیے ہوئے کلمات رہ رہ کر یاد آتے ہیں کہ لالہ جی روحانیت سے لبریز ہو چکے ہیں۔ دل چاہتا ہے چیخ کر لوگوں کو بتاوں کہ اج روحانیت کا وہ جام چھلک گیا ہے۔  
میرے والد گرامی مٖغفور حاجی محمد افسر جنجوعہ راہیا اس بات کاذکر کیا کرتے تھے کہ انھوں نے قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ کو دیکھا  تو تھامگر دست بیعت حضرت بابو جی کے ہاتھ میں دیاتھا ۔ وقت کا چرخہ گھوم کر اس مقام پر آ رکا ہے کہ ہم نے حضرت بابو جی کا دیدار تو کیا مگر ہمارا ہاتھ سرکار لالہ جی نے تھاماتھا۔
فراق ایسا غم نہیں ہے جو بھول پائے مگر ہمیں بتا دیا گیا تھاسدا رہنے والی ذات صرف احد و صمد کی ہے۔مادیت سب فانی ہے روحانیت اور علم مگر زندہ و جاوید ہے۔ہماری بلند درگاہ گولڑہ شریف کو رب محمد  ﷺ  سدا مینار نور کے طور پر سلامت رکھے۔یہ تقلید کا ایساقلعہ ہے جس میں مقلد پناہ گزیں ہو کر نفس و شیطان سے امان پاتا ہے۔


اتوار، 12 جولائی، 2020

چار عناصر





اقبال نے مسلمان کے بارے میں کہا تھا
قہاری و غفاری وقدوسی وجبروت
یہ چارعناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
 ہمارے ایک دوست نے  اپنے کالم میں قوم بننے کے لیے بھی چار عناصر ہی گنوائے ہیں
سرمایہ و اختیار و علم و محبت
بے شک سرمایہ اور اختیار پر حکومتوں کا حق ہوا کرتا ہے مگر علم و محبت عوام کی میراث ہوتی ہے ۔ مسائل ان ہی معاشروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں اپنی اجارہ داریوں کے حصول کے بعد عوام کی میراث پر بھی قبضہ کر لیا جائے ۔  
گلے میں گلہ بان کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے مگر اس ڈنڈے  کا اولین مقصد بکریوں کی حفاظت ہوتا ہے ۔ بکریاں نہیتی ہی ہوا کرتی ہیں مگر جب بھیڑیا آ جائے تو بزدار کے ڈنڈے کی طرف دیکھتی ہیں ۔ ہماری حکایات میں ایک ایسے بزدار کا تذکرہ ملتا ہے جو اس قدر صاحب علم تھا کہ زمین پر لکڑی سے لکیریں کھینچ کر مخاطب کا محل وقوع بتا دیا کرتا تھا۔ مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ علم عوام کا فخر اور انسان سے محبت اس کا مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔ موجودہ دور میں سرمایہ اور اختیار پر سرکار کا اجارہ ہی نہیں بلکہ مزید اختیار کی ہوس بھی پوشیدہ نہین ہے۔ گذرے زمانے میں علم برائے خود شناسی حاصل کیا جاتا تھا تو اج علم کا مقصد کم از کم ہمارے ہاں کچھ اور ہی ہے ۔
گیے وقتوں میں علم و محبت کے حصول میں صاحب سرمایہ و اختتیار حکومتیں عوام کی علم کے حصول میں عوام کی سرپرست ہوا کرتی تھیں ۔ آج حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔
حکمران اور رہنما میں فرق ہوتا ہے ۔ کسی ملک کا بادشاہ حکمران ہے تو کسی ملک کی وزیر اعظم رہنما ہے ۔ دونوں معاشروں کی سوچ رات اور دن کی طرح عیاں ہے ۔ اس فرق کو علمی تفریق کے سوا دوسرا نام دیا ہی نہیں جا سکتا ۔
مرحوم طارق عزیز (نیلام گھر والے ) نے اپنے ترکے میں ایک پنجابی کی کتاب بصورت شاعری چھوڑی ہے اس میں ایک شعر ہے
مڈھ قدیم توں دنیا اندر دو قبیلے آئے نیں
اک جنہاں زہر نی پیتے اک جنہاں زہر پلائے نیں

 مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں روز اول سے دو طبقات ہیں ایک جو زہر کا پیالہ پیتا ہے اور دوسرا جو پلاتا ہے ۔ علم انسان کوان دونوں طبقات کے اذہان کو منور کر کے عمل کی قابل عمل راہ دکھاتا ہے ۔
رہنماوں کے سرمایہ جمع کرنے اور اختیارات کی خواہش پوری کرنے میں تعلیم حائل نہیں ہوا کرتی ۔ بہت سارے ممالک اس رواں دواں کرہ ارض پر موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کو عام کیا اور امن و آشتی سے جی رہے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو علم کو پابند سلاسل کر کے خود بھی قلعوں میں بند ہیں اور ان کی عوام بھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔

دنیا میں ایسی قومیں موجود ہیں جو تباہ ہو کر وسائل کی کمی کا شکار ہو گئیں مگر انھوں نے امید کے بل بوتے پر خود کو دوبارہ قوموں کی برادری میں سر خرو کر لیا ۔ امید پر یقین علم ہی پیدا کرتا ہے ۔
علم پر بنیادی طور پر خالق کائنات کی اجارہ داری ہے ، اس نے ابن آدم پر احسان کیا اور اپنے ذاتی علم سے اسے عطا کیا ۔ ہم نے اس نعمت کے ساتھ بے انصافی یہ کی کہ انفرادی منفعت و ہوس کے بل بوتے پر کچھ علوم کو غیر نافع کا نام دیا اور اسے ایک بوری میں ڈالتے گئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بوری اس قدر ثقیل ہو چکی ہے کہ اس کو اپنی جگہ سے سرکانا افراد کے بس سے باہر ہو چکا ہے ۔ مزید ظلم یہ کہ ہم نے اس بوری کا منہ اب بھی بند نہیں کیا ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی والوں نے ابلاغیات کا علم نہیں بلکہ گوبلز کے اعمال بوری میں ڈالے تھے ۔
انسان کا عقلی ادراک کچھ بیانیوں کے تسلیم کرنے میں مزاحم ہوتا ہے ۔ جس دور میں زمین ساکت مانی جاتی تھی ، اس دورمیں بھی عقل اس بیانیے پر مطمئن نہیں تھی ۔ اگر اج ہم کچھ بیانیوں سے مطمن نہیں ہیں تو لازمی طور پر ان بیانیوں میں کہیں نہ کہیں سقم ہے ۔ گلوبل ویلج میں اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ کون سا بیانیہ اور عمل بوری کا مستحق ہے ۔ آج کے دور میں اسی استحقاق کے بیان کرنے  پر زہر پیے اور پلائے جا رہے ہیں ۔
محبت ایسا پھول ہے جو انصاف کی زمین پر اگتا ہے ہمارے ہان تو ابھی زمین ہی ہموار نہیں ہے ۔ ہم دوسروے ملکوں میں مظلوموں کو انصاف ملتا دیکھ کر خوش ضرور ہوتے ہیں ۔ مگر اپنے ہان عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے بھی بنا رکھے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ پھول اگلنے والی ہموار زمین کو لگا تار نا ہیموار کرتے رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اختیارات کسی عمارت میں قید ہیں ۔ معیشت صاحبان پنجہ کی مٹھی میں بند ہے ۔ تعلیم کے لیے ہمارے پاس بچا ہی کچھ نہیں ہے اور محبت لوک داستانوں یا فقیروں کے آستانوں تک محدود ہے ۔
عوام  کو صبر کی تلقین کتاب سے پڑھ کر سنائی جاتی ہے  اور سکون قبر میں بتایا جاتا ہے ۔
 اقبال نے سچ ہی کہا تھا ۔ 
تحقیق میرے دوست  کی بھی برحق ہے
ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو بھی برحق بتاتے ہیں
بہتر سالوں سے مگر کر وہ رہے ہیں جو ہمارا دل کرتا ہے






منگل، 7 جولائی، 2020

شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے


برطانیہ کے ایک باسی کم  اے ویگنر کی2017 میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی  جس کا عنوان تھا  عالم بیگ کی کھوپڑی۔ کتاب کے مطابق  1857 کے غدر میں 7 یورپین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، اتر پردیش  (انڈیا)  کا  باسی حوالدار عالم بیگ جس کو بطور سزا بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، کی کھوپڑی اس کے پاس ہے۔ مصنف نے کتاب میں خواہش کی تھی کہ یہ کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کے لواحقین تک پہنچ جائے اور اسے اپنے وطن میں احترام کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔
فوجی تنازعوں میں جان قربان کرنے والے لوگ ایک طبقے کے مجرم ہوتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے ہیرو ہوتے ہیں۔ 
فرانس کے شہر پیرس کے ایک عجائب گھر میں 24 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں جو فرانس کے بقول اس کے باغی تھے۔ مگر الجزائریوں کے نزدیک وہ محترم اور جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ طویل عرصے سے الجزائری اپنے ہیرو کی باقیات کی واپسی کے لیے فرانس سے بات چیت کر رہے تھے۔ جولائی 2020 کی صبح ایک طیارہ فرانس سے ان چوبیس ہیروز کی کھوپڑیاں لے کر الجزائر کی حدود میں داخل ہوا تو طیارے کو جنگی جہازوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ الجزائر کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں میں بند ان باقیات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ فوجی دستے  نے اعزازی سلامی دی اور ملک کے صدر نے ان تابوتوں کے سامنے اپنا سر نگوں کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اور سرکاری طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جنگ آزادی کے ہیرو اپنی سر زمین پر لوٹ آئے ہیں۔
 امریکہ نے  1846  میں میکسیکو پر حملہ کیا اور آدہے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔  ایروزونا، کیلی فورنیا، نیواڈا،اوٹا ، ویومنگ اور نیو میکسیکو کے نام سے ان علاقوں کو امریکہ میں شامل کر لیا۔اس جنگ میں امریکہ کے جو فوجی میکسیکو میں مارے گئے تھے ان کی باقیات  امریکہ نے 170  سال بعد واپس حاصل کر لیں کہ  اپنی سرزمین پر لوٹ آنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
جرمنی اپنے نوآبادیاتی دور  (1884 ۔  1919) میں نمبیا سے  بیس انسانی کھوپڑیاں سائنسی تجربات کے لیے برلن لایا۔ مگر  2011 میں وہ  بنیادی انسانی حق کی بنیاد پر ان کھوپڑیوں کو  اپنی سرزمین پر لوٹانے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے چوبیس جون 2006 میں اپنے ایک غدار اور بنگلہ دیش کے ہیرو پائلٹ مطیع الرحمان جو  بیس اگست  1971 کو پاکستان ائر فورس کا جہاز اغوا کر کے بھارت لے جانے میں ناکام ہوا تھا کی باقیات کراچی کے مسرور ائر بیس کے قبرستان سے نکال کر بنگلہ دیش کے حوالے کی تھی۔ تو بھی وجہ بنیادی انسانی حق ہی بنی تھی۔
بنگالیوں نے اپنے ہیرو کی باقیات کو ڈہاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا اور اپنے ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پیش کیا۔ اور ہر سال اس کے نام کی ٹرافی اپنے بہترین کیڈٹ کو پیش کرتا ہے۔
پاکستان کا مایہ ناز فوجی میجرمحمد اکرم  (1938۔ 1971) جنھوں نے مشرقی پاکستان میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر اپنی جان نچھاور کی تھی اور پاکستان نے انھیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔ ان کا تعلق جہلم کے علاقے ڈنگہ سے تھا۔ جہلم شہر کے وسط میں ان کی یادگار بھی ہے مگر وہ خود بنگلہ دیش کے علاقے راجشاہی کے ایک گاوں بولدار میں دفن ہیں۔
جب جنرل مشرف بطور صدر مملکت بنگالی پائلٹ مطیع الرحمان کی باقیات بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا اور پاکستان میں میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کی واپسی کی آواز یں اٹھیں تھی مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم اپنے سویلین ہی نہیں فوجی ہیروز کو بھی بھول جاتے ہیں۔
نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو
(شہید جاتے ہیں جنت کو گھر کو نہیں آتے   (صابر ظفر

اتوار، 21 جون، 2020

آدمی ہر دل عزیز تھا


  
عبد العزیزپاکستانی جب جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تو اس منٹگمری (سائیوال) کے کربلا روڈ پر اسے رہنے کے  کے لیے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ ہوا۔ بلوے کا دور تھا۔ طارق عزیز بن عبدالعزیز  نے غربت،  محرومی،  نا انصافی  اور انسان کے ہاتھوں انسانیت کو قتل ہوتے اپنی دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سنتے کان بھی رکھتا تھا اور  اس کے سینے میں انسان دوست دل بھی تھا ۔



   ایک دفعہ چندہ لینے کے لیے "اس" بازار میں گیا۔ایک طوائف نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ طارق نے بھرے بازار میں اس کے پاوں چوم لیے    طارق عزیز کے بارے میں یہ جملہ راجہ انور  (جو ذولفقار علی بھٹو کے مشیر تھے) نے اپنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن میں لکھا ہے۔ 

طارق عزیز جب سائیوال سے لاہور کے لیے چلا  تو اس کی منزل فلمی دنیا تھی۔اس نے ہوٹلوں میں میز صاف کیے،  گاڑیوں کو 
دہویا،  لاہور کی سڑکوں پر سویا مگر اس نے ہار نہیں مانی۔اس نے خواب بڑا دیکھا ہوا تھا۔ قانون فطرت ہے کہ بار بار کی ناکامی انسان کو کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔ طارق عزیز کو کامیابی کی راہ ریڈیو پاکستان لے گئی۔ ریڈیو پاکستان کی بغل میں جب صدر ایوب خان نے 1964 میں پی ٹی وی کا افتتاح کیاتو ٹی وی پر افتتاحی اعلان کرنے والا طارق عزیز تھا۔1975 میں پروڈیسر عارف رانا کے ساتھ مل کر ظارق عزیز نے نیلام گھر کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئیز شو       ابتداء  ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے    سے شروع ہوتا اور    پاکستان زندہ باد   کے الفاظ پر ختم ہوتا مگر جمعرات کے دن ایک گھنٹے کا نیلام گھر اس لحاظ سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس نے نوجوانوں میں علم سیکھنے  اور کتاب پڑہنے کی جوت ہی نہیں جگائی بلکہ اپنی اقدار و روایات سے بھی روشناس کرایا۔ طارق عزیز خود طالب علم، کتاب دوست،  صداکار، شاعر، کمپیئر ، ادب شناس ہونے کے ساتھ بڑا پاکستانی بھی تھا۔ اس نے نیلام گھر کے ناظرین میں وطن کی محبت جاگزیں کی۔
  
بچپن کی محرومیوں نے اسے ما وزے تنگ کی بائیں بازو کی ناو میں بٹھا دیا تھا۔ جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں ماو کی دی ہوئی ٹوپی لہرائی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو طارق عزیز نے اکثر پاکستانیوں کی طرح بھٹو کا ساتھ دیا۔ مگر 1989  تک پیپلز پارٹی کی ناو کے لیے راوی کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ اب قوم کا نجات دہندہ نواز شریف تھا۔ طارق عزیز نے قوم کا ساتھ دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جب میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع ہوا اور کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو طارق عزیز کی ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہو گئیں۔ یہ المیہ سب ہی پاکستانیوں کا ہے اور طارق عزیز  تو بڑا پاکستانی تھا۔دراصل  وہ ایک نظریاتی، اصول پرست،  عوام دوست اور ذہین انسان تھا۔اس نے کہاتھا۔
مڈھ  قدیم توں دنیا اندر  دو قبیلے آئے نے
اک جنھاں زہر نی پیتے  دوجے جنہاں زہر پیائے نے

طارق عزیز کے حاسد اسے سیکولر بتاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کہا کرتا تھا    خاک میں خاک ہونے سے پہلے اس خاک
 شفا  (قران)  کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لو۔ دنیا بھی خوش اگلا جہاں بھی خوش 

 اس نے انسانیت،  سالگرہ،  قسم اس وقت کی ، کٹاری ، چراغ کہاں روشی کہاں اور ہار گیا انسان جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا مگر اس کو کامیاب انسان  نیلام گھر  نے بنایا۔ طارق عزیز کا بات کرنے کا،  لبا س پہننے کا  اور کام کرنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ جو کام کرتا  اس پر طارق عزیز کی چھاپ لگ جاتی۔آج مختلف چینلز پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی نیلام گھر تک نہیں پہنچ پایا۔ نیلام گھر پر طارق عزیز کی چھاپ لگ چکی تھی۔

وہ لکھاری بھی تھا مگر اپنی ہی طرز کا۔ اس نے کالم بھی لکھے مگر دوسروں سے مختلف، اس کے کالموں کے مجموعے کانام  داستان  ہے۔  اس نے ہمزاد دا دکھ  کے نام سے پنجابی میں شاعری بھی کی مگر اپنے ہی انداز میں۔ 
طارق حسن پرست بھی تھا۔ اس کا کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ   پندرہویں صدی    اس کی حسن پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کراچی ہی میں اس نے  کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ سے شادی کر لی ۔ ایک بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔

اس کی موت پر انور شعور نے کہا تھا

وہ دیکھنے کی چیز دکھانے کی چیز تھا
طارق عزیز آدمی ہر دل عزیز تھا

ہفتہ، 30 مئی، 2020

درد لا دوا

1968
ءمیں ایوب خان نے ”ترقیاتی جشن“ پورے پاکستان میں منانے کا اعلان کردیا 


 عوامی لیگ کے طلباءتنظیم ”چھاترو لیگ“ نے احتجاجی تحریک شروع کررکھی تھی۔ عوام بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں شکر کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ جس کے نتیجہ میں لاہو اور گوجرانوالہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شدت اختیار کرتی جارہی تھی۔1969ء میں مشرقی پاکستان کا شمالی شہر ” پار بتی پور“ میں ایک سازش کے تحت ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کو توڑنے کے لئے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان تصادم کرا دیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی سنگین سیاسی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ایوب خان نے لاہور میں ”راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس“ کا انعقاد کیا اور شرکت کے لئے جیل سے مجیب الرحمن کو رہا کردیا۔ بھٹو نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ شیخ مجیب الرحمن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات ناکام رہے۔ ملک میں شدید سیاسی بحران آگیا جس کے نتیجہ میں جنرل ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار سے علیحدہ ہو کر جنرل آغا محمدیحیٰ خان کو سونپ دیا۔ جنرل یحی ٰ خان نے مارشلاءنافذ کردیا اور جلد الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔


شیخ مجیب الرحمن کے ”اعلان آزادی “ سے چند گھنٹہ قبل 25 اور 26 مارچ 1971ء کی رات کو پاکستانی افواج نے ملک دشمنوں کے خلاف ایکشن شروع کردیا ایک ایک انچ پر دوبارہ حکومتی رٹ قائم کرنے کےلئے پاکستان بچانے کےلئے پاکستانی فوج کی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے چپہ چپہ پر پھیل گئے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کےلئے اقدامات کرنے شروع کر دیئے۔ اگست 1971ءتک حالات معمول پر آنا شروع ہوئے۔ حکومت نے ”عام معافی“ کا اعلان کیا۔ مکتی باہنی، لال باہنی، راکھی باہنی اور دیگر نیم عسکری و عسکری اداروں کے افراد جنہوں نے پاک افواج سمیت دیگر محب وطن پاکستانیوں کا قتل عام کیا تھا۔ وہ تمام معافی کے ذریعہ ہندوستان سے واپس آکر مزید مستحکم ہونے لگے۔ دسمبر 1971ءکی جنگ پہلے ہفتہ میں ہی فضائی اڈے تباہ کر دیئے گئے۔ پہلے ہی سے تیار بھارتی فوج اندر آگئی تھی۔ پاکستانی فوج اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہو گئی تھی۔ پاکستانی افواج اور ان کے ساتھ محب وطن پاکستانیوں نے دفاع پاکستان میں گرانقدر قربانیاں دیتے ہوئے شہید کا رتبہ پا رہے تھے۔ فضائی برتری ختم ہونے سے ان کی حالت مخدوش سے مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔ ایڈمرل احسن کے بعد جنرل ٹکا خان اور پھر کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (اے اے کے نیازی) اور گورنر مشرقی پاکستان جناب مالک بنے لیکن بین الاقوامی سازش ہندوستان کی کارفرمانیاں ہمارے سیاسی اکابرین خصوصاً مغربی پاکستان کے زعمائے ملک اور سیاسی اکابرین اور حکمرانوں نے نوشتہ دیوار نہ پڑھ سکے اور 16 دسمبر 1971ءکو ڈھاکہ غروب ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا دنیا کے سامنے ہے۔ اَنا‘ ضد اور تکبر نے ہمیں بحرالکاہل میں ڈبو دیا۔ حب الوطنی کو ”جرم“ بنا کر پیش کیا گیا۔ محصور پاکستانی آج بھی بنگلہ دیش کے 66 کیمپوں میں قید و بند کی زندگی گذار رہے ہیں اور پاکستان آنے کی آس میں موت کو گلے لگا رہے ہیں۔

اتوار، 24 مئی، 2020

اچھوتی تقسیم‎



ارجنٹائن نے اپنی آزادی کی سالگرہ  کی تقریب کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم کو دعوت دی کہ وہ اس تقریب مین شرکت کے لیے اپنا سفارتی نمائندہ ارجنٹائن بھیجے جو اسپین سے ارجنٹائن کی آزادی کی  150 ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرے۔اسرائیلی سفارتی وفد  ایک خصوصی طیارے کے ذریعے بیونس آئرس کے ہوائی اڈے پر اترا۔ سفارتی وفد اپنی مصروفیات میں مشغول ہو گیا جبکہ طیارے کا عملہ شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور اس وقت لوٹا جب طیارے نے واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔ ہوائی اڈے کے عملے نے خوشدلی سے سفارتی وفد کو الوداع کہا۔
دو دنوں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا     اڈولف ایکمان، جو نازی جرمن رہنماوں کے ساتھ اس امر کے عمل درامد میں مصروف رہا تھا، جسے یہودیوں کا حتمی حل کہتے تھے    وزیر اعظم کا اشارہ یورپ میں مار دیے جانے والے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی طرف تھا جنھیں  نازی دور میں مار دیا گیا تھا ۔    اس کو اسرائیل کی سیکورٹی سروس نے ڈھونڈ نکالا ہے، وہ اسرائیل میں زیر حراست ہے اور جلد ہی اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاٗے گا  
ہوا یہ تھا کہ سفارتی وفد کے طیارے میں واپسی کے سفر میں اجنٹائن سے ایک فرد کو اغوا کر کے اسرائیل لایا گیا تھا۔ ارجنٹائین کی حکومت نے اسرائیل کے اس عمل پر احتجاج کیا اور اغوا کنندہ کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے رد کر دیا۔ ارجنٹائین یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی اور دونوں ملکوں کو یہ قضیہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہدائت کی۔ ایکمان پر اسرائیل مین مقدمہ چلا اور اسے سزائے  مو ت دے دی گئی۔
 اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ  بن گورین  نے ایکمان کے اغوا پر اعتراض کے جواب میں کہا تھا    جو رستہ اختیار کیا گیا وہ اخلاقی طور پر غلط تھا مگر پکڑے جانے والے کا جرم بہت بڑا تھا  
 دنیا نے اسرائیل کا ہاتھ پکڑا نہ اقوام متحدہ مذمتی بیان سے آگے بڑہی نہ ہی کسی انسانی حقوق کے ادارے نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ایکمان کو اسرائیلی ججوں سے انصاف نہیں مل پائے گا۔دنیا کی اس خاموشی کا سبب یہ تھاکہ اسرائیلی دنیا کو باور کرا چکے تھے کہ نازی جرمنی میں مارے جانے والے یہودی دنیا کے پر امن اور مظلوم ترین لوگ تھے اور نازی جرمن بنی نوع انسان کے بد ترین مجرم تھے۔
یہودیوں نے نظر آتے  کالے کوے   کو سفید ثابت کرنے کا فن اپنے دشمن نازیوں ہی سے سیکھا تھا۔1895 میں ایک  جرمن دانشور گشتاولی بون نے اپنی کتاب    دی لراڈڈ    مین اس امر پر بحث کی تھی کہ کسی معاشرے میں اگر رائے عامہ کو کنٹرول کرنا ہے تو منظم پروپیگنڈہ کے ہتھیار کو استعمال کرنا ہو گا۔ اڈولف ہٹلر کی پرپیگنڈہ ٹیم کے روح رواں جوزف گوئبلز نے لی بون کے اس قول کو سچا کر دکھایا۔ اس نے ریڈیو، اخبارات اور مختلف حربوں سے جرمنی میں ہٹلر کے  ذاتی تشخص کو اس حد تک ابھار ا اور مبالغہ آرائی کی کہ ہٹلر کو عبادت کے لائق ہستی کی سطح تک پہنچا دیا۔
یہ پروپیگنڈہ ہی ہے جو فلسطینیوں کو دہشت گرد اور ظالم مگر یہودیوں کو امن کی فاختہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ کشمیر کے نہتے نوجوانوں کے تازہ خون، معصوم بچوں کی چیخوں اور خواتین کے سر کی چادروں کے سرکائے جانے پر انسانیت کو خاموش رکھتا ہے۔یہ پروپیگنڈہ ہی تھا جس نے صدام حسین کو پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالنے پر مجبور کیا تھا۔ اس ظالم پروپیگنڈے کی مثالیں لیبیاء سے گوانتوناموبے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ احساس کے گھوڑے پر بیٹھ کر عقل کی آنکھوں سے دیکھیں تو آپ کو اللہ تعالی کی یہ زمین ایسا گلوبل ویلیج نظر آئے گی۔ جہاں بھکاری سے لے کر شکاری۔ سب نے ہی اپنا اپنا پروپیگنڈے کا بھونپو اٹھایا ہوا ہے۔  اس گلوبل ویلج کے سارے ہی باسی مگر دو پارٹیوں میں منقسم ہیں۔ ایک پرپیگنڈہ کرنے والی جبکہ دوسری اس پروپیگنڈے کا شکار ہونے والی پارٹی ہے۔

پیر، 18 مئی، 2020

ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا


پاکستان اور امریکہ میں وہی فرق ہے جو علامہ خادم حسین رضوی اور اور پاکستان کے مقتدرادارے میں ہے ، علامہ صاحب تاجدار ختم النبوت کا علم لے کر اٹھے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد میں دھرنا نمبر ایک  دیا عاشقان رسول ﷺ میں سے درجن بھر کا خون بہا ، ایک وفاقی وزیر کی قربانی منظور ہوئی ، الیکشن میں حصہ لیا اور اب ان کے پیروکار چھوٹے علاموں کا کردار اتنا رہ گیا تھا کہ وہ جمعہ کے اجتماع کے بعد دعا مانگتےتھے  ْ یاالہی، گستاخان رسول ﷺ پر ٓآپ کا قہر نازل ہو چکا مگر ابھی ان میں جان باقی ہے ، کربلاء کے شہیدوں کے صدقے ان کو مکمل نیست ونابود فرما اور نئے حکمرانوں کو توفیق بخش کہ وہ پانچ سال تک تیرے دین کی خدمت کر سکیں ۔ مولا کریم ان کو گستاخی رسول کی ہمت نہ دینا ورنہ ہمارے امیر المجاہدین کسی وقت بھی سر پر کفن باندھ کر نکل سکتے ہیں ْ 
مقتدر ادارہ دھرنے کے دوران غازیوں کا پشت بان بنا تھا ۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک وفاقی وزیر کی قربانی قبول فرما کر ثابت کیا تھا کہ  گستاخ اپنے انجام کو پہنچ چکے اور غازیوں کو واپشی کے لیے زاد راہ دے کر فارغ کر دیا دیا گیا تھا ۔ یہ ادارہ  عمران خان کے دھرنے کے دوران انگلی تو کھڑی نہیں کرتا مگر عوام کو کھڑا نظر آتا ہے۔اور عوام سے زیادہ خواص موجودگی سے اپنی آئندہ کی راہ منور کرتے ہیں۔
سیاست میں " کلہ" عوامْ ہوا کرتے ہیں،امریکی سیاست دانوں کا ْ کلہ ْ کس قدر مضبوط ہے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کم ہی لوگوں کو امریکی سیاستدانوں کے کلے کی مظبوطی کا ادراک ہے
پاکستان میں عوام کا تجربہ یہ ہے کہ اختیارات کا محور و مرکز ْ طاقت ْ ہی ہے۔ اور طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سیکرٹری پاکستان کے وزیر اعظم کو فون مبارک باد کا فون کریں تو اخباروں میں سرخی اور ٹی وی پر ہیڈ لائنس بنتی ہیں۔اور پاکستان کے وزیرخارجہ کے کہنے پر ہمار ا دفتر خارجہ کوئی وضاحت بھی جاری کرے گا تو اس کو ملک کے اندر نہ باہر سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمان کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہدائت کے بعد امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اب اس کی ایک فون پر لیٹ جانے والوں کی حکومت نہیں ہے۔ معلوم نہیں ڈاکڑ  صاحب کے ذہن میں لیٹ جانے والوں کے بارے میں کس کی تصویر ہے مگر مشرف اینڈ باقیات کے پیٹ میں اس بیان سے ایسا مروڑ اٹھاتھا جو ڈاکٹر کے کھڈے لائن لگ جانے کے بعد ہی ٹھیک ہوا ۔وزیر اعظم  وزارت خارجہ گئے اور بیان دیا کہ ْ کسی بھی ملک سے خواہ مخواہ کا الجھاو نہیں چاہتے . اور جوشیلے پارٹی ورکروں کو مناسب پیغام دیا۔یاد دھانی کراتے رہنا ہمارافرض ہے کہ امریکہ کا ْ کلہْ پاکستان میں بھی مضبوط ہے اور اس کلے کے رکھوالے کلے کی مضبوطی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ نواز شریف کی جیل یاترا کے بعد جوشیلے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، حکمران جس نام کا بھی ہو، عوام کا ووٹ جس کے پاس بھی ہو پہلا اور آخری پیغام یہی ہے کہ کھاو پیو موج اڑاو مگر ْ ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا ْ    

ہفتہ، 25 اپریل، 2020

ایک شخص ایک کہانی



اکبر بادشاہ نے اپنے مشیر با تدبیر سے فرمائش کی کی وہ 6 دنوں میں اس کے لیے ایک تصویر بنا کر دے ۔ بیربل نے 6 دنوں میں مطلوبہ تصویر بنا کر بادشاہ کے حضور پیش کردی ۔ بادشاہ نے اپنے دوسرے مشیروں کو بلایا اور کہا کی وہ اس تصویر کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ سب مشیروں نے تصویر پر پنسل سے ایک ایک نقطہ لگایا اور بادشاہ کو بتایا کہ تصویر اس مقام سے ناقص ہے ۔ بیربل ، کہ انسانی نفسیات کا ماہر تھا ، نے بادشاہ کے سامنے سب مشیروں کو دعوت دی کہ وہ ایسی تصویر بنا کر دکھائیں جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ بیر بل کا یہ چیلنج کوئی ایک مشیر بھی قبول نہ 
کرسکا ۔ اکبر بادشاہ نے ڈوبتی ہوئی نظرون سے سب کو دیکھا اور کہا  " نقطہ چین  " ۔
   

یہ قصہ 
Promod Betra
نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ نقطہ چینی دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مودودہ دور میں ہر وہ شخص نکتہ چینی کی زد میں ہے ۔ جو معاشرے کو کوئی تصویر بنا کر دکھاتا ہے۔ تصویر پر پنسل سے نہیں بلکہ تنقیدی مارکر سے موٹے موٹے نشان لگائے جاتے ہیں۔ کوئی ایک شخص بھی مگر مطلوبہ تصیر بنانے کے لیے میدان عمل میں نہیں اتا۔ 
معاشرہ ایک مشین کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر پرزے کو انفرادی طور پر اپنا اپنا کام خوش اسلوبی سے کرنا ہوتا ہے۔
اپنی منزل کا انتخاب اور راہ کا چناو فرد کا سب سے بڑا اخلاص ہوا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی منازل کا تعین کر لیا ہوتا ہےوہ اس تک پہنچنے کے لیے راہ کا انتخاب بھی خود کیا کرتے ہیں۔رستے میں آنے والی رکاوٹوں اور تنقید سے دل برداشتہ نہیں ہوا کرتے۔ 
کامیاب لوگوں کی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ جاوید مثالیں موجود ہیں جنھوں نے اپنی منزل کا تعین کیا ۔ چل پڑے ، راہ کے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچا کر رکھا اور کامیاب ہوئے۔
ہمارے بنکاری کے شعبے میں ، تعمیرات کے شعبے میں ، سائنس کے شعبے میں، تعلیم کے شعبے میں ،انسانی خدمت کے شعبے میں ، سیاست میں ، ، مذہب میں ہر طرف کامیاب لوگوں کی مثالیں موجود  ہیں تازہ  ترین واقعات میں عزت ماب فیصل ایدہی کو لوگوں نے تنقید کے لیے چنا ۔ لیکن ناقدین کی تنقید کے کانٹوں سے دل برداشہ ہوا نہ فیصل نے اپنی منزل کی راہ چھوری۔ حال ہی کی دوسری مثال تبلیغی جماعت کے مولوی طارق جمیل صاحب کی ہے۔ اس شخص پر تنقید کی بارش شروع ہوئی تو خیال تھا کہ یہ بارش اولوں میں بدلے گی  مگر آپ نے محسوس کیا ہو گا اس نے معافی مانگ کر مطلع ہی کو صاف   
  کر دیا۔ مثالوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے مگر ہم نے جو سبق کشید کیا یہ ہے کہ  با منزل لوگ راہ کے کانٹوں سے
االجھ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کیا کرتے۔ ہمارے ہان ایسی سوچ اجنبی ہے۔مگر کامیابی کا راستہ مصالحانہ طرز عمل ہی بنتا ہے۔ 
کسی عقلمند نے کہا ہے کہ برے حالات کبھی بھی نہیں سدہرتے مگر مضبوط لوگ برے حالات میں بھی اپنا رستہ نہیں چھوڑتے۔ ہنری ٹرومیں نے ایک بار کہا تھا " اگر آپ جل جانے سے خوف زدہ ہیں تو آپ کو کچن سے باہر آ جانا چاہیے " ۔
ہم اہک پچھڑے معاشرے کے باسی ہیں ۔ یہاں جو کوئی بھی اپنی منزل رکھتا ہے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔عمران خان پر کیا کم تنقید ہوتی ہے، نواز شریف پر کیا کم بہتان لگتے ہیں لیکن نظر نہیں آتا کہ تنقید نے انھیں بددل یا مایوس کر دیا ہو۔ 
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لوگ انھیں ذہین، عقلمنداور حالات سے لڑنے والا سمجھیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا لوگ انھیں بے وقوف کہیں مگر صاحبان فراست افراد ہون کہ معاشرے ان کی نظر منزل پر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ راہ کے کانٹون سے الجھتے نہیں ہیں۔ دامن بچا کر اپنی منزل کی طرف روان دواں رہتے ہیں۔  یہ ایک حقیقت ہے جو افراد معاشرون اور ملکوں تک کے لیے سچ ثابت ہوتی آئی ہے۔

اتوار، 12 اپریل، 2020

نیا رونا



پرانے زمانے میں دولت مند بننے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کیا کرتے تھے۔ جو یہ کام نہیں کر پاتے تھے وہ اپنے اباو اجداد کی زمین بیچ کر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ قیمتی چیز جس سے انسان واقف تھا وہ سونا ہی تھا۔ اس دور میں سب سے زیادہ  دولت ان حکیموں نے کمائی جو خود تو سونا نہیں بناتے تھے مگر سونا بنانے کے نسخے اپنے شاگردوں کو بتایا کرتے تھے۔ جب دنیا کے ایک کونے میں لوگ لوہے سے سونا بنانے میں مصروف تھے تو دنیا کے ایک دوسرے کونے میں انسان نے پہیہ بنا کر لوہے کو مشین میں تبدیل کرلیا۔ ان ہنر مندوں نے سونے سے بھی زیادہ دولت کما لی۔ یہ فن اس قدر مقبول ہوا کہ زمینداری کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چند معاشروں نے پیداواری اجارہ داریاں قائم کر لیں۔ اور بیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے یہ اجارہ داریاں انفرادی سطح پرآ گئیں۔اس وقت دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی آمدن بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ جب مقابلہ بازی انفرادی سطح  پر آتی ہے تو اس میں چال بازی بھی آ جاتی ہیں۔ منظم معاشرے ان چالبازیوں کو روکنے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ معاشرے ان اداروں سمیت ایک دوسرے سے چالبازیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
ایک وقت تھا انسان ریت پر ننگے چلا کرتا تھا۔ وہ گرمی تکلیف دہ ہوا کرتی تھی مگر انسان اسے برداشت کر لیا کرتا تھا۔ گرم لوہے پر پاوٗں اٹکانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ گرم لوہے کو پکڑنے کے لیے سنی وجود میں لائی گئی۔ اس سادہ سے اوزار نے جب روبوٹ کا روپ دہارا تو لوہے کی تپش تین ہزار سنٹی گریٹ تک جا پہنچی۔ ٹیکنالوجی کا کمال یہ رہا کہ اس تپش میں بھی لوہا، لوہا ہی رہتا ہے۔ بھاپ بن کر اڑتا ہے نہ بے قابو ہو کر بہتا ہے۔ مگر یہ لوہا وہ دہات نہیں ہے جس سے گندم کاٹنے والی درانتی بنائی جاتی تھی۔ یہ ایسا لوہا ہے جس میں بھانت بھانت کی دہاتیں اور رنگ دار اور بے رنگ کیمیکل شامل ہوتے ہیں۔ 
بے رنگ کیمیکل بالکل ہی بے رنگ نہیں ہوا کرتے۔ بعض اوقات تو وہ ایسا ایسا رنگ دکھاتے ہیں کہ انسان ماسک میں منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتا ہے، دولت کی ہوس انسان کو  قرنطینیہ  بھگتنے پر مجبور کردیتی ہے۔
کچھ باتیں قدرتی طور پر سب لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں، اچھائی کیا ہے اس کی تعریف مختلف  معاشروں میں مختلف ہو سکتی ہے مگر ہر انسان جانتا ہے کہ اچھائی وہی ہے جو دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانی لائے۔ آسانیاں بانٹنے ولا ہی سکھی رہ سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں مشکلات بیچ کر کوئی سکھی رہ سکے۔ یہ بات اگر فرد کے لیے درست ہے تو غلط معاشروں اور ملکوں کے لیے بھی نہیں ہے۔

جمعہ، 10 اپریل، 2020

یاد تو کر



اپنے وقت کے بڑے مقرر اور مذہبی رہنماء  سپر جین  
(Charles H. Spurgeeon 1834-1892) 
کا ایک قول ہے کہ  جو لوگ جلدی سے وعدے کرلیتے ہیں  وہ عام طور پر ان وعدوں کو پورا کرنے میں بہت سست ہوتے ہیں۔  وعدہ ایک سنجیدہ عمل ہے ۔ ذمہ دار انسان وعدہ کرنے سے پہلے سوچے گا کہ میں وعدہ پورا کر بھی سکوں گا یا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ عام طور پر وعدہ وہی کیا جاتا ہے جس کو پورا کرنے کی انسان میں صلاحیت موجود ہو۔البتہ کچھ لوگ وعدہ پورا کرنے کا مزاج ہی نہیں رکھتے، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان سے جو الفاظ نکال رہے ہیں ان کو پورا کرنے کی ان میں اہلیت ہی نہیں ہے ۔ ایسے لوگ فورآ وعدہ کر لیتے ہیں۔ وہ اس بات کا خیال ہی نہیں رکھتے کہ وہ یہ وعدہ کن الفاظ میں اور کن سے کر رہے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے پانچویں دن کی اصطلاح دریافت کی تھی۔ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی طرف تھا  جو  اردو ادب میں روز اول سے ہی بے وفا اور وعدہ شکن رہا ہے۔
 گلہ دراصل اس رہنماء سے ہے جس نے بھوکی بھیڑوں کو سبزے کے کھیت دکھائے تھے۔ جس نے بے گناہ جیلوں میں بند انسان نما مخلوق کو انصاف کی امید دلائی تھی۔ جس نے تقسیم در تقسیم معاشرے میں ایک پاکستان کی بات کی تھی۔ جس نے دولت کے نشے میں دہت وڈیروں کی غلامی سے نجات کے لیے میرٹ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ جس کی تقریر خدا کی عبادت کی نیت اور اس کی نصرت کی دعا سے شروع ہوتی تھی اور وہ عمر بن خطاب کے دور کے واقعات سنا کر ریاست مدینہ کا خواب دکھایا کرتا تھا۔
 بقول گلزار    عادتآ تم نے کر دیے وعدے   
تو ہم نے ان وعدوں پر اس لیے اعتبار کیا کہ ان وعدوں میں امید کی کرن دکھائی دیتی تھی۔اس قوم میں بچہ پید ہوتا ہے اور ذہنی بلوغ تک پہنچنے سے پہلے وہ دریافت کر لیتا ہے کہ اس کے والدین، اس کا خاندان، اس کا معاشرہ اس سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ مگر تم نے تو ان سے کہا تھا   وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
 اسی لیے    عادتآ ہم نے اعتبار کیا  
 کسی نے کہا تھا وعدے    قران اور حدیث نہیں ہوا کرتے   اب تم بھی کہتے ہو    کہیں وعدے بھی نبھانے کے لیے ہوتے ہیں    
 ہم تو ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ہم سلیقے سے نا بلد ہیں۔ہم ذہنی غلام ہیں۔ ہم بے ہنگم بھیڑ ہیں۔ ہم تو جھوٹے ہیں مگر اس ملک میں جہاں آپ نے اپنے بچوں کو اس لیے رکھا ہوا ہے کہ ان کی تربیت سچے لوگوں میں ہو۔ ان ہی میں سے ایک سچے نے دنیا  کے مشاہیر کی فہرست مرتب کی تھی۔ اور جس کو پہلے درجے کا صادق اور امین کہا تھا۔ ان ہی صادق و امین کا قول ہم تک پہنچا ہے کہ ہم جاہل اور ان پڑھ سہی مگر ان کے
    رب کے کنبے  کا حصہ ہیں۔
 عمران خان !!! 
تیری مجبوریاں درست مگر ۔۔  تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

ہفتہ، 4 اپریل، 2020

سکون صرف قبر میں ہے



   ڈیڑھ ارب ہو کر بھی مسلمان ابابیلوں کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور اسی لاکھ اسرائیلیوں سے ہماری جان چھڑائیں۔ خدا کی قسم آج اگر ابابیل آئیں بھی تو کنکر یہودیوں کو نہیں مسلمانوں کو ماریں گی    یہ جملہ کہنے والے نجم الدین اربکان (1926-2011) سکون پا چکے مگر بے سکونوں نے ابابیل دیکھ لیے البتہ ان کی  چونچ اور پنجوں میں کنکر نہیں تھے۔ ابابیل آئے انھوں نے اللہ کے گھر کے گرد چکر لگائے۔ ایمان والوں نے اس کی ویڈیوبنائی اور یہ ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل رہی۔ کچھ ٹی وی چینل نے بھی اس منظر کو دکھا کر اہل ایمان کا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔
  اہل ایمان کا ذکر آئے تو چند معلوم اور بے شمار نامعلوم شخصیات کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ پھر ان سب کے سرخیل کا نام مبارک ذہن میں آتا ہے۔ تو بطور مسلمان اپنا سر اپنے ہی سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ ارب میں سے اکثر  کے سر اپنے ہی سامنے جھکے ہوئے ہیں۔    اکثر    کے علاوہ  بھی مگرسارے ہی سرجھکے ہوئے ہیں۔ سر اسی کے سامنے جھکتا ہے جو بر تر ہو۔ 
برتری کی معلوم تاریخ میں پہلا نام خود آدم کا ہے۔ اس گناہ گار نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اعتراف کا اعجاز ہے کہ خود شناسی کی پہچان کراتا ہے    جو خود شناس نہیں ہے وہ حقیقت شناس نہیں ہے   ۔ 
  
اس لسٹ میں ایک نام ابراہیم بن آزر کا ہے جو اتنا صاحب ثروت تھا کہ مال و مویشی کی حفاطت کے لیے ساٹھ ہزار سے زیادہ ملازمین رکھتا تھا۔مگر   فضول خرچ تھا نہ اپنی دولت پر اتراتا تھا    اس کے توکل کا عالم دنیا جانتی ہے  اور معلوم رہے    خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے  
یونس بن متی بھی اسی قبیل سے تھا، ایسے الفاظ سے توبہ کی جو صبح قیامت تک ریکارڈ رکھے جائیں گے کیونکہ   خدا توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
ایوب کا صبر تو زمانے میں ضرب المثال ہے۔ اسی لیے خدا اس سے محبت کرتا ہے اور اعلان عام ہے   خد ا  صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے  
مصر کے عزیز کے مشیر اعلی اوروزیریوسف کا نام تب سے اب تک لیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی پاکیزگی کی حفاطت کر کے وہ مثال چھوڑی ہے کہ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب میں لکھ دیا گیا   خدا پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے  
داود  نام مگر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یکساں مقدس ہے۔ وجہ اس کی عادل ہونا ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان کے کیے ہوئے فیصلے اج بھی ججوں کے لیے مشعل راہ ہیں مگر    خدا انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے   
کائنات کے خالق نے وہ صفات گن کربتا دی ہیں کہ انسان خود میں پیدا کر لے تو وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ 
مائیکل ہارٹ (پیدایش 1932)  نے اپنی کتاب  The 100 - A ranking of The Most 
ٰInfluential Person in History  اور  برطانوی تاریخ دان تھامس کالائل  (1795 -1881)  نے اپنی کتاب  On Heros, Hero Worship, and The Heroic in History 
میں جس شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے، اور مسلمان جنھیں خدا کا بھیجاہوا پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی زندگی میں وہ ساری ہی صفات موجود تھیں جن صفات کے حامل سے خدا محبت کرتا ہے۔
اسی نبی ورسول کی زبان سے کہلایا گیا:
   کہہ دو ،  اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی کرو، خدا تم سے محبت کرے گا  
بے شک خدا جن سے محبت کرتا ہے، ان کی حفاطت کے لیے ابابیلیں بھیجتا ہے اگر وہ قلت میں ہوں۔ جیسے عبدالمظلب اور ان کا گروہ  
یہ وہی خدا ہے جس کے نبی کے بے عمل پیروکاروں نے کہا تھا ہم کمزور ہیں ہماری طرف سے عمل ٓپ اور ٓپ کا خدا کریں۔
با عمل 313 ہی ہوں تو خدا ابابیلیں نہیں فرشتے بھیجتا ہے۔ 
ڈیڑھ ارب تو موجود ہیں مگر انھیں سکون چاہیے۔ کہنے والے نے یہ کہہ کر تاریخ رقم کر دی کہ    سکون تو صرف قبر میں ہے   
   آخر دعا کرین بھی تو کس مدعا کے ساتھ
    کیسے زمین کی بات کہیں آسمان سے ہم   (احمد ندیم قاسمی)

جمعرات، 30 جنوری، 2020

'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ'


بھیڑیا ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ تیز اور پھرتیلی ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ یہی ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮬﯽ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ نہیں۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ بھیڑیا ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ بطورِ ماتم ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ "ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ، ﯾﻌﻨﯽ 'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ' اس لیئے ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﺐ اس کے ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮬﻮﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ یہ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ حسنٍ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ﮬﯿﮟ.
ﺑﮭﯿﮍﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ بطورٍ کارواں ﻣﯿﮟ کچھ یوں ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛
1 - ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
2 - ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بطورِ ابتدائی طبی امداد ‏(ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
3 - ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ (ہنگامی دستہ) ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ.
4 - ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
5 - ﺳﺐ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏"ﺍﻟﻒ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ 'ﮬﺰﺍﺭ' ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﺟﻮ ہمارے لیئے ﺑﺎﻋﺚ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍیئے ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ بہترﯾﻦ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍسی لیئے ﺗﺮﮎ اﻭر ﻣﻨﮕﻮﻝ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮﮎ ﻭ ﻣﻨﮕﻮﻝ ﮐﺎ 'ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ' بھی ﮨﮯ ۔۔۔ !
Translated from National Geographic Arabic (UAE)