بدھ، 19 جون، 2019

سید قطب کے بعد محمد مرسی

بہار عرب کی انقلابی ہوائیں جب مصر میں داخل ہوئیں تو قاہرہ کے التحریر اسکواہر میں جمہوریت کے حامیوں کے سامنے حسنی مبارک کی آمریت نے دم توڑ دیا۔ فری ایڈ فیئر الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ تو اخوان المسلمین  کے حمائت یافتہ محمد مرسی (1951 ۔  2019)  مصر کے پانچویں اور عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے پہلے جمہوری صدر بنے۔
محمدمرسی ایک سیاستدان، پروفیسراور انجینئر تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور اسٹنٹ پروفیسر پڑہاتے رہے۔حافظ قرآن مرسی ابتداہ ہی سے اخوان کے ساتھ وابستہ تھے مگر امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بنائی یاد رہے اخوان المسلمین کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس پارٹی نے مرسی کی قیادت میں مصری عوام کی 51.7 فیصد حمائت حاصل کر لی۔ مصری عوام کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا تھا۔ لہذا الیکشن مین کامیابی حاصل کرتے ہی امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد مرسی نے اپنی پارٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ اب اپنی پارٹی کے نہیں بلکہ پورے مصر کے صدر ہیں۔ اہل جمہور نے ایک عبوری آئین نافذ کیا اور اس آئین کے تحت جمہوری صدر کو لا محدود اختیارات حاصل ہو گئے جن میں ایسے ادارے بھی شامل تھے جن کی باگ 1952 سے فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔فوج مرسی کے ان اقدامات پر غیر مطمئن تھی۔ مرسی کے سیاسی مخالفین، جنھوں نے ووٹ مرسی کے خلاف دیا تھا۔ التحریر اسکوائر میں دھرنا دینے اکھٹے ہونا شروع ہوئے۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے،  وہ ان اقدامات کی تحسین کر رہے تھے جو مرسی نے فوج کے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے کیے تھے۔ان اقدامات میں حسنی مبارک کے دور کے فوجی افسران کو ہٹا کر جونئیر افسران کی تعیناتی شامل تھی۔مرسی نے ان تمام جرنیلوں کو نکال باہر کیا تھا جو تیس سالون سے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔ حتیٰ کے طویل مدت تک وزیر دفاع رہنے والے فیلڈ مارشل اور اس کے متوقع جانشین کو بھی گھر بھجوا دیا تھا۔اور انٹیلی جنس چیف کو بھی فارغ کر دیا۔
عبد الفتح السیسی کو کو نیا وزیر دفاع خود مرسی نے مقرر کیا تھا۔
التحریر اسکوائر میں جمع مرسی کے حامی فوج کی نظر میں امن و امان کے لیے خطرہ تھے۔ فوج نے مرسی کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ سیاسی افراتفری کو روکیں۔ صدر محمد مرسی نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تو فوج نے قصر صدارت پر قبضہ کر کے صدر کو گرفتار کر لیا۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے تو سات سو مظاہرین کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔  ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔
گرفتار صدر پر قتل،  قطر کے لیے جاسوسی کرنے،  جیل توڑنے اور حماس تنظیم جو مصر میں خلاف قانون قرار دی گئی تھی کے ساتھ روابط کے الزام لگے۔ 
شستہ اورروان لہجے میں انگریزی بولنے والے محمدمرسی کو عدالت میں پہلی بار پیش کیا گیا تو وہ ایک ساونڈ پروف پنجرے میں بند تھے۔ پہلی سماعت پر سابقہ صدر کا یہ موقف سامنے آیا کہ فوج نے غیر قانونی طور پر تختہ الٹا ہے اور عدالت کے اختیار سماعت کو بھی مسترد کر دیا۔ مصری عدالت نے تیز ی سے سماعت مکمل کی،  سابقہ صدر کو سزائے موت، دوسرے مقدمے میں بیس سال قید اورتیسرے مقدمے میں تین سال کی قید کی سزا سنائی۔ ان کی موت کی سزا تو اپیل کے بعد ختم کر دی گئی مگر دوسری سزاہیں بحال رہیں۔ 
کمرہ عدالت میں موت سے قبل محمد مرسی، جن کی تین بیویاں،  چار بیٹے اور ایک بیٹی  ہے، کو چھ سال تک اس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا کہ ان کے خانداں کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ان کے خلاف ملک کے اندر زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ جس کے مطابق وہ غیر ملکی ایجنٹ، مصر کا غدار،  جیلوں کو توڑ کر اپنے حامی آزاد کرانے والا، قانون اور آئین کو نہ ماننے والا،  دہشت گردوں کا حامی، ملکی راز دوسرے ملکوں میں افشا ء کرنے والااور قاتل بتایا گیااور ملک کی فوج، عدلیہ اور اداروں کا دشمن ظاہر کیا گیا۔ ایمنسٹی والوں کا کہنا ہے دوران اسیری، ملک کے سابقہ صدر کو سونے کے لیے ننگا فرش میسر رہا۔ ان کا قرآن مہیا کرنے کا مطالبہ رد کر دیا گیا۔ان کے دونوں بھائیوں اور مصر میں موجود ان کے بیٹوں (دو بیٹے امریکی شہری ہیں)سمیت کسی کو بھی ان چھ سالوں میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔موت کے بعد جیل کے ہسپتال کے لان میں مرسی کے بیٹون کو جنازہ پڑہنے کی اجازت دی اور فوج نے اپنی نگرانی میں میت کو دفنا دیا۔
سید قطب کے بعد اخوان کے ہاں محمد مرسی طویل عرصہ تک یاد رکھے جائیں گے۔ البتہ ان کی سیاسی زندگی، قصر صدارت تک رسائی اور پھر بے کسی کی موت تاریخ کا حصہ ہے۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت محمد مرسی کے چالیس ہزار حامی جیلوں میں بند ہیں۔
 ملکوں میں بٹی امت مسلمہ،  ملکوں کے اندر سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم مسلمان،  شائد ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ جنگ جاری ہے۔ سابقہ امریکی صدر بش سینٗرکے الفاظ میں یہ جنگ امریکہ سے دور ممالک میں لڑی جارہی ہے ۔اس جاری جنگ کی نوعیت پر ایک مصری اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا     مرسی، احمق ہی نہیں بے وقوف بھی ہے    اس اخبار کا اشارہ اس ڈیڑھ بلین ڈالر کی طرف تھا جو امریکہ مصری فوج کو ہر سال وعدوں کو پورا کرنے کے عوض ادا کرتا ہے۔ 

اتوار، 16 جون، 2019

ہتھوڑا


قرآن پاک میں ہے 
   بے شک ہم نے اپنے رسولوں کوواضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں    
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے   لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے     ایک اور فرمان نبوی  ﷺ  ہے  جب وہ عدل کرے گا تو اس کے لیے اجر ہے    اجر کو قران مجید میں کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے     اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ )۔  عدالت، میزان اور دلیل وہ تکون ہے جس پر پر امن معاشرہ ترتیب پاتا ہے۔ 
کالم نویس ڈاکٹر اے ار  خان صاحب نے ہائی کورٹ کے ججوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا تھا     جج مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے سامنے پانی کا گلاس ضرور رکھے۔ جونہی سماعت شروع ہو، ایک گھونٹ منہ میں پینے کی غرض سے نہیں، اپنی زبان روکے رکھنے کی غرض سے، تاکہ فریقین کا موقف سن سکے   
امریتا پریتم نے تو یہاں تک کہا کہ    ترازو کے ایک پلڑے میں ہمیشہ پتھر ہوتے ہیں۔شائد اسی کا نام سچائی یا انصاف ہے    پتھروں میں جذبات نہیں ہوتے اسی لیے کمزور نہیں پڑتے۔ منصف کے لیے لازمی ہے اس کا دل اور آنکھ پتھر کے ہوں کیونکہ انصاف ایک بڑی امانت اور اعلی اخلاقی ذمہ داری اور بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ منصف کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ انصاف کا معیار مقرر کرتا ہے جو معاشرتی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ پاکستان میں سماعت کے دوران بولنے والے ججوں میں سب سے زیادہ نام جسٹس ثاقب نثار نے کمایا۔مگر یہ نام کمانے والے پہلے جج نہیں تھے ان سے قبل چوہدری محمد افتخار، نسیم حسن شاہ، ایم  ار کیانی  یہ بدعت پوری کر چکے تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ، مولوی منیر، شیخ انوارعدالتوں میں بہت کم بولتے تھے مگر ان کے فیصلے چیخ و پکار کرتے ہوئے کمرہ عدا؛ت سے برامد ہوا کرتے تھے۔
آج کل سیاسی حلقوں میں ایک حکائت کا بہت چرچا ہے۔ حکایت یوں ہے کہ مسلمانوں کے ایک خلیفہ نے جنگل میں ایک کمہار کے گدہوں کے نظم و ترتیب پر حیرت کا اظہار کیا تو کمہار نے قریب ہو کر خلیفہ کو بتایاکہ جو گدہا نظم توڑے اسے ڈنڈے سے مارتا ہوں وہ واپس قطار میں آ جاتا ہے۔کسی گدہے کی کیا مجال جو میرے بنائے ہو نظم کی خلاف ورزی کرے۔خلیفہ کمہار کی ڈسپلن قائم کرنے کی صلاحیت کے باعث اپنے ساتھ لے آیا اور اسے منصف کی کرسی پر بٹھا دیا۔ پہلا مقدمہ چوری کا پیش ہوا۔ جج نے مجرم کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا۔ وزیر نے اشارے سے اسے رک جانے کا کہا اور اٹھ کر جج کے پاس گیا اور اس کے کان میں کہا یہ اپنا آدمی ہے، جج نے دوسرا حکم وزیر کی زبان کاٹنے کا دیا۔جج کے حکم پر مجرم کا ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دی گئی۔ اس کے بعد ملک میں ایسا امن ہوا کہ پورا ملک ہی سدہر گیا۔ہمارے ایک وزیر با تدبیر نے ٹی وی پر بیٹھ کر فرمایا ہے کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے چین میں مقدمات کا سرعت سے فیصلہ ہوتا ہے اور انھیں گولی سے اڑا کر اطمینا ن حاصل کر لیا جاتا ہے۔ کوریا سے بھی ایسے ہی سریع انصاف کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ عراق کے معزول صدر صدام حسین اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے پستول سے میٹنگ کی میز پر ہی انصاف مہیا کر دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس قسم کا انصاف پاکستان میں عوام کو قابل قبول نہیں ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام تو اس انصاف کو بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کرتے۔ جس میں جج کا کرادار بھی انصاف پر مبنی نہ ہو۔ کیونکہ پاکستانیوں کو جمعہ کے خطبوں مین بتایا جاتا ہے    جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو توانصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ خدا تمھیں خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے   (النساء)
امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چیف جسٹس کا عہدہ اس لیے ٹھکرا دیا تھا کہ ان کے پیش نظر یہ فرمان نبوی  ﷺ  تھا    جو صیح فیصلہ نہیں کرے گا اس کا مقام جہنم ہے   ۔  جس معاشرے میں جج یا منصف حکمران کے ہاتھ کی چھڑی اور زور آور کی جیب کی گھڑی بن جائے وہاں عدالت کی عزت باقی رہتی ہے نہ جج کی۔ 
کیا پاکستانی عدالتوں کے ججوں کا کردار واقعی ایسا ہے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا ہے۔ اور پاکستان کے سپریم کورٹ کی عمارت پر نصب میزان وہی ہے جو آسمان سے اتاری گئی تھی؟  یہاں تو جسٹس ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ اپنے ہتھوڑے کے زور پر اپنی توقیر پر بضد رہی۔سرکاری ملازمیں کو بتایا جاتا کہ وہ حکومت کے نہیں ریاست کے ملازمیں ہیں۔مگر اپنے بارے میں ان کی رائے مختلف رہی۔اس دور میں سولی چڑھ جانے کے بعد بریت کے فیصلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔وقت کی حکومت کے وزیر داخلہ کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا جاتاا مگر کسی ادارے کے افسرکو جج سے ملنے کی سہولت دستیاب رہی۔دوسری طرف پاکستان کی سب سے اعلی ٰ عدالت میں چیف جسٹس کی موجودگی میں ایک شہری جج کے رو برو کھڑے ہو کر ان پررشوت ستانی کا الزام لگاتا ہے۔ نہ عدالت کی چھت پھٹتی ہے نہ جج حیرت سے کرسیوں سے اچھلتے ہیں۔ البتہ سیکورٹی کے ذریعے اسے کمرہ عدالت سے ضرور نکال باہر کیا جاتا ہے۔اس دور میں سیاسی مقدمات میں دہرا معیار اپنا کر عوام کو حیرت زدہ کیا گیا۔ آئین کو پاما کرنے والوں اور شہریوں کے قاتلوں سے مخاطب ہونے سے پہلے لہجوں میں میٹھا رس گھولا جاتا۔البتہ اپنے وسائل سے دوسرے شہریوں کی خدمت کرنے والوں کو طعنہ زنی کا شکار بنایا گیا۔امیر اور غریب کے لیے انصاف کے پیمانے علیحدہ علیحدہ کر دیے گئے۔ اورخود کو اعلانیہ سیاسی طور پر متنازعہ بناکربقول فیض عدل کا   حشر   اٹھا دیا گیا۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں بے شمار ججوں میں سے صرف چند لوگوں ہی کی مثال مل سکتی ہے جنھوں نے عدلیہ کو بدنام کیا اور اپنی ذات کو رسوا، ورنہ سیاسی، معاشی اور سماجی عدم مساوات کو ہماری عدلیہ ہی برابر رکھے ہوئے ہے۔ عدل کے لفظ کے لیے عبرانی میں صداقت کا لفظ ہے۔ ہماری عدالتوں کے جج صداقت کی حد تک عدل کرتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ نظام عدل میں پراسیکیوشن اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور ہمارے پراسیکیوشن کے اداروں کا کردار نیب کے کردار سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
پراسیکیوشن کے کردار کو جانچنے کے لیے مختلف سیاسی  مقدمات میں بنائی جانے والی جے ائی ٹی اور ان کے مرتب کردہ  والیوم کو ذہن میں لایئے۔۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایسی دستاویزات جو ٹرالیوں پر لاد کر عدالت میں لائی گئی مگر عملی طور لندن میں ترازوکے اس پلڑے کو اٹھانے میں ناکام رہی جس میں صرف ایک قانونی شق رکھی ہوئی تھی۔
 اس کے باوجود جج اپنے علم کے بل بوتے پر حقیقت جان لیتاہے۔ اللہ کی یہ نصیحت ہر جج کو ازبر ہوتی ہے   جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو  ۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ ججوں کے فیصلے انصاف کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی مستقبل سنوارتے نظر آتے ہیں اور سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ جو  
اپنی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اہل خانہ سمیت لندن جا بسے ہیں۔ 
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جناب ثاقب نثار صاحب ایسے جج کے طور پر یادگار رہیں گے جنھوں نے عدالتی ہتھوڑے کے ذریعے اپنا تاریخی مقام منتخب کیا

پیر، 10 جون، 2019

گر پڑی

                   
                   
راوی بیان کرتا ہے کہ ایک شخص کو ہندوستان میں اپنی زمین کے بدلے میں راولپنڈی کے مضافات میں واقع علاقے    ٹپئی    میں زمین  الاٹ ہوئی۔ اجنبی مسافر الاٹمنٹ لیٹر جیب میں ڈالے راولپنڈی کے ریلوے سٹیشن پر اترا۔ لوگوں سے مطلوبہ جگہ کا پتہ پوچھا مگر سٹیشن پر موجود مقامی لوگ بھی سرکاری کاغذ میں لکھے نام
Tai pai
سے واقف نہ تھے۔
 اس زمانے میں اجنبی مسافروں خاص طور پر ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کی مدد و رہنمائی کا جذبہ عروج پر تھا۔ لوگ اکٹھے ہو ئے اور کسی نے بتایا کہ انگریزی میں یہ نام    ٹپئی    کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اجنبی کی رہنمائی کی گئی اور اسے بتایا گیا کہ وہ کمپنی باغ میں موجود بسوں کے اڈے پر چلا جائے وہاں سے اسے    ٹپئی   جانے والی بس مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے انسان جو زبان بھی بولے سوچتا اپنی مادری زبان ہی میں ہے۔ اردو بولنے والے اس مسافر کے ذہن میں  ٹپئی کا سن کر   گر پڑی    کا تصور پید ا ہوا۔ جب وہ کمپنی باغ  (موجودہ نام لیاقت باغ) پہنچا تو اس کے سامنے مطلوبہ بس ڈہونڈنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس نے کاغذ دکھا کر کسی سے پتہ پوچھنے کا ارادہ کیا تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ کاغذ تو ریلوے سٹیشن پر ہی کسی کے ہاتھ میں تھما آیا ہے۔ اس نے اللہ کو یاد کیا اور    گر پڑی    جانے والی بس ڈہونڈنا شروع کی۔ اس کو بتایا گیا کہ گر پڑی نام کا تو کوئی گاوں ہے ہی نہیں۔ اجنبی مسافر کی رہنمائی کے لیے مجمع اکٹھا ہوا اور عقل اجتماعی نے فیصلہ کیا کہ مسافر اردو سپیکنگ ہے ناموں سے ناموس ہے یقینا اس نے   چڑ پڑی   جانا ہو گا۔ مسافر کو چڑپڑی جانے والی بس میں سوار کر دیا گیا۔ قصہ پاکستان بننے کے دنوں کا ہے، دلچسپ ہونے کی وجہ سے زبان زد عام ہوا، عام طور پر ایسے قصوں کی  تحقیق کی جائے تو لطیفہ ہی ثابت ہوتے ہیں، اس کے باوجود زبان کی چاشنی اسے علاقے میں مقبول رکھے ہوئے ہے، 
 پڑی   نام سے راولپنڈی میں کئی گاوں اور علاقے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک غیر معروف اور غیر ترقی یافتہ علاقے کا نام   تخت  پڑی    ہوا کرتا تھا۔ تخت پڑی جی ٹی روڈ کے کنارے اور راولپنڈی سے صرف چھ کلو میٹر دور ہونے کے باوجود غیر معروف علاقہ اس لیے تھا کہ 2210 ایکڑ پر پھیلا ہوا سرکاری جنگل تھا۔ جس کو مقامی زبان میں    رکھ    کہا جاتا تھا۔  (راولپنڈی کا موجودہ ایوب پارک بھی ان دنوں    توپی رکھ    ہوا کرتا تھاجس کا رقبہ 2300  ایکڑہوا کرتا تھا۔البتہ ایوب پارک کا اس وقت رقبہ 300  ایکڑ ہے) ۔ تخت پڑی کو شہرت اس وقت ملی جب اس جنگل کو کاٹ کر اس کے درخت بیچ دیے گئے۔ پھر اس سرکاری جنگل کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔    بندر بانٹ    کا دلچسپ مرحلہ حصہ نہ پانے والے بندر کا رد عمل ہوا کرتا ہے۔
تخت پڑی رکھ کی زمین کی بانٹ کے دوران رد عمل پیدا کرنے والوں نے معلومات میڈیا کو لیک کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اس میں کئی نامور اور بااثر خاندانوں کے افرادکے نام شامل ہیں۔ کچھ حصہ ایک ہاوسنگ سوسائٹی کو بھی الاٹ ہوا۔ جس نے اس جگہ کو ڈویلپ کر نا شروع کیا تو اپنے اثرو رسوخ کے بل بوتے پر 6000 کنال کے غیر الاٹ شدہ رقبے پر بھی قبضہ کر کے اسے اپنی ہاوسنگ سکیم میں شامل کر لیا۔ پہلے عام عوام نے حیرت کا اظہار کیا، پھر اخباروں میں مرچ مصالحے کے ساتھ کہانیاں شائع ہوئیں اور انجام کار بات عدالت تک جا پہنچی۔ ان دنوں ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہوا کرتے تھے۔ عدالت اسی ہاوسنگ سوسائٹی کو کراچی میں الائٹ کی گئی زمین کے ساتھ غیر قانونی طور پر قبضہ میں لی گئی زمین کے بارے میں ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے460  ارب روپے قسطوں میں بطور جرمانہ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے چکی تھی۔ اب راولپنڈی میں واقع  600 کنال کی غیر قانونی قابض زمین کا عدالت میں فیصلہ ہونا ہے۔ ہاوسنگ سوسائٹی والوں نے عدالت کو 15 لاکھ روپے فی کنال ادا کرنے کی تجویز دی ہے۔ہمیں ہاوسنگ سوسائٹی کے کردار سے دلچسپی ہے نہ سرکاری اداروں کی کرکردگی پر گلہ ہے۔ البتہ عدالت کو دیکھ کر وہ غریب، اجنبی مسافر یاد آتا ہے جو پنجابی کے لفظ    ٹپئی    کو اردومیں  بطور   گر پڑی    سوچتے سوچتے اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھا تھا۔ حالانکہ عدالت کے بارے میں  گر پڑی کا لفظ انتہائی نا مناسب ہے 

جمال زہرہ


اللہ سلامت رکھے واپڈا کو اور دعا ہے مچھروں کے لیے، اگر بجلی بند نہ ہوتی تو میں کبھی بھی صبح کے تین بجے تکیہ اٹھا کر چھت پر نہ آتااور مچھر پل بھر کے لیے بھی غفلت کرتے تو آپ اس تحریر سے محروم ہی رہتے۔مچھروں سے پنجہ آزمائی میں ہار مان کر توجہ خطہ افلاک پر روشن ستاروں پر جما دی۔ دب اکبر اور قطبی ستارے کے بارے میں سکول کے زمانے میں پڑہا تھا۔ آج انھیں دریافت کر ہی لیا۔ ایک اور ستارے سے بھی شناسائی ہے مگر وہ ابھی نکلا نہیں ہے۔ جگر مراد ٓبادی نے کہا تھا:
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گذرے
تو پھرکیسے کٹے   زندگی کہاں گذرے
مجھے انتظار ہے اسی کوکب حسن زہرہ کے طلوع ہونے کاجس کے ساتھ کئی حکائتیں اور داستانیں منسلک ہیں۔ رومیوں نے اسے وینس کہہ کر اس کی پرستش کی تو یونان والے افرودیت سمجھ کر اس کے نام قربانیاں کرتے رہے۔ ایران والوں نے اسے نائید کا نام دیا۔ عرب اسے زہرہ کہتے اور ہم صبح کا ستارہ پکارتے ہیں۔ہم حقیقت پسند لوگ ہیں یہ سورج کے نکلنے سے آدھا گھنٹہ پہلے طلوع ہوتا ہے اسی لیے اسے صبح کا ستارہ کہتے ہیں۔ہم جسے شام کا ستارہ کہتے ہیں جو غروب آفتاب کے ساتھ ہی مغرب کی جانب چمکتا نظر آتا ہے وہ بھی دراصل یہی زہرہ ہی ہے۔
قصص الانبیاء کے مطابق حضرت ابراہیم کی قوم سورج اور چاند کے ساتھ ساتھ زہرہ کی بھی پجاری تھی۔زمانہ جاہلیت کے عرب زہرہ کے نام پر خوبصورت عورت چڑہایا کرتے تھے ان کا اعتقاد تھا اس طرح ان کی عورتیں خوبصورت پیدا ہوں گی۔مگر لاہور میں فورمن کرسچین کالج کے استاد مولانا پادری سلطان محمد صاحب پال نے لکھا ہے کہ قربانی کے باوجود انکی عورتیں اور عورتوں کی طرح بعض خوبصور ت ہیں اور بعض بد صورت۔
شاہ عبدالعزیزنے تفسیر عزیزی میں ا لکھا ہے کہ حضرت ادریس کے زمانے میں ایک بار اللہ تعالی نے آسمان کے پردے ہٹا دیے تو فرشتوں نے دنیا میں لوگوں کو گناہوں میں مبتلاء دیکھا۔اس پر انھوں نے شکائت کی کہ انسان کو تو دنیا میں عبادت کے لیے بھیجا گیا تھااوریہ گناہ کے کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالی ٰ انسانوں کی پکڑ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری ذات دنیا والوں سے پردے میں ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ گناہ کی جرات کرتے ہیں۔فرشتوں کے اظہار تعجب پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تم خود میں سے سب سے زیادہ پارسا چنو۔ فرشتوں نے تین فرشتے چنے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمھیں زمین پر اتاروں گا۔ مگر تم نے وہا جا کر چار کام نہیں کرنے۔ شراب نہیں پینی، زنا نہیں کرنا، قتل نہیں کرنا اور بت پرستی سے دور رہنا ہے۔ایک فرشتے نے تو شرائط سے خوفزدہ ہو کر انکار کر دیا مگر ہاروت اور ماروت کو خواہشات عطا کر کے زمین پر بھیج دیا گیا۔وہ دنیا میں منصف تھے۔ ان کے پاس دو خوب صورت عورتیں انصاف حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ہاروت اور ماروت پر خواہشات کو غلبہ ہوا۔ عورتوں سے کہا ہماری خواہش پوری کر دو تمھارے حق میں فیصلہ کر دیں گے۔ عورتوں نے شرط رکھی، ہمارے ہم مذہب ہو جاو، بتوں کو سجدہ کرو تو ہم تمھاری خواہش پور کر دیں گی۔ انھوں نے بتوں کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ عورتین واپس چلی گئیں مگر ایک مدت کے بعد واپس آئیں۔ انھوں نے پھر خواہش کی، عورتوں نے کہا پہلے ہمارے شوہروں کو قتل کرو تاکہ وہ ہمارے اور تمھارے لیے فتنہ پیدا نہ کر سکیں۔ ہاروت اور ماروت نے قتل کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ تو عورتوں نے شراب پینے کا کہا۔انھوں نے اسے معمولی سمجھ کر پی لیا۔ شراب پی چکے تو زنا کیا، پھر ان کے شوہروں کو قتل کر کے بت کے سامنے سجدہ ریز بھی ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کے پردے ہٹا دیے تو فرشتے اپنے پارسا ساتھیوں کی جرات پر ششدر رہ گئے۔عورتوں نے  پوچھا تم آسمان پر کیسے چلے جاتے ہو۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس اسم اعظم ہے۔ عورتوں نے بھی وہ اسم سیکھ لیا اور دونوں ہاروت اورماروت کے ساتھ زمیں سے آسمان پر آ گئیں۔ آسمان پر ان دونوں کو تو اچک لیا گیا مگر ہاروت اور ماروت کے پر کاٹ کر زمین کی طرف دھتکار دیا گیا۔ہاروت اور ماروت کو معلوم تھاکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا پیغمبر موجود ہے جن کی دعا قبول ہوتی ہے۔ دونوں نبی اللہ کے پاس پیش ہوئے اور معافی کے لیے سفارش کی درخواست کی۔ آخرت میں عذاب یا دنیا میں سزا میں سے چناو کا اختیار دیا گیا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا عارضی ہے انھوں نے دنیا کی سزا مانگی۔ عراق کے شہر بابل میں وہ بطور سزا ایک کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ مولانا مودودی مرحوم نے اپنی تفہیم القرآن میں اس قصے پر سوال اٹھائے ہیں۔ 
زہرہ ستارے سے پاکستانیوں کی دلچسپی کا سبب یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان کے نجومیوں کے بیانا ت اخبارات میں چھپے تھے کہ پاکستان پچاس سال میں ختم ہو جائے گااور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر پاکستان نے جیسے تیسے پچاس سال پورے کر لیے تو پھر پاکستان کا اچھا وقت شروع ہو جائے گا کیونکہ ہندو جوتشیوں کے مطابق زہرہ پاکستان کے گھر میں داخل ہوکر بیٹھ جائے گا۔ جناب انتظار حسین زنجانی کے مطابق  زہرہ27  دسمبر2012 کو پاکستان کے گھر میں داخل ہو چکا ہے۔زنجانی صاحب کے مطابق پاکستان کے جنم کا جو زائچہ 1847 میں بنایا گیا تھا وہ  16 دسمبر 1971 کے سقوط ڈھاکہ کے بعد کارآمد نہ رہا تو 20 دسمبر 1971 دوسرا زائچہ بنایا گیا۔ نئے زائچے کے مطابق پاکستان کا طالع برج ثور ہے اور اس کا مالک ستارہ زہرہ ہے۔اب پاکستان کو  عالم افلاک سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
علم نجوم کے مطابق مرد کے زائچے میں زہرہ اس کی شریک حیات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے خوبصورتی کو زہرہ لقا، زہرہ جمال،زہرہ وش اور زہرہ جبین جیسے مرکب الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
زہرہ کے نام سے ایک پتھر بھی پایا جاتا ہے۔ زہرہ مہرہ نایاب ہونے کے باعث بہت قیمتی ہے۔اس پتھر کو جسم کے ساتھ مس کر کے رکھنے والے سے جنات اور جادو کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ فشار خون کو معتدل رکھنے میں معاون بنتا ہے۔زہرہ مہرہ سے زہر کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ زہرہ مہرہ پتھرکے برتن میں کھانا کھانے سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔  پاکستان کی شہید وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ نے جب سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا تھا تو عزت مآب پرنس آغا خان صاحب نے ان کی دعوت کی تو کھانازہرہ مہرہ کے برتنوں میں پیش کیا گیا تھا۔

جمعرات، 6 جون، 2019

سمرقندی جج


حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مسلمانوں کے ایک کمانڈر  قنیبہ بن مسلم نے اسلام کے بتاٗے ہوئے کچھ اصول نظر انداز کر کے سمرقند پر قبضہ کر لیا۔ مفتوعہ آبادی عیسائیوں کی تھی۔ پادری نے ایک پیامبر کے ذریعے خلیفہ کو ایک خط بجھوایا جس میں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شکائت کی گئی تھی۔جب یہ خط خلیفہ کو پیش کیا گیاتو خلیفہ نے اسی خط کی پشت پر لکھا   عمر بن عبدالعزیز کی جانب سے اپنے عامل کے نام، ایک منصف مقرر کروجو پادری کی شکائت سنے   
پادری اس حکم کو دیکھ کر مایوس تو ہوا مگر اس نے مناسب سمجھا کہ یہ پیغام سمرقند میں خلیفہ کے گورنر تک پہنچائے۔ جب گورنر نے اپنے خلیفہ کا حکم نامہ دیکھا تو اس نے اسی وقت جمیع نامی ایک منصف مقرر کر دیا۔ جمیع نے اپنی عدالت سجائی۔پادری اور قنیبہ دونوں کو طلب کر لیا۔ قاضی نے دونوں کو ایک جیسا پروٹوکول دیا۔ پہلے شکائت کنندہ پادری کی بات سنی گئی۔ پادری نے کہا  کمانڈر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ دعوت اسلام دی کہ اس پر سوچ بچار کرتے۔ 
منصف نے قنیبہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا تو قنیبہ نے کہا جنگ تو ہوتی ہی فریب ہے۔ اور یہ کہ سمرقند کے جوار میں لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے ہماری مزاحمت کی تھی۔لہذا ہم نے حملہ کر کے سارے سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
منصف نے پوچھا  پیشگی اطلاع دی تھی یا نہیں۔ قنبیہ کے پاس خاموشی کے سوا جواب نہ تھا۔وہ خاموش رہے تو منصف نے کہا   قنبیہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہو۔اب عدالت حکم جاری کرے گی۔۔ اور عدالت نے کمانڈر کو اپنی فوج سمیت سمرقند سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔
قصص من التاریخ نامی کتاب کے مصنف شیخ علی طنطاوی نے اس قصے کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس دن شام کے وقت سمر قند والوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر واپس جا رہا ہے اور پیچھے گرد و غبار کے بادل ہیں۔ گرد کے بیٹھ جانے کے بعد
سمرقندیوں کو حقیقت حال معلوم ہوئی۔ ان کو احساس ہوا کہ ان کے عارضی حکمرانوں کا ان کے ساتھ برتاو ان کے پرانے حکمرانوں کی نسبت اخلاقی، معاشرتی اور معاملات کے لحاظ سے بہت بہتر تھا۔لوگ اسی پادری کے پاس گئے جس نے قنیبہ کی شکائت کی تھی اور اسے مجبور کیا کہ وہ ان کیساتھ جا کر نئے حکمرانوں کو پاس لائے۔مسلمانوں بطور حکمران واپس آئے۔ طویل عرصہ سمر قند پر حکومت کی اور ایک وقت آیا کہ سمر قند مسلمانوں کا دارلخلافہ بھی بنا۔
عمر بن عبدالعزیر کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔اور ان کے منصفوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ منصف کا کام انصاف کرنا ہے خواہ وہ اپنی حکومت ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ یہ ایسا اصول ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا پھل انتہائی شیرین ہوتا ہے۔ انصاف کے طلب گار ہمیشہ کمزور طبقات ہوا کرتے ہیں۔ منصف انصاف کر کے کمزور کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو بالا دست طبقات کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نا عاقبت اندیش حکمران تو منصف کی کرسی ہی کو الٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک جج کی کرسی کو الٹانے کی کوشش میں خود جنرل صاحب کی کرسی الٹ چکی ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت کو سہارا دیتے وقت اور حکومت کی اعانت کے دوران تو جج اچھا تھا مگر جب ایک فیصلہ جو ابھی آنا تھا اور مشرف حکومت کو شک تھا کہ فیصلہ خلاف بھی آ سکتا ہے تو جج کو جی ایچ کیو میں بلا کر اس سے استعفیٰ طلب اور گاڑی سے جھنڈا اتار لیا گیا۔ ایک جج جو سالوں سے فیصلے کر رہا ہے اس کے سب فیصلے تو منظور ہوں مگر حکومت کی مستقبل کی پلاننگ میں کوئی فیصلہ روڑا بنتا نظر آئے تو پہلے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر تحریک چلائی جائے۔ پھر اپنے تنخواہ دار صحافیوں اور ٹی وی کے اینکروں کی مدد سے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جائے تو عوام بھی ششدر ہو کر رہ جاتی ہے۔
 دنیا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتی ہے  ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیاں دنیا کے لیے مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہر دور حکومت میں کچھ جج حکمرانوں کی نظروں میں کھٹکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی سابقہ روایات کو برقرار رکھنے کی رسم پر پورا اتر رہے ہیں