جمعہ، 20 نومبر، 2020

صالح اور طالح

صالح اور طالح

راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے ایک پسماندہ علاقے چنگا  بنگیال سے تعلق رکھنے والا ایک گیارہ سالہ لڑکا جب کرکٹ اکیڈمی چلانے والے آصف باجوہ کے پاس آیا تو آصف باجوہ نے اس بچے میں بڑا کرکٹر بننے کی صلاحیت کو   تاڑ    لیا تھا۔ اور پھر یہ بچہ راولپنڈی سے لاہور  اور پھر لندن منتقل ہو گیا۔ لندن کے ایک اخبار نے اس پر سٹے بازی کا الزام لگایا تو آصف باجوہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا یہ محمد عامر کی صحبت کا اثر ہے۔

فارسی زبان کی ایک کہاوت ہے

    صحبت صالح تیرا صالح کنند۔ صحبت طالح تیرا طالح کنند    

جو لوگ بھیڑیں پالتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھیڑ بیمار ہوتی ہے تو اسے دوسری بھیڑوں سے علیحدہ کردینا چاہیے۔ورنہ وہ سارے ریوڑ ہی کو بیمار کر دیتی ہیں۔ صحرا کے بدو خارش زدہ اونٹ کو دوسرے اونٹوں سے دور ہی رکھتے ہیں۔ صحبت ہر جاندار پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ انسان مگر سب سے زیادہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے۔ 

جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں کہ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ دکھا تو ہمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ہمارے ارد گرد ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان صحبت کے غلط چناو کے باعث اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے لیے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں۔ شیخ سعدی نے اپنی بوستان میں پرندوں کے ایک جوڑے کا ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی کو دیکھ کرمادہ نے کہا کہ اس کا ارادہ شکار کرنے کا ہے نر نے کہا یہ لباس سے شکاری نہیں لگتا۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے تیر نکالا اور نر پرندے کو شکار کر لیا۔ لاہور والے علی ہجویری  (داتا صاحب)  نے اپنی کتاب کشف المجوب میں تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین کی ہے ایک ایسے جاہل جنھوں نے صوفی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو۔دوسرے ایسے مبلٖٖغین جو اپنے ہی کہے پر عمل نہ کرتے ہوں اور تیسرے وہ فقراء جو قرض کی دلدل میں اتر چکے ہوں۔ یہ تینوں کسی وقت میں اپنا تیر نکال کر شکار کر سکتے ہیں۔

گئے وقتوں میں صحبت سے مراد لوگوں میں المشافہ اٹھنا بیٹھنا اور دوستیاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں صحبت کے دائرے فیس بک، نوئٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ تک ہی محدود  رہ کر لا محدود ہو چکے ہیں۔ تخم تاثیر کی عدم واقفیت کے باعث بعض اوقات ناقابل یقین واقعات جنم پذیر ہوتے ہیں۔ 

محمد عامر کی کہانی میں    نوٹ    تو مجید نامی آدمی نے گنے تھے مگر بدنامی محمد عامر کے حصے میں آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ سنبھل گیا اور کردار پر ملی گئی کالک کو اپنے عمل سے دہو ڈالا مگر ہر انسان  محمد عامر نہیں ہوتا۔ ٹخم تاثیر ہر جگہ حاوی نہیں ہوتا اکثر بری صحبتیں انسان کو تباہ کردیتی ہیں۔