پیر، 9 ستمبر، 2019

اوئے شرم کرو

پاکستان کے فوجی جوان جو غازیوں کی زندگی جیتے ہیں اور جب وطن پر قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے گاوں اور محلے والے ان کی تربت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ہماری بہترسالہ فوجی تاریخ قربانیوں اور معجزوں سے عبارت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک تن تنہا پاکستانی مجاہداللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمن کے دو سو فوجیوں کو گھیر لایا تھا۔ 

سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کی شام کوئی پاکستانی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ ہمارے ۹۲،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مگر ایسا ہوا اور ایسا کرنے والا اس وقت کا کمانڈر انچیف اور ایسٹرن کمانڈ کا جنرل تھا۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تو اپنا پستول دشمن جنرل کے حوالے کر کے قید ہو چکا تھا مگر راولپنڈی میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمدیحیی خان سے جب زبردستی استعفیٰ لیا گیا تو وہ شراب کے نشے میں دہت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید بن معاویہ شرابی تھااور شراب کے نشے میں چھڑی سے ایک متبر ک اور پاکیزہ کٹے ہوئے سر کو ٹھکورا تھا۔ یہ چھڑی بڑی ظالم شے ہے تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ڈہاکہ کے پلٹن میدان میں نیازی سے پستول لینے سے بھی پہلے اس کی چھڑی لے لی گئی تھی۔جب مغربی پاکستان میں چھڑی کے خلاف بغاوت ابھری تو یہاں بھی چھڑی والے سے چھڑی لے لی گئی۔مگر پاکستان کے فوجی جوانوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو شہید نے مغربی پاکستان میں انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر فوجی جوانوں سے کہا تھاکہ یہ شکست فوجی شکست نہیں ہے بلکہ سیاسی شکست ہے۔ یہ بھٹو کا نعرہ تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔فوج ہتھیاروں کے بل بوتے پر لٹرتی ہے اور اسے جذبہ اپنی قوم مہیا کرتی ہے۔ہتھیار اپنا ہونے کا فلسفہ ۱۹۴۷ ہی میں پاکستانیوں کو سمجھ آ گیا تھا جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے حملہ کیا تو نظام نے جو نقد رقم دے کر بندوقیں خریدیں تھیں میدان عمل میں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت زمینی حالات یہ ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ا ہو یا نہ ہو مگر سبز ہلالی پرچم کے لیے چیر پھاڑنے کو بے تاب ہے۔ ۲۲ کروڑ لوگ ان کی پشت پر صرف زبانی نہیں کھڑے بلکہ نصف صدی تک تین نسلوں نے گھاس کھا کر اپنے فوجیوں کے لیے وہ بندوق تیار کر کے رکھی ہے۔جو چلے تو چاغی کے سب سے بڑے پہاڑ کو خاکستر کر کے رکھ دے اور دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بندوق کے موثر ہونے کی گواہی دیں۔ 

ہماری فوج وہ ہے جو تین دہائیوں سے دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ہماری دو نسلیں تو پیدا ہی دہماکوں کے دوران ہوئی ہیں اور بموں سے کھیل کر جوان ہوئی ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بوڑہے اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں کو دفنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جوان خون وطن کی مٹی میں ہی جذب ہوا ہے۔
سابقہ ایک سال میں اس ملک خداداد پر کون سا کالا جادو کیا گیا ہے کہ فوجی جوان حیران ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے؟

عوام یہ جان کر دانتوں میں انگلی دے لیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست فاش دی جا چکی ہے۔ پاکستانی عوام جو اداروں سے مایوس ہو چکی ہے سوائے پاک فوج کے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اور اس کی پریشانی کا سبب کوئی راز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد جو لوگ عوام پر مسلط کیے گیے ہیں۔ وہ حکمران چور اور ڈاکو بن گئے ہیں۔عوام نان جویں کر ترس رہی ہے۔ ۔ نوجوان اپنے مستقبل سے نا امید ہو چلا ہے۔ عام ٓدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔اداروں کے کرنے کے کام سوشل میڈیا فورس کے حوالے کر دیے گٗے ہیں۔ 

اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکو آصف علی زرداری بتایا جاتا ہے مگر اس کے دور میں تو زندگی معمول پر تھی۔ ہمساٗے رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھا کرتے تھے۔ دشمن منہ کھولنے سے پہلے کئی بار سوچا کرتا تھا۔ سب سے بڑا چور نواز شریف بتایا جاتا ہے۔ عدالت نے تو اس کو اقامہ پر سات سال کے لیے جیل میں بھیجا ہوا ہے۔ اگر اس نے چوری کی ہے تو برآمد کیوں نہیں ہو رہی۔مگر اس کے دور میں بھی عوام کی امید کی ڈوری مضبوط ہی ہوئی تھی۔ کیا ملک کے میں موٹر ویز کا جال نہیں بچھایا گیا۔ میڑوبسوں کا چلنا اس خطے میں منفرد کام نہ تھا۔لاہور میں اورنج ٹرین پورے بر صغیر میں نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ کیا چوری کا شاخسانہ ہے۔

۔یہی مودی جو پاکستانی حکمرانوں کا فون اٹھانے کا روادار نہیں ہے خود چل کر لاہور آیا تھا۔ اس کے پیش رو نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کچھ اعترافات بھی کیے تھے۔

ہمارے حقیقت پسند وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستانی احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ حالانکہ پاکستانی خود کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے احمقوں کی جنت میں وہ رہتے ہیں جو پاکستان کو مصر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو اس بیانئے پر یقین ہے کہ فوج اور پولیس میں ہمارے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ عوام اور فوجی جوانوں کا خون ایک ہے۔ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بندوق لے کر نکلیں گے تو پورا پاکستان ان کی دفاعی لائن کو قائم رکھے گا۔ ہمارے سپہ سالار کا فرمانا ہے کہ اخلاقی قوت عسکری قوت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا موجودہ مسلط کردہ حکمران قوم کو اخلاقی طور پر متحد کر رہے ہیں یا عوام اور افواج پاکستان میں غلط قہمیوں کے بیج ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے صرف منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔یہاں تو اقتدار کو ایسے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں جن کو عدالتوں نے ناہل قرار دیا ہوا ہے۔ 

یہ بیانیہ البتہ قابل قبول نہیں ہے کہ جو موجودہ حکومت کے جھوٹ کو سچ نہ مانے وہ دین کا منکر اور پاکستان کا غدار ہے۔ جو انصاف کے معیار پر انگلی اٹھائے اسے عدلیہ کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سن کر انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر ظلم اور بے انصافی کا راج ہو گاتو لا محالہ قوم کی سوچ تقسیم ہو گی۔ یہ کیسا اجینڈا ہے جو عوام کو گروہوں میں بانٹ کر مایوسی کی آبیاری کررہا ہے اور امید کی ٹہنیاں کاٹ کرجلا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ ایشیاء ٹائیگر بننے سے انکار کر کے عوام کے معاشی ترقی کے عزم کے سیلاب کے آگے بند باندہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے کس منشور کا حصہ ہے۔ لوگ ووٹ منشور کو دیتے ہیں۔ یہاں منشور کو لیٹ کر رکھ دیاگیا ہے۔

غریبوں کی روزمرہ اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین ٹیکس لگا کر رقم جہاز والوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عمران خان کنٹینر پا کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے اوئے شرم کرو۔۔یہ تمھارے باپ کا پیشہ ہے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ۲۰۸ ارب کس کے باپ کا پیسہ ہے جو گیس کے بلوں اور کھاد کی قیمت کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ۴۰۰ ارب کا ٹکہ لگا یا گیا مگر سرکاری خزانے میں کچھ بھی جمع نہ ہوا۔۔

وزیر اعظم کو ایسی خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں، حالانکہ اس صدارتی آرڈیننس کی سمری وزیر اعظم نے قصر صدارت بھیجی تھی۔ جب ٓرڈیننس جاری ہو گیا تو دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے اس کے فضائل بیان کیے اورجب لوگ اس آرڈیننس سے مستفید ہو چکے تو وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔پھر اس نوٹس لینے پر قوالوں کی پوری پارٹی میدان میں اتاری گٗی جس کی سربراہی حفیظ شیخ نے کی۔ 

وزیر اعظم سیاست کو تجارت بنا کر تجارت پر سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں قانون، آئین حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور رزاق داود کے جہازوں میں جلنے والے ایندہن کا جب بھی لیبارٹری میں فرانزک ہوا اس میں غریب عوام کے نچوڑے خون اور محنت کے پسینے کی آمیزش ضرور ثابت ہو گی۔عوام پر ظلم، زیادتی اور بے انصافی پر حکمرانوں نے کان اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں کہ غریب جب روزمرہ استعمال کی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو مہنگائی اسے ایسا کرنٹ مارتی ہے کہ اس کا دماغ شل ہو کے رہ جاتا ہے۔

حکومتی باجوں پر نئی دہن یہ بجائی جا رہی ہے کہ اس کرپشن کا سبب وہ عدالتی اسٹے آرڈر ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں بقول عمران خان یہی کہا جا سکتا ہے اوٗے شرم کرو مگر شرم اور حیا، قانوں اور قانون کی پاسداری سے عملی طور پر حکومت ہاتھ دہو چکی ہے۔