جمعہ، 30 دسمبر، 2022

معجزے کا انتظار



علم دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو کسی واسطہ سے حاصل ہوتاہے۔  جیسے سکول اور یونیورسٹی یا استاد کے واسطے سے۔ علم کی دوسری قسم وہ ہے جو بغیر کسی واسطے سے حاصل ہوتا ہے۔  

بلا واسطہ حاصل ہونے والے علم میں بیمار ہونے کا احساس،  رنج و شادمانی کا احساس  یا جسم کے اندر ہونے والی تبدیلوں کا احساس  اور جانوروں میں تیرنے اور اڑنے کا علم شامل ہے۔ انسان کے نو مولود کو دودھ پینے کا علم بلا واسطہ ہی حاصل ہوتاہے۔ اس کو فطرت اور جبلت کہا جائے تو بھی یہ علم ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ 

بلا واسطہ حاصل ہونے والے علم کو ہمارے مذہبی اساتذہ کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ 

۱۔  عقل

۲۔  وجدان

۳۔  غیبی عطا

غیر مذہبی اساتذہ علم کا خیال ہے کہ بلا واسطہ حاصل ہونے ہونے والے کا منبع 

۱۔  حواس خمسہ

۲۔   جبلت  اور 

۳۔  معلوم علم  و  تجربہ ہے۔ انسان کو معلوم ہے کہ بھیڑیا خونخوار جانور ہے یا خوبصورت نظر آنے والا سانپ موذی ہے تو یہ بات انسان نے اپنے تجربے سے منکشف کی ہے۔  نو مولود کا خوراک کا منبع دریافت کر لینا جبلت ہے۔  کالے اور سفید کا ادراک حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے۔ 

ہمارا تجربہ ہے کہ بخار کی حالت میں ذائقہ دھوکہ دے جاتا ہے۔ حرکت میں نظر دھوکہ کھا جاتی ہے۔ حواس خمسہ حالات و ماحول کی تبدیلی سے  مشابہت اور مماثلت سے دھوکا کھاتے ہیں۔ 

عقل جب دنگ رہ جائے تو ہم اس کو اپنے وجدان سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بات پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مذہبی اساتذہ اسے غیبی عطا قرار دیتے ہیں۔

عقل سے اونچی سیڑھی کو وجدان کہا جائے تو اس کا سفر عدم سے وجود کی طرف ہوتا ہے۔  

ایلس ہووے  Alias Howe (1819 - 1867)کی سلائی مشین کی ایجاد کی کہانی میں خواب والا واقعہ اگر سچ ہے تو یہ وجدان ہی تھا جو عدم سے وجود میں آیا تھا۔ 

اس سے اوپر کی سیڑہی پر غیبی علم کا مقام ہے۔ ہر وہ علم جو بلا واسطہ حاصل ہو، عقل کو تسلیم کرنے میں تامل ہو مگر اس سے انکار نہ کیا جا سکے۔ غیبی 

علم کہلاتا ہے۔ ملکہ صبا کے قصہ میں بلقیس کے تخت کا سلیمان کے دربار میں آ جانا علم غیب ہے۔ اس مضمون میں ہم علم غائب پر ہی بحث کرینگے۔ ایسے واقعات کو معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔ موسی علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا معجزہ تھا اور قیامت تک معجزہ ہی رہے گا مگر بلقیس کے تخت کا سلیمان کے دربار میں حاضر کر دینا معجزہ نہیں تھا۔اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عفریت (جن کی ایک قسم) نے اس تخت کو لادینے کی پیشکش کی تھی جو رد ہو گئی تھی مگر یہ بتایا گیا کہ سلیمان کی کابینہ کے ایک ممبر آصف بن برخیا کے پاس علم تھا۔ جس عمل کا تعلق علم سے ہو وہ معجزہ نہیں ہوتی۔بلکہ کتاب میں اس قصہ کو بیان کر کے انسان کو ایک راہ دکھائی گئی ہے کہ علم کی یہ بھی راہ ہے جس کو کھوجنا ابھی باقی ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کو اس قابل کر دیا ہے کہ نصف صدی میں اس نے صدیوں کا علمی و تحقیقی سفر طے کر لیا ہے۔ مادے کو  توانائی میں تبدیل کرنے پر بحث کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اسی صدی میں انسان علم کی اس معراج تک پہنچ جائے جہاں مادے کو توانانی اور واپس توانائی کو مادے میں تبدیل کرکے عمل غیب کو علم شہود میں تبدیل کر دے۔ 



ہفتہ، 24 دسمبر، 2022

موتی اور قیراظ



میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔

ان کو پہنانے جائین گے سونے کے کنگن اور موتی  اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہے"  (الحج:23)

 سونا موتی اور ریشم خوشحالی کی علامات ہیں۔ خوشحال ہو کر انسان دو میں سے ایک قسم کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ اپنی انکساری کے معترف ہو کر شکرگذاری میں اضافہ کرلیتے ہیں۔اس حالت کی ترجمانی حضرت ابو حریرہ ؓ کی روائت میں بخاری شریف میں ذکر ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اللہ حضرت ایوب علیہ السلام  برہنہ ہو کر نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنا شروع ہو گئیں۔ ایوب نے انھیں کپڑے میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا تو ان کے رب عزوجل نے آواز دی اے ایوب کیا میں نے تجھے اس چیز سے جو دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کر دیا؟ عرض کیا ہاں کیوں نہیں، اور تیری عزت کی قسم تیری برکتوں سے مجھے استغنا ء نہیں ہے۔

غربت اور قناعت دو مختلف چیزیں ہیں۔ صبر او ر محرومی میں واضح فرق ہے۔ ہوس اور استغناء کا اکٹھ ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہش ہر دل میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کی پیدائش پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ ان پر مٹی ڈالنے کو تعلیمات کی تاویلات سے جوڑا جاتا ہے۔ 

میرا ایک دوست ہے جس کی رہائش گیٹیڈ کمیونٹی کی ایک کالونی میں ہے۔ آرام دہ گھر ہے۔ برآمدے کے سامنے کئی گاڑیاں بمعہ ڈرائیور ہر لمحہ خدمت بجا آاوری کے لیے مستعد ہیں۔ دفتر اچھے علاقے میں ہے۔ چلتے کاروبار میں سے اس نے سیکڑوں ایکڑ زمین خریدی ہوئی ہے۔ اس کے گھر میں ہم بچپن کے دوست اکثر اکٹھے ہو کر اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے گھر سے واپسی پر ہر بار ہمارا موضوع سخن اس کی دولت ہوتی ہے۔ اکثر دوست میری اس توضٰیح سے اتفاق نہیں کرتے کہ جب ہم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کو کامیابی کا یقین بنائے ہوئے تھے۔ اس وقت اس نے کمپیوٹر سیکھنے کا ڈول ڈالا ہوا تھا۔ جب ہم ٹی وی خریدنے کو دنیا کی سب سے بڑی عیاشی گردانتے تھے۔ اس نے وقت وہ کمپیٹوٹر خریدنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ ایک بار اس کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسی کے ڈرائیور نے بتایا   "وہ ولی اللہ ہے" ۔  گھریلو ملازم کی شہادت بہت وزنی ہوتی ہے۔ اس شہادت کے بعد میں نے تنقیدی عینک پہن کر اس کو دیکھنا شروع کیامگر سالوں بعد بھی قابل بیان قابل گرفت عمل نہ ڈہونڈ پایا تو اعتراف کرنا پڑا کہ ذاتی انکساری کا معترف ہو کر شکر ادا کرنا ایسا عمل ہے جس کے باعث اسے ہر ماہ ڈالر میں چیک وصول ہوتا ہے۔ 

میرے دوستوں میں سے ایک کی ملازمت سہولت والی ہے۔ روٹی کپڑا مکان ہی نہیں ماہانہ مشاہرہ بھی ادارے کے ذمہ ہے۔ اس کے پاس وقت کی فراوانی اور کتب کی کثرت ہے۔ علم اس کا ایسا کہ بحث میں کسی کو "پھڑکنے"  نہ دے۔ ایک بار اس نے مجھ سے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی "دعاوں کی نا مقبولیت" کا گلہ کیا تو اچانک میرے منہ سے نکلا کام بدل لو شائد تمھارے حالات بدل جائیں۔ اگلے ہفتے وہ مجھ سے ملنے آیا تو اس کے پاس رکشہ تھا۔ میں نے پوچھا رکشہ چلاتے شرم نہیں آتی  اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ میری نظرشرمندگی سے نیچی ہو گی۔ آج وہ اچھے علاقے میں رینٹ اے کار کا دفتر کھولے بیٹھا ہے۔ وہ اپنی دینی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ساتھ احسان کی رسم بھی پوری کر رہا ہے۔ آخری بار عمرہ کر کے آیا تو اس کا کہنا تھا  "اللہ بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے"  تو مجھے سالوں قبل اس کا گلہ یاد آیا کہ دعا قبول نہیں ہوتی  "بس انسان کو دعا مانگنے کا سلیقہ آنا چاہئے"۔ 

سلیقہ وژن سے آتا ہے اور وژن  علم کے ساتھ ساتھ میل جول، بات چیت، سفر اور معاملات سے حاصل ہوتا ہے۔ 

دوسری قسم میں وہ لوگ شامل پوتے ہیں جو نصیحت والی کتابیں پڑہتے ہیں۔ الفاظ کا من پسند مطلب نکالتے ہیں۔ تقابلی علم کو ناقص گردانتے ہیں۔ یہ اعمال انھیں کام چور بنا دیتے ہیں۔ اور وہ قسمت، رازق کی تقسیم، نصیب  اور اللہ کا لکھا  جیسے مضبوظ قلعوں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔ خالق کائنات کا حکم ہے  "اور اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت کرتا  لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے۔ اور ضرور تم سے تمھارے کام پوچھے جائیں گے " (النحل:93)۔  سونا، موتی اور  ریشم اگر جنت میں نعمت ہیں تو دنیا میں بھی نعمت ہی کہلائیں گے۔

میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔


جمعرات، 22 دسمبر، 2022

رحم اور نرم دل



ذعلب یمنی نے حضرت علی سے سوال کیا تھا کہ کیا آُ پ نے خدا کو دیکھا ہے۔حضرت علی نے جواب میں خدا کی صفات گناتے ہوئے فرمایا تھا کہ "وہ رحم کرنےوالا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا

پاکستان کی سپریم کورٹ میں توہین عدالت  کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بنچ کے ایک ممبر جج نے ملزم  (عمران خان) بارے کہا کہ ہو سکتا ہے ہمارا حکم ان تک پہنچا ہی نہ ہو۔ یہ رحم ہے  مگر جب خطبہ جمعہ کے دوران ایک پھٹے لباس والا پردیسی مسجد میں آکر بیٹھنے لگے  اور اسے کہا جائے کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کر لو اور خطبہ بھی روک دیا جائے تو تمام نمازیوں کی نظرین لامحالہ اس کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کرنے والے پر ہی ہوں گی۔ نمازکے خاتمے پر کئی افراداسے لباس لا کر پیش کریں تو واعظ کا عمل نرم دلی اور لباس لا کر دینے والوں کا عمل رحم دلی ہے۔ نرم دلی کا تعلق احسان سے ہے۔ جبکہ رحم کا تعلق انصاف سے ہے۔ 

اللہ تعالی بہترین منصف ہے۔ بہترین اس لیے کہ وہ انصاف کرتے وقت رحم کو اپنے دائیں ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اپنے لخت جگر کو ماں ڈانٹتی اور سزا بھی دیتی ہے مگرسزا پر مامتا غالب رہتی ہے۔ اللہ تعالی جب اپنے ہی بندے کی سرکشی پر اس کا محاسبہ کرتا ہے تو اسے پکر کر جہنم  (جیل) میں نہیں ڈال دیتا۔ انصاف کے لیے جو عدالت سجاتا ہے اس کا آخری فیصلہ خود کرتا ہے۔ گواہوں کو سنتا ہے۔ کہہ مکرنیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ 

قاضی یحیی بن اکثم  بن قطن المزروی   ((775-857  جو اپنے وقت کے نامی گرامی چیف جسٹس تھے۔کے بارے میں کئی کتب میں درج ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کی بخشش کا معاملہ الجھ گیا تو انھوں نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ میں نے زندگی میں عبد الرزاق بن حسام سے سنا تھا اور انھوں نے معمر بن راشد سے، انھوں نے ابن شہاب زہری، انھوں نے انس بن مالک، انھوں نے آپ کے نبی سے اور انھوں نے جبریل سے سنا کہ آپ کا حکم ہے  کہ میرا وہ بندہ جسے اسلام  میں بڑھاپا آجائے اسے عذاب دیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔ میں دنیا میں اسی سال گذار کر آیا ہوں۔ اللہ نے کرم کیا اور مجھے جنت میں لے جانے کی حکم صادر فرما دیا۔۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک بدو  نے پوچھا  یا رسول اللہ قیامت کے دن مخلوق کا حساب کون لے گا  اسے بتایا گیا کہ اللہ تعالی تو بدو نے قسم کھا کرکہا پھر تو ہم نجات پا گئے۔ 


دنیا بھر میں عدالتیں ملزم کو شک کا فائدہ دیتی ہیں۔چھوٹے  منصف (مجسٹریٹ)  بعض اوقات کسی نوجوان گناہ گار کو معاف کر کے اسے سدھرنے کا موقع دیتا ہے۔ سیشن جج ثبوت مہیا ہو جانے پر قاتل کی سزا اتنے بھاری دل سے لکھتا ہے کہ اس کا قلم ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ جج نے ایک بار مجھے بتایا تھا مجرم اپنے خلاف اتنے قوی ثبوت چھوڑ جائے کہ جج پھانسی چڑھانے پر ایسے مجبور کر دیا جائے کہ وہ انصاف سے جڑا رحم والا عنصر بھی لاگو نہ کر سکے تو جج  قلم نہیں توڑے گا تو کیا اپنا سر پھوڑے گا۔بے شک اللہ تعالی  رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ 


منگل، 20 دسمبر، 2022

ایک اور خط



چند عشرے قبل تک خط رابطے کا موثر ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ملک کے اندر عام طور پر خط تین دن میں پہنچ جاتا تھا  اور بیرون ملک خط سات دنوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ لیکن تاریخ میں خط کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے۔کربلا میں شہید کر دیے جانے والے نواسہ رسول حضرت امام حسین کے نام اہلیان کوفہ کے لکھے گئے خطوط کا ذکر کیے بغیر واقعہ کربلا مکمل ہی نہیں ہوتا۔

 اس سے قبل خلفائے راشدہ دور کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفوان کی شہادت میں خطوط نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خلیفہ کے مخالفین کی سیاسی حکمت عملی کے تحت ہوا یہ کہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کو خطوط میں بتاتے کہ مدینہ منورہ  میں خلیفہ وقت کرپشن،  اقربا پروری میں مبتلا ہو کر بے انصافی کر رہے ہیں۔ اسی مضمون کے خطوط مصر والے بصرہ والوں کو اور بصرہ والے کوفہ والوں کو لکھتے۔ جس سے مدینہ سے دور بسنے والے مسلمانوں میں بھائی چارے کے جذبے تحت مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوئی اور مختلف شہروں سے نوجوان مدینہ المنورہ پہنچنے شروع ہوگئے۔ تاریخ نویسوں نے واقعہ شہادت عثمان میں خطوط کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا۔

موجودہ دور میں خط لکھنا متروک عمل ہے مگر سیاسی مقاصد کے لیے یہ کام  2022میں کیا گیا۔ ہوا یہ کہ پاکستان کے ایک صحافی ارشد شریف ((1973-2022  کینیا میں قتل کر دیے گئے۔ارشد شریف کے قتل کا الزام ایک سیاسی جماعت ایک پاکستانی ایجنسوں پر لگاتی اور جواب میں یہی الزام ایک سیاسی رہنما پر لگایا جاتا۔ البتہ حکومت نے ایک تفتیشی ٹیم بنائی مگر سیاسی جماعت بضد تھی کہ اس قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور مقدمے میں ان افراد کو نامزد کیا جائے جن کا نام وہ لیتے ہیں۔ پہلے یہ مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس مہم کی ناکامی کے بعد یہ مہم  خطوط کے ذریعے چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت عدالت عظمی کو خطوط لکھے گئے ۔خط لکھو مہم کامیاب ہوئی،  عدالت عظمی نے ان خطوط کا نوٹس لیا اور پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ یوں اس ڈیجیٹل دور میں خطوط کو ایک بار پھر سیاسی طور پر کامیابی سے استعمال کیا گیا۔


پیر، 19 دسمبر، 2022

متھ تھن جن



شسط کا لفظ ہم نے پہلی بار اپنے نوجوانوں کے مبینہ لیڈر جناب عمران خان نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیا تھا۔ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ قوم کی تربیت کر رہے ہیں اس لیے ان کی سیاسی،  تقریر کم اور لیکچر زیادہ ہوتی ہے۔ اوراپنے لیکچرز میں ایک ہی بات کو بار بار دہرا کر اپنے زیر تربیت نوجوانوں کو ازبر کرا دیتے ہیں۔ اور آفرین ہے ان نوخیز ذہنوں پر جو تعلیی مواد تو ازبر نہیں کر پاتے مگر ان لیکچروں میں دیے گئے بیانیوں کو فوری ازبر کر لیتے ہیں۔ ہم نے سنجیدگی سے، تعلیم سے وابستہ اپنے دوست اساتذہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خان صاحب کی تیکنیک سمجھیں پھر اس پر عمل کر کے اس کامیاب عمل سے اپنی اپنی کلاس کو مستفید کریں۔ لیکن میرے دوستوں نے بھی میرے مشورے کو سیاسی مذاق ہی جانا۔ 

آمدم بر سر عنوان، تو عرض کر رہا تھا کہ لفظ شسط پنجابی زبان کا لفظ ہے۔ اردو ہماری نہ عمران خان کی مادری زبان ہے۔ ہم  اکسفورڈ سے کسی بھی مضمون میں ڈگری حاصل کر لیں مگر رہیں گے وہی جہاں کے ہیں۔اور انگریزی بولنے کی فوجی تکنیک یہ ہے کہ جہاں آپ کو انگریزی کا لفظ نہ یاد رہے تو گفتگو کو روکیے نہیں بلکہ کسی بھی دوسری زبان کا لفظ استعمال کر لی جئے۔ اس تکنیک کو ہم نے فوجی اس لیے کہا ہے کہ ایک بار ہم نے دیکھا فوج کا ایک صوبیداراپنے سپاہوں کو انسپیکشن کے لیے تیار کر رہا تھا۔انسپیکشن فوجیوں کی نہیں بلکہ ان کے زیر استعمال ہتھیاروں  (ٹولز) کی تھی۔ صوبیدار نے ہدائت کی اگر آپ اپنے سینئر افسر کے سامنے نروس ہوکر ٹول کا انگریزی نام بھول چکے ہیں تو بھی آُ پ نے خاموش رہنا ہے نہ جواب کا تسلسل توڑنا ہے۔ بلکہ ایک لفظ ابھی سے ازبر کرنا شروع کر دیں۔ متھنجن۔ متھ  تھن جن ۔ اور مزید تشریح کی کہ جب آپ متھ انجن کا لفظ استعمال کریں گے تو سینئر افسر آپ کو کچھ کہنے کی بجائے میری طرف دیکھے گا۔ جب اس نے مجھے دیکھ لیا تو آپ کا کام ختم میرا کام شروع اور مجھے معلوم ہے کہ صورتحال کو کیسے قابو میں رکھنا ہے۔ 

عمران خان صاحب جو دوسری بہت ساری باتوں کی طرح اردو کو بھی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ مگر بھول چوک ابن آدم کی مٹی میں شامل ہے۔ ہمیں فخر ہے خان صاحب رکے یا ٹھٹھکے نہیں بلکہ انھوں نے اپنی تقریر میں متھ تھن جن استعمال کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اردو کو بھی دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔


اتوار، 18 دسمبر، 2022

گنجا




ہالی وڈ میں  Yul Bryner (1920-1085)   نام کا ایک  روسی نژاد  اداکار تھا۔اس نے روس سے امریکہ ہجرت کی اپنے اداکاری کے فن کو چارہزار سے زیادہ سٹیج  پر ومارمنس کے ذریعے منوایا اور کامیاب اداکاری کر کے کئی ایوارڈ جیتے۔ اس نے انیس سو اکیاون میں ایک فلمی کردار  King and Iکے لیے اپنا سر منڈوا لیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مرتے دم تک ہمیشہ ٹنڈ ہی کرائی۔ اس کے مشکل نام کی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام گنجا رکھ لیا تھا۔ 

اس نے اپنی زندگی میں ایک انٹر ویو میں بتایا تھا  اس نے کہا میرا تعلق روس کے ایک قبیلے سے ہے اور قبیلے کی روائت تھی کہ دوسرے قبیلے کے ساتھ جنگ میں اگر ہمارا قبیلہ ہار جاتا تو قبیلے کے سارے مرد اپنا سر منڈوا کر ٹنڈ کرا لیتے اور اس وقت تک ٹنڈ کرواتے رہتے جب تک قبیلہ اپنی شکست کا بدلہ نہ لے لیتا۔ اس نے مزید کہا  1915 میں جب میرا قبیلہ جنگ کر کے ختم کر دیا گیا تو میں نے ٹنڈ کرا لی۔



بدھ، 14 دسمبر، 2022

مرشد اور گوگل




ہمارے والدین پنجابی بولتے تھے۔ ہم نے بچوں کے لیے گھر میں اردو بولنا شروع کی تاکہ بچے سکول میں اچھے نمبر لیں سکیں۔ ہماری اگلی نسل بچوں کے ساتھ انگریزی اس لیے بولتی ہے کہ وہ انگلش میڈیم سکول میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ میں اس نظریے سے بیزار ہوں۔ سبب یہ نہیں کہ میں انگلش میڈم کے خلاف ہوں بلکہ میری بیزاری کا سبب میرا پوتا ہے جو اردو کے الفاظ کے سمجھنے کے لیے میری انگریزی کا امتحان لیتا رہتا ہے،مسئلہ یہ ہے کہ اس کو اردو کے کسی لفظ کو سمجھانے کے لیے انگریزی کا سہارا لینا پڑتاہے۔ اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں اس کی وہ تقریر تیار کرنے میں مدد کروں جو اسے  روحانیت  کے موضوع پر سکول میں کرنی تھی اور میں نے اس کی درخواست منظور کی تھی۔روحانیت کی مشکل اصطلاحینں اور ثقیل الفاط تو اس نے انٹر نیٹ سے ڈہونڈ نکالے تھے مگر کچھ الفاظ کے بارے اس کا ذہن مطمن نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا (ولی) مذکر ہے یا مونث۔ میں نے کہا مذکر تو اس  کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے۔ ہماری تیسری نسل ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال ایسی بے دریغی سے کرتی ہے کہ وہ میڈیائی میدان میں ہم سے بہت  آگے ہے۔اس کا اگلا  سوال تھا کیا  (مرشد) بھی مذکر ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا  مگر لا جواب ہونے سے بچنے کے لیے میں نے اسے سامنے بٹھایا اور استاو و شاگرد، پیر مرید، مرشد اور سالک پر اسے طویل لیکچر دیا، بتایا   مُرشِد  اورمُرشَد   کا فرق بتایا۔ روحانیت کی تاریخ اور روحانی ہستیوں اور روحانی ادب کا ذکر کیا  اسیے شعر بھی سنائے جو مرشد کے اعلی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
مرشد دا دیدار باھو
لکھ کروڑ حجاں ہو
اور 
میں گلیاں دا روڑا کوڑا
تے محل چڑھایا سائیاں 
اور مرشد کا  مقام بھی بتایا کہ ماں اور باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔اور خدائی طاقتیں اس کے ہم رکاب ہوتی ہیں۔ میرا خیال تھا اسے تقریر کے لیے کافی مواد میسر آگیا ہے اس لیے اسے نصیحت کی کہ خود بھی کچھ محنت کیا کرو اللہ تعالی کی عطا کردہ انگلیوں کو  (کی بورڈ)  پر مارا کرو۔ نوجوان نے ہمت دکھائی اور چار صفحے ماں کے روبرو کھڑے ہو کر پڑہے، ماں سے داد پانے کے بعد مجھ سے داد طلب ہوا۔ میں نے پوچھا استاد اور شاگرد تو ٹھیک ہے پیر و مرید بھی مناسب ہے مگر مرشد و نکا کا کیاہے۔ پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا میں نے خود ہی اسے "کی بورڈ" پر انگلیاں مارنے کا کہا تھا۔ گوگل کے سرچ انجنوں نے وہی کچھ اگلنا ہوتا ہے جو ان میں فیڈ کیا گیا ہو۔ اور مشین نے مرشد کا متضاد اگلا تھا  "نکا


و ما علینا الاالبلاغ




ایک انار سو بیمار کا محاورہ اس لیے پرانا ہو گیا ہے کہ اب آبادی بہت بڑھ چکی ہے اور انار مہنگے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کے اندر پیدا ہونے والے انار ناکافی ہوتے ہیں تواس کمی کو پورا کرنے کے لیے انار باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ باہر سے منگوائے انار کا معیار اور تعداد ہی نہیں قیمت بھی مقتدر قوتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ درآمدی انار ہی نہیں کرسی کے بیمار بھی اس معیار پر پورے اترتے ہیں 

مقتدر قوتوں بارے تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں ایک صاحب راز نے کہا تھا (پاکستان میں مقتدر قوتیں ہمیشہ اقتدار میں ہوتی ہیں اور جب  اقتدار میں نہیں ہوتی تو زبردست اپوزیشن کرتی ہیں) وہ صاحب پاکستان کی معیشت کو کھانے والے کیک سے تشبیہ دے کر کسی کے حصے کی بات کر رہے تھے۔ ٹویٹ داغنے اور ڈیلیٹ کرنے کا قصہ چھیڑا ہی تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے ان کی زبان بند کر دی تھی۔ وہ زبان تو بند ہوگئی مگر اب عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد بہت ساری زبانیں بے لگا م ہو چکی ہیں۔ بے لگام ہونے کی اصطلاح گھوڑے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کی مثال گھوڑے ہی جیسی ہے جو کاٹھی ڈال لے اسی کی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں جمہوریت ہے۔ دونوں ہی عوام کے آستانے سے راندہ درگاہ ہیں۔ جن دنوں ایم کیو ایم کے گھوڑے پر الظاف بھائی نے کاٹھی ڈالی ہوئی تھی۔ مقتدرہ نے کاٹھی کی زیریں بلٹ خنجر سے کاٹ دی۔اس کامیاب تجربے کے بعد نون لیگی شہسوار کو اسی تکنیک سے گرایا گیا۔ اب کپتان بھی کہتا ہے اچھے بھلا سواری کر رہا تھا۔ پہلے تو فوج کا نام لیا پھر ایک جرنیل پھر تین جرنیل پھر بیس لوگوں کا نام ادھر ہی سے آ رہا ہے۔ یہ بیس ہیں یا ڈیڑھ سو یا پانچ سو، سب سنی سنائی کہانیاں ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی طبقہ پاکستان کا مقتدرہ ہے۔ اسی مقتدرہ کا، گلہ،  اسلام آباد کی عدالت کا برطرف شدہ جج کرتا پایا جاتا ہے۔ عدالت عظمی کا ایک حاضر جج اور اس کا خاندان بھی اپنے آپ کو اس مقتدرہ کی گرفت سے مشکل سے بچاتا ہے۔ سیاستدان تو عوام کے کھیت کی وہ مولی ہے جس کو کرپٹ اور غدار کہہ کر ہمیشہ ہی کاٹا گیا ہے۔ اسی مقتدرہ کے اشارے پر صحافیوں کو شمالی علاقوں کی سیر کرائی جاتی ہے بلکہ گولیاں تک مار دی جاتی ہیں۔ عوام جو دن کی ابتدا ہی جنرل ٹیکس کی ادائیگی کر کے کرتی ہے، اس کو حکومت میں شمولیت کا احساس ہوتا ہے نہ اس کے ووٹ سے منتخب نماہندوں کو۔ مقتدرہ کے، بظاہر، دباو پر قومی اسمبلی کے منتخب وزیر اعظم  کی  انتظامی افسروں کی تعیناتی کو عدالت موٹے شیشوں والی عینک لگا کر دیکھتی ہے مگر ایک صوبے میں ہونے والی غیر آئینی قانون سازی کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ ریکوڈک حرام مگر رق وڈق پکار کر حلال کر لیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو شکائت ہے عدلیہ کو ان کے اور عوام کے ججوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایسی تقسیم پولیس میں بھی بتائی جاتی ہیں اور ایک انتظامی افسر کو مرکزی حکومت کے احکام کو نظر انداز کرتے عوام کی آنکھوں نے خود دیکھا۔ دوسری طرف صوبے سے پولیس کے سربراہ کو اسلام آباد  عدالت میں بلا کر بے توقیر کیا جاتا ہے۔ عوام پریشان ہے اور آئین اور قانون کے طالبعلم حیران ہیں کہ ادارے اپنے حصے کا کام کرنے کی بجائے دوسرے اداروں پر انگلی اٹھانے کو جوان مردی کیوں سمجھتے ہیں۔بہرحال کچھ سبق عوام کو ازبر ہو چکے ہیں 

لوگ جس زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں *

لوگ جس جگہ رہنا چاہیں انھیں رہنے دیا جائے *

انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے *

ٓآئین میں کی گئی مثبت ترامیم کو قبول کیا جانا چاہیے *

سسٹم کو چلنے دیا جائے اور سہولت کاری کا رویہ اپنایا  جائے *

جس ادارے کا جو کام وہ اسی پر توجہ دے *

پچھتر سالوں میں جس بات پر عوام متفق ہو چکی ہے۔ اس کے اعتراف اور عمل درآمد پر کیا مزید پچھتر سال لگیں گے۔ وقت بتاتا ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔ دیکھنے اور سننے، لکھنے اور پڑہنے، سیکھانے اور پڑھانے ۔۔۔ سب کچھ ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا انٹر نیٹ کے بادل پر سوار ہو کر انسان کے ہاتھ میں اٹھائے موبائل پر اتر چکی ہے۔ اس وقت  محکوم ذہنی طور پر حاکموں سے آگے نقل چکے ہیں۔ شہسوار، گھوڑے، خنجر اپنی جگہ موجود ہوتے ہوئے اپنا کردار کھو چکے ہیں۔ تصویر کبھی ممنوع ہوا کرتی تھی مگر کیمرہ مجبوری بن چکا ہے۔ 

جس پر عوام متفق ہو چکی اس کا اعتراف کرنے ہی میں زندگی ہے۔ اعتراف معافی کی طرح ہوتا ہے اور معافی انسان کو با کردار بناتی ہے۔ جو معافی نہیں مانگتا اسے خالق معاف کرتا ہے نہ مخلوق۔

انار مہنگے اور کم ہیں مگر عوام کا قلب وسیع اور خالق کی رحمت سب جہانوں پر غالب ہے۔


ہفتہ، 10 دسمبر، 2022

قوم بنانے کا عمل



پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کی جائے تو ایک سال کے عرصے میں ہی قوم بننے کی بجائے لوگ کرپٹ ہو گئے۔ اسی لیے پروڈا 

 (Public Reresentation Fooce Disqualification Act)

سولہ جنوری 1949کو متعارف کرایا گیا مگر لاگو  اگست 1947 سے کر کے لوگوں کو قوم بنانے کا کیمیائی عمل شروع کیا گیا۔یہ پہلی سعی تھی۔

دوسری سعی1954 کا آئین  پھاڑ کرڈسٹ بن میں ڈال کر اور تیسری اور کامیاب کوشش   1958   میں ایک شجر تناور کا بیج  بو کر کی گئی۔بارہ سال کی نگہداشت اور آبیاری کے بعد1970کے الیکشن میں عوام نے مگراس مشجر مقدس کی جڑوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ بنگالی اپنے بنگلہ کو چل دیے  توپاکستان میں 1971کے بعد عزم نو پیدا ہو۔ بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت نے پارلیمان کی طاقت سے عوام کو روشناس کرایا ، مختلف طبقات کو اکٹھے ہونے اور بولنے کی آزادی دی۔بولیوں میں سب سے اونچی اواز لاوڈ سپیکر کی ظاہر ہوئی۔ باقی سب اوازیں دب گئیں۔ 1979میں بھٹو کو  ٹھکانے لگا کر صاحبان صوت مکبر کے دلائل پر عمل شروع ہوا تو راز کھلا لاوڈ سپیکر مسجد کے مینار پر آسمان سے نہیں اترتا بلکہ بازار سے خریدا جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے  اپنے لاوڈ سپیکر خرید لیے شور زیادہ بڑھ گیا تو اونچائی پر ٹانگے لاوڈ سپیکر کو گولی سے اڑا کر سکون حاصل کیا گیا۔ گولی کا چلن ہوا تو کلاشنکوف مارکیٹ میں آ گئی۔ کلاشن کوف کی گولی نے شکل دیکھی نہ قابلیت قد ماپا نہ قومیت جانچی۔ سبق مگر یہ حاصل ہوا اس ملک کے باسی سخت جان ہیں۔ جا ن سے مارنے سے بہتر ہے افہام و تفہیم سے کام لیاجائے۔ پارلیمان کھول دی گئی۔1973کے آئین پرلپٹے سبز غلاف کو اتار کر کر چوم لیا گیا۔ کتاب کی شکل پر بنی عدالت  کی عمارت کے دروازے پر لگی میزان کو  عدل سلیمانی کا استعارہ بتا دیا گیا۔ الیکشن ہو گئے۔ زندگی رواں دوان ہوگئی۔ لوگ تعمیر و ترقی کی باتیں کرنے لگے نوجوان اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے۔ تاریکی روشنی میں بدلنا شروع ہو گئی۔ ذہن کھلنا شروع ہو گئے۔قلب وسیع ہوئے۔ فرقہ بندی، جتھہ سازی اور مردہ باد کو لوگوں نے رد کرنا شروع کر دیا۔ 

ہم مشرقی لوگ توہم پرست نہیں مگر ہماری لوک کہانیوں میں غیبی آوازوں، آسمانی صداوں اور ماوراء عقل واقعات اور پل بھر میں حالات بدل جانے کے واقعات کی بھرمار ہے۔ ہم شے کو دیکھنے سے پہلے اس کے سائے کا مطالعہ کرتے ہیں اور شے کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے ہی لوگ انگلی منہ میں دبا لیتے ہیں۔ مگر اس بار نقاش اکیلا نہیں تھا۔ کہانی نویس ساتھ تھے۔ ایکٹر تربیت یافتہ تھے۔ ڈائریکٹر صد سالہ تجربہ رکھتے تھے۔ کیمرے جدید تر اور کیمرہ مین اپنے کام کے ماہر تھے، وسائل کا عالم یہ کہ سوچ پیدا ہو تو تعبیر سامنے دکھا دی جائے۔ جب زندہ انسان کو لوگوں کے سامنے مار کر زندہ کر دیا جائے تو کون کافر یقین نہیں کرے گا۔انسان کی فطرت ہے کہ اس کو میسیج کر کے بتایا جائے کہ اس کی دس ملین ڈالر کی لاٹری بغیر ٹکٹ خریدے نکل آئی ہے۔ اس سوٹ کیس کی تصویر بھی دکھا دی جائے جس میں ڈالر رکھے ہیں۔ ڈالروں کی ویڈیو دکھا کر لوگوں کی زندگی میں آئے امیرانہ انقلاب کی کہانی بھی سنا دی جائے تو پچیس سال کے تعلیم یافتہ مگر دولت سے محروم ایم فل کیے نوجوان کی عقل بھی ماوف ہو جاتی ہے اور وہ اٹھ سو ڈالر کے بدلے دس ملین پانے کی خواہش کو دبا نہیں پاتا۔ 

موجودہ دور میں لوگوں کی محرومیوں، خواہشوں، امنگوں، خوابوں اور جذبات کو خریدا جاتا ہے۔ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ انسان شناخت ظاہر کیے بغیر دل و ماغ کھول کر ایسے کھیل میں شامل ہوجاتا ہے جہاں سامنے والا کھلاڑی ماہر ہوتا ہے۔ اس کی پشت پر علم و ہنر کی بہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ وسائل کی چپ اس کے کارڈ نمبر سے منسلک ہوتی ہے۔ وہ اکیلا نہیں ہوتا اس کو پروموٹ کرنے والے غیر ہی نہیں آپ کے جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات آپ جو کچھ کرتے ہیں وہ صیغہ راز میں ہی رہتا ہے۔

ہر وہ کام جو راز میں رکھا جائے غلط نہیں ہوتا مگر ہر غلط کام کو راز میں رکھاجاتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ کیا ہوا 

  ٭  وہ پارلیمان جس کو قائد اعظم نے عزت دی تھی  اس پر چار حرف بھیجے گئے۔  

  ٭ میزان عدل کو پیاز تولنے والی (ترکڑی)  بنا ڈالا گیا۔

  ٭خبر نکالنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ گولیاں کھانے والے لفافہ بتائے گئے

  ٭سیاستدان جنھوں نے مالی اور جانی قربانی دے کر آئین کو بچایا کرپٹ مشہور کر دئے گئے۔

  ٭وہ آئین جو ملک کو متحد رکھے ہوئے ہے اس کو مولفوں کے حوالے کردیا گیا

  ٭وہ جج جنھوں نے اپنے حلف کی پاسداری کی ان کو بے توقیرکرنے کی کوشش کی

  ٭ قابل اور تربیت یافتہ پرعزم پولیس آفیسران کو دارلحکومت کے وسط میں پھینٹا لگایا گیا

  ٭ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کو ممکن بنانے والوں کو ڈاکو کہا گیا

  ٭ نوجوانوں میں علم کی پیاس جگا کر نادار  او ر  لائق طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والوں کو چورکہا گیا

  ٭ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فیصل مسجد کے صحن میں عوام کی بنائی قبر میں اتارنے سے روک دیا گیا

  ٭ ملکی ترقی کے لیے تن من سے کام کرنے والوں کے خلاف بدنامی کے ڈھول  پیٹے گئے 

  ٭نوجوانوں سے امید چھین کر مایوسی بانٹی گئی

  اب عوام پر راز کھل چکا ہے کہ یہ وہی تجربہ کار ٹولہ ہے جو کبھی ترکی میں خلافت گراتا ہے۔ کبھی اسرائیل کی شکل میں مسلمانو ں کے قلب میں چھرا گھونپتا ہے۔ کبھی لیبیا،  و عراق اور شام میں خون کی ہولی کھیلتا ہے۔ مرسی کو لوہے کے پنجرے میں بند کر کے بھوکا رکھتا ہے۔ مگر اپنے مہروں کے لیے جنتی ارضی کا انتظام کرتا ہے۔ حکیم سعید کی شہادت کے شوائد اس لیے چھپا کر رکھتا ہے کہ وہ ان کی سازشوں کو جان گیا تھا۔

پاکستان میں فرعون اور موسی کو سیاسی بیانات میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اور بتایا جاتا  کہ ہے کہ موسی 

(1271-1300 BC )

نے ایک قوم بنائی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسی نے قوم نہیں بنائی قوم پہلے سے موجود تھی۔ انھوں نے تو ایک غیر انسانی فعل بند کرایا تھا۔ اور غیر انسانی فعل یہ تھا کہ فرعون 

(ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کوزندہ چھوڑ دیتا تھا)

 پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کر دی گئی تھی۔مگر اج پاکستانی سمجھ چکا ہے۔ قبیلہ اور خاندان اللہ تعالی کی عطا کردہ پہچان ہے۔ سارے پاکستانی محب وطن ہیں۔ پنجابی کو بلوچی پر اور سندھی کو پٹھان پر برتری حاصل نہیں ہے۔اردو ہو کہ سندھی، پنجابی ہو کہ بلتی، بلوچی ہو کہ ہندکو سب زبانیں پاکستانیوں کی ہیں۔ فرقہ بندی اور جتھہ سازی ہماری کمزوریاں ہیں اور سب سے بڑی کمزوری ڈوبتی معیشت ہے۔ 


جمعرات، 8 دسمبر، 2022

بد اعتمادی کا سبب

 



انتیس فروری دو ہزار بائیس کو اپنی تین سالہ  ملازمت بمع تین سالہ توسیعی مدت پوری کرکے ریٹائر ہونے والے چیف اف ارمی سٹاف ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب پر سابقہ وزیر اعظم عمران احمد نیازی المعروف عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ جنرل باجوہ نے دوران ملازمت 
حکومت  کے ساتھ منافقاقہ رویہ رکھا ۔ اور ہمارے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہوا ۔
کسی بھی سیاسی رہنما یا ریاستی عہدیدار کو یاد رکھنا چاہیےکہ عدم اعتماد کا سبب ذاتی اقوال یا اعمال نہیں ہوتے بلکہ بد اعتمادی کا اصل سبب ائین اور قانون پر عمل درامد 
کی ناکامی سے پیدا ہوتا ہے 
  

سازشی مہرے

 


اس وقت سیاست اور ریاست دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک دھڑا جس کی قیادت مولانا

فضل الرحمن، میاں نواز شریف اور ٓاصف علی زرداری کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے نام سے سیاسی اتحاد بنا کر سیاسی جماعتوں کی اکثریت کو ساتھ ملایا ہوا ہے ۔ کا موقف ہے کہ ملک کی اخلاقی معاشرتی اور معاشی بدحالی کا سبب ائین اور قانوں پر عمل درامد نہ ہونا ہے ۔ ریاستی اہلکاروں کا ایک دھڑا ان کے بیانئے کی تائید کرتا


ہے اور ان کا ساتھ دینا چاہتا ہے 

دوسری طرف عمران خان اور اس کے اتحادی ہیں جو چند ماوراٗ ائین اقدامات کے حامی ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ ریاستی ادارے خاص طور پر پاک ارمی ان کا ساتھ دے۔ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ قبل از وقت الیکشن کرائیں ۔ تاکہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

پاک فوج کے غیر جانب دار ہونے کے اعلان کے بعد اب دونوں سیاسی دھڑے عدلیہ کی مدد سے ایک دوسرے پر حاوی ہونا چاہتے ہیں ۔ عوام کا تاثر یہ ہے کہ عدلیہ دو دھڑوں میں تقسیم ہے ۔ الیکشن کمیشن سیمت ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹ سے ہونے والے فیصلے سپریم کورٹ میں جا کر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بعض مقدمات کی ماعت تیزی سے ہوتی ہے اور بعض مقدمات سنے ہی نہیں جا رہے

قاف لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد

  قاف لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد



عمران خان کے اسمبلی توڑنے کے اعلان کے بعد پنجاب اسمبلی نہ ٹوٹی تو پنجاب میں عمران خان کی ذاتی مقبولیت کا گراف نیچے ا جائے گا البتہ تحریک  انصاف بطور جماعت پنجاب میں حکمران رہے گی۔

ق لیگ کے وزیر اعلی نے عمران خان کے مقابلے میں اعلی سیاسی بصرت ثابت کی ہے اور عمران خان کو وہ وعدہ وفا کرنے پر قائل کر چکے ہیں جو عمران خان نے چوہدری پرویز الہی سے انھیں پنجاب کا وزیر اعلی بناتے وقت کیا تھا کہ وہ الیکشن تک کی مدت پوری کریں گے۔ 

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر پرویز الہی اسٹیبلشمنٹ میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ  سے رابطہ کرا دیں تو عمراں خان اسمبلی توڑنے کے بیان سے یو ٹرن لے سکتے ہیں۔

منگل، 20 ستمبر، 2022

رسیلی دعا



جی ٹی روڈ کے کنارے رکشے پر ایستادہ گنے کا رس بنانے والی مشین دور سے ہی نظر آگئی تھی۔ جب ہم اس کے پاس آکر رکے۔تو جین کی پینٹ اور کھلی سی ٹی شرٹ پہنے نوجوان نے مشین کو اسٹارٹ کیا۔ گنا بیلا اور تین گلاس رس بنا کر ہمیں پیش کر دیا۔ ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا تو شفقت نے کہا ہمارے رس پینے کے عمل میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت خرچ ہوا ہے۔ 

وقت ازل سے ہی قیمتی رہا ہے۔ گاڑی اور جہاز انسان کا وقت بچانے ہی لیے معرض وجود میں آئے ہیں۔ وقت بچانے کے جتنے بھی حالات اور علوم موجود ہیں۔ ان پر بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ گاڑی کے بننے میں طویل وقت اور بہت ساری انسانی کاوش شامل رہی ہے۔ پانچ منٹ میں تین گلاس گنے کا رس حاصل کرنے ہی کو دیکھیں۔ رس بنانے کے سسٹم کو معرض وجود میں لانے کے لیے کتنا وقت اور کاوش ہوئی۔ 

کسان نے کھیت تیار کیا۔ کھیت تک پانی لایا۔ٹریکٹر اور بیج مہیا کیا۔ بیج بو کر چھ ماہ فصل کی نگہداشت کی۔پھر فصل کو کاٹا، اسے منڈی تک پہنچایا، بیوپاری اور دوکان داروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا گنا۔ رس بیلنے والی مشین تک پہنچا۔ نوجوان نے ہمیں دیکھتے ہی مشین سٹارٹ کی اور تین گلاس بنا کر پیش کر دیے۔ سسٹم مکمل ہونے کے لیے مگر زمین، موسم نے بھی موافقت کی۔ رس بنانے میں مشین کا کردار بنیادی ہے۔ مشین کی تکمیل میں انسانی عقل، محنت کا استعمال ہوا۔ ٹولز اور توانائی مہیا کی گئی۔ مشین خریدنے کے لیے وسائل جمع ہوئے۔ یعنی تین گلاس رس پانچ منٹ میں حاصل کرنے کے پیچھے ایک لمبا سسٹم کارفرما ہے۔ جو ماہ و سال کی وسعت پر پھیلا ہوا ہے۔ہر سہولت و ایجادوقت اور انسانی کاوش کے بعد معرض وجود میں آتی ہے۔ 

انسانی معاشرہ بھی وقت کے پنجرے میں بند ہوتا ہے۔ یہ بھی وقت پر، مثبت سوچ  اور سعی کے بعد ترقی کرتا ہے۔ یہ کام لکھ کر یا بیان کر کے نہیں بلکہ عمل سے کیا جاتا ہے۔ 

پاکستان نے  1998میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ مگر  1956میں جوہری توانائی کمیشن کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ طویل مدت تک پلاننگ ہوئی، دنیا بھر سے آلات و مواد اکھٹا کیا گیا۔ بہترین دماغ استعمال ہوئے، عزم و ایثار رقم کیا گیا اور پھر ایک بٹن دبانے پر مطلوب صلاحیت کا مظاہرہ ہو گیا۔ 

ہمارے نبی رحمت  ﷺ کے پاس ایک ملاقاتی آیا۔ اس سے پوچھا گیا کس سواری پر آئے ہو تو اس نے بتایا اونٹنی پر جس کو مسجد کے باہر بٹھا کر اللہ کی نگہبانی میں دے دیا ہے۔اسے نصیحت کی گئی پہلے جانور کا پاوں باندھو اس کے بعد اللہ کی نگہبانی میں دو۔

خدا کا حکم ہے  (جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں)

مالک دو جہان کو پکارنے سے قبل مگر:

گنے کا رس پینے یا  ایٹمی دھماکے کر نے سے قبل لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالی شافی ہے مگر ہسپتال بنانا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عادل کا انصاف دنیا میں دینے کے لیے اہل منصف کو کرسی پر بٹھانا معاشرے کا  فرض ہے۔اللہ کی حکمرانی سے مستفید ہونے کے لیے ایسے حکمران کو ووٹ دینا معاشرے کا فرض ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ رزاق پر یقین کامل اسی صورت ہوتا ہے جب رزق کے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ 

 دعائیں  بیت اللہ میں مانگی جائیں یا گھر میں صلاۃ تہجد کے بعد،  فقیروں کے آستانوں پر مانگی جائیں یا موحدوں کی عبادت گاہوں میں، اٹھے ہوئے ہاتھ خواہ معصومین کے ہوں یا اللہ کی راہ میں نکلے مجاہدین کے۔ قبول اسی وقت ہوں گے جب سسٹم کی پیروی کی جائے گا۔ 

اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں جو معاشرہ اللہ کے اس سسٹم کی پیروی کرتا ہے  (اللہ کا وعدہ ہے انھیں زمین کا حاکم بنا دیتا ہے  جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا )




 

 

جمعہ، 6 مئی، 2022

احسان



فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے

"بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "  

ہاتھوں کی کمائی




ٹیچر نے کلاس میں نویں جماعت کی طالبہ کو کام مکمل نہ کرنے پر سرزنش کی۔ لڑکی نے کلاس کے سامنے خود کو بے عزت ہوتے محسوس کیا۔ گھر آ کر اس نے رو  ر وکر والدین اور بھائیوں کو بتایا کہ ٹیچر نے اس پر زیادتی کی ہے لہذا ٹیچر کوسبق سکھایا جائے لڑکی کے دو بھائیوں نے موٹر سائیکل نکالا۔ اورسڑک کنارے جاتی ٹیچر کے گلے میں پیچھے سے کپڑا ڈال کر گرایا اور پھر سڑک پر گھسیٹا۔ چند سال  بعد اس لاڈلی بیٹی کے باپ نے مجھ سے بڑی حسرت سے کہا کہ اس کی اولاد (تین بیٹوں اور ایک بیٹی)میں سے ایک بھی میٹرک  نہ کر سکا۔ 

میں نے زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کامیاب زندگی گذار رہے ہیں اور اس کا کریڈٹ اپنے والدین، اساتذہ اور اپنے تعلیمی اداروں کودیتے ہیں۔ میں نے مگر ایسا ایک شخص بھی؎؎؎؎نہیں دیکھا جو ناکامی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا ذمہ داراپنے والدین، اپنے اساتذہ اور اپنے تعلیمی ادارے کو نہ دیتا ہو۔بلکہ کچھ لوگ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا ذمہ دار اللہ تعالی ٰ  کو ٹھہرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

قران پاک نے اللہ تعالی کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے الفاظ نقل کیے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ 

٭ اس نے مجھے پیدا کیا اور مجھے راستہ دکھایا

٭ وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے

٭بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے تندرست کرتا ہے

٭وہ مجھے موت دے گا مگر دوبارہ زندہ کرے گا

٭میں امید رکھتا ہوں کہ جزاء کے دن وہ مجھے بخش دے گا

نظام قدرت ہے کہ اس نے ہر ذی روح کو عقل عطا کی ہے حتی کی صیح و غلط کا فیصلہ اس کے اندر سے اٹھتاہے۔بیماری کا سبب ہماری کوتاہی بنتی ہے مگر اللہ تعالی تندرستی دیتا ہے۔ اگر موت زندگی کو دبوچ لیتی ہے تو دوبارہ زندہ کرنے کی امید بھی وہی دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام امید کرتے ہیں کہ ایسا مہربان رب قیامت کے دن بخش بھی دے گا۔یہ چار جملے زندگی کی حقیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں امید ہی امید ہے۔ امید ہی یقین پیدا کرتی ہے اور یقین ہی انسان کو مثبت عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ مثبت عمل ہی انسان کی کامیابی کا راز ہے۔

یہ حقیت ہے کہ آدم کی اولاد غلطی سے مبراء نہیں ہے البتہ ہر غلطی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو غلط کار کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ آپ  اللہ کے باغی والدین  دیکھیں گے کہ اس کی اولاد نافرمانبردار ہے۔ استاد کا بے ادب تعلیم سے محروم رہتا ہے۔ حاسد ہر وقت بے چینی کی آگ میں زندگی گذارتا ہے۔ حرام خور بہت سی دولت حاصل کرکے بھی عزت سے محروم رہتا ہے۔ خیانت کرنے والا ہر وقت خوف زدہ  رہتا ہے۔بری صحبت پریشانیوں کی طرف لے جاتی ہے۔مگر۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب انسان خود کو بدلنے کا ارادہ کرتا ہے تو قدرت کو اپنا معاون پاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ آدم کی اولاد جبلی طور پر ہر چمکتی چیز سے متاثر ہوتی ہے۔ ایک سپیرے نے ایک بار مجھے بتایا تھا سانپ جتنا زیادہ خوبصورت ہو گا اتنا ہی زیادہ زہریلا ہو گا۔ باتونی شخص کم عقل ہوتا ہے۔خربوزے اور تربوز جیسا ہی شر بوز ہوتا ہے۔ اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد کہا تھا مٹھاس تو ساری (شر)میں ہی ہوتی ہے۔اور انسان مٹھاس کا رسیا ہوتا ہے۔دولت، شہرت، عزت اور خوبصورتی مٹھاس ہی تو ہیں۔

 انسانی معاشروں  میں  بد عہدی کرنے والوں پر ان ہی کے مخالفین حاوی ہو جاتے ہیں،  نا انصافی ہو تو خون ریزی اور انتشار بڑھ جاتا ہے، ناپ تول میں کمی کرنے والے معاشرے رزق میں کمی پاتے ہیں  بدکار گروہوں میں موت کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔انصاف کی کمی معاشرے میں بدامنی کا سبب بنتی ہے۔بے ادب معاشروں پر جہالت مسلط ہو جاتی ہے  اورجہلاء کی عقل ناکارہ کر دی جاتی ہے

تعلیمی ادارے مقدس ہوتے ہین ۔ اساتذہ قابل احترام ہوتے ہیں ۔ والدین محسن ہوتے ہیں ۔ جو انسان احسان ند نہیں ہوتا ۔ ادب کو نہین اپناتا اور مقدس مقامات کا تقدس برقرار نہیں رکھتا اس کو بے ادب کہا جاتا ہے ۔ بچوں کو بے ادب بنانے میں کردار اداکرنے کے بعد ۔  اولاد کا تعلیم میں پچھڑ جانے کا گلہ ، زبان سے کرنے کی بجائے دماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اولاد کو پیار دی جئے مگر ادب بھی سکھائے ۔ اسی میں ان کی کامیابی ہے۔


 

ہفتہ، 26 مارچ، 2022

وزیر اعظم ہاوس پر بد روح



میرا ایک ساتھی بتاتا ہے کہ اس کے گاوں میں ایک شخص نے قبرستان سے متصل زمین خریدی۔ قبرستان کی جگہ کو شامل کر کے وہاں آٹا پیسے والی چکی لگائی۔ پہلے دن ہی نیا پٹہ ٹوٹا اور اس شخص کا بازو ٹوٹ گیا۔ بزرگوں نے اس کو سمجھایا تو اس نے غصب شدہ چھوڑ کر چکی کو ذاتی جگہ منتقل کیا۔ میرا ساتھی بتاتا ہے آج بھی اس کی چکی موجود ہے۔ 

راولپنڈی میں میری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے۔ میرے بچپن میں اس قبرستان میں ایک روح کے بھٹکنے کے قصے عام تھے۔ اس بد روح کا چشم دید شاہد تو کوئی نہ تھا مگر ہر دسویں آدمی کے کسی جاننے والے کو یہ روح ضرور نظر آتی تھی۔ یہ بدیسی روح کسی انگریز کی بتائی جاتی تھی۔ حلیہ اس کا بڑا ڈراونا تھا۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ٹائی پہنے اس انگریز کا مگر سر کٹا ہوا تھا۔ 

پرانے قبرستانوں کو مسمار کر کے جب شاندار عمارتیں بن جاتی ہیں اور لوگ اس میں بس جاتے ہیں۔ تو پھر معاشرتی اختلافات جنم لیتے ہیں۔کچھ گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جن میں لڑائی جھگڑا روز کا مومول ہوتا ہے۔ اس معمول سے اکتا کر جب گھر کا سیانا کسی باہر کے بابے سے مشورہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے۔ اس  رہائش کے نیچے کبھی قبرستان تھا۔ اس قبرستان میں مدفون مردے کی کوئی بے چین روح ہے جو اس گھر پر قابض ہو کر گھر کا سکون برباد کیے ہوئے ہے۔ 

اسلام آباد کا شہر میرے دیکھتے دیکھتے بسا۔ یہ علاقہ مختلف چھوٹے چھوٹے گاوں کا مسکن تھا۔ آہستہ آہستہ گاوں مٹتے گئے اور شاندار سیکٹر تعمیر ہوتے رہے۔ اسلام آباد کا ڈی چوک اپنی سیاسی گہما گہمی کے سبب معروف ہو چکا ہے۔ اور شہراہ دستور اہم ترین سڑک ہے اسی سڑک  پر موجودایوان صدر سے چند قدم کے فاصلے پر دو قبریں اب بھی موجود ہیں جو پرانے قبرستان کی یادگار ہیں۔ پنجاب ہاوس کے قریب خیابان اقبال کے شروع میں برگد کا درخت جس پر چار سو سال پرانا ہونے کا کتبہ موجود ہے کے سائے میں بھی ایک قبر موجود ہے۔ یہاں بھی کسی زمانے میں قبرستان ہوا کرتا تھا۔ 

جب وزیر اعظم ہاوس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت بھی اس جگہ قبرستان ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شاندار وزیر اعظم ہاوس میں اس کے مکمل ہونے کے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی ایک وزیر اعظم بھی سکون سے نہ رہ سکا۔ کسی کو نکالا گیا تو کسی کو دھتکارا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا وزیر اعظم بننے سے پہلے عمراں خان نے اس جگہ نہ رہنے کا اعلان کیا تھا۔ اور عمران خان اس عمارت میں منتقل نہیں ہوئےاور حفظ ما تقدم کے طور پر بنی گالہ ہی میں مقیم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اقتدار پر سیاہ بادل منڈلاکر ہی رہے۔ 

اس عمارت کے سابقہ تمام مکینوں کو (قربانی) کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ سیاسی لوگوں میں شیخ رشید نے ہمیشہ قربانی کا ذکر کیا۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو اونٹوں کا خون بہانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ عمراں خان نے کئی  بار (بکروں) کی قربانی کی بلکہ  خون کو جلایا ۔ مگر بات نہ بن پائی ۔ 

 اگر سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اور عوام چاہیں تو ہم اس عامل کا نام بتا سکتے ہیں ۔ جو سرکاری عمارتوں پر چھائی نحوستوں کو ختم کرنے کی صلاحیت سے مالا ہے ۔ اس عامل کامل کا نام پارلیمانی لیڈر ہے ۔ 



 

منگل، 15 مارچ، 2022

نیوٹرل جانور



انسان بنیادی طور پر جانور ہی ہے مگر یہ عقل سے لیس ہوا تو اس نے خود کو جانوروں سے ممتاز ثابت کرنا شروع کر دیا۔ اس راستے میں انوکھی بات یہ ہے کہ جب انسان عقل کے خلاف عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہمدرد اور پیارے اسے بتاتے ہیں کہ یہ عمل انسانی عقل کے خلاف ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ جذباتی  فیصلے عقلی فیصلوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔لڑائی کا فیصلہ جذباتی ہوتا ہے اور بات چیت کو عقلی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔عقل کا تعلق تعلیم، تجربے اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت سے ہے۔ عام طور پر تعلیم عقل کے بڑھواے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور سوچ کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ٓآئے جب بظاہر جذباتی فتوحات پر عقلی فیصلوں نے اپنی راہیں تراشیں اور جذباتی اور وقتی فتوحات پر حاوی ہو گئیں۔

پاکستان میں عوام کو جاہل اور انپڑھ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ عوام کو اس شرمندگی سے بچانے کے لیے انیس سو تہتر کے ٓئین بنانے والوں نے اس آئین میں درج کیا تھا کہ عوام کو بنیادی تعلیم دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اور اداروں کو چلانے والے افراد اپنی کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے اس آئین پر عمل درآمد کا حلف اٹھاتے ہیں۔ مگر چالیس سالوں میں عوام کو انپڑھ اور جاہل ہونے کا طعنہ تو متواتر دیا جاتا رہا مگر عوام کو تعلیم دینے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا جاتا رہا۔ ان چالیس سالوں میں خود کو اولی العزم بتاتے حکمران آئے تو چلے گے۔ ان میں سے کچھ مرکھپ گئے، کچھ حادثات میں مارے گئے، کچھ پھانسی چڑھ گئے تو کچھ ملک سے بھاگ گئے۔ ملک میں موجود خود کو رستم اور بقراط بتاتے حکمران بھی مگر عوام کو تعلیم دلانے کی توفیق سے محروم ہی رہے۔

عقل ایک خدا داد صلاحیت ہے تو علم خود خدا کی صفت ہے جو اس نے مہربانی کر کے زمین والوں پر نازل کی ہے۔ جن اقوام۔ معاشروں، خاندانوں اور افراد نے اس صفت کی اہمیت کو جانا وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے گئے۔ جو نہ پہچان پائے ان کو اس صفت سے مزید دور رکھنے کے لیے علم سے دوری کے ڈول ڈالے گئے۔ تو جانور نما معاشرے وجود میں آئے۔ جانوروں کے معاشرے میں سارے ہی جانور ہوتے ہیں۔ کوئی طاقت ور جانور ہوتا ہے تو کوئی کمزور جانور۔ کوئی بڑا جانور ہوتا ہے تو کوئی چھوٹا جانور۔ اسی معاشرے سے یہ آواز اٹھی ہے کہ (نیوٹرل) تو جانور ہوتا ہے ۔حقیقت مگر یہ ہے نیوٹرل صرف تعلیم یافتہ ہوتا ہے باقی سارے جانور ہی ہوتے ہیں۔ 

 

جمعہ، 11 مارچ، 2022

دھرنے کی سیاست



فرض کریں عمران خان ایک نااہل، غیر ذمہ دار، متکبر، ضدی اور بد زبان وزیر اعظم ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، وزیر اعظم کا دفتر اور درجنوں ترجمان چور اور ڈاکو کا راگ مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں سیاست سیاسی بیانیوں سے نکل کر لانگ مارچ کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک پر سانس لینے کو رکی ہی تھی کہ اسلام ٓباد میں پارلیمان کے احاطے میں موجود ممبران کے لاجز میں پولیس کا اپریشن ہو گیا۔ اپریشن کے فوری بعد وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کر کے اپوزیشن کو حکومتی طاقت سے دہمکایا۔ جمیعت العلماء اسلام کے سٹوڈنتس ونگ کے گرفتار شدہ افراد کو مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران کراچی سے لے کر چترال تک والی کال کے باعث ملک کی کئی شاہرائیں بند ہو گئیں۔ اور یہ سب کچھ ساٹھ منٹوں میں ہو گیا۔اس واقعے سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت کی بلندی کا احساس کیا جا سکتا ہے۔درجہ حرارت ایک دن یا ایک ہفتے میں نہیں بڑہا۔ اپوزیشن اور حکومت میں یہ خلیج پچھلی حکومت کے ابتدائی سالوں میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس دوران البتہ حکومتی اور اپوزیشن میں موجود خلیج گہری ہی ہوئی ہے اور بات پارلیمان کے ممبران کو زخمی کرنے تک پہنچ چکی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ملک کے لیے تحریک عدم استحکام بنا دیا گیا ہے۔

حامد میر، کہ ایک باخبر صحافی ہیں نے لکھا تھا  (عمران خان دھرنے سے اقتدار میں نہیں آئے نہ ہی دھرنے سے جائیں گے) اس جملے میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کے لیے جو ڈول جمہوریت کے کنویں میں ڈالا جاتا ہے اس ڈول کے پیندے میں قانونی  اور اخلاقی چھید ہیں۔

کچھ عرصہ قبل امریکہ میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں مصنف نے دعوی کیا تھا کہ پاکستانیوں کے مفادات نہائت معمولی قسم کے ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے مفادات کس قدرنیچے آ چکے ہیں۔ اس کا اندازہ اس تگ و دود سے لگایا جا سکتا ہے۔ جو اہلیت کے ثابت کرنے میں لگایا جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد کے یو ٹرن اور حکومت  مخالف اتحاد کے بدلتے بیانئے نے اس  (انپڑھ اور جاہل) عوام کے سامنے سب ہی کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔

ادارے کسی ملک کا فخر ہوتے ہیں مگر ان کو قیادت کرنے والے افراد کسی درانی کا کردار ادا کرتے ہیں تو جونیجو جیسا فخر سڑک پر بے توقیر ہو جاتا ہے۔ہم پولیس کو بے توقیر ہوتا دیکھ سکتے ہیں نہ کسی اور ادارے کو ۔۔۔  مہروں کو کب ادراک ہو گا کہ یہ  ( انپڑھ اور جاہل )  عوام گلوبل ویلیج کی باسی ہے۔ اور مزدور کے معاوضے کی طرح انٹر نیٹ کی رفتار میں فرق تو ہو سکتا ہے مگر وہ بے خبر نہیں ہے۔

 

جمعہ، 11 فروری، 2022

بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر




روس کی ایک ڈیجیتل نیوز ایجنسی نے کشمیر پر ایک ویڈیو ڈاکومینٹری بنائی ہے جس میں بتایا گیاہے کہ    بھارتی کشمیر مقبوضہ فلسطین کی طرح مقبوضہ ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔ 

اسرائیل نے فلسطین کے خلاف  جوطویل المدتی اور کثیر الجہتی اپریشن شروع کیا تھا اس کے نتیجے میں فلسطینی دنیا بھر میں تنہا ہو چکے ہیں۔ اس اپریشن کی ایک جہت تعلیمی طور پر فلسطینیوں کو پسماندہ کرنا تھا۔ ایک مشہور قول ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔ تعلیم کے بارے میں دنیا کے عقلمند ترین انسان کا قول ہے اگر تم نے ایک مرد کو تعلیم دی تو تم نے ایک فرد کو تعلیم دی اور اگر ایک عورت کو تعلیم دی تو گویا پورے خاندان کو تعلیم دی۔ فلسطین کی عورتوں پر جب تعلیم کے دروازے بند کیے گئے تو یاسر عرفات پیدا ہونے بند ہو گئے۔ جب یاسر ہی پیدا نہ ہو گا تو لیلا خالد کا پیدا ہونا محال ہو جاتا ہے۔ لیلہ خالد جیسے کردار ناپید ہو جائیں تو معاشرے بانجھ ہو جایا کرتے ہیں۔آج فلسطین  اکھڑی سانسوں کے ساتھ نشان عبرت بنا ہوا ہے تو دوسرے اسباب کے ساتھ ایک سبب فلسطینی خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کا اسرائیلی حربہ ہے۔

اگست 2019 کے بعد جب کشمیر میں تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوئے تو کشمیروں خاص طور پر کشمیری طالبات نے بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا شروع کردیا۔ بھارت کی سیلیکون ویلی کہلاتا یہ شہر اردو میں تعلیم کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہے تو کشمیر کے لوگوں کو اس شہر سے تاریخی اور جذباتی لگاو بھی ہے۔ مگر بھارت کی حکومت کشمیر ہی نہیں پورے ملک سے مسلمان خواتین پر تعلیم دروازے بند کرنے کے لیے فلسطین ماڈل پر عمل پیرا ہے۔

مسکان خان نامی لڑکی پہلی شکار نہیں ہے بلکہ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے۔ بھارت بھر میں مسلمان عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازش نما  کوششیں جاری ہیں۔ بھارتی اپوزیش لیڈر نے  مسکان خان والے واقعہ پر حجاب کو بہانہ بنا کر انڈیا کی بیٹیوں کے مستقبل پر ڈاکہ قرار دیا ہے۔مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر نے یہ کہہ کر بلی والے تھیلے کا منہ کھول دیا ہے کہ حجاب کے مسئلے کو طول دینا دراصل ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانا ہے۔ اور وہ خاص طبقہ ہے مسلم خواتین۔ 

ہندوستان میں عورتوں کے شارٹس اور ٹائٹس پہننے کو شخصی آزادی کہا جاتا ہے۔ مگر طالبات جب اپنی لباس کی پسند پرحجاب لیتی  ہے تو تعلیمی اداروں میں داخلہ بند کر دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں جب طالبان  12 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگاتے ہیں تو تعلیم دوست لوگ چلا اٹھتے ہیں کہ یہ ظلم ہے۔ مگر بھارت میں پری یونیورسٹی کالجوں سے ہر سال مسلمان طالبات کو حجاب کے نام پر تعلیمی اداروں سے نکال کر دراصل بھارت وہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں کیا تھا۔ بھارت دراصل ان ساڑہے سات فیصد طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر رہا ہے جو مسلمان کہلاتی ہیں۔ آل انڈیا لائرز فورم نے سرکار کے اس رجحان پر کہا ہے کہ طالبات کے خلاف انتطامیہ کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اسرائیل نے فلسطین میں سیاست کی بنیاد سیاسی مفاد کی بجائے عربوں سے نفرت اور انتقام پر رکھی تھی۔ بھارت میں بھی مسلمانوں سے رویہ نفرت اور انتقام پر مبنی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر چل پڑا ہے اور منزل بھارت میں مسلمان ظالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر دینا ہے۔

بھارت کے ایک کالج میں جہاں مسلمان طالبات کی تعداد 75 تھی۔ ان میں سے صرف8 طالبات حجاب لیتی تھیں انتظامیہ نے انھیں کئی ہفتوں تک کلاس میں نہیں جانے دیا بالاخر انھیں تعلیم سے ہاتھ دہونا پڑے۔ آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ طالبات کے خلاف انتظامیہ کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 

انسان پہلے انسان ہوتا ہے اس کے بعد اس کے اعتقادات ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اعتقادات نجی معاملہ ہوتا ہے۔ ہندو عورت کے گھونگھٹ لینے کو نجی معاملہ بتایا جاتا ہے۔ جسم ڈہانپنے کے لیے ساڑہی لینے کو تو ستائش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو عورت کا سارا وجود ڈہانپ لیتی ہے مگر مسلمان عورت جب عبایا سے اپنا جسم ڈہانپتی ہے تو ان پر اوباش نوجوان چھوڑ کر توئین  کی جاتی ہے۔ مسکان خان  کا حجاب بھی چہرے کا اتنا ہی حصہ چھپاتا ہے جتنا بسنتی کا ماسک۔ مسئلہ مگر ماسک یا حجاب نہیں ہے مسئلہ عورت کی تعلیم ہے جو خود کو سیکولر کہلواتا بھارت عملی طور پر اسرائیل کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔

 

پیر، 17 جنوری، 2022

چھ سیکنڈ میں تینوں بے نقاب




میں صبح کام
 کے لیے نکلتا ہوں تو میرے راستے میں جو پہلا ٹریفک سگنل آتا ہے وہ راولپنڈی کی مال روڈ پر واقع پی سی ہوٹل کی بغل میں ہے ۔ یہ سگنل مال روڈ پر چلنے والی ٹریفک کے لیے   60سیکنڈ کے لیے جب کہ دوسری سڑک پر موجود ٹریفک کے لیے صرف 10 سیکنڈ کے لیے کھلتا ہے ۔ کام پر بر قت پہنچنے کی دوڑ میں شامل لوگوں کے کیے آدہا سیکنڈ کا وہ وقفہ بھی بہت لمبا محسوس ہوتا ہے جس میں سگنل کی بتی پیلی ہوتی ہے ۔ چند ہفتے قبل اسی سگنل پر میری آنکھوں کے سامنے اس آدہے سیکنڈ کی دوڑ جیتنے کے چکر میں 2 موٹر سائیکل سوارحادثے کا شکار ہوئے اور پنجاب حکومت کی مہیا کردہ 1122 ایمرجنسی سروس کی ایمبولینس میں لیٹ کر ہسپتال کو روانہ ہوئے ۔ 17 جنوری 2022 کی صبح پیش آنے والا واقعہ مگر بالکل ہی مختلف ہے ۔ میں اس سگنل سے 50 گز دور ہی تھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے اس سگنل پر رکنا ہوگا ۔ میں ذہنی طور پر رکنے کے لیے تیار تھا اور سڑک پر لگی سفید لکیر پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا ۔ میں رک گیا مگر میرے دائیں طرف ایک آلٹو گاڑی نے لائن کو عبور کیا ۔ اس کے ڈرائیور کا ارادہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بتی کے سرخ ہونے کے باوجود دوسری طرف کے اشارے میں آدہے سیکنڈ کے وقفے سے فاہدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ مگر عملی طور پر ہوا یہ کہ میری بائیں جانب سے ایک تیز رفتا ر موٹر سائیکل جس پر 2 نوجوان سوار تھے نے آلٹو والے کی چوائس سے فائدہ اٹھانے کے لیے عجلت دکھائی ۔ مگر دیر ہو چکی تھی مال روڈ پر ٹریفک کے سیلاب نے موٹر سائیکل سوار کو ایمرجنسی میں بریک لگانے پر مجبور کر دیا ۔ موٹر سائیکل تو رک گیا مگر آلٹو والے کے فرنٹ بمپر نے موٹر سائیکل کے پچھلے مڈ گارڈ کو چھو لیا ۔ اس پرموٹر سائیکل سوار نے موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا ۔ دونوں نیچے اترے اور آلٹو والے کو نظروں ہی نظروں میں للکارا ۔ آلٹو والا بھی اسی نلکے کا پانی پیا تھا ۔ اس نے دروازہ کھولا نیچے اترا ۔ اسی دوران میری بائیں جانب سے ایک موٹر سائیکل سوار نمودار ہوا جوپنڈی کی اس سردی کا ننگے سر بغیر دستانوں اور بغیر جرابوں کے کھلے چپل پہن کر مقابلہ کر رہا تھا مگر میں اس کی پھرتی اور قوت فیصلہ پر دل ہی دل میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس نے فوری طور پر موبائل نکالا اور ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ میں نے سوچا یہ واقعہ جو بھی رخ اختیار کرے گا اس کی مکمل عکاسی کی ویڈیو اس نوجوان کے پاس ہو گئی ۔ البتہ آلٹو والے کی جرات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی کیونکہ وہ کوئی فیصلہ کر کے دونوں موٹر سائیکل سواروں کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کا لباس دیکھ کر میرے ذہن میں اپنے خاندان کے وہ نوجوان آئے جو فیلڈ میں سیلز کا کام کرتے ہیں ۔ اور صبح جب تیار ہو کر نکلتے ہیں تو ایسا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ شائد کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نہیں تو ایم ڈی ضرور ہوں گے مگر تجربہ کار لوگ ان کی موٹر سائیکل  کی خستہ حالی سے اصلیت جان لیتے ہیں ۔ آلٹو اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک تاثر ابھرا کہ سیلز مین نے اپنی دن رات کی محنت سے کمپنی کو مجبور کر دیا ہے کہ اسے فیلڈ مینیجر کی پوسٹ پر ترقی دے ۔ اور ترقی پانے کے بعد سیلز مین نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ اپنا موٹر سائیکل بیچ کر اوراپنی   ساری جمع پونجی لگا کر یہ گاڑی خریدی ہے تاکہ خود کو یقین دلا سکے کہ وہ اب مینیجر ہے ۔ یہ صرف میرے ذہن میں چلنے والے قیاس تھے ۔ مگر اس کے گاڑی سے اتر نے کے بعد جو پہلی چیز میں نے نوٹ کی وہ اس کے چہرے پر فیصلہ بھری مسکراہٹ تھی ۔ کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے جو مسکراہٹ ہوتی ہے وہ کسی بڑی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ ایک طرف دو کڑیل نوجواں دوسری طرف فیصلہ کن مسکراہٹ ۔ ۔ ۔ مگر پھر میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ میں مجبور ہو کر اسے لکھ رہا ہوں ۔ 6 سیکنڈ میں ایسا منظر پیش ہوا جس میں معاشرے کے تین کردار سامنے آئے ۔ پہلا  اخلاق کی ظاقت دوسرا پہلو غیر متوقع رد عمل پر ششدر رہ جانا اور تیسرا معاشرے کی تماش بین خصلت ۔

ہوا یہ  کہ آلٹو سے اترنے والے نوجوان نے مسکراتے چہرے کے ساتھ عمل پر آمادہ شخص کو گلے لگایا ۔ اور اپنے اس عمل کو تین بار دہرایا اور ساتھ اس کی زبان پر ورد جاری تھا "آ پ ناراض نہ ہوہیے گا" ، "آپ ناراض نہ ہوہیے گا" ۔ ۔ عمل کو غیر متوقع رد عمل نے ششدر کر کے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔ آلٹو سوار نے "غلطی کس کی" کو موضوع ہی نہیں بنایا تھا ۔ اتنی دیر میں ہماری طرف کی بتی سبز ہو چکی تھی اور ٹریفک چل پڑی ۔ میں نے نکلتے ہوئے آلٹو والے کو انگوٹھا کھڑا کے شاباس دی ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ فتح مند مسکراہٹ ۔ اسی دوراں بائیں جانب سے آوازآئی ۔ شٹ ۔ میرے ذہن نے معاشرے کے سوشل میڈیا کے رسیا تماش بین طبقے کی نماہندہ ۔ ۔ ۔ مگر میں نے اپنی اس سوچ کو خود ہی بے دردی سے کچل دیا اور گھڑی پر نظر دوڑائی تو چھ سیکنڈ مین 3 کردار بے نقاب ہو چکے تھے ۔ 


جمعہ، 7 جنوری، 2022

دادے کا پوتا



ذوالفقار کا گھر اپنے باپ کے گھر، باری صاحب کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر ہے۔ سات سالہ عمار نے اپنے دادا باری صاحب کو بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے دادا کے گھر میں رہنا چاہتا ہے۔ عملی طور پر اس  نے کتابوں کا اور کپڑوں کا بیگ بھی تیار کر لیا تھا۔

باری صاحب کے بیٹے ذولفقار کا نکاح میں نے ہی پڑہایا تھا۔اس وقت سات سالہ عمار بہت ہی کیوٹ سا  بچہ ہے۔ مودب اور ذہین، اور کیوں نہ ہو باپ بھی تعلیم یافتہ ہے اور ماں بھی ٹیچر ہے۔ 

ٓآج سے بیس تیس پہلے گھر سے بھاگنے والے بچوں کہ عمر سولہ سال سے زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ انٹرنیٹ نے آ کر وقت کر تیز تر کر دیاہے۔ جو کام سولہ سال کی عمر کا بچہ کرتا تھا۔اب وہ سات سال کا بچہ کررہا ہے۔ 

ذوالفقار کے گھر کا ماحول ایسا ہی ہے جیسا متوسط طبقے کے خاندانی لوگوں کا ماحول ہوتا ہے۔ مودب  رکھ  رکھاو سے لیس میاں بیوی نے اپنے بچے کی ضروریات کا کافی خیال رکھا ہوا ہے۔ بچے کو گھر کا کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت کے علاوہ  اس کو ٹیب بھی ملا ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے بچے کو لاڈلا رکھا ہوا ہے تو غلط نہ ہو۔

باری صاحب کا پوتا ہی نہیں بلکہ کئی گھرانوں کے بچے اپنے والدین سے شاکی ہیں۔ باری صاحب جب بھی اپنے بیٹے کے گھر جاتے ہیں  تو انکی توجہ کا مرکز ان کا پوتا ہی ہوتا ہے۔ اور پوتا بھی جب اپنے دادا، دادی کے گھر آتا ہے تو بھی اسے خوب توجہ ملتی ہے۔  بچے کے والد رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ کھانا کھا کر وہ کمپیوٹر کے سامنے کمپنی کے کھاتے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تو والدہ سکول سے واپسی کے بعد گھر کے کام کاج میں مشغول ہو جاتی ہے۔ مہمانوں کا آنا جاتا بھی رہتا ہے۔ ان حالات میں بچہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے جو محبت  اسکے دادا اور دادی کرتے ہیں ویسی محبت اسکے والدین اس سے نہیں کرتے۔ 

آج کے دور کا بچہ، جوان اور بوڑہا  ہر شخص دوسرے کی توجہ اور وقت کا طلب گار ہے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیوی اور خاوند، بہن اور بھائی اور والدین سوشل میڈیا پر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ان حالات میں سات سالہ بچہ اس داد ہی کے گھر جائے گا نا جو اسکو وقت دیتے ہیں۔