جمعرات، 24 مئی، 2018

گنبدِ خضرا۔۔۔ آرام گاہ نبویؐ

گنبدِ خضرا۔۔۔ آرام گاہ نبویؐ

رسولؐ اللہ نے ہجرت کے بعد 8ربیع الاول 13نبوت بمطابق23ستمبر622 ھ قبا میں نزولِ 
اجلال فرمایا اور چند روز یہاں قیام فرما کر بروز جمعہ یثرب میں جلوہ افروز ہوئے۔ حضورؐ کی تشریف آوری پر مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ دو حجرے بھی تعمیر کئے گئے جن میں ایک حجرہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا گھر بنا، معروف مورخ المسعودی کے مطابق اس حجرہ مقدسہ کا طول مشرق تا مغرب 8میٹر اور عرض5،5میٹر ہے اور یہ کچی اینٹوں، کھجور کے تنے اور چھال سے تعمیر کیا گیا اور پردہ کے لئے دروازہ پر اونی ٹاٹ لٹکایا گیا۔
آغاز مرض کے بعد آخری ہفتہ رحمۃ للعالمین ؐ نے اِس حجرہ مقدمہ میں پورا فرمایا اور اسی حجرہ عالیہ میں12ربیع الاول11ھ آپؐ کے جسمِ اطہر سے روحِ انور پرواز کرگئی، اس حجرہ مبارکہ میں آپ ؐ کو غسل و کفن دیا گیا اور اِسی حجرہ میں پہلے خانوادہ (بنو ہاشم) نے پھر مہاجرین نے پھر انصار کے مردوں نے اور عورتوں نے پھر بچوں نے بغیر کسی امام کے انفرادی جنازہ ادا کیا،درود پڑھا۔ جگہ کی تنگی کے باعث لوگ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں اندر جاتے اور یہ سلسلہ لگا تار شب و روز جاری رہا اِس لئے انتقال کے32گھنٹے بعد اس حجرہ مقدمہ میں آپؐ کے جسمِ اطہر کو لحدِ انور میں لٹایا گیا، یہ حجرۂ مبارک ’’عند اللہ خیر البقاع‘‘ یعنی زمین کا بہترین ٹکڑا ہے، جہاں شب و روز ملائکہ رحمت کا نزول جاری ہے۔
اس تدفین کے بعد بھی سیدہ عائشہ صدیقہؓ بدستور اِسی حجر�ۂمبارکہ میں قیام پذیر رہیں اور آپ میں اور مرقدِ مقدسہ کے درمیان کوئی پردہ نہ تھا، 13ھ میں خلیفۃ الرسول سیدنا ابکر صدیقؓ کا انتقال ہوا اور آپ کو وصیت کے مطابق رسولؐ اللہ کے پہلو میں دفن کیا گیا،23ھ میں خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ پر حملہ ہوا اور وہ شدید زخمی ہوئے آپ نے اپنے فرزند عبداللہ بن عمرؓ کو بُلا کر کہا کہ آپ اُم المومنین عائشہؓ کے پاس جاؤ اور عرض کرو کہ عمرؓ آپ سے اجازت کی درخواست کرتا ہے کہ رسولؐ اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ عبداللہؓ سیدہ عائشہؓ کے پاس پہنچے تو وہ رُو رہی تھیں، حضرت عمرؓ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ سیدہؓ نے کہا کہ اس جگہ کو مَیں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، لیکن آج میں عمرؓ کو اپنے آپ پر ترجیح دوں گی،چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ کو بھی حضورؐ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
حجرۂ مبارکہ میں قبورِ مقدسہ کی ترتیب کے بارے میں بہت روایات ملتی ہیں، لیکن سیدنا قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیقؓ کی روایت پر جمہور کو اتفاق ہے، ان کا بیان ہے کہ مَیں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اماں جان مجھے رسولؐ اللہ اور آپ کے جانثاروں کی قبور دکھایئے۔ چنانچہ مجھے آپ نے تین مقدس قبور دکھائیں ان قبول پر چھوٹی چھوٹی سرخ کنکریاں پڑی ہوئی تھیں، پہلی قبر مبارک حضورؐ کی ہے اور دوسری قبر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اسی طرح کہ اُن کا سر مبارک حضور انورؐ کے شانہ مبارک کے برابر میں ہے اور حضرت عمر فاروقؓ کا سر مبارک حضورؐ کے پاؤں مبارک کے برابر ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے قدم حجرہ کی دیوار شرقی تک پہنچ گئے تھے اور لمبائی میں جگہ کی تنگی کے باعث پاؤں کی جگہ دیوار کی بنیاد کھود کر بنائی گئی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ کی تدفین سے پیشتر مَیں یہاں بے تکلفانہ رہا کرتی تھی، سرڈھانپنے یا کھلا رہ جانے کا خیال نہیں رکھتی تھی، مَیں سمجھتی تھی کہ یہاں میرے شوہر ہیں یا میرے باپ ہیں،لیکن تدفین عمرؓ کے بعد کامل پردہ اور پورے لباس کے بغیر کبھی قبور پر نہیں آیا کرتی تھی۔ سیدنا عمر فاروقؓ کی تدفین سے پہلے حجرۂ مبارکہ میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی، لیکن اب اُم المومنین نے اپنی رہائش گاہ اور قبور مقدسہ کے درمیان ایک دیوار اٹھوا دی، جس میں ایک دروازہ رکھا، سیدہ عائشہؓ کی حیاتِ طیبہ میں حجرۂ مبارک کھلا رہتا، صحابہ کرامؓ حجرہ کے مشرقی دروازہ پر حاضر ہوتے اور درود و سلام پیش کرتے۔ جب کسی صحابیؓ نے حجرہ مبارکہ کے اندر حاضری دینا ہوتی تو وہ اُم المومنین کی اجازت سے ہی اندر حاضر ہوکر سلام پیش کرتے۔ 17رمضان 57ھ کو سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے انتقال کے بعد 
حجرۂ مبارک کا دروازہ بند کردیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن محمد بن عقیل بیان فرماتے ہیں کہ مَیں ایک رات جبکہ بارش ہو رہی تھی، حسبِ معمول سحری کے وقت اپنے گھر سے نکلا، جب مَیں مغیرہ بن شعبہؓ کے مکان کے قریب پہنچا تو مجھے ایک عجیب و غریب خوشبو محسوس ہوئی،اس جیسی نفیس خوشبو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ خوشبو سے فضا معطر و مشک بار ہوگئی تھی میں خوشبو کے منبع کی جانب گیا تو حجرہ انور کے سامنے پہنچ گیا اور دیکھا کہ حجرۂ مقدمہ کی مشرقی دیوار مہندم ہوگئی ہے۔
مَیں وہاں ٹھہرا رہا۔کچھ ہی وقفہ بعد عمر بن عبدالعزیزؒ گورنر مدینہ بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے چادر سے پردہ کروایا۔بعد از نمازِ فجر عمر بن عبدالعزیزؒ نے مدینہ منورہ کے ایک مشہور اور سعادت مند معمار وردان کو بلوایا اور اسے دیوار کی مرمت کے لئے حجرۂ مبارک کے اندر جانے کا حکم دیا۔اندر جا کر اُس نے امداد کے لئے ایک اور آدمی طلب کیا۔ جناب عمر بن عبدالعزیزؒ اندر جا کر وردان کا ہاتھ بٹانے کے لئے خود تیار ہوئے،لیکن پاس کھڑے قریش نے بھی شمولیت پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ مَیں کبھی ایک ہجوم کو اندر بھجوا کر حضورؐ کو ایذا نہ پہنچنے دوں گا اور پھر مزاحم نامی ایک غلام کو اندر بھجوایا جس نے اندر گری ہوئی مٹی اٹھائی اور قبر مبارک پر دیوار گرنے سے جو شگاف پڑ گیا تھا اسے اپنے ہاتھ سے پُر کیا۔
دیوار کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے بنیاد کی کھدوائی اولادِ صحابہؓ کی موجودگی میں ہوئی۔اس دوران سیدنا عمر فاروقؓ کے قدم برہنہ ہو گئے تھے اور دیکھا گیا کہ کفن بھی میلا نہ ہوا تھا۔بہرحال دیوار کو پہلے کی طرح دوبارہ تعمیر کر دیا گیا۔
88ھ میں خلیفہ الولید بن عبدالمالک نے عمر بن عبدالعزیزؒ گورنر مدینہ کو حجرۂ مبارکہ کو اصل حالت میں محفوظ رکھنے کی خاطر حجرہ شریف کے گردا گرد کچھ فاصلہ رکھ کر ایک دیوار بنوانے کا حکم دیا تو انہوں نے حجرۂ مبارک کے گرد6.75میٹر اونچی عمارت انتہائی قیمتی پتھروں سے تعمیر کروائی، جس میں کوئی دروازہ نہ رکھا گیا۔یہ عمارت مربع کی بجائے پانچ پہلو رکھی گئی تاکہ لوگ اسے مثیلِ کعبہ جان کر کہیں اس کے بھی طواف میں نہ لگ جائیں۔اس عمارت کو ’’حظار مزور‘‘ یعنی حرمت والا احاطہ کہا جاتا ہے اور آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ 170ھ میں جب خلیفہ ہارون الرشیدؒ کی والدہ 
خیزران خاتون حج کی ادائیگی کے بعد روضۂ رسولؐ کی زیارت کو آئیں تو انہوں نے پوری مسجد میں عطر لگوایا اور حظار مزور کی عمارت پر ریشمی پردے چڑھائے۔بعد میں شاہانِ مصر و بغداد کو غلاف چڑھانے کی سعادت ہوتی رہی تاآنکہ760ھ میں سلطان صالح اسماعیل بن ناصر محمود نے ایک بڑی جاگیر وقف کر دی جس کی آمدنی سے کسوت کعبہ ہر سال اور کسوت حظار مزور ہر پانچ سال بعد تبدیل ہوتے رہے۔547ھ میں حجرہ مقدسہ کے اندر سے اچانک ایک آواز سُنی گئی، جس کی اطلاع امیر قاسم بن مہنی الحسینی کو دی گئی۔امیر قاسم نے علمائے کرام اور صلحائے عظام سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ کسی نیک بزرگ شخصیت کا حجرۂ مبارک کے اندر اتارا جائے اور وہ صورتِ حال کا پتہ لگائیں، چنانچہ ایک انتہائی زاہد و عابد بزرگ شیخ عمر السنائی الموصلیؒ کا انتخاب ہوا۔شیخ صاحب نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ریاضت میں لگ گئے، آخر ایک دن حضور پاکؓ سے حجرہ شریف میں داخلے کی اجازت چاہی۔ جناب شیخ کو رسیوں کے ساتھ حظار میں 
اُتارا گیا اور اُن کے ساتھ ایک روشن شمع بھی اتاری گئی۔آپؒ نے دیکھا کہ چھت سے کچھ قبور پر گرا ہے۔آپؒ نے اسے ہٹا دیا اور قبور مبارکہ پر پڑی مٹی کو اپنی ریش مبارک سے صاف کر دیا۔557ھ میں سلطان نور الدین زنگی ؒ نے رسولؐ اللہ کی ایک رات میں تین بار زیارت کی۔ہر بار حضورؐ نے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ جلد آؤ اور ان دو اشخاص کے شر سے مجھے بچاؤ۔اِسی رات کے آخری پہر میں مصر سے تیز رفتار اونٹوں پر اپنے بیس خاص خدام اور زرِ کثیر کے ساتھ روانہ ہو گیا۔اس نے یہ سفر رات دن جاری رکھا اور سولہویں دن شام کے وقت مدینہ منورہ پہنچ گیا۔بعداز غسل عجز و احترام کے ساتھ مسجد نبویؐ میں داخل ہو کر ریاض الجنتہ میں نوافل ادا کر کے متفکر بیٹھ گیا،تمام اہلِ مدینہ کو حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔سب آئے، مگر وہی دو شخص نہ تھے۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ دو اہلِ مغرب انتہائی متقی افراد رہ گئے ہیں، جو دُنیا سے یکسو اور گوشہ نشین ہیں۔ ان کو بلوایا گیا تو سلطان نے اُن کو پہچان لیا۔سلطان 
نے ان سے پوچھ گچھ کی اور پھر ان کے مکان پر گیا جو مسجد کے قریب میں ہی تھا۔ جستجو سے پتہ لگ گیا کہ ایک نقب اِس مکان سے حجرہ مبارک کی جانب کھود جا رہی ہے۔مزید تفتیش پر انہوں نے قبول کر لیا کہ وہ عیسائی ہیں،اُنہیں بادشاہ نے حضورؐ کے جسد اطہر کو یہاں سے نکال لے جانے کے لئے بھیجا ہے۔سلطان سخت غضبناک ہوا اور صبح ان کو قتل کر کے شام کو ان کی منحوس لاشوں کو جلا دیا گیا۔اب سلطان نور الدین زنگیؒ نے ’’حضار مزور‘‘ سے8فٹ کے فاصلے پر گہری خندق کھدوائی کہ زمین سے پانی نکل آیا اور اس نے خندق کو سطح زمین تک سیسہ پگلوا کر بھروا دیا اور اس کے اوپر جنگلہ بنوا دیا۔667ھ میں سلطان رکن الدین ظاہر بیرس نے اِس جنگلے کی جگہ تین میٹر اونچا لکڑی کا جالی دار جنگلہ نصب کروا دیا۔اس جنگلے میں تین دروازے رکھے گئے۔694ھ میں الملک زین الدین نے اس جنگلہ کو چھت تک بلند کروا دیا۔ یہ ایک برآمدہ نما عمارت بن گئی۔جسے مقصورہ شریف کہا جاتا ہے۔732ھ میں الملک الناصر 
محمد بن قلدون حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوا تو مقصورہ شریف میں عورتوں اور بچوں کا رش دیکھا جو اِس جگہ کے تقدس اور عظمت کے خلاف تھا، چنانچہ مقصورہ شریف کو ایام حج میں بند کر دیا گیا۔
828ھ میں قاضی النجم ابن الحجی نے زائرین کے ہجوم کے پیش نظر مقصورہ شریف کے دروازوں کو بند کروا دیا تاکہ آداب پامال نہ ہوں اور اب آج تک یہ دروازہ بند چلا آ رہا ہے اور زائرین جالیوں کے باہر کھڑے ہو کر درود و سلام پیش کرتے ہیں۔وقتاً فوقتاً جالیوں کی تبدیلی کا کام جاری ہے۔678ھ میں سلطان المنصور قلدون صالحی نے پہلی بار لکڑی کا گنبد بنوا کر اس کے اوپر سیسہ کی پلیٹیں چڑھوائیں اور گنبد کو حظار کی عمارت کے اوپر نصب کروایا۔اس قبہ کو 
سلطان الناصر حسین ابن محمد قلدون نے مرمت کروایا۔
765ھ میں الملک اشرف شعبان بن حسین نے اور پھر881ھ میں سلطان قاتیبائی نے مرمت کروایا۔یہ گنبد سفید رنگ کا تھا اور اسے گنبد بیضا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔888ھ میں آتشزدگی سے گنبد اور لکڑی کی جالی کو نقصان پہنچا تو گنبد شریف کی حرمت کے ساتھ پیتل اور سٹیل کی جالیاں لگا دی گئیں۔ یہ کام بھی سلطان قاتیبائی کے عہد میں ہوا۔980ھ میں سلطان سلیم ثانی نے گنبد کی ضروری مرمت کروائی۔1233ھ میں سلطان عبدالحمید نے گنبد کو نئے سرے سے تعمیر کروایا اور پھر 1255ھ میں اس پر سبز رنگ کرایا ، تب سے گنبدِ بیضاء، گنبد خضرا کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔ حجرہ مقدس کی تاریخ جان کر ایک بات تو عیاں ہو گئی ہے کہ 88ء میں حظار مزور کی عمارت بننے کے 
بعد کسی کو حجرہ شریف میں داخل ہو کر مرقد نبویؐ پر حاضری نصیب نہیں ہوئی سوائے اُن اوقات کے جب حجرہ منورہ کی مرمت کی گئی اور جن چند بزرگوں کو یہ سعادت نصیب ہوئی ان کا ذکر کتب تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے آخری مرمت کو بھی اب پونے چھ صدیاں گزر چکی ہیں اور اس طویل عرصے میں کوئی ذی روح مرقدِ مقدسہ کے اصل مقام پر حاضری نہیں دے سکا۔یہ اس مقدس خطۂ ز مین کے احوال و آثار کا روح پرور تذکرہ ہے جہاں سرور عالمؐ اور شیخیںؓ آسودۂ خواب ہیں اِس احوال کو مرتب کرنے میں ہر ممکن احتیاط برتی گئی ہے پھر بھی اگر کوئی سہو سرزد ہوا ہو تو رب ذوالجلال سے معافی اور بخشش کا طالب ہوں۔
یہ مضمون روزنامہ پاکستان کی ویب سائٹ سےشکریہ کے ساتھ  نقل کیا گیا ہے . جو 11 اگست 2017 کو شائع ہوا تھا
https://dailypakistan.com.pk/11-Aug-2017/623840

منگل، 22 مئی، 2018

شہباز شریف کا طوطی



جنگ میں اقدار کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا۔کراچی ، جس کے باسیوں کا فخر اقدار ہوا کرتا تھا ۔ ایک ایسی
جنگ مین الجھ چکے ہیں جس نے ان سے اقدار ہی نہیں چھینیں بلکہ ان کی راہ کی روشنی بھی اچک لی ہے ۔ کراچی ، ۱۹۷۷ سے پہلے باہر سے آنے والی ساری روشنیوں اور اچھوتے نظریات کا استقبال کیا کرتا تھا۔، خیرہ کن اشتہارات والے رسائل کے بنڈل لانے والے سارے جہازاسی شہر میں لینڈ کیا کرتے تھے۔ نئے ماڈل کی گاڑیاں ہی کراچی کی بندرگاہ پر نہیں اترا کرتی تھیں بلکہ نئے فیشن کے ملبوسات کے کنٹینر بھی یہیں کھلا کرتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کراچی میں برداشت کا کلچر ناپید ہو گیا ہے ۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ برداشت اور رواداری کو کراچی سے شہر بدر کرنے کے لیے ۱۹۷۷ سے اب تک پچاس ہزار سے زائد چلتے پھرتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جنگجو بدلتے رہے، جنگ کے عنوان تبدیل ہوتے رہے ۔مگر انسانیت کے کلاف جنگ جاری رہی۔ گذشتہ چالیس سالوں میں جوان ہونے والی ہماری نسل کو صرف ایک ہی سبق ازبر ہے ، مارو یا جان بچاو۔ شروع میں گلیوں اور محلوں سے ، نیم خواندہ نوجوانوں کے غول جھنڈے اور ڈنڈے اٹھا کر نکلا کرتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی تو راولپنڈی میں دی گئی تھی۔ مگر پیپلز پارٹی کا جنازہ کراچی میں اٹھایا گیا تھا۔کندھا دینے والوں کو مہاجر کہا گیا ۔بتایا یہ گیا مہاجر ان لوگوں کی اولاد ہیں جو اپنی شناخت پاکستان پر نچھاور کر بیٹھے تھے۔ ۱۹۴۷ سے بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے کو احساس ہی نہ ہوا مگر ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے انھیں احساس دلایا کہ آپ مہاجرین کی اولاد ہو۔ علیحدہ قوم ہو ، اور اردوزبان پر تمھاری اجارہ داری ہے۔ کراچی اور حیدرآباد آپ کے شہر ہیں ۔ اپنی حکومت بناو اور پیپلز پارٹی والوں کو بھگاو۔ زبانی کلامی، ڈندے سے اور پھر کلاشنکوف سے بھگایا گیا مگر معلوم یہ ہوا کہ اصل دشمن تو اپنے اندر موجود ہیں لہذا اپنوں کو ختم کرنے کے لیے اچھوتے طریقے اپنائے گئے۔البتہ مار نے والے کو احساس تک نہ ہوا کہ جس لاش کی ہڈیاں توڑ کر بوری میں سمائی جا رہی ہے خود اس کا بھائی ہے۔
جنگ جہاں بھی لڑی جا رہی ہو ااس جنگ کے باعث کسی نہ کسی کی تجوری بھری جا رہی ہوتی ہے۔جب انفرادی تجوری بھری جا رہی ہوتو عوام کی جیب ہلکی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
کراچی نے ۹۷۷ا سے ایک سفر طے کیا ہے ۲۰۱۸ میں حالت یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کو مار مار کر تھک گیا ہے، ہر قسم کے تعصب کے نام پر خون بہا جا چکا ہے ، مگر دو عوامل ایسے ہیں جن سے کسی کو بھی انکار نہیں ، ایک یہ کہ کراچی کا نوجوان روزگار کو ترس رہا ہے اور دوسرا کراچی کے کسی باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔ اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں۔ جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع ہوتی ہے۔ اور ان مگر مچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنھوں نے نوجوانوں کو سیاست کے رستے بے روزگاری کے میدان میں لا کر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔
کراچی والوں کو مہاجر کے نعرے نے کچھ دیا نہ بھٹو مخالفت نے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان کے زخموں پر مرحم رکھا نہ پاک سرزمین پر کوئی سایہ دار شجر چھاوں مہیا کر سکا۔بہادر آباد سے لے کر لیاری اور نائن زیرو سے لے کر ڈیفنس تک سب کٹھ پتلیاں ہی ثابت ہوئے ہیں۔
۲۰۱۸ میں کٹھ پتلیوں کا کھیل عروج پر ہے۔ ایک سرکس ماسٹر دوبئی میں بیٹھا اپنے مہروں کے ذریعے کراچی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ کراچی کے باسی تو اس کے جال ہوس سے بچ گئے تو اس نے دوسرے شہروں سے کٹھ پتلیاں در آمد کر لی ہوئی ہیں ۔ رالپنڈی بوائز جو باقائدہ ایک سیاسی پارٹی ہے نے اپنا وزن وزارت عظمیٰ کو ترستے ایک سیاست دان کے پلڑے میں ڈال دیا ہوا ہے۔وزارت کے اس شیدائی کا کے پی کے میں اعمال نامہ یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں جو کچھ ترقیاتی کام ہوا ہے صرف سوشل میڈیا پر ہوا ہے، ان کا شیوہ ہے جھوٹ ڈٹ کر بولو۔ پنجاب میں تو اس کی کسی نے سنی نہیں ہے لہذا اب اس کا سارا زور کراچی پر ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے کراچی میں بھٹو بھی کے الیکٹرک کی شکل میں زندہ ہے ۔ لے دے کے ملک مین نون لیگ ہی رہ جاتی ہے ۔ جس نے پنجاب میں عا�آدمی کے حالات بدلے ہیں ۔ پنجاب مین تعلیم اور صحت کے شعبے میں زبردست کام ہوا ہے۔ پنجاب کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں نیا ہسپتال بناہے یا پرانا اپ گریڈ ہوا ہے۔ اس وقت پنجاب کے ہسپتالوں میں کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ کے علاقوں سے لوگ علاج کران�آآتے ہیں۔ پنجاب مین ہر قسم کا علاج مفت ہے ۔ اور تعلیم میں پنجاب نے پچھلے پانچ سالوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ ہر گریجویٹ کو لیپ ٹاپ حکومت پنجاب کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں پنجاب کی یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدوں کے تحت پاکستانی طلباء اعلی تعلیم حا صل کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے پنجاب کی ترقی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ میٹرو بس پرجیکٹ نے پنجاب میں اولیت حاصل کر کے دوسرے صوبوں کو راہ دکھائی ہے۔تیز رفتار ٹرین کا چلنا ایسا کام ہے جو بھارت بھی نہ کر سکا۔ اس بار مقابلہ نعرہ بازی میں نہیں بلکہ عملی ترقی میں ہے اور عملی ترقی میں شہباز شریف کا طوطی بہت اونچی آواز میں بول رہا ہے۔

جمعہ، 18 مئی، 2018

گرین لینڈ

رمضان المبارک 2018 کی خصوصیت یہ ہے کہ عام طور پر ساری دنیا میں اس سال رمضان المبارک ایک ہی دن یعنی 17 مئی کو شروع ہو رہا ہے البتہ سحر و افطار کے اوقات مقامی وقت کے لحاظ سے طے ہوتے ہیں ۔ دنیا بھر میں طویل ترین روزہ مملکت ڈنمارک کے ملک گرین لینڈ میں ہوتا ہے جہاں روزے کا دورانیہ 21 گھنٹے کا ہو گا۔ 
گرین لینڈ بحر شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان، براعظم شمالی امریکہ میں واقع ہے۔ کینیڈا کی سرحد سے متصل گرین لینڈ 1814 سے ڈنمارکی بادشاہت کے زیر نگین علیحدہ ملک ہے جس کے دارلحکومت کا نام ْ نوک ْ ہے اس کا رقبہ 2166,000 مربع کلو میٹر اور آبادی 57,000 نفوس کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں ڈنمارکی کراون بطور کرنسی استعمال ہوتا ہے ۔ گرین لینڈ کی اپنی زبان ہے جس کو ْ گرین لینڈی زبان ْ کہا جاتا ہے ۔گرین لینڈ کم ترین آبادی پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ نوک کا ڈنمارک سے فاصلہ 3645 کلومیٹر ہے
مذہبی طور پر آبادی عیسائی اکثریت پر مشتمل ہے مگر آبادی کا 0.01% حصہ مسلمان بھی ہے ۔ ان مسلمانوں میں پاکستانی الاصل لوگ بھی ہیں۔جن کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔
اس ٹھنڈے اور یخ بستہ ملک میں روزے کے طویل ترین دورانئے کے علاوہ مزید دو عوامل ایسے ہیں جس ان کو باقی دنیا سے منفرد کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنی زبان میں تحریر کے دوران پورے جملے کو بطور ایک لفظ لکھتے ہیں ۔ اس ملک کی دوسری انفرادیت وہاں نوجوانوں کو خود کشی کا ارتکاب کرنا ہے ۔ اس ملک میں نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان دنیا بھر میں اب سب سے زیادہ ہے

جمعرات، 17 مئی، 2018

حجر اسود

حجر اسود


ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال حج بیت اللہ نہ ہوسکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا۔ یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا، اسی ابوطاہر قرامطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابوطاہر کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیئے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339 ھ کو ہوئی، گویا بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔ جب فیصلہ ہوا کہ حجراسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبداللہ کو حجراسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔ یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو اُن کے حوالہ کیا جائے گا۔ اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار تھا ، خوبصورت غلاف سے نکالا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں۔ محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا۔ اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا تو سخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا۔ محدث عبداللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں ۔ پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہوگیا، فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے۔ پھر اصل حجراسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا ، ’’یہی ہمارا حجراسود ہے اوریہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے‘‘۔ اس وقت ابوطاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں ؟تو محدث عبداللہ نے فرمایا: یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوگا۔ ابوطاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔ جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچا یا، اس اونٹنی میں زبردست قوّت آگئی اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جارہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مرگئے۔‘‘
(تاریخ مکہ للطبری)

پیر، 7 مئی، 2018

تیرے میرے خواب


                                

کہا جاتا ہے ساون کے اندھے کو ہریالی ہی نظر آتی ہے ۔ اس ایک جملے میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت کو بیان کر دیا گیا ہے۔خواب کا تعلق انسان کے طرز معاشرت اور اس کے علم سے جڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھنا یا سیدنا یوسف علیہ السلام کا گیارہ ستارون اور چاندو سورج کو سجدہ ریز دیکھنا۔
طرز معاشرت کی وضاحت ان دو غلاموں کے خواب سے ہوتی ہے جو سید نا یوسف علیہ السلام کے ساتھ قیدخانہ میں تھے ۔ ایک بادشاہ کا ساقی تھا اس نے خواب میں خود کو رس نچوڑ کر بادشاہ کو پیش کرتے دیکھا تو بادشاہ کے باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں۔
انسان کا ذہن جن معاملات کے بارے مین فکر مند ہوتا ہے ، اس کو نیند میں خواب بھی ان ہی معاملات کے متعلق نظر
آتے ہیں مثال کے طور پر مصر کے ایک بادشاہ نے خواب میں سات دبلی اور سات موٹی گائیں دیکھی تھیں۔ موجودہ دور میں ایک شخصیت نے اپنے خوابوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ ان سے رہائش و طعام و سفر کے اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
درپیش مہمات بارے خواب دیکھنے کی مثال نبی اکرم ﷺ کا جنگ بدر سے قبل دشمنوں کی تعداد بارے خواب ہے یا ہجرت نبوی ﷺ کے پانچویں سال میں آپ ﷺ کا یہ خواب کہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ ادا فرما رہے ہیں اور اطمینان سے حرم شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔جن دنوں نماز کی دعوت کے طریقوں پر غور ہو رہا تھا تو ایک صحابی رسول ﷺ نے اذان خواب میں دیکھی تھی۔
کتابوں مین مذکور ہے کہ الیاس ہاوی ، جس نے سلائی مشین بنائی تھی، دن رات اس کے ڈیزائن ذہن میں بنایا کرتا تھا تو ایک دن اس نے مکمل ڈیزائن خواب میں دیکھ لیا۔بابل کے نامور بادشاہ بنو کد نصر نے بھی آنے والے وقت میں حکمرانی کا عروج و زوال بھی خواب میں ہی دیکھا تھا۔ موجودہ دور میں ایک خواب کا چرچا رہا جس میں ایک روحانی عالمہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایک سیاسی شخصیت سے شادی کر لی تھی ۔ اور وجہ عالم رویا میں نظر آنے والا خواب بیان کیا گیا تھا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ کو نارول میں ۶ مئی والے دن گولی مار کر زخمی کرنے والے عابد نامی ملزم نے بھی اس جرم کی ہدائت ایک خواب کے ذریعے پائی تھی۔
خوابوں دیکھنا ، خواب دکھانا اور خواب کو سچ کر دکھانا ، تین مختلف قسم کے اعمال ہیں ۔ خواب ہر بینا شخص دیکھتا ہے، خواب دکھانا رہنمائی کے دعویداروں کا شغل ہے مگر خوابوں کو سچا کر دکھانا اصحاب کمال کا کام ہوتا ہے ۔
مادر زاد اندھا خواب نہیں دیکھتا، سچے خواب رحمان کی طرف سے مگر جھوٹے خواب دکھانا شیطان کا شیوہ ہے ، باکمال لوگ اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھالتے ہیں ۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر باکمال پر سنگ باری لازمی ہوئی ہے

اتوار، 6 مئی، 2018

5th Generation War


ففتھ جنریشن وار پاکستان میں بہت پہلے شروع ہو چکی تھی ۔ ہم اس کو سیاست کا کھیل سمجھتے رہے، بلوچستان کی حکومت گرنے سے لے کر فاٹا سے اٹھے حقوق کا واویلا کرتے نوجوان ہی نہیں بلکہ مہینوں پہلے پاناما یا اقامہ پر فیصلہ آنے کے بعد بدلتے سیا سی حالات کی کھلتی گرہیں ، پھر نا اہلیوں اور چلتی گولیوں نے ففتھ جنریشن وار کی اصلیت کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ عنوان جس کو ہم دور کا ڈھول گرداننتے تھے ۔ اپنے صحن مین بجتا دیکھ لیا۔ جب تصور حقیقت مجاز کا روپ دھار کر آنکھوں کے سامنے آ جائے تو پھر یقین نہ کرنا کفر ہی کہلاتا ہے اور اللہ جو کہ ستار العیوب بھی ہے کفر کے گناہ سے محفوظ رکھے ۔
ففتھ جنریشن وار کی تشریح کرتے ایک امریکی جرنیل شانون بیبی Shannon Beebi نے کہا تھا کہ یہ تلخی اور مایوسی کا پیدا کردہ ایسا پر تشدد بھنور ہو گا جو کسی کو کچھ سجھائی نہ دینے والی کیفیت پیدا کر دے گا۔ مگر مقتدر قوت کی گرفت میں رہے گا ۔ اس کو یون بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھنور کو جو گرفت میں لے پائے گا وہی مقتدر قوت ہو گی۔
اس کی ابتداء یون ہو گی کہ معاشرے اور انسانوں کی تمام تر محرومیاں آنکھوں کے سامنے یون سجا دی جائیں گی جیسے میز پر رکھے گلدان میں رنگین پھول سجائے جاتے ہیں، ہر پھول اور ہر رنگ آنکھوں کے ذریعے دماغ میں احساس محرومی پیدا کرتا رہے گا۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد فورتھ جنریشن وار کی تکنیک کے ذریعے اس جنگ کو جیتا جائے گا جس کا تجربہ 1979 میں افغانستان سے شروع ہو کر عراق اور لیبیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
میرین کارپ مییگزین Marine Corp Magazine میں سائع ہونے والے ایک مضمون میں Lt Col Stanton Coerr کے مطابق ملکوں اور معاشروں میں سیاسی تعطل اس جنگ کے حربوں میں ایک حربہ ہے۔کرنل نے لکھا ہے اس جنگ کو فوجی جنتا ہی جیتے گی جس کی ہم نصرت کر رہے ہوں گے، وہ کچھ بھی نہ کھو کر کامیاب ہوں گے تو ہم ناکام نہ ہو کر کامیاب ہو جائیں گے

عمر کا کوڑا


ہمارے ہاں اسلامی نظام کا ذکر آٗے توحضرت عمر بن خطاب ؓ کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے ۔ عمر ایسا با برکت نام ہے کہ جب بھی عمر نام کے کسی خلیفہ کی حکومت آئی امن و امان کے حوالے سے وہ دور منفرد ثابت ہوا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں بھی امن و امان خوب رہا بلکہ معاشی درستگی کے حوالے سے ان کا دور اس لیے منفرد رہا کہ جب انھوں نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی تو کرپشن عام تھی، مگر ہم حیران ہوتے ہیں کہ تقریبا دوسال کے عرصے میں ملک سے کرپشن ہی کا خاتمہ نہ ہوا بلکہ اس دور میں رسول اللہ کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی کہ معاشی محتاجگی کا خاتمہ ہوا ۔
حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبدالعزیزکی شخصیات انتظامی لحاظ سے بالکل مختلف تھیں ، ایک عمر کے دوران کا شعار ان کا ْ کوڑا ْ تھا تو دوسرے عمر کے دوران میں ْ سزا ْ کا فقدان نظر آتا ہے ۔حکمرانوں کے بارے میں بعض باتیں مشہور ہو جاتی ہیں جو ہوتی تو حقیقت ہیں مگر ان میں غلو ہوتا ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا کوڑا اتنا موٹا نہیں تھا مگر تاریخ کے غلو نے اس کو ضرورت سے زیادہ نمایا ں کر کے ایک فقیر منش، خوف خدا رکھنے والے حکمران کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔
کوڑا سختی کی علامت ہے ، اسلام میں سختی کی حوصلہ شکنی پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالی خود انسان کو موقع دیتا ہے کہ ْ مانو یا انکار کر دو ْ خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سختی سے بالکل ہی مبرا ہیں ۔ بلکہ تسخیر انسان کا جو رستہ بتایا گیا وہ تسخیر قلوب ہے۔ اور عام سی بات ہے کہ دل سختی سے نہیں بلکہ ْ پیار ْ سے مسخر ہوتے ہیں۔ پیار کل بھی تسخیر قلوب تھا اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ 
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سختیاں جو بہت سارے مصاحب کو جنم دے چکی ہیں ۔ ان کو پیار اور محبت کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی ابتداء خود فرد کی ذات سے ہوتی ہوئی خاندان اور معاشرے میں پھیلتی ہے ۔ پیار اور محبت اگرْ منزل ْ مان لی جائے تو اس تک پہنچنے کی راہ کا نام ْ روا داری ْ ہے