پیر، 31 دسمبر، 2018

پسندیدہ جہاد

کرکٹ کا کھیل کھیلنے کے لیے پچ بہت محنت سے تیا ر کی جاتی ہے، تیار ہو جانے کے بعد اپنی ٹیم کھیلتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے اپنی تیار کردہ پچ پر مخالف کو کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔جب مخالف کو کھیلنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں تو بھی مد نظر اس کی شکست ہی ہوتی ہے۔

سیاست کی پچ پر، اس ملک میں طویل ترین میچ ،کرپشن کے نام پر چل رہا ہے۔میرے نوجوانی کے دنوں میں شہر میں ٹانگے ہوئے کرتے تھے۔ ٹانگوں کے کوچوان گھوڑے کو چابک سے اور سواریوں کو اپنی زبان سے قابو میں رکھے کرتے تھے البتہ ایک سرکاری محکمہ ایسا بھی تھا جس کے اہلکار کوچوانوں کو قابو میں رکھتے تھے۔ حکومت نے اس کا نام محکمہ انسداد بے رحمی رکھا ہوا تھا مگر اس محکمے کے اہلکاروں کو بے رحمی والے کے نام سے جانا جاتا تھا۔کوچوان کی آمدن اس قابل تو ہوتی نہیں تھی کہ خدا کی عائد کردہ زکواۃ ادا کرے مگر بے رحمی والے انسپکٹر کو اپنی آمدن کا حصہ دینا نہیں بھولتا تھا۔

ایک وقت تھا،جنگلات کی حفاظت کے نام پر بکری پالنا جرم قرار دیا گیا۔حتیٰ کہ دیہات میں بھی بکری پالنے والا مجرم ٹھہرایا جاتا تھا۔ قانون کی زد میں آنے سے اکثر لوگ بچ جاتے مگر گاوں کی مسجد کاپیش امام ہمیشہ حوالات کی ہوا کھاتا کیونکہ اسے موٹے پیٹ والوں کو کھلانے سے ایک وہ حدیث نبوی روکتی جس میں کھانے اور کھلانے والے دونوں ایک جیسے بتائے جاتے ہیں۔ 

حکومتوں کے فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ پاکستان اپنے خاندانی سسٹم پر بہت نازاں ہوا کرتا تھا ۔ اور مشترکہ خاندانی نظام کو بچانے کے لیے چولہا ٹیکس نافذ کیا گیا تاکہ خاندان کے لوگ اپنا ہانڈی چولہا علیحدہ علیحدہ نہ کر لیں۔ ایک خاندان گھر میں ایک ہی چولہا رکھ سکتا تھا۔ دوسرا چولہا رکھنے کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ حکومت نے تو قانون سازی ہی خاندانی اتفاق و اتحاد کے لیے کی تھی البتہ جن گھروں میں شادی کے بعد خانہ آبادی ہو جاتی ان گھرانوں اور حکومت کے مابین تعلقات خراب ہو جاتے البتہ پولیس والے ان تعلقات کے سدہار میں نمایاں کردار ادا کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان سے پہلے ہی علاقے میں ذرائع آمد روفت کے طور پر گھوڑے کی جگہ بائیسکل نے لینا شروع کر دی تھی۔ سائیکلوں کی چوری روکنے اور چوری شدہ سائیکلوں کی برآمدگی کے لیے ضلع کی سطح پر ایک رجسٹر ترتیب دیا جاتا تھااور ہر چوری ہونے والی سائیکل کا نمبر اس رجسٹر مین درج کر لیا جاتا تھا۔ جب یہ رجسٹر کافی پرانا اور بھاری ہو جاتا تو اسے کسی بھی چوراہے پر رکھ کر سائیکل سواروں کی سواریوں کے نمبر اس رجسٹر سے ملائے جاتے۔ جو عام طور پر نہیں ملا کرتے تھے۔ البتہ یہ منظر عام ہوتے کہ اہل رجسٹر اور اس کے درجنوں اہلکار ہر آنے والی کی سائیکل کو پکڑ لیتے اور سائیکل کی رسید پیش کرنے کا مطالبہ کرتے۔ الزام لگا کر بار ثبوت ملزم پر ڈالنا اسی زمانے کی اختراع ہے

یہ ابتداء تھی، معاشرے میں کرپشن نظر آنا شروع ہو گئی تو میرٹ کے نام پر تھانوں اور پٹوار خانوں میں با اعتماد افراد کی تعیناتی کا ڈول ڈالا گیا۔ معاشرے میں دیہاڑی دار آٹھ گھنٹے کی مزدوری پر کام کرتا تھا مگر کرپشن کے باعث اسے دیہاڑی کی بجائے ٹھیکہ دینے کا چلن چل نکلا۔ تھانے اور پٹوار خانے بھی بکنا شروع ہو گئے۔ محکوموں کو یقین ہو گیا کہ کرپشن کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ وکیل نہ کرو جج ہی کر لوکی اصطلاع ایجاد ہو چکی تھی۔ رشوت اور حرام کمائی کو لگام دینے کی بجائے مک مکا روائت بن گئی۔ نوسو چوہے کھا کر عمرہ کرنے کا فیشن چل نکلا۔ اور ایسا چلا کہ معاشرہ اس متفق ہو گیا کہ کنویں میں پڑا مردار بے شک نہ نکالوحسب فرمان پانی کے ڈول نکال لو۔ مردار ملا پینے والا پانی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔معالجین گلی محلوں میں پھیل گئے ۔ لیبارٹریوں کا میلہ لگ گیا۔ میلے میں جلیبیاں تلنے والے بھی پہنچ گئے ۔معلوم ہوا تیل ملاوٹ زدہ ہے۔۔۔

اکہتر سالوں کی محرومیوں، تلخ تجربات، جلوسوں اور ہنگاموں کے بعد ہم طے کر چکے ہیں جلوس نہیں نکالیں گے البتہ ریلیاں نکالنا شرف انسانیت ہے۔ہنگاموں سے ہم نے منہ موڑ لیا ہے مگردھرنے وقت کی ضرورت ہیں۔اجتماعی زندگی میں ہم اپنے گروہ کا حصہ ہیں تو انفرادی زندگی کو محفوظ بنانے کے گر بھی ہمیں آگئے ہیں ہم اپنے نومولود کے سرہانے اس کے باپ کو بطور چوکیدار کھڑا کرتے ہیں،بچہ دن میں ایک بار تو اس کی حفاظت کے ذمہ دار دوبار سکول جاتے ہیں۔ بچے کو ٹیوشن اس لیے پڑہاتے ہیں کہ علم کے حصول کا حصہ ہے، ایک وقت تھا علم بڑی دولت ہوا کرتی تھی اب دولت ساری تعلیم میں سمٹ آئی ہے۔ہر سرٹیفیکیٹ اور ڈگری کی قیمت ہے ۔

ہم دنیا کے نمبرایک جفاکش ہیں۔ گھر کو چمکاکر رکھتے ہیں۔ گھر کا کوڑا گلی کے راسے نکاسی کے نالے میں جاتا ہے۔ اللہ باران رحمت برساتا ہے تو نالا بھی صاف ہو جاتا ہے۔ البتہ دس سال بعد جب بند ہو جاتا ہے اور اس کے متوازی نیا نالا تعمیر کرلیتے ہیں۔ہم جان چکے ہیں سارا معاشرہ کرپٹ ہوجکا ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ کرپشن ختم ہوالبتہ ہم چاہتے ہیں اس کی ابتداء حریفوں سے ہو۔ 

جمعہ والے دن منبر پر بیٹھے خطیبوں، نصابی کتابوں میں درج داستانوں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روائتوں، جذباتی ناولوں اور سوشل میڈیا پر پھیلی اپنی کامیابیوں کا مان ہمیں مجبور کرتا ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ کرنے والے سارے کام تو مکمل ہو چکے اب اعادہ ہی ممکن ہے ۔ بھٹو نامی شخص نے اگرچہ نیا پاکستان دسمبر1971 میں بنا لیا تھا دوبارہ دہرانے کا خیال نوجوانوں کو پسند آیا مگر کچھ ریٹائرڈ قسم کے بزرگوں کے من پر بھاری رہا ۔ البتہ کرپشن کے خلاف جہاد ایک بار پھر شروع کیا گیا تو اس پر ہمیشہ کی طرح نئے اور پرانے لوگ کافی مطمن ہیں۔ یہ تجربہ ہر بار عوام میں ایک نیا جذبہ پھونکتا ہے۔ اور سرور کا اصل سبب لفظ جہاد ہے۔ پاکستان میں کرپشن واحد برائی ہے جس کے خلاف عمل کے لیے نوجوان، جوان اور ریٹائرڈ لوگ سب ہی خوش دلی سے جہاد کرتے ہیں۔ 

ہم معاشرے میں گہری دفن کرپشن کی جڑوں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ ہر دس ، پندرہ سال بعد کرپشن کا درخت کاٹ کر اپنے جذبات کو قابل تحسین بنا سکیں۔

کتا ۔۔ہائے ہائے


قدرت اللہ شہاب صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ایوب گھر سے نکلے ، راستے میں لڑکے نعرے لگا رہے تھے۔ ایوب خان نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا لڑکے کیا کہہ رہے ہیں۔ ڈرائیور کو ہمت نہ ہوئی مگر ایوب خان کے اصرار پر جب ڈرائیور نے حقیقت بیان کی تو ایوب خان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑنے کا کہا اور گھر جا کر استعفیٰ دے دیا۔
ضیاء شائد صاحب نے لکھا ہے کہ لاہور میں دو کتوں کے گلے میں ْ ایوب کتا ہاے ہائے ْ کی تختی ڈالی گئی۔ اس کی تصویر بناکر ایوب خان کو دکھائی گئی تو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔
ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہائے ْ کا نعرہ ہمارے سامنے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے مری روڈ پر ۷ نومبر ۱۹۶۸ کو لگایا گیا تھا۔ نعرہ لگوانے والا نوجوان عبدلحمید تھا جو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ جوپشاور روڈ پر گولڑہ موڑ سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے کنارے واقع تھا ( جنرل ضیاء کے دور میں اس سول ادارے کو عسکری ادارہ بنا دیاگیا تھا ) کا طالب علم تھا اور اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس نعرے کو عسکری حکمرانی سے جمہوری سفر کے آغاز کی نوید بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور کچھ بنیادی حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ 
۵ ۱۹۶ کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان غذائی قلت کا شکار ہو گیا تھا۔ ایوب خان کے لائق وزیر زراعت خدا بخش بچہ کی درخواست پر امریکہ نے سرخ رنگ کی موٹے دانوں والی دہرے خواص والی مکئی پاکستان بجھوائی تھی ۔ اس مکئی کی پہلی خاصیت اس کا بد ذائقہ ہونا اور دوسری خاصیت یہ تھی کہ حلق سے نیچے مشکل سے اترتی تھی۔ قلت میں چینی بھی شامل تھی ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کی قیمت میں ۲۵ فیصد اضافہ کر دیا گیا یعنی ایک روپیہ سیر کی بجائے سوا روپے سیر ۔ ملک بھرمیں پائی جانے والی تشویش کو مجتمع ہوتے ہوتے تین سال لگ گئے ۔ یاد رہے اس وقت سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی۔ خبر چیونٹی کی چال رینگتی تھی۔ جب تشویش نے مظاہروں کا روپ دھارا تو اس وقت ملک میں اختیارات کا منبع جرنل ایوب خان تھا اور وہ لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں اپنا دس سالہ اقتدار کا جشن ْ عشرہ ترقی ْ کے نام سے منا رہا تھا۔ گو پاکستان ایک وکیل نے بنایا تھا مگر ہراول دستے کا کردار طلباء نے ادا کیا تھا۔ ملک میں طلباء کی یونینز کافی مضبوط تھیں۔ لاہور کے جشن دس سالہ کے دوران لاہور کے طالب علم سٹیڈم کے گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے ۔مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ اور دوسرے مقامات پر بھی طلباء نے ہڑتال اور ہنگامے شروع کر دیے۔ دس سالہ ترقی کی سیٹی بجاتی ٹرین کو بہاولپور میں نذر آتش کر دیا گیاتھا۔۷ دسمبر کو ایوب خان کے ڈھاکہ کے دورے کے دوران پولیس کی گولی سے دو افراد جان بحق ہو گئے تھے۔
اس وقت سوویت یونین اپنی سیاسی طاقت کے عروج پر تھا۔ چین سے ماوزے تنگ کی عطا کردہ ٹوپی مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے سر پر تھی تو مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعدمولانا بھاشانی کی قیادت میں نیشل عوامی پارٹی منظم ہو چکی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم ننگی تلواریں لیے مد مقابل تھے ۔ اسلامی ذہن کی سیاسی جماعتیں اور جنرل ایوب موجود نظام کے محافظ تھے تو مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب سرخ انقلاب کے داعی تھے۔ قحط کی ماری قوم سے ایک جلسے میں ایک مذہبی سیاسی رہنماء (جماعت اسلامی کے امیر )نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں قران پاک اٹھا کر عوام سے پوچھا کہ روٹی کو ترجیح دو گے یا قران کی حفاظت کرو گے۔ عوام نے شیخ مجیب اور بھٹو کو منتخب کر کے روٹی کو اہمیت دی ۔ ان دنوں ایک جلسے میں نعرہ بلند ہوتا تھا ایشیاء سرخ ہے تو دوسرے دن اسی مقام پر ایشیاء کے سبز ہونے کی نوید سنائی جاتی تھی ۔ جنگ دائیں اوربائیں بازو کی تھی۔ جسے کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا۔ 
ایوب کتا ۔۔ ہائے ہائے کے نعرے لگانے والے کوئی زیادہ جمہوریت پسند نہ تھے ۔ جب ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ کوجنرل یحییٰ خان نے اپنے بھائی آغا محمد علی (جو انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تھے) کی مدد سے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پہلے سے ٹائپ شدہ پر دستخط کرائے تو ایشیا سبز ہے کے نعرے لگانے والے مطمن ہو کر گھر چلے گئے ۔ اور سرخوں نے بھی کمیونزم کو
لپیٹ کر اسلامی سوشلزم کو برامد کر لیا۔ 
اس دور سے تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ اس حقیقت کو بھی دریافت کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبے کے پیچھے بنیادی عنصر یہ تھا کہ کانگریس نے ذہن بنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ میں رکھنا ہے ۔ مسلمانوں کو کانگریس کی اس سوچ سے اختلاف پیداہوا۔ مسلم لیگ نے جنم لیا اور پاکستان بن گیا۔ عزت نفس بنیادی انسانی حق ہے۔ ممتاز صحافی علی احمد خان نے اپنی کتاب ْ جیون ایک کہانی ْ میں لکھا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مادر ملت کے جلسے میں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گذارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ گرد و نواح کے گاوں کے لوگ بھی وہاں جمع تھے اور ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی نے بنگالی ڈرائیور نے انھیں تختے لانے کے لیے کہاتو ان میں ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے پوچھا کس کی طرف سے آئے ہو؟ ڈرائیور نے بتایا مادر ملت فاطمہ جناح کی طرف سے ۔ بنگالی نے کہا ایسا بولو نا ۔۔ تمھاری گاڑی کو تو ہم کندہوں پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔اس جلسے نے ثابت کر دیا تھا مادر ملت نے میدان مار لیا ہے ۔ مگر ایوب خان کی انتخابات میں دھاندلی نے عوام سے شراکت اقتدار کی امید ہی چھین لی تھی۔ جب امیدین چھین لی جائیں توبقول صاحب طلوع ارشاد احمد عارف ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہاے ْ کے نعرے گھر کے اندر معصوم نواسے بھی لگاتے ہیں۔

جمعہ، 28 دسمبر، 2018

جنات کی اصلیت


جنات کا وجود قران مجید اور احادیث نبوی سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا قول ہے کی 
انسان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے جنات کو تخلیق کیا گیا تھا۔حضرت عبداللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ آگ کی گرم لو جو شعلے میں نظر نہیں آتی اس لو سے جنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ مولاناابواعلی مودوی نے بھی ابن عباس کے قول کی تصدیق کی ہے۔
جنات عام طور پر انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ مگر ہمارے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات ہمیں جنات کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ جنات پر کھل کر علمی بحث ایک مسلمان ماہر حیوانات اورمحقق جناب عمر بن بحر بن محبوب نے کی ہے جو بصرہ کے رہنے والے تھے۔انھیں لوگ ان کی کنیت ابو عثمان کی بجائے ْ جاحظ ْ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ اس کا سبب ان کے چہر ے اور آنکھوں کی غیر معمولی بناوٹ تھی۔ ان کی کتاب ْ حیوان جاحظ ْ میں جنات پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کے مطابق جنات کی کئی اقسام ہیں، کچھ جن ادمیوں مین مل جل کر رہتے ہیں اور کسی کو کوئی ضرر یا تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ایسے جنا ت کو عامر کہا جاتا ہے۔ شرارتی جنات جو لوگوں کو ڈراتے ہیں مگر نقصان نہیں پہنچاتے ایسے جنات کوروح کہا جاتا ہے۔زیادہ شرارتی اور تنگ کرنے والون کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے خطرناک جنات کو عفریت کہا جاتا ہے۔ یہ آبادیوں سے انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔حضرت علی کے بڑے بھائی کا نام طالب تھا۔ ان کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ کبھی بھی واپس نہیں آئے۔ عربوں میں عمرو بن عدی لحمی نام کا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اسے جنات اٹھا کر لے گئے تھے۔اورکئی سال گذر جانے کے بعد اسے واپس بھی کر گئے تھے۔ خرافہ نام کے ایک شخص کا ذکر بھی ملتا ہے جسے جن اٹھا کر لے گٗے تھے اور جب اسے واپس کیا تو وہ بہکی بہکی باتیں کیا کرتا تھا۔ انسانوں میں بھی کچھ لوگوں نے جنات کے ساتھ تعلقات بنا رکھے تھے۔ اہل یمن میں ایک گروہ کا یقین ہے کہ ملکہ بلقیس جننی ( سعلاۃ) کی اولاد تھی۔ عربوں کی کتابوں کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ عمرو بن یربوع نامی شخص نے ایک سعلاۃ کے ساتھ شادی کی تھی اور اس کی اولاد بھی ہوتی تھی۔تابط شرا نام کا ایک عامل تھاجس کی جنات کے ساتھ دوستیاں تھیں۔ ایک نام ابوالبلاد طہوی کا ہے جس نے ایک بھوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
جنات کے بارے میں علمی تحقیق کم اور سنے سنائے قصے زیادہ ہیں۔ ان قصوں میں عاملین جنات ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں ایک عامل ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس جو بھی آتا اسے بتاتے کہ اس پر جنات کے ذریعے کالا جادو ہوا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے عمل کے ذریعے چند منٹوں میں دور دراز کے شہروں اور قصبوں کے قبرستانوں میں دبائے تعویز جنات کے ذریعے نکال کر د دیتے۔ اسی کی دہائی میں ان کا نذرانہ یا فیس گیارہ سو روپے ہوا کرتی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے انھوں نے سڑک کنارے پلاٹ خرید کر مکان بنا لیا۔
کشمیر میں ایک عامل سے میری دوستی تھی۔ وہ فوج مین ملازم تھا اور مشرقی پاکستان میں پوسٹنگ کے دوران اس نے کچھ عملیات سیکھے تھے۔ اس نے ایک بار خود مجھے بتایا کہ اس نے اس عمل سے دو کروڑ کے اثاثے بنائے ہیں۔ 
انسان کے اندر حسد اور کینہ دو خصلیں ہیں ۔ عامل لوگ انسان کی ان خصلتوں کو اپنی میزان کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں اور دوسرے پلڑے کو متاثرہ شخص کو اپنی دولت سے برابر کرنے کا کہتے ہیں۔ میں نے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کو عاملوں کا معمول بنتے دیکھا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کمزور قوت ارادی کے لوگ آگ کی پیداوار اس مخلوق کا ایندہن بنتے ہیں۔ ان کے وہم کی پرورش عاملین جنات کرتے ہیں اور ان کو کھلی آنکھوں سے جنات دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں
۔ 

جمعرات، 27 دسمبر، 2018

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 1

اعزاز سید

اسلام آباد : 6 اگست1990 کو عین اسی دن جس دن صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا پاکستان فوج کے111 بریگیڈ کے ایک نوجوان کپتان محمد صفدر کی عبوری وزیر اعظم جتوئی کےلیے بطور اے ڈی سی تعیناتی ہوئی۔ اسی دن وہ صدارتی محل پہنچے جہاں بریگیڈیئر نثار نے ان کا استقبال کیا۔ اسی روز حلف برداری کی روایتی تقریب کے بعد انہیں عبوری وزیر اعظم سے متعارف کرایا گیا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں دیگر حکومتی ارکان کے ساتھ تعارف کے علاوہ وہ نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ کرنل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملے جنہوں نے بعد میں بغیر مارشل لاء لگائے پاکستانی فوج کی طویل ترین سربراہی کی۔ ان دونوں کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کی جانب سے تعینات کیا گیا اور بعد ازاں یہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اہم اور با اثر ثابت ہوئے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے استاد جیسے تھے۔ میں نے بہت سی چیزیں انہیں سے سیکھیں۔ ہم دونوں نے بہت اچھا وقت ایک ساتھ گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں نیو جتوئی میں تھے جہاں سے اس وقت نگران وزیراعظم مصطفیٰ جتوئی قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے ۔ کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کرنے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل کیانی کو دوبارہ فوجی ذمہ داریاں دے دی گئیں تاہم کیپٹن صفدر نے وزیراعظم ہاؤس میں اے ڈی سی کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں۔ تقریباً 21 سالوں بعد ان کی دوبارہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی جہاں 5 جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے۔
نوجوان کیپٹن صفدر 27 سال کے تھے۔ وہ نہایت وجیہہ صورت تھے۔ خصوصاً جب وہ وردی میں ہوتے تو اطراف کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنی یاداشتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
” میں جب بھی وردی میں اپنے آبائی شہر مانسہرہ جاتا تھا تو عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پہ چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں۔ ”
وزیر اعظم ہاؤس میں فرائض کے آغاز پر کیپٹن صفدر کو علیحدہ رہائش گاہ دی گئی۔ انہوں نے وزیر اعظم کے عملے سے ایک الماری کا تقاضا کیا جہاں وہ اپنی استری شدہ وردی کو ٹانک سکیں۔ جلد ہی انہیں ایک تالہ لگی الماری دے دی گئی انہیں بتایا گیا کہ اس کا انتظام سندھ ہاؤس سے کیا گیا ہے جہاں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کےزیر استعمال تھی، جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر تھیں۔ جب نوجوان کیپٹن نے اس الماری کے تالے کو کھولا تو انہیں اس میں سفید سونے کے زیورات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی خاندانی تصاویر کے کچھ البم ملے ۔
کیپٹن صفدر نے فی الفور وزیر اعظم ہاؤس کے ملٹری آفیسر کو مطلع کیا اور یہ قیمتی زیورات اور تصاویر باضابطہ طریقہ کار سے ایک تحریر ی نوٹ کے ہمراہ واپس کردیں۔ ملٹری آفیسر نے یہ معاملہ وزیر اعظم کےسامنے رکھا اور انہوں نے یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو صاحبہ تک پہنچانے کا فی الفور حکم دیا۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور یہ تمام اشیاء بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں، انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ تمام اشیاء فوج کے ایک نوجوان کپتان کو ملی تھیں۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ بے نظیر بہت خوش تھیں ۔ کچھ دن بعد اسی الماری کے دوسرے دراز سے ہیرے کی انگوٹھیاں ملیں۔ صفدر نے دوبارہ وہی طریقہ کار اپنایا اور یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں۔
یہ تمام خصوصیات وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداران کے علم میں تھیں کہ نوجوان کیپٹن نہ صرف پیشہ ور انہ صلاحیتوں کا حامل افسر ہے بلکہ ایمان دار اور اعلیٰ اقدار کا مالک انسان بھی ہے۔ جلد ہی ان کے نگراں وزیر اعظم جتوئی سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ 24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف نے بحیثیت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
نئے وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ نوجوان کپتان نے فوج کے اہم پیشہ ورانہ تربیتی کورسسز پورے نہیں کیے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ انہیں سول سروسز میں بھیج دیا جائے۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم جسے چاہے سول سروسز میں بھیج سکتا ہے تاہم فوج کے اس مقصد کے لیے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔
نگران وزیر اعظم جتوئی نے چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ کو خط لکھا جس میں سفارش کی گئی کہ کیپٹن صفدر کو سول سروسز میں تعینا ت کیا جائے۔ 6 نومبر 1990 کو جس روز میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم جتوئی نے میاں نواز شریف کو کیپٹن صفدر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
” کیپٹن صفدر صرف میرے اے ڈی سی ہی نہیں بلکہ خاندان کے ایک فرد اور ایک بیٹے کی طرح ہیں۔ ”
تقریب حلف برداری کے بعد کیپٹن صفدر نے نئے وزیر اعظم سے اجازت مانگی کہ انہیں رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم کو خدا حافظ کہنے کے لیے کراچی جانے کی اجازت دی جائے۔ نئے وزیر اعظم کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب دارلحکومت میں ہر کوئی نئے وزیر اعظم کی قربت چاہ رہا ہے، یہ کیپٹن سابقہ نگران وزیر اعظم کو عزت سے روانہ کرنا چاہ رہاہے۔ کیپٹن صفدر نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
” میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کو خدا حافظ کہا اور انہیں جہاز میں کراچی تک چھوڑنے گیا۔ جتوئی صاحب اس غیر معمولی احترام پہ بہت خوش تھے۔ ”
واپس آکر کیپٹن صفدر نے اپنی ذمہ داریاں نئے ویر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی کی حیثیت سے نبھانا شروع کر دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے کیپٹن صفدر خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی نظروں میں بھی آئے۔ انہوں نے جلد ہی اس نوجوان اور وجیہہ صورت کپتان کو پسند کرنا شروع کردیا، جو بہت تابعدار تھا اور اپنی دیانت اور اقدار کے سبب مقبول تھا۔ ایک روز کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری سے یہ کہہ کر اپنے آبائی شہر مانسہرہ جانے کی چھٹی لی کہ ان کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسی روز جب وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو ان کے متعلق دریافت کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کے سبب چھٹی پر گئے ہیں۔
کیپٹن صفدر پہلی بار دو نوں خاندانوں کی گفتگو کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس روز گھر گیا ہوا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ میرے والد صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آپریٹر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بات کریں گے۔ انہوں نے میرے والد سے فون پہ گفتگو کی اور میری والدہ کی صحت کے متعلق بات چیت کی۔ ہم سب بہت حیران تھے کہ وزیر اعظم اپنے عملے سے کس قدر باخبر ہیں۔ اگلے روز بیگم کلثوم نواز نے فون کیا اور میری والدہ سے ان کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ ہمیں ان دونوں کا رویہ بہت پسند آیا کیونکہ یہ ان دونوں کی بہت مہربانی تھی۔
جون 1990 میں وزیر اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور آج کل کے خیبر پختونخوا کے ضلع ناران کی وادی کاغان کی جانب رواں تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پہ وجیہہ صورت کیپٹن صفدر براجمان تھے۔ اس روز گاڑی میں وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز بھی موجود تھیں۔ مانسہرہ سے گزرتے ہوئے اے ڈی سی وزیر اعظم اور خاتون اول کو علاقے کے متعلق آگاہ کررہے تھے کہ اچانک خاتون اول نے کہا۔
” یہ وادی کس قدر خوبصورت ہے۔ ”۔
”جی میڈم۔ یہ وادی بہت خوبصورت ہے۔ میرا بچپن اسی جگہ کھیل کود میں گزرا ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے بے تکلفی سے کہا۔
” اوہ واقعی، یہاں سے آپ کا گھر کتنا دور ہے؟ ” بیگم کلثوم نواز نے اشتیاق سے پوچھا۔
” میڈم، یہاں سے بہت قریب ہی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔
” تو پھر چلیے۔ ہمیں اپنا گھر دکھائیے۔ ” بیگم کلثوم نواز نے کہا اور وزیر اعظم نے بھی اپنی اہلیہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔
حاری ہے

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 3

اعزاز سید

”جی سر۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نرم روی سے جواب دیتے ہیں۔
” تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے؟ ”۔ نواز شریف صفدر کو مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ ریل گاڑی لاہور سے راولپنڈی کا سفر طے کررہی ہے۔
” سر۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی۔ ”۔ کیپٹن صفدر آہستگی سے کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر انہیں مطلع کریں۔
کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے۔ تم مت جاؤ۔
وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر اپنے والد کو فون کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگتے ہیں۔
” ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ ” ان کے والد اسحاق مسرور نے ان سے کہا۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں۔
” مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ بیگم کلثوم نواز نے اسٹاف کے عملے سے قمر زمان کو مانسہرہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں خاموشی سے پتہ کریں کہ میرا مزاج اور طور طریقہ اور ہمارے خاندان کا رہن سہن اور شہرت کیسی ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کے روکنے پہ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل گئی۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ 1992 کی گرمیوں میں کیپٹن صفدر اے ڈی سی وزیر اعظم اپنی ہفتہ وار چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کے والد66 سالہ اردو شاعر اسحاق مسرور جو کہ اپنی اہلیہ حاجرہ بی بی کے ہمراہ بیٹھے تھے نے اپنے بیٹے صفدر کو بلایا۔
”صفدر، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ مانگ رہا ہے۔ ”۔ اسحاق مسرور نے صفدر سے کہا۔
” میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے اباجی۔ آپ نے ایسا یہاں تو کہہ دیا لیکن کہیں اور مت کہیے گا میری نوکری چلی جائے گی۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو جواب دیا۔
” میں نے اپنی عمر گزاری ہے اور میں تجربہ کار ہوں۔ بیگم کلثوم نواز نے تمہاری والدہ حاجرہ بی بی کو فون کیا ہے اور تمہارا رشتہ مانگا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپ کا بیٹا چاہیے۔ ” باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
اس موقع پر جواں سال کیپٹن صفدر 28 سال کے تھے جبکہ مریم نواز نے 23 اکتوبر 1991 کو اپنی اٹھارہویں سالگرہ منائی تھی۔ دونوں کے مابین دس سال کا فرق تھا جو کہ قابل قبول تھا۔ کیپٹن صفدر سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ وجیہہ صورت کیپٹن سے اپنی ٹین ایج میں ضرور متاثر ہوں گی۔
اس کے بعد دونوں خاندانوں نے شادی کی تیاری شروع کردی اور مریم اور صفدر کی شادی 25 دسمبر 1992 کو نواز شریف کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔
کیاآپ کو توقع تھی کہ آپ کی شادی مریم نواز سے ہوگی؟ میں نے کیپٹن صفدر سے ایک سیدھا سوال پوچھا۔
” نہیں بالکل نہیں۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔ کیا آپ شادی سے پہلے مریم سے ملے تھے؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ ” وہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا تھا۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا۔ جولوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز( جنہیں اب وہ امی جان کہتے ہیں) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کرلیا۔
مترجم شوذب عسکری۔
بشکریہ تجزیات ڈاٹ کام۔

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 2

اعزاز سید

وزیر اعظم کا موٹر کاروان کیپٹن صفدر کے گھر کے قریب جا رکا۔ کیپٹن صفدر گاڑی سے نکل کر دوڑے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سے پہلے ہی اپنے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو اطلاع کریں کہ وی وی آئی پی مہمان آئے ہیں۔ ان کی والدہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئی تھیں۔ ان کے والد جو کہ مطالعہ کے شوقین اور اردو کے شاعر تھے، وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔
” ابا جان ، وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ آئے ہیں۔ ” یونیفارم میں ملبوس کیپٹن صفدر نے دس مرلے کے مکان میں واقع مطالعے کے کمرے میں موجود اپنے باپ کو حیران کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
اسحاق مسرور، جو کہ یوٹیلیٹی سٹور سے ریٹائرڈ ملازم تھے جلدی سے اپنے گھر سے باہر آئے۔ جلدی میں وہ کتاب رکھنا بھی بھول گئے جسے وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ان کی ایک انگلی ان دوصفحوں کے درمیان ہی تھی جہاں وہ پڑھتے ہوئے رکے تھے۔
کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو میاں صاحب اور ان کی اہلیہ سے تعارف کروایا۔ ان کے والد نے دونوں میاں بیوی کا استقبال کیا اور انہیں گھر لے جاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پہلے سے اطلاع کردیتے تو ان کے لئے باقاعدہ انتظامات کیے جاتے۔
گھر میں داخل ہوکر بیگم کلثوم نواز نے جائزہ لیا۔ مہمانوں کو برآمدے میں بٹھایا گیا۔ مہمانوں نے کیپٹن صفدر سے ان کی والدہ کا پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئی ہیں۔
پنجرے میں بند ایک خوبصورت طوطے پر خاتون اول کی نگاہ گئی تو وہ اس کے پاس چلی گئیں۔ کیپٹن صفدر نے بیگم کلثوم نواز کی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ یہ طوطا ان کی والدہ کا پالتو ہے اور یہ باتیں بھی کرتا ہے۔ ” میاں مٹھو، یہ بی بی جی ہیں۔ ” کیپٹن صفدر نے طوطے کو مخاطب کرکے کہا۔
جی بی بی جی۔ جی بی بی جی۔
طوطا رٹالگانے لگا۔ بیگم کلثوم نواز حیران رہ گئیں۔ وزیر اعظم بھی اپنے اے ڈی سی کے والد سے ملاقات پر خوش ہوئے۔ کیپٹن صفدر اپنے والدین کے چار بیٹوں میں تیسرے نمبر پہ ہیں۔ جبکہ ان کی کوئی بہن نہیں ہے۔ اتفاق یہ کہ جب وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں آئے تو کوئی بھی بھائی گھر پہ نہیں تھا۔
چونکہ ان کی والدہ بھی گھر پہ نہیں تھیں، لہذا وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں دس سے پندرہ منٹ رکے اور پھر وادی کاغان کی طرف اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔ وادی کاغان پہنچے تو وہاں میاں شہباز شریف بھی اپنے پروگرام کے مطابق پہلے سے موجود تھے۔ بیگم کلثوم نواز نے میاں شہباز شریف کو بتایا کہ وہ کیپٹن صفدر کے گھر رکے تھے۔

وزیر اعظم کے ساتھ روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کیپٹن صفدر نے جولائی 1990 میں سول سروسز کے ٹریننگ پروگرام کا خط وصول کیا جس میں انہیں ضلعی انتظامیہ کے اٹھارہویں کامن کورس میں شرکت کا کہا گیا۔
صفدر نے اپنے افسران بالا بشمول وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ اب یہاں سے روانہ ہوں گے اور سول سروسز میں شامل ہوں گے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرےساتھ یہیں ڈیوٹی کرو۔ صفدر ر ک گئے اور ایسے انتظامات کر لیے کہ وہ آئندہ سال یہ ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ان کا فوجی کیریر ختم ہورہا تھا اور یہ وقت فوج سے سول ادارے میں منتقل ہونے کا وقت تھا۔ تاہم وہ ابھی تک وزیر اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
صفدر نے وزیر اعظم کے ساتھ ذمہ داری جاری رکھی۔ وزیر اعظم کے چاروں بچوں بشمول سب سے بڑی بیٹی مریم اس جوان سال وجیہہ صورت کیپٹن کو وزیر اعظم ہاؤس میں دیکھتے تھے۔ ایک سال گزر گیا اور جواں سال کیپٹن کی سول سروسز ٹریننگ کا مرحلہ دوبارہ آن پہنچا تو اس نے ایک پھر وزیر اعظم کو اپنی روانگی کا بتایا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ براستہ ٹرین لاہور جارہے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنے ڈبے میں تھے جب عملے نے انہیں بتایا کہ انہیں وزیراعظم نے طلب کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے ڈبےمیں آتے ہیں۔ اپنے ڈبے میں وزیراعظم اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور بزرگ گھریلو خدمتگار صوفی بیگ کے ہمراہ ہیں۔
وزیر اعظم انہیں بیٹھ جانے کو کہتے ہیں۔ صفدر بیٹھ جاتے ہیں تو کلثوم نواز انہیں میز پر رکھی ٹوکری سے پھل کھانے کا کہتی ہیں۔ صفدر احترام سے نہ کرتے ہیں۔
”کیا تم ہمیں چھوڑ رہے ہو؟ ” نواز شریف پوچھتے ہیں۔
جاری ہے

منگل، 25 دسمبر، 2018

سیاسی بھنڈی


جب دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا تو اسلام آباد میں کہا جاتا تھا ۔ شہر بستے بستے بستا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ آیا تھا کہ شہر بسانے کے لیے جو انفرا سٹرکچر اور باسیوں کے رہنے کے لیے کو مکانات درکار ہوتے ہیں ، ان کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اس محنتی قوم نے اسلام آباد کو بسا لیا۔پاکستان کی بہترین شاہرائیں اور عمدہ عمارتیں تیار ہو گئیں اور نفیس سرکاری ملازمین اس شہر کی رونق ہو چکے۔البتہ ترقی کا عمل جاری و ساری ہے میٹرو کی شکل میں بین الاقوامی معیار کے ذرائع آمد رفت مہیا ہو گئے ۔ ہوائی اڈہ چھوٹا پڑ گیا تو کھلے مقام پر وسیع اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوائی اڈہ آپریشنل ہو گیا۔ سر سبز اسلام آباد میں مزید شجر کاری کر کے مزید شاداب بنا دیا گیا۔ تاریخ بیان کرتی یادگار بھی عوام نے دیکھ لی۔ بچوں کے لیے رنگ برنگے چڑیا گھر تو باسیوں کے لیے باغات اور پارک بھی موجود ہیں۔ دوکانیں ائر کنڈیشنڈ اور آسائش زندگی سے بھری ہوئی ہیں۔ اس شہر کے بارے جو خواب بنانے والوں نے دیکھا تھا شہری اس کی تعبیر پا رہے ہیں۔ اس شہر میں ایسی کشش ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے لوگ آ کر یہاں بس گئے ہیں۔ اس شہر کو دیکھنے باہر سے آیا ہوا شخص سار ا شہر گھوم کر ہوٹل کی بالکونی میں پڑا انگریزی کا اخبار پڑھ کر فرحت سی محسوس کرتا ہے۔ اس شہر میں زیادہ لوگ اردو کا اخبار پڑہتے ہیں ۔کچھ لوگ شام کا اخبار شوق سے پڑہتے ہیں۔اردو کے اخبار سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر میں ایک صنعتی علاقہ بھی ہے جس میں کام کرنے والے مہینوں اپنی تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک سبزی منڈی بھی ہے جہان سنگل دیہاڑی سولہ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ ان پر شکوہ رہائشی عمارتوں میں گھریلو ملازمین بھی بستے ہیں۔ جو چوبیس گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔ ہر سیکٹر میں ایک تھانہ بھی پایا جاتا ہے، جس میں حوالات بھی ہوتی ہے اورحوالاتیون کی کہانیاں دل چیرتی ہیں۔ ایک ڈی چوک بھی ہے جہاں ہر قسم کی زبان درازی ، اظہار رائے کے نام پر کی جاتی ہے۔شام کے اردو اخبار کے قارئین کی دنیا اسلام آباد میں ہونے کے باوجود وکھری ہی ہے۔ اس وکھری دنیا میں بھی سبزی منڈی کا اپنا ہی حسن ہے۔ یہاں دیر کا عبدالخبیر ، خیر پور کا محمد اسلم، مظفر گڑھ کا کرم الہی، نواب شاہ سے آیا مکھوبھی ہے۔ یہاں آپ پاکستان کی کوئی بھی زبان بولیںآپ کو بات کرنے والا لازمی مل جائے گا۔ منڈی میں زندگی ظہر کے بعد انگڑائی لیتی ہے۔ رات کو دن ہوتا ہے اور سورج سوا نیزے پر آ جائے تو مزدور کی دیہاڑی پوری ہوتی ہے۔ ان کے پاس گرمیوں میں ایک چادر اور سردیوں میں ایک رضائی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی ضرورت دیہاڑی اور مجبوری نیند ہوتی ہے۔ یہ کبھی شاہرہ دستور پر چڑھے ہیں نہ قصر صدارت سے انھیں کوئی سروکار ہے۔ وزیر اعظم ہاوس کو دیکھنے کے متمنی ہیں نہ پارلیمان کو۔ حوالات سے وہ پناہ مانگتے ہیں۔ انصاف سے وہ مایوس ہی نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو وہ حسرت اور نفرت سے نہیں دیکھتے اونچی عمارتوں سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

سبزی منڈی میں پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ مزدوری کے لیے آنے کا نام بدل دیا جاتا ہے ۔بوڑھا معراج دین ْ باباماجھا ْ ۔ محمد اسلم ، اسلو ۔ جاوید خان ، جیدا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہان عزت صرف گاہک پاتا ہے اور صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ گاہک کے علاوہ بھی بہت لوگ یہاں آتے ہیں ، نام ان کے بھی بدل جاتے ہیں ۔ جیسے ڈنڈا، مکھی ، بجلی ، شرمن ٹینک ۔۔۔
یہاں اخبارات شام ہی کے مقبول ہیں ، ایک پڑہتا ہے ، سننے والے سر دھنتے ہیں ۔ سیاسی بیانات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی البتہ بیان بازوں کے نام انھوں نے اپنے ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ کوئی ٹماٹر ہے تو کوئی بینگن، کسی کانام کریلا رکھا ہوا ہے تو کسی کا آلو۔ میں نے پہلی بار سنا کوئی بھنڈی بھی ہے ۔ ذہن پر بہت زور دیا۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا،یہ بھنڈی کون ہے ؟ ْ نئے سیزن کی تازہ پیداوار ہے ْ سمجھ نہ پایا ۔ اچھا اتنا ہی بتا دو مذکر ہے کہ مونث ۔۔۔ ْ مذکر اور مونث کا تو پتہ نہیں لیکن ہے لیس دارْ 

جمعرات، 20 دسمبر، 2018

لندن کا مہاجر


سال 1979سے قبل مسلمانوں کا یہ بیانیہ بہت مضبوط تھاکہ اسلام مسلمانوں کے علم و عمل اور سیرت وکردار کے بل بوتے پرپھیلا۔ اولین دور میں جب مکہ فتح ہوا تو دینا نے دیکھا کہ فاتح لشکر کی تلواریں نیاموں میں ہیں اور اعلان کرنے والے اعلان کر رہے ہیں کہ بچوں اور عورتوں کو امان ہے ۔ غیر مسلح شہریوں کو امان ہے۔ اپنے اپنے علاقے کے سرداروں کے گھروں میں پناہ گزین ہو جانے والوں کو امان ہے۔ بات آگے بڑھی ، طاقت زیادہ ہو گئی تو اعلان ہوا ، جو علاقہ فتح ہو گا وہاں درخت اور فصلیں کو گزند نہ پہنچنے گا۔ طاقت مزید بڑہی تو غیروں نے آ کر دعوت دی کہ ہم اپنوں سے بیزار ہیں تشریف لائیے اور ہمارے حکمران بن جائیے۔ بات مزید آگے بڑہی تو متکلم نے دوسرے معاشروں میں جا کر اسلام کی دعوت پیش کرتے اور جماعتوں کی صورت میں جاہلوں کو اسلام کے مہذب معاشرے میں شامل کرتے ۔ بات اور آگے بڑہی ۔ اہل علوم نے کتابیں تصنیف کیں لوگوں نے اس کتابوں کے دوسری زبانوں مین تراجم کیے۔ انجان اور دور دراز علاقوں کے با صلاحیت نوجوان ان ترجم کو پڑہتے اور ان کی زندگی بدل جاتی۔ سال 1915 میں لندن کے ایک زمیندار مسیحی گھرانے میں
 John Gilbert Lennard
 کے نام سے پرورش پانے والے ایک نوجوان نے حضرت علی بن عثمان ہجویریؓ کی کتاب ْ کشف المجوب ْ کا انگریزی میں ترجمہ پڑہنا شروع کیا ۔ نوجوان جوں جوں ترجمہ پڑہتا گیا اس کا من روشن ہوتا گیا۔ جب کتاب مکمل پڑھ چکا تو اس نے خود جا کر اس معاشرے کا مطالعہ کرنے کی ٹھانی جس معاشرے کے باسی نے یہ کتاب لکھی تھی۔ وہ حیدر آباد میں حضرت سید محمد ذوقی شاہؓ کی خانقاہ میں پہنچا تو شاہ جی نے اس کو اپنا مرید بنا کر اس کا نام شہیداللہ رکھا ۔ جو بعد میں شہید اللہ فریدی کے نام سے معروف ہوا۔ سید محمد ذوقی شاہ کے پاس پہنچ کر شہید اللہ کو ادراک ہو ا کہ یہ طرز ندگی اس کی پڑہی ہو ئی کتاب کی عملی تجربہ گاہ ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ جس عمل پر انسان کا وقت، مال اور محنت صرف ہو ، اس انسان کے لیے وہ عمل قیمتی بن جاتا ہے۔ اہل تصوف کے آستانوں میں نوجوانوں سے وقت کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ وقت اپنے پیر و مرشد کے آستانے پر گذاریں۔ عام تجربہ ہے کہ جو مرید مہینہ میں ایک بار اپنے پیر کے آستانے پر حاضری دیتا ہے اس کی نسبت وہ سالک جلد ترقی کی منزلین طے کرتا ہے جو ہر ہفتے اپنی حاضری یقینی بناتا ہے۔ اس سے تیز رفتار ترقی اس کی ہوتی ہے جو روزانہ اپنے پیر کے آستانے پر حاضر ہوتا ہے۔ شہیداللہ تو دن رات سید ذوقی شاہ کی صحبت میں تھا۔مطالعہ انسان کے ذہن کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے تو عملی تربیت قلب و ذہن میں پیدا ہونے والی تحریک کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ شہید اللہ کے خیالات اپنے مرشد کی زیر نگرانی بہت جلدی اعمال میں ڈہلنا شروع ہو گئے۔ ہوا یہ کہ جو منازل علم و عمل برسوں میں طے کراتا ہے وہ ساری منازل شہیداللہ کے مرشد نے نظروں میں طے کرا دیں۔ 
اینٹیں بنانے والے بھٹے پر جب مٹی کو گوندھ کر اس سے اینٹیں بنائی جاتی ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے دہوپ میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس دوران بارش آ جائے تو اس پر ترپال ڈال کر ان اینٹوں کو بارش سے بچایا جاتا ہے کہ وہ بھیگ کر دوبارہ گارا نہ بن جائیں۔ مگر ان کچی اینٹوں کو جب بھٹے کی آگ میں پکا کر نکالا جاتا ہے تو پھر ان پر ترپال ڈال کرموسموں کے تغیرات سے بچانے کی ضرورت نہیں رہتی۔اہل تصوف کے آستانے کچی اینٹوں کو پکانے کے بھٹے ہوتے ہیں۔سید ذوقی شاہ کے بھٹے میں شہیداللہ فریدی نام کی اینٹ تیار ہو چکی تو انھیں کراچی بھیج دیا گیا۔ ہجرت ایسا عمل ہے جو ہر صوفی کرتا ہے کہ یہ مکہ سے مدینہ ہنتقل ہونے والی ہستی ﷺ کی سنت ہے ۔شہید اللہ نے کراچی میں 30 سال وہی کام کیا جو ہر صوفی کرتا ہے یعنی ْ خدمت خلق ْ ۔ خدمت خلق کی ابتدا محبت ہے تو اس کی انتہا بھی محبت ہی ہے۔ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ کا فرمان ہے ْ محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے ْ ۔ شہید اللہ فریدی نے محبت کے نشے میں ڈوب کر جو کتابیں لکھیں ان میں سب سے مشہور ہونے والی کتاب کا نام : Inner Aspects of Faith ہے۔
اس کے علاوہ ان کی تصانیف کے عنوان یہ ہیں ۔ 
Every day Practice in Islam انگریزی
Vision for Speakers of the Truth انگریزی
Spirtuality in Religion انگریزی
Ciencia Y Creencia اسپانوی
Dagling Praksis ڈینش
Vigleding for Muslims ڈینش
ان کی وفات 1978 میں کراچی میں ہوئی اور کراچی کے قبرستان سخی حسن میں محو استراحت ہیں۔ 


منگل، 18 دسمبر، 2018

اسکندر مرزا کون تھا

اسکندر مرزا
------------                                                                         
مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا، جس کی آبادی ، مغربی حصے میں شامل چاروں صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی ۔ علیحدگی کے وقت ملک کی آبادی کا 56٪ مشرقی پاکستان میں تھا۔اصل طاقت بیورو کریسی کے پاس تھی ۔ جب 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت اسکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے۔ اسکندر مرزا آزادی سے قبل انگریز گورنمنٹ کے ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ پاکستان میں بھی وہ اس پوسٹ پر قائم رہے ۔ رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ، لندن کے گریجویٹ میجر جنرل اسکندر مرزا کے برطانوی بیوروکریسی اور برطانوی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے انڈین پولیٹیکل سروس کے منتخب ہونے میں بھی انگریز کا ان اعتماد شامل تھا ۔وہ اسسٹنٹ کمشنر سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے تھے ۔ ان کو جہاں انگریز کا اعتماد حاصل تھا وہین مقامی سرکاری عہدے داروں میں بھی ان کا اثر و رسوخ تھا اسکندر مرزا کی ایک بیوی ’ناہید‘ ابراہیم مرزا امیر تیموری کلالی کی بیٹی تھی اور ناہید کی ماں ایرانی حکمراں رضا شاہ پہلوی کی بھتیجی تھی۔ اس کے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی اُس وقت کے امریکی سفیر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔کراچی مین امریکہ سفارت خانہ ان دنوں سیاسی جوڑ توڑ اور علاقائی سفارتی اور سیاسی سرگمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ایران کے شہنشاہ علاقے میں مغربی طاقتوں کے سب سے بڑے حلیف ہوا کرتے تھے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے تو سکندرمرزا کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔پھر اس عہرے کو صدر سے بدل دیا گیا۔ حتمی اختیارات صدر ہی کے پاس ہوا کرتے تھے ۔اسکندر مرزا کا خیال تھا کہ اب وہ ساری عمر صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔انھوں نے جوڑ توڑ اور سیاسی عہدوں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک کے اکثریتی صوبے کے سیاسی رہنماوں کو اس نے مہرے سمجھا ۔ بنگالیوں سے حسین شہید سہروردی کی برطرفی ہضم نہ ہو سکی ۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے گئے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے خلاف کے خلاف ایسے بیج بوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ نفرت مین تبدیل ہو گئے۔مشرقی پاکستان میں کہیں بھی جاگیر داری نہ تھی ۔ بنگالی غریب اور نڈر تھے ۔ وڈیرہ شاہی انھیں مرعوب نہ کر سکی۔ مغربی پاکستان میں مجیب کو منشی کا بیٹا کہا جاتا تھا تو مشرقی پاکستان میں اس بات پر ناز کیا جاتا تھا کہ ان کا لیڈر ان ہی مین سے ہے۔بنگال کے بارے میں قائد اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وہ خود اپنی ذات میں ایک بر اعظم ہے۔ مگر قائد جیسا رہنمااب پاکستان میں کوئی بھی نہ تھا۔ قائد نے تو اپنا تن ، من دھن سب کچھ ہی اپنی قوم پر نچھاور کر دیا تھا۔ بنگالیوں میں سیاسی ادراک علاقے کے دوسروے لوگوں سے بڑھ کر تھا۔ یہی سبب تھا جب قائد نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ بنگلہ اور اردو کی بجائے صرف اردو پاکستان کی زبان ہو گئی تو بھی قائد اعظم زندہ باد ہی کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ قائد اعظم کے بعد 1971 تک جو بھی آیا حکمران ہی بن کر آیا۔ عوام رہنما اور حکمران کے فرق کو خوب سمجھتی ہے ۔ اسکندر مرزا اول دن سےحکمران تھا۔ اس کو دھکا دے کر اس کی کرسی پر براجمان ہونے والا ایوب خان بھی حکمران تھا۔عوام کو نظر آتا تھاسہروردی نے پاکستان اٹامک کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ عوام جانتے تھے چین کا پہلا دورہ کس نے اور کیون کیا ہے۔عوام کو نظر آتا تھا کہ وقت کے جبر کےہاتھوں معتوب ہو کر جیل جانے والا کون ہے اور کرسی چھن جانے پر لندن چلے جانے والا کون ہے۔ اسکندر مرزا اور سہروردی مین فرق عوام کو نظر آتا تھا۔اسکندر مرزاکا وارث جنرل ایوب بنا تو عوام نے سہروردی کا وارث مجیب الرحمن کو بنا لیا۔
سال 1958 میں جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کی کرسی پر قبضہ کر لیا تو اسکندر مرزا کو احساس ہوا کہ اس سے بنیادی غلطی یہ ہو گئی ہے کہ بیورو کریٹ ہمیشہ طاقت ور سے بنا کر رکھتا ہے ۔یہ اصول نواب سراج الدولہ کے بیورو کریٹ میر جعفر کو تو یاد تھا مگر اس کے ہونہار پڑپوتے کو یاد نہ رہا۔البتہ انگریز کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے میر جعفر کے احسان کو یاد رکھا ہوا تھا اور جب اسکندر مرزا لندن پہنچا تو اس کی رہائش کے سارے اخراجات تا عمرانگریز نے برداشت کیے ۔ 1969میں اس کی موت پر ایران کے شہنشاہ نے برطانیہ کے کہنے پر اسکندر مرزا کی میت خصوصی طیارے سے لندن سے تہران منگائی اور تہران میں سرکاری اعزاز ک ساتھ دفن کیا۔ تہران میں اس قبر کو اس وقت سے سرکاری تحفظ حاصل ہےجب سے اس کو اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اسکندر مرزا کے ہاتھون معتوب ہونے والے سید حسین شہید سہروردی کی قبر پر اج بھی بنگالی ہی نہیں پاکستانی بھی پھول چڑھاتے ہیں۔ 

پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 4



ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک مقبرہ ہے جس میں پاکستان سے جڑی تین شخصیات کی قبریں ہیں ایک مولوی فصل الحق دوسرے خواجہ ناظم الدین الدین اور تیسرے حسین شہید سہروردی جن کی موت بیروت میں جلا وطنی میں ہوئی تھی ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا 21 توپوں کی سلامی دی گئی پاکستان کا پرچم سر نگوں کر دیا گیا اور پھر ان کی میّت کو ڈھاکہ لے جایا گیا جہاں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے صحن میں دفن کر دیا گیا
مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران 1968 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں سہروردی کے منہ پر تکیہ رکھ کر دبا دیا گیا تھا یہاں تک کہ ان کا سانس رُک گیا اور وہ فوت ہو گئے
حسین شہید سہروردی قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔
1918 میں لندن کے "گریز ان" سے تعلیم مکمل کر بنگال لوٹ کر آنے والے سہروردی نے 1946 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد اراکان کو ساتھ ملا کر کامیابی پلیٹ میں رکھ کر قائد اعظم کو پیش کی تھی۔ وہ جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔قائد نے انھیں بنگال کاوزیراعلیٰ نامزد کردیاتھا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں حسین شہید سہروردی کی شبانہ روز محنت سے حاصل کی گئی وہ مسلم لیگی حکومت تھی جس نے کانگریس کو ملک کی تقسیم پر مجبور کر دیا تھا
ان کے بارے میں ایک کالم نگار نے لکھا تھا حسین شہید سہروردی ہماری تاریخ کا وہ ہیرو ہے جسے شاید ہم نے بنگالی ہونے کی بناء پر وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔قابلیت وہ ہوتی ہے جس کا مخالفین بھی اعتراف کریں گاندھی کے الفاظ ہیں کہ جناح صاحب ایک حقیقی اسٹیٹس مین، لیاقت علی خان ایک سیاست دان اور سہروردی ایک لیڈر ہے
لاہور میں کچھ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوارن ایک صحافی نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہونے زیادتیوں کے حوالے سے سہروردی صاحب سے پوچھا کہ بابا! مشرقی اور مغربی پاکستان کو کونسی طاقت متحد رکھے ہوئے ہے؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ تین طاقتیں ہیں ً انگریزی زبان ً ً پی آئی اے ً اور ًحسین شہید سہروردی ً
وہ پاکستان کی وحدت کے سخت حامی تھےصدر ایوب خاں کو اپنی معذولی کے بعد ایک خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہےان کی خواہش تھی کہ ان کی اندگی میںمشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement ہو جائے،
انھوں نے جنرل ایوب کو کہلوایا تھا "میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں‘
ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔
جنرل ایوب نہیں چاہتے تھے کہ سہروردی پاکستان میں رہیں ۔

گوادر اج جو ترقی کی امید کا محور ہے۔ اس کے حصول کی ابتدا قائد ملت لیاقت علی خان کے دور میں ہو چکی تھی ۔ سہروردی نے اپنے دور میں اس کو آگے بڑہایا اور فیروز خان نون کے دور میں پاکستان اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

امریکہ نواز خارجہ پالیسی تو انہیں ورثے میں ملی تھی مگر بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ بھارت سے کسی بھی چپقلش کی صورت میں انہیں امریکہ سے کسی قسم کی امداد کی امید نہیں تھی جبکہ اپنے معاہدوں کے مطابق روس بھارت کے ساتھ کھڑا تھا اس لئے اس وقت انہوں نے دیانتداری سے محسو س کیا تھا کہ پاکستان کیلئے اب چین سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنا ہماری علاقائی اور دفاعی ضرورت بن گیا ہے
میں جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں امریکی صدر نکسن پہلی مرتبہ 1969 پاکستان سے پی آئی اے کی پرواز پر چین گئے تھے. جس کے بعد چین امریکہ تعلقات کا دور شروع ہوا تھا۔
سہروردی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئےتو انہوں نے عہد کیا کہ وہ توانائی کا بحران دور کریں گے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ کریں گے۔ انہوںنے پاکستانی فوج کی تنظیم نو کابھی عہد کیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایسی شراکت داری کی بنیاد رکھی جس کے تحت ایک خاص مقصد اور مفاد( ایٹمی توانائی ) کو حاصل کیا جانا تھا۔ایوب خان نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو ترک کر دیا تھا کہ ہم غریب قوم ہیں ۔ ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے

جنرل ایوب خان نے مارشل لالگانے کے بعد سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور عدالت نے یاستدانوں کو نااہل فرار دے دیا۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی پر بھی کرپشن کا کیس بنا۔ جو ایک فوجی عدالت میں چلا ۔ اس کیس کی روداد منیر احمد منیر نے لکھی ہے “ گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور اُس طرح پانچویں بڑی مملکت قائم کر دکھائی تھی۔ تقریباً یہ تمام سیاستدان 8 برس کے لیے نااہل قرار پائے۔ مارشل لا والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنے بیان صفائی میں کہا ''میں وزیر اعظم تھا۔ میں نے یہ پرمٹ جاری کیا۔ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بہ حیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ''کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ طیش میں آ کر گرجے: ''وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے request کی تھی‘‘

بیرسٹر ظہور بٹ لندن۔ جو سہروردی کے بہت قریب تھےنے لکھا ہے
جنرل ایوب خان ایک عرصہ دراز تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے
( Elective Bodies Disqualification Odrinnance 1960)
کے نام سے مارشل لاء کا ایک ضابطہ جاری کیا جسے ایبڈو (EBDO)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے تمام سیاستدانوں کو ناہل قرار دلوانا تھا جو جنرل ایوب خان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے تھے اس مقصد کیلئے ایک ٹریبونل بنایا گیا جس کے چیئر مین جسٹس اے آر چنگیز تھے جو پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے دوسرے دو ممبروں میں ایک فوجی کرنل محمد اکرم تھے اور دوسرے ایک سینئر بیوروکریٹ۔
ٹریبونل میں پیش ہو کر سہروردی صاحبؒ کہا ’’میں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں لگائے جانیوالے بد عنوانیوں کے ان الزامات کو نفرت اور حقارت کیساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ سب جھوٹے اور من گھڑت ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ کلکتہ میں وہ کتنی بڑی جائیداد کے مالک تھے جس کے عوض وہ بھی پاکستان میں متروکہ املاک پر قبضہ کرکے حقوق ملکیت حاصل کر سکتے تھے مگر انکی غیرت نے ایسا کرناگوارا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی پورے پاکستان میں ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں ہے ڈھاکہ میں وہ اپنے دوست اور روزنامہ اتفاق کے مالک مانک میاں کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ کراچی میں اپنی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی کوٹھی لکھم ہاؤس میں ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اب جا کر کہیں ڈھاکہ میں انہوں نے ایک بیگھہ زمین خریدی ہے جس پر ایک ٹھکیدار مکان تعمیر کر رہا ہے جس کی ادائیگی وہ ماہوار قسطوں میں کر رہے ہیں جس مہینے میں قسط رُک جاتی ہے‘ اس مہینے مکان کی تعمیر بھی رُک جاتی ہے‘بہر حال یہ مکان ان کی موت تک بھی مکمل نہ ہو سکا۔ ’پھر ٹریبونل کے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ گدو بیراج اور سکھر بیراج میں ہزاروں ایکڑوں کے حساب سے تقسیم کی جانیوالی زمینیں انہوں نے اپنے نام نہیں لکھوائیں بلکہ جنرل ایوب خان اور انکے دیگر تمام جرنیلوں نے اپنے ناموں پہ لکھوائی ہیں جن میں جنرل اعظم خان سے لیکر جنرل پیرزادہ تک سبھی ملوث ہیں یہ اور بات ہے کہ انکے کرتوتوں کا علم لوگوں کو کئی سالوں بعد ہو گا خود ان جرنیلوں کا اپنا تو یہ حال ہے اور بدعنوانی کے الزامات یہ مجھ پر لگا رہے ہیں۔

کلکتہ کی عدالتوں میں جس وکیل کا نام عزت سے لیا جاتا تھاجب وہ پاکستان کی وزارت عظمی سے برخاست کیا گیا تو 1۔ دیال سنگھ مینشن مال روڈ لاہور پر اپنا دفترپر ان کااپنا وکالت کا دفتر موجود تھا ۔حکومت نے انھیں معاشی طور پر محتاج کرنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ ملک کی عدالتوں کی بار کونسلوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ منٹگمری کی ایک عدالت نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔“

منیر احمد منیر نے " ان کہی سیاست " میں لکھا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ۔ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ اس کے عوض میں مجھے کشمیر لے دیں۔جب ان سے برظرفی کے کاغذات پر دستخط کرائے جا رہے تھے تو ان کی آنکھوں مین انسو تھے ۔ کسی نے پوچھا یہ انسو وزارت عظمی کے چھن جانے پر ہیں تو انھوں نے فولادی لہجے میں جواب دیا ۔ مجھے وزارت عظمی کے چھن جانے کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے یہ آنسو تو اس لیے ہیں کہ ہم نے کشمیر ہمیشہ کے لیے کھو دیا

کشمیر کے لیے انسو بہاتے ، پاکستان کے اس سابقہ وزیر اعظم کو71 سال کی عمر مین جنوری کی یخ بستہ صبح 5 بجے گرفتار کیا گیا تو ان پر گاندہی سے ہاتھ ملانے کاالزام تھا جو ملک سے سنگیں غداری تھی .ان پر غداری کا مقدمہ چلا چیل بھیجے گئے ۔ مشرقی پاکستان میں ان کی رہائی کے لیے مظاہرے شروع ہونے کے خوف سے ان کو جیل سے نکال کر ملک بدر کر دیا گیا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا:   کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب...

پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

 کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب خان کی مارشل لا حکومت کے بنگالی وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب ’’ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم‘‘ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان 1971ء میں نہیں 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا۔ 1971ء میں تو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کی رسمی کارروائی ہوئی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم کی ڈائریوں اور جنرل ایوب خان کے ساتھ اُن کی خط و کتابت پر مشتمل یہ کتاب اُن کی صاحبزادی ڈاکٹر صوفیہ احمد نے مرتب کی ہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر کی سابق سربراہ ہیں۔ جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں پر مشتمل یہ کتاب 1960ء سے 1966ء تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور کتاب میں حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات کو بھی شامل کیا گیا ہے، شاید اسی لئے یہ کتاب جسٹس محمد ابراہیم کی وفات کے  45سال بعد شائع کی گئی ہے۔ جسٹس محمد ابراہیم 1958ء سے 1962ء تک جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون تھے۔ ایوب خان کے ساتھ اُن کے اختلافات کا آغاز 1962ء کے صدارتی آئین پر ہوا۔ جسٹس محمد ابراہیم پارلیمانی نظام حکومت کے حامی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ صدارتی نظام مشرقی پاکستان کے احساس محرومی میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے جو آئینی تجاویز دیں وہ مسترد کر دی گئیں۔ نومبر 1961ء کے بعد اُنہوں نے کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنا بند کر دی۔ جنرل ایوب خان نے اُن کو راضی کرنے کے لئے وزیر خزانہ محمد شعیب، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ہاشم رضا کو بھیجا لیکن جسٹس محمد ابراہیم نے ان سب کو جواب دیا کہ وہ پاکستان کی تباہی کے آئینی منصوبے میں شامل نہیں ہو سکتے۔ کابینہ کے تین دیگر بنگالی وزراء حفیظ الرحمان، حبیب الرحمان اور اے کے خان بھی جسٹس محمد ابراہیم کے موقف کی تائید کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی استعفے کی دھمکی نہ دی۔ جنوری 1962ء میں حسین شہید سہروردی کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا تو 5فروری کو جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ سہروردی کی گرفتاری ایک ’’بلنڈر‘‘ ہے لیکن ایوب خان نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ میں نے اُسے ڈھاکہ کے بجائے کراچی میں گرفتار کیا ہے تاکہ زیادہ عوامی ردعمل نہ ہو۔ جسٹس محمد ابراہیم نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ صدر ایوب خان کو بھی پتا ہے کہ اُن کے صدارتی آئین کے خلاف شدید مزاحمت ہو گی اور متوقع مزاحمت کو روکنے کے لئے وہ ایک ظالم ڈکٹیٹر کے انداز میں انسانی آزادیاں چھین رہے ہیں۔ اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھنے والا دردمند شخص وزارت سے استعفے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
حسین شہید سہروردی کو غداری کے الزام میں جیل پہنچانے کے بعد جنرل ایوب خان راجشاہی یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کے لئے مشرقی پاکستان پہنچے جہاں اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی جانی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے ڈھاکہ پہنچتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں طلبہ نے سہروردی کی رہائی کے لئے مظاہرے شروع کر دیئے۔ کتاب کے صفحہ 140پر وہ لکھتے ہیں کہ طلبہ نے پاکستان سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور استعفے کی پیشکش کر دی۔ فوجی صدر نے اپنے وزیر قانون کو استعفے سے روک دیا۔ خیال تھا کہ وہ پاکستانی عوام پر صدارتی آئین مسلط کرنے کا ارادہ ترک کر دیں گے لیکن جب اس آئین کو نافذ کرنے کا اعلان ہو گیا تو پہلے مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان اور پھر وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم نے وزارت قانون سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے ایک اعلامیے کے ذریعے اخبارات کو بتایا کہ وزیر قانون نے بیماری کے باعث استعفیٰ دیا ہے جس پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو خط لکھا کہ وہ اپنے استعفیٰ میں 1962ء کا آئین مسترد کر چکے ہیں اور استعفے کی نقل اخبارات کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی صدر نے جواب میں جسٹس محمد ابراہیم کو ایسی کسی حرکت پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود جسٹس محمد ابراہیم نے کوئی قانونی ضابطہ اور اخلاقی روایت نہیں توڑی لیکن جنرل ایوب خان دھونس پر اُتر آئے تھے۔ اگر ٹوئٹ کا زمانہ ہوتا تو جسٹس محمد ابراہیم ایک مختصر ٹوئٹ کرتے کہ میں 1962ء کا آئین مسترد کرتا ہوں اور پھر خاموشی اختیار کر لیتے۔ لیکن وہ ٹوئٹ کے نہیں ٹیلی گرام اور ٹیلی فون کے زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے دھمکی آمیز خط کے جواب میں چار صفحات پر مشتمل طویل خط لکھا اور اپنے دور کے ’’گاڈ فادر‘‘ کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مشرقی پاکستان کے حقوق کے لئے لڑائی کی ہے کیونکہ مجھے پاکستان سے محبت ہے۔
جنرل ایوب خان نے جسٹس محمد ابراہیم کی جگہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد منیر کو اپنا نیا وزیر قانون بنایا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے یہ جج صاحب جمہوریت کے قتل کو جائز قرار دینے کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کر چکے تھے۔ موصوف نے وزیر قانون بنتے ہی قائد اعظمؒ کے پاکستان کو قتل کرنے کے ایک باقاعدہ اعلان کی تیاری شروع کر دی۔ جسٹس محمد منیر اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء ‘‘ میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے وزیر قانون بننے کے بعد جنرل ایوب خان کے مشورے سے 1962ء کی قومی اسمبلی کے بنگالی ارکان سے علیحدگی یا کنفیڈریشن کے لئے باقاعدہ مذاکرات کئے لیکن ایک بنگالی رکن اسمبلی رمیض الدین نے اُنہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ہم اکثریت ہیں اور ہم پاکستان ہیں پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ اکثریت کو نہیں اقلیت کو کرنا ہے۔ 1971ء میں یہ اکثریت لڑجھگڑ کر اقلیت سے علیحدہ ہو گئی۔
جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں میں بار بار جنرل ایوب خان کے علاوہ حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق کا ذکر آتا ہے۔ اے کے فضل الحق نے 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پیش کی تھی اور سہروردی نے 1946ء میں قرارداد دہلی پیش کی تھی جس کے ذریعے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک ملک بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے ناصرف سہروردی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا۔ سہروردی اور فاطمہ جناح کو غدار کہنے والے ایوب خان کے نام پر راولپنڈی میں ایک ایوب پارک ہے۔ اس ایوب پارک کے قریب ہی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی ہے اور چند کلو میٹر دور اسلام آباد میں حسین شہید سہروردی روڈ اور اے کے فضل الحق روڈ بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف 1971ء کے بعد ڈھاکہ کے جناح ایونیو کو بنگلہ بندھو ایونیو بنا دیا گیا حالانکہ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان والوں نے فاطمہ جناح کو اکثریت دلوائی تھی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کے باوجود بہت سے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ 1962ء کے صدارتی نظام کی ناکامی کے بعد پاکستان میں 1973ء کا پارلیمانی آئین چل رہا ہے۔ کچھ لوگ پاکستان کو واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سرفہرست ہیں۔ اُنہیں جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب پڑھ لینی چاہئے اور پاکستان کو مزید ٹوٹ پھوٹ کی طرف دھکیلنے سے گریز کرنا چاہئے۔
بشکریہ روز نامہ جنگ