پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3

 ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3
----------------------
 خواجہ ناظم الدین اسی احسا ن منزل میں پیدا ہوئے تھے جہاں کسی زمانے میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے تو اہل بنگا ل نے انھیں ڈھاکہ میونسپلٹی کا چیرمین اورڈھاکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ممبر بنادیا ۔1922ء سے 1929ء تک وہ ڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے چیرمیں رہے۔ 1929ء میں اپنی قابلیت کی بنا پر متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔1937ء کے انتخابات میں قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا اور مسلم لیگ کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبہ کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ دسمبر 1941ء تک اس عہدے پر کام کیا1942  ء میں مولوی  فضل الحق کی وزارت ختم ہونے پر خواجہ ناظم الدین نے وزارت بنائی۔ 1945ء تک وہ بنگال کے وزیراعظم رہے۔ 1937 سے 1947 تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔خواجہ ناظم الدین نے تحریک پاکستان میں جو خدمات انجام دیں‘ وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی قائد اعظم نے ان کے بارے مین کہا تھا”خواجہ ناظم الدین ذمہ دارلیڈر ہیں ۔ اور پاکیزہ کردار کے مالک ہیں ۔ ان کا کردار بالکل صاف ستھرا ہے۔ اُنہوں نے پوری زندگی میں اپنا دامن الزام سے پاک و بے داغ رکھا ہے۔“
پیر علی محمد راشدی  لکھتے ہیں:”خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انہیں مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ نے انہیں بطور گورنر جنرل قائد اعظم کا جانشین منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اس عہدے پر 17 اکتوبر 1951ء تک فائز رہے، اس کے بعد وہ پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور 17 اپریل 1953ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے انہیں گورنر جنرل غلام محمد نے غیر آئینی طور پر برطرف کردیا اور اس طرح ملک میں غیر جمہوری دور کا آغاز ہوا۔خواجہ صاحب کی حکومت سے معزولی کا ایک بڑا سبب ایک مذہبی تحریک تھی جس کو ریاستی حلقوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔فروری 1953 میں اس تحریک نے زور پکڑ لیا۔ خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت کو انتظامی معاملات سے لا تعق کر دیا گیاکراچی اور ڈھاکہ میں طلباء تنظیمیں جن کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا فیسوں میں اضافے کا بہانہ بناکر کھل کر حکومت کے خلاف مظاہروں اور توڑ پھوڑ کرنے میں مشغول ہو گئی۔لاہور میں دین کے نام پر شروع مظاہرے تشدد میں تبدیل ہو گئے۔ لاہور میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔اس کے نتیجے میں 8 مارچ 1953 میں حکومت کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.
غلام عباس نے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" میں لکھا ہے:
ایک بحران 1953 میں آیا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اقتصادی بدحالی، قحط کی صورت اور پنجاب کے فسادات کو بہانہ بنا کر خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو برطرف کر دیا۔ خواجہ صاحب نے اپنی بحالی کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دستور ساز مجلس میں مجھے اکثریت حاصل ہے اور بقول بعض کے ملکہء انگلستان سے بھی مدد کی التجاء کی مگر کچھ پیش نہ چلی۔ ادھر گورنر جنرل نے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔ خواجہ صاحب کی کابینہ کے متعدد ساتھیوں نے حرص و ہوس میں آکر نہ سہی مگر بغیر چوں و چراں نئی کابینہ میں عہدے قبول کر لیے
گورنر جنرل غلام محمد  نے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کوکو برطرفکرنے کے بعد1954ئ میں پاکستان کی پہلی دستورسازی اسمبلی کو بھی برخاست کردیا۔اس دستورسازاسمبلی کی منسوخی پرسپیکراسمبلی مولوی تمیزالدین اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں گئے جہاں سپیکر کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اُس وقت کی فیڈرل کورٹ نے دستورسازاسمبلی کی برخواستگی کو بعض تکنیکی بنیادوں پر جائزقراردے دیامقتدر بیوروکریسی، طاقتور فوج ، محب وطن سیاستدان اور انتطامیہ فیڈرل کورٹ کی پشت پر کھڑی تھی دوسری جانب اور جذباتی جابل عوام ، غدار وطن سیاستدان ، غیر ملکی ایجنٹ اور ناعاقبت اندیش صحافی  کھڑے رہ گئے اور غلام محمد کی ٹرین سیٹیاں بجاتی وقت کے دوش بدوش روانہ ہو گئی
 خواجہ ناظم الدین سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق  قربانی کے ایک مجسمے کو  بے آبرو کر کے ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکال دیا گیا
خواجہ ناظم ادین پر اخبارات میں الزام لگائے گئے کہ وہ کھانا بہت کھاتےتھے
نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار(یہ تینوں وزیر اعظم ہاوس کے ملازم تھے) کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم ‘‘ نامی کتاب میں خواجہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی خوراک انتہائی سادہ ہوتی اور وہ بہت کم کھایا کرتے تھےاس کتاب میںان کاان کے اپنی معزولی پر یہ تبصرہ شامل ہے’’ یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘ 
احسان منزل پاکستان پر قربان کر دینے والے قائداعظم کے معتمد ساتھی نے کراچی میں وہ دن بھی دیکھے جب کسی نے ان پر رحم کھاکر انھیں رہائش کے لیے ایک مکان کرائے  پر لے دیا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق جب وہ ڈھاکہ واپس گئے تو ان کی حالت دیکھ کر دوست اور دشمن سب ہی انگشت بدندان ہو کر رہ گئے۔ اب تو مگر کتابیں تصنیف ہو چکی ہیں جن مین ان کو قائد قلت اور ہاظم الدین کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ البتہ ان پر کسی قسم کی کرپشن ، بد عنوانی ، اقراپروری، یا خلاف آئین اقدام کا الزام ان کے دشمن بھی نہ لگا سکے ۔

کوئی تبصرے نہیں: