جمعرات، 19 اکتوبر، 2017

قابلیت


خلیفہ ہارون رشید کے دور میں حکومت کے ایک افسربارے لوگوں کی شکایت پر جب خلیفہ نے اس کی صلاحیتوں کی تعریف کی تو عوام کی طرف سے کہا گیا کہ اگر یہ ایسے ہی قابل ہیں تو دوسرے علاقے کے لوگوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس کی قابلیت سے مستفید ہوں۔ دور خلافت کے وقت سے ہی کچھ سرکاری افسران بشمول عدلیہ ہر دور میں پائے جاتے رہے جو اپنی کارکردگی کی بنا پر عوام میں معروف ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ شرف ہمارے عدلیہ کے محترم جج کھوسہ صاحب کو حاصل ہے کہ وہ عوام کی توجہ کا مرکز ہیں شائد اس کا سبب ان کی جلد انصاف مہیا کرنے کی خواہش ہو۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب شوکت عزیزصدیقی صاحب جنھوں نے چند ہفتے ہوئے سوشل میڈیا سے جڑے ایک مقدمے کی سماعت کی تھی۔کے خلاف ایک ریفرنس جوڈیشنل کونسل میں دائر ہواہے اور اس کی سماعت جناب کھوسہ صاحب کے پاس ہے۔جناب شوکت صدیقی صاحب کا یہ مطالبہ اخبارات میں چھپ چکاہے کہ اس ریفرنس کی سماعت بند کمرے کی بجائے کھلی عدالت میں کی جائے اوریہ کہ اس ریفرنس کی سماعت کھوسہ صاحب کے علاوہ کوئی بھی دوسرا جج کرے۔
یہ امر باعث تعجب ہے کہ ریفرنس کے ایک فریق کے اعتراض کے باوجود یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اس کیس میں کھوسہ صاحب ہی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہے ۔خلیفہ ہارون رشید کو تو عوام نے لا جواب کر دیا تھا مگر ہمارے ہاں عام طور پر ْ کمزور فریق ْ لاجواب ہوتا ہے کیونکہ طاقت جواب دہ نہیں ہوتی

پیر، 16 اکتوبر، 2017

جذبہ


ٓ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام صرف نعرہ تھا مگر پاکستان میں اسلام اب عملی حقیقت ہے، پاکستان کے ابتدائی دنو ں میں گھوڑوں پر سفر کرنے والے آج ہائی ویز پر ہائی برڈ گاڑیاں دوڑاتے ہیں ۔گھریلو اور انفرادی آسائشوں نے ہماری معاشرت کو آسان تر کر دیاہے۔سیاسی طور پر ہم آگے ہی بڑھے ہیں ، دفاع میں ہم نے معجزے دکھائے ہیں۔۔۔گذشتہ ستر سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے معاشی ، سیاسی،دفاعی، معاشرتی، مذہبی ہی نہیں بلکہ تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے۔
ہمارے دیہاتی معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ کمزور اور پسماندہ طبقات نے تعلیم میں پناہ لے کرخود کو خود کفیل کرنے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔یعنی تعلیم وہ جادو ہے جس سے انسان مستفید ہو کر معاشرے میں اپنی اگلی نسل کو بہتر معاشرتی مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ مگرقابل تشویش یہ ہے کہ ہماری تعلیم افراد میں یہ ادراک نہ پیدا کر پارہی کہ ْ جس کا کام اس کو ساجھے ْ آج ایک فرد فزکس کا پرفیسر ہے تو وہ ہمیں معاشرت سکھا رہا ہے، کھلاڑی ہے تو وہ معاشیات کو بہتر کرنے کے درپے ہے، سوشل سائنسز والا مکان بنا نے میں مصروف ہے ، وغیرہ وغیرہ
تعلیم کی اہمیت تسلیم، عالم ہمارے سر کا تاج، مگر ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی سلیبس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے اس ْ جذبےْ کو نکالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو ہر فن مولا بناتا ہے مگر اپنے کام کا نہیں رہنے دیتا۔

ہفتہ، 14 اکتوبر، 2017

نا اہل عوام


خانہ جنگی میں مبتلاملک کے شہری نے صاف ماحول، سجے بازار، رونق اور امن و امان دیکھ کر مستقل اسی ملک میں رہائش کا خواہشمند ہوا ۔ اس نے مقامی لوگوں کے جلسے میں شرکت کی تومقرر نے اپنے حکمران کے علم وفراست ،انسان دوستی اور انصاف کی تعریف کی،اس کے دل کو بہت حوصلہ ملا۔ 
اسی شہر میں دوسرے دن اسنے اسی جگہ پھر ایک جلسے میں شرکت کی جہاں مقرر حکمرانوں کو بد یانت، جاہل ، ظالم بتا رہے تھے ، وہ تذبزب میں مبتلا ہو گیا ، رات کو اس نے اپنے میزبان سے دونوں فریقوں کی بات بیان کی تو میزبان نے کہا کل والاجلسہ نیک اور امن پسند لوگوں کا تھا جبکہ آج کاجلسہ فسادی اور فتنہ پرور لوگوں کا تھا ،جیسے وہ خود ہیں ان پر حکمرانوں کی طرف سے ایسا فیصلے صادرہوتے ہیں کیا تم نے سنا نہیں ْ جیسے تم خود ہو ایسے ہی حکمران تم پر مسلط کئے جاتے ہیں (ماخوذ)

جمعرات، 12 اکتوبر، 2017

اجتماعی گناہ


میں اس دن سے سکولوں میں استادوں کی اہلیت پر بہت پریشان تھا جس دن یوم پاکستان کی تقریب میں ایک استاد نے کہا تھا ْ لیاقت علی خان نے ملک امریکہ کے پاس گروی رکھ دیا تھا ْ 
کل رات ٹی وی پر ٹاک شو چل رہا تھا ،موضوع ملک میں کرپشن تھا ْ نواز شریف بھی ناظم الدین کی طرح ہے وہ بھی دونوں ہاتھوں سے کھاتا تھا ْ اپنے نوجوان بیٹے کے تبصرے پرمیں چونک پڑا ، آپ کو یہ معلومات کہاں سے ملی ہیں ْ پاکستان میں سترہ مسخرے ْ نامی ویب سائٹ سے
میری وہ جستجو ختم ہوئی کہ ْ اجتماعی گناہ ْ کیا ہوتا ہے

گدھے


ترقی عوام کا حق ہے
عوام جاہل اور گنوار ہی نہیں ذہنی غلام بھی ہے
ہماری بات گدہوں کی سمجھ میں نہیں آتی
ان جاہلوں کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے
حساب مانگنا عوام کا حق ہے
جاپان نے تعلیم کے ذریعے ترقی کی ہے
برطانیہ میں وزیر اعظم چھوٹے گھر میں رہتا ہے
کینیڈا کا وزیر اعظم دو کمرے کے فلیٹ میں رہتا ہے
رشید نے اسے ٹوکا ْ تم نے کبھی چین کی مثال نہیں دی ْ 
چینی گدھا خور قوم ہے، ان کی سوچ بھی گدھوں والی ہیں 
رشید نے پھر ٹوکا ْ اور کام بھی گدھے کی طرح کرتے ہیں ْ 

بدھ، 11 اکتوبر، 2017

شکائت


ابراہیم کالج میں میرا دوست تھا۔عملی زندگی شروع ہوئی تو پردیس جا بسا، میں اپنے بکھیڑوں میں مگن ہو گیا۔وہ ریٹائر ہو کر واپس آیا تو ہماری مردہ دوستی میں پھر سے جان پڑ گئی۔شام کو آتا دیر تک باتیں ہوتیں،اس کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، سب صاحب اولاد ہیں ،
 میرا پوتا دھمکا ، اپنی ماں کی شکائت لگانے۔
اس کے درجن بھر پوتے اور نواسے ہیں، بچوں ہی کا ذکر ہو رہا تھا کہنے لگا
 ْ بیٹے میرا بہت احترام کرتے ہیں مگر ْ
 میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ، مسکرا دیا ،کہنے لگا 
ْ میرے پوتے مجھ سے اپنی ماں کی شکائت نہیں کرتے ْ 

صادق وامین


پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا تو معاشرے میں صادق و امین پر طویل بحث شروع ہو گئی ہے۔صادق و امین کی تعریف ہر کوئی اپنی ذہنی بساط اور علم کے مطابق کر رہا ہے۔اس بحث کے دوران جماعت اسلامی کے امیرجناب سینیٹر سراج الحق کا نام عدالت میں بھی سنا گیا اور صادق و امین ہونے کے حوالے سے عدالت کے باہر بھی سے ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا۔عوام جماعت کو ووٹ تو نہیں دیتے مگر اس بات پر خوش ہے کہ پاکستان میں کوئی تو بطل جلیل ایسا ہے جس کی پوشاک پر کرپشن کادھبہ نہیں ہے۔لیکن کب تک ۔۔۔۔!
پاکستان میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا (اب الیکٹرونک میڈیا کو بھی شامل کر لیں) میں ایسے ایسے نابغہ روزگار بقراط صفت لوگ موجود ہیں جو سامنے کھڑے شیر کو گدھا ثابت کرنے کا ارادہ کر لیں تو اس پر ایسی ایسی دلیلیں لائیں گے کہ انسان ان کے علم کی داد دنہ بھی دے تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں تاویلات کا میدان وسیع ہے اور گھوڑے بے لگام ہیں۔حال ہی میں ایک اخبار کے تجزیہ نگار نے سینٹ میں منظور ہونے والی ایک قانونی ترمیم کو لے کرسراج الحق کی ذات کو موضوع بناتے ہوئے اپنے قلم کا زور دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 ء میں ترمیم کا حکومتی بل اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ملی بھگت کر کے پا س کرایا ہے اس سے آنے والے دنوں میں جمہوری نظام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور اس سارے عمل کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق پر ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ امیر جناب قبلہ محترم سراج الحق پارٹی اجلاس کو اہم تصور کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں سینٹ کے اجلاس میں تشریف ہی نہیں لائے، ایک ایسے بل کی منظوری کے موقع پر جو آرٹیکل 62,63 کے تحت نااہل ہونے والے شخص کو دوبارہ اپنی پارٹی کا سربراہ بنا سکتا ہے۔ وہ عین موقع پر غائب ہو جاتے ہیں اس لیے اب سراج الحق بھی صادق و امین نہیں رہے۔
ہماری سوچیں اس قدر پست اور خیالات اس قدر منفی ہو چکے ہیں کہ ایک دن ایک سیاستدان کی تعریف کی جاتی ہے اور ابھی قلم کی سیاہی خشک بھی نہیں ہونے پاتی مگر پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی اسی حمام میں ہے جہاں سب ننگے ہیں، مقام حیرت ہے کہ 20,22 کروڑ کی آبادی میں ننگے صرف ساستدان ہی ہیں، ہر قسم کا منافقانہ کردار ، غدارانہ سوچ اور عوام دشمنی کا عمل سیاستدانوں ہی کے خمیر میں ہے، سیاستدانوں کے علاوہ اس ملک میں فراش سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک سب نیک و پاک ہیں ۔ ہمارے اس رویے نے نتیجہ یہ دیکھایا ہے کہ ستر سالوں میں سترہ سیاستدان وزراء اعظم کو بے توقیر کر کے وزیر اعظم کی کرسی سے اتارا ہے اور اسی پر بس نہیں ہے بلکہ جو سیاستدان اس کرسی تک پہنچنے کا نیت و ارادہ کرتا ہے وہ بھی ناقدوں کی سخت و ترش تنقید کا شکار رہتا ہے۔تنقید وہ آسان عمل ہے جو ہر شخص فرض سمجھ کر پورا کرتا ہے، مگر ستر سالوں سے تنقید کے تبرے صرف سیاستدانوں ہی کے حصے میں آتے ہیں، باقی ہر قسم کے حکمران ، فوجی ہوں کہ درآمد شدہ گویا دودھ میں نہائے ہوئے اور صادق و امین ہیں حالانکہ انکی کرپشن کی سزا ملک و عوام ان کے چلے جانے کے بعد بھی عشروں تک بھگتتے رہے ہیں اور بگھت رہے ہیں۔
صحافی ، تجزیہ کار اور تعلیم یافتہ لوگ اپنی لیاقت و قابلیت کو استعمال کر کے معاشرے کی بہتری اور چھے مستقبل کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں یہ لیاقت سویلین دور میں سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچنے اور غیر سویلین ادوار میں حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور خوشامد کرنے میں استعمال ہوتی ہے ۔اور اپنے اس فن کو ہم نے خود ہی صحافت کا نام دے رکھا ہے ۔
صحافی اور تجزیہ نگار کا منصب یہ ہے کہ وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر معاشرتی امراض سے آگاہ کرے اور عوام و حکمرانوں کے لیے ان راہوں کی نشان دہی کرئے جن راہوں پر چل کر وہ منزل کا قرب حا صل کر سکیں۔

تحریر:دلپذیر احمد

منگل، 10 اکتوبر، 2017

کردار

کردار
قدیم بیانیہ: دودن مرد لے لیے باعث مسرت ہوتے ہیں ایک شادی 
والا دن دوسرا بیوی کی موت کادن 
متوسط بیانیہ: تونے شادی کر لی تو عورت تجھ کو خدا سے دور کر دے گی
الیکٹرانک بیانیہ: میں ایک کلو میٹر سے خاتون کا کردار پہچان لیتا ہوں

پیر، 9 اکتوبر، 2017

جگاڑ

جگاڑ
کراچی سے سید مراد علی شاہ صاحب کا اصل فتویٰ اس جگاڑ پر ہے جوعدالت نے واٹر کمیشن میں لگایا ہے،سمجھانے کے لیے فرمایاسیاستدان صحافی نہیں ہو سکتا اور کھلاڑی بطور سیاستدان اناڑی ہی رہے گا ۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ اناڑی خود اب ماہر کھلاڑی ہونے کا مدعی ہے،دوسری بات یہ کہ ہمارے ہاں جگاڑ اس لیے کامیاب ہوتے ہیں کہ لگانے والوں کو اس کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے، جو زندہ رہنا چاہیں گے وہ خود ہی اس جگاڑ کو کامیاب کریں گے کہ ْ پانی زندگی ہے 

کالی بلی


ہمارے ایک محترم و مکرم بزرگ (ظالمو قاضی آ رہا ہے) نے ایک بار ْ ٹاٹ ینْ کی اصطلاح ان لوگوں کے لئے استعمال فرمائی تھی جو زبان کوئی بھی بولیں سوچتے اردو میں ہیں۔ لوگ زبان کوئی بھی بولیں سوچتے اسی زبان میں ہیں جس میں انھوں نے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔پاکستان کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہاں کچھ لوگ سوچتے بالکل بھی نہیں ۔ مثال کے طور پر بلی پکڑنا کبھی بھی آسان کاموں میں شمار نہیں ہوا۔ سرکاری ملازم سے دوران ڈیوٹی ایسی انہونی کی امید بھی نہیں ۔لیکن یہاں تو بلی بھی کالی ہے اور ہے بھی اندھیر۔۔۔!

قرآن نامی کتاب


ہماری ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی تھی،خیالات ملتے تھے دل بھی مل گئے۔میں اس کے شہر جاتا تو اس کا مہمان ہوتا وہ میرے شہر آتا تومیں میزبان ہوتا۔دیکھنے میں وہ ہم جیسا ہی تھامگر تھا مختلف۔ہم خود کو پارسا گردانتے ہیں اس کا یقین ہے وہ گناہ گار ہے۔ہم اپنے والدین کو جانتے ہیں وہ والدین سے محروم ہے۔ہم گھر میں رہتے ہیں وہ یتیم خانے میں پلا تھا،ہمیں تعلیم دلائی جاتی ہے اس نے تعلیم حاصل کی تھی، ہم پیدائشی مسلمان ہیں وہ خود مسلمان بنا تھا۔ایک بار میں نے پوچھا تھا ۔۔۔ کیسے ؟ اس کا جواب تھا ْ میں نے قرآن نامی کتاب پڑہی تھی ْ 

اتوار، 8 اکتوبر، 2017

غصہ

مجھے اس سے نفرت تھی، جس دن اس کی ماں کو ہسپتال لے کر گئے،میں نے اپنے صحن میں میوزک اونچی آوا ز میں بجایا،جس دن اس کی ماں کا جنازہ تھا میرے گھر میں دوستوں کی پارٹی چل رہی تھی۔تین سال بعد میں اپنی دادی کو ہسپتال لے کر جانے لگا وہ گاڑی لے کر آیامیں نے اس ڈرامے پر اس کو گالیاں دے کر واپس بھگا دیا، میرے والد کا حادثہ ہوا و ہ تیمارداری کرنے آنا چاہتا تھا،میں نے دروازے سے واپس دھتکار دیا۔میرے والدکے جنازے میں شامل تھامیں نے چارپائی کو ہاتھ نہیں لگانے دیا۔دوسرے دن تعزیت کے لیے آدھمکا میں نے ڈنڈا اٹھا لیا۔اسکا سر پھاڑ دینا تھامگر ڈنڈا میری بیوی نے پکڑ لیا ۔بیوی پربہت غصہ آیایہ ڈنڈااسی کے سر پر پڑنے ہی والا تھا کہ میرے 12 سالہ بیٹے نے ڈنڈا پکڑ لیا ْ ابو بس کریں لوگ تعزیت کے لئے آئے ہوئے ہیں ْ ۔ 7 سالہ عاشی نے مجھے ٹانگ سے پکڑ لیا ْ ابو آپ امی کو نہ ماریں ْ ماں بھی عورتوں کے بیچ سے اٹھ کر آ گئی ۔مجھے کچھ نہیں کہا اس سے کہا ْ آو بیٹا مجھ سے تعزیت کرو خاوند میرا مرا ہے، اس کا کیا لگتا تھا ْ میں نے ڈنڈا پھینک دیا ۔غصہ اب بھی آتا ہے ، ضبط کر لیتا ہوں۔

سٹینڈرڈ


ہم لوگ جنازہ پڑھ کر واپس آرہے تھے، جنازے میں مولوی سمیت بتیس آدمی میں نے گنے۔ہمار ا پرانا ہمسائیہ ایک پوش علاقے میں جا بسا تھا، اس کا 14 سالہ بیٹا فوت ہوا تھا۔محلے سے بس ہم دونوں ہی گئے تھے وہ توخیر اس کا رشتہ دار تھا ،میں بس مروت میں چلا گیا تھا،جب ہمارے محلے میں اس کا دادا فوت ہوا تھا تو جنازہ کافی بڑا تھا۔ گاوں سے بھی بہت لوگ آئے تھے ۔ راستے میں خاموشی توڑنے کی نیت سے میں نے کہا ْ جنازے میں زیادہ لوگ نہیں تھے ْ اس نے کہا ْ بات یہ ہےْ لہجہ یخ بستہ تھا ْ جو لوگ اس کے سٹینڈرڈ کے نہیں ہیں ، ان کو یہ منہ نہیں لگاتا اور جن کے سٹینڈرڈ کا یہ نہیں ہے وہ اسے منہ نہیں لگاتے ْ 

مردے کی مسکراہٹ


کیشیرنے بل میرے حوالے کرتے ہوئے کہا  ْ آپ کافی دنوں بعد ہمارے سٹور میں تشریف لائے ہیں ، آپکو ہمارے معیار یا قیمتوں کے بارے کوئی گلہ تو نہیں ْ ایسی بات نہیں ہے دراصل آّ پ کے ہاں ورائٹی اتنی زیادہ ہے اور ڈسپلے اتنا شاندار ہے کہ ایک چکر  میں ہی پورے مہینے کا بجٹ گڑ بڑ ہو جاتا ہے، اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا ، نوجوان لڑکی کی مسکراہٹ ، ایسے لگا جیسے مردہ مسکرا رہا ہو۔

باپ

                                                                                   
میں نے جمعہ بازار سے سستے داموں خریدی کتاب بغل میں دبائی اور مولوی رشید کو دینے ان کے مسجد سے متصل حجرے میں گیا۔ انھیں کتاب کا تحفہ خوش کر دیتا تھامگر اس دن وہ رنجیدہ تھے۔ کتاب کو انھوں نے کونے میں رکھ دیا۔ بتانے لگے ْ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں ْ ۔۔۔ ملک صاحب اپنے وقت میں دبدبے والے سرکاری افسر تھے، مسجد کے ساتھ تیسرا بنگلہ ان کا تھا۔ دونوں بیٹے بھی سرکاری افسر تھے ْ مغرب کے بعد ہسپتال کی ایمبولنس میں میت آئی ، میں بھی موجود تھا ، لوگوں نے میت اتاری ْ خاموش ہو گئے سانس لیا ْ بڑے بیٹے نے کہا میت گیراج میں رکھ دو ، اندر بچے ڈریں گےْ              

مرکز ثقل

میری عمر ساٹھ سال ہے، میرے بچپن میں دادی اماں کا کمرہ گھر کا مرکز ثقل ہوا کرتا تھا۔دادی کا انتقال ہوا تو گھر میں ٹی وی آگیا ۔ ٹی وی والد صاحب کے کمرے کی بغل والے کمرے میں رکھا ہوا تھا ، پھر وہی کمرہ گھر کامرکز ثقل بن گیا۔والد صاحب کی وفات کے بعد گھر میں تبدیلی آئی اور اپنے اپنے کمرے کے ساتھ باتھ روم بھی اپنااپنا ہوگیا۔ آج میرے گھر کا مرکز ثقل وائی فائی ہے اور سب کے پاس موبائل اپنا اپنا ہے

گدھے کی کھال

اس نے بچھو پالنے کا کام شروع کیا تو اس کے گھر والوں نے اسے بہت برا بھلا کہا، دوستوں نے مذاق اڑایا ، مگر آدمی ضدی تھا ، ہر نصیحت کے جواب میں کہتا ،مجھے یقین ہے ۔۔۔ ، 
پچھلے تین سالوں میں اس نے بچھو وں کی برآمد سے بہت ڈالر کمائے، اس کے پاس بنگلہ ہے گاڑی ہے مگر بیچارہ ہے کیونکہ چھڑا ہے۔۔ 
اب دوست اس نے کاروباری مشورے لیتے ہیں۔
تم گدہے پالنے کا کام شروع کر دو، اس نے دوست کو مشورہ دیا ۔اگلے دو سالوں میں گدہے کی قیمت 10 لاکھ روپے تک جمپ کرنے والی ہے وہ دیر تک دوست کو مفید مشورے دیتا رہا ۔۔۔ میں پاس بیٹھا سن رہا تھا ۔
جب اس کا دوست اٹھ کر جانے لگا تو کہا۔
ہاں سنو ۔۔۔ گدہے کو مارنے سے پہلے بھوکا رکھنا کھال اتارنے میں آسانی رہے گی۔


ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

آپکی عمر

ایک لڑکی سے پوچھا آپکی عمر ؟؟؟
کہا پتہ نہیں البتہ اپنی امی سے آدھی عمر کی ھوں 
پوچھا آپکی امی کی عمر ؟؟؟
کہا پتہ نہیں البتہ میرے ابو سے پانچ سال چھوٹی
پوچھا آپکے ابو کی عمر ؟؟؟
کہا معلوم نہیں البتہ ھم تینوں کی عمر کا مجموعہ 💯 سال
اب آپ بتائیں
لڑکی کی عمر ؟؟؟
لڑکی کی ماں کی عمر ؟
لڑکی کے باپ کی عمر ؟

اعتدال


معاشرتی زندگی میں انفرادی رویوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے، مگر ْ اعتدال ْ ایسا اچھا رویہ ہے جس کو ہر قوم و مذہب ومعاشرہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔انسان بنیادی طور پر امن پسند ہے وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتا ہے، اس کو اپنی آزادی عزیز ہے، وہ جانی و مالی خساروں سے بچنا چاہتا ہے اور اس کی ایک عزت نفس ہے جو اس کو بہت عزیز ہے۔ایک فقرہ ہم روزمرہ زندگی میں سنتے ہیں ْ جیو اور جینے دو ْ دراصل یہ اعتدال اختیار کرنے کی تعلیم دینے کے لیے اختیار کیا گیا ایک بیانیہ ہے۔ عوامی بیانیوں کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے ۔ جیسے ہم سنتے ہیں حدسے بڑہا ہو ا پیار خطر ناک ہوتا ہے ، حالانکہ پیا ر اور محبت حد سے بڑہا ہوا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ محبت کو جتنا بھی بڑہا لیا جائے اس میں مزید کی گنجائش رہتی ہے۔لیکن عمومی بیانیہ یہ ہے کہ کسی بھی رویے میں غلو نقصان دہ ہے خواہ محبت ہی ہو۔
اعتدال کواگر ایک مقام مان لیا جائے تو اس کے اوپر ایک مقام غلو کا ہوتا ہے جس کو افراط کے لفظ سے بیان کیا جا سکتاہے اور افراط کے متضاد لفظ تفریط کا مقام اعتدال کے مقام سے نیچے آ جائے گا ۔افراط و تفریط دراصل ایک قسم کی سختی یا انتہا پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ان طرفین کے مابین معتدل موقف کواعتدال کا نام دے کر پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اور یہ پسندیدگی تمام انسانوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے اور اس کا امتیاز ہے کہ اس رویے کی ہمارے رہبر و رہنماء حضرت محمد خاتم مرسلین ﷺ نے بہت حوصلہ افزائی فرمائی اور کہا ْ دو رذیلوں کے مابین برتر اعتدال ہے ْ ۔
یعنی اعتدال کے مقام سے اوپر اور نیچے کے مقام پر دونوں رویوں کو ْ رذیل ْ بتا کر ان سے کنارہ کش ہونے کی ترغیب دی ہے۔ ایک بار حضور ﷺ نے فرمایا ْ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بے جا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے ْ اور دین کو عملی طور پر فرد پر غالب ہوتے ہوئے ہم موجودہ معاشرے میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ انسان دین سے مغلوب ہو کر دین کی اصل روح پر عمل سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔اور حیرت انگیز طور پر یہ ْ مغلوب ْ جاہل نہیں بلکہ ْ عالم ْ ہوتا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ صادق کا قول اپناآپ خود منواتا ہے۔اعتدال کو بیان کرتے ہوئے صادق و امین نبی ﷺ نے فریایا کہ تمھارے اوپر تمھارے نفس کا حق ہے، تمھارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے، تمھارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے تم ہر حق دارکا حق ادا کرو ۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی و رسول ﷺ کے فرمان کو یہ فرما کر مستحکم فر دیا ْ آپ فرما دیجیے ۔ اللہ کے پیدا کیے ہوئے اسباب زینت کو ، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے، اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے ْ ۔
اسلام ایک طرز زندگی ہے جو اعتدال پسندوں کا دین ہے ۔ اسلام جیو اور جینے دو کا سبق دیتا ہے۔ اور اپنے ماننے والوں کو نصیحت کرتا ہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات میں اللہ کی حدود سے نہ تجاوز کرو نہ کمی کرو۔اسلام اعتدال ، توازن اور عدل کا دین ہے ۔ اور یہ دین اپنے ماننے والوں کو ہدائت کرتا ہے ْ اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھاہے، اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیاوی حصے کو بھی نہ بھول ْ بلکہ انسان کو مزید تاکید کرتے ہوے اللہ تعالی نے فرمایا ہے ْ اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گذر جاواور اللہ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو ْ اورحق یہ ہے کہ ہر انسان اپنے قول و فعل میں اس حد تک آزاد ہے جب تک اس کا قول و فعل معاشرے میں بسنے والے کسی دوسرے فرد کی حق تلفی کا سبب نہ بن جائے۔اور انفرادی آزادی ، جانی و مالی تحفظ اور فرد کی عزت نفس کی پاسداری کا سبق ہمیں اس ہستی نے دیا ہے جس پر خود خالق ارض و سماوات اور آسمانوں کی مخلوق سلامتی بھیجتی ہے اور اہل ایمان کو حکم ہے کہ تم بھی ان رحمت العالمین ﷺ پر صلاۃ و سلام بھیجو !

جمعہ، 6 اکتوبر، 2017

وہ آئے پیر زندیق

شائد آپ محسوس کریں کہ پچھلی چند دہائیوں میں ہمارے ہاں گھی کی نسبت کھانے والے تیل کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے اور اس وقت تیل کی کھپت گھی کی کھپت کے تقریبا برابر ہے، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دور میں بازار میں گھی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا، گھی بنانے والوں سے جواب طلبی ہوئی تو پتہ چلا۔کہ خوردنی تیل کو گھی کی شکل دینے میں حرارت کا ایک کردار ہے اور حرارت جو کہ گیس سے حاصل کی جاتی ہے کی قیمت میں حکومت نے اضافہ کیا ہے ۔ حکومت نے گھی بنانے والوں سے کہا کہ آپ گھی کی بجائے تیل کو مارکیٹ میں لائیں ، عوام کا ذہن بنانا ہمارا کام ہے، پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے لوگوں نے خوردنی تیل استعمال کرنا شروع کر دیا۔حالانکہ یہاں ایسے بزرگ موجود ہیں جن کو اسی کی دہائی میں ذولفقار علی بھٹو کے دور میں گھی اور چینی کی قلت یاد ہو گی۔ اس زمانے میں اسلام آباد کی ایک گھی مل کا تیار کردہ گھی محض اس بنا پر غیر مقبول تھا کہ اس میں گھی کم اور تیل زیادہ ہوا کرتا تھا۔اس مثال سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ذہن بنانے میں میڈیا کا کردار موثر ہوتا ہے۔
جب ہم معاشروں کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب معاشروں نے اپنے کام اہلیت کی بنا پر تقسیم کر رکھے ہیں، معاشرے کی تربیت کا کام اساتذہ کو سونپا جاتا ہے، معاشرے میں امن و امان قائم کرنے کا کام پولیس کے سپرد ہوتا ہے، فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، صحت کا محکمہ بیماروں کی نگہداشت کرتا ہے، میڈیا کا کام لوگوں کے ذہن بنانا ہوتا ہے ، اس سارے عمل کی دیکھ بال کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔
ؒ شہر لاہور کے دامن میں محواستراحت حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ المعروف داتا صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف المجوب میں ایک حکائت نقل کی ہے لکھتے ہیں ایک دن ابو طاہر حرمیؓ گدہے پر سوار ہو کر ایک بازار سے گزر رہے تھے، ایک مرید ہم رکاب تھا، کسی نے پکار کر کہا ْ وہ آئے پیر زندیق ْ مرید غضبناک ہو کر پکارنے والے کی طرف لپک پڑہا، بازار میں ہنگامہ ہو گیا، شیخ نے مرید سے کہا اگر تو خاموش رہے تو میں تجھے ایسی چیز پڑھاوں گا جو تجھے اس قسم کی مصیبت سے دور رکھے۔ مرید خاموش ہو گیا، گھر پہنچ کر شیخ نے کہا میرا صندوقچہ اٹھا لاو، مرید اٹھا لایا اس میں خطوط تھے، مرید سے کہا پڑہوجو خطوط مجھے آتے ہیں ان میں کسی نے مجھے شیخ الالسلام کہہ کر خطاب کیا ہے، کسی نے شیخ پاک لکھا ہے، کسی نے شیخ زاہد لکھااور کسی نے شیخ حرمین، یہ تمام القاب ہیں نام نہیں ، میں ان میں سے کسی ایک کا اہل نہیں۔ ہر کسی نے اپنے اپنے اعتقاد کے مطابق کوئی لقب تراش لیا ہے۔اگر اس شخص نے بھی اپنے اعتقاد کی بنا پر کسی لقب سے مجھے پکار لیا تو اس میں جھگڑے کی کون سی بات تھی۔ 
حکائتیں اور قصے اکثر لوگوں کی سماعتوں کو فرحت بخشتے ہیں مگر اہل علم کے لیے ان میں لطیف سبق پنہاں ہوتے ہیں۔اس حکایت میں بھی سبق ہی پنہاں ہیں کہ استاد نے جھگڑے کے وسط میں بھی اپنے منصب کو نہ چھوڑا اور اس واقعے کو اپنے مرید کی تربیت کا سبب بنا لیا۔
ہمارے اجتماعی ذہن کی بطور ْ ناقد ْ تربیت مکمل ہوجانے کے بعد ایک فرد محسوس کرتا ہے کہ سارا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے، رشوت ، بے انصافی ، بے اخلاقی کا چلن عام ہے۔ آپ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں ، سوشل میڈیا کو دیکھ لیں، مذہبی، معاشرتی اور سیاسی اجتماعات میں شرکت کر کے دیکھ لیں ،ہر جگہ سب سے اونچی آوا ز ناقد ہی کی ہو گی۔فرد کو یقین ہو چلا ہے کہ اس معاشرے میں اس کی انفرادی نیکی اور اچھے عمل کا کوئی وزن نہیں رہا ہے کیونکہ سارا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے ۔
کیا ہم واقعی کرپٹ ہو چکے ہیں یا ناقد کے سپیکر کا وولیم ضرورت سے زیادہ بلند ہے 

بدھ، 4 اکتوبر، 2017

اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان


فرما دیجئے ہر کوئی اپنے طریقہ فطرت پرعمل پیرا ہے (بنی اسرائیل :84 ) حضرت زید بن اسلم سے روائت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نمرود کے پاس ایک فرشتہ بھیجاتاکہ وہ اسے اللہ کی ذات پر ایمان کی دعوت دے،فرشتے نے دعوت دی نمرود نے انکارکیا۔دوسری دفعہ پھر دعوت دی ا س نے پھر انکار کیا،تیسری دعوت پر انکار کرتے ہوئے اس نے کہا تم اپنے لشکر لے آو میں اپنا لشکر لے کر آتا ہوں،دوسرے دن نمرود نے اپنا سارا لشکر جمع کیا،اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں مچھر بجھوا دیے،ان مچھروں نے سارے لشکر کا گوشت نوچ لیا اور صرف ہڈیاں رہ گئیں،ایک لنگڑا مچھر نمرود کے ناک میں گھس گیاتو نمرود بھاگ کھڑا ہوا،وہ سمجھا کہ شائد وہ بھاگ کر عذاب سے بچ جائے گا۔وہ مچھر چار سو سال تک اس کے دماغ میں گھسا رہا،حالانکہ مچھرکی اوسط عمر دو دن سے بھی کم ہوتی ہے،جب مچھر اس کے دماغ میں حرکت کرتا تو اس کو سر میں سخت خارش کی تکلیف ہوتی، اس تکلیف کا مداوا کرنے کے لیے اس کے سر پر پٹائی کی جاتی۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے آگ میں اشیاء کے جلا ڈالنے کی صلاحیت رکھ دی ہے، لیکن ہر مخلوق ، خالق قدیم کے حکم کے جبر میں جکڑی ہوئی ہے اور جب اسے اپنی صلاحیت کے برعکس حکم ملتا ہے تو اس کے عمل سے عبدیت ہی کا اظہار ہوتا ہے۔جب حضرت خلیل اللہ علیہ و علی نبینا صلاۃ و سلام کو آگ میں جلانے کے لئے ان کو منجیق کے ذریعے آگ کے الاو میں پھینک دیا تو جلانے والی آگ حضرت جد محمد ﷺ کے لئے سلامتی والی بن گئی۔
پانی کو عمومی حکم بہا لے جانے ہے یا پھر اسکو ڈبو دینے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے ۔مگر جب اس کو اس فطری صلاحیت کے برعکس چھوڑ دینے کا حکم ملتا ہے تو اس حکم کی تعمیل بھی مخلوق کی مجبوری ہے۔اورہم پانی پر چلنے کے واقعات پڑہتے ہیں۔چھری کی فطرت کاٹنا اور ٹکڑے کر دینا ہوتا ہے مگر جب اس کو حکم دے دیا جائے تو اپنے کاٹنے کی صلاحیت کے باوجود وہ کاٹتی نہیں اورنبی اکرم ﷺکے جد امجدکے ذبح کا معروف واقعہ ہمارے سامنے ہے 
ابرہہ نامی دشمن خدا نے جن بیت اللہ شریف کو اکھاڑ پھینکنا چاہا تو مکہ مکرمہ پر ہاتھیوں سے حملہ آور ہونے کا اردہ کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو ابابیل جیسے ننھے پرندوں سے کھائے ہو بھس کی طرح تباہ کر دیا۔
مالک کعبہ نے ابابیلاں نوں جنگ دا ہنر سکھایا مکے وچ داخل ہون نہ دتا جو دشمن بن کے آیا
اللہ تعالی ٰ کی قدرت خود ہی رستہ بناتی ہے خود ہی اسباب پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی حتمی فیصلہ صادر ہوتا ہے۔حضرت موسیٰ کو خود دشمن کے گھر میں پالا۔ بی بی آسیہ کو اس دنیا میں کس کی بیوی بنایا اور آخرت میں اس ہیرے کو کس تاج میں جڑے گا۔ 
یہ ساری حکائیتیں بیان کر کے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ خالق قدیم کی قوت و استعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انسان ہی نہیں ہر کاہنات کا ہر ذرہ و ہر گلیکسی glaxy اس کی قدرت کے سامنے ایسے بے بس و مجبور ہے کہ مخلوق اپنی جبلی فطرت پر عمل پیرا تو ہے ہی مگر جب اس کو حکم ملتا ہے تو وہ اپنی جبلیت کے برعکس اتباع حکم بجا لا کر انسان و جنات میں اس جبر یت کی تذکیر کرتی ہے جو ذات قدیم کی ٖصفات میں سے ایک صفت ہے،
اللہ تعالیٰ نے کشتی کے سمندر میں تیرنے کے عمل کو اپنی قدرت کا مظہر فرمایا۔ انسانی عقل تسلیم کرتی ہے کہ کشتی اور اس پر ڈالے گئے وزن میں ایک خاص نسبت ہے جو کشتی کے پانی پر رہنے کی جبلت کو بیان کرتی ہے لیکن جب اسی اصول کو اپناتے ہوئے انسان نے ٹائی ٹینک نامہ بحری جہاز بناکر یہ دعویٰ کیا کہ یہ کبھی ڈوبے گا نہیں تو وہ اپنے پہلے سفر کے دوران ہی ڈوب گیااورانسان کو متنبع کر گیا کہ اصول و ضابطہ ،فطرت و جبلت پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت حاکم ہے۔رب محمد ﷺ کا انسان پر یہ احسان ہے کہ وہ متواتر ایسے واقعات کا ظہور فرما کر اپنی حاکمیت کی تذکیر کا اعادہ کراتا رہتا ہے کیونکہ انسان سنی ہوئی کی نسبت دیکھی ہو ے واقعہ سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر انسان جس کی عمر چالیس سال ہو گئی ہو وہ کم از کم ایک ایسے واقعے کا عینی شائد ہوتا ہے جو اس کی روح کو جنجھوڑ کر یقین دلاتا ہے کہ قدرت الہی ہر اصول و ضابطے اور قانون و اصول پر حاوی ہے۔اور حیران کن طور پر مخلوق اپنی جبلت وفطرت کے برعکس عمل کر کے بھی اپنی فطرت کو قائم رکھتی ہے۔ 
معبود کی قوت واستعداد کا ادراک عابد کو تقدیر پر یقین دلا کر ہی رہتا ہے، یہ یقین ہی انسان کا سرمایہ بنتا ہے جو اس کو اپنی سعی و اعمال ہی نہیں بلکہ خیالات و نیت کو بھی جلا بخشتا ہے۔

* * *