وہ آئے پیر زندیق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
وہ آئے پیر زندیق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 6 اکتوبر، 2017

وہ آئے پیر زندیق

شائد آپ محسوس کریں کہ پچھلی چند دہائیوں میں ہمارے ہاں گھی کی نسبت کھانے والے تیل کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے اور اس وقت تیل کی کھپت گھی کی کھپت کے تقریبا برابر ہے، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دور میں بازار میں گھی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا، گھی بنانے والوں سے جواب طلبی ہوئی تو پتہ چلا۔کہ خوردنی تیل کو گھی کی شکل دینے میں حرارت کا ایک کردار ہے اور حرارت جو کہ گیس سے حاصل کی جاتی ہے کی قیمت میں حکومت نے اضافہ کیا ہے ۔ حکومت نے گھی بنانے والوں سے کہا کہ آپ گھی کی بجائے تیل کو مارکیٹ میں لائیں ، عوام کا ذہن بنانا ہمارا کام ہے، پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے لوگوں نے خوردنی تیل استعمال کرنا شروع کر دیا۔حالانکہ یہاں ایسے بزرگ موجود ہیں جن کو اسی کی دہائی میں ذولفقار علی بھٹو کے دور میں گھی اور چینی کی قلت یاد ہو گی۔ اس زمانے میں اسلام آباد کی ایک گھی مل کا تیار کردہ گھی محض اس بنا پر غیر مقبول تھا کہ اس میں گھی کم اور تیل زیادہ ہوا کرتا تھا۔اس مثال سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ذہن بنانے میں میڈیا کا کردار موثر ہوتا ہے۔
جب ہم معاشروں کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب معاشروں نے اپنے کام اہلیت کی بنا پر تقسیم کر رکھے ہیں، معاشرے کی تربیت کا کام اساتذہ کو سونپا جاتا ہے، معاشرے میں امن و امان قائم کرنے کا کام پولیس کے سپرد ہوتا ہے، فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، صحت کا محکمہ بیماروں کی نگہداشت کرتا ہے، میڈیا کا کام لوگوں کے ذہن بنانا ہوتا ہے ، اس سارے عمل کی دیکھ بال کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔
ؒ شہر لاہور کے دامن میں محواستراحت حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ المعروف داتا صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف المجوب میں ایک حکائت نقل کی ہے لکھتے ہیں ایک دن ابو طاہر حرمیؓ گدہے پر سوار ہو کر ایک بازار سے گزر رہے تھے، ایک مرید ہم رکاب تھا، کسی نے پکار کر کہا ْ وہ آئے پیر زندیق ْ مرید غضبناک ہو کر پکارنے والے کی طرف لپک پڑہا، بازار میں ہنگامہ ہو گیا، شیخ نے مرید سے کہا اگر تو خاموش رہے تو میں تجھے ایسی چیز پڑھاوں گا جو تجھے اس قسم کی مصیبت سے دور رکھے۔ مرید خاموش ہو گیا، گھر پہنچ کر شیخ نے کہا میرا صندوقچہ اٹھا لاو، مرید اٹھا لایا اس میں خطوط تھے، مرید سے کہا پڑہوجو خطوط مجھے آتے ہیں ان میں کسی نے مجھے شیخ الالسلام کہہ کر خطاب کیا ہے، کسی نے شیخ پاک لکھا ہے، کسی نے شیخ زاہد لکھااور کسی نے شیخ حرمین، یہ تمام القاب ہیں نام نہیں ، میں ان میں سے کسی ایک کا اہل نہیں۔ ہر کسی نے اپنے اپنے اعتقاد کے مطابق کوئی لقب تراش لیا ہے۔اگر اس شخص نے بھی اپنے اعتقاد کی بنا پر کسی لقب سے مجھے پکار لیا تو اس میں جھگڑے کی کون سی بات تھی۔ 
حکائتیں اور قصے اکثر لوگوں کی سماعتوں کو فرحت بخشتے ہیں مگر اہل علم کے لیے ان میں لطیف سبق پنہاں ہوتے ہیں۔اس حکایت میں بھی سبق ہی پنہاں ہیں کہ استاد نے جھگڑے کے وسط میں بھی اپنے منصب کو نہ چھوڑا اور اس واقعے کو اپنے مرید کی تربیت کا سبب بنا لیا۔
ہمارے اجتماعی ذہن کی بطور ْ ناقد ْ تربیت مکمل ہوجانے کے بعد ایک فرد محسوس کرتا ہے کہ سارا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے، رشوت ، بے انصافی ، بے اخلاقی کا چلن عام ہے۔ آپ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں ، سوشل میڈیا کو دیکھ لیں، مذہبی، معاشرتی اور سیاسی اجتماعات میں شرکت کر کے دیکھ لیں ،ہر جگہ سب سے اونچی آوا ز ناقد ہی کی ہو گی۔فرد کو یقین ہو چلا ہے کہ اس معاشرے میں اس کی انفرادی نیکی اور اچھے عمل کا کوئی وزن نہیں رہا ہے کیونکہ سارا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے ۔
کیا ہم واقعی کرپٹ ہو چکے ہیں یا ناقد کے سپیکر کا وولیم ضرورت سے زیادہ بلند ہے