بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے
بڑھاپا زندگی کی سب سے سچی حقیقت ہے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں جسم کی توانائی، آنکھوں کی چمک، آواز کی روانی اور ذہن کی چستی پیچھے رہ جاتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان کا دل، بڑھاپے میں بھی، ویسا ہی حساس اور محبت کا طلبگار رہتا ہے جیسا بچپن میں ہوتا ہے۔
اس عمر میں سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے — وقت۔
نہ پیسہ، نہ دوائی، نہ آرام دہ بستر — فقط تھوڑا سا وقت، محبت بھرا لمس، اور چند لمحوں کی دلجوئی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آج کی اولاد والدین کی اس محبت کی بھیک دینے پر بھی تیار نہیں۔ وہ ماں جس نے راتیں جاگ کر بچے پالے، وہ باپ جس نے اپنی خواہشیں مار کر بچوں کو سہولت دی — وہی ماں باپ آج ضعیفی کی دہلیز پر تنہا کر دیے جاتے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ باپ، ماں کے برعکس، سوال کا عادی نہیں ہوتا۔ وہ خاموشی سے اپنی ضروریات کو دباتا ہے، دکھ کو چھپاتا ہے، اور اولاد کی مصروفیت کا عذر خود بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کی ذاتی ضروریات پر نظر رکھے، ان میں کسی کمی کو محسوس کرے اور اس کی تلافی کرے۔
بڑھاپے میں والدین کی خدمت صرف خدمت نہیں، ان کی روح کی غذا ہے۔
ان کا ہاتھ تھامنا، ان کے چہرے کو چھونا، ان سے محبت سے بات کرنا — یہ سب انہیں توانائی دیتا ہے۔ یہ سادہ سے عمل انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے بچوں کی دنیا کا حصہ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بڑھاپے میں نظر انداز کیے گئے والدین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں اکثر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جہاں والدین کو صرف اس لیے گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ "خرچ" یا "پرائیویسی" کے لیے "غیر موزوں" ہو گئے۔
ایک 78 سالہ شخص لاہور کی سڑک پر روتا ہوا ملا جسے بیٹے نے نکال دیا۔ کراچی کی ایک ماں، الزائمر کی مریضہ، ایدھی ہوم میں پڑی رہتی ہے اور دن رات بیٹوں کو یاد کرتی ہے۔ راولپنڈی کا ایک استاد، جو سینکڑوں بچوں کا استاد رہا، بڑھاپے میں فٹ پاتھ پر آ بیٹھا۔
ان مناظر کو صرف پڑھ لینا کافی نہیں، انہیں محسوس کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کا راستہ قرار دیا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔"
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص برباد ہو جائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت حاصل نہ کی۔"
اسلام صرف عبادات کا دین نہیں، یہ تعلقات کا بھی دین ہے۔ اور سب سے پہلا تعلق — والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔
روزانہ اگر صرف پانچ منٹ بھی والدین کے ساتھ گزار لیے جائیں، ان کی آنکھوں میں دیکھا جائے، ان کی بات سنی جائے — تو وہ دن کا سب سے قیمتی لمحہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے:
کیا ہماری مصروفیات، ہمارے والدین سے زیادہ قیمتی ہیں؟
کیا آج جو وقت بچا رہے ہیں، وہی کل ہمارے بچے ہمیں واپس دیں گے؟
یاد رکھیں، بڑھاپا وقت نہیں مانگتا — محبت مانگتا ہے، موجودگی مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے۔
اگر ہم نے آج اپنے والدین کو وقت نہ دیا، تو کل ہم وقت کے سب سے بڑے قیدی ہوں گے — اور شاید ہمارے بچے بھی ہماری ہی مثال کو دہرا رہے ہوں گے۔
(یہ کالم "بڑھاپے" پر ایک اجتماعی اور ذاتی شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے۔ اسے ضرور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کی ایک یاد دہانی سمجھا جائے، نہ کہ فقط ایک تحریر۔)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں