منگل، 26 اگست، 2025

پرانا پروپیگنڈہ نئی بوتل







پرانا پروپیگنڈہ نئی بوتل
اگر آپ تیسری دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو جیسے پیدائش کے ساتھ ہی کانوں میں ایک پیغام ڈال دیا جاتا ہے: “تمہارے ملک کے پاس کچھ نہیں، تمہارے تعلیمی ادارے پسماندہ ہیں، صحت کا نظام ناکام ہے، کھیل کا میدان ہارنے والوں سے بھرا ہوا ہے، اور عملی زندگی میں کامیابی صرف خواب ہے۔” یہ بیانیہ دہائیوں سے تیسری دنیا کی نسلوں کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے۔
لیکن یہ پوری حقیقت نہیں، بلکہ آدھا سچ ہے۔یہی تیسری دنیا ہے جہاں عبدالسلام جیسے سائنسدان پیدا ہوئے جنہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ یہیں سے عبد الستار ایدھی جیسا انسان دوست اٹھا جس نے دنیا کو خدمتِ خلق کا نیا معیار دیا۔ یہیں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نکلے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔
کھیلوں کی دنیا میں دیکھیں تو پاکستان نے ہاکی کے میدان میں عالمی چیمپئن شپ جیتی، جہانگیر خان اور جان شیر خان نے دنیا بھر کو اسکواش میں پیچھے چھوڑا۔ کرکٹ میں عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا۔ آج بھی بابر اعظم اپنی بیٹنگ سے دنیا کو حیران کر رہا ہے اور ارشد ندیم جیسا ایتھلیٹ اولمپکس تک پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے۔ بھارت سے سچن ٹنڈولکر اور افغانستان سے راشد خان جیسے کھلاڑی اسی خطے کی محنت اور قابلیت کی علامت ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں ملالہ یوسفزئی نے امن کا نوبل انعام حاصل کرکے دنیا کو دکھایا کہ مشکلات کے باوجود علم کی شمع بجھائی نہیں جا سکتی۔ مریم محمّد جیسے پاکستانی نوجوان سائنسدان ناسا کے پروجیکٹس میں کام کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارتی نژاد ستیہ نڈیلا اور سندر پچائی دنیا کی بڑی کمپنیوں مائیکروسافٹ اور گوگل کے سربراہ ہیں۔
اس سب کے باوجود، میڈیا اور تعلیمی نصاب میں ناکامیوں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔ ایک کرپٹ سیاستدان کی کہانی تو دن رات سنائی جاتی ہے لیکن وہ استاد، سائنسدان، کھلاڑی یا محقق جو دنیا میں پہچان بنا رہے ہیں، ان پر کتابیں کم لکھی جاتی ہیں اور میڈیا پر وہ ہیرو کم ہی تسلیم کیے جاتے ہیں۔
یہی اصل پروپیگنڈہ ہے: کامیابیوں کو دبانا اور ناکامیوں کو بڑھا کر پیش کرنا۔ نئی نسل کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ہاری ہوئی ٹیم کا حصہ ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دنیا بھر میں کامیابی کے پرچم لہرائے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کامیابیوں کو اپنی شناخت بنائیں۔ نصاب، میڈیا اور گفتگو میں اپنی کامیاب مثالیں پیش کریں تاکہ نوجوان نسل یہ سمجھے کہ وہ ہارنے والوں کے وارث نہیں بلکہ کامیابی کی روایت رکھنے والوں کے جانشین ہیں۔
کیونکہ میدان زیست میں کامیابی محنت اور جذبے سے جیتی جاتی ہے، نہ کہ اسکور بورڈ پر پہلے سے درج اعداد و شمار سے۔

کوئی تبصرے نہیں: