اتوار، 26 فروری، 2023

فتنہ کیا ہے




مجھے اتنا معلوم ہے عمر کے والد سکول میں ٹیچر تھے والدہ میٹرک تک تعلیم یافتہ تھی مگر ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کے گھر میں دو الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ عمر کی والدہ نے وہ تمام کتابیں پڑہی ہوئی تھیں۔ عمر کالج کی لائبریری سے انھیں باقاعدگی نے کتابیں لا کر دیا کرتا تھا۔ اس خاتون سے میں نے بھی سلیقہ، قرینہ اور ادب سیکھا تھا۔ عمر کے والد ایک ایسی کتاب کے مصنف تھے جو ہمارے کالج کی لائبریری میں بھی موجود تھی۔ 

دسمبر 1976 میں ہم دونوں ہی سکالرشپ پر بیرون ملک گئے ماسٹر کرنے کے بعد عمر پاکستان فارن سروسز میں چلا گیا۔ عملی زندگی میں بھی ہم دونوں قریب رہے جب اس کی شادی ہوئی تو میں نے محسوس کیا وہ مذہب کی شفاف جھیل میں غوطہ زن ہو چکا ہے۔ ماتھے پر عبادت گذاری عیاں تھی تو چہرے پر سنت رسول نے اس کی شخصیت کو با رعب بنا دیا تھا۔ عمر کا علمی وژن وسیع تھا میرا خیال ہے ملکوں ملکوں کی سیاحت نے اس کے علم میں اضافہ کرکے ذہن کو کھول دیا تھا۔ یورپ میں اس کی تعیناتی کے دوران مسلمان اسے مذہبی محفلوں میں بلاتے اور اس کے علم و اقوال کو سن کر اپنے مذہبی عقائد کو مضبوط کرتے۔ 

عمر کی زوجہ  فرح،  جب شادی ہوئی ایک سکول میں  اے لیول کی ٹیچر تھی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد اس نے ملازمت ترک کر دی تھی۔ مذہبی رجحان کی اس خاتون نے اپنے دونو ں بیٹوں کو حفظ کرایا تھا۔ اس وقت ایک بیٹا پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیرون ملک ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہے تو دوسرا بیٹا پی ایچ ڈی کر کے اپنا  آ ٹی ٹی کا کاروبار کر کے خوشحالی کی زندگی گذار رہا ہے۔

میں اور عمر  دونوں ہی ریٹائر زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہی نہیں بلکہ ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ میرا خیال تھا میں عمر کو اندر سے جانتا ہوں مگر فرح جو کچھ بتا رہی تھی میرے لیے حیرت تھی۔ اس کی بیوی بتا رہی تھی۔ وہ ملحد ہو گیا ہے۔ قرآن کے کتاب الہی ہونے سے انکار کرتا ہے۔اور آخرت کوانسانی ذہنی اختراح کہتا ہے۔ 

اسلام آباد سے لاہور کا سفر چار گھنٹوں کا ہے۔ ہم جان بوجھ کر سات گھنٹے میں پہنچے۔پہلی رات کی صبح ہوئی تومیں عمر کے نظریات کی تبدیلی کے محرکات سمجھنے لگا تھا۔ بڑا محرک ٹوءئٹر پر برپا  ہونے والی سپیسسز

 تھیں (Spaces)۔ 

جب میں گھر عمر کو اس کے گھر اتار کر اپنے گھر واپس آ یا۔ میری بیوی، جو مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا کرتی تھی۔ اس نے فکر مندی سے پہلا سوال یہ کیا   (کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں)۔ میں واقعی پریشان تھا۔ یہ پریشانی عمر کے بارے میں نہ تھی بلکہ اپنے تین تعلیم یافتہ بیٹوں کے بارے میں تھی۔ بیٹی بارے پریشان نہیں تھا کہ وہ ایک مضبوط کردار کے مسلمان کی زوجہ تھی۔ پھر ذہن کے کونے میں دھماکا سا ہوا۔ عمر بھی تو مضبوط کردار کا مسلمان تھا۔

عمر کے ساتھ کیے ایک ہفتے کے سفر کو آج مدت ہو چکی ۔ میں اور میری بیوی خوفزدہ ہیں۔ ہم اپنے حلقہ احباب میں کئی لوگوں سے مشورہ کر چکے ہیں مگر ہم دونوں، میاں بیوی، کی پریشانی کم نہیں ہو رہی  بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ کیا ہم خود اور ہماری اولاد  (خاتمۃبالایمان) کی  سعادت پا سکیں گے۔ اگر عمر جیسے شخص کے اعتقاد  بدل سکتے ہیں تو ہمارا کیا بنے گا۔۔۔۔ 

کل میرے پوتے کی سالگرہ تھی۔ میرا سارا خاندان موجود تھا۔ کیک کاٹنے کے بعد یہ مسٗلہ بچوں کی ماں نے ان کے سامنے رکھا۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا جو سٹین فورٹ سے سائبر سیکورٹی کی ڈگری لے چکا ہے۔ ہنس دیا  اور ماں سے پوچھا۔ خوفزدہ آپ ہیں یا ابو! 

وہ خوف کے مقام ابتداء  تک پہنچ چکا تھا۔ خوفزدہ خود ہی گویا ہو ا  

(اگر انسان  زندگی کی عصر کے وقت، اپنی تربیت، اعتقاد، علم و سیاحت کے ہوتے ہوئے دین ہی  بارے میں اپنے نظریات تبدیل کر لے تو فکر مند ہونا قدرتی عمل ہے۔ اور اس کا سبب وہ ٹیکنالوجی ہے جس کے ہم سب مداح اور  benefiercies

  ہیں۔ میں اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے خاتمۃبالایمان بارے خوف زدہ ہوں)

 ابو آپ کا خوف بجا ہے۔مصنوعی ذہانت کی کیمیاٗء سے کشید کردہ ایسی پروڈکٹس فرد کے موبائل فون پر دستیاب ہیں۔ جو رنجیدہ کو مخمور و سرشارکرنے کے علاوہ روح کو زخمی کرنے، اعتقاد کے نیچے سے مصلی کھینچ لینے، بیکار وجود کو عظمت و جلالت کی کرسی پر بیٹھا محسوس کرانے جیسا احساس پیدا کر سکتی ہے۔

میں نے کہا  مگر میں تو ان اعتقادی نظریات بارے فکر مند ہوں جو تمھارے انکل عمر پر سترکے پیٹے میں حملہ آور ہوئے  ہیں؟

ابو بات یہ ہے کہ کچھ حقیقت ہوتی ہے جس کو اساس بنا کر اس پر تغیر کی دیوار بنائی جاتی ہے اور پھر اپنے مطلب کا لنٹل ڈالا جاتا ہے۔ہمارے گھر کی لائبریری  میں  Andrew Wheatcraft کی کتاب پڑی ہے جس میں اس نے لکھا ہے  (اسلام صحرا کی مانند تھا) پھر ریت کے ان ذروں کو عمل نے متحد کیا۔ علماء  و مبلغین نے قرآن کی چتھری  تلے بنیادی کردار ادا کیا۔ مگر اس وقت اتحاد کی تسبیع کا دھاگہ ٹوٹ چکا ہے۔ متبرک  چھتری کا کپڑا پھٹ چکا ہے،  تنقیدی دھوپ اور ذہن بدلتی ژالہ باری کو روکنا ممکن نہیں ہے۔اسلام جذبات کی بجائے دلیل کی تبلیغ کرتاہے۔ مگر آج کل جذبات غالب ہیں اور دلیل تلاش کرنے والے، دلیل پیش کرنے والے موجود ہیں مگر صاحبان دلیل بزرگوں  نے خود ہی جذباتی  نوجوانوں کو سامنے کیا ہوا ہے۔ دلیل جس تعلیم یافتہ طبقے کے پاس ہے اس کے لباس اور شکل پر تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے علم کے ماخذ کو نحس کہا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے ان کی بات محدود طبقے تک پہنچتی ہے۔ دوسری طرف ٹوئٹر پر چند افراد  space  برپا کرتے ہیں۔ مگر ان کی پشت پر ادارے ہوتے ہیں۔ جب ایک فرد ان کے نرغے میں آتا ہے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے۔ جو آپ کے دوست کا ہوا ہے۔ 

کیا ہم بے بس ہو چکے ہیں۔میں نے سوال کیا 

آپ کے سوال کا جواب دینا اس وقت ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک طرف ہم دفاعی حصار میں ہیں دوسری طرف جارہانہ پیش رفت میں خود ہمارے ہی کیمپ کے لوگ ہم سے مزاحم ہیں۔ مگر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں آخری کامیابی علم دلیل ہی کو ہونی ہے نہ کہ جذباتی مزاحمت کی۔ یہ انسانیت کی تاریخ ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے۔ 

اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ہمارے ہی کیمپ کے لوگ ہم سے مزاحم ہیں کیا وہ مسلمان ہیں ؟  میں نے پوچھا 

ابو وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ با عمل ہیں۔ وہ حقیقتوں کو ایسے دیکھ سکتے ہیں جیسے میں اس چمچ کو دیکھ رہا ہوں۔ مگر وہ دیکھنا نہیں چاہتے کیونکہ جس تشویش میں آپ مبتلا ہیں اس کی تپش  میں تو محسوس کرتا ہوں مگر ابھی تک یہ تپش وہاں تک نہیں پہنچی جہاں تک پہنچنی چاہیے تھی۔ 

 میں نے بیٹے کو ڈی ٹریک ہوتے دیکھا تو کہا  عمر کے بارے میں، میں ہی نہیں اس کی بیگم بھی فکر مند ہے۔فرح کا کہنا ہے  جب نزلہ کے جراثیم گھر میں گھس آئیں تو سب کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کو اصل تشویش اپنے بیٹوں کے بارے میں ہے۔

میرے لیے انکشاف تھا جب بیٹے نے کہا  شانی (عمر کا بیٹا)  فرضی نام سے اس سپیس کا حصہ ہے جو اس کے والد صاحب کو کھا گئی ہے۔ جب اس کے والد پہلی دفعہ اس سپیس میں بولے تھے۔ اسی دن ہی سے شانی باقاعدگی سے اس سپیش بارے مجھ سے بات کرتا رہا ہے۔ میں نے خوو بھی کئی بار انکل کو بولتے سنا ہے۔ مگر ہمار کنسرن عمر انکل نہیں ہیں۔ ہماری اصل تشویش وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہم نے ایک بار ارادہ کیا تھا۔ وہ تمام اکاونٹ بند کر ا دیں جو ایک مخصو ص جگہ سے اوپریٹ ہوتے ہیں مگر یہ اسلام کی اس بنیادی تعلیم کے خلاف ہے جس میں اللہ تعالی بنی آدم کے سامنے خیر اور شر کو بیان فرما کر بنی آدم کو چوائس کا موقع دیتا ہے۔ اس چوائس کو جو لوگ چنتے ہیں وہ عام لوگ نہیں ہوتے۔ ان کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا۔ لوگ مذہب میں داخل ہوتے ہیں چھوڑ جاتے ہیں، کبھی کبھی پلٹ بھی آتے ہیں۔ یہ لوگ دلیل کو ماننے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا وژن عام لوگوں سے بلند ہوتا ہے۔ یہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ شانی کا خیال ہے کہ اس کے والد پلٹ ائیں گے

میں نے پوچھا 

تمھار کیا خیال ہے عمر کے بارے میں کیا وہ لوٹے گا۔

میں نہیں جانتا  وہ لوٹیں گے یا نہیں مگر مدار کی گردش سے جب کوئی سیارہ نکل جائے تو وہ مدار میں واپس نہیں آیا کرتا۔۔۔۔

میرے گھر کے اندر اپنے بچوں سے اس بات چیت کو ساڑے تین سال گذر چکے ہیں۔ عمر اس دار فانی سے کوچ کر چکا ہے۔ اس کی وفات کے بعد فرح نے اپنے گھر کے ماحول میں اپنے ذہن کے مطابق تبدیلیاں کی۔ اس نے بتایا ہر ہفتے محفل کرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو سوال کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہر شخص ہر قسم کا سوال پوچھ سکتا ہے۔ اور میرے بیٹے ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے سب سے تلخ اور بے ہودہ سوال خود میرے پوتے اور پوتیاں پوچھتے ہیں۔ اس عمر کے سوال عمر کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جب سوال بوڑہے ہو جاتے ہیں۔۔۔  فرح کی آواز بوجھل ہورہی تھی ۔۔ میرے تصور میں مگر وہ سیارہ تھا جو مدار سے نکل جاتا ہے۔