بدھ، 28 فروری، 2018

جگاڑ


گل خان نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ، سند مجھے دکھائی اور جلیبی بھی کھلائی ۔ میں نے ویسے ہی پوچھا لیا ْ جگاڑ ْ کیا ہوتا ہے۔ گل خان نے میری طرف عالمانہ انداز میں دیکھا ۔گلا صاف کیا
ْ ْ جگاڑ در اصل ایک ایسا عمل ہوتاہے جس کو مقامی حالات کے مطابق ڈھال کر اس پر اخراجات کو انتہائی حد تک کم کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاتا ہے معاشرتی رویے ایک طرح سے انفرادی اعمال کے اچھا یا برا ہونے کی سند ہوتے ہیں۔ جگاڑ کو ہمارا معاشرہ تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسے سند قبولیت عطا کرتا ہے۔
بہت خوب ، کو ئی مثال بیان کر سکتے ہو
ْ دھرنا ْ 
وہ کیسے 
ْ دھرنا دینابھی معاشرتی عمل ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ ایک مسئلہ کی طرف مبذول کر ا کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ْ 
اس میں جگاڑ کہا ں ہے
ْ سر جی جگاڑ یہ ہے کہ پانچ سو بندے لے کر دھرنے کے کنٹینڑ پر چڑھ کر ہر آتے جاتے راہگیر سے کلمہ شہادت سنا جائے جس کو نہ آتا ہو، جس کا تلفظ ٹھیک نہ ہو ، جس کے مخرج اپنے ،مقام سے نہ نکلتے ہوں ۔۔۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے

اگر کوئی آپ کو منع کرے تو مائیک پر اہل پاکستان کو بتائیں کہ اسلامی ملک میں اسلام کتنا مظلوم ہے۔کوئی زبردستی کنٹینر سے اتارنے کی کوشش کرئے تو آپ کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر باندھ لیں اور اسلام کے نام پر شہید ہونے کا اعلان کر دیں
میں نے جیب سے نوٹ نکال کر کہا گل خان جلیبی بہت مزے کی تھی اور لے آو ۔ گل خان نے منہ بنایا مگر جلیبی لینے چل دیا۔

منگل، 27 فروری، 2018

جذبے


ٓ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام صرف نعرہ تھا مگر پاکستان میں اسلام عملی حقیقت ہے، پاکستان کے ابتدائی دنو ں میں گھوڑوں پر سفر کرنے والے آج ہائی ویز پر ہائی برڈ گاڑیاں دوڑاتے ہیں ۔گھریلو اور انفرادی آسائشوں نے ہماری معاشرت کو آسان تر کر دیاہے۔سیاسی طور پر ہم آگے ہی بڑھے ہیں ، دفاع میں ہم نے معجزے دکھائے ہیں۔۔۔گذشتہ ستر سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے معاشی ، سیاسی،دفاعی، معاشرتی، مذہبی ہی نہیں بلکہ تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے۔
ہمارے دیہاتی معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ کمزور اور پسماندہ طبقات نے تعلیم میں پناہ لے کرخود کو خود کفیل کرنے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔یعنی تعلیم وہ جادو ہے جس سے انسان مستفید ہو کر معاشرے میں اپنی اگلی نسل کو بہتر معاشرتی مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ مگرقابل تشویش یہ ہے کہ ہماری تعلیم افراد میں یہ ادراک نہ پیدا کر پارہی کہ ْ جس کا کام اس کو ساجھے ْ آج ایک فرد فزکس کا پرفیسر ہے تو وہ ہمیں معاشرت سکھا رہا ہے، کھلاڑی ہے تو وہ معاشیات کو بہتر کرنے کے درپے ہے، سوشل سائنسز والا مکان بنا نے میں مصروف ہے ، وغیرہ وغیرہ
تعلیم کی اہمیت تسلیم، عالم ہمارے سر کا تاج، مگر ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی سلیبس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے اس ْ جذبےْ کو نکالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو ہر فن مولا بناتا ہے مگر اپنے کام کا نہیں رہنے دیتا۔

اتوار، 25 فروری، 2018

شیطان پر لعنت


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ مطلب اس کا استاد نے یہ بتایا تھا۔ اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا توڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔اور دین کو ہم عصر کرنا علامہ صاحب کا ایسا کارنامہ ہے جس کی تعریف علامہ صا حب کو حوصلہ بخشتی ہے۔
دین کی تبلیغ اور اسلام کی خدمت بہت اچھا اور پسندیدہ عمل ہے بلکہ بقول علامہ قادری صاحب اصل جہاد ہی یہی ہے , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور ان کے عقیدت مندوں کو ان سے متنفر کرتا ہے۔ اب فرید ملت ہسپتال کے نام پر اکٹھا کیے گئے چند ٹکوں کے عوض میزان میں ان کی تصنیفات کو رکھیں جس کی تعداد ہزاروں میں ہے تو یقین ہے کہ تصانیف کا وزن گراں ہی نکلے گا۔اور وہ لوگ دین کے ازلی دشمن ہیں جو نبی اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کی گئی جگہ پر ماضی کے ایک معمولی سے قبضہ کرنے کے عمل کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے کی نسبت قادری صاحب کے تعلیمی اداروں میں تنظیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ ان اداروں میں جنسی بے راہ روی کا الزام محض ان کی دینی خدمات کو بدنام کرنے کے مترادف ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے چند حاسدین معمولی واقعات کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔ واویلا کرنے والوں کو قادری صاحب کایہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان مردود انسان کا ازلی دشمن ہے اور بہترین تعوذ یہ ہے کہ مخالفین کی تحریریں پڑہی ہی نہ جائیں ۔ اور پڑھ لی جائیں تو ان پر یقین نہ کیا جائے ۔

ہفتہ، 24 فروری، 2018

اتھرا جن


تماشہ دیکھنے والوں میں بھی شامل تھا ۔ عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، عامل نے تماشائیوں پر نظر ڈالی اور کہا ْ خونی رشتہ دارباہر جائیںْ اور اپنے عمل میں محو ہو گیا۔ پھر ہم نے کانپتے لہجے میں دھمکی سنی ْ اس کی جان لے لوں گا ْ میں نے دل ہی دل میں عامل کی فراست کی داد دی جس نے ماں کو باہر نکال دیا تھا ورنہ ْ جن ْ کی یہ دھمکی ماں کا کلیجہ ہی چیر دیتی۔آ

ماں کا رشتہ رحمت کا استعارہ ہے۔ پاکستان میں تحریک بحالی عدلیہ، جو عوام نے ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے شروع کر رکھی تھی۔ اس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کی ْ ماں جیسی دھرتی ْ بہت مقبول ہوئی تھی۔ماں کا لفظ ہی ایسا ہے کہ اس پر جوان گرم انسانی خون قربان ہو جاتا ہے۔ اور گھر کی حفاظت کے جذبے کو جوان رکھنے کے لیے ْ دھرتی ماں ْ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

۱۹۷۰ کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو اس پر کفر کے فتووں کے باوجود عوام نے ووٹ روٹی ، کپڑے اور مکان ہی کو دیا تھا کہ انسان کی فطری ضروریات ہیں،۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ خدا سے زیادہ بھوک سے ڈرتے ہیں تو جواب آیا تھا پہلے بھوک ہی ختم کر لو۔

جب بھٹو نے دوبارہ الیکشن جیت لیا تو پاکستان میں ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا کہ یہ تو مطلق العنانی کی طرف جا رہا ہے۔ عامل جو آیا کتاب اس کی بغل میں تھی۔سایہ اتارنے میں دس سال لگ گئے ۔ مگر معاشرہ ایسا تقسیم ہوا کہ ہر مرض نظر آتی بیماری کا علاج کلاشنکوف کی گولی سے ہونا معمول بن گیا۔فتوئے عام ہو گئے اور مسلمانوں میں ڈہونڈ ڈہونڈ کر کافروں کو علیحدہ کیا گیا۔اور عوام کے ذہن میں راسخ کیا گیا کہ کوڑے کا استعمال ہی اصل دین ہے ۔

اندازہ لگایا گیا کہ سایہ ختم ہو گیا ہے لہذبھٹو کی بیٹی کووزیر اعظم تو بنا دیا گیا مگر پتہ چلا انھوں نے خالصتان بنانے والے سکھو ں کی فہرستیں انڈیا کے حوالے کی ہیں۔ اس کی پاکستان سے وابستگی پر طنز کرنے والوں نے اسے اپنے باپ کی چنیدہ اس جگہ کا دورہ کرنے سے روک دیا جہاں ذولفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ۔ البتہ اس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان کے میزائلی دفاع کی مضبوطی میں اس کا کردارکتنا منفرد اور قابل تحسین تھا۔

بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں مضبوط ہوتا دیکھ کر پھر ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا۔ اس بار عامل ایسا لبرل تھا کہ کتے بغل میں دبا کر بلندیوں سے نازل ہوا۔مگر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شہر راولپنڈی ، جہاں ہماری بہادر اور قابل فخر افواج کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں بھی ہمارے بیٹے فوجی وردی پہن کر باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ شہریوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا قابل فخر عمل ٹھہرا۔ ہر وہ کام جس کے عوض ڈالر مل سکتے تھے کیا گیااورمعترضوں کو افواج پاکستان کا دشمن بتایا گیا۔ اپنے محسنوں کو بے عزت کرنا ہمارا شیوہ بن گیا۔ جب ہم ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے شخص کو ٹی وی پر لا رہے تھے ۔ دراصل یہ ہمارے دلوں کی سختی کا اظہار تھا۔ ارادے مضبوط ہونے اور دل سخت ہونے کافرق کوئی لاپتہ افراد کے لواحقین سے بے شک نہ پوچھے عافیہ صدیقی کی بہن ہی سے پوچھ لے۔عاصمہ جہانگیر مرحومہ جب عافیہ کے بیٹے کے دفاع میں آمر کے سامنے کھڑی ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا وہ عورت بے دین، فوج کی دشمن اور بھارت کی ایجنٹ تھی۔ ہمارے بیانئے ایسے ہی تراشے جاتے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ ان پر دل کی گہرائیوں سے ایمان بھی لایا جائے۔اور ایمان لایا جاتا رہا ہے۔

جب عوام نے آصف زرداری کو اعتماد بخشا تو ان کے وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر بے عزت کر کے گھر بھیج دیا۔ ۔البتہ دوسرے شریف اور کارکن راجہ پرویز کو راجہ رینٹل کا خطاب عطا کر دیا گیا۔ نواز شریف کو عوام نے اکثریت سے منتخب کیا۔ الیکشن سے چھ ماہ قبل تمام اعشاریے بتا رہے تھے کہ یہ دوبارہ مقبولیت حاصل کرے گا ۔ ایک بار ظالم ْ جن ْ پھر سایہ بن کر نازل ہوا۔ تین سوارب کی کرپشن تو عدالت میں ثابت نہ ہو سکی ۔ البتہ پتہ چلا پاکستان میں مودی کا یار وہی تو ہے، وطن کا غدار بھی ہے، اور پاکستان کی ۷۰ سال میں سے ۴۰ سال کی محرومیوں کا ذمہ دار وہی ہے۔ اور یہ کہ عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ عوام البتہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ مسترد کنندگان کہا ں بستے ہیں۔ ۳۰۰ ۱ سو مبلغین کی وعظ پر یقین کرنے کرنے کے لیے جب عوم تیار ہی نہیں تو ان کو مومن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

کرپشن کا شور ذولفقار علی بھٹو کے وقت میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کی وزارت کرپشن کا گڑھ بتائی گئی اور ایک کارکن خورشید حسن میر جو وزیر ریلوے تھا پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پورا انجن غائب کر دیا ہے ۔مگر رات گٗی بات گئی۔ آصف زرداری نام کا شخص جس نے وزیر اعظم ہاوس میں ایسے گھوڑے پال رکھے تھے جو صبح جام کھا کر دن کی ابتداء کرتے تھے اور رات کو بادام کھا کر سوتے تھے۔ مگر سورج غروب ہو کر چڑہا تو یہ داستان بھی بھلا دی گئی۔نواز شریف پر تین سو ارب کی کرپشن عدالت میں ثابت نہ ہو سکی تو پنامہ اور اقامہ کو گڈ مڈ کر کے داد طلب کی جاتی ہے۔

عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، مگر ہر بار لازم نہیں ، عامل جن کو قابو کر لے ۔ بعض اوقات جن عامل ہی کو قابو کر لینے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور جو ْ جن ْ یہ کوشش شروع کر دے اس پر ماہرین بتاتے ہیں کوئی ْ عاملْ قابو نہیں پا سکتا۔


جمعہ، 23 فروری، 2018

اپنی زات کا محاسبہ


ہمارا مقصد چونکہ ذہن کے بند دریچے کھولنے کی کوشش ہے اس لیے ہم ذیل میں چند معاشرتی رویوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی ذات کا خود ہی جائزہ لے کے اپنے بارے کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت کر لیں:

کیاآپ سنی سنائی باتوں سے خود متاثر ہوتے ہیں ، افوائیں شوق سے سنتے ہیں اور خوش دلی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اور جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض گپ تھی تو کوئی افسوس نہیں ہوتا اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہْ سب لوگ ہی ایسا کرتے ہیں

کیا آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اسی لیے جھوٹے لوگوں سے نفرت ہے یا اپنا گناہ ہلکا مگر دوسروں کا بھاری نظرآتا ہے

کیا آپ اپنے گھر والوں، عزیز و اقار ب اور دوستوں پر اعتماد کرتے ہیں یا ان کے اقوال و اعمال کوشک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا دوسروں کا آپ کے اقوال و اعمال پر شک کرنا ان کا حق ہے یا یہ رویہ ہی غلط ہے

کیا اس بارے سوچتے ہیں کہ خود، خاندان ، محلہ اور گاوں کیوں پسماندہ ہے۔ کیا سوچنا ، غور کرنا آپ کا کام نہیں ہے اور اگر سوچتے ہیں تو کیا کوئی بھی ایسا عمل نامہ اعمال میں موجود ہے جس کو نکال کر دکھا سکیںیا آپ محض گفتار کے غازی ہیں

کیا اپنے والدین، معاشرے سے شاکی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھر والوں اور معاشرے کو آپ کی سوچ کےمطابق تبدیل ہو جانا چاہیے، مگر آپ خود تبدیل ہونا پسند نہیں کرتے

کیا آپ بڑی شخصیات سے مرعوب ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ لوگ کیسے اور کیوں بڑے ہو گئے ہیں، کہیں بھیڑ چال کا شکار تو نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی ان میں کوئی بڑا پن ہے تو کیا آپ نے ان سے کچھ سیکھا ہے؟

کیا آپ کے خیالات اور اعتقادات کی بنیاد راسخ ہے ، آپ نے اپنا عقیدہ اور نظریہ سوچ سمجھ کر ، چھان پھٹک کر اپنایا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟

آپ نے اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کی پلاننگ کی ہے یا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے، جس راہ پر چل رہے ہیں اس کی منزل کا معلوم نہیں ہے بلکہ میں قافلے کا حصہ ہوں جہاں قافلہ اترے گا ، سب کے ساتھ وہی میری منزل ہے؟

جس معاشی غربت اور معاشرتی پسماندگی کا شکار ہیں کیا آپ نے اب تک اس کو کم کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے اور اب تک اپنی اس کوشش میں کتنے فی صد کامیابی حاصل کر لی ہے ۔ یا اس معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد آپ اور آپ کے خاندان کے معاشی اور معاشرتی حالات خود بخود بدل جائیں گے؟

آپ کے پاس حالات بدلنے کا زبردست پلان موجود ہے مگر اس معاشرے اور اس ملک میں اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے اس لیے آپ پہلے انقلابیوں کے ساتھ مل کر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔آپ کا سیاسی رہنماء آپ کو یقین ہے آپ لیے اپنی جان کی بازی لگا دے گا اورآپ کا یہ یقین اس کی باتیں سن کر نہیں بلکہ اس کا ماضی کا عمل دیکھ کر پختہ ہوا ہے؟

آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں رہنماء معاشرتی تبدیلی کے لیے آپ کی توانائیوں اور مالی مدد کا خواہاں ہے آپ اس کی تنظیم میں متحرک ہیں آپ کی بات سنی جاتی ہے ، آپ اپنی مالی مدد کا حساب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ رہنماوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟

آپ کے دینی رہنماء نے آپ کودین بہتر طور پر سمجھایا ہے، اس کا مطالعہ وسیع ہے وہ راست گو ہمدرد ہے ، اپنے مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک اور دوسرے ادیان کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، خود اس کا اپنا ذریعہ روزگار ہے اور اس نے فقر کو امارت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ آپ جو بھی نذرانہ اس کو پیش کرتے ہیں وہ اس کی ذات اور خاندان پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟

آپ اپنے سیاسی یا مذہبی رہنماء کی مخالفت میں کچھ بھی سننے سے لئیے تیار نہیں ہیں کیونکہ آپ کو اپنی ذات سے زیادہ اپنے رہنماء کی ذات پر یقین ہے کہ وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا�آ

*آپ خود ان سوالوں کے جواب اپنے پاس لکھ کر فیصلہ کریں کہ آ پ دماغ سے سوچتے ہیں یا دل سے ؟
اور یاد رکھیں جو لوگ دل سے سوچتے ہیں ان کی شخصیت کو عقل والے زینہ بنا کر مزید کامیابی کا ایک زینہ طے کر لیتے ہیں

جمعرات، 22 فروری، 2018

ملکیت



لیکچر کیسا تھا
میں نے خاموشی توڑنے کی نیت سے گل محمد سے پوچھا
ْ ْ ْ میں تو خوفزدہ ہوں ْ
کس بات سے
گل محمد کا جواب تھا ْ دین کے پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے پرْ
دراصل پروفیسر صاحب نے اپنے لیکچر میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دنیا کی امامت کے بعد دین کی امامت بھی مغرب کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ انھوں نے قران پاک کی ایک آیت کا ترجمہ کر کے بتایا تھا کہ خدا قادر ہے کہ تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے۔
میں بھی فکر مند تھا ،مگر میری فکر مندی یہ تھی کہ میرے محلے سے بلدیہ والے کچرا نہیں اٹھاتے، کچرے کی بڑہتی مقدار نے گلی سے گذرنا دوبھر کیا ہوا تھا۔محلے کی مسجد سے ہر جمعے والے دن صفائی پر وعظ دیا جاتا تھا۔ محلہ کمیٹی کے ماہانہ اجلاس میں گلی میں کچرا پھینکنے والوں پر طعنے کسے جاتے تھے اور بات ذاتیات تک پہنچ کر جھگڑے بن جاتے تھے ایک بار معاملہ تھانے تک بھی گیا۔ مگر محلے سے کچرا کم نہ ہوا۔
گل محمد بولا ْ ایک بات بتائیں ْ
پوچھو
ْ ہر اچھا آدمی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم پر اثر کیوں نہیں ہوتا ْ
اسلئے کہ ہماری زبا ن ۔۔۔ میں کہنا چاہتا تھا ْ نصیحت کرنا جانتی ہے مگر ہاتھ عمل کرنے سے عاری ہیں ْ مگر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے وہیں ایک فیصلہ کیاتھا
گھر پہنچ کر ، ایک آٹے والی خالی بوری لی اور اپنے گھر کے سامنے سے کچرا چننے کی ابتداء کی ، بوری ابھی بھری نہ تھی کہ مولوی صاحب بڑا سا شاپنگ بیگ لے کر میرے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریشی صاحب بھی آگئے۔دیکھتے دیکھتے نوجوان بھی شامل ہو گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے محلہ صاف ستھرا ہو گیا۔ نعمان صاحب اپنی پک لے آئے ۔ ۵ بوریاں، ۶ کاٹن، ۱۵ شاپرکو ہم نے پک اپ میں رکھ کر محلے سے کچرا نکالا۔اس سارے عمل میں گل محمد میرے ساتھ تھا
دوسرے دن دفتر میں اس نے مجھ سے کہا ۔ ْ کل مجھے ایک سبق ملا ہے ْ
کیا
ْ ْ اگر سارے ملک کے محلے دار اپنے محلوں کو صاف کرنے کا ارادہ کر لیں تو ایک گھنٹے میں پورا ملک صاف ستھرا ہو سکتا ہے ْ
اصل بات یہ ہے جب تک ہم اپنے محلے ، شہر ، اداروں ملک، نظریات ، اعتقادات کی ملکیت اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے پروفیسر، ماہرین، علماء ، لبرلز ، اور دوسرے ڈرانے والے ہمیں ڈراتے رہیں گے۔

منگل، 20 فروری، 2018

علماء دین کے نام

علماء دین کے نام

پاکستان کے علماء کرام کی طرف سے ایک اخباری بیان جاری ہوا ہے جس میں لاہور میں پڑہے گئے ایک مخلوط جنازے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اورفرمایا گیا ہے ْ ہم نے شرعی مسٗلہ کی وضاعت کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ایک واقعہ ہوا ہے تو کل کوئی اسے بطور نظیر پیش نہ کرے کہ علماء نے کوئی گرفت نہیں کی تھی ْ ۔ آپ کے اس وضاحتی بیان کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے تشہیر کے قابل ہی نہ سمجھا اور سوشل میڈیا پر آپ کی نمائندگی ہے بھی تو عالمانہ کی بجائے جذباتی۔ یہ وضاحتی بیان بھی پاپولر علمی سوچ کو روکنے میں بے بسی کا مظہر ہے۔ 
ہم مسجد کے ممبر پر بیٹھے واعظ سے سنتے ہیں کہ دین میں اختلافات کو دردمندی سے اجاگر کرنا منع نہیں ہے ۔ اگر یہ بیانیہ درست ہے تو :
آئیے آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں۔ کہ امریکہ میں قائم ہونے والامسلمانوں کاایک ادارہ مسلمان عورتوں کے حقوق کے دفاع کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس کی اعتقادی بنیاد قران پاک ہے ، قرآنی دلائل سے لیس ہے، اس کو چلانے والے مسلمان ہیں جو فکری غذا محترمہ امینہ داود کی تصنیف سے حاصل کرتے ہیں۔امینہ داود، عیسائی والدین کے گھر پید ا ہونے کے باوجود یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران
1972
میں مسلمان ہو گئیں تھی ۔انھوں نے اسلامی تعلیمات میں
1988
میں امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی۔پھر قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی سے عربی کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ القاہرہ سے قرآنی تعلیمات اور تفسیر کی ڈگری لی اور جامعہ الازہر سے فلسفہ میں ڈگری حاص کی۔ان کی دو کتابیں شائع ہوئیں ، موجودہ دور میں وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے
1994
میں افریقہ کے شہر کیپ ٹاون میں جمعہ کا خطبہ دیا اور جماعت کی امامت کرائی اور اپنے اس عمل کی دلیل قرآان سے لائی۔اس عمل کی با دلیل مخالفت کسی مسلمان عالم کی طرف سے سامنے نہ آئی تو عام مسلمان نے خاموشی کو رضامندی پر محمول کیا۔ بیج کو پودہ بننے کے لیے وقت ۔ موافق ماحول کے ساتھ ساتھ نگہداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں نہ تو اس عمل کی مذمت کی گئی نہ موافق حالات میں رخنہ ڈالا گیا، مالی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے گلستان سے خود رو ضرر ساں بوٹیاں تلف کرے ۔ چوبیس سال بعد جنوری 
2018
میں بھارت کی ریاست کیرالہ میں ملامپور کی ایک جامع مسجد میں جمیتھا نامی خاتوں ، جو وندور کی قرآن سنت سوسائٹی کی سیکرٹری ہیں، نے جمعہ کا خطبہ دیا اور مرد وزن کی مخلوط جماعت کی امامت بھی کرائی۔ اور بھارت کے ایک مشہور بین الاقوامی اخبار کو انٹر ویو میں اپنے اس عمل کو قرآنی تعلیمات کے مطابق بتایا۔۔ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں مریم مسجد د ہے جہاں ابتدائی امام دو خواتین محترمہ شیریں خانقان اور صلیحہ مریم فتیح تھیں مگر کسی نے مخالفانہ آواز تک نہیں سنی۔اس دوران 
1998
میں جنوبی افریقہ میں خواتین کے حقوق کی شہرت یافتہ شمیمہ شیخ کا جنازہ ایک خاتون نے ہی پڑہایا تھا۔
2005
میں فرحانہ اسماعیل نامی خاتوں نے نکاح پڑہایا اور نکاح کا خطبہ بھی دیا۔حقائق سے لبریز پوٹلی میں سے یہ محض چند دانے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے جو پانی بہہ گیا ہے اسکو واپس لانا ممکن نہیں ہے ۔مگر آنے والے سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ محمدمیں اعلان ہے ْ اللہ تمھارے بدلے ایک دوسری قوم کھڑی کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہ ہوں گے ْ کویت میں مقیم جہاندیدہ پاکستانی بزرگ،صاحب کرامت دینی مبلغ اور انسانیت کے عظیم مصلح جناب شیخ عبدالباسط صاحب اطول اللہ عمرہ ( آج کل علیل ہیں) اپنی نجی محفلوں میں فرمایا کرتے ہیں کہ علماء کو چاہیے کہ دین کو ذاتی ملکیت جان کر اس کے دفاع کے لیے کمر بستہ رہا کریں۔ راہگیر اسی مکان کی دیوار سے اینٹیں نکالنے کی جسارت کرتے ہیں جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو۔آپ کے جاری کردہ اخباری بیان میں ْ احساس ملکیت ْ کا فقدان نمایاں ہے ۔ امت کے ایک عرب پچھتر کروڑ مسلمان جو دینی رہنمائی کے لیے علوم نبوت کے وارثین کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ کے اعتراف برئت پر حیران نہیں پریشان ہیں

تحریر: دلپذیر احمد

ہمارے دشمن


پاکستان کے صوبہ پنجاب کی عدالتوں میں گذشتہ بتیس سال سے ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ راولپنڈی کے گنجان آباد شہری علاقے میں موجود یہ متنازع پلاٹ جس کی مارکیٹ ویلیو کروڑوں میں ہے کبھی زمین کا ایک کم قیمت ٹکڑا تھا۔مقدمہ بازی کے دوران فریقین کے ہمدردوں نے کئی بار کوشش کی کہ اس تنازعہ کا فیصلہ بات چیت کے ذریعے عدالت سے باہر ہی کر لیا جائے مگر ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ کل رات آخری جرگہ بڑی امید کے ساتھ بیٹھا اور بد دل ہو کر اٹھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے اس ٹکڑے کے ساتھ فریقین کا لگاو بڑہتا جا رہا ہے۔لوگوں کا کہنا تھا جرگے کے ناکام ہونے میں پلاٹ کا قیمتی ہونا بنیادی عنصر ہے۔کچھ کا خیال ہے قیمت پر ضد غالب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں فریقین کا وقار بنیادی سبب ہے۔گل محمد پہلی بار جرگے میں موجود تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ فریقین کی اس زمین کے ٹکڑے پر سرمایہ کاری کی مقدار اتنی زیادہ ہے ۔۔ ْ کیا سرمایہ کاری ہے میں نے قانونی دستاویز دیکھی تھی پلاٹ کی ادا شدہ قیمت صر ف پچیس ہزار ہے ْ میں نے گل محمد کو ٹوک دیا تو اس کا کہنا تھا ْ سرمایہ کاری میں قیمت کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے اخراجات،دو نسلوں کی دوڑ دھوپ اور انا کی قیمت بھی شامل کر لیں ْ تبلیغی جماعت کے رضاکار گل محمد نے بات جاری رکھی ْ جس چیز پر جتنا زیادہ جان وقت اور مال خرچ ہو وہ اتنی ہی زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے ْ گل محمدنے چھوٹے سے جملے میں کتنی بڑی حقیقت کو سمو دیا تھا۔ جان، وقت اور مال
آزادی وطن کے وقت جانوں کی قربانی میں بخل سے کام نہیں لیا گیا تھا، ستر سال کا وقت بھی کم نہیں ہے البتہ مال والا چلہ پورا ہونا باقی ہے۔ جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو اکثر ناقدین وطن کو ٹیکس چور ہی پاتا ہوں ۔کیا یہی ہمارے حقیقی دشمن ہیں؟

اتوار، 18 فروری، 2018

لیکچر



لیکچر کیسا تھا 
میں نے خاموشی توڑنے کی نیت سے گل محمد سے پوچھا
ْ ْ ْ میں تو خوفزدہ ہوں ْ 
کس بات سے 
ْ دین کے پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے پرْ 
دراصل پروفیسر صاحب نے اپنے لیکچر میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دنیا کی امامت کے بعد دین کی امامت بھی مغرب کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ انھوں نے قران پاک کی ایک آیت کا ترجمہ کر کے بتایا تھا کہ خدا قادر ہے کہ تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے۔
میں بھی فکر مند تھا ،مگر میری فکر مندی یہ تھی کہ میرے محلے سے بلدیہ والے کچرا نہیں اٹھاتے، کچرے کی بڑہتی مقدار نے گلی سے گذرنا دوبھر کیا ہوا تھا۔محلے کی مسجد سے ہر جمعے والے دن صفائی پر وعظ دیا جاتا تھا۔ محلہ کمیٹی کے ماہانہ اجلاس میں گلی میں کچرا پھینکنے والوں پر طعنے کسے جاتے تھے اور بات ذاتیات تک پہنچ کر جھگڑے بن جاتے تھے ایک بار معاملہ تھانے تک بھی گیا۔ مگر محلے سے کچرا کم نہ ہوا۔
ْ ایک بات بتائیں ْ 
پوچھو
ْ ہر اچھا آدمی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم پر اثر کیوں نہیں ہوتا ْ 
اسلئے کہ ہماری زبا ن ۔۔۔ 
میں کہنا چاہتا تھا ْ نصیحت کرنا جانتی ہے مگر ہاتھ عمل کرنے سے عاری ہیں ْ مگر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے وہیں ایک فیصلہ کیاتھا
گھر پہنچ کر ، ایک آٹے والی خالی بوری لی اور اپنے گھر کے سامنے سے کچرا چننے کی ابتداء کی ، بوری ابھی بھری نہ تھی کہ مولوی صاحب بڑا سا شاپنگ بیگ لے کر میرے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریشی صاحب بھی آگئے۔دیکھتے دیکھتے نوجوان بھی شامل ہو گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے محلہ صاف ستھرا ہو گیا۔ نعمان صاحب اپنی پک لے آئے ۔ 5 بوریاں، 8 کاٹن، 16 شاپرکو ہم نے پک اپ میں رکھ کر محلے سے کچرا نکالا۔اس سارے عمل میں گل محمد میرے ساتھ تھا
دوسرے دن دفتر میں اس نے مجھ سے کہا ۔ ْ کل مجھے ایک سبق ملا ہے ْ 
کیا
ْ ْ اگر سارے ملک کے محلے دار اپنے محلوں کو صاف کرنے کا ارادہ کر لیں تو ایک گھنٹے میں پورا ملک صاف ستھرا ہو سکتا ہے ْ 
اصل بات یہ ہے جب تک ہم اپنے محلے ، شہر ، اداروں ملک، نظریات ، اعتقادات کی ملکیت اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے پروفیسر، ماہرین، علماء ، لبرلز ، اور دوسرے ڈرانے والے ہمیں ڈراتے رہیں گے۔

خواہشات کے خریدار

                         

خواہشات کے خریدار
سوٹزرلینڈ میں ایک پراپرٹی ایجنٹ نے رہائشی ولا اپنے عرب شیخ گاہک کے لیے خریدا تو شیخ نے بغیر مکان دیکھے اس کی قیمت آٹھ ملن سوئس فرانک اس کو ادا کر دئے۔ ایجنٹ کو معلوم تھا کہ شیخ نے یہ سرمایہ کاری کی ہے اور جب بھی اس کو معقول منافع ملا وہ فروخت کر دے گا۔ کچھ عرصہ بعد ایجنٹ نے شیخ کو بتایا کہ اس کے مکان کا گاہک لگ گیا ہے جو
74.4 Million
میں اس کا مکان خریدنے پر راضی ہے ، وہ گاہک روسی ریاستوں میں سے ایک سابقہ صدر کی بیٹی تھی۔ ایجنٹ کا کہنا تھا کہ اس کے پاس جو خریدار آتے ہیں ان کو اصل قیمت کے آگے مزید ایک صفر لگانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ وہ خواہشات کے خریدار ہوتے ہیں ۔
خواہشات کے خریدار پاکستان میں بہت ہیں ، اسلا�آباد کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں ایک مکان برائے فروخت تھا۔ایک آدمی آیا ۔ مکان کو اندر باہر سے دیکھا ، قیمت دریافت کی ، چوکیدار نے بتایا کہ وہ تو ملازم ہے قیمت مالکان ہی بتا سکتے ہیں ۔ خریدار نے نوٹوں کا ایک بنڈل چوکیدار کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی قیمت ہو یہ رقم بیعانہ ہے مکان کسی دوسرے کو فروخت نہ کرنا۔
ایسے خریدار سرمایہ کار کہلاتے ہیںیا پھر سرمایہ دار ، یہ سرمایہ محنت سے کمانا ممکن ہیں ہوتا ۔سرمایہ دار گئے وقتوں میں تجارت کیا کرتے تھے، صنعت لگاتے تھے مگر موجودہ دور محفوظ سرمایہ کاری کا دور ہے وہ اپنا سرمایہ صرف ایسے منصوبوں میں لگاتے ہیں جہاں نقصان کا اندیشہ بالکل بھی نہ ہو اور منافع اور اصل کسی قسم کے ٹیکس سے بھی محفوظ رہے۔ اور یہ خدمات بجا لانے کے لیے ہر جگہ ایسے ادارے موجود ہیں جو سرمایہ دار کے سرمائے کو محفوظ بنانے کے قانونی گر جانتے ہیں۔

ٹیکس ، وہ بنیادی رقم ہوتی ہے جواکٹھا کر کے مقامی حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بناتی اور مکمل کرتی ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس دھندگان کے اعداد و شمار سے مانوس لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہاں امیر ٹیکس تو ادا نہیں کرتا مگر غریبوں کے لیے بنائی گئی کسی بھی سکیم سے مستفید ہونے کے لیے پیش پیش ہوتا ہے۔ ریکارڈ پر ہے کہ حکومت نے یلو کیب کے نام سے غریبوں کے لیے جو سکیم شروع کی تھی اس سے استفادہ کرنے والوں میں کراچی کی ایک مشہور امیر شخصیت بھی تھیں ۔ اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک ہر پاکستانی کا حق تھا۔
پاکستان میں ٹیکس وہی ادا کرتے ہیں جو ادا کرنے پر مجبور کر دئے جاتے ہیں مثال کے طور ملازمین جن کے ٹیکس ان کی تنخواہوں میں سے کٹ جاتے ہیں، یا وہ خریدار جو خریداری کے وقت مال کی قیمت کے طور پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارا ٹیکس کاقانونی نظام ناقص ہے کہ اس نظام کو درست کرنے کے لیے جو سیاسی عزم درکار ہے وہ ناپید ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حکمران یا تو خود اس طبقے کا حصہ ہے یا پھر اس کا ایجنٹ ہے۔روزمرہ کے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے حالات ہمیں چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہاں اکثر خواہشات کے خریدار ہیں

جمعرات، 15 فروری، 2018

مشینی ذہانت


ماں ہمدرد ہوتی ہے ، بغیر دلیل اور سبب کے، ہمدردی ہوتی ہی بے دلیل ہے ۔ دلیل سے جوحاصل ہوتا ہے اس کو قائل ہونا کہا جاتا ہے۔ قائل بھی صرف وہی ہوتے ہیں جو دلیل کی حقانیت کو قلب سلیم سے مان لیں۔ ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے ، لوگ بھی ایسے ہی لوگوں کے سامنے دلیل رکھتے ہیں جن کے بارے ان کو پتہ ہو کہ وہ مانے یا نہ مانے کم ازکم سن تو لے گا۔ سفارت کاری میں دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو بھی سنا جاتا ہے بلکہ دشمنوں کو زیادہ توجہ سے سنا جاتاہے۔دلیل کا اپنا ایک حجم ہوتا ہے ، جیسے پتھر کا۔ اور انسانی دماغ ایسے مکان میں ہے جس کی کان، ناک کی طرح کئی کھڑکیاں ہیں۔کھڑکیوں میں شیشے کے در ہونا عام سی بات ہے۔دلیل کو مان لینے والوں کو عقلمند کہا جاتا ہے۔ کیا دلیل کو نہ ماننے والے احمق ہوتے ہیں۔ 
یہ سوال سب سے پہلے میں نے میرے سامنے بیٹھے پانچ سالہ پوتے سے پوچھا جو تین جماعتیں پاس کر کے پہلی جماعت میں پہنچا ہے۔ پہلے تو اس کو احمق کی سمجھ نہ آئی مگر جلد سمجھ گیا اور جواب بھی جلد دے دیا جو ْ نہ ْ میں تھا۔ مجھے حیرت تو ہوئی اور وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا ، عقلمند وہ ہوتا ہے جو فیکٹ پر فیصلہ کرے ، یہ کس نے بتایا ہے ْ گوگل نے ْ ۔ 
یہ سوال میں نے اس کی ماں سے پوچھا۔ اس کا جواب ْ ہاں ْ میں تھا اسکا کہنا تھا وہ اپنے خاوند کو قائل کر چکی ہے کہ پرانی گاڑی بیچ کر نئی لینا کتنا فائدہ مند ہے مگر وہ دلیل کے باوجود نہیں مان رہا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو یہ سوال مولوی صاحب کے سامنے رکھا ۔ ْ یہ سوال اتنا سادہ نہیں ہے کہ آپ کو ہاں یا نہ میں جواب دے دوں، کس موضوع میں دلیل دینا چاہتے ہیں ْ انھون نے استفسار کیا ۔ ْ عام اصول کی بات کر رہا ہوں ْ عام طور پر یہ بات ٹھیک ہے ۔یعنی ان کا جواب ہا ں میں تھا۔رات کھانے کے بعد میں نے یہ سوال اپنے بیٹے کے سامنے رکھا ۔ اس نے حیرت سے میرا منہ دیکھا ْ ابو پلاٹ والا مقدمہْ ۔۔۔ میں سمجھ گیا اس کا جواب نہیں میں ہے۔ صبح دفتر گیا، فاضلی صاحب میرا انتظار ہی کر رہے تھے انھیں میرے ساتھ جا کر ایک ادارے مکے ملازمین کے سامنے لیکچر دینا تھا ۔ راستے میں یہ سوال ان کے سامنے رکھا ۔ ان کا فوری جواب ہا ں میں تھا ۔ جب میں نے وجہ پوچھی انھوں نے بہت ساریے کتابی حوالے دیے اور کئی عقلمندوں کے قول دہرائے دوران گفتگو میں نے محسوس کیا ، وہ اپنی ہاں پر اب مصر نہیں ہیں تو میں نے انھیں اپنے پوتے کا کا جواب اور گوگل کے حوالہ انھیں بتایا ۔فاضلی صاحب نے مسکرا کر کہا ۔ دلیل کا اپنا مقام ہے جو ہمارے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے مگر مشینی ذہانت انسان کی نسبت زیادہ حقیقت پسند ہے

بدھ، 14 فروری، 2018

حیدر فاروق مودودی


حیدر فاروق مودودی صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مودودی کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
ہر بیٹے کے نام کا دوسرا حصہ " فاروق" ہے۔
محمد فاروق ، احمد فاروق ، ، عمر فاروق ، حسین فاروق ، حیدر فاروق اور خالد فاروق۔
مجھے حافظ وحید اللہ صاحب مرحوم ( سکھر ) نے بتایا کہ مولانا مودودی نے اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور وہ ان کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔

حافظ وحید اللہ صاحب اتالیق مقرر کیے گئے۔ بد قسمتی سے ابتداء میں ان کی اہلیہ کی طرف سے بچوں کی بے جا تائید کی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے تربیتی ڈسپلن پر اثر پڑتا تھا۔
(بہت بعد میں وہ جماعت کی رکن بنیں ، درس قرآن دینے لگیں۔ اللہ مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔)۔


مولانا کے بیٹوں میں " حیدر " صاحب ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں ، بلکہ خود بھائیوں اور بہنوں میں بھی متنازعہ۔ سبھی بھائی بہن ان کے لبرل خیالات ، ان کے عقائد اور ان کی بدعات سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔
وہ بھارتی چینل پر بھی الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے ہیں۔

سب سے چھوٹے خالد فاروق صاحب کو ہم فجر و عشاء کی نماز میں خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

مولانا کے پانچ بیٹوں نے ( بجز حیدر صاحب ) نے آبائی مکان کو اکیڈمی SAMA کے لیے وقف کردیا ہے ، جہاں سے بہت سے طلبہ فیض اٹھا رہے ہیں۔
مولانا کی بیٹی نے مولانا کے مکان سے متصل اپنی زمین وقف کرکے " مسجد الاعلیٰ " کی تعمیر کی۔


حیدر فاروق صاحب ، عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے ادارے میں عرصے تک بھاری معاوضے پر کام کرتے رہے ہیں۔
چنانچہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی نماز جنازہ انہوں نے پڑھائی۔ ۔مرد و خواتین ایک ہی صف میں کھڑے تھے شانہ بہ شانہ۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
کند ہر جنس باجنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
اللہ ہر اس شخص کی مغفرت فرمائے ، جس کی موت ایمان پر ہوئی ہو ، اور ہم سب کو موت سے پہلے سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


خلیل الرحمٰن چشتی
13 فروری 2018ء

منگل، 13 فروری، 2018

کاغز کا ٹکڑا


مرسلین نے یہ خط اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر مہمانوں کو پڑھ کر سنایا،  اس کی بیگم نے خط لکھنے 
والے کا قصیدہ پڑھامگر اصل بات یہ ہے کہ الفاظ قیمتی تب ہی بنتے ہیں جب ان پر عمل کیا جائے، عام سے الفاظ پر عمل کر کے انھین قیمتی بنایا جا سکتا ہے اور خاص الفاظ پر عمل نہ کر کے انھیں ارزان کر دینا مشکل کام نہیں ہے
   ***********************                             

پیارے مرسلیں

سلامت رہو۔ امید ہے میرا یہ خط ملنے تک تم رشتہ ازدواج میں بندھ چکے ہو گئے۔ تم اچھے معاشرے میں جا 
بسے ہو جہاں شادی کا ساتھی ڈہونڈنے میں تمھارے بڑے مدد گار رہتے ہیں بلکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی بڑے اس رشتے کی کامیابی میں معاونت کرتے ہیں۔ تمھاری فرمائش کو پورا کرتے ہوئے چند باتین لکھ رہا ہوں لیکن انسانی رویے لکیر نہیں ہوتے کہ ہر شخص اس پر چل کر کامیاب ہو البتہ میرے اس خط کے مندرجات میں سے تم کامیابی ڈہونڈ سکتے ہو۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب میں پاکستان میں تھا تو میں نے تمھیں امام غزالی کی ایک کتاب تحفہ دی تھی ، اگر پڑھ لی ہے تو ٹھیک ورنہ اس کتاب میں یہ جملہ ضرور ڈھونڈ کر پڑہنا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ نومولود بچہ اتنی عمر تک والدین کے لئے کھلونا ہے، پھر اتنی عمر تک والدین کا خادم ہے اور اتنی عمر کے بعد دشمن ہے۔ جب تم مطلوبہ عبارت ڈھونڈ کر پڑھ لو ۔ تو پھر سوچنا کہ انھوں نے اولاد کو ایک خاص عمر کے بعدوالدین کا دشمن اس لیے کہا ہے کہ اب وہ ایک شخصیت ہے۔ شخصیت کی اپنی ذات ، دماغ اور سوچ کا انداز ہوتا ہے ۔ تمھاری شادی کے بعد ایک شخصیت تمھاری ذات کا حصہ بن چکی ہے۔ جو اپنے دماغ سے سوچتی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی اس صفت کی مذمت نہ کرنا۔ انسان پسند کرتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے۔ اچھا خاوند اچھا سامع بھی ہوتا ہے۔لازمی نہیں تم جو کچھ سنو وہ درست ہو اختلاف کرنا تمھارا حق ہے ، اپنے ساتھی کو بھی اس حق سے محروم نہ کرنا۔ شادی محبت کا کھیل ہے اور اس کھیل کے دوران محبت بھری زبان ہی مناسب ہے۔ جب انسان قبول کا کلمہ زبان سے ادا کر دیتا ہے تو اس کو زندگی کی خوبصورتیوں کے ساتھ کچھ بد صورتیوں کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے، تمھیں یاد ہے ایک بار اسلام آباد میں ایک گلاب کا پھول توڑتے ہوئے تمھاری انگلی سے بہت خون بہا تھا اور میں نے اپنا رومال پھاڑ کر باندھا تھا۔ یہ واقعہ یاد کراکربتا رہاہوں کہ خوبصورت پھولوں کے ساتھ جو کانٹے ہوتے ہیں ان کے ساتھ نہیں الجھنا چاہئے ۔تم نے جو پھول چناہے اس کے ساتھ کانٹے بھی ہوں گے۔ خود کو خو ن آلود کرنا نہ اپنے ساتھی کو ۔ یہ ایک ذمہ داری ہے دوسری بہت سی ذمہ داریوں کی طرح۔یہ بھی یاد رکھنا تمھار ی زوج بیوی کسی کے جگر کا ٹکڑا ہے اور دوسروں کے جگر کے ٹکڑے کو ارزان نہ سمجھ لینا کہ انسان کی فطرت ہے کہ ساتھی کے حصول میں محنت ، وقت اور پیسہ نہ لگے اس کو ارزاں سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے اپنے قول سے عمل سے اسے یہ احساس دلاتے رہنا کہ وہ ایک ایسی قیمتی ہستی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے تم نے ایک امیر ملک میں بہت سی آسائشوں کو ترک کرنے کی قربانی دی ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں یہ قربانی دراصل تمھاری ماں کی ہے ۔ رشتے نبھانے کے لیے تمھاری ماں کا رویہ تمھارے لیے راہ کی روشنی ثابت ہو سکتاہے۔تمھارا باپ اکثر کہا کرتاتھا اچھے الفاط اور میٹھا لہجہ اللہ کی نعمت ہوتی ہے ۔ اپنے مرحوم باپ کے کہے پر عمل کرو گے تو رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو گئے ۔ محبت بھرے الفاظ مرد اور عورت دونوں کو فرحت دیتے ہیں۔ تم اپنے ساتھی کے لیے فرحت بنوگے تو بدلے میں وہ کچھ پا سکتے ہو جس کو الفاظ کا روپ دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا میں قریب ترین رشتہ اور دوستیوں میں قابل یقین دوستی مرد اور عورت کے اسی رشتہ میں ہے۔ میں نے اللہ کا فرمان پڑھا ہے اللہ ان لوگوں کی مذمت فرماتا ہے جو بیوی خاوند کے رشتے میں رخنے ڈالتے ہیں۔ تم اس رشتے میں رخنہ ڈالنے سے بچ جانا۔اور اس کا طریقہ نرمی اختیار کرنا ہے۔نرمی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسا مطالبہ نہ کرنا جو پورا کرنا اس کے بس میں نہ ہواور دھمکی دینے سے بھی بچ کے رہنا اور یاد رکھنا عورت کو دہمکی دینا مرد کے وقار کے خلاف ہے۔ البتہ اختلاف کے بعد محبت کی مقدار میں اضافہ دھمکی سے کئی گنا کارگر ہوتا ہے۔زوج کا رشتہ سب دوستیوں اور اکثررشتوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے اپنی زوج کو تمام دوستیوں اور اکثر رشتوں پر ترجیح دینا۔ اپنا راز اس کو دینے میں خوف محسوس نہ کرنا اور اس کے رازوں کا امین بننا۔یاد رکھنا تمھاری زوج تمھارے تحفوں کی حقدار ہے۔ اگروہ تجھے کوئی تحفہ دے تو اس کو قیمتی بتانا اور اس کا اظہار کرنا۔جب اللہ اور اس کے رسول نے اس رشتے کو ایک دوسرے کا لباس کہہ دیا تو اس آزادی سے لطف اندوز ہونا دونوں کا حق ہے مگر اپنی راتوں کو اپنے درمیان محبت اور اعتماد کے بڑہانے کا ذریعہ بنانا۔ اور میٹھی نیند کے بعد صبح کا آغاز ایسے لفظوں اور لہجے سے کرنا جو سارا دن خود تجھے اور تیری زوج کو خوش رکھے۔تم دونوں کا ایک دوسرے کے جسم پر حق ہے اور اتنا اہم ہے کہ شادی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔تنہائی کے لمحات میں شرارت ازدواجی تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔ میرے دوست کے بیٹے تم اپنی زوج کے لیے اسانیاں پیدا کرنے والا بننا ۔ عورت کے رستے سے کانٹے چننے والے زوج پر عورت سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کی طرف اپنا دست تعاون دراز رکھنا ۔ اس کے رشتے داروں کو بہت عزت دینا۔ اس کی خوشی میں قہقہ لگا کر اس کا ساتھ دینا مگر جب اس کی آنکھوں میں آنسوں ہو تو اپنا کندھا پیش کرنا کہ وہ اس پر سر رکھ کر آنسو بہا سکے۔اور اپنی زوج سے محبت پر شرمندہ نہ ہونا ،اس پر اعتماد کرنا ۔ ہفتے بعد دونو ں بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو یاد کرو اس پر ہنسو ایک دوسرے سے معذرت کرو۔ اور زندگی کو رنگین بناو۔ یاد رکھنا رنگوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے سکون لازمی ہے ۔ مرد کو قوی بنایا گیا ہے ، اس کا مطلب ہے وہ برداشت کرنے اور ایثار کرنے میں اپنی اس صفت سے مدد لے۔تمھاری والدہ کا ٹکٹ بھجوا دیا ہے ۔ روانگی کی تاریخ سے بر وقت مطلع کر دیاتمھار پچھلا خط ساتویں دن موصول ہواہے ۔ حالانکہ ہوائی ڈاک کے ٹکٹ لگانے کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ خط تیسرے دن پہنچے گا ۔ یہ بھی اچھا ہے ورنہ ایک وقت تھا پاکستان سے چلا ہوا خط اکیسویں دن پہنچا کرتا تھا۔ اگر ہو سکے تو والدہ کی رونگی کا دن طے ہو جاے تو مجھے فون کر لینا تاکہ میں بر وقت انھیں ہوائی اڈے سے لے سکوں ۔ خط لمبا ہو گیا ہے ۔میں نے ابھی وجاہت صاحب کو بھی خط لکھا ہے ۔ سب ملنے والوں کو سلام کہنا ۔ تیرے لئے اور تیرے خاندان اور رشتے داروں کے لیے دعا گو ہوں اپنی والدہ کی خدمت میں دعاوں کی درخواست کرنا ۔
والسلام
دلپذیر 
16-2-1984


عاصمہ جہانگیر

                                     
انسان کی عوام میں ایک پہچان ہوتی ہے۔عاصمہ جہانگیر کی پہچان انسانی حقوق کی نگہبانی تھی ، وہ اول و آخر انسانیت کی داعی تھی ۔ منافقانہ معاشرے میں وہ دور سے پہچانی جاتی تھی۔ وہ ایک عورت تھی۔مگر جرات مند و بے باک و انسان دوست اور اپنی ذات میں ایک ادارہ،

پاکستان میں نامور اور بے مثال ہستیاں پیدا ہوتی ہیں مگر پہلے سے موجود نامور اور بے مثال ان کی ذ ہنی بلوغیت سے قبل ہی ان پر سحر پھونک دیتے ہیں۔ اس سحر سے محفوظ رہ جانے والی اپنی طبیعت کے لحاظ سے عاصمہ جہانگیر تیسری عورت تھی جو مردوں پر بازی لے گئیں۔ پہلی دو کے نام محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔امن انصاف جمہوریت انسانیت دوستی عاصمہ کی مٹی میں ، تو بے باکی اور جرات اس کے خمیر میں شامل تھی۔اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بلا جھجک عدالت کے روبرو اپنے باپ کے لئے انصاف مانگنے کھڑی ہو گی۔سچ پر ڈٹ جانا اس کو ورثے میں ملا تھا۔ پہاڑ کی طرح اپنے موقتف پر جم جانا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کھڑے ہونے کی جگہ کی مضبوطی کا احساس ہواور یہ مضبوطی سچ ہی مہیا کر سکتا ہے۔وہ سچی تھی، اس کوغلامی کی زنجیروں سے نفرت تھی ۔ تنقید کی حامی تھی اور سول حکمرانی کی داعی ۔ اس کی تنقید مگراصولی اور قانونی ہوا کرتی تھی۔
بیمار معاشرہ جہاں مرد بھی زنانہ سوچ والی زندگی گذارنے میں عافیت پاتے ہیں وہاں مردانہ سوچ اور طور طریقوں پر زندگی گزارنے والی عاصمہ نے انسانی حقوق کی نگہبانی کا بیڑا اٹھایا تو مذمت کرنے والوں کی مذمت کی پرواہ نہ کی ۔ملک دشمن اوردین دشمن جیسے بڑے الزام سہہ لئے مگر انسانی حقوق کی نگہبانی کو نبھایا۔اس میدان میں اس کی کامیابیوں کا اندازہ اس کی موت پر ماتم کنان لوگ اور دنیا بھر سے ماتمی پرسوں سے لگانا مشکل نہیں ہے۔ لوگ مادی ترقی کے لئے اور ترقی یافتہ ممالک کے پاسپورٹ کے مشتاق ہوتے ہیں مگر تلخ لہجے میں بات کرنے والی عاصمہ نے جینیوا کے ٹھنڈے موسموں کی آسائشوں میں پناہ نہ لی۔وہ غاصب کا تیوری چڑہا کر ذکر تی تھی،اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پروردہ سیاسی اور دینی بونوں پر ساری عمر خفا ہی رہیں۔بقول یاسر الیاس :
گستاخ لگی نہ غدار لگی ہاں تھوڑی سی بیدار لگی 
مردوں کے اس ریوڑ میں اک عورت ہی جی دار لگی
اس کی جرات کا امتحان ۱۹۸۳ میں ہی نظر بندی سے شروع کر دیا گیا تھا۔ کوٹ لکھپت کی جیل میں آمرکی عدالت میں رعیت ہونے کا سلیقہ سکھا نے کی پوری سعی کی گئی مگر وہ سخت جان ثابت ہوئی۔لاہور کی مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں بھی اس کے عزم کو نہ توڑ سکیں تو آمر کی مجلس شوریٰ میں توہین مذہب کی آڑ میں اس کا سر جھکانے کی کوشش نے ثابت کر دیا کہ اس سر کو جھکانا نا ممکن ہے ۔اس نے لاہور میں میراتھن ریس کا انتطام کیا تو لوگوں کویقین ہو گیا ، یہ عورت ناقابل اصلاح ہے ۔ مگر کوشش جاری رہی اوراس کو سڑک پر گھسیٹا گیا تھا۔ مگر وہ آزادی پر سمجھوتے نہ کر سکنے پر اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور تھی۔
ظلم و جبر ، لاقانونت و بے امنی اور تشددو نفرت کے رویوں کے خلاف اس آزاد عورت کے کاموں کی مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہیں۔ْ اصولی اختلاف پر پتہ صاف اور چار حرف بر انصاف ْ ایسی سوچ ہے کہ اس کوجبر کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی میں پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے اورخود عاصمہ کا بڑا حصہ ہے۔ اسلام آباد میں پشتونوں کا لانگ مارچ اسی سوچ کی مخالفت میں دھرنا دے کر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کی حمائت بطور انسانی حقوق کی محافظہ عاصمہ جہانگیر نے کی، اور وہاں علامتی شرکت کی۔جب ایبٹ اباد میں اسامہ بن لادن کے بعد اس کے خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا گیا تو اس عورت نے ان کے حق کے لئے آواز اٹھائی۔پاکستان کی بیٹی عافیہ کو جب ظالموں کے ہاتھ بیچا جا رہا تھا ۔ اس کے بیٹے کی حمائت میں اپنے شہری فروخت کرنے والے لالچی آمر کے سامنے کھڑا ہونے کی جراٗت عاصمہ ہی نے دکھائی تھی۔حکمرانوں کی خواہشوں، ایجنسیوں کی سازشوں اور ججوں کے فیصلوں کو روک نہ پانے کے باوجود ملک اسحاق کی موت پر عاصمہ عدالت کے روبرو کھڑی ضرور ہوئی تھی۔جب عاصمہ کو کہا گیا کہ طالبان کے لاپتہ ساتھیوں کا کیس عدالت میں لڑنے کے لیے کوئی وکیل رضامند نہیں ہے تو اس کا کہنا تھا ریاست کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو لا پتہ کرے۔ایک اخبار نے عاصمہ کے خلاف لکھامگر جب اس ادارے کو ریاستی جبر کے تحت عدالت میں بلایا گیا تو ہم نے دیکھا کہ عاصمہ مجبور کی وکیل بن کے کھڑی ہے۔ایک سیاسی جماعت نے اسے گالیں دیں مگر اس نے ان کی وکالت سے انکار نہیں کیا۔وہ اول و آخر انسان تھی اور انسانیت کی ہمدرد۔
دوسروں ممالک میں زندہ رہنے کے لیے انصاف مہیا کیا جاتا ہے ہمارے ہاں انصاف کے حصول کے طویل مدت کی زندگی شرط ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ کمزور جج نامور وکیل کی قانونی اور آئینی رائے ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ایک نامور وکیل تھی۔
اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی ہمدردی نے اسے اسٹیبلش منٹ کے دلالوں کی نفرت کا نشانہ بنا دیا ہوا تھا۔ اس کو دین بیزار ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے دین دشمن قرار دیا ہوا تھا۔قصہ یہ ہے کہ اس نے سترہ مئی والے سیمنار میں عربی کے لفظ ْ امی ْ کا ترجمہ ْ ان پڑھْ کیا تواس پر تو ہیں مذہب کا الزام لگا۔جب تحقیقی کمیشن میں توہین ثابت نہ ہو سکی تو قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ اس نے کبھی بھی خود کو مذہبی نہیں بتایا تھا۔ نہ کبھی اس نے اس الزام کی تردید کی۔ مرتے وقت تک الزام لگانے والوں کو شکائت تھی کہ اس نے قادیانی ہونے کی تردید نہیں کی تو اعتراف کیوں نہیں کرتی۔مگر اس کا دین انسانیت تھا جس کا وہ اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کرتی تھی۔
تنقید کی حامی تھی وکلاء ، علماء، جج، جنرل ، سیاستدان سب اس کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ تنقید ہی خامی کو اجاگر کرتی ہے جو اصلاح کا موجب بنتی ہے۔ توہین رسالت کی مخالفت کا اظہار ٹی وی پر بیٹھ کر کرتی تھی۔ اور دینی طبقہ اس پر سیخ پا ہوتا تھا۔مگراس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس قانون کی زد میں آج تک دیندار لوگوں کی گردن ہی آئی ہے۔
عاصمہ جہانگیر سول حکمرانی کی داعی اور آمریت کی کھلی مخالف تھی ۔ اس نے منافقانہ رویہ اپنانے کی بجائے ببانگ دہل اپنے ان خیالات کا پرچار کیا۔یہ ایسا اصولی موقف ہے کہ مخالفین اس کی مخالفت نہیں کر پائے تو اسے پاکستان کا غدار اور بھارت کا ایجنٹ مشہور کرنا شروع کیا ۔مگر برہان وانی کو عاصمہ نے ہیرو قرار دیا اور بھارتی وزیر اعظم کولومڑ قرار دیا، اس نے نعرہ لگایاتھا ْ آو کشمیر کو آزادی دلاتے ہیں ْ وہ جھوٹے الزاموں کو سچ کی طاقت سے دھو ڈالنے کا سلیقہ جانتی تھی۔اس سال کے شروع میں امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کیا اور بہت سے زبان درازوں کی موجودگی میں اس ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کرنے والی یہ واحد پاکستانی تھی۔
۲۰۱۰ میں بار کا الیکشن لڑا ، اس کے بعد اس کا گروپ بار کی سیاست میں سرگرم ہی رہا۔اس میں انسان کاضمیر جنجھوڑنے کی صلاحیت تھی۔ اس نے اپنی یہ صلاحیت پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی پیشہ ورانہ خوبصورتی سے پیش کی۔
معاشرے کے با ضمیر لوگو ں نے اس کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس کو ہلال امتیاز اور اورستارہ امتیاز سے نوازا، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں نے اسے درجنوں تمغات سے نوازا اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔
میں لاہور میں پیدا ہونے والی عاصمہ جیلانی اا فروری کو عاصمہ جہانگیر کی شخصیت مین لاہو ر میں فوت ہوئی تو پورے پاکستان کے وکیلوں نے سوگ کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الااقوامی اداروں نے تعزیت کے پرسے ارسال کیے۔
عاصمہ اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں جیسا بھی گمان ہے آپ کا حق ہے مگر یہ فرض ہے کہ جائزہ لیں کہیں آپ کے گمان کی بنیاد سنی سنائی باتیں تو نہیں ہیں۔

اتوار، 11 فروری، 2018

67 کلو گرام







                                   
غربت سیاسی مسٗلہ ہے
1970 کے قومی الیکشن میں ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن لڑا اور پارٹی اکثریت سے جیت گئی۔ دراصل اس نعرے میں انسان کی بنیادی ضرورت کو اجاگر کر کے لوگوں سے ووٹ مانگے گئے تھے۔ اور حقیققت یہ ہے کہ موجودہ دور میں سیاست کی تعریف کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے اس کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ ایسا طرزحکومت جس میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔بنیادی انسانی ضروریات یہ ہیں۔
روٹی بشمول پانی
لباس
مکان
صحت
تعلیم
سفر
معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ زیر کفالت یا غریب لوگ یا غربت ایک مسٗلہ ہے
روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے
 October 2004 
کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے کیونکہ دنیا میں غربت کے خاتمے کے لئے بنیادی وسائل موجود ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی ہے ْ
دنیا بھر میں سروے کے ایک ممتاز ادارے
Statisca.com
کے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہے۔ کیاپاکستان میں عوام کی ضروریات کے مقابلے میں گندم کی پیداوار مکم ہے کہ لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں۔ اس سوال کا جواب  اتنا مشکل نہیں جتنا   حکومتی کہہ منکریوں  کے باعث بنا دیا گیا ہے  .
پاکستان میں سال 2020-21 میں گندم کی پیداوار کا اندازہ  25۔6 ملین ٹن لگایا گیا تھا ۔ جب یہ اندازہ لگایا جارہا تھا تو حکومت کے پاس کم از کم دس لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ جادو البتہ یہ ہوا ہے کہ 7 سے 10 لاکھ ٹن گندم   /" غائب  "  ہو گئی ہے ۔ یہ غائب کرنے والے چور  اور ڈاکو ہیں جن کو حکومت مافیا کا نام دیتی ہے ۔ حکومت کے پاس ایسے ماہرین تو موجود ہیں جو غائب ہونے والی گندم کا کھرا  مافیا کے  گوداموں تک لے جاتے ہیں ۔ ایسے سوژل میدیا مشیران بھی کثرت میں ہیں جو گندم کے بحران کو بغض عمران خان سے جوڑ کر اپنے کاکنوں کو مطمن کرنے کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ حکومت کے پاس ایسے دماغوں کی مگر کمی ہے جو ایسا بندوبست کرسکیں کہ ہر پاکستانی کو فی فرد 67 کلو گرام سالانہ ۤٹا بہم پہنچانے کا انتظام کرسکیں ۔

ابابیلوں کا ذکر


                                                                      

حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ


حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ
جب ابرہ کی افواج مکہ مکرمہ کے قربب پہنچ گئی اور مالک کعبہ، جو طاقت و قوت ، قدرت و استعداد میں لاثانی ہے ، کی فوج نمودار ہوئی ۔ یہ ابابیل نام کا پرندہ تہا ۔جو ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں اٹہائے، کنکریوں سے لیس تہا ۔ یہ کمزور چڑیاں ،طاقتور ہاتہیوں کے خالق کے حکم سے اپنے رب کی طاقت کا مظہر بنیں ۔ چڑیوں کو کون کیسے روکے ۔ کنکر نے ہاتہی ، گہوڑے یا سوار کو کہایا ہوا بہس بنانے میں کچہ تمیز نہ کی ۔ مالک کی چاہت یہ تہی کہ وہ ابن آدم کو یاد دہانی کرا دے کہ قوت ، طاقت ، سدا غلبہ اور حکم اسی واحد و احد اور اکیلے کا ہے ۔ بے شک قہر و جبر اورانتقام اس کی صفات ہیں مگر اس نے خود ہی رحمت ، درگذر ،معافی اور کرامت کو اپنی دوسری صفات پر غالب کر لیا ہے ۔اللہ کو پسند نہیں کہ کوئی دشمن مکہ میں داخل ہو، کوئی ابرہ ہو کہ مشرک ہو کہ کافر ہو ،اللہ کے گہر کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والوں کی باقیات عجائب گہر میں داستان عبرت ہیں اور بیت اللہ بصورت کعبہ آج بہی صیح و سالم موجود ہے ۔ اے راہیا، تیرا نفس ہی تیرا دشمن ہے اور تیرا قلب تیرا کعبہ ہے تیرا کعبہ ضرور دشمن کے حملہ کی زد میں آئے گا اور تیرا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے اس مالک کی طرف متوجہ ہوں جو کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلیں بہیجتا ہے اور التجا کرتا ہوں کہ میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک ابابیل بہیج دے۔جیسے بییت اللہ مکہ شہر میں ہے اور اسکی حفاظت کے لیے اللہ نے دشمن کی فوج کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، میری التجا یہ ہے کہ میرے کعبہ قلب کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کا لشکر بہیج تاکہ میرا دشمن ، ابلیس، شہر سے باہر ہی روک لیا جائے ، اس بظاہر طاقتور دشمن سے بچنا محال ہے الا یہ کہ تیری رحمت کی ایک ابابیل میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے آئے ۔ اللہ نے اپنےگہر کی حفاظت کے لیے لشکر بہجوایا مگر میرے دل کے کعبہ کی حفاظت کے لیے رحمت کی ایک ابابیل ہی کافی ہے۔تیری بہجوائی ہوئی رحمت کی اکلوتی ابابیل بطور حفاظت میرے شہر پر پرواز کرتی رہے اور میرے شہر سے باہر جب ‘تو ہی تو’ کی آنے والی آواز مدہم ہونے لگے تو یہی میرے خوف اور مدد کے لیے پکار ہو گی ۔میرا شہر کچی خاک سے بنا ہوا جسم ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، لیکن اس کی حفاظت صرف تیرے ذکر طیب ہی سے ممکن ہے ۔اس دنیا میں میرے پاس ٹہکانہ بس ایک کچی مٹی کا جسم ہے اور میرا نفس [ابرہ] اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کی حفاظت تب ہی ممکن ہے کہ تیری ابابیل رحمت مدد گار رہے ورنہ یہ کچا ٹہکانہ بہی نہ رہے گا ۔میں بہت گناہ گار اور نکما ہوں ، میرے پاس کوئی اچہا عمل بہی نہیں ۔ تیرے سامنے آنے کے لیے شکستہ اعمال باعث شرمساری ہیں مگر تیری رحمت ہی کا سہارا اور امید ہے ۔میں تیری رحمت کے نور میں رہوں اور تیرے معزز و مکرم محبوب نبی کے صدقے ان کی راہ میرے لیے منور رہے ۔ کہ تاریکی میں گمراہی سے محفوظ رہوں ۔میرے سامنے طویل سفر ہے ، راہ کی طوالت اور صعوبتوں کا احساس ہی نہ کیا ، سواری بہی نہ خریدی ،میں نے تو اور ہی خریداریوں میں زیادہ وقت گزار دیا ہے ۔میرے طویل سفر کی راہ مشکل، تاریک اور انجانی ہے، تیری رحمت کے نور میں ایسا رہنماء ساتہی ہو کہ راہ سہل ، منزل روشن تر ہو۔
محمد افسر راہیا [1922 -2014 راولپنڈی] راہ سلوک کے مسافر ، اور نعت گو شاعر تہے ۔ان کی تین مطبوعہ کتب پنجابی پوٹہواری میں ہيں ۔

ہفتہ، 10 فروری، 2018

جھوٹ کے سوداگر

کراچی میں نقیب اللہ محسود کو راو انور نامی ایک پویس افسر نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا ۔ نقیب کے دوستوں نے کراچی میں اس پراحتجاج شروع کیاتو سول سوسائٹی اور پولیس گردی کے شکار لوگوں نے ہی نہیں پورے ملک سے اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھی۔ پاکستان میں عوام کی قسمت کی ٹوکری نا انصافیوں کے وزن سے اس قدر بھاری ہو چکی ہے کہ عوام اس وزن سے ہانپ رہی ہے، وہ ہر نا انصافی پر چیخ اٹھتی ہے ۔ پاکستانی عوام کی مثال اس بوڑہی کی طرح ہے جس کو ہر ماتم پر اپنا جوان مرا ہو بیٹا یاد آجاتا ہے اور وہ دوسروں کے ماتم پر حقیقی آنسووں سے روتی ہے۔
نقیب اللہ محسود کے والد اور اس کے عزیزو اقارب ابھی کراچی پہنچے ہی تھے کہ جرگے کو برخاست کر دیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو معلوم ہوا کہ اسلا�آباد میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کامقصد نقیب محسود کے قاتل راو انور کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑوان شہر کے باسیوں نے اپنے دور سے آئے مہمانوں کی ، جو اپنے بے گناہ مقتول بیٹے کے لئے انصاف مانگنے آئے ہیں، کے لئے اپنے دل و در واکر دیے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ریلی نکالی گئی ،بتایا گیا ، اس ریلی کا مقصد اسلام آباد میں موجود پر امن قبائلی جرگے کے ساتھ یک جہتی ہے ۔ مگر جب ریلی ختم ہوئی تواس کی باقیات میں ایک جلتی گاڑی، سلگتے دفتر اور خوفزدہ انسا نوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر ابھریں۔ لوگ ابھی ان حالات پر انگشت بدندان ہی تھے کہ سوموار والے دن سوشل میڈیا پر پختوں لانگ مارچ کی ہمدردی میں ٹویٹس میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا ، اس میں سب سے چکمدار رنگ افغانستان کے صدر کا تھا۔اس سال کا افتتاح امریکہ کے صدر نے اپنے ایک پاکستان مخالف ٹویٹ سے کیا تھا۔ اس سے دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ نے کوریا میں بیان دیا تھاکہ اگر پاکستان نے ڈو مور کے امریکی مطالبے پر عمل نہ کیاتو اپنے کچھ علاقوں پر حکمرانی سے محروم ہو سکتا ہے۔
قوالی گائیکی کا ایک انداز ہے جو بر صغیرمیں پایا جاتا ہے، علاقوں پر قبضے کی جنگ کے درمیان ٹویٹس کی قوالی کا پہلا مصرعہ کوریا ایک امریکی نے گایا ہے، واشنگٹن نے ساز کو چھیڑا ہے اور کابل نے سر میں سر ملا کر اپنا کھایا پیا حلال کیا ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ، موٹی توند والے، بہت لوگ بھارت اور خود پاکستان کے اندر سے اس قوالی کا حصہ بنیں گے۔مگر تاریخ سے بے بہرہ اور چمک کے شیدائی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قبائل وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والی بہادر ماوں کا دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اور محنت مزدوری کو پرائے ڈالروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اپنی آزادی چمک اور مفروضوں پر قربان نہیں کرتے بلکہ آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان کے دفاع میں اس علاقے میں یہ اسلام اور پاکستان کا پہلا دفاعی حصار ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جب یہ کہتے ہیں ْ وہ مسلم جن کا نشانہ کابل ہے ، ایک دن یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد ، کابل کی نسبت آسان ہدف ہے ْ تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن کو وہ مسلم کہتے ہیں وہ مسلمان ہیں ان کا ہدف کابل نہیں بلکہ غیر ملکی طاقتوں کا افغانستان سے انخلاء ہے۔اور غیر ملکی فوجوں کو ایک دن افغانستان سے جانا ہی ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب امریکہ کی دھمکی پر حکمرانوں کی پتلون ڈھیلی ہو جاتا کرتی تھی۔امریکہ اس بات پر متعجب ہے کہ اس کی ایک فون کال پرڈھیر ہو جانے والوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ کسی دھمکی پر خوفزدہ ہی نہیں ہوتے۔ امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ لیٹ جانے والے فرد تھے وہ قوم کے نمائندے نہیں تھے ۔ اب امریکہ کا پالا عوام کے منتخب کردہ رہنماوں سے ہے۔ فاٹا سے جو لوگ الیکشن جیت کراسمبلی میں پہنچے ہیں وہ عوام کی حقیقی منتخب آواز ہیں۔
اگر دشمن یہ سوچتے ہیں کہ وہ نقیب اللہ محسود کے خون پر ٖفاٹا کے لوگوں کی غیرت کا سودا کر لیں گے تو وہ جان لیں ان کی سوچ احمقوں والی ہے۔ پاکستان میں ہماری جوجدوجہد ایک محسود قبیلے کے نقیب اللہ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بے گناہ نقیبوں کے لئے ہے ، ہم نے اس دھرنے کے بہانے چھ درجن سے زائد لاپتہ افراد کو ان کی ماوں تک پہنچا دیا ہے ، ہم نقیب کے قاتلوں کو بھی ڈہونڈ لیں گے مگر ۔۔۔ اے امن کے دشمنو! ہمیں تو خود تم پر شک ہے کہ تم نے ہی معصوم نقیب اللہ محسود کے قاتل راو انور کو چھپا کے رکھا ہوا ہے تاکہ تم غلط فہمیوں ، جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے زور پر اس جنگ کو فاٹا کے اندر تک لا سکو۔ 


جمعہ، 9 فروری، 2018

جواب درکار ہے

                               
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کا پل ہے جو مختلف شہروں سے آنے والے رستوں کو ملاتا ہے ۔مگر اس کی وجہ شہرت نومبرکا تحریک لبیک والوں کا دھرنا ہے جس نے اس چورستے کو پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بھی مشہور کر دیا۔ اس مشق میں شامل لوگوں سے ہم نے ملاقات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں آنے کے مقاصد کیا ہیں اور اس دھرنے سے انھیں کیا حاصل ہو گا۔ مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر نے کہا تھا ْ بچپن سے دیکھ رہا ہوں خدا امیروں کے ساتھ ہے ْ 
The Guardian 2016 may
گارڈین اخبار میں گایلز فریسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کامیابی کے رستوں سے پھسل جاتا ہے تو وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے ۔ تیسری دنیا جو عام طور پر مسلمان ہیں ۔۔ کیا ترقی اور کامیابی کی شارع سے پھسلے ہوئے لوگ نہیں ہیں ؟ اگرگاڑی کو ایک سو چالیس کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کے لیے ہموار موٹر وے دستیاب ہے تو چنگ چی میں چار کلومیٹر کا سفر سوار اور سواری دونوں کا پنجر ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور مورال آف سٹوری یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کرنا ہے تو گلیوں سے نکلو اور کسی کالونی کے باسی بن جاو۔
کالونی کا تصور سوویٹزرلینڈ سے درآمد شدہ ہے تو کالونی کے گردا گرد اونچی دیوار سے کالونی کے اندر باسیوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ اسرائیل کی پیداوار ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سوچ کو معاونت فراہم کرتا ہے ۔پاکستان میں کالونیوں کے باسیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر اجتماعی وسائل اور خدمات کی دستیابی اور معیار کیسا ہے آپ خود اندازہ کرلیں۔ زیادہ دماغ کھپانے کی زحمت سے بچتے ہوئے صرف اصول عرض ہے کہ خدا قوی اور صاحب استعداد ہستی ہے مگر وہ دنیا میں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی مخلوق کو ذریعہ بناتا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں صرف سرمایہ ہی حکمرانی کا حقدار ہے تو پھر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کا کہا ہوا سچ ہے کہ خدا امیروں کے ساتھ ہے ۔ اگرآپ سکول کے ٹیچر سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی آپ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا غریبوں کے ساتھ ہے ۔
1940
کے بعد دنیا میں ایک ایسا خاموش انقلاب برپا ہوا ہے ، ہوا یوں کہ ایک شخص نے بیانیہ جاری کیا، چند معروف اور معاشرے کے مانوس لوگوں نے اس بیانیے کو دانشوری کے کوہ طور کا سنگ قرار دیا، مزید لوگوں نے اس پتھر کو مقدس اور مبارک مشہور کیا ، اسی گروہ کے لوگوں نے اس کی تقدیس کے بیانئے اور ترانے لکھے اور معاشرے نے اس تقدیس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں جادو یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کر سحر زدہ رکھو۔ سرمایہ داری نظام کی یہ حکمت عملی کامیابی سے جاری و ساری تھی کہ اس نظام کی کوکھ سے گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ اور ایک دہائی بعد ہی ْ جاہل ْ بہت سے مفروضوں سے انکاری ہو گیا۔ پروپیگنڈہ کے بعد جعلی خبروں نے اس گروہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو بے نقاب کر دیا۔
تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے ہر تبدیلی طاقت کی مرہون منت ہوتی ہے ، جب مدینہ المنورہ سے انسانیت کا ایک قاٖفلہ مکہ کی طرف بڑہا تھا تو اس کے پاس ایک سوچ یا ذہنیت یا عقیدے کی ْ متاع ْ تھی ۔ جوقافلے کے افراد کے قلوب میں گہری رسوخیت رکھتی تھی اور وزن میں بہت بھاری تھی۔ابو سفیان نے صاف کہہ دیا تھا یہ بھاری پتھر اٹھانا مکہ والوں کے بس میں نہیں ہے۔
مرور زمانہ میں یہ متاع لٹتی گئی ، ڈاکووں نے پلاننگ بیسویں صدی کی ابتداء میں ہی شروع کر دی تھی اور آخری ڈاکہ ترکی کے ایک شہر میں دن دیہاڑے پڑا تھا ۔انسانیت کا سر ننگا ہو گیا۔
آج کا انسان فیض آباد کے پل تک پہنچ گیا ہے ، اس کے پاس متاع میں وہی کچھ ہے جو مدینہ المنورہ سے مکہ کی طرف بڑہتے قافلے کے پاس تھی ، نام اس متاع کا ْ حب النبی ْ ہے ۔ یہ آزمودہ کارگر ہے، اگر مکہ والوں جیسے بہادر اس وقت اپنے گھروں میں دبک گئے تھے تو اب تو ایسے بہادر خود مکہ میں بھی ناپید ہو چکے۔ اس وقت اگر یہ متاع سنگ گراں تھی تو اج بھی اتنی ہی بھاری ہے ۔ مگر مسٗلہ یہ ہے کہ اس وقت کے ْ رہنماء ْ کا فخر فقر تھا مگر اج کے رہنماوں کا فقر ان کا فخر نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔
مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کے پاس ایک کتاب تھی ۔ جس میں لکھا ہوا اس نے پڑھ کے سنایا تھا ۔ ترجمہ اس کا یوں ہے ْ اسلام غریبوں کا دین ہے ْ 
اگر یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہْ کیا مسلمان ہونے کے لیے غریب ہونا لازمی ہے ْ تو عرض ہے کہ خود مجھے اس سوال کا جواب درکار ہے

جمعرات، 8 فروری، 2018

میں خوف زدہ ہوں

میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان 
ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔

جنگوں اور کھیلوں میں کچھ نعرے ہوتے ہیں ، اور کچھ نشان ہوتے ہیں، ملکوں اور قوموں کے بھی کچھ نعرے ہوتے ہیں اور کچھ نشانات ہوتے ہیں۔ایسا ہی ایک نشان ْ مسجد اقصیٰ ْ ہے ۔ د و نشان اور بھی ہیں جو محمد ﷺ کے پیروکاروں کے نشان ہیں ان کو ہم حرمین شریفین کے نام سے جانتے ہیں اور ایک قابل عزت اور محترم ہستی جناب ملک سلمان بن عبدالعزیز السعود بطور خادمین شریفین ، دنیا بھر کے ایک عرب ستر کروڑ لوگوں کے ایمان و ایقان سے قوت کشید کر کے خود کو صاحب جلال کی مسند پر براجمان فرماتے ہیں۔

مجھے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت پہنچی  ہے اورتین مساجد میری عقیدتوں کا محور ہیں، ایک مکہ میں مسجد الحرام جہاں میرے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی تھی، دوسری مدینہ المنورہ  میں جہاں میرے نبی ﷺ ے زندگی گزاری او آسودہ استراحت ہیں اور تیسری مسجد اقصی جو القدس میں مرکز عقیدت ہے۔

مکہ اور القدس میں جہاں اور کئی اشتراک ہیں ایک مشترک میرے نبی الامی ﷺ کا سفر اسرہ و معراج ہے ، مکہ سے اسرہ کاسفر شروع ہوتا ہے تو القدس الشریف سے معراج مبارک کی ابتدا ہوتی ہے۔ القدس شریف کی مسجد الاقصیٰ میں وہ مبارک محراب آج بھی اس مقام کی نشاندہی کے لیے موجود ہے جہاں نبی ختم المرسلین ﷺ نے تمام انبیاء و رسل کی امامت فرمائی۔وہ چٹان بھی موجود ہے جس پر میرے ہادی و رہنماء ﷺ کے قدموں کے نشان ہیں ۔اس کھونٹے کا نشان بھی موجود ہے جس کے ساتھ انبیاء اپنی سواری باندہا 
کرتے تھے اور میرے نبی ﷺ نے اپنا براق بھی اسی کھونٹے سے باندہا تھا۔

مجھے اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں سے گلہ نہیں بلکہ عداوت ہے جو مسلمانوں کے ایک ایسے دینی نشان کو چھین لینا چاہتے ہیں جس کی دوسرے مذاہب کی عقیدتوں کا مسلمانوں نے ہر دور میں احترام کیا ہے۔ مجھے ان سے بھی گلہ نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ایک کینسر ہے جو ایک ارب ستر کروڑ لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ مجھے گلہ اپنے ان مسلمان صاحبان علم و اقتدار کی اس نصیحت پر ہے کہ یہ مسلمانوں پر حملہ نہیں بلکہ براہ راست اسلام پر حملہ ہے اور اسلام کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ اور یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسا مکہ میں موجود بیت اللہ کو ابرہہ نامی بد بخت نے نابود کرنا چاہا تو خود اللہ نے آگے بڑھ کر اپنے لشکروں سے اسے نابود کر دیا۔ہمیں تو اپنے اونٹوں سے دلچسپی ہونی چائیے۔ 
انیس نسلیں پہلے میرے جس راجپوت ہندوپڑ دادا نے یہ دین قبول کیا تھا وہ مرنے سے قبل اس دین کے بارے میں موٹی موٹی باتیں ہمیں بتا گیا تھا۔ پھر اگلی نسلوں نے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی سیکھ لیں۔ ان موٹی اور چھوٹی باتوں میں بطور یاد ہانی ایک بات عرض ہے اور یہ بات پتہ نہیں چھوٹی ہے کہ بڑی مگر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آئے۔ اللہ کے اس حکم کے بعد میرے دل کی گہرائیوں سے ْ مسلمانوں کے حکمرانوں ْ (حکمران ضرور بہ ضرور
مسلمانوں سے مختلف ہیں )کے لئے دعا نکلتی ہے ، صرف میں ہی نہیں ، میرے محلے کی مسجد کا امام ہی نہیں ،اسلام آباد کی فیصل مسجد کے محترم امام ہی نہیں، مسجد الحرام کے امام بھی اس دعا کے ساتھ ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اے اللہْ مسلمانوں حکمرانوں ْ کواپنی حفظ و ایمان میں رکھ۔ مدینہ المنورہ میں تو میں نے اپنے کانوں سے لوگوں کا گریہ سنا اور اپنی آنکھوں سے امام سمیت نمازیوں کی آنکھوں سے وہ موتے گرتے دیکھے جن کی شہادت کو قبولت بتایا جاتا ہے ۔ شائد ہم گناہ گار بے سہارا عوام نے ہی ْ مسلمان حکمرانوں ْ کو بچایا ہوا ہے مگر ذاتی طور پربخدا میں اپنے ْ ملک کے حکمرانوںْ کے بارے میں فکر مند رہتا ہوں، میں ْ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں ْ کے متعلق فکر مند رہتا ہوں،
 میں ْ خادم الحرمین الشریفین ْ کی ذات کے بارے میں کسی متوقع یا غیر متوقع امرربی کے نزول کے بارے میں فکرمند رہتا ہوں کہ اللہ کا ایک واضح حکم ہے، تاریخ کی کتابوں کی شہادت ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ تعالی جس کا کلام پڑہنے سے پہلے ہم اس کے تین با برکت ناموں اللہ ،الرحمن اور الرحیم پر مشتمل کلمے کو یاد کرتے ہیں اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، وہ خوشحال لمحات میں پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتا ہے، میں نے زندگی میں کروڑ پتی کو اسلام آباد میں پیرودہائی کے بسوں کے اڈے پر ْ لہور اے لہوراے ْ کی آوازیں لگاتے سنا ہے ۔ میں ملک کے باعزت ترین شخص کو بے آبرو ہونے پر اشک بہاتے دیکھ چکا ہوں، میں ایک باعزت خود دار کو چار سو کلومیٹر کے پیدل سفر پر مجبور ہوتا دیکھ چکا ہوں،میں نے ایک خوشحال اور صاحب عزت شخص کو پرائے دیس میں اس حالت میں دیکھا کہ اس کا پاسپوٹ اور ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے ، رات گزارنے کے لیے چھت کا انتظام ہے نہ جیب ہی کچھ باقی ہے ۔ میں ایسے واقعات کا شائد ہوں جن کو عقل اور منطق تسلیم ہی نہیں کرتی۔ میں نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ پھٹے جوتے والا اور اس دور میں پیوند لگی صاف اور اجلی قمیض میں ملبوس ایک قلاش جرگے میں داخل ہوتا ہے تو تینوں گاوں کے سارے بچے نوجوان، جوان اور بزرگ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور علاقے کا امیر ترین شخص اپنے سر سے شملے والی پگڑی اتار کر اس کے لیے بچھاتا ہے ۔ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے قرآن میں پڑہتا ہوں ،اپنی کھلی آنکھوں سے اس کی تفسیر کا زمین پر شاہد ہوں۔



میں نے اپنی نوجوانی میں ابن خلدون کو پڑہا تھا مگر اب میں اسکے کلام کی حقیقت پا چکا ہوں کہ ْ اسلام غریبوں کا مذہب ہے ْ بلکہ حقیقت یہ کہ غریب ہی در اصل موجودہ دور کے مسلمان ہیں اور جو مالدار لوگ اسلام پر عمل پیرا ہیں ان کا مقام اولیاء سے بڑھ کر ہے ۔ البتہ میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔




لیلا کا مجنوں



 مجنوں کا نام ، قیس بن الملوح بن مزاحم بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بن ربیعہ بن عامر تھا۔ حضرت پیر علاء الدین صدیقی مرحوم (چانسلر محی الدین اسلامی یونیورسٹی نیاریاں شریف کشمیر)نے ایک بار اپنے درس میں فرمایا تھا کہ مجنوں ، حضرت امام حسن بن علی بن ابو طالب کا رضاعی بھائی تھا۔اور انھوں نے ہی قیس کو مجنوں کہا تھا۔ راویوں اور تاریخ دانوں نے اس کا سال پیدائش اور وفات 
645 - 688
شمار کیا ہے۔
جامع الازہر کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے لکھا ہے کہ لیلا بنت مہدی بن سعد ، قیس کی رشتے دار تھی۔ وہ انتہائی خوبصورت اور حسین ہونے کے ساتھ ایک شاعرہ بھی تھی ، قیس کی محبت کا دم بھرتی تھی ، اور قیس کے قصیدیوں پر شعروں میں جواب دیتی تھی۔ قیس نے لیلا کے لیے کہا 
ْ وہ ایک چاند ہے جو سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے۔وہ نہائت حسین ہے ، اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت ہی نہیں ْ تو لیلا نے اپنی ایک سہیلی سے پوچھا کیا میں واقعی ایسی ہوں ؟ تو اس کی سہیلی نے کہا ْ وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا، تم ایسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہےْ 
دونوں کی اس محبت نے قبیلہ میں شہرت پائی تو سب سے پہلے قیس کے والد نے اس رشتے سے انکار کیا کیونکہ قیس کے والد کا اپنے عزیزسے میراث پر جھگڑا تھا۔ قیس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اپنے چچا سے لیلا کا رشتہ مانگا ، اس نے مہر کے لیے پچاس سرخ اونٹ اور ایک بڑی رقم بھی جمع کر لی تھی مگر لیلہ کے والد نے قبیلہ میں اپنی بدنامی کے ڈر سے اس رشتے سے انکار کر دیا اور لیلا کی شادی طائف کے علاقے کے قبیلہ الثقیف میں ایک نوجوان ورد سے کر کے اسے طائف بجھوا دیا،تو قیس اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور صحرا میں دشت نوردی شروع کر دی وہ شام، نجد اور حجاز کے علاقے میں ویرانوں کی خاک چھانتے چھانتے لیلا کے گھر شہر طائف جا پہنچا اور لیلا کے خاوند کے سامنے شعر پڑہے۔ جن کا مطلب یوں ہے
ْ تجھے رب کا واسطہ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلا کو آغوش میں لیایا اس کا منہ چومایا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہراہیں ۔ جیسے کہ خوشبو ہوْ 
ورد نے کہا جب تم نے رب کا واسطہ دے ہی دیا ہے تو میرا جواب ہاں میں ہے ۔ یہ سن کر قیس بے ہوش ہو گیا۔
 قبیلے کے لوگوں نے قیس کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ قیس کو مکہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے لے جائے اور قیس کو کہے کہ وہ کعبے کے پردے کو پکڑ کر لیلا کو بھول جانے کی دعا کرے۔ قیس کا والد اسے مکہ لے گیا قیس نے کعبے کے پردے کو پکڑ کر دعا کی 
ْ اے اللہ مجھے لیلا اور اس کی قربت عطا فرما ْ قیس کا باپ الملوح اسے واپس لے آیا۔
ادہر لیلا کو قیس کی حالت معلوم ہوئی تو اس کو بخار ہونا شروع ہو گیا۔اور بیماری ہی کی حالت میں فوت ہو گئی۔ کہا جاتا ہے قیس لیلا کی قبر کے گردا گرد ہی رہتا ۔ اس نے قبر کے نزدیک ایک چٹان پر کچھ شعر کنندہ کر دیے تھے۔اس کی موت بھی لیلا کی قبر کے پاس ہی ہوئی تھی کہ اس کے گھر والوں نے اس کی میت لیلا کی قبر کے پاس پتھروں سے اٹھائی تھی۔
Yemen Times 16 October 2014
نے سعودی عرب کی ایک بائیس سالہ ھدیٰ نامی لڑکی کی داستان چھاپی تھی جو ایک یمنی نوجوان عرفات ،جو سعودیہ میں ملازمت کرتا تھا ،کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی ، عرفات کی درخواست پر ھدی ٰ کے والد نے یہ رشتہ نامنظور کر دیاتو محبت کی ماری ھدیٰ سعودیہ سے بھاگ کر یمن جا پہنچی تھی۔ یمن کی سرحدی انتطامیہ نے اسے غیر قانونی طور پر ملک میں داخلے پر جیل میں ڈال دیا تو عرفات نام کے مجنوں نے جیل سے جانے سے انکار کردیا۔
  لیلہ کے والد نے بھی ھدی کے والد کی طرح , اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی سے کرنے سے انکار کر دیا  تھا ۔ اور یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی کا ہے جو پدری برتری کا تھا مگر اکیسویں صدی میں بھی یہ برتری قائم و دائم ہے ۔ صرف چودہ صدیاں ہی بدلی ہیں