Khilafat لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Khilafat لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 9 فروری، 2018

جواب درکار ہے

                               
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کا پل ہے جو مختلف شہروں سے آنے والے رستوں کو ملاتا ہے ۔مگر اس کی وجہ شہرت نومبرکا تحریک لبیک والوں کا دھرنا ہے جس نے اس چورستے کو پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بھی مشہور کر دیا۔ اس مشق میں شامل لوگوں سے ہم نے ملاقات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں آنے کے مقاصد کیا ہیں اور اس دھرنے سے انھیں کیا حاصل ہو گا۔ مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر نے کہا تھا ْ بچپن سے دیکھ رہا ہوں خدا امیروں کے ساتھ ہے ْ 
The Guardian 2016 may
گارڈین اخبار میں گایلز فریسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کامیابی کے رستوں سے پھسل جاتا ہے تو وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے ۔ تیسری دنیا جو عام طور پر مسلمان ہیں ۔۔ کیا ترقی اور کامیابی کی شارع سے پھسلے ہوئے لوگ نہیں ہیں ؟ اگرگاڑی کو ایک سو چالیس کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کے لیے ہموار موٹر وے دستیاب ہے تو چنگ چی میں چار کلومیٹر کا سفر سوار اور سواری دونوں کا پنجر ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور مورال آف سٹوری یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کرنا ہے تو گلیوں سے نکلو اور کسی کالونی کے باسی بن جاو۔
کالونی کا تصور سوویٹزرلینڈ سے درآمد شدہ ہے تو کالونی کے گردا گرد اونچی دیوار سے کالونی کے اندر باسیوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ اسرائیل کی پیداوار ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سوچ کو معاونت فراہم کرتا ہے ۔پاکستان میں کالونیوں کے باسیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر اجتماعی وسائل اور خدمات کی دستیابی اور معیار کیسا ہے آپ خود اندازہ کرلیں۔ زیادہ دماغ کھپانے کی زحمت سے بچتے ہوئے صرف اصول عرض ہے کہ خدا قوی اور صاحب استعداد ہستی ہے مگر وہ دنیا میں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی مخلوق کو ذریعہ بناتا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں صرف سرمایہ ہی حکمرانی کا حقدار ہے تو پھر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کا کہا ہوا سچ ہے کہ خدا امیروں کے ساتھ ہے ۔ اگرآپ سکول کے ٹیچر سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی آپ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا غریبوں کے ساتھ ہے ۔
1940
کے بعد دنیا میں ایک ایسا خاموش انقلاب برپا ہوا ہے ، ہوا یوں کہ ایک شخص نے بیانیہ جاری کیا، چند معروف اور معاشرے کے مانوس لوگوں نے اس بیانیے کو دانشوری کے کوہ طور کا سنگ قرار دیا، مزید لوگوں نے اس پتھر کو مقدس اور مبارک مشہور کیا ، اسی گروہ کے لوگوں نے اس کی تقدیس کے بیانئے اور ترانے لکھے اور معاشرے نے اس تقدیس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں جادو یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کر سحر زدہ رکھو۔ سرمایہ داری نظام کی یہ حکمت عملی کامیابی سے جاری و ساری تھی کہ اس نظام کی کوکھ سے گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ اور ایک دہائی بعد ہی ْ جاہل ْ بہت سے مفروضوں سے انکاری ہو گیا۔ پروپیگنڈہ کے بعد جعلی خبروں نے اس گروہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو بے نقاب کر دیا۔
تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے ہر تبدیلی طاقت کی مرہون منت ہوتی ہے ، جب مدینہ المنورہ سے انسانیت کا ایک قاٖفلہ مکہ کی طرف بڑہا تھا تو اس کے پاس ایک سوچ یا ذہنیت یا عقیدے کی ْ متاع ْ تھی ۔ جوقافلے کے افراد کے قلوب میں گہری رسوخیت رکھتی تھی اور وزن میں بہت بھاری تھی۔ابو سفیان نے صاف کہہ دیا تھا یہ بھاری پتھر اٹھانا مکہ والوں کے بس میں نہیں ہے۔
مرور زمانہ میں یہ متاع لٹتی گئی ، ڈاکووں نے پلاننگ بیسویں صدی کی ابتداء میں ہی شروع کر دی تھی اور آخری ڈاکہ ترکی کے ایک شہر میں دن دیہاڑے پڑا تھا ۔انسانیت کا سر ننگا ہو گیا۔
آج کا انسان فیض آباد کے پل تک پہنچ گیا ہے ، اس کے پاس متاع میں وہی کچھ ہے جو مدینہ المنورہ سے مکہ کی طرف بڑہتے قافلے کے پاس تھی ، نام اس متاع کا ْ حب النبی ْ ہے ۔ یہ آزمودہ کارگر ہے، اگر مکہ والوں جیسے بہادر اس وقت اپنے گھروں میں دبک گئے تھے تو اب تو ایسے بہادر خود مکہ میں بھی ناپید ہو چکے۔ اس وقت اگر یہ متاع سنگ گراں تھی تو اج بھی اتنی ہی بھاری ہے ۔ مگر مسٗلہ یہ ہے کہ اس وقت کے ْ رہنماء ْ کا فخر فقر تھا مگر اج کے رہنماوں کا فقر ان کا فخر نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔
مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کے پاس ایک کتاب تھی ۔ جس میں لکھا ہوا اس نے پڑھ کے سنایا تھا ۔ ترجمہ اس کا یوں ہے ْ اسلام غریبوں کا دین ہے ْ 
اگر یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہْ کیا مسلمان ہونے کے لیے غریب ہونا لازمی ہے ْ تو عرض ہے کہ خود مجھے اس سوال کا جواب درکار ہے