islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

جمعہ، 9 فروری، 2018

جواب درکار ہے

                               
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کا پل ہے جو مختلف شہروں سے آنے والے رستوں کو ملاتا ہے ۔مگر اس کی وجہ شہرت نومبرکا تحریک لبیک والوں کا دھرنا ہے جس نے اس چورستے کو پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بھی مشہور کر دیا۔ اس مشق میں شامل لوگوں سے ہم نے ملاقات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں آنے کے مقاصد کیا ہیں اور اس دھرنے سے انھیں کیا حاصل ہو گا۔ مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر نے کہا تھا ْ بچپن سے دیکھ رہا ہوں خدا امیروں کے ساتھ ہے ْ 
The Guardian 2016 may
گارڈین اخبار میں گایلز فریسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کامیابی کے رستوں سے پھسل جاتا ہے تو وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے ۔ تیسری دنیا جو عام طور پر مسلمان ہیں ۔۔ کیا ترقی اور کامیابی کی شارع سے پھسلے ہوئے لوگ نہیں ہیں ؟ اگرگاڑی کو ایک سو چالیس کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کے لیے ہموار موٹر وے دستیاب ہے تو چنگ چی میں چار کلومیٹر کا سفر سوار اور سواری دونوں کا پنجر ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور مورال آف سٹوری یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کرنا ہے تو گلیوں سے نکلو اور کسی کالونی کے باسی بن جاو۔
کالونی کا تصور سوویٹزرلینڈ سے درآمد شدہ ہے تو کالونی کے گردا گرد اونچی دیوار سے کالونی کے اندر باسیوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ اسرائیل کی پیداوار ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سوچ کو معاونت فراہم کرتا ہے ۔پاکستان میں کالونیوں کے باسیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر اجتماعی وسائل اور خدمات کی دستیابی اور معیار کیسا ہے آپ خود اندازہ کرلیں۔ زیادہ دماغ کھپانے کی زحمت سے بچتے ہوئے صرف اصول عرض ہے کہ خدا قوی اور صاحب استعداد ہستی ہے مگر وہ دنیا میں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی مخلوق کو ذریعہ بناتا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں صرف سرمایہ ہی حکمرانی کا حقدار ہے تو پھر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کا کہا ہوا سچ ہے کہ خدا امیروں کے ساتھ ہے ۔ اگرآپ سکول کے ٹیچر سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی آپ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا غریبوں کے ساتھ ہے ۔
1940
کے بعد دنیا میں ایک ایسا خاموش انقلاب برپا ہوا ہے ، ہوا یوں کہ ایک شخص نے بیانیہ جاری کیا، چند معروف اور معاشرے کے مانوس لوگوں نے اس بیانیے کو دانشوری کے کوہ طور کا سنگ قرار دیا، مزید لوگوں نے اس پتھر کو مقدس اور مبارک مشہور کیا ، اسی گروہ کے لوگوں نے اس کی تقدیس کے بیانئے اور ترانے لکھے اور معاشرے نے اس تقدیس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں جادو یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کر سحر زدہ رکھو۔ سرمایہ داری نظام کی یہ حکمت عملی کامیابی سے جاری و ساری تھی کہ اس نظام کی کوکھ سے گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ اور ایک دہائی بعد ہی ْ جاہل ْ بہت سے مفروضوں سے انکاری ہو گیا۔ پروپیگنڈہ کے بعد جعلی خبروں نے اس گروہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو بے نقاب کر دیا۔
تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے ہر تبدیلی طاقت کی مرہون منت ہوتی ہے ، جب مدینہ المنورہ سے انسانیت کا ایک قاٖفلہ مکہ کی طرف بڑہا تھا تو اس کے پاس ایک سوچ یا ذہنیت یا عقیدے کی ْ متاع ْ تھی ۔ جوقافلے کے افراد کے قلوب میں گہری رسوخیت رکھتی تھی اور وزن میں بہت بھاری تھی۔ابو سفیان نے صاف کہہ دیا تھا یہ بھاری پتھر اٹھانا مکہ والوں کے بس میں نہیں ہے۔
مرور زمانہ میں یہ متاع لٹتی گئی ، ڈاکووں نے پلاننگ بیسویں صدی کی ابتداء میں ہی شروع کر دی تھی اور آخری ڈاکہ ترکی کے ایک شہر میں دن دیہاڑے پڑا تھا ۔انسانیت کا سر ننگا ہو گیا۔
آج کا انسان فیض آباد کے پل تک پہنچ گیا ہے ، اس کے پاس متاع میں وہی کچھ ہے جو مدینہ المنورہ سے مکہ کی طرف بڑہتے قافلے کے پاس تھی ، نام اس متاع کا ْ حب النبی ْ ہے ۔ یہ آزمودہ کارگر ہے، اگر مکہ والوں جیسے بہادر اس وقت اپنے گھروں میں دبک گئے تھے تو اب تو ایسے بہادر خود مکہ میں بھی ناپید ہو چکے۔ اس وقت اگر یہ متاع سنگ گراں تھی تو اج بھی اتنی ہی بھاری ہے ۔ مگر مسٗلہ یہ ہے کہ اس وقت کے ْ رہنماء ْ کا فخر فقر تھا مگر اج کے رہنماوں کا فقر ان کا فخر نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔
مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کے پاس ایک کتاب تھی ۔ جس میں لکھا ہوا اس نے پڑھ کے سنایا تھا ۔ ترجمہ اس کا یوں ہے ْ اسلام غریبوں کا دین ہے ْ 
اگر یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہْ کیا مسلمان ہونے کے لیے غریب ہونا لازمی ہے ْ تو عرض ہے کہ خود مجھے اس سوال کا جواب درکار ہے

ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

غلام ابن غلام


میرے یہاں آنے کا مقصد اس قبر پر فاتحہ پڑہنے اور روحانی فیض حاصل کرنے کا تھا جس میں بلال بن رباح نامی ایک صحابی محو استراحت ہیں۔   مگر یہاں پہنچ کر اس قبر کے پاوں کی جانب کھڑے ہو کرمیرے دعا گو ہاتھ توبلند ہو گئے اور سورۃ الفاتحہ کی قرات بھی کر لی مگر میری آنکھوں کے سامنے حجاز کے شہر مکہ کا وہ منظر گھوم رہا ہے جو صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت نے بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

 میں زمانہ جاہلیت میں حج کے لیے گیا تو دیکھا کہ بلال کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کیساتھ باندہا ہوا ہے 
اور انھیں ادہر ادہر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلال مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں میں لات ، عزیٰ ، سہل ، نائلہ ، بوانہ اور اساف تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں ْ

کتابوں میں درج ہے کہ یہ پچاس گز لمبا موٹا سا رسہ اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا اس رسے کی سختی بلال کا گلہ زخمی کیے ہوئے تھِی اور اس سے خون رس رہا تھا، مگر لڑکوں کے لیے کھیل اور بڑوں کے لیے عام معمول کہ جب ایک غلام اپنے آقا کی منشاء کے خلاف سوچے تو ایسے غلام کو سبق سکھانا معمول کی بات تھی ۔شام ڈھلے اس غلام کو بھوک و پیاس کی حالت میں اس کے آقا کے حوالے کر دیا گیا جس نے اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا اور سورج غروب ہونے کے بعد اس کو برہنہ کر کے اس پر چمڑے سے بنے کوڑے سے اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں،تو اذیت دینے والوں کے ہاتھ رک گئے وہ جانتے تھے بنی جمہ کی ملکیت یہ غلام ان کے ہاتھوں جان بحق ہو گیا تو ان کی بھی خیر نہیں۔
یہ ایک دن یا ایک رات کا واقعہ نہیں تھا بلکہ امیہ کا یہ زرخرید غلام دن رات اس عذاب میں مبتلاء تھا
حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ خود حضرت بلالؓ نے ایک جنگ کے دوران امیہ کی طرف اشارہ کرکے بتا یا کہ 
ْ اس امیہ نے ایک روز گرمی کے دنوں میں باندھ کر ساری رات اسی حالت میں رکھا اور پھر دوپہر کے وقت مجھے ننگا کر کے سنگریزوں پر لٹا دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیے ۔ میں بے ہوش ہو گیا ، معلوم نہیں کس نے میرے سینے سے پتھر ہٹائے ، جب مجھے ہوش آیا شام کا وقت تھا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ْ 
حضرت
بلال  کے باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ حمامہ اباسینا نامی ایک بستی کی رہائشی تھی جو موجودہ اتھوپیا میں ایک قصبہ ہے ۔ حمامہ کا تعلق ایک باعزت خاندان سے تھا مگر وہ اپنے گھر سے اغوا ہوئی اور عام الفیل والے سال میں بطور کنیز مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی مکہ پہنچی ، غلامی ہی کی حالت میں اس کی شادی رباح نامی ایک عرب غلام سے ہوئی ۔ان کے ہاں  بلال پیدا ہوئے ، یعنی پیدائشی غلام۔ جب بلال جوان ہوئے تو ان کو غلامی کی منڈی میں لایا گیا جہان امیہ بن خلف نے انھیں خرید لیا۔ بلال  انتہائی محنتی ، مالک کے ساتھ مخلص ، راست گو ، منکسر المزاج ، دوسروں کا احترام کرنے والے اور خش گلو تھے۔ ان کی محنت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر مالک کی بکریا ں چراتے اور رات کو پوری بوری غلے کی پیس ڈالتے، ۔ مگر وہ انسانی تقسیم میں بٹے معاشرے میں اپنی ذاتی خوبیوں کے باوجود ابھر نہ سکے البتہ ان کی ایمانداری اور راست بازی کے سبب عربوں کے بت خانے کی چابیاں ان کے پاس ہوا کرتی تھیں اور ان کی سریلی اور حیرت انگیز آواز نے ان کو جاہلوں کے دلوں میں ممتاز ضرور کیا تھا۔اور امیہ بن خلف کے بارہ  غلاموں میں مالک کے سب سے زیادہ فرمانبرداراور قابل اعتماد تھے۔ 

مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو ایسی درد بھری اذیتیں دی گئی کہ پڑھ کر انسان افسردہ اور انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے مگر مکہ کے اس دور جاہلیت میں مظلوم حضرت بلا ل کو گرمیوں کی کڑکتی دوپہر میں اذیت خانے سے نکالا جاتا، پیا سے ، زخمی، بے یار و مدد گار مظلوم کو گرم ریت پر نوکیلے سنگریزے بچھا کر برہنہ حالت میں منہ کے بل لٹا دیا جاتا اور ان کی پشت اتنی بھاری چٹان رکھی جاتی جس کو کئی لوگ مل کر اٹھاتے ۔ اور اس دن تو مکہ کی عورتوں نے اپنے مکانوں کی کھڑکیاں بندکر لیں جس دن بلا ل کو صحرا میں نصب اس کھمبے کے ساتھ باند ھ دیا گیا ۔جس کی تنصیب کا مقصد ہی غلاموں کو اس کے ساتھ باندھ کر ایسی سزا دینا مقصود تھا جس کو دیکھنا عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ 

رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی حالت زار پر بے چین تھے ایک بار انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا 
ْ اگر میرے پاس رقم ہوتی تو میں بلال کو خرید لیتا ْ 
حضرت ابو بکرؓ نے امیہ کے پا س جا کر کہا کہ بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اگر وہ اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے تو اس میں تمھارا کیا نقصان ہے ۔ اگر تم اس پر مہربانی کرو تو قیامت والے دن تم پر مہربانی کی جائے گی۔ مگروہ قیامت ہی کو کب مانتا تھا۔کہا یہ میرا غلام ہے میں جیسا چاہوں اس کیساتھ سلوک کروں۔
حضرت ابو بکر نے کہا تم طاقت ور ہو جب کہ یہ بچارا بے بس غلام ہے ۔ اس پر ظلم تمھاری شان کے خلاف ہے ۔اور عربوں کی روایات کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔
اس کے جواب میں امیہ نے کہا او ابو قحافہ کے بیٹے اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔
حضرت ابوبکر سے پوچھا کیا قیمت لو گے 
امیہ نے کہا تمھارے پاس جو فسطاط نامی رومی غلام ہے وہ مجھے دے دو اور اس کو لے جاو۔ حضرت ابو بکر راضی ہو گئے تو امیہ کے اندر کا تاجر جاگ اٹھا اس نے کہا فسطاط کے ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی ہو اور چالیس اوقیہ چاندی بھی۔ ابو بکر نے سودا منظور کیا ۔ بلال کو اٹھایا اپنی چادر سے ان کا بدن صاف کیا۔ نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
جب بلال رسول اللہ کے پاس لائے گئے ، انھیں دیکھ کر رسول اللہ کی انکھیں بھر آئیں، حضرت علیؓ جو اس وقت کم سن تھے بولے آپ انھیں دیکھ کر رو کیو رہے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا ْ علی یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہےْ 
رسول اللہ نے بلال کو گلے سے لگایا اور فرمایا ْ بلال جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے اول شخص تم ہوْ 
حضرت ابو بکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گواہ رہئے گا میں نے بلال کو آزاد کیا۔اللہ کے رسول نے صدیقؓ کے حق میں دعا فرمائی۔

ایک مغربی تاریخ دان نے لکھا ہے کہ محمد نے بلال کواپنا فنانس سیکرٹری مقر ر کر دیا تھا۔ لیکن حقیقت تو  یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس فنانس نام کی کوئی شے موجود ہی نہ تھی ۔
نبی اکرم ﷺ کی ہدائت پر بلال نے ایک مفلوک الحال بھائی کو غلہ، کمبل اور کپڑے ادہار لے کر دئے اور اپنی ذات کو یہودی کے پاس رہن رکھ دیا ۔

 حضرت بلال رسول اللہ کا  نیزہ اٹھا کر رسول اللہ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔ اور جب رسول اللہ نماز کے لیے قیام 
فرماتے تو بلال اپنا نیزہ سامنے گاڑ دیا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ قباء تشریف لے جاتے تو بلال کی اذان سے مسلمانوں کو رسول اللہ کی آمد کی خبر ہو جاتی۔ اذان بلالی گویا نبی اکرم ﷺ کے موجود ہونے کا نشان بن گئی تھی ، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب بلال دمشق سے زیارت کے لئے مدینہ تشریف لائے تو صبح کے وقت اہل مدینہ نے وہ اذان سنی جو رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی خبر دیا کرتی تھی تو اہل مدینہ آنسو بہاتے  
ہوئے گھروں سے مسجد کی طرف دوڑ پڑے تھے ۔ 
 حضرت بلال نے خلیفہ دوئم سیدنا عمر بن خطاب کے دور میں بیت المقدس میں بھی اذان دی تھی
حضرت بلال نے یمن میں ہندنامی عورت سے نکاح کا پیغام بھجوایا تو ھند کے گھر والوں نے رسول اللہ ﷺ سے تصدیق چاہی تو انھیں جواب ملا ْ تمھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم ایک جنتی شخص کو اس کی حیثیت سےکم خیال کرو ْ 
حضرت بلال نے عدی بن کعب کے خاندان میں بھی شادی کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ہمشیرہ ان کے نکاح میں تھیں۔ بنو زہرہ میں بھی ان کی زوجہ تھی۔ حضرت ابو درداء کے خاندان کی ایک عورت ان کی زوجہ بنیں۔ اور حضرت ابو بکر کی صاحبزادی کے ساتھ بلال کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے کرایا تھا۔ 

تاریخ انسانیت اور روسائے مکہ نے فتح مکہ والے دن اپنی آنکھون سے دیکھ لیا کہ  ایک غلام ابن غلام ، غربت میں پسا ہوا، رنگ دار بلال  " اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے " کی عملی تفسیر بن کر مقام ابراہیم اور حجر اسود سے بلند تر ، مقدس ترین بیت اللہ ، کی چھت پر کھڑا ہے ۔ 
  اور اپنی   دلپذیر آواز میں بر ملا پکار پکار کر کہہ رہا  ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر

عقائد کا اختلاف

عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔ انسان اس بارے میں کلیتاََ آزاد ہے کہ اپنے دلی یقین کے مطابق جو عقیدہ چاہیے اپنائے اور اپنی نجات جن نظریات پر چاہیے تصور کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ اپنے عقائد کو جبراََ کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کر ے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم و تعدی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا صرف ایک طریق ہے کہ امن و سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہو کر ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہء نظر کو دیانتداری سے سنا جائے اور جو بات ہمارے نزدیک درست نہ ہو بڑے احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جائے۔ مضبوط دلائل سے اپنے مذہب کی حقانیت واضح کی جائے اور دوسرے کے کے نقطہ نظر یا عقیدہ کے نقائص کو ہمدردانہ انداز میں سامنے لایا جائے۔ بےجا الزامات سے گریز کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کریں جس سے نفرت بڑھے۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ہمارے نظریات اور محترم شخصیات کو بُرا بھلا کہا جائے، ہمیں بھی دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چا ہیے۔

منگل، 10 نومبر، 2015

اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے




سعودی عرب کے رہائشی ایک شخص نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا تھا اس فون نمبر پر رابطہ کرو اور فلاں شخص کو عمرہ کراوٴ۔ فون نمبر بڑا واضح تھا۔ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص محلے کی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے بتایا: امام مسجد نے کہا فون نمبر یاد ہے تو پھر اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو۔ اگلے روز اس شخص نے خواب میں بتلایا ہوا نمبر ڈائل کیا ، جس شخص نے فون اٹھایا اس سے ضروری تعارف کے بعد اس نے کہا: مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔ جس آدمی کو اس نے فون کیا وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا کونسے عمرہ کی بات کرتے ہو؟ میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز بھی ادا نہیں کی اور تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!! جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ اس سے اصرار کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی ! میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا۔ خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے وآپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے...... وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو خواب والے شخص نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا... دونوں شخص مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ، انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔ اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔ حرم سے نکلنے لگے تو وہ شخص جو بہت کوشش سے عمرہ کرنے پر آمادہ ہوا تھا کہنے لگا: '' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔'' اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے۔ جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا ..... جب کافی دیر گزرگئی تو اس کے دوست نے اسے ہلایا ... جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے ساتھی کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی.... اپنے ساتھی کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش ! ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا...... اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی..... اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، خواب دیکھنے والے شخص نے اپنے وعدہ کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا.... چند ایام گزرنے کے بعد خواب دیکھنے والے شخص نے اس فوت ہونے والے کی بیوہ کو فون کیا۔ تعزیت کے بعد اس نے کہا : '' میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی نیکی یا عادت تھی کہ اس کا انجام اسقدر عمدہ ہوا۔ اسے حرمِ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی..... بیوہ نے کہا: بھائی تم درست کہتے ہو میرا خاوند کوئی اچھا آدمی نہ تھا۔ اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا۔ اور شراب پینے کا عادی تھا، میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی .... ہاں ! مگر اس کی ایک عادت یہ تھی کہ ''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جہاں اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا، اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ '' یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور ساتھ میرے خاوند کے لئے دعا کرتی: '' اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے'' قارئینِ کرام اسطرح اس بیوہ کی دعا اللّٰہ تعالٰی نے قبول فرمالی۔ اور اس شرابی کا اتنے عمدہ طریقے پر خاتمہ ہوا کہ اس پر ہر مسلمان کو رشک آتا ہے۔ قارئینِ کرام اس بات کو ہمیشہ یاد رکھئے کہ اللّٰہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ..... '' بھلائی کے کام آدمی کو بری موت سے بچاتے ہیں۔'' ('دعاوٴں کی قبولیت کے سنہرے واقعات'' سے ماخوذ)

منگل، 2 دسمبر، 2014

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔

دو فرشتے


بابل میں وہ کنواں دیکھنے کی خواہش پر گائیڈ ہمیں کنویں تک لے گیا اور ہمیں کنویں کے متولی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں دونوں الٹے لٹکے ہوہے فرشتوں کا دیدار کرانا تھا۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ ہماری گناہگار آنکھیں فرشتوں کو دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ مذہبی کتب میں ان دو فرشتوں کا ذکر موجود ہے جو آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان دو فرشتوں کی کہانی یوں ہے کہ یہ لوگوں پر سحر ، کالا جادو اور عملیات وغیرہ کاعمل کیا کرتے تھے اور اس کام کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔پھر ان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ بعض روائت کے مطابق وہ ستارے کی شکل میں آسمان پر ہیں اور متولی کا اصرار تھا کہ وہ اسی کنویں میں الٹے لٹکے ہوے ہیں اور یہ قیامت تک اسی حالت میں رئہں گے۔ یہ روائت بنی اسرائیل کی ان روایات میں سے ہے جن کو اسلام نے بھی اپنا لیا ۔ ما فوق الفطرت چیزیں ، جن ، فرشتے ، سحر اور کہانت انسان کے لیے 
بڑی دلچسپی کے موضوع رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ان چیزوں کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوا ہے کہ ان عملیات 
سے انسانی فطری خواہشات حسد ، کینہ اور انتقام پوری کی جا سکتی ہیں۔ اس تصور کو پھیلانے میں 
الیکٹرانک میڈیا کا بڑا کردار ہے
  ۔ اعتقاد کو مستحکم کرنے میں قصے ، حکایات اور سنی سنائی کہانیاں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنات کی حکایات کا بالائی سرا حضرت سلیمان نبی اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر اس میں تقدس پیدا کیا جاتا ہے اور سحر وجادو کی اہمیت اس سوال کے ذریعے اجاگر کی جاتی ہے کہ " کیا رسول اللہ پر لبید نامی یہودی نے جادو نہ کیا تھا۔" قرآن پاک میں فرعون مصر اور حضرت موسی نبی اللہ کے قصے میں ہے کہ "جادو گروں کے جادو سے انہیں خیال ہوتا ہے۔کہ وہ دوڑ رہے ہیں "۔ (طہ ۔66 ) لفظ خیال غور طلب ہے۔ اعتقاد کے ساتھ جڑی دولت کا اندازہ لگانے کے لیے عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔ جاہلیت کا یہ کھیل طویل مدت سے جاری ہے۔ اور کھلاڑی بار بار المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ان حالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے ، اب تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔جب کوئی منفی عمل فلاش پوائنث بن جاتا ہےتو معاشرہ پر منفی انداز میں اثرانداز ہوتا ہے۔پاکستان چونکہ مخصوص طبقات کے لیے آزاد تر ملک ہے ، اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر مشورہ یہی ہے کہ اپنے خاندان اور خاص طور پر نوجوانوں کو ٹی وی کے ابسے پروگرامز سے دور رکھیں ورنہ منفی اثرات آپ کے گھر کا رخ اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ۔جن کی دسترس میں ہے انھیں عاملوں کے اشتہارات دیواروں پر لکھنے ، اخبار و رسائل میں چھاپنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور میڈیا میں ان حوصلہ شکنی کریں۔ کہ اصلاح کا عمل تمام خیر و بھلائی کی جڑ ہے۔

پیر، 1 دسمبر، 2014

حب اللہ


فرمان الہی ھے 'ھم نے ابن آدم کو مکرم بنایا ۔(بنی اسرائیل: 70) یہ خالق کی اپنی اشرف المخلوقات سے محبت کا اظہار ھے۔ اور جب آدم نے کہا ' اے ھمارے رب ھم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اور اگر تو نے ھمیں معافی نہ دی، اور ھم پر رحم نہ کیا تو ھم بڑے نقصان سے دوچار ھو جائیں گے' ۔ تو یہ مخلوق کی اپنے خالق سے امید تھی، اور امید محبت ھی کے درجے میں ھے۔ اور بنی آدم نے محبت کے عملی اظہار کے لیے اپنی پیشانی کو خاک زمین پر رکھ دیا، اور اقرار کیا کہ اللہ سبحان بھی ھے اور اعلی بھی۔ اور ابن آدم کی اپنے رب کے حضور خاک آلودگی کواللہ کے حبیب نے مومن کی معراج قرار دیا۔ یہ محبت ھی کے قول و افعال ہیں ، جو خالق و مخلوق ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔اور اللہ کے رسول اس پر گواہ بنتے ہیں۔ یہ محبت ھی ھے کہ خالق نے فرمایا ' میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا' اور یہ بھی محبت ھی ھے کہ ' ھم تیری ھی عبادت کرتے ھیں اور تجھ سے ھی مدد چاھتے ہیں۔ خالق کی محبت کی انتہا ہے کہ وہ بنی آدم کے شرک تک کو معاف فرما دیتا ھے۔ بنی آدم کی اپنے رب سے محبت کی انتہا یہ ھے کہ وہ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر کے بھی اعتراف کرتا ھے کہ تیری عبودیت کا حق ادا نہ ھوا۔ اور یہ اعتراف بے چارگی اور عاجزی در اصل حب اللہ ھی ھے۔ صیح بخاری میں ھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے خدمت نبوت میں حاضر ھو کر عرض کیا ' یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی' اللہ کے رسول نے دریافت فرمایا ' تم نے اس کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ھے' صحابی نے ندامت کا اظہار کرتے ھوے عرض کیا کہ ' یا رسول اللہ میرے پاس نہ تو نمازوں کا ذخیرہ ھے نہ روزوں کا اور نہ ھی خیرات و صدقات کا۔ جو کچھ بھی سرمایہ ھے وہ خوف خدا اور اس کی محبت ھے اور بس' اللہ کے رسول نے فرمایا ' انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رھے گا' صدق پر مبنی جذبہ محبت بالاخر محب سے محبوب کو ملا دیتا ھے۔ صدق کے اظہار کے طور پر دعویدار کواپنے دل سے دنیا کی محبت کونکالنا ھوتا ھے ، اور اپنی جہالت کو دور کرنا ھوتا ھے کہ جاھل کو اللہ تعالی اپنا ولی نہیں بناتا ۔ عالم جب اپنے علم کو سنت نبوی کے سراج منیر کے نور سے دھو لیتا ہھے تو اس کا کاسہ دل طاھر و معطر ھو جاتا ھے ۔ اللہ خود جمیل ھے اور جمال کو پسند فرماتا ھے اور اس کی محبت بھی صرف پاکیزہ قلوب میں قرار پکڑتی ھے۔ انسان آگاہ رھے کہ اللہ واحد و احد ھےاور وھاں دوئی کا گذر نہیں ھے لہذا حب اللہ بھی صرف اسی دل میں پنپ سکتی ھے جس دل میں اللہ کی محبت کے سوا کوئی دوسری محبت نہ ھو۔ جب انسان اس مقام تک پہنچ جاتا ھے تو اللہ اس سے اس کے قلب کی 'پاکیزگی کے باعث اس سے اپنی پسندیدگی کا اعلان فرماتا ھے '(التوبہ:108)

جمعہ، 7 نومبر، 2014

خوشی کے راستے

پاکستان میں موٹر وے نئی نئی معرض وجود میں آئی تھی ۔ اسلام آباد سے لاھور کے درمیان سفر کے لیے حد رفتار ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ طے تھی ، جو اس ملک میں نیا تجربہ تھا ۔ یہ رفتار ڈرائیور کی توجہ concentration کی متقاضی ھوتی ھے ۔ موٹر وے سے چھوٹی سڑکیں یا ذیلی راستے نکلتے ھیں، ان ذیلی راستوں پر رفتار کم ھوتی ھے ۔ اگر موٹر وے سے نکل کر ڈرائیور ذیلی راستے پر آ جائے تو رفتارکے کم ھونے پر اس کی concentration بھی کم ھو جاتی ھے اور خود کو ھلکا پھلکا محسوس کرتا ھے ، مزید ارد گرد کی حرکات و الوان اور نظاروں سے بھی زیادہ لطف اندوز ھو سکتا ھے ۔ زنرگی کی موٹروے پر ، ھم اپنا سفر منزل کی جانب جاری رکھتے ھوے ، کبھی کبھار ذیلی راستوں پراتر کر زندگی کی لذت ، مٹھاس اور خوشی سے لطف اندوز ھو سکتے ھیں ۔ خوشی کشید کرنے والے لمحات زندگی کی ان پگڈنڈیوں میں ھی پنہاں ھوتے ھیں ۔ خوشیاں ھمارے ارد گرد موجود ھوتی ھیں اور ھم خوشی کے مواقع حاصل کر سکتے ھیں، حقیقت تو یہ ھے کہ خوشی ھمارے وجود کے اندر موجود ھوتی ھے لیکن ھمیں اس کو کشید discover کرنا ھوتا ھے ۔ خوشی کا تعلق ذھنی حالت سے وابستہ ھے ، اگر ھم فیصلہ کر لیں تو یہ ممکن ھے کہ ھم ھر وقت خوش رھیں ۔ ھر چیز کی ایک قیمت ھوتی ھے اور خوشی کی قیمت یہ ھے کہ ھم زندگی میں سے کشید کرکے خوشی کے مواقع حاصل کريں اور ان سے لطف اندوز ھوں ۔ خوش ھونا اور خوشی سے لطف اندوز ھونا دو مختلف چیزیں ھیں ۔ سمجھنے والی بات یہ ھے کہ جب ھمیں خوشی میسر ھو توھم اس سے لطف اندوز بھی ھوں ۔ ماھرین بتاتے ھیں کہ انسانی ذھن ایک وقت میں ایک ھی سوچ کو قبول کر سکتا ھے ۔ اگر ھم ذھن کو ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل کے نادیدہ خدشات میں مصروف رکھیں گے تو ھمارا ذھن سامنے آنے والی خوشیوں کا موقع گنوا دے گا کیونکہ ذھن تو ایک ھی سوچ 'لمحہ موجود' ھی کو قبول کر سکتا ھے ۔ مایوس اور ذھنی انتشارکے گرداب میں پھنسا ھوا شخص کبھی بھی لمحہ موجود کی خوشی سے لطف اندوز نہیں ھو سکتا کیونکہ وہ موٹر وے پر پوری توجہ مبذول کر کے ایک سو بیس کی رفتار کے باعث ذیلی راستوں اور پگڈنڈیوں کو دیکھ ھی نہیں رھا ۔

بندہ نواز

اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لے اشرفتو کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمنت اور آسمان تمہارے تصرف مںے ہںے: جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہںو بلکہ زمنہ و آسمان مںھ جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعت مںف دے دیا : وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علمل نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کا ۔ اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حققتا کو نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کاب بلکہ اس کو ذللک و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لےو خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمنی پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمنا پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کو سرکاب کائ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پنےن کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)

جمعرات، 6 نومبر، 2014

وقت کی قسم

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن چکی ہوتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔