quran لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
quran لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 13 نومبر، 2015

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔

جمعرات، 6 نومبر، 2014

حسین اور قرآن



امام حسین نے مسلمانوں کے سیاسی ،مذہبی حالات اور اعتقادات بدلنےکی سعی کے خلاف اور امت محمدی میں حقیقی اسلامی روح کو فعال کرنے کے لیے خدا کے حکم "اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی" (13:11) کی تعبیر کے لیے خروج کیا ۔ اور اس عمل کو حج پر ترجیح دی۔ ہر معاشرے کے مقدر کی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے  ۔ اور حکومت رعایا کی سوچ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس قربانی نے نبی پاک کے قول کو سچ کرنے کے لیے کہ " جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے" رعایا اور حکمرانوں کے مابین خون کی لکیر کھینچی۔ امام حسین نے حکم خدا کی تعمیل میں گردنیں کٹائیں ۔اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ (2:208) اور وقت کے منصف نے ان کو سر خرو ثابت کیا۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ (2:267) پر عمل کرتے ہوے نہ صرف اپنا مال و متاع بلکہ اولاد تک کوراہ خدا میں قربان کر دیا۔ جب معاشرے سے امانت کی قدرو قیمت اٹھ جائے اور عدل کی فراہمی معطل ہو پھر خدا کا حکم اترتا ہے ۔ "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ ( 4:58) اور غصب شدہ امانتوں اور مفقود عدل کی بحالی متبرک خونی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ حسین نے نانا کی امت کے لیے نانا کی پیشگوئی کو سچ کر دکھایا۔ دراصل امام حسین رشتہ داروں اور خود اپنی ذات کی قربانی پیش کر کے حکم خدا "اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو (4:135) پورا کر رہے تھے۔ امام حسین نے صلح کی ہر ممکن کوشش کر کے حکم خدا "اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائیل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاﺅ (8:61) پر عمل پیرا ہونے کا فرض بھی نبھایا۔ واقعہ کربلا میں حکم خدا "اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو (49:6) کی اہمیت کی وسعت اور گہرائی کھل کر حقیقت آشنا ہوتی ہے۔ واقعہ کربلا رہتی دنیا تک باآواز بلند پکارتا رہے گا۔ "اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کراﺅ ۔ (49:9) واقعہ کربلا کے اسباق 
۔ اعلی انسانی حقوق کو نہ کہ طاقت کو سماجی زندگی کی بنیاد تسلیم کرتا ہے 2۔ تکمیل ذات اور تکمیل معاشرہ کے لئے قلب وروح اور جسم و اولاد کی قربانی سےہی دونوں جہانوں میں کامیابی وکامرانی ممکن ہوسکتی ہے ۔ 3۔ حق کی راہ پر چلنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے ۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ' حسین' جیسی قربانی شرط اولین ہے۔ 4۔ مطمع نظر محض اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین نہیں بلکہ عدل کو زندگی دینا۔دین کی حرمت کو بچانا اور ظالم کو آشکار کرنا ہو تو شہادت حسین کہلاتی ہے۔ 5۔ مذہب کے بنیادی اصول اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے ذات و خانوادہ قربان کر دیا جائے لیکن تاریخ انسانیت میں یہ فریضہ صرف امام حسین ہی نے ادا کیا۔ 6۔ ایمان ،حیات و موت اور تقدیر اٹل حقیقتیں ہیں۔ 7۔ عبادت ، اخلاق،مقصد اورتقوی کا معیار جتنا ارفع ہو گا۔ قربانی اتنی ہی گہری ہو گی۔ 8۔ طرز حکومت کیسا بھی ہو، فرد کی بر تری کو اہمیت حاصل رہتی ہے 9۔ جن کے پاس زیادہ وسائل ہوں یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وارثتی حق نہیں رکھتے۔ 10۔ سچائی ایک طاقت ہے جس سے یہ اصول رد ہوتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے۔ 11۔انصاف و عدل کے بغیر حکمرانی کا قائم رہنا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ 12۔عقیدے اور اصول زندگی پر سمجھوتا ان کی موت ثابت ہوتا ہے۔  13۔ حسین کی راہ پر چلنے والوں سے ذہنی  آزادی کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا 14۔کسی بھی انسان کو ثبوت کے بغیر مجرم نہیں گردانا جاسکتا اور یہ عمل ظلم ہی ثابت ہوا ہے۔ 15۔ مشاورت پر مبنی انتظامی نظامہی قائم رہ سکتا ہے۔ 16۔ معاشرے کےنام پر فرد کے حقوق کو قربان نہیں کیا جاسکتا ۔