ہفتہ، 28 جون، 2025

سورہ بقرہ آیت 261

سورہ بقرہ آیت 261

تیسری دنیا کے ممالک میں عوام معاشی تنگ دستی اور غربت کا شکار ہیں ۔ سولہ گھنٹے اور دو دو جگہ ملازمت کر کے بھی لوگ مہنگائی کی چکی کے عذاب میں پس رہے ہیں  — ہر جگہ ایک ہی حل بتایا جاتا ہے: محنت کرو، منصوبہ بندی کرو، بچت کرو، اور عقل سے کام لو۔ یہ مادی نقطہ نظر ہے جو اس دور کا سب سے بڑا اصول بن چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہی راستہ زندگی کے بحرانوں سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہے؟

راولپنڈی کے کاروباری مرکز صدر میں ایک چھوٹی سی مسجد کے باہر میں نے اپنی آنکھوں سے ایک ایسا منظر دیکھا، جس نے اس سوال کا عملی جواب دے دیا۔ ایک عورت، جس کی ظاہری حالت بتا رہی تھی کہ غربت اور فاقوں نے اُسے چُور کر رکھا ہے، اُس نے مسجد کے چندہ بکس میں دس روپے ڈالے 
مجھے حیرت ہوئی۔  اُس سے پوچھا  خود گزارا مشکل ہے تو یہ دس روپے کیوں؟ اُس کی کہانی سُن کر مادی سوچ کی دیواریں میرے ذہن میں ٹوٹنے لگیں۔

 وہ بولی کہ چند ماہ پہلے اُس کی بیٹی کی شادی طے ہوئی، لیکن جیب خالی تھی۔ 
جمعہ والے دن لاوڈ سپیکر پر مسجد سے واعظ کی آواز سنائی دی 
"صدقہ اور اللہ کی راہ میں خرچ، غربت اور محرومی کا سب سے بڑا علاج ہے۔"
اس عورت کے بقول، اُس کے پاس اُس وقت صرف دس روپے  تھے۔ اُس نے مادی سوچ کو ایک طرف رکھ کر اللہ کے وعدے پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ آخری دس روپے مسجد کے چندہ بکس میں ڈال دیے۔ اُس کی زندگی بدلی، مدد ملی، بیٹی کی شادی ہو گئی، اور آج بھی وہ روزانہ اسی "تجارت" پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی راہ میں کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اُن کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جسے چاہے کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اور اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔"
(سورۃ البقرہ، آیت 261)

یہ صرف ایک خاتون کی کہانی نہیں، بلکہ پوری تاریخ اس سچ کی گواہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں، چاہے بظاہر حالات کچھ بھی ہوں۔

 حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت (صحیح بخاری، حدیث: 1434)
مدینہ میں قحط پڑا۔ لوگ پیاس اور بھوک سے بے حال تھے۔ حضرت عثمانؓ نے شام سے آئے اپنے تجارتی قافلے کی پوری غلہ بھری گاڑیاں اللہ کی راہ میں دے دیں۔ تاجروں نے زیادہ قیمت کی پیشکش کی، مگر حضرت عثمانؓ نے کہا:
"مجھے اللہ نے اس سے کئی گنا دینے کا وعدہ کیا ہے۔"
تاریخ گواہ ہے کہ اُن کے مال میں ایسی برکت آئی کہ وہ دنیا کے سب سے مالدار مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔

 شیخ سعدی کی حکایت (گلستان سعدی، باب اول)
مشہور فارسی شاعر شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک غریب نے اپنے پاس موجود آخری روٹی کسی بھوکے کو دے دی۔ اُس کے بعد اللہ نے اُسے ایسی جگہ سے رزق دیا، جس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔

 پاکستانی صنعت کار کا واقعہ (روزنامہ جنگ، 12 مارچ 2009)
کراچی کے معروف صنعت کار، جنہوں نے مالی بحران کے دوران لاکھوں روپے یتیم بچوں کی فلاح پر خرچ کیے، چند ماہ بعد اُن کی کمپنی کو سعودی عرب اور یورپ سے بڑے آرڈر ملے، اور وہ دوبارہ مستحکم ہو گئے۔

 بنگلہ دیش کی گارمنٹس کمپنی (بی بی سی اردو، رپورٹ 2017)
ڈھاکہ کی ایک گارمنٹس کمپنی مالی دیوالیہ پن کے قریب تھی۔ مالک نے غریبوں میں راشن بانٹا اور مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ چند ماہ بعد انہیں یورپ اور امریکہ سے آرڈر ملے اور کمپنی سنبھل گئی۔

 انفرادی مثال — لاہور (جیو نیوز، مقامی رپورٹ 2022)
لاہور کے ایک شخص نے مشکل وقت میں اپنی بچت مسجد کی تعمیر اور غریب بچوں کی تعلیم پر لگائی۔ چند ماہ میں اُس کو دبئی میں ایسی ملازمت ملی، جس کی تنخواہ اُس کی سابقہ آمدنی سے دُگنی تھی۔


دنیا کی مادی سوچ ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر وسائل کم ہیں تو بچا کر رکھو، مگر قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر وسائل کم ہیں تو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، کیونکہ اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔

ایمان کی نگاہ رکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا درحقیقت ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا منافع دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔
 ہم عقل اور وسائل کی محدود دنیا میں قید رہ کر زندگی گذار سکتے ہیں اور چاہیں تو اللہ کے وعدوں اور قرآن کی وسعت پر یقین کر کے اپنی زندگی کا رخ بدل بھی سکتے ہیں ۔ 

کوئی تبصرے نہیں: