منگل، 24 جون، 2025

دنیا کی نئی کروٹ




دنیا کی حالیہ سیاست کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ محض واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک گہری اور شعوری تبدیلی کی داستان نظر آتی ہے۔ اس تبدیلی کی سب سے نمایاں علامت امریکہ ہے — وہی امریکہ، جو کبھی دنیا کا واحد سپر پاور کہلاتا تھا، اب تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس کی عالمی ساکھ تماشا بن چکی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی سفارتی سمت گویا اُلٹ گئی۔ انتخابی مہم میں جو لب و لہجہ اور غیر روایتی طرزِ عمل دنیا نے دیکھا، وہ اقتدار میں آنے کے بعد عملی پالیسیوں میں بھی نمایاں رہا۔ ٹرمپ نے پہلا وار اپنے قریبی پڑوسیوں پر کیا۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار کا منصوبہ، کینیڈا کے ساتھ تجارتی معاملات میں سخت گیری، اور شمالی امریکہ کی سیاسی فضا میں تناؤ نے واضح کر دیا کہ 'سب سے پہلے امریکہ' کی پالیسی کا مطلب 'سب کے خلاف امریکہ' بننے جا رہا ہے۔

پھر یورپ کی باری آئی۔ نیٹو جیسے دہائیوں پرانے اتحاد پر کھلے عام تنقید، یورپی ممالک کو 'مفت خور' کہہ کر پکارنا، اور یوکرین جنگ کے معاملے پر غیر سنجیدہ اور متضاد بیانات نے یورپی قیادت کو سخت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ جرمنی، فرانس اور دیگر اتحادی امریکہ کی قیادت پر نہ صرف شکوک کا شکار ہوئے بلکہ بظاہر پہلی بار کھل کر واشنگٹن کی پالیسیوں سے فاصلہ اختیار کرنے لگے۔

ٹرمپ نے محض فوجی یا سیاسی محاذ پر نہیں بلکہ تجارتی میدان میں بھی دشمن بنائے۔ ٹیرف کی شکل میں چین سے تجارتی جنگ کا آغاز، یورپ، ترکی، حتیٰ کہ اپنے اتحادی جاپان تک کو نشانہ بنایا گیا۔ عالمی معیشت میں بے یقینی کی لہر دوڑی، اسٹاک مارکیٹس لرز گئیں، اور عالمی اداروں نے کھلے عام متنبہ کرنا شروع کر دیا کہ دنیا کس خطرناک معاشی راہ پر چل نکلی ہے۔

سب سے زیادہ ڈرامائی صورتحال مشرقِ وسطیٰ میں دیکھنے کو ملی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا، پھر اس کی طرف دوستی کا اشارہ دیا، ساتھ ہی سخت پابندیاں لگائیں۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ خطے میں جارحیت کرے۔ یہاں تک کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں امریکہ نے اتنے یوٹرن لیے کہ خود مذاق بن گیا۔ کبھی جنگ کی دھمکیاں، کبھی امن کی باتیں، کبھی حملے کی تیاریاں، کبھی مذاکرات کی پیشکش۔ دنیا نے دیکھا کہ واشنگٹن اب کوئی باوقار اور مستحکم قیادت نہیں رہا، بلکہ ایک الجھا ہوا، متضاد اور ناقابلِ پیشگوئی کردار بن چکا ہے۔

اس سب کے نتیجے میں امریکہ کی وہ عالمی ساکھ، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بنی تھی، ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ روس، چین، ترکی، ایران، لاطینی امریکہ، افریقی یونین، حتیٰ کہ یورپی یونین میں بھی امریکہ مخالف جذبات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ آج اسرائیل اور بھارت کے علاوہ کوئی بڑا ملک ایسا نہیں جو کھل کر امریکہ کی اخلاقی حمایت پر آمادہ ہو۔

اب امریکہ نے تمام اخلاقی جواز پسِ پشت ڈال کر ایران پر براہِ راست حملہ کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ محض ایک اتفاق ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت کی قیادت واقعی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ سکتی ہے جو مسخرہ، مکار اور ناعاقبت اندیش ہو؟

یہاں ایک گہری حکمت اور قدرت کی چال چھپی نظر آتی ہے۔ میرے اللہ کا کھلا اعلان ہے کہ "سب سے بہتر چال چلنے والا وہی ہے۔" (القرآن)

چین کے صدر شی جن پنگ کی وہ مشہور بات یاد رکھنی چاہیے کہ:
"دنیا امریکہ کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔"

اور آج حالات بتا رہے ہیں کہ دنیا واقعی اس سمت بڑھ رہی ہے۔ روس اور چین کی قیادت میں برِکس اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، نئی تجارتی راہیں، متبادل سفارتی پلیٹ فارمز اور سٹریٹیجک معاہدے ہو رہے ہیں۔

یہ وقت صرف تماشائی بن کر دیکھنے کا نہیں بلکہ اپنی پالیسی، سمت اور صف بندی درست کرنے کا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو ہوش کے ساتھ اپنی جگہ بنانی ہوگی۔ دنیا ایک نئے عالمی نظام کی دہلیز پر کھڑی ہے — اور شاید یہ وہی وقت ہے جس کی خبر قرآن اور دانشمندوں نے دی تھی کہ طاقت اور قیادت ہمیشہ ایک ہاتھ میں نہیں رہتی۔


کوئی تبصرے نہیں: