وقار خاموشی میں ہے
ریل کی پٹڑی پر جب کبھی ایک ڈبہ دھڑام دھڑام کرتا ہوا گزرے، تو ذرا ٹھہر کر سوچئے — کیا واقعی اس میں کچھ ہے؟ نہیں! وہ آواز، وہ شور، صرف اس کے خالی ہونے کی علامت ہے۔
زندگی بھی عجب ریل ہے، جہاں شور وہی مچاتے ہیں جو اندر سے خالی ہوتے ہیں۔
بازار میں جو تاجر اپنی چیزوں کی تعریف میں آسمان سر پر اٹھا لے، اکثر اُس کی چیزیں ناقص ہوتی ہیں، جو مال کوالٹی کا ہو وہ بغیر شور بھی خریدار کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
انسان بھی کچھ اسی قبیل سے ہیں۔ جو اندر سے کھوکھلے ہوں، وہ سب سے زیادہ بولتے ہیں۔ بات بات پر تبصرے، ہر محفل میں شور، ہر لمحے خود نمائی — کیونکہ اُن کے پاس دینے کو کچھ اور نہیں ہوتا۔
لیکن جو اصل محنت کرنے والے ہیں، جو اپنے علم، ہنر، اور کردار سے دنیا بدلتے ہیں، وہ خاموشی کی چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ ان کا وقار ان کی خاموشی سے جھلکتا ہے۔
گیہوں کی بھری ہوئی بالی کو دیکھیے، وہ خاک کی طرف جھکی ہوئی، خاموش کھڑی ہوتی ہے، جبکہ خالی بالیاں ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اتراتی پھرتی ہیں۔
تلوار، جو فولاد کی ہوتی ہے، ہڈی کو چیر دیتی ہے، پر خود خاموش رہتی ہے۔ دوسری طرف طبلہ، جو اندر سے خالی ہوتا ہے، وہ بجتا ضرور ہے، لیکن صرف شور پیدا کرتا ہے۔
زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ دکھاوا عارضی ہوتا ہے، اور خاموش خدمت مستقل اثر رکھتی ہے۔
شہد کی مکھی کی مثال لیجیے — نہ واویلا، نہ خودنمائی۔ پھولوں سے رس چنتی ہے، اور انسانوں کے لیے شفا بھرا شہد تخلیق کرتی ہے۔
یہی فلسفہ ہے وقار کا۔
جو اپنی ذات کی اصلاح میں لگا ہو، جو اپنے ہنر کو نکھارنے میں جُتا ہو، وہ دوسروں کی باتوں پر کان نہیں دھرتا۔
ناکام کرنے والے، حسد کرنے والے، اور کھوکھلے شور مچانے والے، دراصل وہ ہیں جن کی اپنی زندگی بےمعنی ہو چکی ہے۔
لہٰذا اے اہلِ دل —
محنت کو شعار بناؤ،
خاموشی کو وقار،
اور شور مچانے والوں سے بچ کر اپنے سفر پر رواں دواں رہو۔
کیونکہ وقار خاموشی میں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں