ایران پر حالیہ امریکی حملے نے مشرقِ وسطیٰ کی فضا کو ایک بار پھر بارود آلود کر دیا ہے۔ یہ حملہ اچانک نہیں تھا، بلکہ ایک منظم منصوبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز پہلے اسرائیلی اشتعال انگیزی سے ہوا، پھر یورپی یونین کے نام نہاد سفارتی مشوروں سے، اور آخر میں امریکہ کی کھلی عسکری جارحیت سے۔
ایران کو پہلے مذاکرات کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ یورپی یونین نے ثالثی کا لبادہ اوڑھ کر ایران کو جھوٹی امیدوں میں الجھائے رکھا۔ اسی دوران اسرائیل مسلسل اشتعال انگیز اقدامات کرتا رہا، ایرانی سائنسدانوں کے قتل، شام میں ایرانی تنصیبات پر حملے، اور پراکسی جنگوں کا میدان گرم رکھ کر تہران کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں دھکیلتا رہا۔ ایران نے پھر بھی تحمل کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کو یقین دلایا کہ وہ جنگ نہیں، امن کا خواہاں ہے۔
مگر امن کی امید اس وقت کرچی کرچی ہو گئی جب امریکہ نے فوردو، نطنز اور اصفہان جیسے ایران کے تین حساس ترین جوہری مراکز پر حملہ کر دیا۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف ایران کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب لگانا تھا بلکہ یہ ایران کو عالمی سطح پر کمزور کرنے کی ایک کوشش بھی تھی۔
حیرت انگیز طور پر، ایران کی نیشنل نیوکلیئر سیفٹی سسٹم سینٹر نے اعلان کیا کہ ان حملوں کے باوجود کسی قسم کی تابکار آلودگی یا جوہری مواد کا اخراج نہیں ہوا، کیونکہ حساس مواد پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ اعلان نہ صرف ایران کی تکنیکی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ اس کے اس دیرینہ دعوے کو بھی تقویت دیتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔
ایران نے حملے کے فوری بعد جوابی کارروائی سے گریز کیا، مگر یہ گریز کمزوری نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ ایرانی قیادت عوام کے جذبات سے آگاہ ہے اور انہیں اس بات پر مطمئن کیا گیا ہے کہ ردِعمل ضرور ہوگا، مگر اپنے وقت اور طریقے سے۔ آبنائے ہرمز کی بندش، امریکی اڈوں کی فہرست، اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری، سب کچھ ایران کی میز پر موجود ہے — بس انگلیاں ٹرگر پر نہیں رکھیں گئیں، ابھی۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا تو وہ "ناقابلِ برداشت قیمت" چکائے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ حملہ پہلے امریکہ نے کیا ہے۔ ایران پر الزامات لگانے سے پہلے واشنگٹن کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ وہ خود ایک جارح ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے کیوں آ رہا ہے۔
ایرانی مؤقف بالکل واضح ہے: جب اس کے حساس مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی قدم اٹھائے۔ عراق، شام، قطر، بحرین، اور خلیج کی دیگر امریکی تنصیبات اب اس خطرے کی زد میں ہیں، جسے ایران وقتی طور پر روک رہا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔
چین اور روس نے اگرچہ اب تک صرف "تحمل" کی اپیل کی ہے، مگر سفارتی محاذ پر ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے اشارے دے رہے ہیں۔ یہ عالمی قوتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے — اگر اب بھی انصاف اور توازن کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ تنازع ایک عالمی بحران میں بدل سکتا ہے۔
ایرانی عوام نے اپنی حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے، خاص طور پر اس بات پر کہ بروقت حساس مواد کو محفوظ بنا کر ایک ممکنہ تباہی سے بچا لیا گیا۔ اب حکومت نہ صرف اپنے داخلی استحکام میں مضبوط ہے بلکہ اس کے پاس اخلاقی جواز بھی موجود ہے کہ وہ امریکہ کی اس کھلی جارحیت کا جواب دے۔
یہ سب کچھ ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: ایران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں اب ناکام ہونے والی ہیں۔ نہ اسرائیلی چالیں کارگر ہوئیں، نہ یورپی سفارت کاری، اور اب امریکی میزائل بھی ایران کے عزم کو نہیں جھکا سکے۔ ایران نے جنگ شروع نہیں کی، مگر اگر اس پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ اسے ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے — چاہے قیمت کوئی بھی ہو۔
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں