سال تھا 1952ء۔
پاکستان ابھی نو عمر تھا—ایک تازہ آزاد ریاست جو خود اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔ وسائل محدود تھے، ادارے ناتجربہ کار، لیکن دل وسیع، ارادے بلند، اور نظریہ مضبوط تھا۔
اسی سال، شمالی افریقہ کا خوبصورت مگر غلام ملک مراکش فرانسیسی تسلط میں جکڑا ہوا تھا۔ آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ سلطان محمد پنجم نے آزادی کا مقدمہ عالمی فورم پر اٹھانے کے لیے معروف رہنما احمد بالفریج کو اقوامِ متحدہ بھیجا۔ مگر وہاں فرانسیسی وفد نے ان کے خطاب پر اعتراض کر دیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ چونکہ مراکش فرانس کا "زیرِ انتظام علاقہ" ہے، اس لیے بالفریج کو بات کرنے کا حق حاصل نہیں۔
آواز دبانے کی یہ چال ناکام نہ ہوتی—اگر پاکستان درمیان میں نہ آتا۔
حکومتِ پاکستان نے راتوں رات نیویارک میں پاکستانی سفارتخانہ کھولا، احمد بالفریج کو پاکستانی شہریت اور سفارتی پاسپورٹ جاری کیا، اور یوں وہ اگلے دن اقوام متحدہ کے اجلاس میں بطور پاکستانی نمائندہ کھڑے ہو کر مراکش کی آزادی کی صدا بلند کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے مراکشی تحریک آزادی کو بین الاقوامی پذیرائی دلائی—اور یہ وہ بنیاد بنی جس پر دونوں ملکوں کی دوستی کا روشن مینار آج بھی ایستادہ ہے۔
بعد ازاں، مراکش آزاد ہوا۔ سلطان محمد پنجم نے احمد بالفریج کو وزیرِ اعظم مقرر کیا۔ انہوں نے پاکستانی سفارتی پاسپورٹ کو فریم کر کے اپنے دفتر میں آویزاں کیا۔ ہر آنے والے کو فخر سے دکھاتے اور کہتے:
"جب دنیا نے ہمارا ساتھ چھوڑا، پاکستان نے ہمیں پہچان دی۔"
یہ صرف ایک سفارتی اقدام نہیں تھا، بلکہ ایک نظریاتی، اخوت پر مبنی تعلق کی بنیاد تھی—دو ایسی قوموں کے درمیان، جنہیں اسلام، استقامت، اور انصاف سے محبت ہے۔
پاکستان آج بھی معاشی چیلنجز کا شکار ہے، قرضوں کا بوجھ، مہنگائی، سیاسی کشمکش—سب کچھ ہے۔ لیکن قلبی تعلقات میں پاکستان ہمیشہ امیر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے "دوست ممالک" آج بھی اس کا نام احترام، محبت اور اعتماد سے لیتے ہیں۔ مراکش ان میں سے نمایاں ترین مثال ہے۔
پاکستان اور مراکش کے تعلقات محض ایک پاسپورٹ یا ایک تقریر تک محدود نہیں رہے۔ وقت کے ساتھ یہ تعلقات:
-
سیاسی اعتماد میں بدلے؛ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
-
ثقافتی میل جول میں ڈھلے؛ مراکشی علما، فنکار اور طلبہ پاکستان آئے، پاکستانی علما اور اسکالر مراکش گئے۔
-
معاشی شراکت داری کی طرف بڑھے؛ دو طرفہ تجارتی معاہدے، مشترکہ بزنس کونسلز اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے گئے۔
مراکش نے کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی، اور پاکستان نے فلسطین سمیت تمام مسلم ممالک کے عوامی حقوق کی حمایت میں مراکش کا ساتھ دیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں