ٹھاکر اور ٹھوکر میں فرق
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کے نوجوانوں کی محنت، جذبے اور دیانت پر ہوتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نوجوانوں میں کام چوری، سستی اور بیزاری کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ روش نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ ہماری قومی ترقی کے خواب کو بھی چکنا چور کر رہی ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوموں کی عروج و زوال کی کہانی نوجوانوں کی کارکردگی سے جڑی ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں نوجوان علم، محنت اور جہاد میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے دنیا کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنایا۔ برعکس اس کے، جب مسلمانوں کے نوجوان عیش و عشرت اور کاہلی کا شکار ہوئے تو زوال نے انہیں آ لیا۔
مذہبی تعلیمات بھی کام چوری کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں واضح ارشاد ہے:
"اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔"
(النجم، 39)
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
"جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہے، وہ اللہ کا محبوب بندہ ہے۔"
(مسند احمد)
اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ محنت عین عبادت ہے اور سستی گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
دانشوروں کے اقوال بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں:
"جب تک انسان عمل میں مصروف ہے، شیطان اس پر قابو نہیں پا سکتا۔"
علامہ اقبال نوجوانوں سے امید لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
"محنت کشوں کا جہاں اور ہے، خواب دیکھنے والوں کا جہاں اور ہے۔"
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان اپنے اندر محنت اور جفاکشی کا جذبہ پیدا کریں۔ کام چوری سے توبہ کریں اور خود کو علم، فن اور عمل کے میدانوں میں ثابت کریں۔ کیونکہ وقت اور محنت وہ خزانے ہیں جنہیں ضائع کرنا، اپنے مستقبل کو دفنانے کے مترادف ہے۔
یاد رکھیں:
“محنتی ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتے اور سست لوگ کبھی اونچا مقام حاصل نہیں کرتے۔”
اگر آج ہم نے نوجوانوں میں کام کی عظمت کا شعور بیدار نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں