شام — انبیاء، اولیاء اور قربانیوں کی سرزمین
شام... محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ روحانیت، نبوت، ولایت اور قربانی کی وہ زمیں ہے جو صدیوں سے اللہ والوں، اہلِ عرفان، اور انبیائے کرامؑ کے قدموں کا بوسہ لیتی آئی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جسے نبی کریم ﷺ نے "برکت والی زمین" قرار دیا، جہاں کے لیے دعا کی، جہاں انبیاء نے زندگی بسر کی، اور جہاں اسلام نے اپنی روحانی روشنی سے دنیا کو منور کیا۔
بلادِ شام
بعثتِ محمدی ﷺ کے وقت بلاد الشام کا مفہوم آج کے شام تک محدود نہ تھا، بلکہ اس میں موجودہ شام، لبنان، اردن، فلسطین، اسرائیل، عراق کے مغربی علاقے، اور ترکی کے کچھ جنوبی حصے شامل تھے۔ یہ خطہ انبیاء کی سرزمین تھا، اور آج بھی ان کے آثار اور مزارات اس کی مٹی کو مقدس بنائے ہوئے ہیں۔
احادیث میں شام کی روحانی عظمت
رسولِ اکرم ﷺ نے شام کے لیے فرمایا:
"شام برکت والی زمین ہے"
(سنن ابی داؤد)
"فرشتے شام پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں"
(صحیح بخاری)
"حضرت عیسیٰؑ کا نزول دمشق کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا"
(صحیح مسلم)
"دجال شام و عراق کے درمیان ظاہر ہوگا"
(مسند احمد)
ان ارشادات میں شام کو محض ایک علاقہ نہیں بلکہ قربِ قیامت کے اہم ترین واقعات کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا شام سے تعلق
نبی کریم ﷺ نے اپنی جوانی میں بصریٰ، حلب اور دمشق کے تجارتی سفر کیے۔ آپ ﷺ کا سفر بصریٰ میں راہب بحیرا سے ملاقات کا ذریعہ بنا — جس نے آپ ﷺ میں نبوت کی علامات پہچانیں۔
وفات سے قبل آپ ﷺ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں شام کی طرف لشکر روانہ کیا، گویا آپ ﷺ نے شام کے دروازے پر امت کی اگلی تاریخ لکھنے کا آغاز کیا۔
شام میں مدفون اسلامی ہستیاں
شام کی روحانی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت وہاں موجود صحابہ، تابعین، اولیاء، اور اہلِ بیت کے مزارات ہیں:
دمشق:
حضرت ابودرداءؓ — جلیل القدر صحابی، فقیہ اور زاہد
حضرت بلال حبشیؓ — مؤذنِ رسول ﷺ (روایت ہے کہ شام میں انتقال ہوا، مدفن دمشق میں ہے)
حضرت اویس قرنیؓ — مشہور تابعی، جن سے نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو دعا کی تلقین کی
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ — دامادِ رسول ﷺ
حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ — حضرت علیؓ کی بیٹی
حلب:
حضرت زین العابدینؒ — امام سجاد، کچھ اقوال کے مطابق مختصر قیام کے بعد شہادت کے بعد ان کا جلوس حلب سے گزرا
حضرت خولہؓ بنت حسین — روایت ہے کہ کربلا کے قافلے کی اسیر خواتین میں شامل تھیں، حلب کے نواح میں مدفن ہے
حمص:
حضرت خالد بن ولیدؓ — سیف اللہ، اسلام کے عظیم جرنیل
حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ — عشرہ مبشرہ میں شامل، شام کے پہلے گورنر
بصریٰ:
حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ — بانی خلافتِ امویہ، دمشق میں مدفون
حضرت ہندہؓ بنت عتبہ — صحابیہ، حضرت معاویہؓ کی والدہ
خلافتِ راشدہ سے خلافتِ امویہ تک
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں شام کی فتوحات کا آغاز ہوا
حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں یرموک کی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی
حضرت عمرؓ کے عہد میں بیت المقدس اور دمشق اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے
سن اکسٹھ ہجری میں خلافتِ امویہ قائم ہوئی، اور دمشق دارالخلافہ بنا
دمشق — علم، عرفان اور خلافت کا گہوارہ
اموی دور میں دمشق نہ صرف سیاسی مرکز تھا بلکہ علم، تصوف، فقہ، حدیث، اور روحانی تربیت کا مرکز بھی۔
یہاں کے مدرسے، خانقاہیں، کتب خانے اور علمی حلقے صدیوں تک دنیا کی رہنمائی کرتے رہے۔
جدید شام: خانہ جنگی اور روحانی ورثے پر حملہ
خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد فرانسیسی قبضے نے روحانی اور دینی اداروں کو کمزور کیا
دو ہزار گیارہ سے شام میں خانہ جنگی جاری ہے — لاکھوں شہید، شہر کھنڈر، اور مزارات کی بے حرمتی
احمد الشراع — اسرائیلی حمایت یافتہ حکمران
دو ہزار چوبیس میں احمد الشراع کو اسرائیل و امریکہ کی حمایت سے صدر بنایا گیا۔
مزارات پر حملے، مدارس کی بندش، اور دین پسند طبقات کی جلاوطنی میں اضافہ ہوا
شام — آج بھی نور کا مرکز
آج اگرچہ شام کی گلیاں ملبے سے بھری ہیں، مساجد خالی اور کتب خانے خاموش ہیں — لیکن حضرت بلالؓ کی اذان کی بازگشت، حضرت خالدؓ کی شمشیر کی گونج، اور حضرت ابودرداءؓ کی دعاؤں کی روشنی اب بھی اس سرزمین پر سایہ کیے ہوئے ہے۔
یہ وہی زمین ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا،
یہی وہ مٹی ہے جسے نبی کریم ﷺ نے برکت والی قرار دیا،
یہی وہ وادیاں ہیں جہاں آخری معرکے لڑے جائیں گے۔
شام ۔۔۔۔ جہاں آسمان جھکتا ہے
شام صرف ایک ملک نہیں —
یہ ماضی کا چراغ ہے، حال کی آزمائش ہے، اور مستقبل کی بشارت ہے۔
یہ وہ زمین ہے جسے جتنا روندھا جائے، اتنا ہی اس کا نور ابھرتا ہے۔
انبیاء کے قدموں کی خاک، اولیاء کی دعائیں، صحابہ کی قربانیاں —
یہ سب شام کے آسمان کو جگمگاتے رہیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں