شام اور اسرائیل — ایک سلگتی سرحد سے آگے کی کہانی
شام اور اسرائیل کا تعلق محض دو ریاستوں کی جغرافیائی کشمکش نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں دھڑکتا ہوا ایک ایسا زخم ہے جو سات دہائیوں سے نہ صرف شام کی قومی روح کو زخمی کر رہا ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور وحدت کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔ اس تنازعے کی بنیادیں ماضی کی تاریخ میں گہری پیوست ہیں، اور اس کی گونج آج بھی دمشق کی ویران گلیوں، گولان کی خاموش چوٹیوں، اور اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں میں سنائی دیتی ہے۔
اسرائیل کا قیام — شام کے زخموں کی شروعات
سن 1948 میں جب اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر کے ریاست کے قیام کا اعلان کیا، تو شام ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے سفارتی مخالفت کی تھی اور اس ردعمل کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی اور انسانی رشتہ تھا۔
صدیوں سے فلسطین شام کا حصہ رہا تھا۔ دونوں سرزمینوں کے درمیان خونی رشتے، تجارتی روابط اور روحانی تعلقات موجود تھے۔ فلسطین میں "نقبہ" کے نام پر جو قیامت ٹوٹی، جس میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا، ان کے اثاثے لوٹے گئے، اور انہیں دربدر کیا گیا — وہ سب کچھ شام کے عوام کے دل میں خنجر کی طرح پیوست تھا۔
شام نے فلسطینیوں سے اخوت اور ہمدردی کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا۔ اور اعلان کیا کہ اسرائیل کے ۔ اقدامات غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانیں کی کھلی خلاف ورزی ہے
اس موقع پر اسرائیل نے موقف اپنایا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور جو ممالک اس کے وجود کے لیے ان پر
Preemptive strike
کا اسرائیل کو حق حاصل ہے ۔ مغربی ممالک نے اسرائیل کے اس حق کو تسلیم کیا ا یہ وہی حق ہے جو اب اسرائیل نے ایران کے خلاف جارحیت کر کے
اپنایا ہے ۔
گولان کی پہاڑیاں — دفاعی حصار، قومی غیرت
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ دراصل اسی اجتماعی خوف کا اظہار تھی جس میں عرب دنیا کو یقین ہو چلا تھا کہ اگر آج فلسطین چھینا گیا ہے، تو کل ان کے اپنے دروازے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی حمایت کے سائے تلے شام کے انتہائی اہم علاقے — گولان کی پہاڑیوں — پر قبضہ کر لیا۔ یہ پہاڑیاں محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ شام کے دفاع، آبی وسائل اور عسکری توازن کا مرکز تھیں۔ ان کا چھن جانا شام کے لیے ایک ذاتی سانحہ تھا، جو قومی غیرت اور خودمختاری پر حملے کے مترادف تھا۔
شام نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اداروں سے انصاف کی اپیل کی، مگر جلد ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اسرائیل مغرب کا وہ لاڈلا ہے جس کے خلاف نہ کوئی قرارداد اثر رکھتی ہے، نہ کوئی قانون۔
اس کے بعد شام نے عراق اور مصر کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جس کا نتیجہ 1973 کی رمضان جنگ کی صورت میں نکلا۔ شامی افواج نے ابتدائی طور پر حیرت انگیز پیش قدمی کی، اور گولان کے کچھ حصے واپس لیے۔ مگر مغربی امداد نے ایک بار پھر اسرائیل کو طاقتور بنا دیا، اور شام کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
آج بھی گولان کی پہاڑیاں شام کے لیے صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ قومی غیرت، قدرتی وسائل، اور مسلسل مزاحمت کی علامت ہیں۔
پراکسی جنگیں — خفیہ مداخلت اور کھلا کھیل
انیس سو بیاسی سے دو ہزار چھ تک کا عرصہ شام اور لبنان کی سرزمین پر پراکسی جنگوں کا دور رہا۔ اسرائیل نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف براہِ راست عسکری حملے کیے بلکہ شام کے اندرونی معاملات میں بھی خفیہ مداخلت کی۔
اسرائیل نے بعض شدت پسند جہادی گروہوں کو اسلحہ، انٹیلیجنس اور مالی وسائل فراہم کیے تاکہ شام کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔ یہ چالاک منصوبہ بندی وہ آہستہ زہر تھا جس نے شام کے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔
دو ہزار گیارہ میں خانہ جنگی کا آغاز اسرائیل کے لیے ایک نیا موقع بن کر ابھرا۔ ایران، حزب اللہ اور شامی حکومت کو خطرہ قرار دے کر اسرائیل نے درجنوں فضائی حملے کیے۔ ساتھ ہی بعض "معتدل باغی" گروہوں کی حمایت کی گئی، جو بعد میں شدت پسند بن کر ابھرے، مگر اسرائیل اور مغرب کے مفادات کے لیے "کارآمد" ثابت ہوئے۔
اسرائیل کا وتیَرہ ہمیشہ یہی رہا ہے: جو جرم خود کرے، اس کا الزام دوسروں پر لگا دے۔ وہ شام پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے، مگر خود شامی سرزمین پر مسلسل دراندازی، حملے اور پراکسی کھیل کھیلتا رہا ہے۔
نئی قیادت، پرانے سوالات — احمد الشراع کا دور
بشار الاسد کے طویل اقتدار کے بعد 2023 میں احمد الشراع شام کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے انتخاب کو مغرب اور اسرائیل نے "نئی مشرقِ وسطیٰ" منصوبے کا حصہ قرار دیا۔
ان کے دور میں
ایران اور حزب اللہ سے فاصلہ بڑھا
اسرائیل سے درپردہ روابط قائم ہوئے
مغربی امداد کے بدلے پالیسی میں نرمی اختیار کی گئی
یہ تمام اقدامات عوامی سطح پر شدید تنقید، احتجاج اور بے چینی کا سبب بنے۔ کیونکہ شامی عوام آج بھی فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف پرعزم ہیں۔
شامی عوام — زخم ابھی بھرے نہیں
اگرچہ حکومت نے پالیسی میں لچک دکھائی، مگر عوام کا دل آج بھی 1948 کے دکھ سے لبریز ہے۔
وہ گولان کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں
فلسطینیوں کی حمایت ان کی روح کا حصہ ہے
اسرائیلی اثر سے نجات ان کا نصب العین ہے
دمشق کی سڑکوں پر آج بھی وہی جذبات زندہ ہیں، جو اُس وقت تھے جب پہلی بار فلسطینی خاندان اپنا سب کچھ لٹا کر شام کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔
ایک سلگتی ہوئی جنگ کا تسلسل
شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تاریخ پچھتر برس سے زائد کی مسلسل کشمکش پر مشتمل ہے
جنگ،
سفارت کاری،
پراکسی،
خفیہ سازشیں،
اور عالمی طاقتوں کی مداخلت
یہ سب مل کر ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جس میں عوامی امن سب سے بڑا ہارنے والا ہے۔
جب تک:
گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں ہیں،
فلسطینی عدل سے محروم ہیں،
شامی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا جاتا —
تب تک شام اور اسرائیل کے درمیان "امن" صرف ایک فریب، ایک خوش فہمی اور ایک کاغذی خواب ہے۔
دیوار پر لکھی حقیقت:
اب 2025 میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ جنگی حکمت عملی نے ثابت کر دیا ہے ۔ کہ اس کا پری ایمپٹو والا فارمولا نہ صرف 1948 سے کامیاب ہے بلکہ اب بھی ایران کے خلاف جارحیت کر کے اس نے ثابت کر یا ہے کہ مغرب اب بھی اس کے بینایے کو مانتا ہے اور اسے نافذ کرنے میں عملی طور پر اس کے ساتھ بھی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں