دو ریاستی حل: امن کی راہ یا ایک خواب؟
ایسا خطہ جہاں دہائیوں سے خونریزی، محاصرے اور وعدہ خلافیاں معمول بن چکی ہیں، وہاں دو ریاستی حل آج بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن کے لیے سب سے موزوں تصور سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس راہ پر چلنا اب تک ایک مشکل اور کٹھن سفر رہا ہے۔
اس تصور کی بنیاد 1947 میں پڑی، جب اقوام متحدہ نے برطانوی زیرانتظام فلسطین کو دو علیحدہ ریاستوں — ایک یہودی اور ایک عرب — میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ یہودی قیادت نے اسے قبول کرلیا، مگر عرب دنیا نے مسترد کر دیا۔ نتیجہ جنگ، نقل مکانی اور آج تک جاری رہنے والا تنازعہ نکلا۔
تب سے لے کر اب تک، ہر بڑی سفارتی کوشش — جیسے اوسلو معاہدے (1993) اور عرب امن منصوبہ (2002) — اسی خواب کی طرف لوٹتی ہے۔ لیکن یہ خواب ہمیشہ آباد کاری, سیکیورٹی کے خدشات اور قیادت کی ناکامیوں کے سبب حقیقت نہ بن سکا۔
2023 کے غزہ تنازع کے بعد، عالمی سطح پر دو ریاستی حل کے مطالبات میں شدت آئی ہے۔ اس تناظر میں فرانس اور سعودی عرب نے نمایاں سفارتی کردار ادا کیا ہے۔
فرانس کا نیا سفارتی اقدام
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کی تجویز دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف دو ریاستی حل ہی فلسطینیوں کو انصاف اور اسرائیلیوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ فرانس نے غزہ کے لیے امداد میں اضافہ کیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ اگر مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو وہ فلسطین کو باقاعدہ ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کا فیصلہ کن مؤقف
سعودی عرب، جو 2002 کے عرب امن منصوبے کا بانی ہے، اس نے حالیہ دنوں میں واضح سفارتی پیغام دیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات چیت کے دوران، ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی سفارتی تعلق ممکن نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔
طویل مگر ضروری سفر
امن کا نقشہ موجود ہے، مگر راستہ ابھی بھی سیاسی رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ پھر بھی اگر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو، اور سعودی عرب و فرانس جیسے ممالک سنجیدہ سفارتی کردار ادا کرتے رہیں، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دو ریاستی حل ایک خواب سے نکل کر حقیقت بن جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں