جمعرات، 31 جنوری، 2019

تھوڑی سی معقولیت

ترجیحات کا مسئلہ

بقائے جمہوریت اور آزادیٔ صحافت

آصف علی بھٹی



کہاجاتا ہےکہ صحافت کے بغیر جمہوریت کی بقا ممکن نہیں اور آزادیٔ صحافت کا مطلب ہے کہ جمہوریت جاری رہے اور منتخب لوگ عوام کے اعتماد سےترقی وفلاح کا کام کرتے رہیں۔ جس ریاست یا معاشرے میں آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے وہاں جمہوریت کی سانسیں بھی بند ہوجاتی ہیں۔ بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جہاں اقتدار حاصل کرلیاجاتاہے مگرسچ سننا اور برداشت کرنا تو درکنار سچ وحقیقت کی تلاش بھی جرم بن جاتی ہے۔ ایسی جمہوری حکومتیں عوام پر حکمرانی کا حق تو جتاتی ہیں لیکن خود احتسابی اور تنقید سےبچنےکےلئے زبانِ خلق کو گنگ رکھنا چاہتی ہیں۔حقیقت یہ ہےکہ نیت،مقصد اور جدوجہد نیک ہو تو کسی کاخوف نہیں رہتا بلکہ سوال مثبت ہو یا منفی، غلط ہو یا درست، مثبت سمت سے گمراہ نہیں کرسکتا اورنہ منزل سے بھٹکا سکتاہے۔شومئی قسمت کہ ہم گزشتہ دس سال سے جمہوریت کا پہیہ کامیابی سےچلانے کے دعویدار تو ہیں لیکن جمہوریت کےرکھوالے اور سلامتی کے ضامن صحافتی کردار کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے فخر محسوس کررہے ہیں۔یہ سب کچھ وہاں ہورہاہے جس ملک کےبانی جناب محمدعلی جناح نے خود آزادیٔ اظہار اور صحافت کی آزادی کاسرخیل بن کر اپنی جدوجہد کو پوری قوم کی فتح میں تبدیل کیا۔ 1947ء کی جدوجہدِ آزادی سے بہت پہلے ہی جنگ، منشور، زمیندار، انجم اور برصغیر پاک و ہند کےدیگر جریدوں نے مسلمانانِ ہند کی الگ ریاست کے قیام کا عَلم اپنی خبروں، اداریوں، بحث مباحثوں اور تصویروں سےبلند کردیاتھا، ایسے میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خود پریس کی آزادی کےلئے میدان میں آگئے۔1910ءمیں امپیریل لیجیسلیٹیو کونسل کا ممبر بننےکےبعد بطور قانون دان حکومت کے آزادی صحافت کو دبانے کے ’’پریس ایکٹ‘‘ کی مخالفت کی۔ آپ اس قوم کے پہلے اور واحد رہنما ہیں جس نے انگریزوں، ہندوئوں اور عالمی استعمار کی سیاسی، صحافتی و عددی مخالفت اور پروپیگنڈے سے نمٹنے کےلئے 7جون 1937ء میں پہلا آزاد پریس فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو 1939ء تک پورے برصغیر میں فعال ہوگیا۔ قائد اعظم نے شہر شہر جاکر 1لاکھ 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کے فنڈز اکٹھے کئے،1941 میں قائد اعظم نے انگریزی زبان کےجریدے کو اپنی اور قوم کی آواز اور آئینہ قراردیا۔قائد اعظم محض آزادجمہوری ریاست کے موجد ہی نہیں تھے بلکہ آزاد صحافت کے بھی سرخیل تھے۔ 12مارچ 1947 میں بمبئی کی صوبائی مسلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن سےخطاب میں واضح کردیاکہ صحافیوں کےپاس عظیم طاقت ہے،وہ عوام کی نظر میں کسی بڑی شخصیت کو بنا اور بگاڑ سکتےہیں۔پریس کےپاس عظیم طاقت محض’’ اعتماد‘‘ ہےجس کےحصول کےلئے پوری ایمانداری اور مخلصانہ انداز میںمکمل طور پر بلا خوف و خطرکام کریں۔وہ آزاد صحافت کی خاطر خود پر تنقید کوبھی خوش آمدید کہتےہیں، وہ یا مسلم لیگ، پالیسی یا کسی منصوبے کےمعاملے پر کوئی بھی غلطی کریں تو انہیں تنقید کانشانہ بنایاجائے وہ اس کو دوستانہ انداز میں برداشت کریں گے۔
قارئین! اندازہ لگائیں کہ عظیم قائد ایسے نازک موقع پر جب وہ خالی ہاتھ محض عوام کی سپورٹ اور اپنے بےداغ کردار سے علیحدہ سرزمین کےحصول کےمشکل ترین مرحلےمیں سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہو،اپنی سیاسی جدوجہد کی کامیابی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کےلئے آزاد میڈیا کی بنیاد رکھ رہاہے لیکن آزادی کےبعد ڈکٹیٹرشپ اور جمہوری حکومتیں محض اقتدار کےلئے آزادیٔ اظہار پر کیسے کیسے کڑے پہرے اور قدغن لگاتی رہی ہیں، ماضی کے بعض واقعات سے شاید اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں،آج بھی اپنے اقتدار کو برقرار اور مضبوط رکھنے کے لئےحقِ تنقید ہی نہیں حقِ زندگی بھی چھینا جارہاہے۔
قارئین کرام! نیا سال مبارک ہو، نیا طرز سیاست اور حکومت مبارک ہو، نیا پاکستان مبارک ہو،قوم شکر گزار ہےکہ وطن عزیز میں جمہوریت قائم ہے، ریاستی ادارے آزاد اور فعال ہیں، احتساب کا عمل بلاتخصیص جاری ہے۔
لیکن یہاں توحد یہ ہےکہ بانی قائد نےجس پاک دھرتی کی جدوجہد میں آزاد و بلا خوف صحافت کی بنیاد رکھی اور آزاد و پیشہ ور اداروں کو مضبوطی سےسچائی پر قائم رکھنےکےلئےمتحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ جاکر فنڈز اکھٹے کئے، اسی پاک سرزمین میں صحافتی اداروں اور کہنہ مشق صحافیوں کو دیوار سےلگایاجارہاہے۔ پاکستان میں اپنی محنت اور کوششوں کےبل بوتے پر تیز رفتار ترقی اور مقام بنانے والےالیکٹرونک میڈیا کو وطن عزیز کے روشن چہرے اور حکمرانوں کی کوتاہیوں کو دکھانے سے روکنے کےلئے کوڑی کوڑی کامحتاج کیاجارہاہے۔ گزشتہ جمہوری دور میں وفاق اور صوبوں نے اخبارات اور چینلزکو8ارب کےاشتہارات دئیے مگر جمہوری تسلسل کے نئے حکمران ان جائز ادائیگیوں کو بھی تیار نہیں۔ نتیجتاً قیامِ پاکستان کے لئے بھرپور کردار اداکرنے والے صحافتی اداروں کا کاروبار ٹھپ، آزادیٔ اظہار کے علمبردار خاموش اور عوام کو حق وسچ سے آگاہی دینے والے سینکڑوں عامل صحافی بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں محض صحافت کو ذریعہ معاش وروزگار بنانے والے ادارے لاچار اور ہدف تنقید ہیں۔ صحافتی پیشے کی بے بسی نوشتۂ دیوار ہے۔ریاست کے چوتھے ستون کو ہٹاکر آپ سب ایک دن اپنے گناہوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو جائیں گے اور پھر اس عمارت کو کھڑا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والےجمہوری ملک امریکہ کا آئین1787 ء میں بنا جس کی پہلی شق ہی آزادیٔ اظہار ہے، جو اسکول کےبنیادی نصاب میں بچوں کو پڑھانا لازمی ہے، اسی جمہوری ریاست میں چوتھے منتخب صدر جیمز مڈیسن نے کینٹکی کےگورنر کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ ایک مقبول حکومت اطلاعات یا اطلاعات دینے والے صحافتی اداروں کی عدم موجودگی سے مذاق اور سانحات کا شکار ہو سکتی ہے، عوام کو آزاد معلومات سے مسلح کریں، وہ آپ کو اپنا سمجھیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ نئے سال کی شروعات پر ہم عزم کریں کہ اپنے ارادوں کو مضبوط اور دلوں کو کشادہ کریں گے، نئے پاکستان کی تعبیر کیلئے سچائی سننے کی ہمت اور تنقید سہنے کی برداشت پیدا کریں گے۔ تالے بندیوں اور گردن زنی کے آمریتی ہتھکنڈوں سے نجات پا لیں گے اور حق اور سچ کو آشکار ہونے دیں گے کیونکہ جھوٹ اور گمراہی ہی زوال کے بنیادی اسباب ہیں۔

بدھ، 30 جنوری، 2019

عثمان بزدار کی سادگی اور ’’حرکت تیز تر‘‘ ماڈل

عثمان بزدار کی سادگی اور ’’حرکت تیز تر‘‘ ماڈل
عثمان بزدار کو مبارک ہو۔ اپنے کپتان کی خواہش کے مطابق وہ ’’وسیم اکرم پلس‘‘ تو نہیں بن پائے مگر تحریک انصاف کے شدید ترین ناقد بھی ان سے ہمدردی محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اُڑاتی کلپس کی بھرمار سے اُکتاگئے ہیں۔بزدار صاحب سے ہمدردی جتانے والے اب یاد دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ موصوف کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ترین علاقے سے ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے حکمران بن جانے کے بعد ان میں غرور نہیں آیا۔ اپنی سادگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سادگی کہیں سے بھی پرکاری نظر نہیں آتی۔ ’’ممی ڈیڈی برگرز‘‘ مگر شہری تعصب میں مبتلا ہوئے اس ’’پینڈو‘‘ کو طنز ومزاح کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔اپنی بات بڑھانے سے قبل اعتراف کرتا ہوں کہ ذاتی طورپر میں بھی بزدار صاحب کی تضحیک مناسب نہیں سمجھتا۔ میری فکر تو یہ ہے کہ ان کی سادگی پر فوکس کرتے ہوئے ہم پنجاب کی سیاست کے حوالے سے کئی اہم ترین پہلو اور سوالات نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔میری دانست میں اہم ترین بات یہ جاننا ہے کہ عثمان بزدار سے ’’اصل شکایت‘‘ کیا ہے اور یہ کن لوگوں کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ ان لوگوں کی نشاندہی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذہن میں رکھیں کہ شہباز شریف 2008ء سے 2018ء تک مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے شہباز شریف کا رویہ اپنی جماعت کے ایم پی ایز کے ساتھ بہت دوستانہ نہیں تھا۔ ترقی اور گڈگورننس کا جو ماڈل انہوں نے متعارف کروایا اسے سیاست کے سنجیدہ طالب علم 
Top Down Model
پکارتے ہیں۔ اس ماڈل پر عمل کرنے والا سیاست دان اپنے گرد بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کا ایک Core Group
اکٹھا کرتا ہے۔ اس گروپ کی معاونت سے میٹروبس جیسے میگا پراجیکٹس بنائے جاتے ہیں۔انڈر پاسز اور اوورہیڈ پلوں کے ذریعے شہروں کی ایک ’’جدید‘‘ تصویر بنائی جاتی ہے۔یہ ماڈل ’’حرکت تیز تر ہے…‘‘ والی کیفیت 24/7بنیادوں پر برقرار رکھتا ہے۔’’حرکت تیز تر ہے…‘‘ والی کیفیت نے گجرات سے ساہی وال تک پھیلے وسیع ترین وسطی پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کا ایک بہت ہی مضبوط ووٹ بینک تشکیل دیا ہے۔ نواز شریف کی نااہلی اور شہباز شریف کی کرپشن الزامات کے تحت گرفتاری اس ووٹ کو متاثر نہیں کر پائی ہے۔ اسی باعث
 PMLN
میں فارورڈ بلاک کا قیام بہت دشوار نظر آرہا ہے۔یہ بلاک قائم نہ ہوا تو پنجاب میں تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ (ق) جیسے اتحادیوں کی محتاج رہے گی۔ مستحکم نہ ہوپائے گی اور آئندہ انتخابات کے دوران اس کے ٹکٹ پر کھڑے امیدواروں کو اتنے ووٹ اور سیٹیں حاصل کرنا بھی دشوار تر ہوجائے گا جو اسے اگست 2018ء میں میسر ہوئی تھیں۔ ’’مائنس نواز‘‘ ہوجانے کے باوجود وسطی پنجاب میں ان کے نام سے منسوب جماعت کا ووٹ بینک اصل مسئلہ ہے جسے کمزور کرنے میں بزدار صاحب کوئی کردار نہیں ادا کر پائے۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ مذکورہ ووٹ بینک کو تحریک انصاف کی جانب راغب کرنے کے لئے چودھری سرور یا علیم خان کیا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان دونوں کو ہر حوالے سے ’’فری ہینڈ‘‘ میسر ہے۔ لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد کئی برس تک تحریک انصاف کی جاندار پہچان رہی ہیں۔وہ ایک بااختیار وزیر صحت بھی ہیں۔ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مگر انہوں نے وسطی پنجاب میں صحت عامہ کی سہولتوں میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں نہیں دکھائیں۔ تحریک انصاف کے ہر حوالے سے مہربان کہلانے کے مستحق عزت مآب ثاقب نثار بھی ان سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے رخصت ہوئے۔ وسطی پنجاب کے لئے تحریک انصاف کی پہچان اب صوبائی وزیر اطلاعات وثقافت جناب ضیاض الحسن چوہان ہیں۔وہ اپوزیشن پر تابڑتوڑ حملوں سے تحریک انصاف کی غصہ بھری 
Base
کو خوش رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کا پڑھے لکھے طبقات سے تعلق رکھنے والا حامی مگر خود کو ان سے 
Identify 
نہیں کرپاتا۔ ان کے سوا تحریک انصاف کے پیغام کو وسطی پنجاب میں پھیلاتا کوئی اور نظر نہیں آرہا۔وسطی پنجاب میں نواز لیگ کے ووٹ بینک کو زک پہنچانا اصل ٹارگٹ ہے۔ عثمان بزدار کی حکومت یہ ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ،سیالکوٹ، وزیر آباد سے لے کر ساہی وال تک پنجاب میں سیاسی ماحول فی الوقت جامد ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاست میں جمود مگر ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بیگانگی بڑھتی رہے تو بالآخر احتجاجی تحریکوں کی صورت پھوٹ پڑتی ہے۔برطانوی سرکار نے پنجاب پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کے بعد ’’یونینسٹ پارٹی‘‘ کے ذریعے بڑے جاگیرداروں اور شہری’’شرفا‘‘ کا ایک طبقہ ٹوڈیوں کی صورت جمع کیا تھا۔ نظر بظاہر اس جماعت نے کئی برس تک پنجاب میں ’’جی حضوری‘‘ والی فضا برقرار رکھی۔اقبال مگر اسے ’’خوئے غلامی‘‘ کہلاتے ہوئے بلبلااُٹھے۔ مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اخبار لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے لگا۔مجلس احرار نے مستقل احتجاج کی صورت بنادی۔احتجاج کی اس روایت کی بنا پر ہی قیام پاکستان کے صرف چھ سال بعد لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا تھا۔1953ء کے بعد والے سالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم 70ء کی دہائی میں آجائیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء تک پنجاب میں ’’استحکام‘‘ کی فضا برقراررکھی۔ اس برس ہوئے انتخابات کے بعد بنیادی طورپر وسطی پنجاب کے شہروں ہی سے ’’دھاندلی‘‘ کے خلاف ایک تحریک اُبھری جس کے نتیجے میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ اس مارشل لاء کی طوالت کا اصل سبب یہ تھا کہ وسطی پنجاب کے لاہور،گوجرانوالہ اور وزیر آباد جیسے شہروں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری حضرات مطمئن تھے۔ خلیجی ممالک میں گئے پنجابیوں کی بھیجی رقوم سے 
Upward Mobility
کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ پراپرٹی کا دھندا عروج کو پہنچا۔ نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہوکر کسی زمانے میں ’’کمی‘‘ کہلاتے گھرانے خوش حال متوسط طبقے کی صورت اختیار کرنے لگے۔نواز شریف اور ان کی جماعت کی 
Core Constituency
مذکورہ بالا طبقات تھے۔تحریک انصاف اس 
Constituency
میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے اور بنیادی وجہ اس کی عثمان بزدار نہیں اسد عمر کی متعارف کردہ اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ان پالیسیوںکی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ روزگار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کاروباری طبقے نے مختلف النوع وجوہات کی بنا پر نئی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔عثمان بزدار کی جگہ کوئی اور شخص بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جائے تو وفاقی حکومت کی موجودہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے لاہور،وزیر آباد،سیالکوٹ وغیرہ میں ’’رونق‘‘ لگی نظر نہیں آئے گی۔یہ رونق طویل عرصے تک معدوم نظر آئی تو کسی نہ کسی نوعیت کی احتجاجی تحریک پھوٹ پڑے گی۔جس سے نبردآزما ہونا تحریک انصاف کے لئے تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔انگریزی محاورے کے مطابق اصل مسئلہ 
"It is the Economy Stupid"
کا ہے۔عثمان بزدار کی سادگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

نظام کی تبدیلی؟

نظام کی تبدیلی؟
ذوالفقار علی بھٹو نے ستمبر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت کے ہاتھوں گرفتاری سے پہلے راولپنڈی کے آرمی ہاؤس میں اگست کے آخری ہفتے میں جنرل ضیاء الحق سے اپنی ملاقات کے بارے میں اپنی کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ اس ملاقات میں جنرل ضیاء الحق نے بات چیت کے دوران کہا کہ میں حیران ہوں کہ آپ جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاست دان نے پارلیمانی نظام کیسے قبول کرلیا۔ یہ نظام تو ملک کو سیاسی استحکام نہیں دے سکتا۔ مسٹر بھٹو نے لکھا کہ جنرل ضیاء الحق نے مجھ سے ملک کو مستقبل میں سیاسی طور پر مستحکم بنانے کے لیے میری رائے پوچھی تو میں نے جواباً جنرل کو بتایا کہ انہیں اس معاملے پر رائے دینے کے لیے ان کے پاس اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ ایسے مشیر موجود ہیں آپ ان سے مستقبل کے سیاسی نقشے پر رائے لیں وہ آپ کو زیادہ بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ مسٹر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے اس استفسار کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ایک طرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے ملک میں نوے دن میں انتخابات کرا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور دوسری طرف وہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کے ایک نئے خاکے پر صلاح مشورہ کررہا تھا۔1977ء کے مارشل لاء کے بعد فوجی حکومت نے ایک ’’الیکشن سیل‘‘ بھی قائم کیا تھا جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی تھے یہ سیل مختلف سیاسی جماعتوں سے پارلیمانی نظام کی جگہ کسی دوسرے جمہوری نظام کے بارے مشورے کرتا رہا۔ یہ سیل CELL متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کرانے پر سنجیدگی سے غور کرتا رہا اس وقت جماعت اسلامی متناسب نمائندگی پُر جوش حامی تھی۔ اس دور میں جرمنی اور فرانس کے جمہوری نظام کو پاکستان میں آزمانے پر بھی بحث ہوتی رہی۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے جو انتخابات کرائے وہ غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے۔
وطن عزیز میں کچھ عرصہ کے بعد نظام کی تبدیلی کی بحث شروع ہو جاتی ہے ان دنوں بھر ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پارلیمانی نظام کے بارے میں کچھ طبقوں کی رائے یہ ہے کہ یہ نظام ایک تو ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دوسرا ملک میں اچھی حکمرانی اور کرپشن کا خاتمہ بھی اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام برطانیہ‘ بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ اپنی خامیوں کے باوجود یہ نظام ان ملکوں میں ڈیلیور کر رہا ہے۔ ملک کے انتظامی معاشی اور سکیورٹی مسائل بھی حل ہورہے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ پارلیمانی نظام چلانے والوں کی نیت اور اہلیت اس نظام کو کامیاب بنانے کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے اسی لیے پارلیمانی نظام پر کچھ عرصے کے بعد نکتہ چینی شروع ہو جاتی ہے اور ایسے سیاسی عدم استحکام ملکی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان صدارتی نظام کا تجربہ کر چکے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے 1962 ء کا جوآئین قوم کو دیا تھا اس کے تحت صدارتی نظام رائج کیا گیا تھا۔ 1962 ء کے آئین کے تحت بالغ رائے دہی کی بنیاد عام لوگوں کو ارکان پارلیمنٹ اور صدر کے منصب کے لئے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔ ایک بالواسطہ جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا۔ متحدہ پاکستان میں عام آدمی کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں بنیادی جمہوریت کے تصور کے تحت دونوں صوبوں میں چالیس چالیس ہزار نمائندے چننے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ نظام 1962 ء سے مارچ 1969 ء میں دوسرے مارشل لاء لگنے تک چلتا رہا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے 80 ہزار نمائندے جنہیں BD ممبر کہا جاتا تھا۔ ارکان اسمبلی اور صدر کو منتخب کرتے تھے۔ اس نظام کے تحت صدر جنرل ایوب خان نے قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو 1964 ء کے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات کو غیرمنصفانہ اور MANIPULATED قرار دیا تھا۔ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ جن 80 ہزار ارکان نے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالے تھے انہیں دباؤ اور لالچ سے ایوب خان کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کے ایک طبقے کی رائے ہے کہ 1964 ء کا یہی صدارتی انتخاب ایوب خان کے اقتدار کو لے ڈوباکیونکہ اس میں ہونے والی دھاندلی نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کیا اور انٹی ایوب تحریک کا راستہ ہموار ہوا۔ 1968 ء میں ایوب مخالف تحریک دونوں صوبوں میں عروج پر پہنچ گئی۔ جنرل ایوب خان کو سیاست دانوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام اور ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات منعقد کرنے اور ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال کرنے کے مطالبات ایوب خان نے مان لئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان کو یہ وعدے پورے کرنے کا موقع نہ ملا۔ جنرل یحییٰ خان نے 1969 ء میں مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے دسمبر 1970 ء میں جو انتخابات کرائے ان کے نتیجے میں پارلیمانی نظام بحال ہوا۔ لیکن ملک دو لخت ہو گیا۔
ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کچھ حلقے صدارتی نظام کی بحث چھیڑ رہے ہیں صدارتی نظام کو ایک مرتبہ تو پاکستانی قوم مسترد کر چکی ہے شاید اسے پھر آزمانے کی کوشش کی جائے۔ یہاں آزمائے ہوئے کو آزمانے کی روایت موجود ہے۔

پی ٹی آئی کےحامیوں کے خواب اور حقیقت

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل


میری خوش قسمتی ہے کہ میرے بہت سے دوست مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ دوستی سیاسی وابستگیوں سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے مگر آج کل میرے کچھ دوست جو پی ٹی آئی کے حامی تھے یا ابھی بھی ہیں، کسی قدر دفاعی انداز اختیار کر گئے ہیں۔ شاید یہ استفسار کرنا درست نہ ہو لیکن میں اُن سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کیا وہ دکھائی دینے والی تبدیلی سے خوش ہیں؟ حسن نثار صاحب جیسے چند ایک احباب تو مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہیں پی ٹی آئی سے اس قدر اناڑی پن کی توقع نہ تھی۔ ان کے غصے کا رخ پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کی طرف ہے۔ میرے احباب میں سے اکثر ابھی تک پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کا شمار دو گروہوں میں ہوتا ہے۔ پہلے گروہ میں وہ افراد شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ اتنے کم عرصہ میں پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور کارکردگی کو جانچنا درست نہیں۔ نتائج کی پرکھ کیلئے چھ ماہ ایک قلیل عرصہ ہے۔ میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ ابتدائی نتائج کو حوصلہ افزا پاتے ہیں یا اگر ابتدائی نتائج کیلئے بھی یہ عرصہ کم ہے تو کیا وہ پی ٹی آئی کی کوششوں سے مطمئن ہیں؟ کیا پی ٹی آئی خوش کن نعروں کے سوا بھی کچھ کر رہی ہے؟ کیا حکومت کی سمت درست ہے؟ احباب سے ان سیدھے سادے سوالات کا جواب بھی نہیں بن پڑتا۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اتنے عقربی مسائل چھوڑ گئی ہے کہ اُنہیں درست کرنے میں پی ٹی آئی کو بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہے۔ اُن میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی دراصل گزشتہ 70برس کا گند صاف کر رہی ہے۔ گویا گزشتہ سات عشروں سے کسی حکومت نے پاکستان کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اب رادھا کیلئے نو من تیل کا اہتمام پی ٹی آئی کو ہی کرنا ہے۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور قائم ہونے والی دیگر حکومتیں ہی مسائل کی جڑ تھیں تو اُن کی حکومتیں ختم ہوتے ہی بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے۔ کیا اس وقت ایک ایماندار، ذہین، منکسر المزاج اور اپنے کام کیلئے پوری طرح تیار رہنما اقتدار میں نہیں؟ کیا اس سے ایک واضح فرق دکھائی نہیں دینا چاہیے؟ یا پھر میں ہی جانبداری کا شکار اپنے اردگرد بہتری دیکھنے سے قاصر ہوں؟
مجھے تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ آج مہنگائی گزشتہ چار برسوں میں بلند ترین سطح پر ہے، حکومت اتنے قرضے لے رہی ہے جس کی مثال ہماری تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے، سود کے نرخ گزشتہ چار برسوں میں بلند ترین ہیں، محصولات جمع کرنے کے اہداف پورے نہیں ہو پائے ہیں، اس سال خسارہ پہلے سے کہیں زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
اس ضمن میں احباب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے لیکن پھر یہی بات میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کو پی پی پی حکومت کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرض لینا پڑا۔ پی پی پی کے پاس بھی یہی جواز ہو گا کہ اُس نے جنرل مشرف کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرضے لیے۔ ممکن ہے کہ یہاں ہم سب درست، یا ہم سب غلط ہوں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) غلط ہوں اور اکیلی پی ٹی آئی درست ہو۔
پھر لیے جانے والے قرضوں کے حجم کا بھی ایشو ہے۔ اگر آج پی ٹی آئی اُس سے کہیں زیادہ قرض لے رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) نے کبھی لیے تھے، تو پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض لیے گئے قرضوں کی واپسی کیلئے ہیں۔ درحقیقت پی ٹی آئی ماضی کے قرضوں پر صرف سود ہی ادا نہیں کر رہی، وہ نئی حکومت کے اخراجات بھی ملنے والے قرضوں سے پورے کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی میں میرے احباب، خاص طور پر جو بہت زود اثر اور حساس ہیں، کو رات کو جب نیند نہیں آتی تو سوچتے تو ہوں گے کہ اُن کی توقعات کی شہزادی کس دیو کی قید میں ہے؟ عرض ہے کہ چلیں سمندر پار چھپائے گئے200 بلین ڈالرز کو بھول جائیں، اُنھوں نے واپس نہیں آنا تھا لیکن منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی دنیا میں منتقل ہونیوالے سالانہ بارہ بلین ڈالر کا کیا ہوا؟ یقیناً پی ٹی آئی تو منی لانڈرنگ نہیں کرتی، وہ رقم تو محفوظ ہی ہو گی، تو پھر ہم اسٹیٹ بینک میں ڈالرز کے حجم میں اضافہ کیوں نہیں دیکھتے؟
یہاں یہ سوال بھی ضرور بنتا ہے کہ آپ شہباز شریف جیسے ’’سست اور کام چور‘‘ لیڈر کا سیاست کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ سردار عثمان سے موازنہ کیسے کریں، جن کے ایک ایک کام سے وژن، کشش اور صلاحیت لشکارے مار رہی ہے (عثمان بزدار کو وسیم اکرم کی مثل قرار دینا موخر الذکر کو یقیناً پسند نہیں آتا ہو گا) شہباز شریف کا ذکر کرتے ہوئے مجھے اُن کی ایوان میں کی گئی مختصر سی تقریر کی یاد آ گئی، جو اُنھوں نے فنانس منسٹر کے منی بجٹ سے پہلی کی تھی۔ یہ موصوف کا تین ماہ میں دوسرا منی بجٹ تھا۔ اپنی تقریر میں لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے وزیراعظم پر اُسی طرح تنقید کی جس طرح عمران خان اپنے اپوزیشن کے دنوں میں حکومت پر کیا کرتے تھے۔ اس پر وزیراعظم نے قومی اسمبلی کا اجلاس ہی ختم کر دیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ فنانس بل پیش کرنے کے بعد حکومت نے اسے پاس کرائے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس منقطع کر دیا ہو۔ وزیراعظم نے لیڈر آف اپوزیشن کی تقریر کو اپنی شان میں گستاخی جانا اور اجلاس ختم کر دیا۔ ایک طویل عرصے تک سابق وزیر اعظم، نواز شریف پر کسی مغل بادشاہ کی طرح برتائو کرنے کا الزام لگتا رہا لیکن جو لوگ اُنہیں قریب سے جانتے ہیں، اور جنہوں نے اُن کے ساتھ کام کیا ہوا ہے، اُن کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ نواز شریف درحقیقت شریف النفس، مہربان اور روادار انسان ہیں اور بسا اوقات اُن کی فطری رواداری ہی اُن کا قصور بن جاتی ہے۔
نواز شریف پر شاہی رویہ روا رکھنے کا الزام لگانے والوں میں موجودہ وزیراعظم پیش پیش تھے لیکن اب جب پہلی مرتبہ اسمبلی میں اُن پر براہ راست تنقید کی گئی تو وہ برداشت نہیں کر پائے۔ مجھے خوشی ہے کہ پی ٹی آئی اسمبلی سے کوئی بل منظور نہیں کراتی وگرنہ ممکن ہے کہ ہم وزیراعظم کی توہین کو بھی قابلِ مواخذہ جرم بنتا دیکھتے۔ ہمارے ہاں مغربی جمہوریت کیا پنپنی تھی، ہم قرونِ وسطیٰ کے مغرب کی طرح شہنشاہ کی توہین کو جرم بنتا دیکھنے جا رہے ہیں۔

نئے پاکستان کی کنفیوژڈ کہانی


آصف علی بھٹی


چھ ماہ پہلے معرضِ وجود میں آنے والے نئے پاکستان میں اک بھونچال برپا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا- چھ ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ دو ارب ماہانہ کےحساب سے مسلسل بڑھ رہا ہے، قرضوں کےبوجھ میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز گر رہے ہیں، عوام کو اچھے کی آس امید دلانے کے لئے دو ضمنی بجٹ بھی آ چکے ہیں، حالیہ ضمنی بجٹ کے اندازے و تخمینے چار ماہ پہلے کے منی بجٹ کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ دعوئوں اور وعدوں کی مشکلات اور پریشانیاں بڑھنے سے عوام کی امیدیں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
بلاشبہ خان حکومت پر اب تک کرپشن کا کوئی داغ نہیں لیکن نااہلی اور عدم استعداد کا دھبہ کیا اس سے کہیں زیادہ برا نہیں؟ اب یہ بات جناب وزیراعظم کو بھی سمجھ آ رہی ہے، انہوں نے ابتدا میں بھجوائی گئی ’’تگڑی‘‘ ٹیم کے ڈھیر ہونے کے خطرات کو بھی بھانپ لیا ہے لیکن بوجوہ اس کو تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے، تاہم وقتی حل کے طور وہ بیک وقت اپنی ذاتی آل رائونڈر صلاحیت کو آزمانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وفاق کی سطح پر کم از کم پانچ ترجمانوں کے باوجود حکومت کی حالت یا پرفارمنس کی درست ترجمانی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا، وفاق میں چھوٹے بڑے وزرا و مشیر بیچارے جھنڈے والی گاڑیوں، درجنوں ملازموں، مفت بجلی، پانی، ٹیلیفون، پیٹرول اور ایئر ٹکٹس کی سہولتوں سمیت وزرا کالونی کے مزے لوٹ کر وزیراعظم کی سادگی پسند حکومت کے دعوئوں کا تو منہ چڑا ہی رہے ہیں، رونا تو یہ ہے کہ دو اہم صوبوں کے سادہ طبیعت وسیم اکرم پلس اور انضمام الحق کی کارکردگی بھی ایسی ہے کہ بیچارے کپتان کو ہر روز ان کی وکالت اور پرفارمنس کے لئے بھی بیان دینا پڑتے ہیں۔ یہی نہیں وزرا کی زبان درازی کا خمیازہ بھی کپتان کو منتخب ایوان میں ناپسندیدہ ذاتی حملوں کی صورت سہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ تو پریشانی کا سبب بن ہی رہا ہے لیکن نئی نویلی حکمرانی کے انداز کا دوسرا اہم پہلو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے اور وہ ہے مسلسل بڑھتی کنفیوژن جس سے عوام کو آگے بھی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے اور ان کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ عوام سوچتے ہیں کیا انصافی حکومت ہے کہ جو چھوٹی چھوٹی گستاخیوں پر بے گناہ اعلیٰ پولیس افسران کو سخت سزائیں دے لیکن سرعام جیتے جاگتے معصوم انسانوں کے قاتلوں اور ان کی پشت پناہوں کو مجرم کہنے سے بھی عاری ہو۔ لگتا ہے کہ کسی بھی سطح پر فیصلہ سازی یا نئے مجوزہ اقدامات پر کوئی مربوط و ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے کے سبب عوام و خواص کی بے چینی آئے روز بڑھتی جا رہی ہے اور کنفیوژن کو دور کرنے کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مزید کنفیوژن پیدا کر دی جائے۔
چھ ماہ کےدوران ملکی سطح پر اب تک کوئی بڑا فیصلہ یا کامیابی تو سامنے نہیں آ سکی البتہ ڈوبتی معیشت کے سہارے کے لئے برادر ملکوں سے اربوں ڈالر کی سود پر ملنے والی امداد کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جو بقول شہباز شریف اور مسٹر زرداری، دوست ملکوں سے امداد بھی سپہ سالار کی کوششوں کے طفیل مل رہی ہے، حکومت کا اس میں کوئی کمال نہیں۔
کنفیوژن یہ ہے کہ معاملہ مانگ تانگ اور ادھار سے کب تک چلے گا؟ دگرگوں معاشی حالات کا حقیقی حل کیا ہے؟ گزشتہ حکومت کے درجنوں ترقیاتی منصوبوں سمیت بجلی بنانے کے پلان بھی روک دئیے گئے سب باتیں چھوڑیں مگر یہ تو واضح کر دیں کہ سردیوں میں گیس نہ ہونے پر ٹھٹھر کر لحافوں سے گزارہ کرنے والے بے بس عوام کو کیا آئندہ گرمیوں میں ٹھنڈے پسینے پر صبر و شکر کرنا پڑے گا یا لوڈشیڈنگ کے بچائو کی کچھ تدابیر کر رہے ہیں؟ یہی وہ کنفیوژن ہے جس کو دور کوئی نہیں کر رہا۔
ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کا وعدہ تو جانے کب ایفا ہوگا لیکن کوئی تو اس گتھی کو سلجھائے کہ لاکھوں بیروزگار اور تجاوزات کے نام پر بے گھر ہونے والوں کو اب آباد کون اور کب کرے گا؟ بقول خواجہ آصف ترقی کی شرح ساڑھے چھ سے گر کر ساڑھے تین پر آنے سے سالانہ 7لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے، اس کنفیوژن کو حکومت دور نہیں کرے گی تو کون کرےگا؟خدا خدا کرکے حکومت اپوزیشن کی مارا ماری کے بعد چیئرمین پی اے سی اور کمیٹیوں کا معاملہ حل ہوا لیکن فوجی عدالتوں میں توسیع سمیت قانون سازی کے معاملات جوں کے توں ہیں، سیاسی محاذ آرائی کا ماحول پارلیمنٹ کے ایوانوں کو مسلسل پراگندہ کر رہا ہے۔ شاید عوام کو مزید کنفیوژ کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاست کے اس چال چلن کو دیکھ کر جمہوریت سے توبہ کر لیں۔
کرپشن کےخلاف نعروں اور ایکشنز پر بھی کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے، دو بڑی جماعتوں کے سربراہوں اور اہم قائدین کےخلاف کرپشن کے سنگین الزامات پر کارروائیاں جاری ہیں لیکن بیماریوں اور تکلیفوں کی خبروں سے محض کنفیوژن ہی نہیں، ڈیل کا تاثر بھی پیدا کیا جا رہا ہے جس کا ممکنہ کلیدی کردار اور سہولت کار چھوٹا بھائی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلے چھوٹے میاں اور پھر بڑے میاں بیماری کے علاج اور خاطر خواہ خفیہ ادائیگیوں کے بعد بیرون ملک جانے والے ہیں، چھوٹے بھائی کے بیٹوں اور داماد کو حالیہ ریلیف دینا اس کا غماز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑے بھائی اور تیمارداری کے لئے بیٹی کا باہر جانا بھی ٹھہر گیا ہے۔ سیاست میں سب پہ بھاری شخصیت کی اہم کیسز میں عدم گرفتاری اور ای سی ایل سے نام نکالا جانا بھی معاملات طے ہونے کی طرف اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ پتا نہیں خان صاحب کی ’’کوئی این آر او نہیں ملےگا‘‘ کی دھمکیوں اور ملک لوٹنے والوں کو اندر کرنے کی گردان پر کوئی یقین کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ پتا نہیں کیوں سیاسی افق پر اس قسم کی افواہوں سے پھیلنے والی کنفیوژن کو کوئی ٹھوس اقدامات سے دور نہیں کر رہا ہے، تاہم طاقتور حلقوں میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ حکومت کی نااہلی سے پھیلنے والی کنفیوژن کا ماحول اب مزید چلنے والا نہیں!دوسری طرف بھی لگتا ہے مسٹر خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے لیکن شاید اس میں ابھی ایک دو ماہ باقی ہیں، اگر انہوں نے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ایکشن از خود نہ لیے اور مسلط کردہ وسیم اکرموں اور انضماموں سے جان نہ چھڑائی تو معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتےہیں جو اس کنفیوژڈ کہانی کے ڈراپ سین کا سبب بن سکتےہیں۔

بھارت میں محصور پاکستانی خاتون

بھارت میں محصور پاکستانی خاتون کی عمران خان سے اپیل
بھارت میں محصور پاکستانی خاتون نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہےکہ ان کے مسئلے پر فوری عمل در آمد کراتے ہوئے ان کی وطن واپسی یقینی بنائیں۔
ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی کبریٰ گیلانی مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہائشی اپنے شوہر محمد الطاف سے علیحدگی کے بعد واپس وطن آنا چاہتی ہیں لیکن بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں کلیئرنس نہیں دی جارہی ۔
ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل ڈومیل کی رہائشی کبریٰ کی مقبوضہ کشمیر میں محمد الطاف نامی شخص سے شادی ہوئی مگرآٹھ سال بعد بھی اولادنہ ہونے کے باعث دونوں میں تنازعات پیدا ہوئے اور دوریاں ہو گئیں جس کا نتیجہ طلاق نکلا۔ 
خاتون نے طلاق کے بعد بھارت میں پاکستانی سفارت خانہ سے رابطہ کیا اور تمام سفری دستاویزات فراہم کیے۔ دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود بھارتی حکام نے کبری کو سرحد پارنہیں کرنے دی۔
کبریٰ کا کہناہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کے باعث مجھ سمیت دو سو خواتین بھارت کے مختلف علاقوں میں پھنسی ہیں ۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ چند مہینوں میں مقبوضہ کشمیر میں تین خواتین نے تو اسی بے بسی میں خود کشی بھی کر لی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ اور تین بہن بھائی بے چینی سے ان کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں جبکہ ان کے انتظار میں ان کی والد اور ایک بہن دنیا سے رخصت ہو گئے۔

افغان باقی، کہسار باقی


حامد میر

قلم کمان


شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے مجموعے ’’پیامِ مشرق‘‘ کو افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا تو ناقدین نے اقبالؒ پر ایک بادشاہ کی خوشامد کا الزام لگا دیا۔ یہ غازی امان اللہ کون تھا؟ یہ وہ شخص تھا جس نے 1919ءمیں اُس زمانے کی سپرپاور برطانیہ کو شکست دی اور افغانستان کو سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت کا قبرستان بنا دیا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے علامہ اقبالؒ سے سوال کیا کہ آپ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کا انتساب امان اللہ خان کے نام کیوں کیا تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ میں اپنی اس کتاب کو کسی آزاد مسلمان کے نام کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں امیر امان اللہ خان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نہیں تھا۔ امان اللہ خان نے جن لوگوں کی مدد سے تاج برطانیہ کا غرور خاک میں ملایا تھا اُن میں مجددی سلسلے کے روحانی پیشوا ملا شوربازار نور المشائخ بھی شامل تھے۔ لیکن جب امان اللہ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں اصلاحات کا آغاز کیا تو ملا شور بازار اُن سے ناراض ہو گئے۔ 1929ء میں امان اللہ خان غیرملکی دورے پر تھے، اس دوران اُن کے خلاف بغاوت ہو گئی اور افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ امان اللہ خان کے ایک ساتھی نادر شاہ نے انگریزوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ وہ فرانس میں افغانستان کا سفیر تھا۔ وہ پیرس سے لاہور آیا اور علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی۔ اُس نے علامہ اقبالؒ کو بتایا کہ وہ سازشی عناصر کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ علامہ اقبالؒ نے اُسے اپنی طرف سے دس ہزار روپے بطور امداد پیش کئے لیکن نادر شاہ نے شکریہ کے ساتھ یہ رقم واپس کر دی اور شمالی وزیرستان کے علاقے علی خیل روانہ ہو گیا۔ یہاںپر اُس نے وزیر اور محسود قبائل کے ساتھ مل کر ایک لشکر تشکیل دیا اور کابل پر حملہ کر دیا۔ علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی مدد کے لئے ایک فنڈ بنایا اور کچھ ہی عرصے کے بعد نادر شاہ نے حبیب اللہ (بچہ سقہ) کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر لیا۔ کچھ سال کے بعد علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا دورہ کیا تو وہاں ملا شور بازار اور حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ حاجی صاحب کا تعلق شب قدر کے علاقے سے تھا۔ اُنہوں نے 1919ء کی جنگ میں امان اللہ خان کا ساتھ دیا تھا،اب وہ برصغیر کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور نادر شاہ کی مدد سے مزاحمت کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ علامہ اقبالؒ نے امان اللہ خان اور نادر شاہ جیسے بادشاہوں کی عزت افزائی اُن کی حریت پسندی کی وجہ سے کی۔ اقبالؒ کو افغانوں سے بہت محبت تھی کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ افغان کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اسی لئے اقبالؒ نے کہا
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ، الملک للہ
یعنی تاریخی عمل اور تاریخی جدل میں صرف افغان سرخرو ہوں گے۔ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں صرف کابل، غزنی اور قندھار کا ذکر نہیں ملتا بلکہ احمد شاہ ابدالی اور خوشحال خان خٹک کے ساتھ باقاعدہ اظہارِ محبت ملتا ہے۔ خوشحال خان خٹک ایک جنگجو شاعر تھے جنہوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خلاف مزاحمت کی۔ اقبالؒ نے اورنگ زیب کے خلاف تلوار اٹھانے والے خوشحال خان خٹک کے بارے میں کہا
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ستاروں پہ کمند ڈالنے والے جوانوں سے اقبالؒ کی محبت بلاجواز نہ تھی۔ اقبالؒ کی زندگی میں افغانوں نے سلطنت برطانیہ کو شکست دی اور ہماری زندگی میں افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دی۔ یہ 1989ء تھا جب روسی فوج کا افغانستان سے انخلاء شروع ہوا اور اب 2019ء میں امریکی فوج افغانستان سے نکلنا چاہتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ کو بھی افغانستان میں شکست ہو چکی ہے۔ افغانستان ایک اور سپرپاور کی شان و شوکت کا قبرستان بن چکا ہے لیکن افغانستان کی پہچان صرف قبرستان نہیں ہونی چاہئے۔ اقبالؒ نے کہا تھا
آسیا یک پیکر آب و گِل است
ملت ِ افغاں در آں پیکر ِ دل است
از فساد او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کا نام افغان قوم ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ افغانوں میں فساد کا مطلب ایشیا میں فساد ہے اور افغانوں کی ترقی کا مطلب ایشیا کی ترقی ہے۔ اقبالؒ نے افغانستان کو ایک سپرپاور کے قبرستان کے بجائے ایشیا کا دل قرار دیا اور یہ وہ پہچان ہے جسے حقیقت بنا کر ہم صرف افغانستان کو نہیں بلکہ پورے خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ اس وقت ہم سب کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع نہ ہو۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد جو خانہ جنگی شروع ہوئی اُسی نے تحریک طالبان کو جنم دیا تھا۔ ابتداء میں امریکہ نے طالبان کی مدد کی، بعد میں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا۔ آج امریکہ انہی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنا تھوکا چاٹ رہا ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ چاہئے۔ وہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان اُن سب کے ساتھ مل کر پاور شیئرنگ کریں جو ماضی میں امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے تھے۔ امریکہ اس مقصد کے لئے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے طالبان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ بھی مذاکرات کریں۔ اس صورتحال کا ایران کو بہت فائدہ ہوا اور وہ افغان طالبان کے قریب ہو گیا ہے کیونکہ افغان طالبان اور ایران کو داعش کی صورت میں ایک مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔
صورتحال بہت نازک ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن افغان طالبان نے فی الحال اسلام آباد آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا کیونکہ وہ اشرف غنی کو دور جدید کا بچہ سقہ سمجھتے ہیں اور جو بھی انہیں بچہ سقہ کے ساتھ مل بیٹھنے کا مشورہ دیتا ہے وہ اسے شکست خوردہ سپرپاور کا خوشامدی سمجھنے پر مجبور ہیں لیکن وہ یہ مت بھولیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز افغانوں کے لئے ایک نئی مصیبت بن سکتا ہے۔ یہ خانہ جنگی افغانستان میں فساد برپا کرے گی اور پاکستان اس سے محفوظ نہ رہ سکے گا اس لئے پاکستان کو امریکہ کا نہیں اپنا مفاد دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ غیرجانبدار رہے اور کسی فریق پر امریکہ کی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پاکستان کو صرف سہولت کار بننا ہے۔ سہولت کاری کے نام پر شکست خوردہ سپرپاور اور اس کی باقیات کو رسوائی سے بچانے کی کوشش پاکستان کو بھی رسوا کرے گی لہٰذا اس اہم تاریخی مرحلے پر ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں علامہ اقبالؒ کی افغانوں سے محبت کا بھرم قائم رکھنا ہو گا۔

منگل، 29 جنوری، 2019

’’مکافاتِ عمل‘‘

’’مکافاتِ عمل‘‘
پاکستان کو بدعنوانی اور اس کے عادی سیاستدانوں سے بچانے کو بے چین تحریک انصاف کے بے شمار انقلابیوں کو جانے کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ اگست 2018سے ان کی جماعت اقتدار میں ہے۔ کئی برسوں کی جدوجہد کے نتیجے میں عمران خان اب اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے اس منصب پر فائز ہونے کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہے۔ وزیراعظم ہونے کی وجہ سے عمران خان قومی اسمبلی کے ’’قائد ایوان‘‘ ہیں۔ اس ایوان کا سپیکر بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتا ہے۔ آصف علی زرداری کی بطور رکنِ قومی اسمبلی نااہلی کو یقینی بنانے کے لئے اگر تحریک انصاف کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اس جماعت سے تعلق رکھنے والے چند اراکینِ اسمبلی کو یکسو ہو کر انہیں سپیکر اسد قیصر کے دفتربھیجنا چاہیے۔ ان شواہد کا جائزہ لینے کے بعد سپیکرکے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ انہیں الیکشن کمیشن کو مناسب کارروائی کے لئے بھجوا دے۔ شواہد تگڑے ہوئے تو الیکشن کمیشن کے پاس آصف علی زرداری کو نااہل قرار دینے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچے گا۔ اگرچہ یہ خدشہ بھی اپنی جگہ مبنی برحقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن سے نااہل قرار پائے آصف علی زرداری ہائی کورٹ سے Stayوغیرہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کی نااہلی کو حتمی قرار دینے میں دیر لگ سکتی ہے۔ کسی رکن اسمبلی کو قواعد وضوابط کے عین مطابق نااہل قرار دینے والا Processمگر شروع ہوجائے گا۔ اس Processپر اعتراض اٹھانے کی گنجائش موجود نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس پراسس کو مضبوط تر اور قابل اعتماد بنانے کی کوشش کیوں نہیں ہورہی۔ کیوں اس امر کو بے چین ہوا جارہا ہے کہ پارلیمان اور دیگر فورمز کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ ازخود اختیارات استعمال کرتے ہوئے تحریک انصا ف کی استدعا پر آصف علی زرداری کو نااہل قرار دے کر قومی اسمبلی سے باہر نکال دے۔مسلمہ ضوابط و قواعد کے ذریعے بنائے ’’سسٹم‘‘ کو شاید تحریک انصاف کے انقلابی مضبوط تر اور قابل اعتماد بنانے میں یقین نہیں رکھتے۔ کرپشن سے نجات کے لئے Fast Trackراستے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ اس حقیقت کا احساس کئے بغیر کہ Fast Trackپارلیمان یا قواعد وضوابط کے تحت بنائے ’’سسٹم‘‘ کومضبوط نہیں بناتا۔ ’’دیگر اداروں‘‘ کو اس ملک کا نجات دہندہ بناتا ہے۔ ’’دوسروں‘‘ کو نجات دہندہ بناتے ہوئے یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف بذاتِ خود سیاسی نظام ہی کا حصہ ہے۔ وہ اسے مضبوط تر نہیں بنائے گی تو خود بھی کمزور ہوگی۔ مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب میرے بہت ہی عزیز دوست خواجہ آصف، افتخار چودھری کی عدالت میں رینٹل پاور پراجیکٹس (RPPs)کے خلاف دہائی مچانے چلے گئے تھے۔ میں اپنے کالموں کے ذریعے فریاد کرتا رہا کہ قومی اسمبلی کے مؤثر ترین اور بہت ہی تجربہ کار رکن ہوتے ہوئے انہیں RPPsکے خلاف شوروغوغا ایوان تک محدود رکھنا چاہیے۔ انہوں نے میری فریاد نہ سنی۔ بالآخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہاتھوں خود بھی نااہل ہوگئے۔ سپریم کورٹ سے ریلیف ملا اور آج بھی قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔شاید بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہو کہ اعظم سواتی ایک زمانے میں اس کابینہ کے بھی رکن تھے جس کے سربراہ یوسف رضا گیلانی تھے۔ موصوف نے JUI-Fکے کوٹے سے وزارت حاصل کی تھی۔ اس کابینہ میں علامہ حامد سعید کاظمی وزارتِ مذہبی امور تھے۔ ان کی وزارت کے دوران ایک حج سکینڈل ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی وزیر کی حیثیت میں اعظم سواتی اس سکینڈل کے بارے میں کابینہ میں دہائی مچاتے۔ یوسف رضا گیلانی ان کی داد فریاد کو نظراندز کرتے تو کابینہ سے استعفیٰ دے کر سکینڈل کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے کے دوسرے راستے ڈھونڈتے۔ہماری سیاسی تاریخ کا بدترین لطیفہ مگر یہ ہوا کہ گیلانی کابینہ کا ایک رکن اپنے ہی کولیگ کے خلاف رپٹ لکھوانے سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ افتخار چودھری صاحب اس رپٹ کی وجہ سے اس ملک کے حتمی سماج سدھار کی صورت ابھرنا شروع ہوگئے۔ حامد سعید کاظمی کی بہت ذلت ورسوائی ہوئی۔ بالآخر جیل بھی بھیج دئیے گئے۔کاظمی صاحب کو جیل بھجوا دینے کے بعد اعظم سواتی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ چند ماہ قبل مگر ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا اسے ’’مکافاتِ عمل‘‘ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ’’مکافاتِ عمل‘‘ کی حقیقت تحریک انصاف کے انقلابیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ Breaking Newsکی خواہش میں لیکن اسے فراموش کردیا جاتا ہے۔ میڈیا پر کچھ دیر کیلئے رونق تو لگ جاتی ہے۔ ایسی رونق سے مگر حتمی پیغام خلقِ خدا کو یہ ملتا ہے کہ ’’ہم ہو ئے تم ہوئے یامیر ہوئے‘‘ والے مصرعے کی طرح تمام سیاست دان بلااستثناء کسی نہ کسی نوعیت کی ’’دونمبری‘‘ کے چکر میں رہتے ہیں۔ناک کو سیدھا پکڑیں یا گردن کے پیچھے ہاتھ گھما کر ۔ٹھوس حقیقت یہی رہے گی کہ تحریک انصاف کے انقلابی اپنے کپتان سمیت بنیادی طورپر سیاست دان ہیں۔ اپنے دھندے کو ’’گندہ‘‘ ثابت کرتے ہوئے بالآخر روزافزوں مچائے شور سے وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دینے والے جن شواہد کا ذکر تحریک انصاف والے کررہے ہیں ان کی صداقت اور قابل عمل ہونے کا معیار کیا ہے۔ نیویارک میں اگر ان کی ملکیت میں واقعتا ایک قیمتی فلیٹ موجود ہے اور کاغذاتِ نامزدگی داخل کرواتے ہوئے انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا تو نااہل ہونا ضروری ہے۔ میری پھکڑپن طبیعت تو بلکہ اس خواہش کا اظہار بھی کرے گی کہ ٹھوس شواہد ہونے کی صورت میں نااہلی کے علاوہ انہیں ’’بے وقوفی‘‘ جسے ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی کہا جاتا ہے کی سزا بھی ملنی چاہیے۔اس سزا کو یقینی بنانے کے لئے مگر ایک واضح راستہ موجود ہے۔اسے اختیار کرنا ضروری ہے۔ عدالتوں کو اپنے سیاسی مخالفین سے نجات پانے کے لئے استعمال کرنے کی خواہش سیاست دانوں کو اجتماعی خودکشی کی جانب لے جاتی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے نااہل کروانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ نون نے بہت جانفشانی دکھائی تھی۔ گیلانی والی نظیر Setہوگئی تو پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد نواز شریف کے ساتھ مکافاتِ عمل ہی تو ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے انقلابی اس عمل کو خود پر لاگو ہونے کے امکانات کو یقینی کیوں بنارہے ہیں؟آصف علی زرداری کو نااہل کروانے کے ٹھوس ثبوت ان کے پاس ہیں تو خدارا سپیکر اسد قیصر کے دفتر سے رجوع کریں۔ اس کے سوا جو بھی راستہ اختیار کریں گے وہ اجتماعی خودکشی کی طرف لے جائے گا۔ اس ایوان کو بے توقیر کرے گاجس کے ’’قائد‘‘ کوئی اور نہیں عمران خان صاحب ہیں۔

پھُونکنی سے یہ’’ چراغ ‘‘جلایا نہ جائے گا

حفیظ اللہ نیازی


’ ’دو چراغ ‘‘ ،ایک مرکز میں، دوسرا سب سے بڑے صوبے میں ، جل نہیں پا رہے۔ عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رنجہ فرمایا، چند رٹے رٹائے فقرے علم البیان کاحصہ بنے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول کہ ’’ کفر نظام پر تو معاشرے قائم رہ سکتے ہیں، ظلم زیادتی پر نہیں‘‘۔ مُبلغِ ریاستِ مدینہ پچھلے 23 سال سے یہ قول ہزاروں مرتبہ مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقاریر کا حصہ بنا چکے ہیں۔ سانحہ ساہیوال ظلم اور زیادتی کی انوکھی ،انمٹ اور نہ بھولنے والی داستان ہے۔ واقعہ پرحکمران آج منافقانہ چپ سادھ چکے ہیں۔ حکومت وقت ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے میں تن من لگا رہی ہے۔ نقیب اللہ محسود اور دوسرے دو ساتھیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کیا کیا جتن روا نہ رکھے۔ کئی ماہ سے لاپتہ دو افرادنقیب اللہ کے ساتھ قتل ہوئے،چند دن پہلے وہ بھی بے گناہ نکلے۔ پنجاب ایک لا وارث صوبہ ، دو افراد کے قتل پر کوئی رد عمل ہوا اور نہ ہی ذیشان اور خلیل فیملی کا بہیمانہ قتل اثرات مرتب کر پائے گا۔ نقیب اللہ کے قتل پر قبائلی علاقہ ہی کہ ارتعاش کی جکڑ میں، نہیں معلوم حالات کب تک کنٹرول میں رہیں گے؟
ذیشان اور خلیل فیملی کی آہ و بکا عرش بریں ضرور ہلائے گی کہ ربِ دوجہاںکی بے گناہ قتل پر وعید بڑی سخت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عمران خان کی فصاحت وبلاغت عروج پر تھی۔ سانحے پر سیاست استوار کر نے کے در پے، وزارت عظمیٰ کا زینہ سمجھ بیٹھے تھے۔ قادر الکلامی میں رانا ثناء اللہ کو فوری گرفتار اور شہباز شریف کو مستعفی ہونے کا حکم صادر فرما یا۔ ’’ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اوپر سے حکم کے بغیر پولیس تاک تاک کر سیدھی گولیاں چلائے‘‘۔ بلاشبہ اللہ حق ہے! ’’تب تک موت نہیں دیتا جب تک اندر باہر آشکار نہ کر دے‘‘ ،سانحہ ساہیوال پرآج کارکردگی محدب عدسہ کی زد میں۔ بمطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ 7سالہ بچی،13سالہ اریبہ ،والدہ ،خلیل،ذیشان اور عمیر کو POINT BLANK گولیاں لگیں ۔ 7سالہ بچ جانے والی بچی کی ہتھیلی سے آر پار ہونے والی گولی بھی قریب سے ماری گئی۔ درندوں نے7سالہ بچی پر اتنا رحم کیا کہ جان سے مارنے کی بجائے ننھی ہتھیلی پر بندوق رکھ کر گولی آر پار کی۔ واقعے کے اگلے دن وزیر اعظم کی ٹویٹ خون کے آنسوؤں سے نم تھی، ’’ ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں‘‘۔ اہل وطن ! مجھے یہ پتہ چلانا ہے، آخری خبریں آنے تک وزیر اعظم صدمے سے نکل پائے ہیں یانہیں؟ JIT کا تو وجہ وجود ہی فقط راؤ انواروں کو بچانا اور معصوموں،بے گناہوں پر مدعاڈالنا ہے، یقیناً کامیاب رہے گی۔
واقعے کا مثبت پہلو اتنا کہ’’ روحانی‘‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نمایاں نااہل ہوکر سامنے، عمران خان کے کارناموں میں سرخاب کا پَرثابت ہوئے۔ بُزدار صاحب کی وزیر اعلیٰ تعیناتی پر سوالات کی بوچھاڑ میڈیا اور ٹاک شو کا موضوع ضرور،عمران خان سانحہ پر باز پرس کرنے کی بجائے وسیم اکرم پلس ڈھانچے کو بیڈ روم کی الماری میں سجانے چھپانے میں حسبِ توقع مستعد ہیں۔ سکہ بند تجزیہ نگاروں اور کُہنہ مشق سیاستدانوں نے بُزدار کی اُلٹی گنتی شروع کر رکھی ہے۔ میری حقیر رائے ، عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے،تاحدِ نگاہ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ عمران خان کی مردم شناسی، شعور اور وژن کا مظہر ہی تو بُزدار ہیں۔ جب نام سامنے آیا تو تحریک انصاف اور اتحادی، تمام ایم پی ا ے کا باجماعت کہنا جائز تھا ’’اگر بُزدار بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘۔ پہلے دن سے عمران خان بُزدار کی آگاہی پروموشن سیل میں مصروف ہیں۔ آج پارٹی تتر بتر،عمران خان کی کوششیں تیز،بُزدار صاحب کی حمایت میں آخری سانس تک ڈٹ چکے ہیں۔ آئن اسٹائن کا سنہری قول’’ احمق اور نالائق ایک تجربہ بار بار کرتا ہے اور ہر دفعہ فرق نتیجے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔مُنا بھائی ڈٹے رہوکہ’’بزدار تو ڈوبے گا صنم تم کو بھی لے ڈوبے گا‘‘۔
نیم حکیم خطرہ ِجان، نیم مُلا خطرہ ایمان جبکہ نیم سیاستدان خطرہ ِ وطنی سا لمیت سلامتی و امان۔ بھلے وقتوں میں عمران خان اس بات پر مجھ سے متفق بھی اور فکر مند کہ’’کوچہ سیاست سے نابلد ہیں‘‘۔ پلاننگ اتنی کہ اگر کبھی’’داؤ‘‘ لگ گیا تو اہل ٹیم تیار کر کے شاید مداوہ ممکن رہے۔ بدقسمتی سے جب سے طاقت ور حلقوں میں آسرا ڈھونڈا، کامیابی یقینی، تو اہلیت کو غیر ضروری قرار دیا۔ میری بھی گارنٹی کہ مہربان اور قدردان جتنا مرضی زور لگا دیں، عمران خان کے تِلوں سے تیل نہیں نکلے گا۔ تکلیف اتنی کہ آج کی ارضی سیاست میںوطنِ عزیز کوعمران تجربہ اور ماڈل مہنگا پڑنا ہے۔
11ستمبر 2001 کو جب امریکہ پر قیامت بیتی تو سب سے زیادہ ہمارا خطہ بالخصوص ارضِ پاکستان متاثر ہوا۔ سانحہ 9/11 پر امریکی وزیر خارجہ کولن پا ول کی فون کال پر سات احکامات ملے۔کمانڈو صدرجنرل مشرف کی من و عن ’’ نکی جئی ہاں ‘‘ سے پاکستان پر جہاں ڈالروں کی بارش ہوئی وہاں دہشت گردی آماجگاہ بنی۔ آج پھر خطہ کی ارضی سیاست انگڑائیاں ،کروٹیں لینے کو۔ ڈالروں کی بارش بھی شروع ہوچکی۔ معاوضے میں اس دفعہ’’نکی جئی ہاں‘‘ کیا رنگ لاتی ہے؟ موضوع نہ تفصیل کا وقت ،عرض اتنی کہ ایسے مواقع پر پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کے گرداب میں تھا۔ آج پھر سیاسی افرا تفری عروج پر ہے۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی پنجاب/ KP میں وزراء ِاعلیٰ کی سلیکشن تفکرات خدشات بڑھا چکی۔ جہاں عمران خان اپنی پھونکنی سے بُزدار لالٹین جلانے بھڑکانے میں اثرو رسوخ خرچ کر رہے ہیں وہاں عمران خان کو لانے والی طاقتیں اپنی پھونکنی کے پُر زور استعمال سے عمرانی چراغ کو جلا بخشنے میںکوشاں ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان ملاحظہ فرمائیں ’’ جب میں طاقتور حلقوں کے بیان سنتا ہوں تو یہ بات طے ہوچکی ، انہوں نے ذہن بنا لیا ہے کہ نواز شریف اور زرداری نامنظور ‘‘۔سیاسی عدم استحکام بدرجہ اُتم موجود ماضی کی طرح رائے عامہ آج بھی بے توقیر و نامنظور ۔کیا وطنی تاریخ اپنے آپکو دہرانے کو؟ حالات نامساعد ضرور،بات حتمی کہ بُزدار کا کلہ مضبوط اوربقول شاہ محمو دقریشی طاقتور حلقوں کے پاس بھی چوائس نہیں چنانچہ عمرانی کلہ بھی مضبوط۔ بُزدار پر معاندانہ ہونے کی ضرورت نہ بار باراُلٹی گنتی کی ضرورت کہ یقین دلاتا ہوں بُزدار کہیں نہیں جا رہے۔ جلتا ہے یا بُھجتا ہے، بات حرفِ آخر، عمران خان کی پھونکنی سے یہ چراغ جلنے کا نہیں۔

دروازے پر دستک دیتی نئی تباہی


سلیم صافی

جرگہ


میرے منہ میں خاک لیکن اگر فریقین نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مجھے پورا پاکستان اور بالخصوص پختون سرزمین ایک بار پھر،ایک نئے اورخون ریز بحران کی طرف طرف تیزی سے بڑھتی نظرآرہی ہے۔ یہ بحران بنیادی طور پر گزشتہ بحران(وار آن ٹیرر) کا منطقی نتیجہ ہے لیکن بدقسمتی سے فریقین اسے جس طریقے سے ڈیل کررہے ہیں، اس کا نتیجہ گزشتہ بحران سے بھی زیادہ سنگین اثرات کی صورت میں نکلتا ہوا نظرآرہا ہے۔ بدقسمتی سے حالات ایسے بن گئے ہیں کہ اس تباہی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر بھی اس کی بعض جہتوں کو میں تحریر کرسکتا ہوں اور نہ تفصیل بیان کرسکتا ہوں۔ تاہم اشارتاًاتنا بتاسکتا ہوں کہ وار آن ٹیرر کے دو ہیروز یعنی سیکورٹی فورسز اور پختون عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی سازش ہورہی ہے اور ایک بار پھر قبائلی علاقہ جات جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں، اس کا مرکز ، منبع اور میدان بنتے نظرآرہے ہیں۔ نیت شاید ایک بھی فریق کی غلط نہیں ۔ شاید دونوں فریق پورے اخلاص کے ساتھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ملک اور قوم کی بھلائی کے لئے سرگرم ہیں لیکن اگر مکالمہ نہ ہوا، ایک دوسرے کو نہ سمجھا گیا اورصرف اپنے اپنے فہم اور پس منظر کے ساتھ معاملے کو آگے بڑھایا گیا تو تباہی کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی سیکورٹی فورسز ، قوم اور بالخصوص پختون تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزرے۔ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر طبقے کی آزمائش اتنی سنگین تھی کہ اسے دوسرے کی آزمائش اور قربانی کا صحیح ادراک اور احساس ہی نہیں ہوسکا۔ مثلاً سیکورٹی اداروں کے لئے یہ شاید تاریخ کی طویل ترین اور مشکل ترین جنگ تھی۔ فوجیں جنگیں لڑتی ہیں لیکن دنیا کا کوئی فوجی چند ماہ سے زیادہ وقت کے لئے محاذ جنگ پر نہیں ہوتا تاہم یہاں لوگ کیپٹن سے جنرل کے عہدے تک پہنچے اور مسلسل کبھی ایک تو کبھی دوسرے محاذ پر لڑتے رہے ۔ موجودہ فوجی قیادت میں سے شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو کہ جس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ یہ تاریخ کی مشکل ترین جنگ اس لئے تھی کہ یہ اپنی سرزمین پر اپنے ہموطنوں سے لڑنی پڑی- کچھ کو دونوں سرحدوں پر پہرہ دینا پڑ رہا ہے تو کچھ کو ملک کے اندر اس طرف یا اس طرف سے مدد لینے والے اپنے ہموطن اور ہم کلمہ بھائیوں سے برسرپیکار رہنا پڑا۔ یہ جنگ ان لوگوں کے خلاف لڑی گئی کہ جو اپنی جنگ کے لئے اس مذہب کی آڑ لے رہےتھے جو خود ان سیکورٹی فورسز کا بھی مذہب ہے اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ جس دشمن کے خلاف یہ جنگ لڑنی پڑی وہ ماضی میں اپنے اتحادی بھی رہ چکے تھے- اسی طرح وہ ایک ایسے دشمن سے لڑرہی تھیں اور اب بھی لڑرہی ہیں کہ جس کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے ہر علاقے، ہر طبقے اور ہر ادارے میں موجود تھے اور ہیں۔یوں یہ جنگ لڑنے والے جوان اور افسران جذباتی بھی ہیں اور بہت چارجڈ بھی۔ وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اس قوم کا ہر فرد ان کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا احسان مند رہے اور اگر اس جنگ میں ان سے کسی غلطی یا تجاوز کا صدور ہوا بھی ہے تو اس سے درگزر کرکے اسے ہیرو اور محسن مانا جائے۔
عوام اور بالخصوص پختون بھی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرے اور اب بھی گزررہے ہیں۔ ابتدا میں انہیں ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کی خاطران عسکریت پسندوں، جو پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کہلائے، کو گلے سےلگالیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گھربار اور چراگاہیں ان کے لئے کھول دیں۔ پھر ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ طالبان ان پختونوںکے گلے پڑگئے- ان کے زعمااور لیڈر ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ ان کی معیشت تباہ ہوئی۔ ان کی ثقافتی اقدار تک کو تبدیل کیا گیا۔ لمبے عرصے تک ریاست تماشہ دیکھتی ۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھیجا گیا جنہیں ان لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہار پہنائے اور سرآنکھوں پر بٹھایا۔ ابتدا میں ان کو ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں تھی یا پھر ان میں اچھے بُرے کی تفریق کی جارہی تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں کا ڈپریشن یوں بڑھتارہا کہ وہ دیکھتے کہ وہی عسکریت پسند یہاں حسب سابق سرگرم عمل ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی جبکہ ان کو مارنے کے لئے امریکی ان کے علاقوں میں ڈرون حملے کررہے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ ریاست نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا ۔چنانچہ ایک دن اچانک ان پختونوں کو گھروں سے نکلنے کا حکم ملا ۔ لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ گھربار ، کاروبار ، فصلیں اور باغات چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ جب مہاجر بن گئے تو ان کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی مناسب اور متبادل بندوبست نہیں تھا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک وہ ذلیل اور خوار ہوتے رہے کیونکہ یہاں بھی انہیں اس شک کے ساتھ دیکھا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ کوئی سال مہاجر رہا ، کوئی پانچ سال اور کوئی آج بھی مہاجرہے۔ ان لوگوں کے ساتھ پولیس اور ریاست کی طرف سے کیا سلوک ہوتا رہا ، اس کی ایک زندہ مثال نقیب اللہ محسود ہے۔ آپریشنوں کے بعد جو لوگ واپس جارہے تھے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کی خاطرہجرت کی قربانی دینے والے ان قبائلیوں کو ہار پہنائے جاتے لیکن ان بیچاروںکو ایک بار پھر عذاب سے گزرنا پڑا۔ ان کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا دوبارہ حلف اٹھائیں گے اور جان لیواا سکروٹنی سے گزرنے کے بعد وطن کارڈ کے ذریعے ہی کئی چیک پوسٹوں پر سے گزر کر اپنے علاقوں کو واپس جائیںگے۔ وہ اپنے علاقوں میں واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگ کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ان لوگوں کی ترجمانی کی اور نہ میڈیا نے ۔ چنانچہ خود ان کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک اٹھی اور پلک جھپکتے سارے متاثرین اس کے گرد جمع ہونے لگے- ان لوگوں کا پورا کیس بحیثیت مجموعی بالکل درست نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے بیانیے میں غصہ بھی ہے اور بعض حوالوں سے تجاوز بھی نظر آتا ہےجبکہ ریاست کے پاس ان لوگوں سے متعلق کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی بلکہ وہ فائرفائٹنگ کرتی نظرآتی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے یہ دونوں متاثرین اور ہیرو(سیکورٹی فورسز اور متاثرہ پختون) یک جان دو قالب ہوتے لیکن بدقسمتی سے ان کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنےکی سازش ہورہی ہے- المیہ یہ ہے کہ دونوں متاثرہ فریق بہت جذباتی ہیں ۔ہرفریق کی قربانی اتنی زیادہ اور دکھ اتنا گہرا ہے کہ وہ دوسرے فریق کے دکھ اور مجبوریوں کا پوری طرح احساس نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر قربان ہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں یا تو تماشہ دیکھ رہی ہیں یا پھر اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک فریق یا دوسرے فریق کی ہاں میں ہاں ملارہی ہیں۔ یوں تو ہر سیاسی لیڈر کا فرض ہے لیکن میرے نزدیک اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اسفندیار ولی خان ، آفتاب شیرپائو اور نواب ایاز جوگیزئی جیسے لوگوں کی بنتی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن پر دونوں فریق اعتماد کرسکتے ہیں۔ ان کو اور ان جیسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اور فریقین میں مکالمہ کروا کے انہیں ایک دوسرے کی مجبوریوں کا احساس دلائیں اور مل بیٹھ کر ایسا راستہ نکالیں کہ جس کے نتیجے میں دونوں فریق ایک دوسرے کے زخموں کو مزید گہرا کرنے کی بجائے ان پر مرہم رکھنے کے قابل ہوسکیں۔

ایک قابل تقلید مثال

افغان امن مزاکرات میں پیش رفت

مزاح اورت صنف نازک

پیر، 28 جنوری، 2019

اندھا کنواں ظالم ڈول



علم ہوکہ حکم، رویہ یا معاملہ جب اس کو فطرت کے اصول کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو ظلم کہلائے گا۔اور مظلوم وہ ہوتا ہے جس کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جاٗے جو اس کا نہ ہو۔ انفرادی زندگی میں ظلم کا نتیجہ بیماری، معذوری اور خود کشی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ خاندانوں میں ظلم نفرت، ناچاکی اور طلاق کا سبب بنتا ہے اور معاشروں میں جھوٹ، فریب، ڈاکہ ، دہاندلی اور قبضوں کا چن چڑہاتا ہے۔ ریاستی سطح پر بے اعتمادی، بد گمانی ، لوٹ کھسوٹ اور رشوت کو تقویت دیتا ہے۔ 

معاشرے کی مثال ایک دریا کی مانند ہوتی ہے جو اپنے فطری راستوں اور رفتار سے بہتا ہے۔ بہتے دریاو ں میں مخصوص موسموں میں طغیانی آنا بھی فطری عمل ہے البتہ بہتا دریا اچانک خشک ہو جائے تو یہ عمل فطری شمار ہو گا۔ پاکستان میں بہتے دریا خشک ہو گئے مگر ظلم یہ ہواکہ کسی جہاندیدہ بزرگ نے لاٹھی پکڑ کر پہاڑ پر نہ چڑہنا ہی گوارا نہ کیا۔

پاکستان کے عسکری ادارے کے ایک سربراہ نے اپنے ادارے اور حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو ادارے کے اندر سے کسی نے مزاحمت کی نہ کسی نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ وہ ملک جو بناتے وقت لاکھوں جانوں کی بلی دی گئی تھی ۔ اس کے دو لخت ہونے پر نہ کسی کی غلطی کی نشان دہی کی گئی نہ کسی پر مقدمہ چلا۔کیا اس کو ظلم کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟

ملک کی بنیاد رکھنے والوں نے صاف الفاط اور واضح لہجے میں بتایا تھا کہ یہ ایسا ملک ہوگا جہان تمام لوگوں کو امن میسر ہو گا۔ انگریز سے آزادی کا مطلب تھاشہریوں کو ریاست کے لیے قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے گا۔ انسان کی تکریم کی مثال قائم کی جائے گی تاکہ دوسرے ملکوں کو اس نظام کو اپنے ہاں نافذ کرنے کی حرص پیدا ہو۔ ظلم یہ ہوا کہ عملی طور پر ہم نے ایسا ملک بنایا جہاں انسانی جان بے وقعت ہو کر رہ گئی۔ ریاست عوام دوست کا کردار ادا کرنے کی میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ عوام دشمنی کو اپنی کامیابی گرداننے لگی۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو اپنی ہی سرزمین سے پکڑ کر دشمن کو فروخت کرے اور باقی ماندہ لوگوں کو ظلمتوں میں دھکیل کر بیرون ملک جا بسے اور ریاست چپ سادھ لے۔

ملک کی سب سے اونچی عدالت کے سب سے بڑے منصف کی عدالت میں منصف کے روبرو ایک شخص منصف پر رشوت مانگنے کا الزام لگائے ،الزام کی تردید ہو نہ عدالت کی توہین کا مقدمہ قائم کیا جائے نہ اس شخص کو پاگل خانے بھیجا جائے ۔ عدالتوں میں مقدما ت پر ریلیف دینے کی روائت تو کسی کتاب میں پڑہی نہ اخباروں مین دیکھی مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل درجنوں ملکوں سے بہتر ہے ۔ ایسی خود فریبی کو ظلم کے علاوہ دوسرا کیا نام دیا جائے۔

اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو پیشانی سے قابو کرتا ہے مگر ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے وہ مخالفین کو کرپشن کے نام پر پکڑتی ہیں۔ کرپشن وہ غبارہ ہے جس میں بے بنیاد پروپیگنڈے کی ہوا بھر کر اس کو پھلایا جاتا ہے اور عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ کرپشن سے بھرا ہوا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جو معاشرہ سول حکومت کے دوران کرپٹ ہوتا ہے ۔ کسی آمر کے آتے ہی حاجی اور پرہیز گار ہو جاتا ہے مگر جوں سول حکومت قدم رنجہ ہوتی ہے یہ شیطان اسی لمحے مخالفین پر اپنا جال پھینک کر انھیں کرپٹ بنا دیتا ہے۔ یہ جو اہل دانش کا فرما ن ہے کہ ظلم کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ ان کو کوئی جا کر خبر کرے ۔آو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ہم نے ظلم کے غبارے میں اپنے جبر سے ہوا بھر کے اسے قائم بھی رکھاہوا ہے۔

کرپشن وہ اندھا کنواں ہے جس میں بار بار ڈول ڈالا جاتا ہے ۔ پہلے لوگ ڈول ڈالنے کے اس تماشے کو اشتیاق سے دیکھتے تھے۔ مگرہر بار اور بار بار یہ ڈول بے مراد ہی واپس آیا ہے۔ اب عوام بھی جان چکی ہے اس اندھے کنویں میں امید کا گمان بھی نہیں ہے ۔ جبر مگر یہ ہے کہ یہ ظالم ڈول ڈالنے والوں کے لیے خالی نہیں ٓتا۔اور یہی سب سے بڑا ظلم ہے ۔

اتوار، 27 جنوری، 2019

چارج شیٹ کا سال

درندگی کا کلچر

پارلیمانی نظام کا مستقبل

عمران کے وسیم اور انضمام، حقیقت کیا ہے؟

محمد بلال غوری

ترازو


بالعموم سپاہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کوئی شخص ایک بار سپاہی بن گیا تو پھر وہ زندگی بھر سپاہی رہتا ہے لیکن شاید یہ بات کھلاڑیوں پر بھی صادق آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہردلعزیز اسکپر کسی بھی موقع پر کرکٹ کا حوالہ دینا نہیں بھولتے۔ ان کی کوئی تقریر 92کے ورلڈ کپ اور کرکٹ کی اصطلاحات کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جب وہ اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے تو بائونسر کروانے اور وکٹیں اُڑانے کی باتیں ہوتیں یہاں تک کہ انہوں نے ایک بال سے بیک وقت دو وکٹیں اڑانے کا دعویٰ بھی کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اب فیلڈنگ کا مرحلہ تمام ہوا، اس لئے وہ جارحانہ بلے بازی کی باتیں کرتے ہیں۔ چند روز قبل قطر میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے اسکپر نے بتایا کہ جب ہم نے بیٹنگ شروع کی تو پاکستان 20رنز کے مجموعی اسکور پر 4وکٹیں گنوا چکا تھا لیکن اب فکر کی کوئی بات نہیں، میانداد اور عمران خان وکٹ پر موجود ہیں۔ جب انہوں نے میانداد کا حوالہ دیا تو مجھے 1987ء ورلڈ کپ کا پہلا سیمی فائنل یاد آگیا جو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آسٹریلیا اور پاکستان کے مابین کھیلا گیا۔
پاکستان نے 267رنز کے تعاقب میں اپنی اننگز شروع کی تو میچ پر گرفت بہت مضبوط تھی۔ جاوید میانداد اور عمران خان وکٹ پر موجود تھے اور فکر کی کوئی بات نہ تھی۔ جاوید میانداد 70رنز بناکرکلین بولڈ ہوئے تو عمران خان بھی 58رنز بنا کر کیچ آئوٹ ہو گئے۔ ایک موقع پر 45گیندوں پر محض 31رنز درکار تھے لیکن وکٹیں گرنے کے باعث پاکستان یہ میچ ہار گیا۔ شکست کے بعد اسکپر منہ بسور کر زمان پارک میں بیٹھ گئے اور اسپورٹس رپورٹرز کو بلا کر بتاتے رہے کہ یہ میچ پاکستان میاندادکی سلو بیٹنگ کی وجہ سے ہارا ہے۔ بہرحال اسکپر کو کھیل میں سیاست کے فن پر عبور حاصل تھا اس لئے بہت جلد میانداد کا پتا صاف کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
جب عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی مخالفت ہوئی تو اسکپر نے کہا، میرا یہ انتخاب وسیم اکرم کی طرح درست ثابت ہوگا اور عثمان بزدار ایک دن وسیم اکرم پلس بنے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وسیم اکرم واقعی عمران خان کا انتخاب تھا اور یہ موازنہ درست ہے؟ زندگی بھر اسپورٹس رپورٹنگ کرنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ وسیم اکرم کبھی عمران خان کا انتخاب نہیں رہے۔ لاہور کے علاقے مزنگ کا رہائشی وسیم اکرم لاہور میں ’’کھبا‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور لُدھیانہ جمخانہ کی طرف سے کھیلا کرتا تھا۔ چونکہ لُدھیانہ جمخانہ ان دنوں لاہور کرکٹ ایسوسی ایشن کی مقامی سیاست میں اپوزیشن کیمپ کا حصہ تھا اس لئے اسے چانس نہ دیا گیا۔ لیجنڈری خان محمد جو پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ تھے، انہیں بلا کر لاہور قذافی اسٹیڈیم میں ٹیلنٹ ہنٹ کیمپ لگایا گیا۔ خان محمد نے کہا کہ ’’کھبے‘‘ کو دو سال کی کرکٹ مل گئی تو یہ اڑا کر رکھ دے گا۔ ان دنوں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آ رہی تھی، اسکپر نے کھیلنے سے انکار کر دیا۔
کرکٹ بورڈ نے میانداد کی منت سماجت کی، میانداد نے اس شرط پر ٹیم کی کپتانی کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ نیوزی لینڈ ریٹرن ٹور بھی انہی کی کپتانی میں بھیجا جائے گا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم آئی تو 3روزہ پریکٹس میچ میں وسیم اکرم کو پریزیڈنٹ الیون کی جانب سے کھلایا گیا تو اس نے شاندار بائولنگ کی اور 7وکٹیں لے اُڑا۔ لیکن وسیم اکرم کو قومی ٹیم میں چانس نہ دیا گیا اور پھر جب میانداد کی کپتانی میں ریٹرن ٹور نیوزی لینڈ گیا تو وسیم اکرم کو موقع دیا گیا، یوں وسیم اکرم کو کسی حد تک جاوید میانداد کا انتخاب کہا جا سکتا ہے یا پھر اس دریافت کا سہرا لیجنڈری خان محمد کو جاتا ہے۔
کرکٹ سے شناسائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسکپر کی نظر انتخاب دو کھلاڑیوں پر ٹھہری اور وہ دونوں کامیاب اننگز نہ کھیل سکے۔ منصور اختر ایک نجی بینک کی طرف سے کھیلا کرتے تھے اور فرسٹ کلاس کرکٹ کے بہترین بلے باز تھے۔ انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 561رنز کی شراکت کا ورلڈ ریکارڈ بھی بنایا۔ اسکپر نے منصور اختر کو نہ صرف ٹیم میں جگہ دی بلکہ اوپننگ بلے باز کے طور پر کھلایا لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا اور منصور اختر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے تو اسکپر نے جم کر دفاع کیا اور بتایا کہ یہ ڈومیسٹک کا بہترین بلے باز ہے، ایک دن انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی بلے بازی کے جوہر دکھائے گا۔ اسکپر نے شدید مخالفت کے باوجود منصور اختر کو 41ون ڈے میچ کھلائے اور وہ 35اننگز میں 17.4کی اوسط سے صرف 593اسکور بنا سکے اور سب سے زیادہ اسکور 47رہا۔ اسکپر لوگوں کی تنقید کو خاطر میں لانے کے روادار نہیں مگر جب کوچ اور سلیکشن کمیٹی نے فیصلہ کرلیا تو پھر ہار ماننا پڑی۔ اسی طرح لیفٹ آرم لیگ اسپنر ندیم غوری جنہوں نے بطور امپائر خاصا نام کمایا، وہ بھی اسکپر کا غلط انتخاب ثابت ہوئے۔ 1990ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران اسکپر نے روایتی انداز میں سوچھے سمجھے بغیر ندیم غوری کو بلایا اور پوچھا:آسٹریلیا کے خلاف کھیلو گے؟ اس نے کہا:ہاں! کیوں نہیں۔ اسکپر نے کہا:تو پھر آ جائو۔ ندیم غوری ٹیسٹ میچ میں کوئی وکٹ نہ لے سکے۔ بعد ازاں 6ون ڈے میچوں میں بھی موقع دیا گیا لیکن عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ دکھا سکے۔
اسکپر اب سیاسی اننگز کو کرکٹ کے انداز میں کھیل رہے ہیں تو ان کی مرضی لیکن کرکٹ اصطلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے موازنہ تو درست کیا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز بغیر کسی وکٹ کے نقصان پر کیا تھا اور بہت کم اسکور پر ان کی وکٹیں گر چکی ہیں حالانکہ اس سے قبل انہیں خیبر پختونخوا میں نیٹ پریکٹس کا بھی بھرپور موقع دیا گیا تھا۔ جہاں تک پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کے انتخاب کا تعلق ہے، ان کا موازنہ وسیم اکرم اور انضمام سے کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ یہ دونوں کھلاڑی کبھی اسکپر کا انتخاب نہیں رہے۔ ہاں! البتہ ان دونوں کو منصور اختر اور ندیم غوری سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی اس واہمے میں مبتلا ہے کہ اسکپر کو غلطی کا احساس ہو گیا ہے، اس لئے انتخاب پر نظر ثانی متوقع ہے تو وہ اپنا مغالطہ دور کر لیں، اسکپر کسی قسم کی مخالفت یا تنقید کو خاطر میں نہیں لاتا، البتہ ڈریسنگ روم میں بیٹھے وہ کوچ جنہوں نے اسے اسکپر بنایا، کی طرف سے فیصلہ ہو جائے تو سرتابی نہیں کی جا سکتی۔ اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کی طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے۔

ہے نا مزے کی بات!

ارشاد بھٹی


ہے نا مزے کی بات، اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل کی جگہ فلیٹ، شاپنگ مال، درجنوں بے ضابطگیاں، عدالت کا فیصلہ خلاف، پھر بھی نوٹسز، سب کو سنا گیا اور آخرکاربڑی عدالت نے تینوں ٹاورز ’ریگولرائز‘ کر دیئے، چک شہزاد کے غیر قانونی فارم ہاوسز، نوٹسز بھیجے گئے، سب مالکان کو بلایا گیا، آخرکار تمام فارم ہاؤسز قانونی ہوئے، ہلکے پھلکے جرمانے، وہ بھی قسطوں میں مگر خیبر سے کراچی تک غریبوں کی دکانیں، گھر گرا دیئے گئے، نوٹس، شنوائی نہ کوئی متبادل بندوبست، ہزاروں لوگ بے گھر، کاروبار بھی گیا، ہے نا مزے کی بات۔ ایک اور کیس میں سابق میئر کراچی نعمت اللہ کی 2010ء کی پٹیشن کا سُنا جانا، بات جام صادق علی پارک کی ہونا، پتا چلنا پارک تجاوزات کی نذر ہو چکا، معاملہ آگے بڑھنا، کراچی ماسٹر پلان کے سوا ستیاناس کی الف لیلہ داستانوں کا سامنے آ جانا، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کا مبینہ طور پر یوں نوٹ چھپانا کہ 5سو غیر قانونی عمارتیں بنوا دینا، پارکوں، کھیل کے میدانوں، اسپتالوں، قبرستانوں تک کا بک جانا، رہائشی پلاٹوں پر شادی ہال، شاپنگ سنٹرز، پلازے بن جانا،عدالت کا یہ کہنا ’’شہر کو لاوارث، جنگل، گٹر بنا دیا، شہر نہیں سنبھال سکتے تو کسی کو دیدو، کام نہیں کرنا تو عہدوں سے کیوں چمٹے بیٹھے، آپ کے تو چپراسی کروڑ پتی ہو چکے، کراچی کو اس حال میں دیکھ کر شرم نہیں آتی، سب مال بنا رہے، مال باہر جا رہا، کراچی خالی دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہوگا، صرف دعاؤں سے سب ٹھیک ہو جاتا تو آج عراق، شام، یمن، افغانستان کا یہ حال نہ ہوتا‘‘۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کی واٹر کمیشن رپورٹ پڑھ لیں، رونا آ جائے، لگے کراچی یتیم کا مال، اس سے پہلے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کہہ چکے ’’لاڑکانہ کے فنڈز بھی کھا گئے، ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دے‘‘۔ ثاقب نثار نے کئی بار کہا ’’جس دن لانچوں میں پیسہ دبئی جانا بند ہو جائے گا، سندھ کے حالات بہتر ہو جائیں گے‘‘، پھر 26دنوں میں 40بچے علاج کی سہولتیں نہ ہونے پر صرف ایک مٹھی اسپتال میں مر گئے، مائیں سیشن جج کو دکھ سناتے سناتے رو پڑیں۔ یہ سندھ، جہاں کے بلاول کو خوبصورت تقریروں سے فرصت نہیں، یہ سندھ، جہاں کے زرداری صاحب سے مبینہ کرپشن، کمیشن، منی لانڈرنگ، لوٹ مارکا پوچھ لو تو اٹھارہویں ترمیم، سندھ کی خود مختاری خطرے میں پڑ جائے، یہ سندھ، جہاں عام انسان جنگلوں، گٹروں میں رہ رہا جبکہ زرداری صاحب اینڈ کمپنی کی موجاں ای موجاں، یہ سندھ، جہاں کروڑوں محرومیوں، بے بسیوں کی نذر جبکہ ایک بڑے گروپ کے مزے، یہ سندھ، جہاں اگر کسی کی سو فیصد ضروریات پوری ہو رہیں تو وہ لیڈروں کے کتے۔
ہے نا مزے کی بات! 29اگست 2018ء کو چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال وزیراعظم سے ملنے جائیں تو ہاتھ ملاتے عمران خان بات یہاں سے شروع کریں ’’جاوید اقبال صاحب صرف 6ماہ میں جو عزت آپ نے کمائی، وہ بلاشبہ قابلِ تحسین، حکومت آپ کے ساتھ کھڑی، بلاامتیاز احتساب کریں، حکومتی عہدیداروں سے بھی NOرعایت‘‘، ملاقات کے اختتامی لمحات میں چیئرمین نیب کہیں ’’نیب کے فنڈز رکے ہوئے، وہ دلوا دیں‘‘ وزیراعظم ہفتے دس دن کے اندر فنڈز دینے کا وعدہ کریں اور پھر 4ماہ گزر جائیں بلکہ 17جنوری 2019ء کو وفاقی کابینہ میں ایجنڈا آئٹم آئے کہ نیب نے 75کروڑ مانگے، عمران خان برہم، وزراء بھڑک اُٹھیں ’’نیب نے کیا کیا، جو اسے پیسے دیں، پلی بارگین کی رقمیں کہاں گئیں، پہلے نیب کا آڈٹ کیا جائے‘‘ یوں نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے، دوسروں کا حساب کرنے والے نیب کا اپنا حساب ہونے لگا، یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ نیب زلفی بخاری سے پرویز خٹک تک، علیم خان سے محمود خان تک، پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے بابر اعوان تک حکومتی پیاروں کو بلانے، سوال کرنے کی جرأت کر بیٹھا، سوچوں صرف ایک سال میں 590ریفرنسز دائر کرنے والے نیب کی اس سے بہتر کارکردگی اور کیا کہ پی پی، ن لیگ سمیت تمام اپوزیشن مخالفت کر رہی اور حکومت بھی تنگ۔
ہے نا مزے کی بات! جیسے 6ماہ ضائع کرنے کے بعد سوچا جا رہا کہ کیوں نہ عثمان بزدار، محمود خان کی جگہ نئے وزرائے اعلیٰ لائے جائیں، ویسے ہی سانحہ ساہیوال کے بعد سوچا جا رہا کیوں نہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کر لی جائیں، تاریخ تو یہی بتائے کہ ہر اپوزیشن کی خواہش پولیس اصلاحات ہوں اور ہر حکومت کی کوشش کہ ایسا نہ ہی ہو تو بہتر، لیکن پچھلوں سے تو پولیس اصلاحات کی توقع و امید تھی نہ انہیں اصلاحات Suitکریں، کیونکہ پی پی، ن لیگ دونوں کی سیاست تھانے، کچہری، پٹواری کے بل بوتے پر، پولیس ان کی ذاتی محافظ بھی،ووٹ لینے، مخالفین کو دبانے کا آلہ بھی، پنجاب میں 10سال 3ہزار اہلکار تو ہاؤس آف شریفس کی حفاظت کرتے رہے جبکہ سندھ میں پولیس زرداری، اومنی گروپ کی شوگر ملوں کو گنا پہنچانے میں لگی ہوئی، لہٰذا اصلاحات کی پہلے اور اب بھی امید عمران خان سے ہی، یہ علیحدہ بات کہ پولیس اصلاحات کے سرخیل، فلم تبدیلی کے پوسٹر بوائے ناصر درانی گئے تو کپتان نے مڑ کر خبر نہ لی، ہے نا مزے کی بات! سندھ میں 2002ء سے 2011ء تک پولیس آرڈر چلتا رہا، پھر جمہوریت آئی اور 1861ء کا پولیس ایکٹ آگیا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں بھی 1861ء والا پولیس ایکٹ، بلوچستان میں بھی 2002ء سے 2011ء تک پولیس آرڈر چلا، پھر 1861ء پولیس ایکٹ، بلوچستان میں تو صورتحال ایسی مضحکہ خیز کہ ان کے پولیس ایکٹ میں ایک شق یہ بھی ’’ہاتھیوں کی موومنٹ کو ریگولیٹ کیا جائے گا‘‘، بلوچستان کے بقراطوں کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ ہاتھیوں کی جگہ آج کا کوئی جانور ہی ڈال دیتے، یہ بھی دیکھئے کہ فیض آباد یعنی راولپنڈی میں 2002ء کا پولیس آرڈر، فیض آباد سے دو کلومیٹر آگے اسلام آباد میں 1861ء کا پولیس آرڈر جبکہ اسلام آباد سے چند کلومیٹر آگے ترنول پھاٹک کی دوسری طرف کے پی میں 2016ء پولیس کا آرڈر۔
ہے نا مزے کی بات! حکومت فرما رہی آپریشن ساہیوال درست مگر خلیل فیملی کا مرنا غلط، جی بالکل، آپریشن درست، آپریشن میں مرنیوالے غلط، یعنی 5سی ٹی ڈی اہلکاروں پر ایف آئی آر ہو چکی، سی ٹی ڈی سربراہ سمیت دو ایڈیشنل آئی جی عہدوں سے ہٹا دیئے گئے، دو تین افسر برطرف، پھر بھی آپریشن درست، ہے نا مزے کی بات، 6مہینے ہونے کو آئے، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں روزانہ احتجاج، واک آوٹ، لڑائیاں، زبان درازیاں لیکن ایک واک آوٹ، احتجاج، لڑائی، زبان درازی، مہنگائی، بیروزگاری مطلب عوامی مسائل پر نہیں، سب کا سب کچھ اپنے لئے، اپنوں کیلئے، ہے نا مزے کی بات، آج کل پی پی کا مقدمہ ن لیگ لڑ رہی، ن لیگ کے مسائل پی پی والے حل کر رہے، مطلب بھٹو کے کام ضیاء کر رہا اور ضیاء کے کام بھٹو نمٹا رہا، ہے نا مزے کی بات، ملک کا وزیراعظم کھلاڑی، کرکٹ رینگ رہی، ہاکی کا بھٹہ بیٹھا ہوا، اسکواش کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، ٹینس، والی بال سب کھیل زوال پذیر اور کھلاڑی وزیراعظم کو فکر نہ فاقہ، ہے نا مزے کی بات! 22جنوری 2016ء کو عمران خان نے کہا ’’ٹیکس ایمنسٹی ایمانداری پر ٹیکس، یہ کالا دھن سفید کرنے کا اجازت نامہ، ٹیکس چوروں کی مدد، اقتدار میں آکر ایمنسٹی اسکیم ختم کر دوں گا‘‘ اور پھر اقتدار میں آکر ابھی دو دن پہلے 25جنوری 2019ء کو عمران خان صاحب بولے ’’ٹیکس ایمنسٹی لینے والوں کو ہراساں نہ کیا جائے‘‘، ہے نا یہ مزے کی باتیں، ویسے تو ایسی مزے کی باتیں، جمہوری مزے مطلب جمہوری چٹکلے اور بھی، مگر آج اتنا ہی۔

حکومتوں کا زوال ۔۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

سحر ہونے تک






حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم کا خزینہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کے اقوالِ زرّیں ہر موضوع اور ہر صورتحال کیلئے موجود ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تھا ’’اقتدار کفر کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ ’’الحکم بیقی مع الکفر ولا بیقی مع الظلم‘‘۔
ابھی جو ساہیوال کا دردناک واقعہ پیش آیا ہے اور اس سے پیشتر ماڈل ٹائون کا قتل عام، اس سے پیشتر بلوچستان میں بیگناہ وسط ایشیا کے باشندوں کا قتل عام، ایسے واقعات ہیں کہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عتاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ماڈل ٹائون کا حساب لیا گیا مگر براہ حجت کچھ مہلت دیدی گئی تھی۔ آج ذمہ داروں کی حالت زار دیکھ کر اللہ رب العزّت سے توبہ استغفار کیا جاتا ہے۔ ساہیوال کا واقعہ بھی اُسی طرح ظلم و قتل و غارت گری کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔
مجھے اس واقعہ سے بھوپال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہمارے پڑوس میں صوبیدار (ر) حیدر پاشا رہتے تھے، یہ جاگیردار تھے اور انکے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اپنے گائوں والوں پر بہت ظلم کرتے ہیں اور ان کی زمینیں بزور قوت ہتھیا لیتے ہیں۔ انکا بیٹا کاظم پاشا بھی کچھ کم نہ تھا۔ ایک روز حیدر پاشا کسی گائوں والے کو اُلٹا لٹکا کر زدو کوب کر رہے تھے کہ ایک رحمدل مسلمان ملازم سے یہ دیکھا نہ گیا، اسکے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ دیہاتی وہاں جنگلی جانوروں سے حفاظت کیلئے نیزے رکھتے تھے۔ اس شخص نے نیزہ اُٹھایا اور حیدر پاشا کی کمر میں اس زور سے مارا کہ وہ اس کے سینہ سے نکل گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ کاظم پاشا نے اسکے خاندان پر بہت ظلم ڈھائے۔ ایک روز کاظم پاشا کا بیٹا اسکوٹر پر جا رہا تھا کہ ایک شخص نے قریب آکر اسکے سر میں گولی مار دی اور وہ وہیں مر گیا۔ گویا کاظم پاشا نے باپ اور بیٹے کے قتل کا صدمہ اُٹھایا اور اپنے غلط کاموں کی سزا بھگتی۔
تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک میں ظلم کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کا انجام دیکھ لیجئے۔ انسان اگر پھر بھی سبق حاصل نہ کرے تو اس سے بدقسمت و بدبخت کون ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ظلم و زیادتی کرنیوالوں (یعنی اس کی نافرمانی کرنیوالوں) کو سختی سے انتباہ کیا ہے کہ ان کیلئے سخت عذاب اور جہنم ہے۔ مثلاً (1)سورۃ آل عمران، آیت 32میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی کرینگے تو سمجھ رکھیں کہ اللہ کافروں سے ذرا بھی محبت نہیں رکھتا‘‘۔ (2)سورۃ النساء، آیت 14میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کریگا اور اسکے احکامات کی حدود سے باہر نکل جائیگا، اللہ اُسے دوزخ کی آگ میں داخل کر دیگا۔ اس میں وہ ہمیشہ پڑا رہیگا اور اُسے ذلّت دینے والا عذاب ملے گا‘‘۔ (4)سورۃ الفتح، آیت 16میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے پہلے تم روگردانی کر چکے ہو تو اللہ تمھیں دردناک عذاب کی سزا دے گا‘‘۔ (4)سورۃ الجن، آیت 23میں اللہ تعالیٰ انتباہ کرتا ہے ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقیناً ایسے لوگوں کیلئے دوزخ کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے‘‘۔ (5)سورۃ التوبہ، آیت 72میں اللہ تعالیٰ سخت انتباہ کرتا ہے ’’اگر یہ منافق لوگ روگردانی کریں گے تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک سزا دے گا اور ان کا روئے زمین پر نہ کوئی دوست و یار ہو گا اور نہ ہی مددگار‘‘۔ (6)سورۃ النساء، آیت 94 میں اللہ رب العزّت فرماتا ہے کہ ’’تم تو دنیا کی زندگی کا سر و سامان چاہتے ہو، سو یقین رکھو کہ اللہ کے ہاں بہت انعامات ہیں‘‘۔ (7)سورۃ الانعام میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز کھیل کے اور تماشے کے اور یقیناً آخرت کا گھر پرہیزگاروں کیلئے بہت بہتر ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ (8)سورۃ الانفال، آیت 28میں رب العزّت فرماتا ہے ’’اور خوب جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد سراسر آزمائش کی چیزیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے‘‘۔ (9)سورۃ آل عمران، آیت 10میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا (گناہ کئے) ان کو ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ہرگز کام نہ آئینگے اور یہ لوگ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہیں‘‘۔ (10)سورۃ الرعد، آیت 26میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور کافروں (گنہگاروں) کیلئے تباہی ہے سخت عذاب کی وجہ سے جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں‘‘۔
دیکھئے! کلام مجید میں سخت انتباہ کیا گیا ہے کہ منافق، مشرک اور وہ مسلمان جنھوں نے بلاکسی جائز وجوہ کے کسی مسلمان کو قتل کیا ان کی ہرگز بخشش نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں عام تقاریر میں، وعظوں میں، خطبوں میں زیادہ تر دنیاوی باتوں میں وقت لگا دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتلاتے کہ وہ جو یہ قتل بلا جواز کرتے ہیں اس کیلئے ان کو نہایت سخت درد دینے والا عذاب جہنم ملے گا۔ اگر قاتلوں کو یہ بات سمجھا دی جائے تو وہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے کہ اسکا انجام ان کیلئے بہت ہی دردناک مستقل عذاب ہو گا۔ وہ دوزخ میں جلتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی کھال بار بار بدلتا رہیگا کہ وہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں۔ اور انسان کے بدن میں اس کی کھال سب سے زیادہ حساس ہوتی ہے، آپ کی انگلی کبھی ماچس کی تیلی سے جل گئی ہو تو آپ کو اسکا احساس ہوگا۔پچھلے دنوں (23 جنوری) کو وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے ایک اور منی بجٹ پیش کر دیا۔ عوام اور تاجروں کے ملے جلے تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلی حکومت میں اکثر لوگ تجربہ کار مگر بے ایمان تھے اور جان بوجھ کر کرپشن میں مبتلا رہتے تھے۔ اس حکومت میں لوگ ناتجربہ کار ہیں اور جو کچھ وہ سمجھتے ہیں یا کوئی اُن سے کچھ کہہ دیتا ہے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ نئے بجٹ میں کافی اچھی باتیں ہیں اور اُمید ہے کہ اس سے معیشت کو سہارا ملے گا۔بہت پہلے میں نے امریکی پروفیسروں (MIT)کی تحریر کردہ کتاب ’’Why Nations Fail‘‘ پر تبصرہ کیا تھا، اس کتاب یا تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ حکمران خود کم ہی ماہر ہوتے ہیں لیکن وہ اگر سمجھداری سے کام لیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں حضرت عمرؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز، خلیفہ ہارون الرشید وغیرہ بہت کامیاب حکمراں گزرے ہیں، اُن کی کامیابی کا راز اُن کی مردم شناسی اور اچھی ٹیم کا چنائو تھا۔ ہر شخص ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا۔ مگر سمجھدار حکمراں اچھے، تجربہ کار، مخلص اور ایماندار رفقائے کار کا چنائو کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ خود ساختہ، خودکار ماہرین کے بجائے تجربہ کار بزنس مینوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور معاشی پالیسیاں بنائیں۔ جناب ایس ایم مُنیر، جناب عارف حبیب، جناب زبیر طفیل، سردار یٰسین ملک وغیرہ کی ٹیم سے مشورہ لیں تو یقیناً معیشت بہت جلد اُڑان بھر لے گی۔ نیچے کا کام آپ کمشنروں سے لیں، ان پر ذمہ داریاں ڈالیں اور ان سے نظامِ مملکت میں مدد لیں۔ اسکولوں، کالجوں، ہیلتھ ڈسپینسریوں وغیرہ کو یہ لوگ فوراً فعال کر سکتے ہیں۔ امریکی پروفیسروں نے یہی بتایا تھا کہ اچھے آدمی اچھی جگہ لگائیں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بارے میں لوگوں کے تحفظات ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چوہدری سرور اور علیم خان کو حکمرانی دینے کا یہ واحد طریقہ کار تھا۔ بہرحال عوام اب بھی چاہتے ہیں کہ حکومت کامیاب رہے اور ملک ترقی کرے اور عوام کے معاشی حالات تبدیل ہو جائیں۔