جمعرات، 17 جنوری، 2019

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

                                   

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پاکستان کے 26ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 18 جنوری 2019کوحلف اٹھا لیا وہ 20 دسمبر 2019 تک اس عہدے پر رہیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے،انہوں نے 1969 میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا، اسی یونیورسٹی سے  1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، کیمبرج یونیورسٹی سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی 2 ڈگریاں حاصل کیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979 میں وطن واپس آئے اور لاہور ہائیکورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔ 21 مئی 1998 میں لاہور ہائیکورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 7 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 'پی سی او' کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔اگست 2008 میں وکلا کی تحریک کے بعد وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے بحال ہوئے۔اس وقت ملک میں 19 لاکھ کے قریب مقدمات التوا کا شکار ہیں ۔ 40871 مقدمات تو صرف سپریم کورٹ میں موجود ہیں جبکہ 130744 مقدمات خصوصی عدالتوں اور تریبونلز میں زیر التوا ہیں ۔ ملک کی ہائی کورٹس ، پنجاب میں 165515، کے پی کے 29624، بلوچستان 6842 ، سندھ  92169  جبکہ اسلام اباد میں 17085 مقدمات زیر التوا ہیں اس کے علاوہ ملک کی وفاقی شرعی عدالت میں بحی 422 مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں۔ 
  یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ١ میں ایک شہری نے چیف جستس پر رشوت لینے کے الزامات عائد کیے تو ادارے کو سانپ سونکھ گیا تھا۔ کسی جج نے جرات نہ کی کہ اپنے چیف کے خلاف لگائے گئے  الزام کی تحقیقات ہی کرا لی جائے ۔ البتہ چیف جستس صاحب کے نزدیک پاکستانی قوم اس لیے قابل رجم ہے کہ اس نے مزہب کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا لیکن سچائی، حق گوئی اور احتساب کو کوئی اپمیت نہیں دی ۔
 جستس کھوسہ کو اس قوم سے یہ گلہ ہے کہ وہ بے وقوف کو دانا سمجھتی ہے اور بد معاشوں کا احترام کرتی ہے۔
ان کے اس جرات مندانہ ریمارکس کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد کو مایوسی ترک کر کے دوبارہ انصاف کے لیے پر امید ہو جانا چاہیےکیونکہ جستس کھوسہ یقین رکھتے ہیں کہ جج کو اپنے فیصلوں کے زریعے بولنا چاہیے ۔

کوئی تبصرے نہیں: