بدھ، 30 جنوری، 2019

نظام کی تبدیلی؟

نظام کی تبدیلی؟
ذوالفقار علی بھٹو نے ستمبر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت کے ہاتھوں گرفتاری سے پہلے راولپنڈی کے آرمی ہاؤس میں اگست کے آخری ہفتے میں جنرل ضیاء الحق سے اپنی ملاقات کے بارے میں اپنی کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ اس ملاقات میں جنرل ضیاء الحق نے بات چیت کے دوران کہا کہ میں حیران ہوں کہ آپ جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاست دان نے پارلیمانی نظام کیسے قبول کرلیا۔ یہ نظام تو ملک کو سیاسی استحکام نہیں دے سکتا۔ مسٹر بھٹو نے لکھا کہ جنرل ضیاء الحق نے مجھ سے ملک کو مستقبل میں سیاسی طور پر مستحکم بنانے کے لیے میری رائے پوچھی تو میں نے جواباً جنرل کو بتایا کہ انہیں اس معاملے پر رائے دینے کے لیے ان کے پاس اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ ایسے مشیر موجود ہیں آپ ان سے مستقبل کے سیاسی نقشے پر رائے لیں وہ آپ کو زیادہ بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ مسٹر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے اس استفسار کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ایک طرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے ملک میں نوے دن میں انتخابات کرا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور دوسری طرف وہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کے ایک نئے خاکے پر صلاح مشورہ کررہا تھا۔1977ء کے مارشل لاء کے بعد فوجی حکومت نے ایک ’’الیکشن سیل‘‘ بھی قائم کیا تھا جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی تھے یہ سیل مختلف سیاسی جماعتوں سے پارلیمانی نظام کی جگہ کسی دوسرے جمہوری نظام کے بارے مشورے کرتا رہا۔ یہ سیل CELL متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کرانے پر سنجیدگی سے غور کرتا رہا اس وقت جماعت اسلامی متناسب نمائندگی پُر جوش حامی تھی۔ اس دور میں جرمنی اور فرانس کے جمہوری نظام کو پاکستان میں آزمانے پر بھی بحث ہوتی رہی۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے جو انتخابات کرائے وہ غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے۔
وطن عزیز میں کچھ عرصہ کے بعد نظام کی تبدیلی کی بحث شروع ہو جاتی ہے ان دنوں بھر ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پارلیمانی نظام کے بارے میں کچھ طبقوں کی رائے یہ ہے کہ یہ نظام ایک تو ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دوسرا ملک میں اچھی حکمرانی اور کرپشن کا خاتمہ بھی اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام برطانیہ‘ بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ اپنی خامیوں کے باوجود یہ نظام ان ملکوں میں ڈیلیور کر رہا ہے۔ ملک کے انتظامی معاشی اور سکیورٹی مسائل بھی حل ہورہے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ پارلیمانی نظام چلانے والوں کی نیت اور اہلیت اس نظام کو کامیاب بنانے کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے اسی لیے پارلیمانی نظام پر کچھ عرصے کے بعد نکتہ چینی شروع ہو جاتی ہے اور ایسے سیاسی عدم استحکام ملکی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان صدارتی نظام کا تجربہ کر چکے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے 1962 ء کا جوآئین قوم کو دیا تھا اس کے تحت صدارتی نظام رائج کیا گیا تھا۔ 1962 ء کے آئین کے تحت بالغ رائے دہی کی بنیاد عام لوگوں کو ارکان پارلیمنٹ اور صدر کے منصب کے لئے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔ ایک بالواسطہ جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا۔ متحدہ پاکستان میں عام آدمی کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں بنیادی جمہوریت کے تصور کے تحت دونوں صوبوں میں چالیس چالیس ہزار نمائندے چننے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ نظام 1962 ء سے مارچ 1969 ء میں دوسرے مارشل لاء لگنے تک چلتا رہا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے 80 ہزار نمائندے جنہیں BD ممبر کہا جاتا تھا۔ ارکان اسمبلی اور صدر کو منتخب کرتے تھے۔ اس نظام کے تحت صدر جنرل ایوب خان نے قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو 1964 ء کے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات کو غیرمنصفانہ اور MANIPULATED قرار دیا تھا۔ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ جن 80 ہزار ارکان نے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالے تھے انہیں دباؤ اور لالچ سے ایوب خان کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کے ایک طبقے کی رائے ہے کہ 1964 ء کا یہی صدارتی انتخاب ایوب خان کے اقتدار کو لے ڈوباکیونکہ اس میں ہونے والی دھاندلی نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کیا اور انٹی ایوب تحریک کا راستہ ہموار ہوا۔ 1968 ء میں ایوب مخالف تحریک دونوں صوبوں میں عروج پر پہنچ گئی۔ جنرل ایوب خان کو سیاست دانوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام اور ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات منعقد کرنے اور ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال کرنے کے مطالبات ایوب خان نے مان لئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان کو یہ وعدے پورے کرنے کا موقع نہ ملا۔ جنرل یحییٰ خان نے 1969 ء میں مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے دسمبر 1970 ء میں جو انتخابات کرائے ان کے نتیجے میں پارلیمانی نظام بحال ہوا۔ لیکن ملک دو لخت ہو گیا۔
ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کچھ حلقے صدارتی نظام کی بحث چھیڑ رہے ہیں صدارتی نظام کو ایک مرتبہ تو پاکستانی قوم مسترد کر چکی ہے شاید اسے پھر آزمانے کی کوشش کی جائے۔ یہاں آزمائے ہوئے کو آزمانے کی روایت موجود ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: