جمعہ، 14 جولائی، 2023

حیفا سے بنی گالہ تک






قادیانیوں نے  1925 میں شام میں اپنا مرکز بنایا تو شامی مسلمانوں نے انھیں بھی اسلام کے فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھامگر شام پر قابض فرانسیسیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ چند درجن، نووارد  افراد نے قلیل مدت میں ہی اعلی سرکاری افسران سے سماجی تعلقات استوار کر لیے تھے۔ ان کی تنظیم اور مالی خوشحالی نے بھی حکمرانوں کو چونکا دیا۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی اور سترہ مارچ  1928 کو فرانس نے اس گروہ کوچوبیس گھنٹوں میں ان کی حکمرانی کی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا۔ہندوستان کے شہر لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے مربی کی سربراہی میں یہ لوگ شام سے برطانیہ کے زیر تسلط فلسطین کی بندرگاہ حیفا پر اترے۔ جہاں سے انھیں جبل الکرمل پر واقع  قصبے  الکبابیر میں لے جا کر بسا دیا گیا۔

یہ وہ دور تھا جب مقامی فلسطینی اپنے مخدوش مالی و سیاسی حالات کی وجہ سے اپنی زمینیں فروخت کر رہے تھے۔  لدھیانہ کی ہدایت اور تعاون سے اس جماعت نے فلسطینوں میں یہ مہم چلائی کہ زمین یہودیوں کی بجائے انھیں فروخت کی جائے۔ پراپرٹی فلسطینوں سے خرید کر یہودیوں کو فرخت کرنے کا دہندہ ایسا منافع بخش ثابت ہواکہ ہندوستان میں لدھیانہ  کے مرکز کی دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ خود یہ مرکز مالی طور پر خوشحال ہوا۔ اپنی عبادت گاہ اور اسکول بھی بنا لیا۔ 1935  تک ان کا اپنا پرنٹنگ پریس قائم ہو چکا تھا اور ان کا تبلیغی رسالہ  البشری بھی باقاعدگی سے پرنٹ ہونا شروع ہو گیاجو اس وقت اسرائیل میں موجود  بائیس دوسرے مراکز کے ذریعے پورے اسرائیل میں تقسیم  کیا جاتا تھا۔

 1948  میں اسرائیل کے قیام کے بعد یہ مرکز اس قدر مضبوط ہو چکا  تھا کہ اسرائیل کے ہمسائیہ ممالک میں موجود مراکز کو کنٹرول کرتا تھا۔ حتی کہ دمشق مرکز بھی اسی کا مرہون منت تھا۔ یہاں سے ارد گرد کی مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ 

عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے۔ 1974 میں نیو یارک سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ ابتر دور میں اس مرکز نے اسرائیل کو اپنے  600  لوگ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے دیے(1975 میں یہ  تعداد  800  تھی)۔ اسرائیل نے ملک بھر میں اذان سمیت اسلامی شعائر پر پابندی لگا دی مگر اس مرکز کو  (اپنی اذان)  جاری رکھنی کی اجازت تھی۔ 

2008 میں امریکی صدر بش نے جب حیفا کا دورہ کیا تو اس مرکز کے سربراہ سے ملاقات کی۔ جس کے بعد اسرائیلی صدر شمعون پریز نے اپنے حیفا کے دورے کے دوران اس مرکز میں منعقدہ اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔ ان دو ملاقاتوں کے بعد اس مرکز کی سرگرمیوں کوتل ابیب میں سرکاری سطح پر اجاگر کر کے دکھایا جانے  لگا۔واشنگٹن اور تل ابیب میں اہمیت حاصل کرنے کے بعد اس مرکز نے سفارتی میدان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو اس کے سرپرستوں اور بڑوں نے اس کو موقع فراہم کیا۔ 

اسلام آباد میں عمران خان کی حکوت قائم ہو چکی تھی۔ بتایا جاتا تھا ملک کی طاقتوربیوروکریسی اور عدلیہ عمران خان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ایک ممبر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بھی کی۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ  کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی مثال  پیش کی۔ عمران خان کی کابینہ کے ممبران نے عوام میں پرچار بھی کیا۔ رائے عامہ ہموار کرنے والے لکھاریوں کو میدان میں اتارا گیا۔ بحث چل نکلی تواکتوبر 2018 میں ایک نجی طیارہ تل ابیب سے براستہ عمان اسلام آباد آیا۔یہ مذکورہ  مرکز کا پہلا ٹیسٹ کیس تھا۔ عوامی رد عمل اس قدر سخت تھا کہ صدر عارف علوی تردیدی بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئے۔ 

 معاشی طور پر مقروض، سماجی طور پر کرپٹ  ہونے کے باوجود یہاں کے صحافی اس قابل ہیں کہ آصف علی زرداری اور شہید بی بی کے نکاح کے موقع پر جنت مکین ارشاد حقانی نے پیشن گوئی کی کہ آصف ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔ اور جب اوسامہ بن لادن کا کھوج لگانے کے لیے دنیا بھر کی ایجنسیاں جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سرگرم عمل تھیں تو حامد میر نے اس کاانٹرویو کرکے دنیا بھر کو حیران کر ڈالا۔ اسی دیس کے صحافیوں نے حیفا میں موجود اس مرکز کے رابطے ہی نہیں اس کے سرپرستوں اور مالکان کو بھی کھوج نکالا۔ اس مرکز کے سرپرستوں، ہمدردوں اور مقامی سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔عمران خان کے غیر ملکی فنڈنگ،  تحریک انصاف میں قادیانیوں کے کردار،  ریاستی اداروں میں قادیانی کی خفیہ موجودگی کے انکشاف نے ریاست کو حکومت سے دور کرنے میں بنیادی کردار ادا گیا۔ 2022 میں قومی اسمبلی سے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے ساتھیوں نے ان سے دوری اختیار کرنا شروع کی تو عمران خان کا رد عمل سیاسی سے مزاحمتی ہونا شروع ہو گیا۔ ان پر نااہلی،  اقرباء پروری ،  مالی خیانت ، اور اخلاق باختی کے الزام لگنا شروع ہوئے تو رد عمل بھی سخت ہوتا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد میں درجنوں پولیس اہلکاروں کو کامیابی سے زخمی کرنے اور کچھ کو جان سے مار دینے پر قانون کی خاموشی سے شہہ پاکر 9  مئی  2023 کو افواج پاکستان کی دو سو زیادہ تنصیبات پر بیک وقت حملہ کر کے  سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ بنایا کہ مقابلے میں ایک آرمی چیف اور اس کے ساتھی چار جرنیل ہیں۔اور یہ کہ عدلیہ، فوج اور پولیس سمیت عوام میرے ساتھ ہے۔ سوشل میڈیا پرمتحرک ان کی ٹیموں نے تین سو سے زیادہ چاٹ بوٹس کے بل بوتے پر چند ساعتوں میں یہ بیانہ دنیا بھر میں پھیلا دیا۔مگر عوام میں یہ بیانیہ مقبول نہ ہو سکا۔ تازہ ترین واقعہ  

 اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب کی پاکستان میں انسانی حقوق پر تبصرہ ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر متحرک  مجاہدین اس بیان کو بین الاقوامی تنقید بتا کر عمران خان کی کامیابی بتا رہے ہیں جبکہ عوام برطرف وزیر اعظم عمران خان کے قادیانی جماعت سے اور قادیانی جماعت کے اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت  پر بحث کر رہے ہیں۔

حیفا میں موجود قادیانی مرکز کی سفارت کاری کے بعد جو جہاز اسلام آباد ہو کر واپس گیا تھاس کی واپسی شائد اب عشروں تک ممکن نہ ہو۔


منگل، 11 جولائی، 2023

آخری انقلاب



پاکستان میں دو قسم کے انقلاب آتے رہے ہیں۔ پہلی قسم کو ظاہری اور دوسری کو خفی کہا جا سکتا ہے ۔ ظاہری انقلابوں میں پہلا جنرل ایوب خان نے 1958 میں برپا کیا تھا۔ دوسرا انقلاب جنرل یخیی خان نے 1969 لایا۔ پھر1977 میں جنرل ضیاء نے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اسلامی روایات میں تین کا عدداہمیت کا حامل ہے ۔ چوتھی بار دروازے پر دستک دینے سے بھی احترازکی نصیحت موجود ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے مگر چوتھا انقلاب 1999 میں مسلط کر دیا۔ ان انقلابات کا سبب سیاست دانوں کی ﴿کرپشن﴾ بتایا گیا۔ کرپشن کے خلاف مگر خفیہ انقلابات بھی برپا کیے جاتے رہے ۔ ﴿کرپشن﴾ ایسا شیطانی دھندہ ہے جوپاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا ۔ اسی لیے ( Public Representation Office Disqualification Act ) پروڈا نامی انقلابی ایکٹ جاری تو 1949 میں ہوا مگر اسے نافذ اگست 1947 سے کیا گیا تھا ۔ بات مگر بنی نہیں تو ﴿Public Office Disqualification Order ﴾ پوڈو ۔۔۔ سے لے کر موجودہ نیب ترمیم تک خفی انقلابوں کی لمبی داستان ہے ۔ ہر انقلاب سے پہلے ایک تقریر سنائی جانے کی روائت کو برقرار رکھا گیا۔ تازہ ترین تقریر دس جولائی 2023 کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کی موجودگی میں پاکستان کے سپہ سالار نے کی ہے ۔خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان ایک سال میں اپنی معاشی کسمپرسی پر قابو پالے گا ۔ 

اسی تقریب میں ﴿مقر ر ﴾ زرعی انقلاب کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ جنرل ایوب کے دور میں زرعی انقلاب بھی برپا کر لیا گیا تھا۔ جس کے چند سال بعد ہی ملک میں قحط پڑ گیا تھا۔ ہم کچھ نیا کرنے کی بجائے تجدید کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے پر ہم نے نیا پاکستان بھی بنا لیا تھا مگر 2018 میں دوبارہ نیا پاکستان بنا ڈالا جو اپریل 2022 سے ہمارے گلے پڑا ہوا ہے ۔

تازہ ترین سبز انقلاب کی خوشی میں میڈیا پر بحث جاری ہے اور تقریب میں موجود سامعین کا کہنا ہے ۔ تقریر کے دوران ماحول جذباتی ہو گیا اور لوگوں نے کھڑے ہو کر ﴿ نعرہ تکبیر ﴾ بھی بلند کیا۔ 

غیر جذباتی مبصرین البتہ اس انقلاب کو ملک کا آخری انقلاب بتاتے ہیں ۔ ہم ان تمام مایوسی کے شکار مبصرین پر چار حروف بھیجتے ہیں ۔ ہمارے بس میں اور ہے بھی کیا؟

پیر، 10 جولائی، 2023

پروپیگنڈہ




جانور چلتے پھرتے ہیں، کھاتے سوتے اور بولتے بھی ہیں۔ جو کام جانور نہیں کر سکتے و ہ ہے  (پروپیگنڈہ)  پروپیگنڈہ جو کہ جھوٹ،ناکامیوں اور خواہشات کے بیج سے جڑ پکڑتا ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ قوی درخت بن جاتا ہے۔صرف حقیقت کا بگولہ ہی اسے کمزور کرتا، گراتا یا جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے۔ 

 جب مسلمان فاتح بن کر مکہ میں داخل  ہو رہے تھے تو  (ہندہ) نے حیرت سے اپنے خاوند سے پوچھا  تھا(کیا ہم واقعی غلط تھے)  یہ وقت تھا جب پرپیگندہ کا شجر نا پائیدار حقیقت کے سامنے سر نگوں ہو رہا تھا۔

 جرمنی کے ہٹلر کے پیروکاروں کے سامنے جب حقیقت کا عفریت فوجی شکست کی صورت میں آکھڑا ہوا تو ان کے پروپیگنڈہ کا درخت بھی زمین بوس ہو گیا 

پاکستان کے اندر 1968 میں جب عشرہ ترقی منایا جا رہا تھا تو بہاولپور میں حقیقت کے بگولے نے عوام کی آنکھیں کھولیں اور لوگوں نے ترقی اور کامیابی کی ریل کو سیٹی بجاتے مگر جلتے دیکھا۔ وہ سچ کا بگولہ تھا جس نے عوام کی آنکھیں کھولی تو 1954 سے شروع ہونے والے پروپیگنڈہ کادرخت زمین بوس ہو گیا۔

ہر انسان جو ذہنی طور پر سچ اور جھوٹ میں تمیز کی صلاحیت نہیں رکھتا، عمل کی استعداد سے محروم ہوتا ہے، اور اپنی خواہشات کے پورا ہونے کے لیے کسی معجزہ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔پروپیگنڈہ کا یقینی شکار ہو جاتا ہے۔ 

پروپیگنڈہ کی دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک جو پروپیگنڈہ سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں دوسرے وہ جن کے بل بوتے پر وہ مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر  (ع)  ایک یوٹیوبر ہے جو ہمیشہ ایک سیاسی شخصیت  کے گن گاتا ہے۔ سیاسی شخصیت کے پیروکار اس کی باتوں کو پسند کرتے ہیں اور اس کی ویڈیو دیکھتے ہیں۔ بدلے میں  (ع)  یو ٹیوب سے ڈالر میں چیک وصول کرتا ہے۔  (ع)  کو ادراک ہو چکا ہے کہ اس کی آمدن  سیاسی شخصیت کی تعریف سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ (ع)  بعض اوقات  اپنے ممدوح بارے ایسے جملے ادا کرتا ہے جو فیک نیوز یا جھوٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہی فیک نیوز اور جھوٹ  ہی پروپیگنڈہ کہلاتا ہے۔ یو ٹیوب پر آپ کو ایسے ویڈیو کلپ نظر آئیں گے جن کے عنوان آپ کو فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کرلیں گے مگر ان ویڈیوکلپ کو چلا کر دیکھیں تو وہ عنوان سے متعلق ہی نہیں ہوں گے۔

فیک نیوز اور جھوٹ یعنی پروپیگنڈہ کی تشہیر کرنے والے عناصر ان لوگوں کو باربار اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور دیکھا گیا ہے تیسری دنیا سے لا تعداد لوگ جو خود کو باخبر اور تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ نشانہ بن جاتے ہیں۔

 دی گارڈین اخبار میں 12 جون 2022 کو ایک مضمون میں کہا گیا کہانٹرنیٹ پر ایک چاٹ بوٹ اس قابل ہے کہ وہ اظہار بیان کے ساتھ ساتھ انسان جیسے محسوسات سے بھی لبریز ہے۔ یہ اتنی بڑی فیک نیوز تھی کہ ایک اخبار کی سرخی  اور ایک معروف انجیئنئر کی برطرفی کا سبب بنی۔مگر اس مضمون کی اشاعت سے قبل تک آئی ٹی سے وابستہ سیکڑوں سینئر انجینیر اور کمپنیاں اس بات پر یقین کرتی رہیں۔ جھوٹ بیج کی طرح ہوتا  ہے اور کوئی بھی بیج بلا مقصد نہیں بویا جاتا بلکہ مفاد کا مرہون منت ہوتا ہے۔ مفاد جتنا بڑا ہو گا اس کے پیچھے پروپیگنڈہ بھی اتنا زیادہ ہوتا ہے۔  

پروپیگنڈہ کی زندگی ہمیشہ مختصر نہیں ہوا کرتی بلکہ اکثر اوقات عشروں پر پھیل جاتی ہے۔ سویت یونین میں کمیونزم دم توڑنے سے قبل عشروں تک کروڑوں لوگوں پر حکومت کر چکا تھا۔ مگر اسی دور میں سویت یونین کے سفارت خانے سے ایک میگزین شائع ہواکرتا تھا جس کے ماتھے پر لکھا ہوتا تھا   (سچ کی طرح سادہ)


اصفہان کا کتا



ہمارے معاشرے میں ہر روز کوئی نہ کوئی انوکھا وقعہ رونماء ہوتا ہے ۔ سبب اس کا یہ ہے ۔ یہ پچیس کروڑ نفوس کا ملک ہے ۔ جس میں اعلی تعلیم یافتہ سے لے کر جاہل ترین لوگ بھی بستے ہیں ۔ آبادی قبائل و اقوام کا مجموعہ ہے ۔ روسم و رواج اور روائیات ہر چند کلو میٹر بعد بدل جاتی ہیں ۔ کہیں دوستیاں پالی جاتی ہیں تو کہیں دشمنیوں پر لخت جگر قربان کیے جاتے ہیں ۔ یہاں انسانیت پر زندگی وار دینے والے موجود ہیں تو سیکڑوں بے گناہوں کی جان لینے والے بھی دندناتے پھرتے ہیں ۔ ہمارے ارد گرد لنگر خانے موجود ہیں تو گھر کے اندر گھس کر والدین کے سامنے معصوم بچیوں کی عزت سے کھیلنے والے بھی نایاب نہیں ہیں ۔ معاشرے کے سدھار کے لیے تبلیغی جماعت سرگرم ہے تو شیطانی کاموں کا پرچار کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ مگر نو مئی کا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انوکھا ہی نہیں منفرد بھی ہے ۔اس دن ہم نے خود ہی خود پر حملہ آور ہو کر خود ہی کو لہولہان کر لیا ۔ اور خود ہی اس کی سزا بھی بھگت رہے ہیں ۔ 

 میرے شہر کے مضافات میں ایک زمیندار گھرانے کے اکلوتے لاڈلے نوجوان بیٹے نے باپ کو زمین اس کے نام منتقل نہ کرانے پر اپنے باپ پہ کی گن سے باپ ہی کو قتل کر دیا ۔ اسے قید کی سزا ہوگئی تو اس کی ماں کے آنسو خشک ہوگئے ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا میں اپنے خاوند کی موت پر آنسو بہاوں یابیٹے کے قید ہونے پر ۔۔۔ اسی محفل میں اس کے خاندان کی ایک جہاندیدہ رشتے دار عورت نے اسے مخاطب کر کے آنسو بہانے کی بجائے اپنی تربیت پر بین کرنے کا طعنہ دیا تو اس ماں کی آنکھیں چھلک پڑہیں۔ زمین اور مکان اکلوتے مجر م بیٹے کو رہا کرانے پرنچھاور کر کے ما ں بیٹے کو لے کر شہر میں کرائے کی کھولی میں آبسی ۔ بیٹا دن میں گاڑیاں دھوتا اور رات کو ماں سے مطالبہ کرتا کہ اس کی شادی کی جائے ۔ پھر بات مار پیٹ تک آئی اور آخر کار ماں کو قتل کر کے کہیں بھاگ گیا ۔ 

چند سال قبل ماں دیسی دھرتی والی نظم بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس نظم کا تعلق وکیلوں کی تحریک سے تھا جو منصفوں کی آزادی کے لیے برپا کی گئی تھی۔ تحریک کامیاب ہوئی منصف آزاد ہوگئے ۔ ایسے آزاد ہوئے کہ اپنے ہی بیٹے کی خرمستیوں پر خود ہی انصاف کرنے بیٹھ جاتے ۔ دوسرے منصف کی عدالت میں جاتے تو موبائل فون اس کے منہ پر دے مارتے ۔ رات کو ناول پڑہتے اور دن کو سسلین مافیا کہہ کر فیصلے دیتے ۔ ذاتی عناد و رنجشوں کا مداوا انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کرتے اور بضد رہتے کہ اسے انصاف کہا جائے ۔ سیاسی کرسی کے امیدواروں کو ساتھ لے کر ہسپتالوں کے دورے کرتے اور ذاتی تشہیر کے لیے تصویریں شائع کراتے ۔ عوام کو انصاف دینے کی بجائے ڈیم کی تعمیر کے لیے دولت جمع کرتے ۔ اگر حکومت کسی اہلکار کی تعیناتی کرتی تو سٹے آرڈر دے کر حکومت کو زچ کرتے ۔ تبادلے کے مقدمے میں سے انتخابات کی تاریخ برآمد کرکے الیکشن کمیشن پر اپنی دھونسس جماتے ۔کیس کی بجائے فیس دیکھنے کی اصطلاح اسی دور میں سنی گئی ۔شائد اس لیے کہ وکیل کی بجائے جج کر لینے کی اصطلاح پرانی ہو چکی تھی۔انصاف مانگنے والوں کی فائلوں کے جمع ہو جانے والے ڈھیرسے عوام مایوس ہو کر لوگوں نے عدالت کے باہراپنی فائلوں کو جلایا ۔ منصفوں پر ان کے کمرہ عدالت میں کھڑے ہوکر راشی ہونے کا شکوہ کیا ۔اپنے لا پتہ عزیروں کی بازیابی کی فریادیں کیں ۔ مگرجج صاحبان ثروت سیاسی لیڈروں کے مقدما ت تک محدود ہو کر رہ گئی۔ عوام کو ادراک ہو گیا ٹرک کا مطلب بڑی نوٹوں کی گڈیاں ہیں ۔ 

اسی دھرتی ماں کی گود میں پل کر جوان ہونے والوں میں سے کچھ نے دھرتی کے لیے اپنا خون پیش کیا ۔ عوام نے انھیں شہید کا رتبہ دیا ۔ تمغوں اور نشانوں سے نوازا ۔ ا نکے لیے ترانے گائے اور وسائل مہیا کیے ۔ ان ہی ہونہار سپوتوں میں مارشل لائی جرنیل پیدا ہو گئے ۔ جو آئین کو ردی کاغذ پکارتے اور عوام کی خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ۔ بیرون ملک اثاتے بناتے اور اندرون ملک عوام کو ان پڑھ اور جاہل کے طعنے سے نوازتے ۔سیاسی رہنما ٰوں کو دم ہلا کر پیچھے چلنے والے بتاتے ۔ انھوں نے مسلح ہو کر ہر غیر مسلح فرد اور ادارے پر قبضہ کر لیا ۔عوامی وسائل پر قابض ہو کر عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کی دلدل میں جھونک دیا۔ سوال اٹھانے والوں کو اٹھانے کی روائت چل نکلی ۔

ان حالات میں ایک سیاسی لیڈر انصاف کا جھنڈا اٹھائے ٹی وی کی اسکرینوں پر نمودار ہوا۔ اس نے نوے دن میں کرپشن ختم کر کے ، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کر کے دینے کا وعدہ کیا۔ پولیس اصلاحات کا چکمہ دیا، انصاف تک دسترس کا نعرہ لگایا،معاشی ، اخلاقی، معاشرتی بہتری کی نوید سنائی۔ رشوت اور سفارش کا خاتمہ کر کے میرٹ پر کام ہو جانے کی خوش خبری سنائی، تعلیم کو عام کرنے کا نعرہ لگایا ۔عوام کی عزت نفس کی بحالی کی وعدہ کیا۔ بیرون ملک سے آمدہ فنڈز کے بل بوتے پر پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی ذات کی تشہیر کر کے عوام کو پکے ہوئے میووں کے شاداب اور سرسبز باغ دکھائے ۔ مگر صرف ساڑہے تین سالوں میں ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پھنس گئی ۔ عدلیہ، فوج ، پولیس سمیت ہر ادارے کوبے وقعت کر دیا گیا ۔ کرپشن اور لوٹ مار کے باعث ہر طرف بدامنی اور بے روزگاری نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیے تو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اسے ایون اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔ تو اس نے معاشی طور پر تباہ ملک کے لیے بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کی حکومتی کوششوں کو سبوثاز کرنے کی کوشش کی ، لانگ مارچ اور ریلیوں کا ڈول ڈالا۔ سیکڑوں پولیس اہل کاروں کو زخمی کیا اور جان سے مارا۔ عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کی روائت قائم کئی۔اور بالاخر نو مئی کو ملکی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہو گیا ۔

ماں رحمدل اور مہربان ہوتی ہے ۔ لاڈلا بیٹا باپ کو قتل بھی کر دے تو ماں ممتا سے مجبور ہو کر ساری جائیدا د بیچ کر بیٹے کو تو بچا سکتی ہے مگر مگر بیٹے کی انتہا پسند اور قاتل فطرت کو تبدیل نہیں کر سکتی ۔ 

پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کی دھرتی ہے ۔ چند لاکھ انتہا پسندوں اور قاتل فطرت لوگوں کو ملک کا امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ ملک آئین و قانون پر عمل کر کے ہی ترقی کر سکتے ہیں ۔ مگر اپنی آزادی کی خوشی میں ایسی انگڑائی کی اجازت نہیں دی سکتی جو دوسرے شہری کی ناک ہی توڑ کر رکھ دے ۔۔

اس شر پسند ٹولے کو ان ہی ہتھ کنڈوں سے نتھ ڈالی جا سکتی ہے ۔جو وہ دوسروں پر آزماتے ہیں 

فارسی زبان کی کہاوت ہے ﴿اصفہان کے بھیڑے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے ﴾


جمعرات، 6 جولائی، 2023

گوشت مبارک




 جب قارئین اس تحریر کو پڑھ رہے ہوں گے عید گذر چکی ہو گی  پھر بھی عید مبارک۔عید منانے والی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ سعودی عرب والوں کے ساتھ تو دوسرا حصہ اپنے کیلنڈر کے مطابق عید مناتا ہے۔ پاکستان میں آج عید ہے جبکہ سعودی عرب  سمیت کچھ ممالک میں کل عید تھی۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ چند سال قبل تک عید اسی دن مناتے تھے جس دن سعودی عرب میں عید ہوتی تھی۔ کل صبح لندن میں مقیم بیٹے کو عید مبارک کہنے کے لیے کال کی تو معلوم ہوا کہ ان کی مسجد والے آج عید نہیں منا رہے بلکہ  (ہماری)  عید کل ہو گی۔  


میرے بچپن میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں چاند نظر آجاے تو پختون خواہ والے بھی عید کر لیا کرتے تھے۔ میری جوانی کے دنوں میں پختون خواہ اور بلوچستان میں الگ الگ دن عید ہوتے بھی دیکھی ۔ پھر ہم نے ایک لاکھ آبادی والے شہر میں تین تین عیدیں بھی دیکھیں۔


دارلعلوم دیوبند والے کہتے ہیں  (اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)


سادہ سی بات ہے کہ آج پاکستان میں جمعرات ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی جمعرات ہی ہے۔ پاکستان میں دن کا آغاز ہونے کے دو گھنٹے بعد سعودیہ میں دن کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے دو گھنٹے بعد لندن میں دن شروع ہوا۔  تاریخ البتہ تینوں جگہ ایک ہی ہے۔ عید منانے کے لیے دو گھنٹے کا فرق پورے ایک دن میں بدل جاتا ہے۔ 


علماء دین سنن النسائی کے حوالے سے روائٹ پیش کرتے ہیں کہ مدینہ میں موجود حضرت ابن عباس نے شام میں چاند نظر آنے کا اعتبار نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف دین ہی کے علماء یہ بھی مانتے ہیں کہ ابن عباس کے دور میں مدینہ سے شام تک کا تیز ترین گھوڑے پر سفر بھی کم از کم  آٹھ دن کا تھا۔ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ  (چاند نظر آجائے یا نظر آنے کی اطلاع مل جائے تو عید کر لینی چاہیے) نبی اکرم  ﷺ  کی روایات اور امام ابو حنیفہ کی ہدایات یہ ہیں کہ چاند نظر آنے کے بعد عید کر لینی چاہیے۔ 2016 میں ترکیہ کے شہر استنبول میں دنیا بھر سے مسلمان اسکالر جمع ہوئے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پوری دنیا میں عید ایک ہی دن ہونی چاہیے۔ اور دلیل یہ دی گئی کہ دن کی ابتداء ہر ملک میں مختلف وقت میں ہوتی ہے۔ اگر جمعرات کے دن پاکستان میں صبح کی نماز سورج نکلنے سے پہلے تک ہو سکتی ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی یہی اصول نافذ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ میں دن دو گھنٹے بعد اور لندن میں مزید دو گھنٹے بعد شروع ہو گا۔ یہی وہ بنیادی دلیل ہے جس کو تسلیم کر کے او آئی سی نے دنیا بھر میں ایک ہی دن عید کرنے کی سفارش کی تھی۔ 


اپنی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھ کر عید کرنے کی بجائے۔ دوسرے فرد کی شہادت کوتسلیم کرنے کی تاکید موجود ہے۔ فرد کی بجائے ادارے کی شہادت کو قوی تر مانا جاتا ہے۔ 


عید قربان پر حضرت ابراہیم کی عظیم قربانی پر خراج تحسین پیش کرنے پر کتنے جانور قربان کیے جاتے ہیں اور اس پر کتنی رقم صرف ہوتی ہے، کا حساب لگانے کی کوئی موثر طریقہ حساب موجود نہیں ہے۔ مگر اس سال صرف سعودیہ میں قربانی کے لیے بیرون ملک سے درآمد جانوروں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے۔ اس تعداد میں وہ جانور شامل نہیں ہیں جومقامی طور پر پالے گئے تھے۔ اس تعدا د کو ذہن میں رکھ کر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہر سال عید قربان پر دنیا بھر میں کروڑوں ڈالر کی رقم خرچ کر کے، اللہ تعالی کے عظیم پیغمبر کی عظیم قربانی کی سنت پوری کی جاتی ہے۔ مسلمان قربانی کے جانور پر رقم خرچ کر کے اپنے دل کو مطمن کرتے اور اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ 


پچھلی عید الفطرپر ایک پروفیسر صاحب نے نجی محفل میں سوال اٹھایا تھا  (کیا دین کا مسلمانوں پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تعلیمات اور علوم کی روشنی میں اپنے تہوار ایک ہی دن منائیں) اس سوال کا جواب طویل مدت سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل کو اپنے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں مل رہے۔ یہ شعر تو ایمان کی حدت کو دھکاتا ہے

مسجد تو شب بھر میں بنا دی ایمان کی حرارت والوں نے 

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نماز ی نہ بن سکا


پچھلی عید الفطر پر ایک  گیارہ سالہ بچے نے کہا  تھاساری دنیا عید منا رہی ہے اور ہم نے شیطان کی طرح روزہ رکھا ہوا ہے۔


دین کے بارے میں نئی نسل کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہیں مل رہے۔ جو تشویش کی بات ہے۔ مگر جس طبقے کو تشویش میں مبتلاء ہونا چاہیے  وہ مسلمانوں کی عید کی بجائے  (ہماری)  عید کا اسیر ہے۔ ٹیکنالوجی اور علوم پر بھروسہ کرنے کی بجائے کٹ ہجتی کا سہارا لیتا ہے۔ 

جمہوری معاشروں میں اپنی سنائی جاتی ہے تو دوسروں کو سنا بھی جاتا ہے۔ اپنی دلیل منوائی جاتی ہے تو دوسروں کی مانی بھی جاتی ہے۔ عادل منصف وہی ہوتا ہے جو فیصلہ کرنے سے پہلے فریقین کا موقف سنتا ہے۔ ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ خود کو حق کا راہی اور دوسروں کو گمراہی کا مسافر سمجھا جاتا ہے۔ مگر درد یہ ہے کہ اس روش کا شکار وہ دین کا علمبردار ہے جو خود کو پیغمبرانہ تعلیمات کا وارث گردانتا ہے۔ مگر فرماتا ہے 

(اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)

عید گذر چکی ۔ قربانی ہو گئی۔ گوشت مگر باقی ہے۔ گوشت مبارک