جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

جمعرات، 2 مئی، 2019

خالی قبر



میں نوشہرہ میں ایک قبر کے کنارے کھڑا تھا۔یہ قبر دوسری قبروں سے اس لیے مختلف تھی کہ اس میں میت تھی ہی نہیں۔ اس سے قبل ہم نوشہرہ کے قریب ہی ایک بستی سے ہو کر آئے تھے جس کے باسی افغانستان سے آ کر یہاں بس گئے تھے۔ گفتگو میں دہماکوں کا ذکر آیا۔ جنگ کی باتیں ہوئیں اور ایک صاحب نے دعا کے انداز میں کہا، خدا اس قبر بنانے والے کو اس قبر میں دفن ہونا نصیب کرے۔ ایک عمر رسیدہ شخص کا کہنا تھا 
    قبر بھی نصیب والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے    
یہ بات سن کر میرے ذہن میں سری نگر کے مزار شہداء میں بنی دو قبریں ابھریں۔ ایک قبرکشمیری رہنماء مقبول بٹ کی ہے اور دسری افضل گرو کی۔ یہ دونوں قبریں فی الحال اپنی میتوں کی منتظر ہیں حالانکہ دونوں کو تہاڑ کی جیل میں پھانسی دی جا چکی ہے۔ 
ایک قبر بنگلہ دیش میں میں کھودی گئی تھی۔بتایا گیا تھا کہ اس قبر میں پاک فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ مطیع الرحمان کی میت د فنائی جائے گی۔ مطیع الرحمان نے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس نشان حیدر کا طیارہ اغوا کر کے بھارت لے جانے کی کوشش کی تھی مگر نوجوان منہاس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔ پاکستانی قوم نے سب سے معززعسکری ایوارڈ دے کر اپنے شہید کو خراج پیش کیا تھاتو بنگالی بھی اپنے ہیرو کو بھولے نہیں۔ 
مطیع الرحمان کی بیٹی نے  1990 میں کراچی میں اپنے والد کی قبر پر حاضری دی اور واپس جا کر قبر کھدوائی۔قبر کھودنے کا مقصد یہی تھا کہ خالی قبر ان کو یاد دلاتی رہے کہ مطیع الرحمان کی میت جو کراچی میں دفن ہے اسے ڈھاکہ لا کر اس قبر میں دفن کرنا ہے2004میں سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنگالی اپنے ہیرو کی میت لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا عسکری ایوارڈ دیا گیا، جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا گیا۔اور میت کو سرکاری پروٹول کے ساتھ منتظر قبر میں دفن کر دیا گیا۔ 
پاکستان کے ایک مایہ ناز، بہادر، شہید، نشان حیدر کے حامل سپوت کا جسد خاکی بنگلہ دیش کے ضلع دیناج پور میں موجودہے۔ جہلم کے شہر میں ایک یادگار قوم کو ان کی یاد دلاتی ہے۔ البتہ ہماری نئی نسل کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ میجر محمد اکرم شہید  نشان حیدر کا جسد خاکی  پاکستان میں نہیں ہے۔ جنرل مشرف جب مطیع الرحمان کی میت بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا تو کچھ لوگوں نے دبے لفظوں میں میجر شہید نشان حیدر کا نام لیا تھا مگر جنرل مشرف نے یہ زبانیں خاموش کرا دیں تھیں۔اس کا سبب یہ تھا کہ گجرات والوں نے کبھی میجر شہید کے لیے کوئی قبر کھودی ہی نہیں تھی۔ کشمیریوں کے بس میں قبر یں کھودنا ہی تھا۔ مگر انھیں یقین ہے قبر کی موجودگی میں ان کی آنے والی نسلیں یہ رکھیں گی کہ انھوں نے تہاڑ جیل میں مدفوں دو میتوں کو مزار شہداء میں لا کر دفن کرنا ہے  اور یہ بھی حقیقت ہے خالی قبر زیادہ دیر اپنی میت کو انتظار نہیں کراتی۔ محکوم ہو کر کشمیریوں نے وہ کام کرلیا جو آزاد ہو کر پاکستانی نہ کر سکے کہ اپنے شہید ہیرو کے لیے قبر ہی کھود لیں۔

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

محبت


بیج زمین مین دفن کیا جاتا ہے۔ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے مگر جب وہ پھٹ کر، پھوٹ کر اورزمین کو پھاڑ کر نکلتا ہے تو نظر آتا ہے۔  جب درخت بنتا ہے تو مخلوق اس سے مستفید ہوتی ہے۔کچھ کے لیے پناہ گاہ بنتا ہے۔کوئی اس کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔پتے اور چھلکے سے شفا حاصل ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کئی بیچ پیدا ہوتے ہیں۔محبت بھی ایک بیج ہے انسان کے دل میں پھوٹتا ہے تو زبان اور اعضاء سے لوگوں کو نظر آتا ہے۔محبت وہ جوہر ہے جورشتوں، ناطوں، قرابتوں اور دوستیوں کو مستحکم بناتا ہے۔فرد، خاندان اور معاشرے پر اثر انداز ہو کرزندگیوں میں امن، سکون اور عافیت لاتا ہے۔
اہل علم کے نزدیک محبت کے تین درجے ہیں۔ محبت، شدید محبت اور اشد محبت۔ اشد محبت کوامام فخرالدین رازی نے عشق کا نام دیا ہے۔۔محبت کے بارے میں صاحب کنزالایمان نے لکھا ہے    جو کسی چیز سے محبت کرے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے  ۔اشد محبت کا ذکر قرآن پاک میں  ہے   ایمان والے اللہ سے اشد محبت کرتے ہیں    (البقرہ:165) 
محبت کا تعلق جبلت، فطرت،اطاعت، عطا،احسان وغیرہ سے ہوتا ہے۔ البتہ شدید محبت ایک کیفیت ہے اور عشق جوہر ہے۔ ہر جوہر کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ جیسے گھی کی بنیاد دودھ ہے۔ انسانوں کی آپس میں محبت ایک فطری عمل ہے جو   یوم الست   کو آپس میں مانوس ہو جانے والی ارواح کے درمیان پایا جاتا ہے۔ 
محبت خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ جس کابیچ ہر دل میں رکھ دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں دفن یہ بیج پھوٹ کر ظاہر ہو جاتا ہے ان سے اللہ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے
     اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (البقرہ:222)
     اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (آلعمران:159)
     اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (آلعمران:139)
     اللہ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے    (التوبہ:6)
     اللہ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے    (التوبہ:108)
     اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ:13)
     اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ:62)
     اللہ اپنی راہ میں قتال کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (الصف:6)
مزیدرسول اکرم  ﷺ  کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تین قسم کے لوگوں سے محبت کرتا ہے  (1)  جو خلوص نیت سے اس کی راہ میں اپنی جان فدا کرتے ہیں  (2)  جو اپنے پڑوسی کے ظلم پر صبر کرتے ہیں  (3)  جو رات کو اس وقت اٹھتے ہیں جب قافلہ سفر سے تھک کر آرام کے لیے اپنا بستر لگاتاہے۔
انسان کو دنیا میں عزیز ترین چیز اپنی اور اہل و عیال کی جان ہوتی ہے۔مگررسول اللہ ﷺ  کی دعا کے الفاظ پر غور فرمائیں    میں تیری محبت مانگتا ہوں اور جو تجھ سے محبت کرتا ہو اسکی محبت اور اس عمل کی محبت جو تیری محبت سے قریب کر دے   ایک دوسری دعا کے الفاظ ہیں    اے اللہ تو اپنی محبت کو میری جان سے میرے اہل وعیال سے  اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب بنا  
رحم کا منبع محبت ہے۔ دنیا میں رحم بھرے مناظر جن کا ہم اپنی آنکھوں سے مشائدہ کرتے ہیں جیسے انسانوں کے درمیان ایثار کے واقعات، اولاد کے لیے والدین کی مشقت، معذروں سے ہمدردی یہ سب اس سرمایہ محبت کا سو میں سے ایک حصہ ہے جو خالق نے پوری مخلوق کو عطا کیا ہے۔دور رسالت میں ایک شخص کو بار بار شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کرکے پایا جاتا تھا۔کسی نے کہا    اللہ اس پر لعنت کر کہ باربار لایا جاتا ہے    رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا اس پر لعنت نہ کروکہ اسے اللہ اور رسول سے محبت ہے   ۔ موذن رسول سید نا بلال اللہ اور رسول اللہ سے محبت کا جیتا جاگتا نام ہے
مدینہ میں ایک مسلمان فوت ہوا۔کاشانہ نبوت سے ہدائت آئی   اس کے ساتھ نرمی کرو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ نرمی کی ہے  کیونکہ اس کو اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت تھی   ۔  قبر کھودنے والوں سے فرمایا    اس کی قبر کشادہ رکھو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ کشادگی فرمائی ہے   ۔ کسی نے پوچھا    یا رسول اللہ آپ کو مرنے والی کی موت کا غم ہے    فرمایا    
   ہاں، کیونکہ یہ اللہ اور رسول سے محبت کرتا تھا   ۔
لوگوں کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ  نے ایک صحابی سے پوچھا ہر نماز میں ایک ہی سورۃ  کیون پڑہتے ہو۔عرض کیا اس میں اللہ کی صفات ہیں اور مجھے اس کے پڑہنے سے محبت ہے۔ فرمان جاری ہوا    ان کو بشارت ہو اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے  
یہ واقعہ تو بار بار سنا اور سنایا اور لکھا جاتا ہے کہ ایک نے پوچھا تھا    قیامت کب آئے گی   استفسار فرمایا  تم نے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے۔نادم نے عرض کیا  نمازوں کا ذخیرہ ہے نہ روزوں کا۔ صدقات و خیرات سے بھی تہی دامن ہوں۔البتہ سرمایہ امید اللہ اور رسول کی محبت ہے۔  ارشاد فرمایا  انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رہے گا۔
اللہ تعالی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی اس سے محبت کرو۔پھر زمین پر اسے محب بنا دیا جاتا ہے۔
محبت وہ ثمر شیریں ہے کہ آپ  ﷺ  نے فرمایا    لوگو، اللہ سے محبت کرو کہ وہ تمھیں اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے  اور اس کی محبت کے سبب سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب سے میرے اہل بیت سے محبت کرو   ۔
یہ محبت ہی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ  کو    حبیب اللہ   بنایا۔ 
سنن نسائی میں درج یہ واقعہ اللہ، بندے اور محبت کے تعلق پر سے چادر ہٹاتا ہے ۔ ایک عورت اپنا بچہ گود میں لے کر سوال کرتی ہے    یا رسول اللہ، ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے، کیا اللہ کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ محبت نہیں ہے  
فرمایا    بے شک ایسے ہی ہے  
بولی    کوئی ماں تو اپنی اولاد کوخود آگ میں ڈالنا گوارہ نہ کرے گی   
ان الفاظ کے فرط اثر سے  رسول اللہ ﷺ  کی آنکھوں میں صرف آنسو ہی نہ آئے بلکہ گریہ طاری ہو گیا۔رب العالمین کے صادق و امین رحمت العالمین نبی خاتم المرسلین  ﷺ  نے فرمایا     اللہ صرف اس بندے کو عذاب دیتا ہے جو سرکشی سے ایک کو دو کہتا ہے