پیر، 27 نومبر، 2017

پین دی سری




20
 دنوں کی تھکاوٹ نے جسم کوتوڑ ا اور ذہن کو لتاڑا ، دو چھٹیاں ، ایسے محسوس ہوا ساری تھکاوٹ اتر 
گئی۔ بھلا ہو راولپنڈی کی انجمن تاجراں کا جس نے ہڑتال کا اعلان کیا اوراسلام و آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ان بیس دنوں کے آخر میں بہت سے لوگوں نے چند لوگوں سے اور بہت سارے لوگوں نے بہت سارے لوگوں سے بہت کچھ ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کسی نے اپنی اجرت لی، کسی نے محنتانہ، کسی نے لفافہ مگر ہماری بد قسمت پولیس کے حصے میں خون دے کر بھی بد نامی ہی آئی۔ اور یہ پہلی بار یا آخری بار نہیں ہے کہ پولیس کے حصے میں ْ پین کی سری ْ آئی ہے بلکہ یہ ایک جاری تماشہ ہے جو چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ مجھے ترس آتا ہے ان جوانوں پر جو پوری ہمت سے لاٹھیاں برسا کر صدق دل سے ْ 
پین کی سری ْ پاتے ہیں۔

صبح ساتھ بجے فیض آباد کا محاذ خود پولیس نے گرم کرنا شروع کیا، اشک آور گیس کے شلوں اور پتھروں سے ابتداء کی گئی۔ حسب منشاء عمل کا رد عمل پیدا ہوا اور 3 گھنٹوں میں میدان عمل اس قدر گرم ہو گیا کہ خیموں نے آگ پکڑ لی۔ مجاہدین بکھر چکے تھے، امیر المجاہدین تھک چکے تھے، پولیس ان تک پہنچ چکی تھی۔ کہ اچانک سب حالات بدل گئے۔ مجاہدین کے بقول موعود نصرت الہی نازل ہوئی ۔ذہن میں اس وقت توڈہاکہ کا پلٹن میدان آرہا تھا مگر اس کا حوالہ نہیں دونگا کہ خود کو خود سے شرم سی آتی ہے، کہ ہم ایک با غیرت قوم ہیں ، روشن تاریخ پر کالک کے دھبے ملنا ، احساس ہے کہ غلط کام ہے، اور اللہ تعالیٰ غلط کاموں 
کی توفیق ہی نہ دے۔

تحریک لبیک کے دھرنے کے قانونی، اخلاقی، سیاسی یا دینی پہلو کی بجائے زیر بحث پولیس کا اپریشن کلین اپ یعنی  "دھو ڈالو " ہے۔ کیا واقعی پولیس کے جوان میدان عمل میں ناکام رہے ہیں، یا کمانداروں کی کمان میں نقص تھا، یا بے وقت بچ اٹھنے والے موبائل فون باعث ناکامی بنے ہیں۔ یا  ْ یک سوْ  ہونے کا فقدان تھا۔اس موضوع پر کھلی بحث ہو جائے تو مستقبل میں دھرنا دینے کا ارادہ رکھنے والے، جگہ کا انتخاب کر کے لا بٹھانے والے، اخراجات برداشت کرنے والے،  دھرنے کو دھو ڈالنے کی نیت رکھنے والے، مجاہدین کو پانی کی سردی سے بچانے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھنے والوں، ذمہ داری کا تعین کر کے قربانی کا بکرا ڈہونڈ نکالنے والوں ، منصفوں ، ضامنوں اور خود فریقین کو بہت سی غلطیوں کے اعادہ سے چھٹکارا مل جائے گا۔

امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس کارخانہ حیات میں طوطی کی آواز لاوڈ سپیکروں کی آواز میں دب جائے گی ، پہلے ہم " مٹی پاو " حکمت عملی اپنائے ہوئے تھے ، گلوبل ویلج میں نیا ، ہمارے نعرے جیسا نعرہ صرف   ہمارے ہی پاس ہے ۔  نہیں سنا تو اب سن لیں    ْ پین دی سری ْ 

اتوار، 26 نومبر، 2017

بیانیہ


ہفتے کے دن کی صبح ہنگاموں، پتھراو، پولیس کی شیلنگ، جلاو گھیراو، روکو اور بند کرو کے نعروں کے ساتھ شروع ہوئی اور جب سورج غروب ہو ا تو شفق پردرجنوں انسانی لاشوں کے خون سے سرخ تھی،
2,000
افراد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پڑے تھے،
7,000
افراد گرفتار ہو کر جیلوں میں جا چکے تھے
 تمام نجی ٹی وی چینل بند ہو چکے تھے، سوشل میڈیا بند ہو چکا تھا، موبائل فون سروس بعض علاقوں میں سسکیاں لیتی رہی، اور انٹرنیٹ یا تو بند ہوئی یا اس قدر سست ہو گئی کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ سانس ہے کہ نہیں ہے۔








فیض آباد اور اس کے گرد و نواع سے 26 نومبر رات 8 بجے تک 8750
 ایسے خالی خول جمع کئے گئے ہیں جو پولیس نے لبیک یا رسول اللہ والوں کےخلاف انسو گیس پھینکنے کے دوران استعمال کیے 




  فیض آباد میں بیٹھے اہل دھرنا کے مطالبات 


کل کے خون ریز دن کے خاتمے پر اہل دھرنا جن کا نام ْ تحریک لبیک یا رسول اللہ ْ ہے اور جس کے روح رواں ْ علامہ خادم حسین رضوی ْ صاحب ہیں، اپنے 12 مطالبے لے کر لاہور سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگھم پر واقع فیض آباد فلائی اور کے اوپر آکر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے مطالبات میں مرکزی مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان کے وفاقی وزیر قانون کو بر طرف کیا جائے۔اب سب مطالبات سے دست بردار ہو گئی ہے اور اب اس کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان کی مرکزی کابینہ میں شامل وزیر قانون زاہد حامد کو بر طرف کیا جائے ۔




تحریک لبیک یا رسول اللہ پر الزامات

وفاقی وزیر داخلہ جناب اقبال احسن صاحب نے کل شام کو تحریک لبیک یا رسول اللہ کو ایک سیاسی جماعت بتایا ہے اور کہا ہے کہ ان کا سیاسی ایجنڈاہے ، اور مذہب کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے رہنماء دلیل پیش کرتے ہیں کہ تحریک لبیک بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور اس نے
NA 120
کے انتخابات میں حصہ لیا ہے ،یہ لوگ جناب علامہ خادم حسین رضوی کے اس انٹر ویو کو بھی اپنی دلیل 

بناتے ہیں ، جس میں انھوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا ْ تین جماعتوں کے مجموعی ووٹ کی تعدا 
2400
 ہے جبکہ ہم نے اکیلے
10,000
" ووت لئے ہیں ۔اب آپ ہی بتائیں وہ جیتے یا ہم ْ 

بقول نون لیگ سینہ زوری کا مظاہرہ ہے کہ سیاسی ایجنڈے کو مذہبی لفافے میں ڈالا ہوا ہے۔
علامہ خادم رضوی صاحب کی ذات پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے لاہور کی مکی مسجد میں ممتاز حسین قادری کی پھانسی کے خلاف حکومت پر تنقید کرتے تھے، جس کی پاداش میں حکومت نے انھیں برطرف کر دیا اور وہ واجبات جو سرکار کسی ملازم کی برطرفی پر ادا کرتی ہے ، علامہ صاحب کو ادا کرنے سے انکار کر دیا۔اس لیے علامہ صاحب کی حکومت مخالفت میں ذاتی عناد بھی شامل ہے۔ 


یہ بھی الزام ہے کہ اتنے دنوں سے دھرنے پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے آ رہے ہیں۔
ْْ ْ ۔ یہ لوگ ان قوتوں کے آلہ کار ہیں جو نون لیگ کی مخالف ہیں اور ہر صورت میں ن لیگ کی حکومت کر گرانا چاہتی ہیں۔

۔ یہ لوگ اس زنجیر کی کڑی ہیں جس کو حکومتی پارٹی نظریہ تصادم کہتی ہے۔

علامہ اور پیر کی یقین دہانی
فیض آباد کے دھرنے میں دو مرکزی شخصیات ہیں جو اول دن سے اپنے مقام پر جم کر بیٹھی ہوئی ہیں ، ایک تحریک کے سرپرست جناب پیر افضل قادری صاحب، دوسرے علامہ رضوی صاحب۔

اس دھرنے کی تین خصوصیات ایسی ہیں عوام اور خواص کو ان کی نیت پر شک کرنے سے روکتی ہیں۔ 
۔ دھرنے میں لگے درجنوں لاوڈ سیپیکروں کے مائیک کا کنٹرول ان ہی دو شخصیات کے پاس ہے، جو بات کی جاتی ہے مائیک میں کی جاتی ہے، حتیٰ کی عام فون کالز کا جو جواب دیا جاتا ہے اس کو سب لوگ سن رہے ہوتے ہیں۔ ساری ملاقاتیں عوام کے سامنے ہوتی ہیں ۔ کھانا پینا بھی عوام سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان دو میں سے ایک شخصیت ہر وقت سٹیج پر موجود ہوتی ہے۔
۔ دونوں حضرات اپنی نیت کے خالص ہونے پر جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں سچ اور حق پر ہونے کی دلیل مانے جاتے ہیں۔ اپنے تمام مطالبات سے دست بردار ہو کر خود کو حرمت الرسول کا پہرے دار بتانا بھی بڑی دلیل ثابت ہو رہا ہے۔
۔ علامہ صاحب اورکو عوام کی موجودگی میں لوگ چندہ بھی دیتے ہیں ، گھروں سے کھانا پکا کر بھی دھرنے میں موجود لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ 
علامہ اور پیر صاحب کے بیانئے کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور ان کی نیت کو شک و شبہ سے بالا پاتے ہیں 



بیانیہ

حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت عوام کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان نام کے ملک میں خدا کی حکمیت قائم کی جائے گی اور محمد ﷺ کا دین نافذ کیا جائے گا، آئین پاکستان میں ترمیم کر کے خدا کی حکمیت کو تو قائم کر دیا گیا ہے مگر محمد ﷺ کے دین کا نفاذ ہونا باقی ہے جس کے استعارے عمر بن خطاب اور عمر بن عبد العزیز ہیں اور علامہ خادم حسین رضوی کا یہ بیانیہ کہ
 ْ وقت آنے پر بلال کعبے کی چھت پر چڑھ جاتا ہے ْ                      
کچھ لوگوں کو سیاسی لگتا ہے مگر اس بیانئے کا کیا کریں کہ ْ اسلام میں
دین و سیاست جدا نہیں ہیں ْ یہی وہ بیانیہ ہے جو عوام کو لبیک یا رسول اللہ کے نعرے پر اکساتا ہے
  ْ گو ویل چہر پر بیٹھا ایک معذور مولوی ہی یہ نعرہ لگائے "                



ہفتہ، 25 نومبر، 2017

پاکستان میں جھڑپوں اور مظاہروں کا دن





وفاقی وزیر قانون جناب زاہد حامد کے گھر واقع سیالکوٹ پر مظاہرین نےحملہ کیا، حملہ کے واقت اہل خانہ میں سے کوئی بھی 
 .گھر پر موجود نہ تھا
گھر کی حفاظت پر معمور پولیس والوں کے افراد ذخمی ہو گئے 

شیخوپورہ سے نقاز لیگ کے ایم این اے جناپ جاوید لطیف کو مظاہرین نےاس وقت زخمی کر دیا
جب انھوں نے غصے سے بپھرے مظاہرین سے خطاب کرنے کی کوشش کی
جاوید لطیف کے ہمراہ  ایک سیکورٹی گارڈ اورایک مقامی کونسلر بھی زخمیہوا


کراچی میں مظاہریں نے ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا جبکہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 23 افراد زخمی ہو گئے

ادرون سندھ سکھر، عمر کوٹ ، مٹھی ، سنجوال اور دوسرے شہروں میں بھی
مظاہریں سڑکوں پر آ گئے ہیں

لاہور میں گوجرانوالہ اور فیصل آباد سمیت دوسرے شہروں کو جانی والی 
شاہراہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اور اندروں لاہور میں گلی محلوں سے ڈنڈا بردار مظاہرین گھروں سے نکل کر مظاہرے کر رہے ہیں

پنجاب کے دوسرے شہروں گوجرانوالہ ، فیصل آباد، ننکانہ صاحب، میانوالی، چکوال،
گجرات، جہلم، ساہیوال، وہاڑی، ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت تقریبا ہر شہر میں مظاہرے ہو رہے ہیں

پشاور شہر کی بڑی سڑک رنگ روڈ کو مظاہریں نے بند کر دیا ہے۔ ہری پور
مانسہرہ، نوشہرہ، ڈیرہ اسماعییل خان میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں


کوئٹہ شہر میں مرکزی ہاکی چوک کو بھی مظاہرین نے بند کر دیا ہے

تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مرکزی رہنماء مولانا خادم حسین رضوی
اسلام آباد میں دھرنہ دیے ہوئے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیر قانوں کو معطل کیا جائے
200آج صبح حکومت نے بزور طاقت ان کو آٹھانے کی کوشش کی جس کے بعد صرف اسلام آباد میں
افراد ذخمی ہو گئے اور ایک پولیس آفیسر کی موت واقع ہو گئِ۔ اور پولیس نے 150 افراد کو گرفتار کر لیا




پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ جناب احسن اقبال نے اج شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قائدیں پر الزام لگایا کہ ان کے بھارت کے ساتھ روبط ہیں
انھوں نے کہا اپٹک فائبر کا تاریں کاٹنا عام لوگوں کام نہیںہے اور یہ کہ مظاہریں کے پاس آنسو گیس کے شیل پھینکنے والی بندوقیں بھی ہیں
انھون نے مزید کہا کہ ان لوگوں کا اج بھارت میں رابطہ بھی ہوا ہے۔ انکے پاس ہمارے ملک کی اندرونی معلومات ہیں

فیض آباد دھرنے کی روداد



* سپریم کورٹ کے حکم پر رات بارہ بجے شروع ہونے والا "دھرنا ہٹاو" اپریشن ، بلند درگاہ گولڑہ شریف کی درخواست پرحکومت نے ملتوی تو کر دیا گیا ۔ مگر صبح سات بجے یہ اپریشن شروع کر دیا گیا، جس میں پولیس، رینجرز اور ایف سی نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر سیکورٹی کے 8500 جوانوں نے اس میں حصہ لیا۔


*فیض آباد ، راولپنڈی اور اسلا�آباد کو ملانے والا اہم اور مصروف ترین راستہ ہے۔ یہاں پانچ سڑکیں آپس میں ملتی ہیں۔ ایک روڈ جس کو آئی جے پی روڈ کہا جاتا ہے جی ٹی روڈ سے آتی ہے جس پر صوبہ کے پی کے سے آنی والی ٹریفک چلتی ہے ، پیر ودہائی اور دوسرے معروف شہروں کو جانی والی گاڑیوں کے اڈے بھی اس سڑک پر واقع ہیں۔
دوسری بڑی گذرہ گاہ مری روڈ ہے جس سے راولپندی کے رہائشی اسلا�آباد میں داخل ہوتے ہیں، تیسری وہ ہائی وے ہے جس پر لاہور کی جانب سے آنے والی ٹریفک چلتی ہے۔ چوتھی سڑک مری کی طرف سے آنے والی ٹریفک کی گذرگاہ ہے اور پانچویں شاہراہ اسلام آباد میں داخل ہونے کا بنیادی اور مصروف ترین رستہ ہے۔ یہاں ٹریفک کا بہاو اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ فیض آباد کے مقام پر ایک بڑا اوروسیع پل ( فلائی اور) بنایا گیا ہے ، دھرنا کے قائدین پل کے اوپر اس مقام پر تشریف فرما ہیں کہ پانچوں راستے ان کے قدموں کے نیچے ہیں اور نگاہوں کے سامنے ہیں۔


*پولیس نے اس ااپریشن کے لیے کافی تیاری کی ہوئی تھی۔ ان کی حکمت عملی کا اساسی نقطہ یہ تھا کہ کسی کو جانی نقصان پہنچائے بغیردھرنے والی جگہ کو واگذار کرایا جائے۔اس اپریشن کو عملی جذبے اور مربوط حکمت عملی سے شروع کیا گیا، تمام راستوں پر کنٹینر لگا کر اہل دھرنا کو پہلے ہی محصور کیا جا چکا تھا، پولیس نے پتھراو کر کے دھرنے کے کارکنوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کو مرکزی مقام سے کنٹینرز کے عقب تک آنے پر مجبور کیا، جب مرکزی قام پر صرف قائدین اور سو ڈیڑھ سو کے درمیان کارکن رہ گئے تو آگ کے شعلے پھینک کر رہائشی خیموں کو نذر آتش کر دیا۔ اور پھر کثیر مقدار میں آنسو گیس پھینک کر ساری رات کے بیدار قائدین کو نڈھال کر دیا۔ پروگرام کے مطابق اس مرحلے پر پانی والی توپ سے ٹھنڈا پانی برسا کر قائدین کو جگہ چھوڑنے پر مجبور کر دینا شامل تھا، مگر اس مرحلے پر پولیس کی حکمت عملی پر ہی پانی پھر گیا۔ اور شاہدین نے پولیس کو عجلت میں دھرنے کی جگہ چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جاتے 
دیکھا۔



* اس دوران پولیس تقریبا دو سو افراد کو گرفتار کر کے اور ان کو قیدیوں کی گاڑیوں میں بند کر چکی تھی۔ اس دوران اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ۲۸ اور راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ۱۲ زخمیوں کو لایا گیا 
جن میں پولیس کے جوان بھی شامل تھے۔ پولیس کے ایک جون کی ہلاکت کی البتہ تصدیق نہ ہو سکے۔


*نومبر ۲۰۱۷ کے اس اپریشن نے نومبر ۲۰۰۷ کے اس اپریشن کی یاد تازہ کرا دی جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا اور ناکام ہو گیا تھا۔ یہ اپریشن بھی ناکام ہوا۔ دھرنا قائدین کی کمک کے لیے راولپندی، اسلام آباد سے بڑی کمک میسر آ گئی۔ اور میدان اہل دھرنا کے نام رہا۔

*جب پولیس میدان چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جا رہی تھی ، اس وقت کسی ذمہ دار پولیس افسر کے پاس بات کرنے کا وقت تھا نہ ہی الفاظ۔ بد دلی اور یاسیت کے ملے ملے جذبات البتہ غالب تھے۔ صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ اپریشن چھوڑ کر واپسی کا حکم آیا ہے۔


*بعد میں معلوم ہوا کہ پاک فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے طے کیے جائیں۔


*اس افراتفری میں بعض مقامی لوگوں نے جن کو معلوم تھا کہ سابقہ وزیر داخلہ کا گھر فیض آباد میں ہے ان کے گھر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر صرف بیرونی گیٹ ہی کو نقصان پہنچا سکے۔




*دھرنا قائدین نے جس جرات اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب ان کے کارکن ان سے دور جا چکے تھے، ان کے گرد گھیراو تنگ کیا جا چکا تھا، اس دوران بھی ان کے جذبے کا قائم رہنا اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا، ایسا عمل ہے جو ان کے اپنے کاز سے مخلص ہونے کا پتہ دیتا ہے۔


*اس دوران چند سیاسی لوگوں کے بیان آنا بھی ہوا کے رخ کا پتہ دیتا ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کے سربراہ اور

اے این پی کے رہنماء جناب افراسیاب خٹک کے بیان قابل ذکر ہیں۔

*یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ کچھ لوگ جو دھرنے میں شامل ہی نہیں تھے اور اس پل پر کھڑے تھے جو قائدین دھرنا کے بالکل سامنے ہے، ان کے پاس ایسی بندوقیں تھیں جن سے پولیس والوں پر ٓنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔


*یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دھرنا قائدین کو صوبہ کے پی کے سے بڑی تعداد میں علماء اور شیوخ نے ذاتی طور پر آ کر نصرت اور یک جہتی کا اعلان کیا ، مگر عملی طور پر صرف سندھ اور پنجاب ہی بند ہوا مگر پشاور میں کوئی دھرنا نہ ہوا ۔ جبکہ فیض آباد میں دھرنا قائدین کی امیدیں اس کے بر عکس تھیں۔

*اس دھرنے میں مذہبی عنصر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ البتہ سیاسی کردار کی حقیقت چند دنوں میں واضح ہو جائے گی۔

*بعض مذہبی جماعتوں او ر تنظیمیوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل بھی چند دنوں تک ، دھندلی تصویر کو واضح کر دے گا۔

جمعہ، 24 نومبر، 2017

مصر : مسجد پر حملہ

حملہ میں اب تک 235   لوگ ہلاک اور109 زخمی ہوئے ہیں


یہ ولاِیۃ سینائی نامی گروپ کا کام ہے جس کا تعلق دعش سے ہے




مصر کے صوبہ سینائی مین واقع مسجد العریش میں نما ز جمعہ کے نمازیوں پر وحشیانہ حملہ، دنیا بھر میں
 مسلمانوں کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں
      مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک مرنے والوں کی تعداد 236 ہو چکی ہے،   پہلے مسجد میں بم پھینکا 
گیا اور ساتھ ہی نمازیوں کو گولیاں مار کر خون میں نہلا دیا گیا۔ 



صہیونی میدیا کی طرف سے شعلہ برساتا سوال
Again. Muslims killing Muslims for not being Muslim enough. Just imagine what they’d do to Non Muslims-given the chance.



دہشت گرد  4 گاڑیوں میں آئے ، پہلے بم پھینکا پھر نمازیوں پر گولیاں برسائیں
Over 235 people killed - Deadliest terrorist attack in Egyptian history - During prayers at mosque in North Sinai - Condemnations from Arab League, US, Gulf states and Jordan
تین دن پہلے ناہجیرا کی مسجد میں بھی ایسا ہی ظلم ڈہایا گیا تھا



یہ مسجد "صوفی مکتبہ فکر " والوں کی بتائی جاتی ہے

مصری حکومت نے دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے

سات دہشت گردوں نے اہمبولنس پر بھی گولیان برسائیں


امریکی صدر کی مسجد پر حملہ کی مذمت

تقسیم کی لکیر



اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک جنجویانہ اور غیر مفاہمانہ رویے کا حامل مذہب ہے ، یہ خاکہ غیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے اندر بھی نئی نسل میں راسخ ہو چکا ہے
اسلام ، انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود ، مسلم اکثریت کے ممالک میں انسانی اقدار پر عمل نہ ہونے کے باعث مدافعتی رویے پر مجبور ہے۔ دین کے دکھائی دینے والے چہرے کو دوسروں کے لیے قابل قبول بنانا تعلیم یافتہ لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں تعلیم یافتہ طبقہ دو گروہوں مین منقسم ہے۔ عصری علوم کا پروفیسر،دینی مفتی کے علم منظق و فلسفہ کوعصر حاضر کی اورنج ٹرین کا پچھڑا ہوا مسافر گردانتا ہے ، جب کہ دینی اداروں میں اب بھی جدید معاشرے کی بناوٹ پر بحث کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک میں معاشرتی بناوٹ کے باعث، مسجد کا مائیک دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہونے کے سبب ان کی آواز بلند تر ہے جو مساجد کے قریبی گھروں ہی میں ہی نہیں بلکہ دور دراز تک لوگوں پر بصارتوں کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ عام آدمی کی بصارتوں تک صرف مذہبی طبقے کی آواز پہنچتی ہے اور جدید علوم کی آوازیں مخصوص تعلیمی اداروں اور چند بند مقامات میں کم لوگوں تک رسائی حا صل کر پاتی ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فلسفہ دینی مدرسے میں پڑھا جائے تو دین کا حصہ اور کالج سے پڑھا جائے تو دین بیزار مضمون بن جاتا ہے۔اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کی سند سیال شریف سے ہو تو معاشرے کا رہنماء اوراسلامیات میں پی ایچ ڈی یونیورسٹی سے ہو تو مشکوک ۔
ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو افہام و تفہیم سے مل بیٹھنا چائیے، اور معاشرے کی رہنمائی کا فرض نبھانا چاہئے ، اختلافات اور معاشرتی تقسیم ، تعلیم یافتہ افراد کی پیدا کردہ ہے۔اوراس تقسیم کی لکیر کو مٹانا بھی تعلیم یافتہ لوگوں کا ہی کام ہے۔ 

بابا بھلے شاہ کی ایک نظم کا بند اہل علم کی نذر
عِلموں پئے قِضیّے ھور
اکھّاں والے انّھے کور
پھڑدے سادھ ، تے چھڈن چور
دو ھیں جہانِیں ، ھون خوار
عِلموں بس کریں او یار

بدھ، 22 نومبر، 2017

پہلی بار

22
 نومبر 2017 فیض آباد دھرنے کا 17 وان دن، میرے دیکھتے دیکھتے کم از کم 4 باوردی لوگوں کو لہو لہان کر گیا۔لمبے ڈنڈوں سے مسلح جوانوں کا جتھہ اپنی فتح کے نعرے لگاتا ہجوم میں گم ہو گیا۔
اسی اسلام اباد میں قومی اسمبلی کی عمارت میں بھی ایک معرکہ برپا تھا۔ریاستی نصرت سے آراستہ متحدہ اپوزیشن رائے شماری کے نتائج پر حیرت زدہ تھی۔
وزیر قانون کے بیان کو اسمبلی کے اندر اپوزیشن اور فیض آباد میں بیٹھے عوام نے یکساں نا پسندیدگی سے سنا ، اور کڑوا سچ یہ نکلا کہ دھرنے کا باعث سبب بننے والے بل کی منظوری میں اکثر سیاسی جماعتوں سمیت شیخ رشید کا ووٹ بھی شامل تھا۔
پہلی باریہ ہوا کہ فیض آباد دھرنے کے شرکاء نے ہی پولیس والوں پرتشدد کی مذمت اس عزم سے کی کہ کنٹینر کے لاوڈ سپیکر وں سے اس کی توجہیات بیان کی گئیں، دوسری طرف 70 سالوں میں پہلی بار عوام نے قومی اسمبلی میں خود کو ملکی معاملات میں حصہ دار پایا۔
اداروں کے خود ساختہ ترجمان، عدلیہ کو مفت مشوروں سے نوازنے والے، سیاسی رہنماوں کی ٹانگیں کھینچنے والے ، اور ذاتی خواہشات کے اسیران ، اپنی سوچوں کو اسمبلی میں آئین او ر فیض آباد میں قانون کو اپنی راہ بنانے دیں۔
پہلا بیانیہ ہی آخری ثابت ہو گا اور پہلا بیانیہ یہ ہے کہ ْ جس کا کام اسی کو ساجھے ْ 

جمعہ، 17 نومبر، 2017

صبح نور



سعودی عرب کی اہمیت
سعودی عرب اپنے جغرافیائی وجود، دو متبرک شہروں کی موجودگی اور حکمران آل سعود خاندان کی سیاسی بصیرت اور مملکت کے اندر اور باہر اس کے اثر و رسوخ اور سعودی عوام کی دین سے محبت اور عملی جذبے ، مہمان نوازی کی روایات، جوانمردگی اور بہادری کی تاریخ اور اپنے مخصوص قبائلی ہیت کے باعث ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔جدید تاریخ میں خدا داد وسائل کی فراوانی نے اسے خطے اور دنیا میں ایک ممتاز کردار کا حامل بنایا ہے، ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمان سرزمین سعودیہ کو ، حرمین شریفین سے مذہبی عقیدت کے باعث احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، مملکت کا جھنڈا وہ وحید علم ہے جو کبھی بھی سر نگون نہیں ہوتا۔
مگر ماضی قریب میں اس مقدس سرزمین کے باسیوں کی کرپشن کی کہانیاں جو مغربی میڈیا میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی ہیں ان کہانیوں نے سعودیہ کے ماتھے کو داغدار کیا ہے۔




کرپشن
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر ملک کی اپنی اپنی داستان ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔سعودی عرب میں کرپشن کی داستانوں کا طویل عرصہ سے بین الاقوامی میڈیا میں چرچا ہے مگر اس امیج کو درست کرنے کی جانب پہلی بار موثر قدم اٹھایا گیا ہے۔ سعودی انسداد کرپشن کمیٹی نے کرپشن کے منبع پر ہاتھ ڈال کر ایساجرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے جس نے مملکت کے اندر اور باہر لوگوں کوحیرت انگیز فرحت سے ہمکنار کیا ہے۔ مملکت کے اندر اس تحریک کو نہ صرف خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ سعودی شہریوں میں یہ قدم حکومت اور خادم حرمین شریفین اور خاص طور پر شہزادہ ولی عہد کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ سعودی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد ہی نہیں بڑہا بلکہ اس قدم سے معاشی نا ہمواری کی ٹوٹی پھوٹی راہ کی مرمت کی امید بندہی ہے۔ سعودی نوجوان بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سعودی معاشرے اور حکومتی اداروں سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سعودی ولی عہد نے کرپشن کے مضبوط اور تناور شجر کی جڑہوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کانٹے دار درخت خود نخود سوکھ کر مرجھا جائے گا۔
اپنے خاندان اور اپنی ہی حکومت کے کرپٹ افراد پر آہنی گرفت نے شہزادہ ولی عہد کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو مثبت سوچ کی راہ دکھائی ہے تو بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو نیا حوصلہ میسر آیا ہے۔




سعودی ولی عہد کو جن چیلنج کا سامنا ہے اس میں ایک یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنے حکومتی حریفوں پرہاتھ ڈال کر اپنے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ محض الزام ہی ہے کیونکہ ان کی ولی عہدی کا شاہی فرمان جاری ہونے کے بعد متعلقہ کمیٹی اس کی توثیق کر چکی ہوئی ہے۔ اور انھوں نے تیاری اور ثبوت کے ساتھ صرف کرپشن مین مبتلاء افراد پر ہی ہاتھ ڈالا ہے۔ اور اس میں ان کے اپنے وزیر، مشیر اور خاندان کے لوگ بھی سر فہرست ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہی ناقدین کے منہ بند ہو جائیں گے کہ خادم حرمین شریفین نے عدلیہ میں نئے منصف ، جو قانونی ماہرین ہیں اور غیر جانبداری کی شہرت رکھتے ہیں شامل کر کے اور عدلیہ میں موجود ایماندار اور شفاف کردار کے منصفین کو ترقی دے کر اس بات کا اہتمام کر دیا ہے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ اس تحریک کے بالکل ابتدائی مرحلے پر ایسے سات افراد کو رہا کر دیاگیا جو اس پکڑ دھکڑ کا شکار ہو گئے تھے۔
جب مقدمات چلیں گئے اور تحویل میں لئے گئے افراد کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں گی تو عوام اور دنیا کا سعودی حکومت اور معاشرے پر یقین بڑہے گا۔



اخوت کی ٹھوس بنیاد
امت مسلمہ آپس میں اشتراک و اتحاد کے لئے مدت سے تگ و دود جاری رکھے ہوئے ہے ، علاقائی اتحادجیسے جی سی سی یا بین الاقوامی اتحاد جیسے اسلامی سربرائی کانفرنس در اصل اسی اتحا د اور اتفاق کے حصول کی کوشش ہے۔ جو وقت کی ضرورت اور اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔ قوموں مین اتحاد و یگانگت کے کئی محر ک ہوتے ہیں جیسے یورپی یونین کے اتحاد کی بنیاد معاش بنی۔ کچھ اتحاد علاقائی وحدتوں میں معاشرتی اشتراک بنا ، کہیں مشترک دشمن نے ملکوں کو اتحا د پر مجبور کیا۔مگر دین میں مشترکہ اعتقادات پر مبنی اتحاد ہمیشہ ہی پائیدار ثابت ہوا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت ، خاتم المرسلین کی ذات سے محبت، قرآن جیسی آفاقی کتاب کا موجود ہونا ، ایسی حقیقتیں ہیں جو اتحاد کی پائیدار بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انسانیت کو ٹھوس اور دور رس تحفے دئے تھے ۔ دور نبوت میں رسول اللہ کا یہ فرمان کہ عورتوں کو بھی ترکے میں حصہ دو حالانکہ کہ اس وقت عورت کو زندہ درگور کر دینا زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ علاقی و خاندانی تفرقات کی جائے تقویٰ کی بنیاد پر معاشرے کی بنیاد رکھنا ۔ ایسے انقلاب آفریں اعلانات تھے جس نے معاشرے کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔ رواداری، محبت ، عفو و در گزر کے پیغام محمدی کو تو ہم عشروں سے پس پشت ڈالے ہوئے تھے ۔ اب خادم حرمین شریفین نے عید میلاد النبی پر عام تعطیل کا اعلان کر کے یہ راہ دکھائی ہے کہ ْ یا محمدا ْ کی بنیاد اگر ابوبکر کے دور میں نتیجہ خیز تھی تو موجودہ دور میں بھیْ حب النبیْ خیر ہی کا پیغام ثابت ہو گی۔تنقید، انا پرستی، اور مسلکی تفاخر ایسے امراض ہیں کہ جس جس معاشرے میں پھیلے اس معاشرے کو تباہ ہی کیا۔امید رکھنی چاہئے کہ حب النبی کے سایہ دار ، خوشبودار شجر سے اسلام کے باسیوں کو امن و عافیت کا سایہ نصیب ہو گا۔ خادم حرمین شریفین نے ۲۱ ربیع الاول کی اہمیت کو واضح کر کے خطے کے باسیوں کو محبت، دوستی کی راہ دکھائی ہے ۔

منگل، 14 نومبر، 2017

ہمارا مولا






امریکہ کے صدر جناب ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر نے ان کو ْ بڈھا ْ کہہ کر ان کی توہین کی ہے مگر وہ شمالی کوریا کے صدر جناب کم کو ْ ٹھگنا ْ یا ْ موٹا ْ نہیں کہیں گے ۔ 

اس کو کہتے ہیں کچھ بھی نہ کہنے کا دعویٰ اور کہہ بھی دینا ۔ 

الفاظ کا چناو ایک فن ہے ، اور الفاظ چننے میں کچھ لوگ بڑے فنکار ہوتے ہیں ۔بڑ ے لوگ مگر عام طور پر فنکار ہی ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں امریکی صدر بڑے فنکار ہیں۔ یہ بھی غلط نہ ہو گا اگر ہم کہیں فنکار لوگ بڑ ے ہوتے ہیں۔بڑے ہونے کے لیے کسی نہ کسی فن کا کاریگر یا ماہر ہونا لازمی ہے ۔موجودہ دور میں 
خطابت بڑا ْ زر آمدْ فن ہے، اس فن میں کچھ لوگ بغیر پی ایچ ڈی کے ماسٹر ہوتے ہیں جیسے ہمارے
مولانافضل الرحمن صاحب ۔ اس فن میں کوئی دوسرا مولانا، ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ 

دوسرے کی جیب سے روپیہ نکالنا بھی ایک فن ہے ۔ ہمارے کئی فن کار یہ کام کرتے ہیں اور اس روپے کو عوام کے لئے نفع رسان ادارے بنا کر داد بھی پاتے ہیں۔ایسا ہی ایک فنکار عبدالستار ایدھی بھی تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی جنت میں ، اس بھیک مانگنے والے اور لوگوں کے ناجائز بچے پالنے والے ، کی روح کو سکون دے اور درجات بلند کرے۔وہ عمر کے آخری حصے تک ْ بڈھا ْ ہوا نہ اس کا قد ْ ٹھگنا ْ تھا ۔ البتہ وہ مولانا ضرور تھا ۔ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے
ْ ہمار ا مولا ْ 

فیصلہ اور وقت کا چناو




میں نے 1976 میں کالج کی تعلیم کے بعداپنی عملی زندگی کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا تھا۔  سادہ، مہمان 
نواز عربوں کے معاشرہ اور انفرادی تبدیلوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بہت سی تبدیلیاں مثبت ہیں اور مگر کچھ حقائق سدا بہار ہوتے ہیں ، جیسے صدیوں پرانا یہ قول  ْ دولت اپنا سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی ْ  دولت نے شاہراہوں پہ بھاگتی گاڑیوں کو جس قدر تیز رفتاری عطا کی ہے ، عوامی مشکلات کو حل کرنے والے ادارں کی کارکردگی کو اتنا ہی سست بھی کیا ہے، رویات سے جڑی انسان دوستی کو وطنیت کے افتخار نے پچھاڑ دیا ہے، دین سے جڑی انکساری کوآسائش نے مات دے دی ہوئی ہے۔ اور سوچ کا یہ انداز غالب ہے کہ  ْ زر سے سب کام ممکن ہیں ْ اور جب زر ہی کار گر ہے تو پھر کا ر (محنت )کیوں کیا جائے۔ ترقی کا معیار عمارت کا جاذب نظر اور بلند تر ہونا ہے ، فرد اور معاشرہ مغرب  سے متاثر ہو چکا ہے ، مشاورت امریکہ کی مقبول ہے ، اور بن سلیمان کی آنکھوں کوخیرہ کیا ہے متحدہ امارات میں جاری کاروباری سرگرمیوں ، تفریحی مراکز ، چکاچوند کر دینے والے نظاروں، اور اڑان بھرتے مسافر طیاروں کی کثرت نے۔ 


اگر امارات میں یہ ہو سکتا ہے تو سعودیہ میں کیوں نہیں ، عرب کلچر ، قبائلی روایات تو ایک جیسی ہی ہیں۔



سعودی شہزادے کے مددگار اماراتی حکمران ہیں، مشیر کمپنی بھی امارات والوں کی
Recomended 
ہے ۔

2015
  میں محسوس کیا گیا کہ ْ عمر رسیدہ ْ مذہبی عنصر ترقی کی راہ روکے ہوئے ہے ، ایسی رکاوٹوں کو برطرف ہی نہیں کیا گیا بلکہ نوجوان علماء کو سامنے لایا گیا ۔ جن کا بات کرنے کا انداز بدلا ہوا ہے 
بن سلیمان نے اپنے معاشرے کو دوبئی سے بھی آگے دیکھنے کا خواب دیکھا ہے۔
Vision 2030 & Dream city NEOM
اسی سوچ کے مظہر ہیں۔اور اس کا عربی میں نام روئیت سعودی 2030 ہے۔جون 2018 سے عورتو ں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اسی تبدیلی کا ابتدائی حصہ ہے۔


NOEM
کا شہر بسانے کا ارادہ ، جس میں سارا کام ہائی ٹیک کمپیوٹر اور روبوٹ کریں گے، خوش لباس مرد اور خوبصورت عورتیں کام کریں گے۔ تفریحی مراکز ایسے ہوں گے جہاں خواتین بکنی پہن کر گھوم سکیں گی، کاروبار کے لئے یہ شہر تین براعظموں کے تاجروں کا گڑھ ہو گا ، ہر قسم کی آسائش�آرام اور تفریح موجود ہو گئی۔ مستقبل کے شہر کی ایک خیالی ویڈیو سعودیہ سے باہر کسی دوسرے شہر میں بنائی گئی ہے اور اس ویڈیو کو بنانے والی مشیر کمپنی نے اس کو دکھانے کا انتظام اسی 
Ritz Carlton Riyadh

ہوٹل میں کیا گیا تھا، اس میں بن سلیمان کے وزیر خزانہ ابراہیم العساف، شہزادہ ترکی بن ناصر، شہزادہ فہد بن عبدللہ، شاہی محل کے نگران خالد التویجری ہی نہیں ، متعب بن عبداللہ اور دوسرے شہزداے بھی شامل تھے ، جن کو ۴ نومبر کی شام کو اسی ہوٹل میں گرفتار کر کے لایا گیا تھا، کچھ لوگ گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے، ولید بن طلال اپنے سپر بوئنگ پر بدیس سے بن سلیمان کی ذاتی دعوت پر آئے تھے، متعب بن عبدللہ کو بتایا گیا تھا کہ اہم اجلاس میں شامل ہونا ہے وہ اپنے فارم ہاوس سے خود اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تھے، گرفتاریوں کا سارا عمل زبردست تیاری اور کمال رازداری سے کیا گیا ، اس کاروائی کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ افراد نہ صرف نظر یا قید ہیں بلکہ ان کے اکاونٹ بھی منجمد ہیں۔آل سعود کے علاوہ دوسرے کرپٹ لوگ جو حراست میں لیے گئے ہیں اور مسلسل لئے جارہے ہیں ان کی تعداد کبھی بھی معلوم نہ ہو پائے گی۔
چار
 نومبر کی تحریک میں بن سلیمان کو اپنے دوست کشنیر ( امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشیر ) کی مشاورت اورخود امریکی صدر کی اشیر باد حاصل ہے۔ امریکی طاقت کی دنیا معترف ہے اور سعودی بھی دنیا ہی کے باسی ہیں۔

ایک معاشی ماہر نے بتایا کہ روس میں
2003
 ولادمیر پیوٹن نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا تو روس کے سب سے دولت مند شخص میخائیل خوردورکووسکی کو گرفتار کیا ، اور اس کوسائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بجھوایا تو راتوں رات روس سے سارے سرمایہ کار بھاگ گئے۔اور ہوا یہ کہ پیوٹن اپنی ہی طاقت ور بیوروکریسی کے یرغمال بن گئے ۔ لیکن مغربی مبصرین یہ بھول جاتے ہیں کہ بادشاہت کا انجن تو چلتا ہی بیورو کریسی کی پٹڑی پر ہے۔ اور سعودیہ میں شاہی بیوروکریسی اس قدر طاقت ور ہے کہ وہ بادشاہت کے ادارے کا تو ہرسطح پر بھرم قائم رکھ سکتی ہے مگر بن سلیمان کی تبدیلی کے لئے وہ ساتھ دے پائے گی یا نہیں

بن سلیمان کے سعودی نوجوان کے سامنے آل سعود کی کرپشن کھول کر رکھ دینے کے بعد اپنی ذات کو ملک کے اندر مستحکم کر لیا ہے ، اس کرپشن کہانی سے جڑے دولت کے انبار کس کو کس کا دشمن بنائے گی یہ وقت بتائے گا کیونکہ دولت کی اوصاف میں یہ بھی ہے کہ وہ ْ دشمن پیدا کرتی ہے ْ ۔ اور ایسے دشمن بنانے میں یہی مشیر ، سعودیوں ہی کے خرچے پر مددگار ہوں گے۔

سعودی معاشرہ پرکرپشن ان کی دولت ہی کے سبب اثر انداز نہ ہو سکی مگر سعودی میں بہنے والا خون ْ ثارْ کا طلب گار رہے گا۔
Vision 2030 
کا پہلا پڑاو
2020
 ہے، اس سال معلوم ہو جائے گا کہ اس بس سے کتنی مطمن سواریاں اتری ہیں اور بس میں کتنے نئے مسافر چڑہانے کی گنجائش ہے۔
یہ بیان کر دینا بھی مناسب ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ داعی ہے کہ سعودی خواب ( روئت السعودی 2030) بیرونی دباو کا شاخسانہ ہے۔


ٓاصل بات یہ ہے کہ
بن سلیما ن کے دو اقدام اپنی ٹائمنگ کی وجہ سے گڈ مڈ ہو گئے ہیں ، کرپشن کے خلاف اقدامت کی خبریں اولیت پر آ گئی ہیں جب کہ ترقی کے خوابکی خوش کن خبریں دب گئی ہیں۔ 

پیر، 13 نومبر، 2017

مثبت پیش رفت


مثبت پیش رفت
کیا آل سعود اپنے اختلافات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے ، اس کا فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گا مگر شاہ سلیمان کا مدینہ المنورہ سے ریاض واپس پہنچ کر شہزادہ خالد بن عائف المقرن سے وزارت الحرس الوطنی کا حلف لینا ایک مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے ، برطانیہ میں مقیم شاہی خاندن سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ ایک غیر جانب دار اور آزاد عدلیہ کرے گی ، ریاض میں خبروں کا مکمل بلیک آوٹ ہے ۔
یہ امید بھی اچھی ہے کہ لبنان کو جنگ سے بچا لیا جائے گا مگر اسلحہ کے ڈیلر انگاروں پر تیل ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں،البتہ وہ میزائل جو یمنی حوثیوں نے ریاض ائر پورٹ پر داغا تھا اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ امریکہ ساختہ ہے۔

اتوار، 12 نومبر، 2017

سعودیہ اور لبنان


مشرق وسطیٰ انسانیت کا قبرستان ہونے کا منطر پیش کر رہاہے، بیماری، بھوک، بے انصافی اور طرح طرح کی مظلومیت اکیسویں صدی کے اس عشرے میں انسان کو شرمندہ کرنے کا لیے کافی ہے مگر اب تو شرمندگی بھی منہ چھاتی ہے، حالانکہ یہ وسائل سے مالا مال ہی نہیں بلکہ اہل کتاب کے مذہبی عقیدتوں کے مراکزکا بھی خطہ ہے۔اور حیران کن طور پر اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب امن اور در گذر کا سبق دیتے ہیں۔ 
لبنان میں فریق سنی، شیعہ، عیسائی اور دروز ہیں۔ اور اصل حریف سنی اور شیعہ ہیں۔میدان لبنان میں سجایا جارہا ہے مگر اصل مقابلہ ایران ور سعودیہ میں ہے اور اسرائیل منڈھیر پر بیٹھ کر فیصلہ کرے گا کہ کون سا فریق کمزور پڑھ رہا ہے تاکہ وہ میزان کے اوپر اٹھ جانے پلڑے میں اتنا وزن ڈال دے تاکہ مقابلہ جاری و ساری رہے اور شیعہ ایران یا سنی سعودیہ میں سے ایک مجبور ہوجائے کہ اس کے ساتھ اسی کی شرائظ پر دوستی کی بھیک کا طالب ہو۔ اورامریکہ اس سارے عمل کا ضمانتی ہے۔ہماری بحث کا محورچونکہ سعودیہ کے بن سلیمان ہیں اور

                                    

لبنانی سنی وزیر اعظم کا ریاض میں بیٹھ کر استعفیٰ کا اعلان کرنا ، بن سلیمان کا یمن پر حملہ کرنے جیسا ہی ایڈونچر مانا جاتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ ملیشیا کو ایران سمجھتا ہے اور لبنانی حکومت کو حزب اللہ، اب حریری نے استعفیٰ دے کر اسرائیل کو موقع میسر کر دیا ہے کہ وہ چاہے تو حزب اللہ سے نمٹ سکتا ہے ،
                            

مگر مسئلہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے زخمی ہونے کی صورت میں اس پر مرہم ،یمن سے ریاض پر میزائل داغ کر ، رکھی جائے گی، اور ریاض کے ہوائی اڈے کے قریب ایک میزائل داغ کر وارننگ دے دی گئی ہے۔ ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میزائل گرا تو 
vision 2030 
کی تباہی نوشتہ دیوار ہے جس کے مطابق بن سلیمان ریاض میں بیرونی سرمایہ کار لانا چاہتے ہیں۔
سعودیہ کا لبنان میں کردار نئی بات نہیں ہے مگر یہ بات نئی ہے کہ سعودیہ آل سعود کی خاندانی گرفت سے نکل کر مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں آیا ہی چاہتا ہے ۔
بن سلیمان کی حکمرانی کے لیے یمن کا کمبل ریچھ کا روپ دھار چکا ہے، اندرونی خاندانی خلفشار پریشانی کا موجب بن رہا ہے، لبنانی محاذ گرم ہونے کے لیے تیار ہے ۔ 
ان تما م چیلنج اور رکاوٹوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سعودیہ کے اندر نوجوان اس قوم پرست شہزادے کو اپنے مستقبل کا محافظ اور خواتین تبدیلی کا علمبردار مانتی ہیں۔

 بن سلیمان اس حمائت کو کیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں اس کا جواب بھی جلد مل جائے گا ۔
کیونکہ
امریکہ کے اسرائیل میں سابق سفیر 

                                           

Mr Dan Shapiro                                                    
کا کہنا ہے ْ محمد بن سلیمان بے صبرا شخص ہے ْ

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

اسرائیل کا ذکر

اسرائیل کا ذکر


اسرائیل کے نقشے کو دوبارہ دیکھیں ۔ پھیلتا سفید اور سکڑتا سبز رنگ اس حیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل پاوں پسار رہا ہے۔عرب اسرائیل کو وہ اونٹ گردانتے ہیں جس کے مالک نے بارش سے بچنے کے لیے اونٹ کو اپنا منہ خیمے کے اندر کر لینے کی اجازت دی تھی مگر ہوا یہ کہ تھوڑی دیر بعد ہی اونٹ اندر اور بدو خیمے کے باہر کھڑا تھا۔
اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی، معاشی ترقی، فنی مہارت کا سبب وہ تین درجن یو نیورسٹیاں ہیں جو ماہرانہ تحقیق کا مرکز ہیں (اسرائیل کی آبادی ملین سے بھی کم ہے )۔
اسرائیل مسلمانوں کا غیر جذباتی حریف ہے اس کے عزائم ہیں، عوام اور حکومت میں اعتماد کا رشتہ قائم ہے۔ اس کے ہمسائیوں میں جو اس کو کچل دینے کے نعرے لگاتے تھے مگر اپنوں ہی کے ہاتھوں کچلے گئے۔ لے دے کے خطے میں دو ہی مسلمان ممالک ہیں ایک شیعہ ہونے کا دعوے دار ہے دوسرا سنی ہونے کی پہچان کراتا ہے مگر اسرائیل دونوں کو مسلمان مانتا ہے ، اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ اپنا شہری مروائے بغیر دونوں میں ے ایک کو ختم کر دے تاکہ اس کے دشمنوں میں سے ایک تو کم ہو۔
3
 نومبر 2017 کو اسرائیلی وزیراعظم کا بیان تھا ْ اسرائیل کوشش کر رہا ہے، بہت کوشش کر رہا ہے کہ خطے کی کسی سنی ریاست کا اسے ساتھ حاصل ہو جائے تاکہ وہ ایران کے خطرے سے نمٹ سکے ْ 5 نومبر کو پھر کہا  ْ جب عرب اور اسرائیل ، تمام عرب اور اسرائیل ، ایک سوچ پر متفق ہیں تو پھر عوام کو بھی اس سوچ کا ساتھ دینا چاہیے ْ 
اسرائیل سالوں سے کوشش کر رہا ہے کہ اسے سعودیہ کا ساتھ حاصل ہو جائے۔لیکن سعودیہ کے لیے یہ 
ممکن نہیں ہے