اتوار، 12 نومبر، 2017

سعودیہ اور لبنان


مشرق وسطیٰ انسانیت کا قبرستان ہونے کا منطر پیش کر رہاہے، بیماری، بھوک، بے انصافی اور طرح طرح کی مظلومیت اکیسویں صدی کے اس عشرے میں انسان کو شرمندہ کرنے کا لیے کافی ہے مگر اب تو شرمندگی بھی منہ چھاتی ہے، حالانکہ یہ وسائل سے مالا مال ہی نہیں بلکہ اہل کتاب کے مذہبی عقیدتوں کے مراکزکا بھی خطہ ہے۔اور حیران کن طور پر اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب امن اور در گذر کا سبق دیتے ہیں۔ 
لبنان میں فریق سنی، شیعہ، عیسائی اور دروز ہیں۔ اور اصل حریف سنی اور شیعہ ہیں۔میدان لبنان میں سجایا جارہا ہے مگر اصل مقابلہ ایران ور سعودیہ میں ہے اور اسرائیل منڈھیر پر بیٹھ کر فیصلہ کرے گا کہ کون سا فریق کمزور پڑھ رہا ہے تاکہ وہ میزان کے اوپر اٹھ جانے پلڑے میں اتنا وزن ڈال دے تاکہ مقابلہ جاری و ساری رہے اور شیعہ ایران یا سنی سعودیہ میں سے ایک مجبور ہوجائے کہ اس کے ساتھ اسی کی شرائظ پر دوستی کی بھیک کا طالب ہو۔ اورامریکہ اس سارے عمل کا ضمانتی ہے۔ہماری بحث کا محورچونکہ سعودیہ کے بن سلیمان ہیں اور

                                    

لبنانی سنی وزیر اعظم کا ریاض میں بیٹھ کر استعفیٰ کا اعلان کرنا ، بن سلیمان کا یمن پر حملہ کرنے جیسا ہی ایڈونچر مانا جاتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ ملیشیا کو ایران سمجھتا ہے اور لبنانی حکومت کو حزب اللہ، اب حریری نے استعفیٰ دے کر اسرائیل کو موقع میسر کر دیا ہے کہ وہ چاہے تو حزب اللہ سے نمٹ سکتا ہے ،
                            

مگر مسئلہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے زخمی ہونے کی صورت میں اس پر مرہم ،یمن سے ریاض پر میزائل داغ کر ، رکھی جائے گی، اور ریاض کے ہوائی اڈے کے قریب ایک میزائل داغ کر وارننگ دے دی گئی ہے۔ ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میزائل گرا تو 
vision 2030 
کی تباہی نوشتہ دیوار ہے جس کے مطابق بن سلیمان ریاض میں بیرونی سرمایہ کار لانا چاہتے ہیں۔
سعودیہ کا لبنان میں کردار نئی بات نہیں ہے مگر یہ بات نئی ہے کہ سعودیہ آل سعود کی خاندانی گرفت سے نکل کر مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں آیا ہی چاہتا ہے ۔
بن سلیمان کی حکمرانی کے لیے یمن کا کمبل ریچھ کا روپ دھار چکا ہے، اندرونی خاندانی خلفشار پریشانی کا موجب بن رہا ہے، لبنانی محاذ گرم ہونے کے لیے تیار ہے ۔ 
ان تما م چیلنج اور رکاوٹوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سعودیہ کے اندر نوجوان اس قوم پرست شہزادے کو اپنے مستقبل کا محافظ اور خواتین تبدیلی کا علمبردار مانتی ہیں۔

 بن سلیمان اس حمائت کو کیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں اس کا جواب بھی جلد مل جائے گا ۔
کیونکہ
امریکہ کے اسرائیل میں سابق سفیر 

                                           

Mr Dan Shapiro                                                    
کا کہنا ہے ْ محمد بن سلیمان بے صبرا شخص ہے ْ

کوئی تبصرے نہیں: