dilpazir لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
dilpazir لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 27 اگست، 2020

جواب آں غزل



میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو 
Add
 نہیں کر رہا ۔ اس گلے سے بچنے کے لئے میں وقت کے ساتھ ساتھ چھانٹی کا عمل جاری رکھتا ہوں لیکن اس کے با وجود اس لسٹ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو معاشرتی اور دینی حوالے سے مجھ سے مختلف سوچ رکھتے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کر کے بات کو سنتے اور کچھ حاصل کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ ْ اختلاف باعث رحمت ْ اسی وقت تک ہے جب ہماری نیت رحمت کے حصول کی ہو البتہ نیت اگر فرقہ پرستی اور اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی ہو تو ایسی پوسٹ کی حقیقت کی طرف اشارہ کر دینا میرا اخلاقی منصب ہے۔۔
میرے ایک دوست نے اسلام آبا د میں میرے پیر و مرشد کے سانحہ ارتعال پر میرے لکھے ہوئے ایک  شذرے کو بنیا د بنا کر  بلند درگا ہ گولڑہ شریف کے بلند کنگروں پر سنگ باری کی کوشش ہے اور قبلہ پیر مہر علی شاہ کے صاحبزادگان کے بارے میں اپنی ذہنی پستگی اور زہر آلودہ زبان کو دراز کرتے ہوئے لکھا ہے ْ افسوس کہ پیران گولڑہ شریف ۔۔۔ 
فتنہ قادیانیت ، اس کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے قلوب پر ْ گولڑہ شریف ْ نے جو چرکہ لگایا تھا لگتا ہے وہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس پیپ زدہ ْ چرکےْ سے بدبودار مواد خارج ہوتا رہتا ہے ۔ جو کبھی ْ انسانیتْ کے لفافے میں چھپایا جاتا ہے تو کبھی ْ مسلک ْ کے کیپسول میں اور اج کل ْ لبرل ازمْ کے پھول دار شاپر میں ڈہانپا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ْ بدبوْ کیسی ہی خوش شکل بوتل میں بند کر دی جائے ، ڈھکنا کھلنے پر گردو پیش کو کثیف ہی کرتی ہے ۔
میرا یہ نا دیدہ دوست ْ احمد رضا خان بریلوی کی حسام الحرمین کو جہالت اور فتنہ خیزیْ بتاتا ہے مگرْ سیف چشتائی ْ کا ذکر اس لیے نہیں کرتا کہ یہ گستاخون کی زبان درازیوں کی قاطع ہے۔
ہم لوگوں کہ یہ ریت رہی ہے کہ ذاتی تنقید اور شخصی یاوہ گوئی پر بھی مسکرا دیا کرتے ہیں۔ کہ ہمارے مرشد اعلیٰ ، رہبر کامل رسول اللہ ﷺ نے جو دین عطا فرمایا ہے اس دین کی میزان میں عفو درگذر، معافی اور احسان کا پلڑا سدا انکسار کی طرح جھکا ہی رہا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب خاتم المرسلیں کا خون مبارک نعلین مبارک کو تر کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نازل ہو کر منتظر حکم نبی ﷺ تھا تو ہمارے رحیم آقا کے لبوں سے وہ تاریخ ساز خیر خواہی ادا ہوئی کہ طائف والوں کی نسلیں سرخرو ہو رہی ہیں۔ہم اسی تعلیم کو لے کر چل رہے ہیں۔ ہم اس شجاع علی ابن طالب کے پیرو کار ہیں جو دشمن کو مغلوب کر لینے کے بعد ذاتی عناد کے شک پر عدو کے سینے سے اتر آتے ہیں ۔ ہم نے سبق یہ سیکھا کہ اصل شجاعت غصے کی حالت میں بھی حق کو تھامے رکھنے میں ہی ہے۔ 





گولڑہ شریف کے مکین رحمت العالمین کی تعلیمات کے مبلغ ہیں، ان کی نسبتیں علی سے ہوتی ہوئی مہر علی سے گذر کر یہاں تک پہنچی ہیں ۔ تدبر، فراست رواداری ن کا ہی نہیں ان کے متعلقین کا بھی زاد راہ ہے۔ اور قبلہ عالم حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے کنگروں کو اس قدر بلند فرما گئے ہیں کہ مسلکی بغض وعناد کا مارا لکھاری کیسی بھی سنگ باری کی کوشش کر لے ، اس کے سنگ کا علم و حکمت اور فیضان نبی ﷺ کے بلند کنگروں تک رسائی پانا ممکن ہی نہیں ہے۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ آسمان کی طرف منہ کر کے تھوکتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان کے عمل پر غصہ کیا جائے۔ یہ صاحب ْ افغانستان کے ملا عمرْ اور ْ کفر کو بر سر عام برہنہ کرنے والا حق نواز جھنگھو ی ْ کو اپنا مسلکی سرمایہ جانتے ہیں، ہمیں کیا اعتراض ہے ، البتہ شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کاندہلوی کے بارے ، جو امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے ، مدعی کا دعویٰ حقائق کے بر 
خلاف  ہے ۔کہ انھوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب فضائل اعمال  میں فضائل صحابہ کے صفحہ 
142
 پر اللہ کا فرمان نقل فریایا ہے ْ جو میرے کسی ولی کو ستائے اس کو میری طرف سے لڑائی کا اعلان ہےْ اور ان کی اسی کتاب کے اصل نسخہ میں وہ عبارت حذف کر دینا جو نبی اکرم کی شان میں انھوں نے اپنے ایمان کا حصہ بتائی ہیں اور یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ان ہی کے ْ ہاںْ سے پرنٹ شدہ ہے ورنہ تبلیغی جماعت والے تو عکسی ایڈیشن ہی استعمال کرتے ہیں۔ شیخ الحدیث محمد ذکریا کاندھلوی ، جن کو اس گئے گذرے دور میں جنت البقیع میں دفن ہونے کا شرف حاصل ہے,  کی تما م تصانیف کی ایڈٹنگ کر لیں اس کے بعد ہی آپ ان کو حق نواز جھنگوی کا ہم مسلک بتاہئے گا۔ 
مولانا اشرف علی تھانوی کو اہل تصوف کا دشمن بنا کر پیش کرنے والے ان کی مثنوی روم کی شرع میں لکھی درجن سے زیادہ جلدوں کو کہاں چھپائیں گے اور حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کی ذات پر یاوہ گوئی پر اتنا ہی عرض ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی کوشش میں بعض اوقات بے وقوف گر کر اپنی ریڑھ کی ہڈی ہی کا نقصان کر بیٹھتا ہے۔
عرض ہے ہم نے ستر سالوں میں سوائے تنقید کے کچھ نہ کیا کہ یہ کام سہل ترین ہے اور رنگ بھی چوکھا لاتا ہے ۔ اب بطور تجربہ ہی سہی ، تنقید کو چھوڑ کر تعمیر کی بات کریں۔ اہل حدیث کافر، ادیوبندیوں کے
22
  فرقے کافر، بریلویوں کے
4
  فرقے کافر،

 شیعوں کے 
21
 فرقے کافر۔   اور یہ معرکہ تنقیدی ذہن کے مولویوں ہی کا مارا ہوا ہے۔

ہم میں ایک مسلمان,  نام اان کا اشفاق احمد تھا انھوں نے بجا فرمایا تھا کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں یہ غیر مسلم ہی ہیں جو سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ 
کبھی سر سے تنقیدی ٹوپی اتار کر، مسلکی دھاری داررومال سے منہ صاف کر کے ، اس بات پر غور کی جیے گا کہ لفظ مولوی جو استا د کا ہم معنی تھا ۔ معاشرے میں گالی کیوں بن گیا۔ امام مسجد ، جو ہمارے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا ، اس کے لیے دو رکعت کے امام کی اصطلاح کسی کالجیٹ بابو نے ایجاد نہیں کی ہے۔ اور اب مولوی کو مولبی بنانے میں بھی کسی لبرل نے حصہ نہیں ڈالا ہے۔
اس حقیقت کو کون جھٹلائے گا کہ دنیا کی محرومی اور علم نافع کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور رہے گا۔ آپ کو رہنے کے لیے اٹیچڈ باتھ والا بیڈ روم چاہیں ، ڈرائنگ روم قالینوں اور فانوسوں سے آاراستہ ہو ، علم برائے فروخت کا کتبہ سیائیڈ ٹیبل پر سجا ہو، گاڑی ائر کنڈیشنڈ ہو ، عباء و جبہ لشکارے مارے اور منہ جب بھی کھلے آگ برسائے۔ اور توقع یہ ہو کہ آپ کو سب سے بڑا مسلمان سمجھا جائے کہ آپ کے پاس جنگجو لوگوں کا جتھہ ہے جو کلاشنکوف کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اور طاقت سے اسلام کا اپنا ورژن صیح ثابت کرنے کے لئے انسانی لاشے گرا کر کامیابی کا جشن مناتا ہے ۔ ہر کمزور آپ کو منافق اور محمد ﷺ کا نام لیوا آپ کو بدعتی نظر آتا ہے۔ 
آپ کو ْ گمراہْ اور ْ جاہل ْ لوگوں کے دھرنے میں ناچ اور گانا ہی نظر آیا ۔ جان کی امان ہو تو پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے جشمے کا نمبر کیا ہے۔
آپ نے یہ شعر بھی جڑ دیا ہے
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

بھائی ہم امن پسند مسلمان اور پاکستانی ہیں ، مسلمانوں کے سب فرقے ہی نہیں غیر مسلم بھی ہمارے لئے محترم ہیں، ہمیں اپنے رحمت العالمین بنی ﷺ کی تعلیمات عزیز ہیں۔ ہم اول و آخر مصطفوی ہیں اور اس پر ہم شرمندہ نہیں ہیں ، ہمیں خنجر اٹھانے کی ضرورت ہے نہ تلوار ، ہمار ا ایک مقصد حیات ہے اور وہ کتاب میں درج ہے جو محفوظ ہے اور اس کا محافظ رب محمد ﷺ خود ہے ۔
آخر میں ایک واقعہ :
یہ
1984
کی بات ہے ، میں حکومت کویت کا ملازم تھا ۔ بغداد شریف سے درگاہ غوث پاک کے سجادہ نشین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ، محفل میں عرب بھی شامل تھے ۔ ایک عمر رسیدہ شخص نے دوران گفتگو کہا ْ کوئی شخص آپ کے پر دادا کی بے ادبی کرے تویہ شدید تر ہے اس سے کہ کوئی آپ کے والدکی بے ادبی کرے ۔ مگر بسبب زمانی طور پر قریب تر ہونے کے ، آپ والد کی بے ادبی پر زیادہ رد عمل کا اظہار کریں گے ْ

ہمارے پیر اور مرشد ہمارے استاد ہوتے ہیں، ہم استادوں کی جوتیاں سیدہی کر کے ان سے علم پاتے ہیں اور ادب سیکھتے ہیں۔ ان کا رتبہ والد ہی کی طرح کا ہوتا ہے اور والد زمانی طور پر پڑدادا سے قریب تر ہوتا ہے۔ 

پیر، 18 مئی، 2020

ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا


پاکستان اور امریکہ میں وہی فرق ہے جو علامہ خادم حسین رضوی اور اور پاکستان کے مقتدرادارے میں ہے ، علامہ صاحب تاجدار ختم النبوت کا علم لے کر اٹھے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد میں دھرنا نمبر ایک  دیا عاشقان رسول ﷺ میں سے درجن بھر کا خون بہا ، ایک وفاقی وزیر کی قربانی منظور ہوئی ، الیکشن میں حصہ لیا اور اب ان کے پیروکار چھوٹے علاموں کا کردار اتنا رہ گیا تھا کہ وہ جمعہ کے اجتماع کے بعد دعا مانگتےتھے  ْ یاالہی، گستاخان رسول ﷺ پر ٓآپ کا قہر نازل ہو چکا مگر ابھی ان میں جان باقی ہے ، کربلاء کے شہیدوں کے صدقے ان کو مکمل نیست ونابود فرما اور نئے حکمرانوں کو توفیق بخش کہ وہ پانچ سال تک تیرے دین کی خدمت کر سکیں ۔ مولا کریم ان کو گستاخی رسول کی ہمت نہ دینا ورنہ ہمارے امیر المجاہدین کسی وقت بھی سر پر کفن باندھ کر نکل سکتے ہیں ْ 
مقتدر ادارہ دھرنے کے دوران غازیوں کا پشت بان بنا تھا ۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک وفاقی وزیر کی قربانی قبول فرما کر ثابت کیا تھا کہ  گستاخ اپنے انجام کو پہنچ چکے اور غازیوں کو واپشی کے لیے زاد راہ دے کر فارغ کر دیا دیا گیا تھا ۔ یہ ادارہ  عمران خان کے دھرنے کے دوران انگلی تو کھڑی نہیں کرتا مگر عوام کو کھڑا نظر آتا ہے۔اور عوام سے زیادہ خواص موجودگی سے اپنی آئندہ کی راہ منور کرتے ہیں۔
سیاست میں " کلہ" عوامْ ہوا کرتے ہیں،امریکی سیاست دانوں کا ْ کلہ ْ کس قدر مضبوط ہے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کم ہی لوگوں کو امریکی سیاستدانوں کے کلے کی مظبوطی کا ادراک ہے
پاکستان میں عوام کا تجربہ یہ ہے کہ اختیارات کا محور و مرکز ْ طاقت ْ ہی ہے۔ اور طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سیکرٹری پاکستان کے وزیر اعظم کو فون مبارک باد کا فون کریں تو اخباروں میں سرخی اور ٹی وی پر ہیڈ لائنس بنتی ہیں۔اور پاکستان کے وزیرخارجہ کے کہنے پر ہمار ا دفتر خارجہ کوئی وضاحت بھی جاری کرے گا تو اس کو ملک کے اندر نہ باہر سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمان کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہدائت کے بعد امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اب اس کی ایک فون پر لیٹ جانے والوں کی حکومت نہیں ہے۔ معلوم نہیں ڈاکڑ  صاحب کے ذہن میں لیٹ جانے والوں کے بارے میں کس کی تصویر ہے مگر مشرف اینڈ باقیات کے پیٹ میں اس بیان سے ایسا مروڑ اٹھاتھا جو ڈاکٹر کے کھڈے لائن لگ جانے کے بعد ہی ٹھیک ہوا ۔وزیر اعظم  وزارت خارجہ گئے اور بیان دیا کہ ْ کسی بھی ملک سے خواہ مخواہ کا الجھاو نہیں چاہتے . اور جوشیلے پارٹی ورکروں کو مناسب پیغام دیا۔یاد دھانی کراتے رہنا ہمارافرض ہے کہ امریکہ کا ْ کلہْ پاکستان میں بھی مضبوط ہے اور اس کلے کے رکھوالے کلے کی مضبوطی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ نواز شریف کی جیل یاترا کے بعد جوشیلے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، حکمران جس نام کا بھی ہو، عوام کا ووٹ جس کے پاس بھی ہو پہلا اور آخری پیغام یہی ہے کہ کھاو پیو موج اڑاو مگر ْ ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا ْ    

پیر، 9 ستمبر، 2019

اوئے شرم کرو

پاکستان کے فوجی جوان جو غازیوں کی زندگی جیتے ہیں اور جب وطن پر قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے گاوں اور محلے والے ان کی تربت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ہماری بہترسالہ فوجی تاریخ قربانیوں اور معجزوں سے عبارت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک تن تنہا پاکستانی مجاہداللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمن کے دو سو فوجیوں کو گھیر لایا تھا۔ 

سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کی شام کوئی پاکستانی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ ہمارے ۹۲،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مگر ایسا ہوا اور ایسا کرنے والا اس وقت کا کمانڈر انچیف اور ایسٹرن کمانڈ کا جنرل تھا۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تو اپنا پستول دشمن جنرل کے حوالے کر کے قید ہو چکا تھا مگر راولپنڈی میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمدیحیی خان سے جب زبردستی استعفیٰ لیا گیا تو وہ شراب کے نشے میں دہت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید بن معاویہ شرابی تھااور شراب کے نشے میں چھڑی سے ایک متبر ک اور پاکیزہ کٹے ہوئے سر کو ٹھکورا تھا۔ یہ چھڑی بڑی ظالم شے ہے تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ڈہاکہ کے پلٹن میدان میں نیازی سے پستول لینے سے بھی پہلے اس کی چھڑی لے لی گئی تھی۔جب مغربی پاکستان میں چھڑی کے خلاف بغاوت ابھری تو یہاں بھی چھڑی والے سے چھڑی لے لی گئی۔مگر پاکستان کے فوجی جوانوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو شہید نے مغربی پاکستان میں انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر فوجی جوانوں سے کہا تھاکہ یہ شکست فوجی شکست نہیں ہے بلکہ سیاسی شکست ہے۔ یہ بھٹو کا نعرہ تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔فوج ہتھیاروں کے بل بوتے پر لٹرتی ہے اور اسے جذبہ اپنی قوم مہیا کرتی ہے۔ہتھیار اپنا ہونے کا فلسفہ ۱۹۴۷ ہی میں پاکستانیوں کو سمجھ آ گیا تھا جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے حملہ کیا تو نظام نے جو نقد رقم دے کر بندوقیں خریدیں تھیں میدان عمل میں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت زمینی حالات یہ ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ا ہو یا نہ ہو مگر سبز ہلالی پرچم کے لیے چیر پھاڑنے کو بے تاب ہے۔ ۲۲ کروڑ لوگ ان کی پشت پر صرف زبانی نہیں کھڑے بلکہ نصف صدی تک تین نسلوں نے گھاس کھا کر اپنے فوجیوں کے لیے وہ بندوق تیار کر کے رکھی ہے۔جو چلے تو چاغی کے سب سے بڑے پہاڑ کو خاکستر کر کے رکھ دے اور دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بندوق کے موثر ہونے کی گواہی دیں۔ 

ہماری فوج وہ ہے جو تین دہائیوں سے دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ہماری دو نسلیں تو پیدا ہی دہماکوں کے دوران ہوئی ہیں اور بموں سے کھیل کر جوان ہوئی ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بوڑہے اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں کو دفنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جوان خون وطن کی مٹی میں ہی جذب ہوا ہے۔
سابقہ ایک سال میں اس ملک خداداد پر کون سا کالا جادو کیا گیا ہے کہ فوجی جوان حیران ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے؟

عوام یہ جان کر دانتوں میں انگلی دے لیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست فاش دی جا چکی ہے۔ پاکستانی عوام جو اداروں سے مایوس ہو چکی ہے سوائے پاک فوج کے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اور اس کی پریشانی کا سبب کوئی راز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد جو لوگ عوام پر مسلط کیے گیے ہیں۔ وہ حکمران چور اور ڈاکو بن گئے ہیں۔عوام نان جویں کر ترس رہی ہے۔ ۔ نوجوان اپنے مستقبل سے نا امید ہو چلا ہے۔ عام ٓدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔اداروں کے کرنے کے کام سوشل میڈیا فورس کے حوالے کر دیے گٗے ہیں۔ 

اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکو آصف علی زرداری بتایا جاتا ہے مگر اس کے دور میں تو زندگی معمول پر تھی۔ ہمساٗے رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھا کرتے تھے۔ دشمن منہ کھولنے سے پہلے کئی بار سوچا کرتا تھا۔ سب سے بڑا چور نواز شریف بتایا جاتا ہے۔ عدالت نے تو اس کو اقامہ پر سات سال کے لیے جیل میں بھیجا ہوا ہے۔ اگر اس نے چوری کی ہے تو برآمد کیوں نہیں ہو رہی۔مگر اس کے دور میں بھی عوام کی امید کی ڈوری مضبوط ہی ہوئی تھی۔ کیا ملک کے میں موٹر ویز کا جال نہیں بچھایا گیا۔ میڑوبسوں کا چلنا اس خطے میں منفرد کام نہ تھا۔لاہور میں اورنج ٹرین پورے بر صغیر میں نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ کیا چوری کا شاخسانہ ہے۔

۔یہی مودی جو پاکستانی حکمرانوں کا فون اٹھانے کا روادار نہیں ہے خود چل کر لاہور آیا تھا۔ اس کے پیش رو نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کچھ اعترافات بھی کیے تھے۔

ہمارے حقیقت پسند وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستانی احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ حالانکہ پاکستانی خود کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے احمقوں کی جنت میں وہ رہتے ہیں جو پاکستان کو مصر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو اس بیانئے پر یقین ہے کہ فوج اور پولیس میں ہمارے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ عوام اور فوجی جوانوں کا خون ایک ہے۔ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بندوق لے کر نکلیں گے تو پورا پاکستان ان کی دفاعی لائن کو قائم رکھے گا۔ ہمارے سپہ سالار کا فرمانا ہے کہ اخلاقی قوت عسکری قوت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا موجودہ مسلط کردہ حکمران قوم کو اخلاقی طور پر متحد کر رہے ہیں یا عوام اور افواج پاکستان میں غلط قہمیوں کے بیج ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے صرف منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔یہاں تو اقتدار کو ایسے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں جن کو عدالتوں نے ناہل قرار دیا ہوا ہے۔ 

یہ بیانیہ البتہ قابل قبول نہیں ہے کہ جو موجودہ حکومت کے جھوٹ کو سچ نہ مانے وہ دین کا منکر اور پاکستان کا غدار ہے۔ جو انصاف کے معیار پر انگلی اٹھائے اسے عدلیہ کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سن کر انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر ظلم اور بے انصافی کا راج ہو گاتو لا محالہ قوم کی سوچ تقسیم ہو گی۔ یہ کیسا اجینڈا ہے جو عوام کو گروہوں میں بانٹ کر مایوسی کی آبیاری کررہا ہے اور امید کی ٹہنیاں کاٹ کرجلا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ ایشیاء ٹائیگر بننے سے انکار کر کے عوام کے معاشی ترقی کے عزم کے سیلاب کے آگے بند باندہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے کس منشور کا حصہ ہے۔ لوگ ووٹ منشور کو دیتے ہیں۔ یہاں منشور کو لیٹ کر رکھ دیاگیا ہے۔

غریبوں کی روزمرہ اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین ٹیکس لگا کر رقم جہاز والوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عمران خان کنٹینر پا کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے اوئے شرم کرو۔۔یہ تمھارے باپ کا پیشہ ہے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ۲۰۸ ارب کس کے باپ کا پیسہ ہے جو گیس کے بلوں اور کھاد کی قیمت کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ۴۰۰ ارب کا ٹکہ لگا یا گیا مگر سرکاری خزانے میں کچھ بھی جمع نہ ہوا۔۔

وزیر اعظم کو ایسی خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں، حالانکہ اس صدارتی آرڈیننس کی سمری وزیر اعظم نے قصر صدارت بھیجی تھی۔ جب ٓرڈیننس جاری ہو گیا تو دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے اس کے فضائل بیان کیے اورجب لوگ اس آرڈیننس سے مستفید ہو چکے تو وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔پھر اس نوٹس لینے پر قوالوں کی پوری پارٹی میدان میں اتاری گٗی جس کی سربراہی حفیظ شیخ نے کی۔ 

وزیر اعظم سیاست کو تجارت بنا کر تجارت پر سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں قانون، آئین حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور رزاق داود کے جہازوں میں جلنے والے ایندہن کا جب بھی لیبارٹری میں فرانزک ہوا اس میں غریب عوام کے نچوڑے خون اور محنت کے پسینے کی آمیزش ضرور ثابت ہو گی۔عوام پر ظلم، زیادتی اور بے انصافی پر حکمرانوں نے کان اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں کہ غریب جب روزمرہ استعمال کی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو مہنگائی اسے ایسا کرنٹ مارتی ہے کہ اس کا دماغ شل ہو کے رہ جاتا ہے۔

حکومتی باجوں پر نئی دہن یہ بجائی جا رہی ہے کہ اس کرپشن کا سبب وہ عدالتی اسٹے آرڈر ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں بقول عمران خان یہی کہا جا سکتا ہے اوٗے شرم کرو مگر شرم اور حیا، قانوں اور قانون کی پاسداری سے عملی طور پر حکومت ہاتھ دہو چکی ہے۔

ہفتہ، 20 جولائی، 2019

پٹکے


پاکستان کا نظام عدل اور تفتیش کا انتظام برطانیہ کا بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ کے تفتیشی ادارے اپنی مستعدی کی شہرت کے باوجود بعض مقدمات میں پھنس جایا کرتے تھے اور تفتیش آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ اٹھارویں صدی میں لندن کی پولیس نے جرائم میں ملوث گروہوں کی سر کوبی کے لیے ادارے سے باہر کے لوگوں کو مجرموں گروہوں میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ گینگ میں شامل ہو کر جرم کرتے اور ساتھ ساتھ مخبری کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ جب مجرم گینگ پکڑا جاتا تھا یہ مخبر بھی گرفتار شدگان میں شامل ہوتے۔انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ پولیس عدالت کے سامنے مخبر سے کیا گیا معافی کا وعدہ رکھتی اور عدالت مخبر کو رہا کر دیتی۔ اس بندوبست کا بانی لندن کا ایک قانون دان اور جج فیرنی چارلس (متوفی ۴۹۷۱)  تھا۔ لندن میں اس بندوبست کی کامیابی کے بعد اس بندوبست کو انڈیا میں بھی رائج کیا گیا۔ مگر یہاں اس بندوبست میں وہ شفافیت نہیں رہی جو لندن میں تھی۔ 
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں یہ بندوبست اب بھی موجود ہے البتہ سیاسی مقدمات میں اس کا استعمال  ۷۷۹۱ میں جنرل ضیاء االحق کے دور میں کامیابی سے ہوا۔ اس دور میں میں فیڈرل سیکورٹی فورس کے دو افسران اور ایک سپاہی وعدہ معاف گواہ بنے۔ ان کی گواہی پر پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد جو بھی سیاسی کیس بنا اس میں عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ عدالت میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔اور اس مجرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ایماء پر اس نے جرم کیا ہوتا ہے۔ مقدمے کے اختتام پر تفتیشی ادارہ عدالت سے اس کی معافی کی درخواست کرتا ہے۔ یہ اختیار عدالت کا ہوتا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کر بری کر دے یا اسے سزا دے۔ 
ایم کیو ایم کے رہنماء الطاف حسین پر مقدمات بننا شروع ہوئے تو صولت مرزا کا نام بطور وعدہ معاف گواہ سامنے آیا۔صولت مرزا کو گو پھانسی دے دے گئی مگر اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔
پاکستان میں سابقہ صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی بنیاد وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر رکھی گئی۔ لیاری گینگ کے مشہور کیس میں زرداری صاحب کے خلاف مقدمات ایک وعدہ معاف گواہ عزیر بلوچ کے بیانات پر رکھی گی۔جج ارشد ملک کی عدالت میں زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف چلنے میں مقدمے میں شیر محمد کا نام بطور وعدہ معاف گاہ سامنے آیا۔ 
سابق وایر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور مقدمے میں شائد رفیع صاحب وعدہ معاف گاہ بنے۔
راجہ پرویز مشرف کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ رانا محمد امجد ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے مقدمے کے وعدہ معاف گواہ گلزار احمد ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں 
جنرل مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔
مشرف ہی کے دور میں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنا تھا اس میں وعدہ معاف گواہ امین اللہ چوہدری بنے۔
موجودہ دور چوروں اور ڈاکووں کے خلاف، سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے صادق اور امین کی سند پانے والوں کا ہے۔ مگر تمام مقدمات کے ساتھ کوئی نہ کوئی وعدہ معاف گواہ جڑا ہوا ہے مثال کے طور پر سابقہ وزیر ریلوے 
خواجہ رفیق کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں قیصر امیں بٹ، سلیمان شہباز کے خلاف مقدمے میں مشتاق چینی،شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ، سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقدمے میں عابد سعید وعدہ معاف گواہ ہیں۔ 
پاکستان میں جتنے بھی سی ایس پی افسر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ اپنے اعترافی بیان کے چند دنوں بعد ہی رہا ہو کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ البتہ شہبازشریف کے خلاف مقدمات سے جڑے ایسے گواہوں کو رہا نہ کرنے کی وجوہات قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو بھی وعدہ معاف گواہ کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جنھوں نے نیب کی کوششوں کے باوجود وعدہ معاف گواہ کا پٹکا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کیا ہے ایک نام کیپٹن محمد صفدر اعوان کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے پناما کیس میں اور دوسرا نام عبدالجبار قدوائی کا ہے جنھوں نے آصف زرداری کے خلاف بے نامی مقدمات میں وعدہ معاف گاہ بننے سے انکار کیا۔
وعدہ معاف گواہوں کے بارے میں پاکستان کے ماہر قانون سابقہ جسٹس ناصر الملک صاحب نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ایسے گواہوں کے بیان پر انحصارکر کے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔


اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

پیر، 28 جنوری، 2019

اندھا کنواں ظالم ڈول



علم ہوکہ حکم، رویہ یا معاملہ جب اس کو فطرت کے اصول کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو ظلم کہلائے گا۔اور مظلوم وہ ہوتا ہے جس کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جاٗے جو اس کا نہ ہو۔ انفرادی زندگی میں ظلم کا نتیجہ بیماری، معذوری اور خود کشی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ خاندانوں میں ظلم نفرت، ناچاکی اور طلاق کا سبب بنتا ہے اور معاشروں میں جھوٹ، فریب، ڈاکہ ، دہاندلی اور قبضوں کا چن چڑہاتا ہے۔ ریاستی سطح پر بے اعتمادی، بد گمانی ، لوٹ کھسوٹ اور رشوت کو تقویت دیتا ہے۔ 

معاشرے کی مثال ایک دریا کی مانند ہوتی ہے جو اپنے فطری راستوں اور رفتار سے بہتا ہے۔ بہتے دریاو ں میں مخصوص موسموں میں طغیانی آنا بھی فطری عمل ہے البتہ بہتا دریا اچانک خشک ہو جائے تو یہ عمل فطری شمار ہو گا۔ پاکستان میں بہتے دریا خشک ہو گئے مگر ظلم یہ ہواکہ کسی جہاندیدہ بزرگ نے لاٹھی پکڑ کر پہاڑ پر نہ چڑہنا ہی گوارا نہ کیا۔

پاکستان کے عسکری ادارے کے ایک سربراہ نے اپنے ادارے اور حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو ادارے کے اندر سے کسی نے مزاحمت کی نہ کسی نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ وہ ملک جو بناتے وقت لاکھوں جانوں کی بلی دی گئی تھی ۔ اس کے دو لخت ہونے پر نہ کسی کی غلطی کی نشان دہی کی گئی نہ کسی پر مقدمہ چلا۔کیا اس کو ظلم کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟

ملک کی بنیاد رکھنے والوں نے صاف الفاط اور واضح لہجے میں بتایا تھا کہ یہ ایسا ملک ہوگا جہان تمام لوگوں کو امن میسر ہو گا۔ انگریز سے آزادی کا مطلب تھاشہریوں کو ریاست کے لیے قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے گا۔ انسان کی تکریم کی مثال قائم کی جائے گی تاکہ دوسرے ملکوں کو اس نظام کو اپنے ہاں نافذ کرنے کی حرص پیدا ہو۔ ظلم یہ ہوا کہ عملی طور پر ہم نے ایسا ملک بنایا جہاں انسانی جان بے وقعت ہو کر رہ گئی۔ ریاست عوام دوست کا کردار ادا کرنے کی میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ عوام دشمنی کو اپنی کامیابی گرداننے لگی۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو اپنی ہی سرزمین سے پکڑ کر دشمن کو فروخت کرے اور باقی ماندہ لوگوں کو ظلمتوں میں دھکیل کر بیرون ملک جا بسے اور ریاست چپ سادھ لے۔

ملک کی سب سے اونچی عدالت کے سب سے بڑے منصف کی عدالت میں منصف کے روبرو ایک شخص منصف پر رشوت مانگنے کا الزام لگائے ،الزام کی تردید ہو نہ عدالت کی توہین کا مقدمہ قائم کیا جائے نہ اس شخص کو پاگل خانے بھیجا جائے ۔ عدالتوں میں مقدما ت پر ریلیف دینے کی روائت تو کسی کتاب میں پڑہی نہ اخباروں مین دیکھی مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل درجنوں ملکوں سے بہتر ہے ۔ ایسی خود فریبی کو ظلم کے علاوہ دوسرا کیا نام دیا جائے۔

اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو پیشانی سے قابو کرتا ہے مگر ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے وہ مخالفین کو کرپشن کے نام پر پکڑتی ہیں۔ کرپشن وہ غبارہ ہے جس میں بے بنیاد پروپیگنڈے کی ہوا بھر کر اس کو پھلایا جاتا ہے اور عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ کرپشن سے بھرا ہوا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جو معاشرہ سول حکومت کے دوران کرپٹ ہوتا ہے ۔ کسی آمر کے آتے ہی حاجی اور پرہیز گار ہو جاتا ہے مگر جوں سول حکومت قدم رنجہ ہوتی ہے یہ شیطان اسی لمحے مخالفین پر اپنا جال پھینک کر انھیں کرپٹ بنا دیتا ہے۔ یہ جو اہل دانش کا فرما ن ہے کہ ظلم کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ ان کو کوئی جا کر خبر کرے ۔آو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ہم نے ظلم کے غبارے میں اپنے جبر سے ہوا بھر کے اسے قائم بھی رکھاہوا ہے۔

کرپشن وہ اندھا کنواں ہے جس میں بار بار ڈول ڈالا جاتا ہے ۔ پہلے لوگ ڈول ڈالنے کے اس تماشے کو اشتیاق سے دیکھتے تھے۔ مگرہر بار اور بار بار یہ ڈول بے مراد ہی واپس آیا ہے۔ اب عوام بھی جان چکی ہے اس اندھے کنویں میں امید کا گمان بھی نہیں ہے ۔ جبر مگر یہ ہے کہ یہ ظالم ڈول ڈالنے والوں کے لیے خالی نہیں ٓتا۔اور یہی سب سے بڑا ظلم ہے ۔

پیر، 31 دسمبر، 2018

پسندیدہ جہاد

کرکٹ کا کھیل کھیلنے کے لیے پچ بہت محنت سے تیا ر کی جاتی ہے، تیار ہو جانے کے بعد اپنی ٹیم کھیلتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے اپنی تیار کردہ پچ پر مخالف کو کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔جب مخالف کو کھیلنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں تو بھی مد نظر اس کی شکست ہی ہوتی ہے۔

سیاست کی پچ پر، اس ملک میں طویل ترین میچ ،کرپشن کے نام پر چل رہا ہے۔میرے نوجوانی کے دنوں میں شہر میں ٹانگے ہوئے کرتے تھے۔ ٹانگوں کے کوچوان گھوڑے کو چابک سے اور سواریوں کو اپنی زبان سے قابو میں رکھے کرتے تھے البتہ ایک سرکاری محکمہ ایسا بھی تھا جس کے اہلکار کوچوانوں کو قابو میں رکھتے تھے۔ حکومت نے اس کا نام محکمہ انسداد بے رحمی رکھا ہوا تھا مگر اس محکمے کے اہلکاروں کو بے رحمی والے کے نام سے جانا جاتا تھا۔کوچوان کی آمدن اس قابل تو ہوتی نہیں تھی کہ خدا کی عائد کردہ زکواۃ ادا کرے مگر بے رحمی والے انسپکٹر کو اپنی آمدن کا حصہ دینا نہیں بھولتا تھا۔

ایک وقت تھا،جنگلات کی حفاظت کے نام پر بکری پالنا جرم قرار دیا گیا۔حتیٰ کہ دیہات میں بھی بکری پالنے والا مجرم ٹھہرایا جاتا تھا۔ قانون کی زد میں آنے سے اکثر لوگ بچ جاتے مگر گاوں کی مسجد کاپیش امام ہمیشہ حوالات کی ہوا کھاتا کیونکہ اسے موٹے پیٹ والوں کو کھلانے سے ایک وہ حدیث نبوی روکتی جس میں کھانے اور کھلانے والے دونوں ایک جیسے بتائے جاتے ہیں۔ 

حکومتوں کے فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ پاکستان اپنے خاندانی سسٹم پر بہت نازاں ہوا کرتا تھا ۔ اور مشترکہ خاندانی نظام کو بچانے کے لیے چولہا ٹیکس نافذ کیا گیا تاکہ خاندان کے لوگ اپنا ہانڈی چولہا علیحدہ علیحدہ نہ کر لیں۔ ایک خاندان گھر میں ایک ہی چولہا رکھ سکتا تھا۔ دوسرا چولہا رکھنے کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ حکومت نے تو قانون سازی ہی خاندانی اتفاق و اتحاد کے لیے کی تھی البتہ جن گھروں میں شادی کے بعد خانہ آبادی ہو جاتی ان گھرانوں اور حکومت کے مابین تعلقات خراب ہو جاتے البتہ پولیس والے ان تعلقات کے سدہار میں نمایاں کردار ادا کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان سے پہلے ہی علاقے میں ذرائع آمد روفت کے طور پر گھوڑے کی جگہ بائیسکل نے لینا شروع کر دی تھی۔ سائیکلوں کی چوری روکنے اور چوری شدہ سائیکلوں کی برآمدگی کے لیے ضلع کی سطح پر ایک رجسٹر ترتیب دیا جاتا تھااور ہر چوری ہونے والی سائیکل کا نمبر اس رجسٹر مین درج کر لیا جاتا تھا۔ جب یہ رجسٹر کافی پرانا اور بھاری ہو جاتا تو اسے کسی بھی چوراہے پر رکھ کر سائیکل سواروں کی سواریوں کے نمبر اس رجسٹر سے ملائے جاتے۔ جو عام طور پر نہیں ملا کرتے تھے۔ البتہ یہ منظر عام ہوتے کہ اہل رجسٹر اور اس کے درجنوں اہلکار ہر آنے والی کی سائیکل کو پکڑ لیتے اور سائیکل کی رسید پیش کرنے کا مطالبہ کرتے۔ الزام لگا کر بار ثبوت ملزم پر ڈالنا اسی زمانے کی اختراع ہے

یہ ابتداء تھی، معاشرے میں کرپشن نظر آنا شروع ہو گئی تو میرٹ کے نام پر تھانوں اور پٹوار خانوں میں با اعتماد افراد کی تعیناتی کا ڈول ڈالا گیا۔ معاشرے میں دیہاڑی دار آٹھ گھنٹے کی مزدوری پر کام کرتا تھا مگر کرپشن کے باعث اسے دیہاڑی کی بجائے ٹھیکہ دینے کا چلن چل نکلا۔ تھانے اور پٹوار خانے بھی بکنا شروع ہو گئے۔ محکوموں کو یقین ہو گیا کہ کرپشن کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ وکیل نہ کرو جج ہی کر لوکی اصطلاع ایجاد ہو چکی تھی۔ رشوت اور حرام کمائی کو لگام دینے کی بجائے مک مکا روائت بن گئی۔ نوسو چوہے کھا کر عمرہ کرنے کا فیشن چل نکلا۔ اور ایسا چلا کہ معاشرہ اس متفق ہو گیا کہ کنویں میں پڑا مردار بے شک نہ نکالوحسب فرمان پانی کے ڈول نکال لو۔ مردار ملا پینے والا پانی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔معالجین گلی محلوں میں پھیل گئے ۔ لیبارٹریوں کا میلہ لگ گیا۔ میلے میں جلیبیاں تلنے والے بھی پہنچ گئے ۔معلوم ہوا تیل ملاوٹ زدہ ہے۔۔۔

اکہتر سالوں کی محرومیوں، تلخ تجربات، جلوسوں اور ہنگاموں کے بعد ہم طے کر چکے ہیں جلوس نہیں نکالیں گے البتہ ریلیاں نکالنا شرف انسانیت ہے۔ہنگاموں سے ہم نے منہ موڑ لیا ہے مگردھرنے وقت کی ضرورت ہیں۔اجتماعی زندگی میں ہم اپنے گروہ کا حصہ ہیں تو انفرادی زندگی کو محفوظ بنانے کے گر بھی ہمیں آگئے ہیں ہم اپنے نومولود کے سرہانے اس کے باپ کو بطور چوکیدار کھڑا کرتے ہیں،بچہ دن میں ایک بار تو اس کی حفاظت کے ذمہ دار دوبار سکول جاتے ہیں۔ بچے کو ٹیوشن اس لیے پڑہاتے ہیں کہ علم کے حصول کا حصہ ہے، ایک وقت تھا علم بڑی دولت ہوا کرتی تھی اب دولت ساری تعلیم میں سمٹ آئی ہے۔ہر سرٹیفیکیٹ اور ڈگری کی قیمت ہے ۔

ہم دنیا کے نمبرایک جفاکش ہیں۔ گھر کو چمکاکر رکھتے ہیں۔ گھر کا کوڑا گلی کے راسے نکاسی کے نالے میں جاتا ہے۔ اللہ باران رحمت برساتا ہے تو نالا بھی صاف ہو جاتا ہے۔ البتہ دس سال بعد جب بند ہو جاتا ہے اور اس کے متوازی نیا نالا تعمیر کرلیتے ہیں۔ہم جان چکے ہیں سارا معاشرہ کرپٹ ہوجکا ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ کرپشن ختم ہوالبتہ ہم چاہتے ہیں اس کی ابتداء حریفوں سے ہو۔ 

جمعہ والے دن منبر پر بیٹھے خطیبوں، نصابی کتابوں میں درج داستانوں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روائتوں، جذباتی ناولوں اور سوشل میڈیا پر پھیلی اپنی کامیابیوں کا مان ہمیں مجبور کرتا ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ کرنے والے سارے کام تو مکمل ہو چکے اب اعادہ ہی ممکن ہے ۔ بھٹو نامی شخص نے اگرچہ نیا پاکستان دسمبر1971 میں بنا لیا تھا دوبارہ دہرانے کا خیال نوجوانوں کو پسند آیا مگر کچھ ریٹائرڈ قسم کے بزرگوں کے من پر بھاری رہا ۔ البتہ کرپشن کے خلاف جہاد ایک بار پھر شروع کیا گیا تو اس پر ہمیشہ کی طرح نئے اور پرانے لوگ کافی مطمن ہیں۔ یہ تجربہ ہر بار عوام میں ایک نیا جذبہ پھونکتا ہے۔ اور سرور کا اصل سبب لفظ جہاد ہے۔ پاکستان میں کرپشن واحد برائی ہے جس کے خلاف عمل کے لیے نوجوان، جوان اور ریٹائرڈ لوگ سب ہی خوش دلی سے جہاد کرتے ہیں۔ 

ہم معاشرے میں گہری دفن کرپشن کی جڑوں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ ہر دس ، پندرہ سال بعد کرپشن کا درخت کاٹ کر اپنے جذبات کو قابل تحسین بنا سکیں۔

کتا ۔۔ہائے ہائے


قدرت اللہ شہاب صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ایوب گھر سے نکلے ، راستے میں لڑکے نعرے لگا رہے تھے۔ ایوب خان نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا لڑکے کیا کہہ رہے ہیں۔ ڈرائیور کو ہمت نہ ہوئی مگر ایوب خان کے اصرار پر جب ڈرائیور نے حقیقت بیان کی تو ایوب خان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑنے کا کہا اور گھر جا کر استعفیٰ دے دیا۔
ضیاء شائد صاحب نے لکھا ہے کہ لاہور میں دو کتوں کے گلے میں ْ ایوب کتا ہاے ہائے ْ کی تختی ڈالی گئی۔ اس کی تصویر بناکر ایوب خان کو دکھائی گئی تو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔
ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہائے ْ کا نعرہ ہمارے سامنے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے مری روڈ پر ۷ نومبر ۱۹۶۸ کو لگایا گیا تھا۔ نعرہ لگوانے والا نوجوان عبدلحمید تھا جو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ جوپشاور روڈ پر گولڑہ موڑ سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے کنارے واقع تھا ( جنرل ضیاء کے دور میں اس سول ادارے کو عسکری ادارہ بنا دیاگیا تھا ) کا طالب علم تھا اور اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس نعرے کو عسکری حکمرانی سے جمہوری سفر کے آغاز کی نوید بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور کچھ بنیادی حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ 
۵ ۱۹۶ کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان غذائی قلت کا شکار ہو گیا تھا۔ ایوب خان کے لائق وزیر زراعت خدا بخش بچہ کی درخواست پر امریکہ نے سرخ رنگ کی موٹے دانوں والی دہرے خواص والی مکئی پاکستان بجھوائی تھی ۔ اس مکئی کی پہلی خاصیت اس کا بد ذائقہ ہونا اور دوسری خاصیت یہ تھی کہ حلق سے نیچے مشکل سے اترتی تھی۔ قلت میں چینی بھی شامل تھی ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کی قیمت میں ۲۵ فیصد اضافہ کر دیا گیا یعنی ایک روپیہ سیر کی بجائے سوا روپے سیر ۔ ملک بھرمیں پائی جانے والی تشویش کو مجتمع ہوتے ہوتے تین سال لگ گئے ۔ یاد رہے اس وقت سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی۔ خبر چیونٹی کی چال رینگتی تھی۔ جب تشویش نے مظاہروں کا روپ دھارا تو اس وقت ملک میں اختیارات کا منبع جرنل ایوب خان تھا اور وہ لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں اپنا دس سالہ اقتدار کا جشن ْ عشرہ ترقی ْ کے نام سے منا رہا تھا۔ گو پاکستان ایک وکیل نے بنایا تھا مگر ہراول دستے کا کردار طلباء نے ادا کیا تھا۔ ملک میں طلباء کی یونینز کافی مضبوط تھیں۔ لاہور کے جشن دس سالہ کے دوران لاہور کے طالب علم سٹیڈم کے گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے ۔مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ اور دوسرے مقامات پر بھی طلباء نے ہڑتال اور ہنگامے شروع کر دیے۔ دس سالہ ترقی کی سیٹی بجاتی ٹرین کو بہاولپور میں نذر آتش کر دیا گیاتھا۔۷ دسمبر کو ایوب خان کے ڈھاکہ کے دورے کے دوران پولیس کی گولی سے دو افراد جان بحق ہو گئے تھے۔
اس وقت سوویت یونین اپنی سیاسی طاقت کے عروج پر تھا۔ چین سے ماوزے تنگ کی عطا کردہ ٹوپی مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے سر پر تھی تو مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعدمولانا بھاشانی کی قیادت میں نیشل عوامی پارٹی منظم ہو چکی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم ننگی تلواریں لیے مد مقابل تھے ۔ اسلامی ذہن کی سیاسی جماعتیں اور جنرل ایوب موجود نظام کے محافظ تھے تو مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب سرخ انقلاب کے داعی تھے۔ قحط کی ماری قوم سے ایک جلسے میں ایک مذہبی سیاسی رہنماء (جماعت اسلامی کے امیر )نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں قران پاک اٹھا کر عوام سے پوچھا کہ روٹی کو ترجیح دو گے یا قران کی حفاظت کرو گے۔ عوام نے شیخ مجیب اور بھٹو کو منتخب کر کے روٹی کو اہمیت دی ۔ ان دنوں ایک جلسے میں نعرہ بلند ہوتا تھا ایشیاء سرخ ہے تو دوسرے دن اسی مقام پر ایشیاء کے سبز ہونے کی نوید سنائی جاتی تھی ۔ جنگ دائیں اوربائیں بازو کی تھی۔ جسے کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا۔ 
ایوب کتا ۔۔ ہائے ہائے کے نعرے لگانے والے کوئی زیادہ جمہوریت پسند نہ تھے ۔ جب ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ کوجنرل یحییٰ خان نے اپنے بھائی آغا محمد علی (جو انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تھے) کی مدد سے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پہلے سے ٹائپ شدہ پر دستخط کرائے تو ایشیا سبز ہے کے نعرے لگانے والے مطمن ہو کر گھر چلے گئے ۔ اور سرخوں نے بھی کمیونزم کو
لپیٹ کر اسلامی سوشلزم کو برامد کر لیا۔ 
اس دور سے تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ اس حقیقت کو بھی دریافت کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبے کے پیچھے بنیادی عنصر یہ تھا کہ کانگریس نے ذہن بنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ میں رکھنا ہے ۔ مسلمانوں کو کانگریس کی اس سوچ سے اختلاف پیداہوا۔ مسلم لیگ نے جنم لیا اور پاکستان بن گیا۔ عزت نفس بنیادی انسانی حق ہے۔ ممتاز صحافی علی احمد خان نے اپنی کتاب ْ جیون ایک کہانی ْ میں لکھا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مادر ملت کے جلسے میں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گذارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ گرد و نواح کے گاوں کے لوگ بھی وہاں جمع تھے اور ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی نے بنگالی ڈرائیور نے انھیں تختے لانے کے لیے کہاتو ان میں ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے پوچھا کس کی طرف سے آئے ہو؟ ڈرائیور نے بتایا مادر ملت فاطمہ جناح کی طرف سے ۔ بنگالی نے کہا ایسا بولو نا ۔۔ تمھاری گاڑی کو تو ہم کندہوں پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔اس جلسے نے ثابت کر دیا تھا مادر ملت نے میدان مار لیا ہے ۔ مگر ایوب خان کی انتخابات میں دھاندلی نے عوام سے شراکت اقتدار کی امید ہی چھین لی تھی۔ جب امیدین چھین لی جائیں توبقول صاحب طلوع ارشاد احمد عارف ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہاے ْ کے نعرے گھر کے اندر معصوم نواسے بھی لگاتے ہیں۔

جمعہ، 28 دسمبر، 2018

جنات کی اصلیت


جنات کا وجود قران مجید اور احادیث نبوی سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا قول ہے کی 
انسان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے جنات کو تخلیق کیا گیا تھا۔حضرت عبداللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ آگ کی گرم لو جو شعلے میں نظر نہیں آتی اس لو سے جنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ مولاناابواعلی مودوی نے بھی ابن عباس کے قول کی تصدیق کی ہے۔
جنات عام طور پر انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ مگر ہمارے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات ہمیں جنات کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ جنات پر کھل کر علمی بحث ایک مسلمان ماہر حیوانات اورمحقق جناب عمر بن بحر بن محبوب نے کی ہے جو بصرہ کے رہنے والے تھے۔انھیں لوگ ان کی کنیت ابو عثمان کی بجائے ْ جاحظ ْ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ اس کا سبب ان کے چہر ے اور آنکھوں کی غیر معمولی بناوٹ تھی۔ ان کی کتاب ْ حیوان جاحظ ْ میں جنات پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کے مطابق جنات کی کئی اقسام ہیں، کچھ جن ادمیوں مین مل جل کر رہتے ہیں اور کسی کو کوئی ضرر یا تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ایسے جنا ت کو عامر کہا جاتا ہے۔ شرارتی جنات جو لوگوں کو ڈراتے ہیں مگر نقصان نہیں پہنچاتے ایسے جنات کوروح کہا جاتا ہے۔زیادہ شرارتی اور تنگ کرنے والون کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے خطرناک جنات کو عفریت کہا جاتا ہے۔ یہ آبادیوں سے انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔حضرت علی کے بڑے بھائی کا نام طالب تھا۔ ان کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ کبھی بھی واپس نہیں آئے۔ عربوں میں عمرو بن عدی لحمی نام کا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اسے جنات اٹھا کر لے گئے تھے۔اورکئی سال گذر جانے کے بعد اسے واپس بھی کر گئے تھے۔ خرافہ نام کے ایک شخص کا ذکر بھی ملتا ہے جسے جن اٹھا کر لے گٗے تھے اور جب اسے واپس کیا تو وہ بہکی بہکی باتیں کیا کرتا تھا۔ انسانوں میں بھی کچھ لوگوں نے جنات کے ساتھ تعلقات بنا رکھے تھے۔ اہل یمن میں ایک گروہ کا یقین ہے کہ ملکہ بلقیس جننی ( سعلاۃ) کی اولاد تھی۔ عربوں کی کتابوں کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ عمرو بن یربوع نامی شخص نے ایک سعلاۃ کے ساتھ شادی کی تھی اور اس کی اولاد بھی ہوتی تھی۔تابط شرا نام کا ایک عامل تھاجس کی جنات کے ساتھ دوستیاں تھیں۔ ایک نام ابوالبلاد طہوی کا ہے جس نے ایک بھوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
جنات کے بارے میں علمی تحقیق کم اور سنے سنائے قصے زیادہ ہیں۔ ان قصوں میں عاملین جنات ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں ایک عامل ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس جو بھی آتا اسے بتاتے کہ اس پر جنات کے ذریعے کالا جادو ہوا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے عمل کے ذریعے چند منٹوں میں دور دراز کے شہروں اور قصبوں کے قبرستانوں میں دبائے تعویز جنات کے ذریعے نکال کر د دیتے۔ اسی کی دہائی میں ان کا نذرانہ یا فیس گیارہ سو روپے ہوا کرتی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے انھوں نے سڑک کنارے پلاٹ خرید کر مکان بنا لیا۔
کشمیر میں ایک عامل سے میری دوستی تھی۔ وہ فوج مین ملازم تھا اور مشرقی پاکستان میں پوسٹنگ کے دوران اس نے کچھ عملیات سیکھے تھے۔ اس نے ایک بار خود مجھے بتایا کہ اس نے اس عمل سے دو کروڑ کے اثاثے بنائے ہیں۔ 
انسان کے اندر حسد اور کینہ دو خصلیں ہیں ۔ عامل لوگ انسان کی ان خصلتوں کو اپنی میزان کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں اور دوسرے پلڑے کو متاثرہ شخص کو اپنی دولت سے برابر کرنے کا کہتے ہیں۔ میں نے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کو عاملوں کا معمول بنتے دیکھا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کمزور قوت ارادی کے لوگ آگ کی پیداوار اس مخلوق کا ایندہن بنتے ہیں۔ ان کے وہم کی پرورش عاملین جنات کرتے ہیں اور ان کو کھلی آنکھوں سے جنات دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں
۔ 

جمعرات، 27 دسمبر، 2018

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 1

اعزاز سید

اسلام آباد : 6 اگست1990 کو عین اسی دن جس دن صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا پاکستان فوج کے111 بریگیڈ کے ایک نوجوان کپتان محمد صفدر کی عبوری وزیر اعظم جتوئی کےلیے بطور اے ڈی سی تعیناتی ہوئی۔ اسی دن وہ صدارتی محل پہنچے جہاں بریگیڈیئر نثار نے ان کا استقبال کیا۔ اسی روز حلف برداری کی روایتی تقریب کے بعد انہیں عبوری وزیر اعظم سے متعارف کرایا گیا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں دیگر حکومتی ارکان کے ساتھ تعارف کے علاوہ وہ نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ کرنل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملے جنہوں نے بعد میں بغیر مارشل لاء لگائے پاکستانی فوج کی طویل ترین سربراہی کی۔ ان دونوں کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کی جانب سے تعینات کیا گیا اور بعد ازاں یہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اہم اور با اثر ثابت ہوئے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے استاد جیسے تھے۔ میں نے بہت سی چیزیں انہیں سے سیکھیں۔ ہم دونوں نے بہت اچھا وقت ایک ساتھ گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں نیو جتوئی میں تھے جہاں سے اس وقت نگران وزیراعظم مصطفیٰ جتوئی قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے ۔ کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کرنے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل کیانی کو دوبارہ فوجی ذمہ داریاں دے دی گئیں تاہم کیپٹن صفدر نے وزیراعظم ہاؤس میں اے ڈی سی کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں۔ تقریباً 21 سالوں بعد ان کی دوبارہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی جہاں 5 جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے۔
نوجوان کیپٹن صفدر 27 سال کے تھے۔ وہ نہایت وجیہہ صورت تھے۔ خصوصاً جب وہ وردی میں ہوتے تو اطراف کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنی یاداشتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
” میں جب بھی وردی میں اپنے آبائی شہر مانسہرہ جاتا تھا تو عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پہ چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں۔ ”
وزیر اعظم ہاؤس میں فرائض کے آغاز پر کیپٹن صفدر کو علیحدہ رہائش گاہ دی گئی۔ انہوں نے وزیر اعظم کے عملے سے ایک الماری کا تقاضا کیا جہاں وہ اپنی استری شدہ وردی کو ٹانک سکیں۔ جلد ہی انہیں ایک تالہ لگی الماری دے دی گئی انہیں بتایا گیا کہ اس کا انتظام سندھ ہاؤس سے کیا گیا ہے جہاں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کےزیر استعمال تھی، جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر تھیں۔ جب نوجوان کیپٹن نے اس الماری کے تالے کو کھولا تو انہیں اس میں سفید سونے کے زیورات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی خاندانی تصاویر کے کچھ البم ملے ۔
کیپٹن صفدر نے فی الفور وزیر اعظم ہاؤس کے ملٹری آفیسر کو مطلع کیا اور یہ قیمتی زیورات اور تصاویر باضابطہ طریقہ کار سے ایک تحریر ی نوٹ کے ہمراہ واپس کردیں۔ ملٹری آفیسر نے یہ معاملہ وزیر اعظم کےسامنے رکھا اور انہوں نے یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو صاحبہ تک پہنچانے کا فی الفور حکم دیا۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور یہ تمام اشیاء بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں، انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ تمام اشیاء فوج کے ایک نوجوان کپتان کو ملی تھیں۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ بے نظیر بہت خوش تھیں ۔ کچھ دن بعد اسی الماری کے دوسرے دراز سے ہیرے کی انگوٹھیاں ملیں۔ صفدر نے دوبارہ وہی طریقہ کار اپنایا اور یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں۔
یہ تمام خصوصیات وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداران کے علم میں تھیں کہ نوجوان کیپٹن نہ صرف پیشہ ور انہ صلاحیتوں کا حامل افسر ہے بلکہ ایمان دار اور اعلیٰ اقدار کا مالک انسان بھی ہے۔ جلد ہی ان کے نگراں وزیر اعظم جتوئی سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ 24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف نے بحیثیت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
نئے وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ نوجوان کپتان نے فوج کے اہم پیشہ ورانہ تربیتی کورسسز پورے نہیں کیے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ انہیں سول سروسز میں بھیج دیا جائے۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم جسے چاہے سول سروسز میں بھیج سکتا ہے تاہم فوج کے اس مقصد کے لیے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔
نگران وزیر اعظم جتوئی نے چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ کو خط لکھا جس میں سفارش کی گئی کہ کیپٹن صفدر کو سول سروسز میں تعینا ت کیا جائے۔ 6 نومبر 1990 کو جس روز میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم جتوئی نے میاں نواز شریف کو کیپٹن صفدر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
” کیپٹن صفدر صرف میرے اے ڈی سی ہی نہیں بلکہ خاندان کے ایک فرد اور ایک بیٹے کی طرح ہیں۔ ”
تقریب حلف برداری کے بعد کیپٹن صفدر نے نئے وزیر اعظم سے اجازت مانگی کہ انہیں رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم کو خدا حافظ کہنے کے لیے کراچی جانے کی اجازت دی جائے۔ نئے وزیر اعظم کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب دارلحکومت میں ہر کوئی نئے وزیر اعظم کی قربت چاہ رہا ہے، یہ کیپٹن سابقہ نگران وزیر اعظم کو عزت سے روانہ کرنا چاہ رہاہے۔ کیپٹن صفدر نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
” میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کو خدا حافظ کہا اور انہیں جہاز میں کراچی تک چھوڑنے گیا۔ جتوئی صاحب اس غیر معمولی احترام پہ بہت خوش تھے۔ ”
واپس آکر کیپٹن صفدر نے اپنی ذمہ داریاں نئے ویر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی کی حیثیت سے نبھانا شروع کر دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے کیپٹن صفدر خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی نظروں میں بھی آئے۔ انہوں نے جلد ہی اس نوجوان اور وجیہہ صورت کپتان کو پسند کرنا شروع کردیا، جو بہت تابعدار تھا اور اپنی دیانت اور اقدار کے سبب مقبول تھا۔ ایک روز کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری سے یہ کہہ کر اپنے آبائی شہر مانسہرہ جانے کی چھٹی لی کہ ان کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسی روز جب وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو ان کے متعلق دریافت کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کے سبب چھٹی پر گئے ہیں۔
کیپٹن صفدر پہلی بار دو نوں خاندانوں کی گفتگو کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس روز گھر گیا ہوا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ میرے والد صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آپریٹر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بات کریں گے۔ انہوں نے میرے والد سے فون پہ گفتگو کی اور میری والدہ کی صحت کے متعلق بات چیت کی۔ ہم سب بہت حیران تھے کہ وزیر اعظم اپنے عملے سے کس قدر باخبر ہیں۔ اگلے روز بیگم کلثوم نواز نے فون کیا اور میری والدہ سے ان کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ ہمیں ان دونوں کا رویہ بہت پسند آیا کیونکہ یہ ان دونوں کی بہت مہربانی تھی۔
جون 1990 میں وزیر اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور آج کل کے خیبر پختونخوا کے ضلع ناران کی وادی کاغان کی جانب رواں تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پہ وجیہہ صورت کیپٹن صفدر براجمان تھے۔ اس روز گاڑی میں وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز بھی موجود تھیں۔ مانسہرہ سے گزرتے ہوئے اے ڈی سی وزیر اعظم اور خاتون اول کو علاقے کے متعلق آگاہ کررہے تھے کہ اچانک خاتون اول نے کہا۔
” یہ وادی کس قدر خوبصورت ہے۔ ”۔
”جی میڈم۔ یہ وادی بہت خوبصورت ہے۔ میرا بچپن اسی جگہ کھیل کود میں گزرا ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے بے تکلفی سے کہا۔
” اوہ واقعی، یہاں سے آپ کا گھر کتنا دور ہے؟ ” بیگم کلثوم نواز نے اشتیاق سے پوچھا۔
” میڈم، یہاں سے بہت قریب ہی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔
” تو پھر چلیے۔ ہمیں اپنا گھر دکھائیے۔ ” بیگم کلثوم نواز نے کہا اور وزیر اعظم نے بھی اپنی اہلیہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔
حاری ہے

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 3

اعزاز سید

”جی سر۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نرم روی سے جواب دیتے ہیں۔
” تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے؟ ”۔ نواز شریف صفدر کو مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ ریل گاڑی لاہور سے راولپنڈی کا سفر طے کررہی ہے۔
” سر۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی۔ ”۔ کیپٹن صفدر آہستگی سے کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر انہیں مطلع کریں۔
کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے۔ تم مت جاؤ۔
وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر اپنے والد کو فون کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگتے ہیں۔
” ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ ” ان کے والد اسحاق مسرور نے ان سے کہا۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں۔
” مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ بیگم کلثوم نواز نے اسٹاف کے عملے سے قمر زمان کو مانسہرہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں خاموشی سے پتہ کریں کہ میرا مزاج اور طور طریقہ اور ہمارے خاندان کا رہن سہن اور شہرت کیسی ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کے روکنے پہ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل گئی۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ 1992 کی گرمیوں میں کیپٹن صفدر اے ڈی سی وزیر اعظم اپنی ہفتہ وار چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کے والد66 سالہ اردو شاعر اسحاق مسرور جو کہ اپنی اہلیہ حاجرہ بی بی کے ہمراہ بیٹھے تھے نے اپنے بیٹے صفدر کو بلایا۔
”صفدر، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ مانگ رہا ہے۔ ”۔ اسحاق مسرور نے صفدر سے کہا۔
” میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے اباجی۔ آپ نے ایسا یہاں تو کہہ دیا لیکن کہیں اور مت کہیے گا میری نوکری چلی جائے گی۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو جواب دیا۔
” میں نے اپنی عمر گزاری ہے اور میں تجربہ کار ہوں۔ بیگم کلثوم نواز نے تمہاری والدہ حاجرہ بی بی کو فون کیا ہے اور تمہارا رشتہ مانگا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپ کا بیٹا چاہیے۔ ” باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
اس موقع پر جواں سال کیپٹن صفدر 28 سال کے تھے جبکہ مریم نواز نے 23 اکتوبر 1991 کو اپنی اٹھارہویں سالگرہ منائی تھی۔ دونوں کے مابین دس سال کا فرق تھا جو کہ قابل قبول تھا۔ کیپٹن صفدر سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ وجیہہ صورت کیپٹن سے اپنی ٹین ایج میں ضرور متاثر ہوں گی۔
اس کے بعد دونوں خاندانوں نے شادی کی تیاری شروع کردی اور مریم اور صفدر کی شادی 25 دسمبر 1992 کو نواز شریف کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔
کیاآپ کو توقع تھی کہ آپ کی شادی مریم نواز سے ہوگی؟ میں نے کیپٹن صفدر سے ایک سیدھا سوال پوچھا۔
” نہیں بالکل نہیں۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔ کیا آپ شادی سے پہلے مریم سے ملے تھے؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ ” وہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا تھا۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا۔ جولوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز( جنہیں اب وہ امی جان کہتے ہیں) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کرلیا۔
مترجم شوذب عسکری۔
بشکریہ تجزیات ڈاٹ کام۔

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 2

اعزاز سید

وزیر اعظم کا موٹر کاروان کیپٹن صفدر کے گھر کے قریب جا رکا۔ کیپٹن صفدر گاڑی سے نکل کر دوڑے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سے پہلے ہی اپنے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو اطلاع کریں کہ وی وی آئی پی مہمان آئے ہیں۔ ان کی والدہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئی تھیں۔ ان کے والد جو کہ مطالعہ کے شوقین اور اردو کے شاعر تھے، وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔
” ابا جان ، وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ آئے ہیں۔ ” یونیفارم میں ملبوس کیپٹن صفدر نے دس مرلے کے مکان میں واقع مطالعے کے کمرے میں موجود اپنے باپ کو حیران کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
اسحاق مسرور، جو کہ یوٹیلیٹی سٹور سے ریٹائرڈ ملازم تھے جلدی سے اپنے گھر سے باہر آئے۔ جلدی میں وہ کتاب رکھنا بھی بھول گئے جسے وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ان کی ایک انگلی ان دوصفحوں کے درمیان ہی تھی جہاں وہ پڑھتے ہوئے رکے تھے۔
کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو میاں صاحب اور ان کی اہلیہ سے تعارف کروایا۔ ان کے والد نے دونوں میاں بیوی کا استقبال کیا اور انہیں گھر لے جاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پہلے سے اطلاع کردیتے تو ان کے لئے باقاعدہ انتظامات کیے جاتے۔
گھر میں داخل ہوکر بیگم کلثوم نواز نے جائزہ لیا۔ مہمانوں کو برآمدے میں بٹھایا گیا۔ مہمانوں نے کیپٹن صفدر سے ان کی والدہ کا پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئی ہیں۔
پنجرے میں بند ایک خوبصورت طوطے پر خاتون اول کی نگاہ گئی تو وہ اس کے پاس چلی گئیں۔ کیپٹن صفدر نے بیگم کلثوم نواز کی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ یہ طوطا ان کی والدہ کا پالتو ہے اور یہ باتیں بھی کرتا ہے۔ ” میاں مٹھو، یہ بی بی جی ہیں۔ ” کیپٹن صفدر نے طوطے کو مخاطب کرکے کہا۔
جی بی بی جی۔ جی بی بی جی۔
طوطا رٹالگانے لگا۔ بیگم کلثوم نواز حیران رہ گئیں۔ وزیر اعظم بھی اپنے اے ڈی سی کے والد سے ملاقات پر خوش ہوئے۔ کیپٹن صفدر اپنے والدین کے چار بیٹوں میں تیسرے نمبر پہ ہیں۔ جبکہ ان کی کوئی بہن نہیں ہے۔ اتفاق یہ کہ جب وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں آئے تو کوئی بھی بھائی گھر پہ نہیں تھا۔
چونکہ ان کی والدہ بھی گھر پہ نہیں تھیں، لہذا وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں دس سے پندرہ منٹ رکے اور پھر وادی کاغان کی طرف اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔ وادی کاغان پہنچے تو وہاں میاں شہباز شریف بھی اپنے پروگرام کے مطابق پہلے سے موجود تھے۔ بیگم کلثوم نواز نے میاں شہباز شریف کو بتایا کہ وہ کیپٹن صفدر کے گھر رکے تھے۔

وزیر اعظم کے ساتھ روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کیپٹن صفدر نے جولائی 1990 میں سول سروسز کے ٹریننگ پروگرام کا خط وصول کیا جس میں انہیں ضلعی انتظامیہ کے اٹھارہویں کامن کورس میں شرکت کا کہا گیا۔
صفدر نے اپنے افسران بالا بشمول وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ اب یہاں سے روانہ ہوں گے اور سول سروسز میں شامل ہوں گے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرےساتھ یہیں ڈیوٹی کرو۔ صفدر ر ک گئے اور ایسے انتظامات کر لیے کہ وہ آئندہ سال یہ ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ان کا فوجی کیریر ختم ہورہا تھا اور یہ وقت فوج سے سول ادارے میں منتقل ہونے کا وقت تھا۔ تاہم وہ ابھی تک وزیر اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
صفدر نے وزیر اعظم کے ساتھ ذمہ داری جاری رکھی۔ وزیر اعظم کے چاروں بچوں بشمول سب سے بڑی بیٹی مریم اس جوان سال وجیہہ صورت کیپٹن کو وزیر اعظم ہاؤس میں دیکھتے تھے۔ ایک سال گزر گیا اور جواں سال کیپٹن کی سول سروسز ٹریننگ کا مرحلہ دوبارہ آن پہنچا تو اس نے ایک پھر وزیر اعظم کو اپنی روانگی کا بتایا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ براستہ ٹرین لاہور جارہے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنے ڈبے میں تھے جب عملے نے انہیں بتایا کہ انہیں وزیراعظم نے طلب کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے ڈبےمیں آتے ہیں۔ اپنے ڈبے میں وزیراعظم اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور بزرگ گھریلو خدمتگار صوفی بیگ کے ہمراہ ہیں۔
وزیر اعظم انہیں بیٹھ جانے کو کہتے ہیں۔ صفدر بیٹھ جاتے ہیں تو کلثوم نواز انہیں میز پر رکھی ٹوکری سے پھل کھانے کا کہتی ہیں۔ صفدر احترام سے نہ کرتے ہیں۔
”کیا تم ہمیں چھوڑ رہے ہو؟ ” نواز شریف پوچھتے ہیں۔
جاری ہے