ہفتہ، 25 اپریل، 2020

ایک شخص ایک کہانی



اکبر بادشاہ نے اپنے مشیر با تدبیر سے فرمائش کی کی وہ 6 دنوں میں اس کے لیے ایک تصویر بنا کر دے ۔ بیربل نے 6 دنوں میں مطلوبہ تصویر بنا کر بادشاہ کے حضور پیش کردی ۔ بادشاہ نے اپنے دوسرے مشیروں کو بلایا اور کہا کی وہ اس تصویر کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ سب مشیروں نے تصویر پر پنسل سے ایک ایک نقطہ لگایا اور بادشاہ کو بتایا کہ تصویر اس مقام سے ناقص ہے ۔ بیربل ، کہ انسانی نفسیات کا ماہر تھا ، نے بادشاہ کے سامنے سب مشیروں کو دعوت دی کہ وہ ایسی تصویر بنا کر دکھائیں جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ بیر بل کا یہ چیلنج کوئی ایک مشیر بھی قبول نہ 
کرسکا ۔ اکبر بادشاہ نے ڈوبتی ہوئی نظرون سے سب کو دیکھا اور کہا  " نقطہ چین  " ۔
   

یہ قصہ 
Promod Betra
نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ نقطہ چینی دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مودودہ دور میں ہر وہ شخص نکتہ چینی کی زد میں ہے ۔ جو معاشرے کو کوئی تصویر بنا کر دکھاتا ہے۔ تصویر پر پنسل سے نہیں بلکہ تنقیدی مارکر سے موٹے موٹے نشان لگائے جاتے ہیں۔ کوئی ایک شخص بھی مگر مطلوبہ تصیر بنانے کے لیے میدان عمل میں نہیں اتا۔ 
معاشرہ ایک مشین کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر پرزے کو انفرادی طور پر اپنا اپنا کام خوش اسلوبی سے کرنا ہوتا ہے۔
اپنی منزل کا انتخاب اور راہ کا چناو فرد کا سب سے بڑا اخلاص ہوا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی منازل کا تعین کر لیا ہوتا ہےوہ اس تک پہنچنے کے لیے راہ کا انتخاب بھی خود کیا کرتے ہیں۔رستے میں آنے والی رکاوٹوں اور تنقید سے دل برداشتہ نہیں ہوا کرتے۔ 
کامیاب لوگوں کی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ جاوید مثالیں موجود ہیں جنھوں نے اپنی منزل کا تعین کیا ۔ چل پڑے ، راہ کے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچا کر رکھا اور کامیاب ہوئے۔
ہمارے بنکاری کے شعبے میں ، تعمیرات کے شعبے میں ، سائنس کے شعبے میں، تعلیم کے شعبے میں ،انسانی خدمت کے شعبے میں ، سیاست میں ، ، مذہب میں ہر طرف کامیاب لوگوں کی مثالیں موجود  ہیں تازہ  ترین واقعات میں عزت ماب فیصل ایدہی کو لوگوں نے تنقید کے لیے چنا ۔ لیکن ناقدین کی تنقید کے کانٹوں سے دل برداشہ ہوا نہ فیصل نے اپنی منزل کی راہ چھوری۔ حال ہی کی دوسری مثال تبلیغی جماعت کے مولوی طارق جمیل صاحب کی ہے۔ اس شخص پر تنقید کی بارش شروع ہوئی تو خیال تھا کہ یہ بارش اولوں میں بدلے گی  مگر آپ نے محسوس کیا ہو گا اس نے معافی مانگ کر مطلع ہی کو صاف   
  کر دیا۔ مثالوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے مگر ہم نے جو سبق کشید کیا یہ ہے کہ  با منزل لوگ راہ کے کانٹوں سے
االجھ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کیا کرتے۔ ہمارے ہان ایسی سوچ اجنبی ہے۔مگر کامیابی کا راستہ مصالحانہ طرز عمل ہی بنتا ہے۔ 
کسی عقلمند نے کہا ہے کہ برے حالات کبھی بھی نہیں سدہرتے مگر مضبوط لوگ برے حالات میں بھی اپنا رستہ نہیں چھوڑتے۔ ہنری ٹرومیں نے ایک بار کہا تھا " اگر آپ جل جانے سے خوف زدہ ہیں تو آپ کو کچن سے باہر آ جانا چاہیے " ۔
ہم اہک پچھڑے معاشرے کے باسی ہیں ۔ یہاں جو کوئی بھی اپنی منزل رکھتا ہے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔عمران خان پر کیا کم تنقید ہوتی ہے، نواز شریف پر کیا کم بہتان لگتے ہیں لیکن نظر نہیں آتا کہ تنقید نے انھیں بددل یا مایوس کر دیا ہو۔ 
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لوگ انھیں ذہین، عقلمنداور حالات سے لڑنے والا سمجھیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا لوگ انھیں بے وقوف کہیں مگر صاحبان فراست افراد ہون کہ معاشرے ان کی نظر منزل پر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ راہ کے کانٹون سے الجھتے نہیں ہیں۔ دامن بچا کر اپنی منزل کی طرف روان دواں رہتے ہیں۔  یہ ایک حقیقت ہے جو افراد معاشرون اور ملکوں تک کے لیے سچ ثابت ہوتی آئی ہے۔

اتوار، 12 اپریل، 2020

نیا رونا



پرانے زمانے میں دولت مند بننے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کیا کرتے تھے۔ جو یہ کام نہیں کر پاتے تھے وہ اپنے اباو اجداد کی زمین بیچ کر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ قیمتی چیز جس سے انسان واقف تھا وہ سونا ہی تھا۔ اس دور میں سب سے زیادہ  دولت ان حکیموں نے کمائی جو خود تو سونا نہیں بناتے تھے مگر سونا بنانے کے نسخے اپنے شاگردوں کو بتایا کرتے تھے۔ جب دنیا کے ایک کونے میں لوگ لوہے سے سونا بنانے میں مصروف تھے تو دنیا کے ایک دوسرے کونے میں انسان نے پہیہ بنا کر لوہے کو مشین میں تبدیل کرلیا۔ ان ہنر مندوں نے سونے سے بھی زیادہ دولت کما لی۔ یہ فن اس قدر مقبول ہوا کہ زمینداری کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چند معاشروں نے پیداواری اجارہ داریاں قائم کر لیں۔ اور بیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے یہ اجارہ داریاں انفرادی سطح پرآ گئیں۔اس وقت دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی آمدن بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ جب مقابلہ بازی انفرادی سطح  پر آتی ہے تو اس میں چال بازی بھی آ جاتی ہیں۔ منظم معاشرے ان چالبازیوں کو روکنے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ معاشرے ان اداروں سمیت ایک دوسرے سے چالبازیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
ایک وقت تھا انسان ریت پر ننگے چلا کرتا تھا۔ وہ گرمی تکلیف دہ ہوا کرتی تھی مگر انسان اسے برداشت کر لیا کرتا تھا۔ گرم لوہے پر پاوٗں اٹکانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ گرم لوہے کو پکڑنے کے لیے سنی وجود میں لائی گئی۔ اس سادہ سے اوزار نے جب روبوٹ کا روپ دہارا تو لوہے کی تپش تین ہزار سنٹی گریٹ تک جا پہنچی۔ ٹیکنالوجی کا کمال یہ رہا کہ اس تپش میں بھی لوہا، لوہا ہی رہتا ہے۔ بھاپ بن کر اڑتا ہے نہ بے قابو ہو کر بہتا ہے۔ مگر یہ لوہا وہ دہات نہیں ہے جس سے گندم کاٹنے والی درانتی بنائی جاتی تھی۔ یہ ایسا لوہا ہے جس میں بھانت بھانت کی دہاتیں اور رنگ دار اور بے رنگ کیمیکل شامل ہوتے ہیں۔ 
بے رنگ کیمیکل بالکل ہی بے رنگ نہیں ہوا کرتے۔ بعض اوقات تو وہ ایسا ایسا رنگ دکھاتے ہیں کہ انسان ماسک میں منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتا ہے، دولت کی ہوس انسان کو  قرنطینیہ  بھگتنے پر مجبور کردیتی ہے۔
کچھ باتیں قدرتی طور پر سب لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں، اچھائی کیا ہے اس کی تعریف مختلف  معاشروں میں مختلف ہو سکتی ہے مگر ہر انسان جانتا ہے کہ اچھائی وہی ہے جو دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانی لائے۔ آسانیاں بانٹنے ولا ہی سکھی رہ سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں مشکلات بیچ کر کوئی سکھی رہ سکے۔ یہ بات اگر فرد کے لیے درست ہے تو غلط معاشروں اور ملکوں کے لیے بھی نہیں ہے۔

جمعہ، 10 اپریل، 2020

یاد تو کر



اپنے وقت کے بڑے مقرر اور مذہبی رہنماء  سپر جین  
(Charles H. Spurgeeon 1834-1892) 
کا ایک قول ہے کہ  جو لوگ جلدی سے وعدے کرلیتے ہیں  وہ عام طور پر ان وعدوں کو پورا کرنے میں بہت سست ہوتے ہیں۔  وعدہ ایک سنجیدہ عمل ہے ۔ ذمہ دار انسان وعدہ کرنے سے پہلے سوچے گا کہ میں وعدہ پورا کر بھی سکوں گا یا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ عام طور پر وعدہ وہی کیا جاتا ہے جس کو پورا کرنے کی انسان میں صلاحیت موجود ہو۔البتہ کچھ لوگ وعدہ پورا کرنے کا مزاج ہی نہیں رکھتے، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان سے جو الفاظ نکال رہے ہیں ان کو پورا کرنے کی ان میں اہلیت ہی نہیں ہے ۔ ایسے لوگ فورآ وعدہ کر لیتے ہیں۔ وہ اس بات کا خیال ہی نہیں رکھتے کہ وہ یہ وعدہ کن الفاظ میں اور کن سے کر رہے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے پانچویں دن کی اصطلاح دریافت کی تھی۔ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی طرف تھا  جو  اردو ادب میں روز اول سے ہی بے وفا اور وعدہ شکن رہا ہے۔
 گلہ دراصل اس رہنماء سے ہے جس نے بھوکی بھیڑوں کو سبزے کے کھیت دکھائے تھے۔ جس نے بے گناہ جیلوں میں بند انسان نما مخلوق کو انصاف کی امید دلائی تھی۔ جس نے تقسیم در تقسیم معاشرے میں ایک پاکستان کی بات کی تھی۔ جس نے دولت کے نشے میں دہت وڈیروں کی غلامی سے نجات کے لیے میرٹ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ جس کی تقریر خدا کی عبادت کی نیت اور اس کی نصرت کی دعا سے شروع ہوتی تھی اور وہ عمر بن خطاب کے دور کے واقعات سنا کر ریاست مدینہ کا خواب دکھایا کرتا تھا۔
 بقول گلزار    عادتآ تم نے کر دیے وعدے   
تو ہم نے ان وعدوں پر اس لیے اعتبار کیا کہ ان وعدوں میں امید کی کرن دکھائی دیتی تھی۔اس قوم میں بچہ پید ہوتا ہے اور ذہنی بلوغ تک پہنچنے سے پہلے وہ دریافت کر لیتا ہے کہ اس کے والدین، اس کا خاندان، اس کا معاشرہ اس سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ مگر تم نے تو ان سے کہا تھا   وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
 اسی لیے    عادتآ ہم نے اعتبار کیا  
 کسی نے کہا تھا وعدے    قران اور حدیث نہیں ہوا کرتے   اب تم بھی کہتے ہو    کہیں وعدے بھی نبھانے کے لیے ہوتے ہیں    
 ہم تو ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ہم سلیقے سے نا بلد ہیں۔ہم ذہنی غلام ہیں۔ ہم بے ہنگم بھیڑ ہیں۔ ہم تو جھوٹے ہیں مگر اس ملک میں جہاں آپ نے اپنے بچوں کو اس لیے رکھا ہوا ہے کہ ان کی تربیت سچے لوگوں میں ہو۔ ان ہی میں سے ایک سچے نے دنیا  کے مشاہیر کی فہرست مرتب کی تھی۔ اور جس کو پہلے درجے کا صادق اور امین کہا تھا۔ ان ہی صادق و امین کا قول ہم تک پہنچا ہے کہ ہم جاہل اور ان پڑھ سہی مگر ان کے
    رب کے کنبے  کا حصہ ہیں۔
 عمران خان !!! 
تیری مجبوریاں درست مگر ۔۔  تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

ہفتہ، 4 اپریل، 2020

سکون صرف قبر میں ہے



   ڈیڑھ ارب ہو کر بھی مسلمان ابابیلوں کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور اسی لاکھ اسرائیلیوں سے ہماری جان چھڑائیں۔ خدا کی قسم آج اگر ابابیل آئیں بھی تو کنکر یہودیوں کو نہیں مسلمانوں کو ماریں گی    یہ جملہ کہنے والے نجم الدین اربکان (1926-2011) سکون پا چکے مگر بے سکونوں نے ابابیل دیکھ لیے البتہ ان کی  چونچ اور پنجوں میں کنکر نہیں تھے۔ ابابیل آئے انھوں نے اللہ کے گھر کے گرد چکر لگائے۔ ایمان والوں نے اس کی ویڈیوبنائی اور یہ ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل رہی۔ کچھ ٹی وی چینل نے بھی اس منظر کو دکھا کر اہل ایمان کا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔
  اہل ایمان کا ذکر آئے تو چند معلوم اور بے شمار نامعلوم شخصیات کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ پھر ان سب کے سرخیل کا نام مبارک ذہن میں آتا ہے۔ تو بطور مسلمان اپنا سر اپنے ہی سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ ارب میں سے اکثر  کے سر اپنے ہی سامنے جھکے ہوئے ہیں۔    اکثر    کے علاوہ  بھی مگرسارے ہی سرجھکے ہوئے ہیں۔ سر اسی کے سامنے جھکتا ہے جو بر تر ہو۔ 
برتری کی معلوم تاریخ میں پہلا نام خود آدم کا ہے۔ اس گناہ گار نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اعتراف کا اعجاز ہے کہ خود شناسی کی پہچان کراتا ہے    جو خود شناس نہیں ہے وہ حقیقت شناس نہیں ہے   ۔ 
  
اس لسٹ میں ایک نام ابراہیم بن آزر کا ہے جو اتنا صاحب ثروت تھا کہ مال و مویشی کی حفاطت کے لیے ساٹھ ہزار سے زیادہ ملازمین رکھتا تھا۔مگر   فضول خرچ تھا نہ اپنی دولت پر اتراتا تھا    اس کے توکل کا عالم دنیا جانتی ہے  اور معلوم رہے    خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے  
یونس بن متی بھی اسی قبیل سے تھا، ایسے الفاظ سے توبہ کی جو صبح قیامت تک ریکارڈ رکھے جائیں گے کیونکہ   خدا توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
ایوب کا صبر تو زمانے میں ضرب المثال ہے۔ اسی لیے خدا اس سے محبت کرتا ہے اور اعلان عام ہے   خد ا  صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے  
مصر کے عزیز کے مشیر اعلی اوروزیریوسف کا نام تب سے اب تک لیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی پاکیزگی کی حفاطت کر کے وہ مثال چھوڑی ہے کہ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب میں لکھ دیا گیا   خدا پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے  
داود  نام مگر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یکساں مقدس ہے۔ وجہ اس کی عادل ہونا ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان کے کیے ہوئے فیصلے اج بھی ججوں کے لیے مشعل راہ ہیں مگر    خدا انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے   
کائنات کے خالق نے وہ صفات گن کربتا دی ہیں کہ انسان خود میں پیدا کر لے تو وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ 
مائیکل ہارٹ (پیدایش 1932)  نے اپنی کتاب  The 100 - A ranking of The Most 
ٰInfluential Person in History  اور  برطانوی تاریخ دان تھامس کالائل  (1795 -1881)  نے اپنی کتاب  On Heros, Hero Worship, and The Heroic in History 
میں جس شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے، اور مسلمان جنھیں خدا کا بھیجاہوا پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی زندگی میں وہ ساری ہی صفات موجود تھیں جن صفات کے حامل سے خدا محبت کرتا ہے۔
اسی نبی ورسول کی زبان سے کہلایا گیا:
   کہہ دو ،  اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی کرو، خدا تم سے محبت کرے گا  
بے شک خدا جن سے محبت کرتا ہے، ان کی حفاطت کے لیے ابابیلیں بھیجتا ہے اگر وہ قلت میں ہوں۔ جیسے عبدالمظلب اور ان کا گروہ  
یہ وہی خدا ہے جس کے نبی کے بے عمل پیروکاروں نے کہا تھا ہم کمزور ہیں ہماری طرف سے عمل ٓپ اور ٓپ کا خدا کریں۔
با عمل 313 ہی ہوں تو خدا ابابیلیں نہیں فرشتے بھیجتا ہے۔ 
ڈیڑھ ارب تو موجود ہیں مگر انھیں سکون چاہیے۔ کہنے والے نے یہ کہہ کر تاریخ رقم کر دی کہ    سکون تو صرف قبر میں ہے   
   آخر دعا کرین بھی تو کس مدعا کے ساتھ
    کیسے زمین کی بات کہیں آسمان سے ہم   (احمد ندیم قاسمی)