Nawaz sharif لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Nawaz sharif لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 25 اپریل، 2020

ایک شخص ایک کہانی



اکبر بادشاہ نے اپنے مشیر با تدبیر سے فرمائش کی کی وہ 6 دنوں میں اس کے لیے ایک تصویر بنا کر دے ۔ بیربل نے 6 دنوں میں مطلوبہ تصویر بنا کر بادشاہ کے حضور پیش کردی ۔ بادشاہ نے اپنے دوسرے مشیروں کو بلایا اور کہا کی وہ اس تصویر کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ سب مشیروں نے تصویر پر پنسل سے ایک ایک نقطہ لگایا اور بادشاہ کو بتایا کہ تصویر اس مقام سے ناقص ہے ۔ بیربل ، کہ انسانی نفسیات کا ماہر تھا ، نے بادشاہ کے سامنے سب مشیروں کو دعوت دی کہ وہ ایسی تصویر بنا کر دکھائیں جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ بیر بل کا یہ چیلنج کوئی ایک مشیر بھی قبول نہ 
کرسکا ۔ اکبر بادشاہ نے ڈوبتی ہوئی نظرون سے سب کو دیکھا اور کہا  " نقطہ چین  " ۔
   

یہ قصہ 
Promod Betra
نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ نقطہ چینی دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مودودہ دور میں ہر وہ شخص نکتہ چینی کی زد میں ہے ۔ جو معاشرے کو کوئی تصویر بنا کر دکھاتا ہے۔ تصویر پر پنسل سے نہیں بلکہ تنقیدی مارکر سے موٹے موٹے نشان لگائے جاتے ہیں۔ کوئی ایک شخص بھی مگر مطلوبہ تصیر بنانے کے لیے میدان عمل میں نہیں اتا۔ 
معاشرہ ایک مشین کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر پرزے کو انفرادی طور پر اپنا اپنا کام خوش اسلوبی سے کرنا ہوتا ہے۔
اپنی منزل کا انتخاب اور راہ کا چناو فرد کا سب سے بڑا اخلاص ہوا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی منازل کا تعین کر لیا ہوتا ہےوہ اس تک پہنچنے کے لیے راہ کا انتخاب بھی خود کیا کرتے ہیں۔رستے میں آنے والی رکاوٹوں اور تنقید سے دل برداشتہ نہیں ہوا کرتے۔ 
کامیاب لوگوں کی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ جاوید مثالیں موجود ہیں جنھوں نے اپنی منزل کا تعین کیا ۔ چل پڑے ، راہ کے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچا کر رکھا اور کامیاب ہوئے۔
ہمارے بنکاری کے شعبے میں ، تعمیرات کے شعبے میں ، سائنس کے شعبے میں، تعلیم کے شعبے میں ،انسانی خدمت کے شعبے میں ، سیاست میں ، ، مذہب میں ہر طرف کامیاب لوگوں کی مثالیں موجود  ہیں تازہ  ترین واقعات میں عزت ماب فیصل ایدہی کو لوگوں نے تنقید کے لیے چنا ۔ لیکن ناقدین کی تنقید کے کانٹوں سے دل برداشہ ہوا نہ فیصل نے اپنی منزل کی راہ چھوری۔ حال ہی کی دوسری مثال تبلیغی جماعت کے مولوی طارق جمیل صاحب کی ہے۔ اس شخص پر تنقید کی بارش شروع ہوئی تو خیال تھا کہ یہ بارش اولوں میں بدلے گی  مگر آپ نے محسوس کیا ہو گا اس نے معافی مانگ کر مطلع ہی کو صاف   
  کر دیا۔ مثالوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے مگر ہم نے جو سبق کشید کیا یہ ہے کہ  با منزل لوگ راہ کے کانٹوں سے
االجھ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کیا کرتے۔ ہمارے ہان ایسی سوچ اجنبی ہے۔مگر کامیابی کا راستہ مصالحانہ طرز عمل ہی بنتا ہے۔ 
کسی عقلمند نے کہا ہے کہ برے حالات کبھی بھی نہیں سدہرتے مگر مضبوط لوگ برے حالات میں بھی اپنا رستہ نہیں چھوڑتے۔ ہنری ٹرومیں نے ایک بار کہا تھا " اگر آپ جل جانے سے خوف زدہ ہیں تو آپ کو کچن سے باہر آ جانا چاہیے " ۔
ہم اہک پچھڑے معاشرے کے باسی ہیں ۔ یہاں جو کوئی بھی اپنی منزل رکھتا ہے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔عمران خان پر کیا کم تنقید ہوتی ہے، نواز شریف پر کیا کم بہتان لگتے ہیں لیکن نظر نہیں آتا کہ تنقید نے انھیں بددل یا مایوس کر دیا ہو۔ 
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لوگ انھیں ذہین، عقلمنداور حالات سے لڑنے والا سمجھیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا لوگ انھیں بے وقوف کہیں مگر صاحبان فراست افراد ہون کہ معاشرے ان کی نظر منزل پر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ راہ کے کانٹون سے الجھتے نہیں ہیں۔ دامن بچا کر اپنی منزل کی طرف روان دواں رہتے ہیں۔  یہ ایک حقیقت ہے جو افراد معاشرون اور ملکوں تک کے لیے سچ ثابت ہوتی آئی ہے۔

پیر، 7 مئی، 2018

تیرے میرے خواب


                                

کہا جاتا ہے ساون کے اندھے کو ہریالی ہی نظر آتی ہے ۔ اس ایک جملے میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت کو بیان کر دیا گیا ہے۔خواب کا تعلق انسان کے طرز معاشرت اور اس کے علم سے جڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھنا یا سیدنا یوسف علیہ السلام کا گیارہ ستارون اور چاندو سورج کو سجدہ ریز دیکھنا۔
طرز معاشرت کی وضاحت ان دو غلاموں کے خواب سے ہوتی ہے جو سید نا یوسف علیہ السلام کے ساتھ قیدخانہ میں تھے ۔ ایک بادشاہ کا ساقی تھا اس نے خواب میں خود کو رس نچوڑ کر بادشاہ کو پیش کرتے دیکھا تو بادشاہ کے باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں۔
انسان کا ذہن جن معاملات کے بارے مین فکر مند ہوتا ہے ، اس کو نیند میں خواب بھی ان ہی معاملات کے متعلق نظر
آتے ہیں مثال کے طور پر مصر کے ایک بادشاہ نے خواب میں سات دبلی اور سات موٹی گائیں دیکھی تھیں۔ موجودہ دور میں ایک شخصیت نے اپنے خوابوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ ان سے رہائش و طعام و سفر کے اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
درپیش مہمات بارے خواب دیکھنے کی مثال نبی اکرم ﷺ کا جنگ بدر سے قبل دشمنوں کی تعداد بارے خواب ہے یا ہجرت نبوی ﷺ کے پانچویں سال میں آپ ﷺ کا یہ خواب کہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ ادا فرما رہے ہیں اور اطمینان سے حرم شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔جن دنوں نماز کی دعوت کے طریقوں پر غور ہو رہا تھا تو ایک صحابی رسول ﷺ نے اذان خواب میں دیکھی تھی۔
کتابوں مین مذکور ہے کہ الیاس ہاوی ، جس نے سلائی مشین بنائی تھی، دن رات اس کے ڈیزائن ذہن میں بنایا کرتا تھا تو ایک دن اس نے مکمل ڈیزائن خواب میں دیکھ لیا۔بابل کے نامور بادشاہ بنو کد نصر نے بھی آنے والے وقت میں حکمرانی کا عروج و زوال بھی خواب میں ہی دیکھا تھا۔ موجودہ دور میں ایک خواب کا چرچا رہا جس میں ایک روحانی عالمہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایک سیاسی شخصیت سے شادی کر لی تھی ۔ اور وجہ عالم رویا میں نظر آنے والا خواب بیان کیا گیا تھا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ کو نارول میں ۶ مئی والے دن گولی مار کر زخمی کرنے والے عابد نامی ملزم نے بھی اس جرم کی ہدائت ایک خواب کے ذریعے پائی تھی۔
خوابوں دیکھنا ، خواب دکھانا اور خواب کو سچ کر دکھانا ، تین مختلف قسم کے اعمال ہیں ۔ خواب ہر بینا شخص دیکھتا ہے، خواب دکھانا رہنمائی کے دعویداروں کا شغل ہے مگر خوابوں کو سچا کر دکھانا اصحاب کمال کا کام ہوتا ہے ۔
مادر زاد اندھا خواب نہیں دیکھتا، سچے خواب رحمان کی طرف سے مگر جھوٹے خواب دکھانا شیطان کا شیوہ ہے ، باکمال لوگ اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھالتے ہیں ۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر باکمال پر سنگ باری لازمی ہوئی ہے

جمعہ، 9 مارچ، 2018

خاکہ

1970
 کے الیکشن کا زمانہ تھا ۔ لاہور سے اٹھی پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے سپوت ذولفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا۔نعرہ ان کا ْ روٹی، کپڑا اور مکان ْ کا تھا ۔ بھوک ، نا انصافی، جاگیرداروں اور غاصب حکمرانوں سے مایوس عوام نے سکھ کا سانس لیا۔بھٹو نے حلقے میں کھمبے کو ووٹ دینے کا کہا تو لوگوں نے دیا۔کھمباکیا ہوتا ہے؟ راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے، مقدمہ ان کے پاس کوئی نہیں،بھٹو کی پارٹی جائن کی اور ایم این اے بن گئے۔پہلے وزیر بے محکمہ پھر ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے۔پہلی بار ہم نے اخباروں میں پڑہا کہ ریلوے کا پورا انجن کیسے غائب ہوتا ہے۔بھٹو البتہ امین تھے۔کیا سیاستدان صادق ہو سکتا ہے ۔ اس موضوع پر فتویٰ لال حویلی ولے شیخ کا حق ہے۔
بھٹو کی مقبولیت کم نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا الیکشن بھی جیت گئے تھے۔ چاند صورت ،بھٹو کے خلاف پہلے نو ،پھر گیارہ ستارے چنے گئے۔ اصغر خان بھٹو کے مخالف تھے، جیسے عمران خان نواز شریف کے مخالف ہیں۔عوام نے روز روز کے جلوسوں سے تنگ آ کر راولپنڈی میں بینر لگایا ْ خلقت مٹ جائے گی تو انصاف کرو گے ْ ۔ عوام کے ساتھ انصاف ہوا ۔بھٹو پھانسی کے پھندے پرجھول گئے۔عوام کے نصیب میں جنرل ضیا ء آئے۔کسی نے انھیں بطل اسلام کہا، کسی نے امیر المومنین جانا،کسی نے فلم سٹار کی آنکھوں کو لے کر ان پر طنز کیا مگر تقدیر کے سامنے سب ہار گئے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر صحن میں دفن ہیں۔
بھٹو کی بیٹی بے نظیر آئی، نواز شریف نے ان کی ٹانگ کھینچی، شور شرابہ ہوا اور نوز شریف حکمران چن لیے گئے۔ان کو ایک اور بطل نڈر جنرل مشرف نے چلتا کیا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جس دن جنرل مشرف نے پیارے ہم وطنوں کو مخاطب کیاتو دوسرے دن نوجوان گل محمد مسکراتا میرے پاس آیا
ْ آپ نے تقریر سنی ْ 
میری بد قسمتی کہ میں تقریر نہ سن پایا تھا۔نوجوان کی خوشی دیکھ کر میں نے اسے کریدا 
ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ 
جنرل مشرف کے صیح یا غلط ہونے پر صفحات بھرے پڑے ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ ہماری تلاش ْ صیح آدمیْ کی ہے۔مطلوب صیح آدمی کی جو صفات ہمارے ذہن میں رچ بس گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ عمر بن خطاب کی طرح اپنے کرتے میں سترہ پیوند سجائے ہو، یقین اس کا ابوبکر کی طرح مضبوط ہو، شجاع علی المرتضی جیسا ہو، حق گوئی میں حسین ابن علی کے ہم پلہ ہو، خالدبن ولید جیسا فاتح ہو، رات کو عبادت میں کھڑا ہو یا عوام کی پہرے داری کرے اور دن کو انصاف کا بول بالا کرے۔
ہم چند دوست مل کر اپنے مطلوب رہنماء کا خاکہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مشق میں سالوں بیت گئے مگر خاکہ بن نہیں پا رہا۔ ایک دوست نے خاکہ بنایا تھا بالکل قائداعظم کی طرح تھامگر دوسرے دوست نے اس خاکے کو شلوار قیض پہنا دی، تیسرے نے داڑھی بنا دی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
ہم پانچ لوگ کسی خاکے پر متفق نہیں ہو پارہے ہیں۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ آپ بھی ایک خاکہ بنائیں ، اپنے دوستوں کی رائے لیں ۔ اگر آپ پانچ لوگ بھی کسی خاکے پر متفق ہو جاتے ہیں تو آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

پیر، 5 مارچ، 2018

بھٹو زندہ ہے


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ عوام اور مبصرین کی توقع کے مطابق ہی آیا ہے۔ پنجاب سے چوہدری سرور کی کامیابی بہر حال پی ٹی آٗئی کی بجائے ذاتی کہی جائے تو شائد مبالغہ نہ ہو۔ ایک کامیابی بعض اوقات بہت سی ناکامیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی ہے۔ چوہدری سرور برطانوی شہریت کے باوجود پنجاب کی سیاست کو اپنے لیڈر سے بہتر منظم کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہے بلکہ وہ ارائیں ازم کی بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کر چکے۔ جادو کی نسبت سائنس معجزہ ثابت ہو چکی۔ کپتان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنا پروگرام اور بیانیہ دینے میں ناکام ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ْ بے ووٹ ْ ہجوم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھانت متی کے کنبے کے افراد عمران خان کا گھیراو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ، حالانکہ وقت گذر چکا ہے ، سوچنا چاہیے کہ اس کے نظریاتی کارکنوں کو آخر شکوہ کیا ہے ۔ جرنیل سپاہیوں کے بل بوتے پر جنگ جیتتا ہے ۔ اور سپاہیوں کا یہ گلہ بے جا نہیں ہے کہ ْ چوری کھانے والے رانجھے ْ جسم کا ماس کاٹ کر نہیں دیا کرتے۔ مولانا سمیع الحق بارے کپتان کا فیصلہ اس کی پارٹی نے نا پسند کیا ہے اور پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنا مقام بنانے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں محنت کرنا ہو گی۔ سینٹ کے الیکشن سے فوری قبل نادیدہ قوتوں اور مہروں کا کردار عوام کو پسند آیا نہ جمہوریت ہی کو اس سے کوئی فائدہ ہوا۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے سب یہ کوشش تھی کہ کمر کے درد کا مریض تین تلوار پر کھڑا ہو کر مکہ لہرا کر کہہ سکے کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے جو سفر طے کیا ہے اس میں خونی قربانیاں شامل ہیں۔ قربانی قبولیت کا مقام نہ بھی حاصل کرے مگر قربانی کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔مکہ بازکی بیماری ختم ہوتی نظر نہیں ٓتی۔
اس الیکشن کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا پیر مذکر ہی نہیں جادو کی کاٹ کا بھی ماہر ہے۔ حالانکہ نواز شریف وزیراعظم ہاوس میں اونٹوں کی قربانی کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے سہارا دیا ہے۔ کل وقتی قائد مسلم لیگ کو نواز کر کس کو کیا حاصل ہوا ہے ۔ کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔ بیان باز بابے بھی انگشت بدنداں کی کیفیت میں ہیں۔ مگر شہباز شریف کو چوہدری سرور واقعی لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔
زرداری کی پیپلز پارٹی نے کرامت یہ دکھائی ہے کہ ایک غریب ، عورت، ہندو کو سینٹ کا ممبر بنوایا ہے ۔ لگتا ہے بلاول بھٹو زرداری میں بھٹو متحرک ہوا ہے یا واقعی ذولفقار علی بھٹو زندہ ہے۔ سنا کرتے تھے کہ جن لوگوں کو ناحق قتل کیا جاتا ہے ان کی روح زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ؟

ہفتہ، 24 فروری، 2018

اتھرا جن


تماشہ دیکھنے والوں میں بھی شامل تھا ۔ عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، عامل نے تماشائیوں پر نظر ڈالی اور کہا ْ خونی رشتہ دارباہر جائیںْ اور اپنے عمل میں محو ہو گیا۔ پھر ہم نے کانپتے لہجے میں دھمکی سنی ْ اس کی جان لے لوں گا ْ میں نے دل ہی دل میں عامل کی فراست کی داد دی جس نے ماں کو باہر نکال دیا تھا ورنہ ْ جن ْ کی یہ دھمکی ماں کا کلیجہ ہی چیر دیتی۔آ

ماں کا رشتہ رحمت کا استعارہ ہے۔ پاکستان میں تحریک بحالی عدلیہ، جو عوام نے ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے شروع کر رکھی تھی۔ اس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کی ْ ماں جیسی دھرتی ْ بہت مقبول ہوئی تھی۔ماں کا لفظ ہی ایسا ہے کہ اس پر جوان گرم انسانی خون قربان ہو جاتا ہے۔ اور گھر کی حفاظت کے جذبے کو جوان رکھنے کے لیے ْ دھرتی ماں ْ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

۱۹۷۰ کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو اس پر کفر کے فتووں کے باوجود عوام نے ووٹ روٹی ، کپڑے اور مکان ہی کو دیا تھا کہ انسان کی فطری ضروریات ہیں،۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ خدا سے زیادہ بھوک سے ڈرتے ہیں تو جواب آیا تھا پہلے بھوک ہی ختم کر لو۔

جب بھٹو نے دوبارہ الیکشن جیت لیا تو پاکستان میں ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا کہ یہ تو مطلق العنانی کی طرف جا رہا ہے۔ عامل جو آیا کتاب اس کی بغل میں تھی۔سایہ اتارنے میں دس سال لگ گئے ۔ مگر معاشرہ ایسا تقسیم ہوا کہ ہر مرض نظر آتی بیماری کا علاج کلاشنکوف کی گولی سے ہونا معمول بن گیا۔فتوئے عام ہو گئے اور مسلمانوں میں ڈہونڈ ڈہونڈ کر کافروں کو علیحدہ کیا گیا۔اور عوام کے ذہن میں راسخ کیا گیا کہ کوڑے کا استعمال ہی اصل دین ہے ۔

اندازہ لگایا گیا کہ سایہ ختم ہو گیا ہے لہذبھٹو کی بیٹی کووزیر اعظم تو بنا دیا گیا مگر پتہ چلا انھوں نے خالصتان بنانے والے سکھو ں کی فہرستیں انڈیا کے حوالے کی ہیں۔ اس کی پاکستان سے وابستگی پر طنز کرنے والوں نے اسے اپنے باپ کی چنیدہ اس جگہ کا دورہ کرنے سے روک دیا جہاں ذولفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ۔ البتہ اس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان کے میزائلی دفاع کی مضبوطی میں اس کا کردارکتنا منفرد اور قابل تحسین تھا۔

بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں مضبوط ہوتا دیکھ کر پھر ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا۔ اس بار عامل ایسا لبرل تھا کہ کتے بغل میں دبا کر بلندیوں سے نازل ہوا۔مگر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شہر راولپنڈی ، جہاں ہماری بہادر اور قابل فخر افواج کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں بھی ہمارے بیٹے فوجی وردی پہن کر باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ شہریوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا قابل فخر عمل ٹھہرا۔ ہر وہ کام جس کے عوض ڈالر مل سکتے تھے کیا گیااورمعترضوں کو افواج پاکستان کا دشمن بتایا گیا۔ اپنے محسنوں کو بے عزت کرنا ہمارا شیوہ بن گیا۔ جب ہم ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے شخص کو ٹی وی پر لا رہے تھے ۔ دراصل یہ ہمارے دلوں کی سختی کا اظہار تھا۔ ارادے مضبوط ہونے اور دل سخت ہونے کافرق کوئی لاپتہ افراد کے لواحقین سے بے شک نہ پوچھے عافیہ صدیقی کی بہن ہی سے پوچھ لے۔عاصمہ جہانگیر مرحومہ جب عافیہ کے بیٹے کے دفاع میں آمر کے سامنے کھڑی ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا وہ عورت بے دین، فوج کی دشمن اور بھارت کی ایجنٹ تھی۔ ہمارے بیانئے ایسے ہی تراشے جاتے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ ان پر دل کی گہرائیوں سے ایمان بھی لایا جائے۔اور ایمان لایا جاتا رہا ہے۔

جب عوام نے آصف زرداری کو اعتماد بخشا تو ان کے وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر بے عزت کر کے گھر بھیج دیا۔ ۔البتہ دوسرے شریف اور کارکن راجہ پرویز کو راجہ رینٹل کا خطاب عطا کر دیا گیا۔ نواز شریف کو عوام نے اکثریت سے منتخب کیا۔ الیکشن سے چھ ماہ قبل تمام اعشاریے بتا رہے تھے کہ یہ دوبارہ مقبولیت حاصل کرے گا ۔ ایک بار ظالم ْ جن ْ پھر سایہ بن کر نازل ہوا۔ تین سوارب کی کرپشن تو عدالت میں ثابت نہ ہو سکی ۔ البتہ پتہ چلا پاکستان میں مودی کا یار وہی تو ہے، وطن کا غدار بھی ہے، اور پاکستان کی ۷۰ سال میں سے ۴۰ سال کی محرومیوں کا ذمہ دار وہی ہے۔ اور یہ کہ عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ عوام البتہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ مسترد کنندگان کہا ں بستے ہیں۔ ۳۰۰ ۱ سو مبلغین کی وعظ پر یقین کرنے کرنے کے لیے جب عوم تیار ہی نہیں تو ان کو مومن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

کرپشن کا شور ذولفقار علی بھٹو کے وقت میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کی وزارت کرپشن کا گڑھ بتائی گئی اور ایک کارکن خورشید حسن میر جو وزیر ریلوے تھا پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پورا انجن غائب کر دیا ہے ۔مگر رات گٗی بات گئی۔ آصف زرداری نام کا شخص جس نے وزیر اعظم ہاوس میں ایسے گھوڑے پال رکھے تھے جو صبح جام کھا کر دن کی ابتداء کرتے تھے اور رات کو بادام کھا کر سوتے تھے۔ مگر سورج غروب ہو کر چڑہا تو یہ داستان بھی بھلا دی گئی۔نواز شریف پر تین سو ارب کی کرپشن عدالت میں ثابت نہ ہو سکی تو پنامہ اور اقامہ کو گڈ مڈ کر کے داد طلب کی جاتی ہے۔

عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، مگر ہر بار لازم نہیں ، عامل جن کو قابو کر لے ۔ بعض اوقات جن عامل ہی کو قابو کر لینے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور جو ْ جن ْ یہ کوشش شروع کر دے اس پر ماہرین بتاتے ہیں کوئی ْ عاملْ قابو نہیں پا سکتا۔


ہفتہ، 20 جنوری، 2018

مجیب الرحمن اور نواز شریف



نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں مجیب الرحمن کا ذکر کر کے جہاں پاکستانیوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے وہاں سیاسی مجمع بازوں نے اس موضوع کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
16 December 1971 
کے بعد پاکستان کی سیاست میں کافی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور بعض تبدیلیوں کی ابھی تک مزاحمت جاری ہے۔ پاکستان میں مقتدر قوتوں اور عوام نے اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمارے ایسے سیاستدان جو ڈرائنگ روم کی سیاست والی اشرافیہ لیگ کے ممبر ہیں اور پاکستان میں کرسی کی سیاست کے علمبردارہیں , نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں اور تاریخی حقیقتوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے کوے کے کالے رنگ کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔شائد اسی لئے بنگلہ دیش نے ایسے پاکستانی سیاست دانوں کے مجیب الرحمن کی ذات کے متعلق بیانات پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ 

شیخ مجیب الرحمن جو بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم تھے ، نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 
1940
میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنس فیڈریشن سے کیا تھا. 
1943
میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر حسین شہید سہروردی کے معتمدبن گئے، اور تحریک پاکستان کی جدو جہدمیں بنیادی کردار ادا کرنے والے کارکنوں میں شامل تھے۔
1947
میں قیام پاکستان کے وقت وہ حسین شہید سہروردی کے قریبی قانون دان ساتھی تھے۔پاکستان بننے کے بعد انھوں نے مشرقی پاکستان سٹوڈنس بنائی ۔
1948
میں قائد اعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے دوران اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کی مخالف آواز مسلم لیگ کے اندر سے سب سے توانا آواز مجیب الرحمن کی تھی۔
1958
میں ایوب خان کے مارشل لاء کی مخالفت کی اور ۸ ۱ ماہ جیل میں رہے۔
1963
میں سہروردی اور
1964
میں خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد سیاسی خلا کو مجیب ہی نے پر کیا 
1965
میں ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی اور ۵۶ کی جنگ میں پاکستانی افواج کے ساتھ یک جہتی اور حمائت کا اعلان کیا۔
1966
میں لاہور میں چوہدری محمد علی کی معاہدہ تاشقند کے خلاف بلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران مجیب نے اپنے چھ نکات کا اعلان کیا۔
مجیب کے چھ نکات
۔ ملک مین پارلیمانی نظام ہو گا اور مرکز میں قانون سازی کے لیے نمائندگی کے لیے بنیاد آبادی پر ہو گی۔
۔ مرکز کے پاس خارجہ، دفاع ، کرنسی اور خارجہ کے محکمے ہوں گے، مالی معاملات کو صوبے طے کریں گے۔
۔ مشرقی اور مغربی صوبوں کے لیے الگ الگ فیڈرل ریزرو مالیاتی سسٹم ہوں گے یا کرنسی علیحدہ علیحدہ ہو گی۔
۔ ٹیکس اکٹھا کرنا صوبائی معاملہ ہو گا البتہ مرکز کو دفاع سمیت دوسرے محکمے چلانے کے لیے خاطر خواہ فنڈ مہیا کیا جائے
گا۔
۔ دونوں صوبوں کے لیے علیحدہ علیحدہ فارن کرنسی ونگ ہوں گے۔
۔ مشرقی ونگ کے لیے علیحدہ پیرا ملٹری فورس ہو گی۔

مجیب نے اپنے مغربی پاکستان کے ایک دورے کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ یہ بیان اس دور کی سیاست کا اہم موضوع بنا ، سول اور عسکری معاشی اخراجات پر بحث ہوئی، اور سوشل ازم کے عروج کے دور میں یہ سیاسی بیان امیر اور غریب کی تقسیم کو اجاگر کرنے کی بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
1200
میل کے فاصلے کو اجاگر کرے کا سبب بنا ۔ علاقی تعصب بمقابلہ ادارتی تعصب عروج پر پہنچا ۔الیکشن کے نتیجے میں 
169
میں سے 
167
نشستیں جیتنے والے ، اور اعلان کے باوجود اقتدار مجیب کے حوالے نہ ہو سکا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی، فوجی کاروائی شروع ہوئی ، مکتی باہنی کی آڑ میں مسلح جتھے بھارت سے آنا شروع ہوئے۔
10 Aril 1971
کو ْ مجیب نگر ْ نامی آزاد حکومت بنی اور 
16 December 1971
آزاد بنگلہ دیش بن گیا۔

ہم یہاں ایک ایسے کردار پر بحث کر رہے ہیں جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا مگر سیاسی اور معاشی نا انصافیوں نے اسے ملک توڑنے والی قوتوں کا سر غنہ بنا دیا۔ مجیب کو ملک دشمن، غدار یا جو بھی کہیں ، کہنے والوں کو حق ہے ۔اور اس کا دفاع کرنا بنگلہ دیشی حکومت کا حق ہے مگر ہمار حق ہے کہ ہم اپنے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں۔ اور پاکستان کے اور خود پاکستانی عوام کے مفاد میں اس حقیقت کا ادراک کریں
۔ ملک کے اندر ادارے اپنے طے شدہ آئینی دائروں کے اندر رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۔ ملک کے اندر دولت کی غلط تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیوں کو بلا دست طبقے سیاسی اور مذہبی اختلاف میں
ڈہال کر عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس تقسیم کی اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے خلوص
کے ادراک کی ضرورت ہے۔
۔ معاملات اقراء پروری اور ذاتی مفادات کی بجائے میرٹ پر نمٹائے جائیں۔ 
۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے اور حکومت بالا دست طبقات کی لونڈی بننے کی بجائے غریب اور بے سہارا لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے زیردست کا بازو بنے۔
۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و دوستی کو فروغ دینا چاہیے ۔

عوام کے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل ملک کے جغرافیائی تحفظ کے احساس اور استعداد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کے دفاع کے امین اداروں کو خالص اسی مقصد کے لئے فارغ کر کے ہی ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔

ملک کے اندر شہریوں کو دہشت گرد ، غدار وطن اور کافر قرار دینے کی روش جاری و ساری ہے، جاتی امراٗ کے حکمرانوں کو غدار وطن قرار دینا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنا، مولانا فصل الرحمن کو زر کا پجاری بتانا ، زرداری کو کمیشن ایجنٹ مشہور کرنا سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھ کنڈے ہیں ۔ اور ہتھ کنڈے نہ پہلے کامیاب ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔ البتہ معاشی محرومی ایسا عنصر ہے جو غداراور کافر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لیے محسن انسانیت ، نبی اکرم، خاتم المرسلین صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غربت سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔