یہ محض ایک جملہ نہیں تھا، ایک فقرہ تھا جو دل کی گہرائیوں سے نکلا، مگر پوری قوم کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا:
"میرا دل خراب ہے۔"
یہ بات سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف نے حالیہ دنوں میں سینئر صحافی انصار عالم سے کہی، جب ان سے بلوچستان اور ملک کے سیاسی استحکام میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس سے پہلے یہی جملہ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہہ چکے ہیں — "دل خراب ہے"۔
سوال یہ نہیں کہ ان شخصیات کا دل کیوں خراب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خدمت کرنے والوں کا دل آخر خراب کیوں نہ ہو؟
ایک طرف قوم ہے جو ان ہی شخصیات کو نجات دہندہ سمجھتی ہے، اور دوسری طرف طاقت کا وہ نامعلوم مرکز ہے جو ہر بار خدمت کرنے والوں کو یا تو رسوا کرتا ہے، یا خاموشی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔
نواز شریف کو بلوچستان کے رہنما محمود خان اچکزی، مولانا فضل الرحمان، اور شاہد خاقان عباسی جیسے سینئر سیاست دانوں نے قومی قیادت کے لیے آگے بڑھنے کو کہا۔ مگر جواب میں یہ جملہ: "دل خراب ہے" — ان کے اندر کی تھکن، رنج اور بےبسی کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔
کیا یہ وہی نواز شریف نہیں جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا؟ کیا ہر بار اسے گھر بھیجنے کا فیصلہ عوام نے کیا، یا کہیں اور سے ہوتا رہا؟ کیا کبھی ترقی کے منصوبے اس کی حکومت سے منسلک کیے گئے، یا صرف مقدمے، نااہلیاں، اور جلاوطنی؟
پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیجیے، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، مگر انہیں نظر بند کیا گیا، ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ کیا یہ سب ایک آزاد ملک میں ہوا؟ یا کہیں نہ کہیں غیر ملکی اثر و رسوخ نے فیصلہ سازوں کو مجبور کیا؟
پاکستان کی تاریخ ایسے ہی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو اگر ریاست کے حقیقی مفاد کی بات کریں تو یا تو "چڑھا دیے جاتے ہیں"، یا "خاموش کر دیے جاتے ہیں"۔
بینظیر بھٹو کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور آج کل کی صحافت میں انصار عباسی، سلیم صافی، مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کی گمشدگیاں یا مقدمات — سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بولنے، سوچنے، یا کچھ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
یہ سب ایک سوچے سمجھے نظام کا حصہ ہے، جس میں "ریاست کے مفاد" کو عوامی مفاد سے بالاتر کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھانے والے کو غدار، اور سچ بولنے والے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
اور یہی وہ ماحول ہے جہاں ایک مخلص سیاستدان، ایک عظیم سائنسدان یا ایک بےباک صحافی آخر کار کہہ اٹھتا ہے:
"میرا دل خراب ہے۔"
یہ جملہ دراصل ایک فرد کی مایوسی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔
یہ ان تمام پاکستانیوں کی زبان ہے جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں، مگر جنہیں اس محبت کی سزا ملتی ہے۔
یہ ان کرداروں کی آواز ہے جو پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر ہر بار کوئی "پوشیدہ ہاتھ" انہیں روک لیتا ہے۔
اور جب تک یہ سوال باقی ہے — کیا پاکستان کسی کو پاکستان کی خدمت کرنے دیتا ہے؟ —
تب تک دل خراب ہوتے رہیں گے… اور شاید دل ٹوٹتے بھی رہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں