جب علم، عمل سے خالی ہو جائے
یہ بظاہر علم کا دور ہے۔ ہر طرف کتابیں چھپ رہی ہیں، تقاریر ہو رہی ہیں، منبر گونج رہے ہیں، ڈگریاں تقسیم کی جا رہی ہیں، اور ہر سڑک و گلی میں اقوالِ زریں جگمگا رہے ہیں۔ مگر افسوس، دل و دماغ پر سنّاٹا چھایا ہے۔ کردار زبانوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے،عمل، شخصیت کی اصل علامت، بےرنگ ہو چکے ہیں۔
علم کی گونج تو ہے، لیکن عمل کی روشنی ندارد۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چشمہ تو ہے مگر اس کے کنارے خشک ہیں، اور پیاسے راہ بھول چکے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب قرآن ہمیں جھنجھوڑتا ہے:
"پھر تمہارے دل سخت ہو گئے، تو وہ پتھروں کی مانند ہو گئے یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ اور بعض پتھر ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور بعض ایسے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں، پھر ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت 74)
یہ آیت فقط بنی اسرائیل کی سرگزشت نہیں، بلکہ آج کے مسلمان کا عکس ہے۔ وہ شخص جو علم تو رکھتا ہے، مگر اس کے دل پر نہ خدا کا خوف ہے، نہ عمل کی رمق۔ جس کی زبان پر دین کی باتیں ہیں، مگر اس کے قدم گناہوں کی راہ پر رواں ہیں۔ جو دوسروں کو نصیحت کرتا ہے، مگر خود اس پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے دن ایک پڑھے لکھے کو لایا جائے گا، جس نے علم حاصل کیا، قرآن پڑھا، سکھایا، مگر اس پر خود عمل نہ کیا۔ تو اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"(صحیح مسلم)
امام حسن بصریؒ کی بصیرت افروز بات ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی ہے:
"علم بغیر عمل پاگل پن ہے، اور عمل بغیر علم گمراہی۔"
آج ہم نے جھوٹ، غیبت، خیانت، حسد، ریاکاری، اور خودغرضی جیسے عیوب کو معمولی سمجھ کر اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیا ہے۔ یہی وہ گناہ ہیں جو دل کو سخت، کردار کو کھوکھلا، اور معاشرے کو مفلوج کر دیتے ہیں۔
ابنِ خلدون نے سچ کہا تھا:
"جب کسی قوم کے صاحبان علم، علم رکھتے ہوں مگر کردار نہ ہو، تو اس قوم کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔"
آج ہم اسی خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں۔ استاد، مبلغ ، لیڈر کا قول اس کے فعل سے میل نہیں کھاتا، واعظ کی زندگی اس کی تقریر کی نفی کرتی ہے، اور رہنما کے فیصلے اس کی زبان سے متضاد ہوتے ہیں۔ ہم نے علم کو صرف رٹنے، بولنے اور سنانے کی چیز بنا دیا ہے، عمل کو زندگی سے نکال پھینکا ہے۔ دل ایسی زمین بن چکے ہیں جن پر نہ نصیحت اثر کرتی ہے، نہ عبادت۔
علم دراصل وہ چراغ ہے جو تبھی روشنی دیتا ہے جب اس میں عمل کا تیل ہو۔ اگر یہ تیل نہ ہو تو علم، اندھیرے کو اور گہرا کر دیتا ہے۔ اور بےعمل ، صاحب علم، وہ پہلا شخص ہوگا جو قیامت کے دن اپنے ہی علم کی آگ میں جھلسے گا۔
شیخ سعدی نے کہا تھا
"میں دو ہستیوں سے ڈرتا ہوں: ایک اللہ سے، دوسرا اُس شخص سے جو اللہ سے نہیں ڈرتا۔"
آج ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے دل اس قابل رہ گئے ہیں کہ اللہ کے خوف سے لرزیں؟ یا ہم ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں جن کی مثال قرآن نے دی؟ اگر ہاں، تو وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو نرم کریں، اپنی نیتوں کو خالص کریں، اور علم کو عمل سے جوڑیں۔
۔کیونکہ یہی وہ راہِ مستقیم ہے جس پر چل کر انسان سرخرو ہو سکتا ہے
اقبال کی فریاد بھی پڑھ لیں:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں