ہفتہ، 19 اپریل، 2025

ماضی کے آئینے میں قید معاشرہ

 


ماضی کے آئینے میں قید معاشرہ

تحریر: دلپذیر

ہر قوم کا ماضی اُس کی پہچان کا ستون، اُس کے شعور کا دریا، اور اُس کی اجتماعی یادداشت کا خزانہ ہوتا ہے۔ یہ ماضی کبھی عروج کی داستانیں سناتا ہے، کبھی زوال کے اسباق۔ مگر جب کوئی معاشرہ صرف انہی بیتے دنوں میں اُلجھ کر رہ جائے، تو حال کی حقیقتیں اور مستقبل کے امکانات اُس کی نظر سے اوجھل ہونے لگتے ہیں۔ تب ماضی چراغِ راہ نہیں رہتا—وہ ایک چمکتا ہوا قید خانہ بن جاتا ہے، جہاں فکر کی پرواز ساکت ہو جاتی ہے۔

ہماری تاریخ میں سنہری باب موجود ہیں۔ عباسی دور میں بغداد کی "بیت الحکمت" علم و تحقیق کا ایک ایسا مرکز تھی جہاں مختلف مذاہب کے علما اکٹھے بیٹھ کر سائنس، فلسفہ، طب اور ریاضی پر تحقیق کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خوارزمی الجبرا کی بنیاد رکھ رہے تھے، ابن الہیثم روشنی اور بصریات پر تجربات کر رہے تھے، اور ابن سینا "القانون" جیسی طبی کتابیں لکھ رہے تھے جو صدیوں تک یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی رہیں۔

اسی طرح اندلس، جہاں قرطبہ کی لائبریریاں اور غرناطہ کے تعلیمی مراکز علم کا سمندر بن چکے تھے، تہذیب، رواداری اور تخلیقی قوت کی عظیم مثال تھے۔ مسلمان معلم فقہ و حدیث کے ساتھ ساتھ فلکیات، موسیقی، فنِ تعمیر، اور طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

لیکن آج ہم اُن کارناموں کو آگے بڑھانے کے بجائے اُن کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ "جب ہم حکمران تھے..."، یا "ہم نے سائنس ایجاد کی تھی..."۔ سوال یہ ہے کہ ہم آج کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے علم کی وہ مشعل نئی نسل کو تھمائی ہے؟ کیا ہم نے تحقیق و اجتہاد کی وہ روش برقرار رکھی ہے؟

ہمارے خطیب، مقرر، دانشور، اور بعض دینی رہنما آج بھی ماضی کی عظمت پر خطبے دیتے ہیں، مگر حال کی سائنس کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ زمین کو چپٹا قرار دینا، سورج کو ساکن کہنا، اور سائنسی ایجادات کو بدعت سمجھنا—یہ رویے اُسی ماضی پرستی کی علامت ہیں، جو ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

برصغیر کی تحریکِ آزادی بھی ماضی کا ایک روشن باب ہے۔ سر سید احمد خان نے تعلیم کی شمع روشن کی، اقبال نے خودی اور تجدیدِ فکر کی دعوت دی، اور قائداعظم محمد علی جناح نے اصول پسندی، قانون اور فہم و فراست کے ساتھ ایک قوم کو بیدار کیا۔ مگر آج اُن کی بصیرت کے بجائے صرف تصویریں، اقوال اور قومی تقاریر باقی رہ گئی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ماضی کو دیوتا بنا کر پوجنا فکر کا زوال ہے۔ ہم نے لاوڈ اسپیکر کو کفر کہا، پرنٹنگ پریس کو حرام سمجھا، اور ٹیلی ویژن کو فتنہ قرار دیا۔ آج جب دنیا مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، اور خلائی تحقیق کے میدان میں دوڑ رہی ہے، ہم آج بھی پرانی فتووں میں الجھے بیٹھے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی سے سبق ضرور لیں، مگر اس میں قید نہ ہو جائیں۔ نوجوانوں کو صرف داستانیں نہ سنائیں، اُنہیں سوال کرنے، تحقیق کرنے، اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں۔ اقبال نے فرمایا تھا:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

یہ "نم" صرف ماضی کی یاد میں آنکھ نم کرنے سے نہیں آتا۔ یہ نم تحقیق، تخلیق، اور تدبر سے آتا ہے۔ اگر ہم نے آج کے سوالوں کے جواب نہ دیے، تو کل ہماری نسلیں بھی صرف بیتے وقت کی تصویریں سجانے میں مصروف رہیں گی، کچھ نیا نہ سوچ سکیں گی۔

تاریخ بنانے والی اقوام آگے دیکھتی ہیں۔ جو صرف پیچھے دیکھیں، وہ آخرکار ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں—خاموش، بےآواز، اور عبرت ناک۔

کوئی تبصرے نہیں: