پیر، 21 اپریل، 2025

سایوں کے پیچھے بھاگتی زندگی

 



ہم میں سے اکثر نے زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی ایسی شے محسوس کی ہے جو وہاں نہیں تھی— کوئی سایہ، کوئی آواز، کوئی ہیولا۔ اور پھر اس "محسوس شدہ حقیقت" کو ہم وہم کا نام دے کر یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں، یا پھر اس کے پیچھے ایک پوری کہانی بُن لیتے ہیں۔

وہم صرف ایک تصور نہیں، ایک کیفیت ہے— اور بعض اوقات ایک مکمل طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔

میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب نے حال ہی میں پریشان ہو کر بتایا کہ ان کے 22 سالہ بیٹے کو کئی دنوں سے اپنے کمرے میں اور کبھی کبھی گھر میں کوئی "ہیولا نما" شے دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ انسانی شکل میں ہوتی اور کبھی کسی ناقابلِ بیان، مہیب صورت میں۔ والدین سخت پریشان تھے— دم درود سے لے کر ماہر نفسیات تک ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے، لیکن افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔

تب ہمارے ایک تجربہ کار دوست نے بڑی سادہ سی بات کی۔ کہنے لگے: "اس نوجوان کو چاہیے کہ وہ رات کو 9 بجے ہر حال میں سوجائے، اور جو بھی کام رات کو کرتا ہے وہ صبح کر لیا کرے۔" بظاہر یہ مشورہ سادہ لگا، لیکن اس پر عمل ہوتے ہی نوجوان کے ہیولے غائب ہو گئے۔

یہ کوئی جادو نہ تھا، بلکہ انسانی دماغ کا کمال تھا۔ نیند کی کمی، مسلسل تنہائی، اور دماغ پر سکرینز کی روشنی— یہ سب مل کر ایسے "وہم" پیدا کر دیتے ہیں جو انسان کو سچ سے زیادہ حقیقی لگنے لگتے ہیں۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے وہم کو اکثر روحانیت، عاملوں اور جنات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی کو بخار ہو تو نظرِ بد، کسی کی ترقی رک جائے تو بندش، اور اگر کوئی نوجوان چپ چاپ بیٹھا ہو تو "کچھ تو ہے۔"
یہی کچھ تاریخ میں بھی ہوتا آیا ہے۔ سیلم (Salem) کی چڑیلوں کی مشہور مہم ہو، یا قدیم بادشاہوں کا اپنے مشیروں کو شک کی بنیاد پر قتل کر دینا— ہر جگہ وہم نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ آلود کر دیا۔

اسلام ہمیں وہم سے بچنے کا واضح درس دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔" (سورہ الحجرات: 12)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔"

وہم صرف ایک سوچ نہیں، ایک زنجیر ہے جو انسان کے اعتماد کو جکڑ لیتی ہے۔ ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ان کی وجہ کسی "غیبی" قوت کو دے دیتے ہیں، اور یوں خود کو عمل سے بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں۔

اگر وہ نوجوان رات کو جلد سونے سے ٹھیک ہو سکتا ہے، تو ہم سب بھی سادہ، متوازن زندگی اپنا کر بہت سے ذہنی سایوں سے نجات پا سکتے ہیں۔

وہم کا علاج فلسفہ یا عملیات میں نہیں، بلکہ نظم، علم، نیند، سادہ زندگی اور اللہ پر یقین میں ہے۔ ہم جتنا جلد یہ سیکھ لیں، اتنا بہتر۔

کوئی تبصرے نہیں: