بدھ، 9 اپریل، 2025

داتا صاحب ۔ جب لاہور آئے


علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے لاہور آنے سے پہلے کے حالات و واقعات جاننے کے لیے ہمیں اُس دور کے سیاسی، سماجی، مذہبی، اور ثقافتی پس منظر کا جائزہ لینا ہوگا۔ علی ہجویریؒ گیارہویں صدی عیسوی میں غزنی (موجودہ افغانستان) سے تعلق رکھتے تھے اور وہ حضرت جنید بغدادیؒ کے روحانی سلسلے سے وابستہ تھے۔

1. لاہور کی سیاسی صورت حال

داتا صاحبؒ کے لاہور آنے سے قبل یہ شہر غزنوی سلطنت کے زیر اثر تھا۔ محمود غزنوی نے کئی مرتبہ ہندوستان پر حملے کیے اور لاہور کو بھی فتح کیا۔ اس کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا ایک اہم شہر بن گیا، لیکن اندرونی طور پر یہ سیاسی طور پر کمزور اور غیر مستحکم تھا۔

2. سماجی و ثقافتی حالات

لاہور اُس وقت مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مرکز تھا۔ ہندو، بدھ، اور دوسرے مقامی مذاہب کے پیروکار یہاں رہتے تھے۔ اسلام اگرچہ آ چکا تھا، لیکن عام لوگوں میں اس کی تعلیمات رائج نہ تھیں۔ برہمن واد، ذات پات، اور روحانی گمراہی عام تھی۔

3. دینی و روحانی فضا

اسلامی تعلیمات محدود تھیں، اور صوفیاء کرام کا کردار اس وقت اہم ہونے لگا تھا تاکہ وہ دین کو دلوں تک پہنچائیں۔ لاہور میں اُس وقت اسلام ایک اجنبی مذہب تھا۔ نہ مدارس تھے نہ خانقاہیں۔ عوام الناس کی روحانی پیاس بجھانے کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔

4. داتا صاحبؒ کی آمد کا پس منظر

داتا گنج بخشؒ کو ان کے مرشد نے حکم دیا کہ وہ لاہور جائیں، کیونکہ وہاں کے لوگ روحانی طور پر بھٹک رہے تھے اور انہیں ایک سچے راہنما کی ضرورت تھی۔ لاہور اُس وقت روحانی و فکری خلا کا شکار تھا، جہاں توحید، اخلاقیات، اور روحانی پاکیزگی کی روشنی کمزور تھی۔


داتا صاحبؒ کی لاہور آمد صرف ایک شخص کا سفر نہیں تھا، بلکہ ایک روحانی انقلاب کی ابتدا تھی۔ ان کے آنے سے پہلے لاہور ایک مذہبی و روحانی تاریکی میں تھا، اور ان کی آمد نے اسے روحانیت کا مرکز بنا دیا، جس کا اثر آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: