پیر، 7 اپریل، 2025

داتا صاحب لاہور آمد

 بالکل، یہ رہا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی لاہور آمد، قیام، پیش آنے والی مشکلات اور مسجد و خانقاہ کی بنیاد کے حوالے سے ایک دوبارہ مرتب کیا گیا جامع اور مربوط بیان:


داتا گنج بخشؒ کی لاہور آمد

حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کا تعلق غزنی (موجودہ افغانستان) سے تھا۔ آپ ایک بلند پایہ صوفی، عالم، اور ولی اللہ تھے۔ جب آپ کو حکمِ باطنی کے تحت برصغیر خصوصاً لاہور کی جانب روانہ ہونے کا اشارہ ہوا، تو آپ نے بلا تردد اس حکم پر عمل کیا۔ اُس وقت لاہور علمی، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بنجر تھا۔

لاہور میں ابتدائی قیام

جب آپ لاہور پہنچے تو شہر کے مضافات میں، ایک سنسان و ویران مقام پر قیام فرمایا۔ یہاں نہ کوئی پکی عمارت تھی، نہ سہولیات، اور نہ ہی جان پہچان۔ یہی مقام بعد میں آپ کی خانقاہ اور مسجد کا مرکز بنا، جو آج "داتا دربار" کے نام سے معروف ہے۔

درپیش مشکلات

لاہور میں ابتدائی دنوں میں آپ کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا:

  1. اجنبیت – لوگ آپ کو پہچانتے نہ تھے، اس لیے ابتدا میں آپ کی باتوں کو نظرانداز کیا گیا۔

  2. سماجی و دینی پستی – شہر میں دینی شعور کمزور تھا، بداعتقادی اور غیر شرعی رسومات عام تھیں۔

  3. مخالفت – کچھ مقامی علماء اور ذاکرین نے حسد اور مخالفت کی راہ اپنائی، کیونکہ لوگ آپ کی طرف مائل ہونے لگے تھے۔

  4. سادہ زندگی – آپ نے نہایت سادہ زندگی بسر کی، ابتدائی طور پر کھانے، رہائش، اور لباس کی سہولتیں بھی بہت محدود تھیں۔

کامیابی اور اثر

حضرت داتا گنج بخشؒ نے ان تمام چیلنجز کا سامنا صبر، علم، حکمت، اور روحانی کمالات سے کیا۔ آپ کے اخلاقِ حسنہ، خدمتِ خلق، اور علم و معرفت نے جلد ہی لوگوں کے دلوں کو فتح کر لیا۔ لاہور کے عوام آپ کی صحبت میں آنے لگے، دلوں کی دنیا بدلی، اور دین کی روشنی پھیلنے لگی۔

مسجد و خانقاہ کی بنیاد

جب آپ کی روحانی اور علمی عظمت کا شہر میں چرچا ہونے لگا، تو لوگوں نے آپ کے اردگرد جمع ہونا شروع کیا۔ تب آپ نے اُس ویران مقام پر ایک مسجد اور خانقاہ کی بنیاد رکھی تاکہ:

  • نماز و عبادات کی جگہ ہو

  • علم و حکمت کا مرکز ہو

  • محتاجوں اور مسافروں کی خدمت ہو

یہ مسجد و خانقاہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک عظیم روحانی مرکز بن گئی، جو آج بھی ہزاروں زائرین، عقیدت مندوں، اور طالبانِ علم و فقر کے لیے ہدایت کا منبع ہے۔


اگر آپ چاہیں تو اس میں مزید تاریخی یا روحانی پہلو بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، جیسے کشف المحجوب کا تذکرہ یا حضرت کے مجاہدات۔

کوئی تبصرے نہیں: