فیس سیونگ سے فیس چینج تک
تحریر : دلپذیر
2019
سے 2025 تک کا عرصہ برصغیر کے سیاسی، عسکری اور سفارتی منظرنامے میں کئی اہم موڑ لے کر آیا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات جنہیں کبھی "نارملائزیشن" کی امید سے جوڑا جاتا تھا، وہ ایک بار پھر "سیکیورٹی اسٹیٹ بنام پاپولر نیشنلزم" کی کھائی میں جا گرے۔ 2019 میں جب پلوامہ کے واقعے نے سرخیوں میں جگہ بنائی اور بالاکوٹ پر حملے کی خبر آئی، تو خطے میں جنگ کے بادل اچانک چھا گئے۔ عالمی قوتوں نے بیچ بچاؤ کر کے معاملات کو کسی حد تک "سفارتی طور پر طے" کروا دیا، لیکن اس حل کو "فیس سیونگ" کے نام پر یاد رکھا گیا۔
ہندوستان کو اپنی عوامی خواہشات کے سامنے ایک کامیاب کارروائی کا دھوکہ دینا تھا، اور پاکستان کو عالمی دباؤ سے بچنے کے لیے ایک عقلی راستہ اختیار کرنا تھا۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے تئیں ایک چالاکی کا مظاہرہ کیا، لیکن اس چالاکی کا انجام آنے والے برسوں میں واضح ہو گیا۔
2019
میں بھارت میں مودی کی پاپولسٹ سیاست نے خطے کو بحران کی جانب دھکیلا، اور آج بھی ویسا ہی رجحان نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا جواب بلوچستان میں دینے کے نعرے ایک بار پھر فضا میں گونج رہے ہیں۔ مودی حکومت کی انتخابی حکمتِ عملی ہمیشہ "دشمن تراشی" پر مبنی رہی ہے، جہاں پاکستان کو ایک آسان ہدف بنا کر عوامی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ، بھارت کے مسئلے سے مختلف ہے۔ ہم ایک احسان زیاں، قومی بحران، اور مسلسل دھوکے کے کرب سے گزر چکے ہیں۔ ہماری عوام اب جنگ سے زیادہ امن، اور دشمنی سے زیادہ ترقی کی خواہاں ہے۔
مودی حکومت عوام کو شیر پر سوار ہونے کا منظر دکھا رہی ہے، مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ شیر سے اترنے کے بعد کیا ہو گا۔ بھارت کے میڈیا اور سیاسی قوتیں اپنے ہی جال میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ خطے کے امن کو داؤ پر لگا کر وقتی سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن یہ آگ صرف سرحد کے اِس پار نہیں رکے گی۔
روڈ پر بیٹھا ریڑھی بان، دکان دار، طالب علم، سرکاری ملازم، وزیر اعظم، ٹینک کا ڈرائیور، اور خود سپہ سالار — سب ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں: اب یا کبھی نہیں۔ وہ گولی جو ہم نے گھاس کھا کر بنائی تھی، شاید اب وقت آ گیا ہے کہ اس کا مصرف دیکھا جائے — نہ اس لیے کہ ہم جنگ چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ روز روز کے بحران، دھمکیوں، اور فریبوں سے نجات صرف ایک واضح موقف سے ممکن ہے۔
یقیناً، اس تالاب میں کچھ ایسے مینڈک بھی ہیں جو بار بار پھدک پھدک کر یہ بتاتے ہیں کہ مودی تو پاگل ہے، تم تو ہوش سے کام لو، کوئی راستہ نکالو، فیس سیونگ دے کر معاملہ رفع دفع کرو۔ لیکن سوال یہ ہے: 2019 کی فیس سیونگ اگر 2025 میں گلے کا طوق بن چکی ہے، تو کیا 2025 کی فیس سیونگ زہر کا پیالہ نہیں بنے گی؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں