منگل، 26 مارچ، 2019

جے سنڈا آرڈرن اوراکبر لون

                                   
رابرٹ حارس نے کہا تھا آپ پہاڑ کو دیکھیں آپ کو ایک منظر دکھائی دے گا، وقت کی تبدیلی ، روشینیوں کے زاویے کی تبدیلی یا دیکھنے کے مقام کی تبدیلی پر پورا منظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ پہاڑ وہی ہوتا ہے۔ 
واقعات بھی پہاڑ کی طرح ہوتے ہیں۔ان کے دیکھنے کے مقام اور حالات واقعات کے منظر کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ 
۱۵ جنوری ۲۰۱۹ کو نیوزی لینڈ میں دو مساجد میں پیش آنے والے واقعات نے واقعات کے اس پہاڑ کا منظر بدل کر رکھ دیا ہے ۔ جس پہاڑ کا نام ْ امن ْ ہے، حالیہ تاریخ میں اسلام کے پیروکاروں کی یہ خوبی با شعور لوگوں کو پہلی بار دکھائی دی ہے کہ وہ دوسرے انسان سے ملتے وقت اس پر ْ امن ْ کی دعا پڑہتے ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کی نمائندہ محترمہ کانوا للوڈیہ سن کر ششدر رہ گی ۔ جب ایک مسلمان خاتون ، اپنے خاوند اور ۲۲ سالہ جوان بیٹے کی میت پر قاتل کے لیے اپنے دل میں رحم کا جذبہ پاتی ہے۔اس کی یہ بات سننے والوں کو نئی لگی کہ اس کا دین ایسے لمحات میں اس کو سہارا دیتا ہے۔محترمہ امبریں نعیم نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں قاتل پر اس لیے رحم آرہا ہے کہ اس کے دل میں نفرت تھی۔ 
۱۹۷۹ میں جنم لینے والی جنگ کو مختلف اوقات اور مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے۔پہلے یہ نظریات کی جنگ تھی، پھر اس کا عنوان تہذیبوں کی جنگ رکھا گیا، بعد میں یہ مذہبی جنگ کہلائی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نفرت اور محبت کی جنگ ہے۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس جنگ کے مقامات بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ جب یہ نظریات کی جنگ تھی اس وقت جرمنی اور روس میں لڑی گئی۔ مذہبی جنگ افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ تک لڑی گئی۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعات لبنان کے صابرہ اور شتیلا کے مقام پر ہونے والے واقعات کا تسلسل ہیں ۔اس وقت بھی بنیاد انسانوں سے نفرت تھی اس وقت بھی منشور انسانوں سے نفرت پر مبنی ہے۔
نیوزی لینڈمیں ہونے والے واقعات پر نیوزی لینڈ کے اندر سے جو رد عمل اٹھا ہے اسے دنیا کے مختلف مقامات سے مختلف نظر سے دیکھا گیا ہے۔امریکہ والے یہ دیکھ کرحیران ہوئے کہ ۳۸ سالہ کیوی وزیر اعظم نے اپنے شہریوں سے خودکار مہلک ہتھیار واپس لینے کے لیے اس واقعہ کو کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہریوں نے اس حکمت عملی کی داد دی جس کے تحت ملک کے اندر نفرت پر مبنی ۷۲ صفحات کے منشورکے غبارے سے ہوا نکالی گئی۔ جو عشروں میں نہائت نفرت سے تیار کیا گیا تھا۔ مسلمان ممالک میں بسنے والے لوگوں نے پہاڑ کے نامانوس منظر کو مانوس بیانیے میں ڈہلتے منظر میں بدلتے دیکھا۔ دنیا کے حکمرانوں کو ْ کسی بھی وقت پھٹ جانے کو تیارْ بارود کا بتایا گیا پہاڑ، جس کی وادیوں میں مقیم سارے کے سارے لوگ دہشت گرد اور انتہا پسند بنا کر پیش کیے جاتے تھے۔ ان لوگوں کو دنیا نے دیکھا کہ ۵۰ لاشے اٹھا کر بھی یہ لوگ انسانیت کو امن کی دعا دے رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے واقعات کو دیکھنے کا نیا انداز دنیا کے سامنے رکھا ہے، امریکی صدر کے انداز کے برعکس، دنیا نے اس انداز کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس انداز پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں ان چشموں کی فروخت رک گئی ہے جن کو پہن کرکالا کوا سفید دکھائی دیتا تھا۔ البتہ کشمیر میں نفرت کے ان چشموں کی لوٹ سیل لگ چکی ہے۔اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ جنت نظیر کشمیر کے پہاڑ خوبصورت نہیں ہیںیا ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے انسان کسی ایسے نظریے کے پیروکار ہیں جو انسانیت کے لیے خظرناک ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ان خوبصورت پہاڑوں اور ان کی وادیوں میں بسنے والے مظلوم لوگوں کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے وہ حقیقی نہیں ہے ۔ پہاڑ کی منظر کشی کے لیے کیمرہ مین کو جس مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے۔اس مقام سے خوبصورتی کا منظر دحندلاجاتا ہے۔ عکاس کیمروں کے عدسوں پر جو فلٹر لگایا جاتا ہے ناقص ہے۔یہ سارا عمل جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ نیوزی لینڈ سے محترمہ جے سنڈا آرڈرن صاحبہ محبت اور رواداری کا پرچار کریں تو ان کی تعریف کی جائے ۔ مگر کشمیر میں کھڑے ہو کر جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس پارٹی کے رکن جناب اکبر لون صاحب سرحد کے پار بسنے مسلمان ملک کو ہمیشہ آباد اور کامیاب ہونے کی دعا دیں تو ان کے اس عمل کی مذمت کی جائے۔ نیوزی لینڈ کے کریسنٹ چرچ اور جموں کے درمیاں ۱۳ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہر دنیا کی دو انتہاوں پر واقع ہیں ۔ مواصلاتی رابطوں نے آج ذہنی فاصلوں کو مگرسمیٹ دیا ہے۔ نیوزی لینڈ میں بیٹھ کر قاتل کے لیے دل میں رحم محسوس کرنا محبت کا عنوان بنتا ہے تو ہمسائے ملک کو دعا دینا تو اس سے بڑھ کر کلمہ خیر اور امن آور ہے۔ جناب اکبر لون کا بیان قابل مذمت نہیں ہے ۔قابل مذمت وہ رویہ ہے جو نفرتوں کو جنم دیتا ہے ، انسان کو انسان کا دشمن بناتا ہے، مظلوموں کو ظالم اور ریاستی جبر کے شکار معصوم انسانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے۔
جنگ کا عنوان ہی نہیں مقام بھی بدل رہا ہے۔ ۱۹۷۹ میں شروع ہونے والی جنگ اب نفرت اور محبت میں بدل چکی ہے۔نفرت پھیلانے والے دہشت گرد اور انسانیت کے دشمن ہیں۔انسانیت کے دشمنوں کا نام اگر ایک انسان دوست شخصیت لینا پسند نہیں کرتی تو ہم اس عمل کیتقلید میں اپنے خطے کے انسان دشمنوں کے نام بھی نہیں لیتے ۔ انسانیت کے دوستوں کا نام البتہ کہیں جے سنڈا آرڈرن اورکہیں اکبر لون ہے۔ 

اتوار، 17 مارچ، 2019

سادہ مگر سوال یہ ہے

‪broken scale of justice‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                          

مشہور قول ہے کہ سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں سچائی کویوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ امریکہ میں برپا ہوئے۹/۱۱ کے بعد دنیا بھر میں سچائی کو جعلی خبروں کی کند چھری سے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ افغانستان میں القاعدہ کے نام پر باقاعدہ جعلی خبروں کے ذریعے پہلے عوام کا ذہن بنایا گیاپھرطالبان کی حکومت کو ڈیزی کٹر بمبوں کے ذریعے تورا بورا بنایا گیا۔ عراق میں انسانیت کش اسلحہ اور ایٹمی بمبوں کا فسانہ اس ماہرانہ طریقے سے تراشا گیا کہ یورپ اور امریکہ میں محفوظ گھروں میں رہائش پذیر شہریوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ وہاں تو جعلی خبروں نے بھونچال برپا کیا تو فلسطین اور کشمیر میں حقیقی، انسانیت کش اور تاریخ کے بد ترین ریاستی جبر کے شکار نہتے عوام کو دہشت گرد ، امن کے دشمن اور امن عالم کے لیے خطرناک ترین لوگ بنا کر پیش کیا گیا۔ بھارت نے تو پلوامہ کے نوجوان، مظلوم اور بھارتی ظلم اور بربریت کے شکار عادل ڈار کا دنیا کے سامنے ایسا نقشہ پیش کیا ۔ جیسے وہ امن عالم کا دشمن ہو، دہشت گرد تنظیموں کا اہلکار ہو، اس کے تانے بانے پاکستانیوں سے اور دہشت گردی سے اس خوبصورتی سے ملائے گئے کہ دنیا انگشت بدندان ہو گئی۔ عادل کے خود کش حملے کو جواز بنا کر بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑا۔جھوٹ کی مٹی پر لغو پروپیگنڈے کا پانی ڈال کر کچی مٹی کی اینٹوں سے اپنے بیانیے کا لال قلعہ تعمیر کیا۔ اپنے تئیں عالمی طاقتوں کی حمائت کا پلستر بھی چڑہا لیا ۔ جب بھارت روسی مگ طیاروں کے ذریعے ْ اندر گھس کر مارنے ْ کے بیانیے کو عملی جامہ پہنا رہاتھا۔ چین میں اس کی وزیر خارجہ علاقائی اثرورسوخ والے ممالک کو دہشت گردوں کی تعریف بتا رہیں تھیں تو امریکہ میں اس کی سفارت کاری کا یہ کہہ کر ڈہول پیٹا جا رہا تھا کہ اس نے پاکستان کا امریکی ساختہ ایف سولہ طیارہ مار گرایا ہے۔ جس دہشت گردی کے مرکز کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ۔کسی غیر جانب دار ادارے یا سرکار نے اس لغو دعوے کی تائید نہ کی۔ ایف سولہ مار گرانا بھی خود ساختہ بیانیے کا حصہ ثابت ہوا۔ مگر اصل ثبوت دنیا کو پاکستان کی اہلیت اور بردباری کا حاصل ہوا۔ راتوں رات تھاڈ نامی میزائلوں کا تین سو اہلکاروں سمیت نصب ہوجانا، امریکی صدر کا غیر ملکی دورے کے دوران بیان آجانا ، امریکہ وزیر خارجہ اور دوسرے ممالک کا فون کانوں سے نہ ہٹانامنت سماجت اور پروپیگنڈے کے بغیر ممکن ہو گیا۔ افغانیوں کا بھارتی کٹھ پتلی ہونے کا غبارہ افغانستان میں عسکری مرکز پر پھٹا۔ 
اس واقعے کے بعد پاکستان کے نمائندہ ایوان کے اجتماع میں سیاسی جماعتوں کا جو فوری اور مثبت رد عمل آیااس کے بعد حکومت نے ایک بھارتی ہواباز کی رہائی کا اعلان کر کے پاکستان کے بیانیے کو مضبوط کیا۔
بالا کوٹ حملہ کو بھارت کا ملک کے اندر ْ اندر گھس کر مارنےْ کا بیانیہ بن سکا نہ ملک کے باہر اسے اپنا حق دفاع منوا سکا۔چین نے بھارت کے ایماء پر پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹوکرکے بھارت کے علاقائی تھانیداری کے غبارے سے نیویارک میں ہوا نکال دی۔ 
ان واقعات نے اذہان میں کئی سنگین سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ جن کے جوابات بالکل سادہ ہیں ۔
پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادارے، حکومت اور عوام جنگ سے خوفزدہ ہیں اور ان کا یہ خوف انھیں امن کی بھیک مانگنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس سوال کا پاکستان کے اندر جواب جاننے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ہم عملی طور پر گھاس کھا کر اور ْ بلین ڈالرز کی بے غیرتی کی امداد ْ کو جوتے کی نوک سے ٹھکرا کر اس کا جواب دے چکے ہیں۔ ہماری امن کی خواہش کے پس منظر میں ہمارا وہ تجربہ ہے جو گذشتہ دو دہائیوں سے جنگ لڑ کر ہم نے حاصل کیا ہے۔حالت جنگ میں پیدا ہونے والی ہماری نسل جوانی کی حدود کراس کر چکی ہے۔بارود کی بوہمارے لیے نامانوس نہیں رہی۔ بموں کے دہماکے ہماری زندگی کا حصہ رہ چکا ہے۔جہاں تک موت سے خوف کا تعلق ہے تو ْ شہادت ہے مطلوب و مقصود ْ نے موت کو زندگی سے مرغوب تر بنا دیا ہوا ہے۔ ہم شہیدوں کی میتوں پر گریہ ضرور کرتے ہیں مگر ہم ان کی قبروں پر ْ نشان عزم ْ لہرانا نہیں بھولتے ، اور شہید کا معصوم بیٹا جوان ہوتا ہی باپ کی راہ پر چلنے کے لیے ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ادراک ہے کہ مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں نہ کہ قوت سے۔ دنیا کی اکیلی سپر پاور نے نہتے افغانیوں سے ہمارے دالانوں میں جنگ لڑی مگر افغانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکا نہ طاقت کا رعب منوا سکا۔بھارت ستر ہزار کشمیروں کو ذبح کر کے اگر ان کی آزادی کی تڑپ کو ختم نہ کر سکا تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ْ اٹوٹ انگْ کا راگ بھی چھیڑے رکھے ۔ 
بھارت نے بہت محنت سے اپنا یہ بیانیہ بیچنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیری اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔یہ پاکستان ہے جو انھیں ْ دہشت گردی ْ پر اکساتا ہے ۔ عادل ڈار نے موت کو گلے لگا کر بھارت کے اس بیانیے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ پاکستانی حدود میں بھارت کی جارحیت اس کے ایک ہواباز کی حراست اور رہائی نے پاکستان کی اہلیت، امن کی خواہش اور نیک نیتی کو عالم اقوام میں منوایا ہے۔اس موقع پر ایسے ناقابل تردید ثبوت بھی ہمارے ہاتھ لگ چکے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بغض، حسد اور سازشوں کے جزیرے دنیا میں کہاں کہاں واقع ہیں۔ 
جہاں تک ملک کے اندر اتحاداور یکجہتی پیدا کرنیوالے ہمارا بیانیہ کا تعلق ہے وہ کمزور ہے نہ مشکل وقت میں بے کار ثابت ہوا ہے۔ بلکہ وقت اور امتحانات نے ہمارے اس بیانیے کو مضبوط ہی کیا ہے۔ 
البتہ ہمیں اپنے گھر کے اندر چونا اور گیری کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا ہوگا ۔ نسلوں سے سرقداجسام کی پہچان سفیدی ہی رہی ہے۔ ہمیں ان روائتوں پر عمل پیرا ہونے میں ہچکچائٹ کے اظہار سے بچنا چاہیے۔
ملک اوراداروں کا افراد پر حاوی رہنا ہی عدل ہے۔ اور عدل کے بارے میں غلط نہیں کہا گیا کہ اسے معاشرے میں نظر بھی آنا چاہیے۔ عدل اور انصاف کا ہمارا میزان زنگ آلود ہے اور منصف اس مقام سے کوسوں دور ہیں۔ جس مقام پر فائز منصفوں سے اللہ کے محبت کرنے کا عندیہ قران کریم دیتا ہے۔ 
ہمیں پیچیدہ سوالات میں الجھانے کا بیڑہ جن لوگوں کے سپرد ہے۔ وہ صاحبان علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبان وسائل بھی ہیں۔ جھوٹ کو سچ بتانا اور اس کا دفاع کرنا پروفیشنل ازم بتایا جاتا ہے۔مگر سالوں کا گھٖڑا بیانیہ اس وقت عوام کو حکمرانوں سے بد دل کر دیتا ہے جب ْ اندر گھس کر مارنےْ کے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونکس میڈیا کے ذریعے کیے گئے دعوے ہوا میں تحلیل ہو کر زمین بوس ہو جائیں۔ 
سادہ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے دوسروں کے اعمال سے کچھ عبرت بھی حاصل کی ؟

بدھ، 6 مارچ، 2019

پہلی اور آخری جنگ


دنیا کی پہلی جنگ میں  چوتھائی آبادی تباہ ہو گئی تھی۔ اس تباہی پر پوری دنیا غم میں ڈوب گئی۔ انسانیت اپنے خالق کے سامنے شرمندگی سے جھکی ۔ مارنے والے بھی اپنے عمل پر شرمندہ ہی تھے وہ وقتی اشتعال تھاجو پچھتاوہ بن گیا۔ ظلم کرنے کے بعد ظالم پچھتانے لگے، معافی مانگے ، اپنے ظالم ہونے کا اعتراف کرے ، منصف کی دی سزا قبول کرنے کا عندیہ ظاہر کرے تو منصف بھی مہربان ہو جایا کرتا ہے۔ اس بار منصف خود انسان کا خالق تھا۔ جس نے انسان کو بناتے ہوئے فرشتوں کے اس قول کو پسند نہیں کیا تھا کہ یہ خود اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائیں گے۔ مگر بھائی نے بھائی کا خون بہا دیا تھا۔ قابیل ہابیل کو قتل کر کے دنیا پر پہلی جنگ برپا کر چکا تھا۔ اس وقت ایٹم بم تو موجود نہیں تھا مگر چار لوگوں کی بستی میں ایک جنگ کی نذر ہو چکا تھا۔یہ پچھتاوہ پورے ایک سو تیس برس تک رہا ۔ خالق نے شیت عطا کر کے ابو البشرکی دلجوئی کی۔اللہ نے قابیل سے بدلہ لیا نہ آدم ہی نے اپنے لاڈلے بیٹے ہابیل کے مار ڈالنے پر قابیل کی موت مانگی ۔ ہابیل کی ماں نے بھی بدلے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔

انسانیت کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں غلط عمل صرف دو ہیں ۔ ایک دنیا پیدا کرنے والے خالق کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا لینا ، حضرت لقمان کے بارے میں خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی ۔ اس حکیم شخص نے اپنی اولاد کو نصیحت کی تھی ْ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا ، شرک سب سے بڑا ظلم ہےْ ۔ حضرت ابراہیم و یعقوب کی اپنی اولادوں کو اسی طرح کی نصیحت کتابوں میں مذکور ہے ۔خدا نے اٹھارہ عظیم و برگزیدہ اشخاص کا ذکر کے بتایا کہ اگر یہ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال برباد ہو جاتے۔ 

دوسرا غلط عمل بے انصافی ہے۔یہ ایسا کریہہ عمل ہے جو بغاوت، انتقام، حسد اور بد امنی کو جنم دیتا ہے ۔ آج کے دور میں موجود ہشت گردی کا منبع بھی بے انصافی ہی ہے۔ ہر معاشرہ اور ملک اپنے عوام کو انصاف مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ملک ، معاشرے، خاندان اور افراد کی زندگی میں امن رہے۔ انسان حکمت کے اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں انصاف کی اہمیت کا اسے ادراک ہو چکا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ہر ملک میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدالتیں فعال ہیں۔

عدالت کسی قصبے کی ہو، بڑے شہر کی یا پوری دنیا کے معاملات پر فیصلے کرنے والی۔ اس میں یہ تو ممکن ہے کہ سو فی صد انصاف مہیا نہ ہو سکے ۔ کیونکہ منصف فیصلہ اپنے دماغ سے کرتے ہیں اور ہر انسان کے دماغ کی سوچ کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ اس امر کا اندازہ ایک تاریخی واقعے سے ہوتا ہے ۔ حضرت داود کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا۔ دعویٰ دار ایک کھیت کا مالک تھا۔ اس کے کھیت میں رات کے وقت بکریاں داخل ہوئیں اور کھیت کی ساری فصل برباد کر دی۔ منصف نے کھیت میں ہونے والے نقصان کا مالی اندازہ لگوایا۔ یہ مالیت بکریوں کی مجموعی مالیت کے برابر تھی۔ حضرت داود نے بکریوں کے مالک کو حکم دیا کہ وہ کھیت والے کے نقصان کے بدلے اپنی بکریاں کھیت کے مالک کے حوالے کر دے۔ اس فیصلے پر ایک دوسرے منصف حضرت سلیمان نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا حکم کیوں نہیں دیتے جو انصاف کے قریب تر ہو ۔ اور بتایا کہ بکریاں کھیت والے کے حوالے کر دی جائیں وہ بکریوں کے دودھ اور اون سے مستفید ہو مگر بکریاں اس کی ملکیت میں نہ جائیں۔ بکریوں کا مالک اس دوران کھیتی میں زراعت کرے ، زراعت کو سیراب کرے اور جب زراعت اس نوبت تک پہنچ جائے ، جس نوبت پر بکریوں نے اسے تباہ کیا تھا۔ تو بکریوں والا کھیت کی زراعت حوالے کر کے اپنی بکریاں واپس لے لے۔یہ فیصلہ پہلے فیصلے کی نسبت انصاف کے قریب تر تھا۔ دونوں منصف اس فیصلے پر متفق ہو گئے۔

عدالتوں میں مقدمہ پیش کرنا اور اس پر اپنے مدلل کلام کے ذریعے اثر انداز ہونے کا ذکر سیرت کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ مگر بنیادی بات یہ ہے کہ جب کوئی مقدمہ عدالت میں پیش ہو اس پر کسی فریق کو یہ شکائت پیدا ہونا تو ممکن ہے کہ اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا گیا مگر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کہ مظلوم کی شکائت سنی ہی نہ جائے اور اس کو انصاف مہیا کرنے ہی سے انکار کر دیا جائے۔سابقہ وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب کے پنامہ کیس کے بارے میں کچھ لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ سو فی صد انصاف نہیں کیا گیا مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عدالت نے ان کے مقدمے کو سنا ہی نہیں ہے۔ ۱۹۶۹ میں اسلامی ممالک کی تنطیم کے قیام کے بعد جب مسٗلہ فلسطین کو اقوام عالم کی عدالت میں لایا گیاتو اس فیصلے پر اکثر مسلمانوں کو اعتراض ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اقوام عالم نے مسٰلے کو سنا۔ اس پر غور کیا اور ایک قرار داد منظور کی۔ یہ گلہ کسی کو بھی نہیں ہے کہ بات سنی نہیں جاتی یا انصاف نہیں کیا جاتا مگر انصاف کے معیار پر تنقید کی جاتی ہے۔ کم معیار کا انصاف بھی گلے شکوے دور کرنے میں مددگار ہی ہوتا ہے۔ اعلی معیار کا انصاف اعلی معیار کا امن قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

جب پاکستان کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ سیاسی طور پر زندگی اور موت جیسے حالات تھے قائد اعظم نے اپنا مقدمہ اس مدلل انداز سے پیش کیا کہ گاندہی اور نہرو ہی نہیں لارد مونٹ بیٹن سے لے کر برطانوی وزیر اعظم تک ان کے دلائل کو رد نہ کر سکے اور پرامن طور پر ایک نئی مملکت معرض وجود میںآ گئی۔ مگر وجود میں آنے کے اعلان کے ساتھ ہی ایسی قتل و غارت شروع ہوئی جس کو قائداعظم اور  
مہاتما گاندہی بھی بند نہ کراسکے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مقدمہ کئی دہائیوں تک لڑا گیا مگر قائد اعظم نے پاکستان بنا کر یہ سبق بھی دیا کہ سچے مقدمے کو لڑنے کے لیے بھی قابلیت اور سلیقہ اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ 
بر صغیر میں ۱۹۴۷ میں انسانی خون سے جو رنگین ہولی کھیلی گئی۔ شیطانی اور انسانیت دشمن قوتیں وقفے وقفے سے اس عمل کو دہراتی رہی ہیں۔ ہندو اورمسلم کش فسادات کے بعد یہ کام پاک و ہند کے مابین جنگوں کی صورت میں جاری ہے۔۱۹۴۸ کی جنگ میں کشمیر کا کچھ حصہ کھو جانے کے بعد ۵۶ میں پورے کشمیر کو چھین لینے کے لیے ۵۶ کا معرکہ برپا ہوا۔ اکہتر میں بتایا گیا یہ ۵۶ کی جنگ کا بدلہ ہے۔ بلوچستان کی بد امنی کا ڈانڈےخالصتان سے جا ملتے ہیں۔ کارگل کے بدلے سرجیکل سٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔سرجیکل سٹرائیک کا بدلہ پلوامہ کہا گیا۔ پلوامہ کا بدلہ دو جہاز گرا کر اور ایک ہوا باز کو قیدی بنا کر لیا گیا ۔ بدلہ لینا انسان کی جبلت میں شامل ہے مگر اللہ اور اس کے بندوں سے رحمت العالمیں کا لقب پانے والے نبی نےبدلہ کی بجائے قصاص کو رواج دے کرانسانیت کو ایک نئی راہ دکھائی اور اللہ تعالی نے بدلے سے دستبردار ہونے کو بڑی بات قرار دیا 

الہامی کتابوں میں جو جنگوں کے واقعات کا ذکر ملتا ہے ان میں یمن کی ملکہ بلقیس کے الفاظ قران نے نقل کرتے ہوئے اس تباہی اور بربادی کا ذکر کیا ہے جو جنگیں معاشروں پر مسلط کرتی ہیں کہ معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور با عزت لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں۔ انسان بلقیس کی اس جسارت پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب اس کے جرنیل اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرا چکے تو اس نے اپنے عوام کو امن دینے کا فیصلہ کیا ۔ قران نے بلقیس کے واقعے کو بیان کر کے حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنے کی ترغیب دی ہے وقتی طور پر مشکل فیصلے بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کا مشکل فیصلہ اس کی مثال ہے

پائیدار اور مشکل فیصلے وقتی طور پر شکست دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں واجپائی کو بزدل اور نواز شریف کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑہانے کے طعنے دیے گئے۔ مودی کو جب وہ نواز شریف کی سالگرہ پر لاہور آیا تو بھارت میں اس پر پھبتیاں کسی گئیں۔ پاکستان میں مشرف کے کارگل کے کارنامہ کو پاکستان کی ایسی فتح بنا کر پیش کیا گیا جیسے اس نے پورا بھارت فتح کر لیا ہو۔ نواز شریف کی امن کی خواہش کو مودی کا یار کہہ کرطعنہ بنا دیا گیا مگر وقت نے ثابت کیا دو جوہری طاقتوں کے مابین امن کی خواہش زندگی اور انتقامی نعرے انسانیت کی بربادی ہے ۔

  بر صغیر میں ۲۶ جنوری کے بعد کنٹرول لائن کے دونوں اطراف امن کی خواہش ایک امید بن کر اٹھی ہے۔ پاک و ہند میں موجود امن پسندوں، انسانیت کے دوستوں، محبت و آشتی کے مبلغوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس خواہش کو امن کے بیج کی طرح اس کی کاشت کریں ، جب ننھی کونپلیں نکلیں تو اس کے گردآگاہی اور دلائل کی مضبوط باڑھ لگائیں، یہ آسان کام نہیں ہے مگر ممکنات میں سے ہے۔ 

ہماری حکومت نیا پاکستان بنانے کی دعویدار ہے ، اس نے کئی درجن مسلح گروہوں کو نابود کر دینے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے حکومت کی پشت پر ہیں۔ حکومت کو پاکستان کے امن پسند، محب وطن، امن کا مقدمہ مدلل طور پر لڑنے کے اہل شہری اپنی پشت پر کھڑے ملیں گے البتہ اندرونی حالات بہتر کرنے کے لیے ان لاوڈسپیکروں کی بیٹری نکالنے کی ضرورت ہے جو اپنی ساری توانایاں پاکستانیوں کو غیر ملکی ایجنٹ اور وطن دشمن ثابت کرنے پر صرف کرتےہیں ۔ ایک وقت تھا کفر کا فتوہ استعمال کیا جاتا تھا اس کی جگہ غدار کا لفظ استعمال کر کے سیاسی مخالفیں سے اپنے بغض و حسد کی تسکین کی جاتی ہے۔ ہم نے اکہتر میں اس رویے سے نقصان اٹھایا ہے

۴۸ سے لے کر بھارتی ہوا باز کہ رہائی تک تمام جنگوں اور معرکوں کے ڈانڈے کشمیر سے ملتے ہیں۔ کشمیر کو نہ بھارت ہڑپ کر سکتا ہے نہ پاکستان چھین سکتا ہے۔ اس خونی لکیر کے آرپار ستر ہزار انسانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ اس مسٗلے نے آخر کار بات چیت سے حل ہونا ہے۔ کشمیری جان کی بازی لگا کر بھی اور پاکستان اپنے وجود کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنا نقطہ نظر اقوام عالم کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہے۔ ہمیں اپنی ان خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔ فیصلہ میز پر بیٹھ کر ہو یا کسی عدالت میں ہمیں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے سیاستدانوں کو موقع دینا ہوگا۔ عدالت کوئی بھی ہو جانبدار نہیں ہوا کرتی ۔ مقدمہ جیتنے کے لیے مضبوط دلائل کے ساتھ ساتھ دلائل پیش کرنے کا سلیقہ بھی ایک مقام رکھتا ہے۔ ہمارے دلائل اگر دنیا سمجھ نہیں پا رہی تو ہم دنیا کو اپنا موقف سمجھا بھی نہیں پا رہےہیں ۔ ہمیں مقدمے کے لیے اپنے وکیل ہی نہیں پیش کرنے کا سلیقہ بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ بہتری کے لیے ہمیں اعتراف کا کڑوا پیالہ پینا ہی ہو گا ۔ ہمارا مقدمہ حقائق پر مبنی ہے، ستر ہزار جانوں کی قربانی، دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، اور کشمیریوںکا ہر فورم پر سینہ سپر ہونا، ایسے حقائق ہیں جن کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا  

گھر کی صفائی شروع کر ہی دی گئی ہے تو سیاسی اختلافات، قانونی بے انصافیوں اور حکومتی جبر کے تاثرات کو بھی دھو ڈالنے کا یہی موقع ہے۔ یہ بات وقت نے سچ ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کو خطرہ کسی بیرونی طاقت سے نہیں اندرونی طاقت ور عناصر سے ہے۔ اندرونی عناصر کو نابود کرنے کی بجائے ان کو رواں دھارے میں شامل کرنے کے لیے بات چیت ہی بہتر اور کامیاب کوئی لائحہ عمل ثابت ہو گی۔

ابن آدم کی برپا کردہ پہلی جنگ نے چار مین سے ایک کو نگل کر چوتھائی انسانیت کو ختم کر دیا تھا۔ اب انسان کےپاس ایسے مہلک ہتھیارموجود ہیں کہ جنگ کی صورت میں چوتھائی انسانوں کا بچ جانا بھی معجزہ ہی ہو گا۔


پیر، 4 مارچ، 2019

پنجاب پولیس

                  
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی ابینندن نامی ہوا باز جس کے جہاز کو پاکستان نے گرایا اور اسے گرفتار کرنے کے بعدامن اور جذبہ خیر سگالی کے اظہارکے طور پر آزاد کر کے واپس بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی رہائی پر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہلکے پھلکے اندازمیں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک منچلے نے لکھا 
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ 
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔ 
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔ 
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔ 
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا 


اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں