politics لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
politics لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

اتوار، 6 مئی، 2018

عمر کا کوڑا


ہمارے ہاں اسلامی نظام کا ذکر آٗے توحضرت عمر بن خطاب ؓ کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے ۔ عمر ایسا با برکت نام ہے کہ جب بھی عمر نام کے کسی خلیفہ کی حکومت آئی امن و امان کے حوالے سے وہ دور منفرد ثابت ہوا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں بھی امن و امان خوب رہا بلکہ معاشی درستگی کے حوالے سے ان کا دور اس لیے منفرد رہا کہ جب انھوں نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی تو کرپشن عام تھی، مگر ہم حیران ہوتے ہیں کہ تقریبا دوسال کے عرصے میں ملک سے کرپشن ہی کا خاتمہ نہ ہوا بلکہ اس دور میں رسول اللہ کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی کہ معاشی محتاجگی کا خاتمہ ہوا ۔
حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبدالعزیزکی شخصیات انتظامی لحاظ سے بالکل مختلف تھیں ، ایک عمر کے دوران کا شعار ان کا ْ کوڑا ْ تھا تو دوسرے عمر کے دوران میں ْ سزا ْ کا فقدان نظر آتا ہے ۔حکمرانوں کے بارے میں بعض باتیں مشہور ہو جاتی ہیں جو ہوتی تو حقیقت ہیں مگر ان میں غلو ہوتا ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا کوڑا اتنا موٹا نہیں تھا مگر تاریخ کے غلو نے اس کو ضرورت سے زیادہ نمایا ں کر کے ایک فقیر منش، خوف خدا رکھنے والے حکمران کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔
کوڑا سختی کی علامت ہے ، اسلام میں سختی کی حوصلہ شکنی پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالی خود انسان کو موقع دیتا ہے کہ ْ مانو یا انکار کر دو ْ خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سختی سے بالکل ہی مبرا ہیں ۔ بلکہ تسخیر انسان کا جو رستہ بتایا گیا وہ تسخیر قلوب ہے۔ اور عام سی بات ہے کہ دل سختی سے نہیں بلکہ ْ پیار ْ سے مسخر ہوتے ہیں۔ پیار کل بھی تسخیر قلوب تھا اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ 
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سختیاں جو بہت سارے مصاحب کو جنم دے چکی ہیں ۔ ان کو پیار اور محبت کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی ابتداء خود فرد کی ذات سے ہوتی ہوئی خاندان اور معاشرے میں پھیلتی ہے ۔ پیار اور محبت اگرْ منزل ْ مان لی جائے تو اس تک پہنچنے کی راہ کا نام ْ روا داری ْ ہے