منگل، 17 جون، 2025
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"
جمعرات، 12 جون، 2025
ایران پر اسرائیلی حملہ
بدھ، 11 جون، 2025
طاق اور دیا
1980
کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"
میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)
یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔
لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔
ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔
معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔
علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے
منگل، 10 جون، 2025
دانت ٹوٹنے کے بعد بھی ۔۔۔
جمعرات، 5 جون، 2025
سعودی شہزادہ
عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے
تحریر: دلپزیر
سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔
پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔
یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔
یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔
Field Marsha Asim Munir
In a landmark decision that will be remembered in Pakistan’s military and political history for years to come, General Asim Munir has been promoted to the highest military rank of Field Marshal—a rare and symbolic honor. The move was initiated by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif, approved by the federal cabinet, and formally endorsed by the President of Pakistan, Asif Ali Zardari. This unanimous act of state reflects a powerful message of unity, national pride, and deep appreciation for military leadership.
The entire country witnessed this moment with respect and admiration. The Pakistan Army celebrated the promotion as a symbol of continuity, strength, and stability. Among civilians, the sentiment was no different—streets, homes, and digital spaces echoed with pride as people recognized the elevation of a General who has never shied away from duty or sacrifice.
Field Marshal Asim Munir, known for his calm yet resolute demeanor, did not take the occasion as a personal victory. In a humble and deeply touching statement, he said, "This promotion is not for me, but an appreciation of the sacrifices made by our military and civilian martyrs." He further declared, "A thousand Asims will sacrifice for Pakistan," a statement that has since captured the hearts of millions. These words carry the power of inspiration—reminding every soldier and citizen that the spirit of sacrifice and love for the motherland is eternal.
In recent years, Pakistan has faced multiple regional and global challenges. Whether it is the looming threat from across the eastern border or international diplomatic pressure, Field Marshal Asim Munir has stood his ground with dignity and resolve. His ability to take timely, bold decisions and stay at the war front alongside his troops has not gone unnoticed.
Where many choose to lead from behind, he chose to lead from the front, showing the courage and confidence of a true commander. His Command has sent a strong message to adversaries: Pakistan may face a force ten times larger, but it will never bend, never break.
In Field Marshal Asim Munir, the nation sees the return of something it had long yearned for: a man who speaks clearly, acts decisively, and embodies the will of the people and the soldier alike. His rise is not just a military promotion—it is a revival of faith in leadership, strategy, and national defense.
His words have stirred the soul of a nation, his actions have strengthened the resolve of the armed forces, and his presence has reminded the Muslim world what it looks like when a general stands with unwavering will and a clean heart.
This historic promotion has not only strengthened the morale of the military but also brought a renewed sense of unity and confidence to the people. For the first time in years, Pakistanis across the board feel that the state has recognized a General who leads with vision and loyalty, not for personal gain but for the cause of the nation.
At this proud moment, the people of Pakistan salute this decision taken by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif and President Asif Ali Zardari. Their act has not only strengthened the institution of the Army but also demonstrated the power of democracy working in harmony with national defense.
بدھ، 4 جون، 2025
پرانی ڈھولکی نئی تھاپ
بدھ، 28 مئی، 2025
نریندرمودئ سے سرینڈرمودی تک کا سفر
مئی 2025 میں جب بھارت نے پہلگام حملے کے بعد "آپریشن سندور" کا اعلان کیا، تو نریندر مودی کا انداز، زبان اور لب و لہجہ مین روایتی "چوکیدار" مودی تھا جو پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرتا، گولی کا جواب گولی سے دینے کے نعرے لگواتا اور اپنے ووٹر کو ایک جارحانہ طاقت کا خواب دکھاتا تھا۔
آپریشن سندور بھی اسی بیانیے کا تسلسل تھا۔ بھارتی میڈیا پر جنگی ترانے، ٹاک شوز میں فتح کے نعرے، اور مودی کے چہرے پر روایتی اکڑ نمایاں تھی۔
مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ بیانیے صرف بولنے سے نہیں، نبھانے سے بنتے ہیں — اور یہی وہ مقام تھا جہاں "نریندر" کا بیانیہ "سریندر" میں بدلنے لگا۔
پاکستان کی طرف سے روایتی شور شرابے کے بجائے ایک غیر متوقع خاموشی دیکھنے کو ملی — لیکن یہ خاموشی طوفان سے کم نہ تھی۔ ایک طرف سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھرپور موجودگی دکھائی، اقوام متحدہ، چین، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کو صورتحال سے آگاہ کیا؛ دوسری طرف عسکری سطح پر بھارت کو سمجھا دیا گیا کہ "حقیقی طاقت وہ نہیں جو کیمرے دکھائیں، بلکہ وہ ہے جو دشمن کی زبان میں جواب دے۔"
بھارت کو اندرون خانہ دفاعی پوزیشن لینی پڑی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مودی حکومت کو اندازہ ہوا کہ بیانیہ اب نہیں چلے گا۔
مودی حکومت نے آہستہ آہستہ اپنی زبان بدلنی شروع کی۔ گولی، بدلہ، جنگ، دشمن، اور فتح جیسے الفاظ کی جگہ ترقی، خودانحصاری، آتم نربھر بھارت، نوجوانوں کی تربیت، اور میک ان انڈیا جیسے نرم مگر بھاری الفاظ نے لے لی۔
وزیر اعظم مودی نے ایک تقریر میں کہا:
"آپریشن سندور اب صرف فوجی کارروائی نہیں، ایک قومی مہم ہے۔ یہ ہماری اندرونی ترقی، قومی یکجہتی اور خودانحصاری کی علامت ہے۔"یہ وہی مودی تھے جنہوں نے دو ہفتے قبل کہا تھا:
"ہم گھر میں گھس کر ماریں گے، اور دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔"
نریندر مودی اب اپنے بیانیے میں دفاعی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تحمل، تیاری اور بروقت ردعمل نے انہیں مجبور کیا کہ وہ عسکری رنگ کو دھندلا کر ترقیاتی رنگ چڑھائیں۔ ایک ایسا لیڈر جس کی پوری سیاست پاکستان مخالف جذبات پر کھڑی تھی، آج "ہر شہری آپریشن سندور کا سپاہی ہے" جیسے نعرے لگا رہا ہے۔
یعنی بندوقوں کی جگہ بازو، ٹینکوں کی جگہ تربیتی ادارے، اور "سرجیکل اسٹرائیک" کی جگہ "اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام"۔
یہی وہ لمحہ تھا جہاں نریندر، سریندر بنے۔
مودی کو یقین تھا کہ وہ جارحانہ فوجی کارروائی سے پاکستان کو دباؤ میں لے آئیں گے، جیسا کہ وہ اپنے ووٹروں کو باور کراتے تھے۔ مگر اس بار، ان کی غلط فہمی دور ہو گئی — اور وہ بھی اسی زبان میں جو وہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان نے مودی کو پیغام دے دیا کہ نہ صرف وہ تیار ہے، بلکہ اب دنیا کو بھی اپنا مؤقف منوانا جانتا ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو نریندر کو شاید سیاست کے میدان میں پہلی بار اتنے خاموش انداز میں پڑھایا گیا ہے۔
آج آپریشن سندور کا ذکر "ترقی" اور "یکجہتی" کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ روشنی اصل میں بیانیے کے اس دھوئیں سے نکلی ہے جو میزائل کی زبان میں بولا گیا اور خاموشی سے دفن ہوا۔
جمعہ، 11 اپریل، 2025
میرا دل خراب ہے
یہ محض ایک جملہ نہیں تھا، ایک فقرہ تھا جو دل کی گہرائیوں سے نکلا، مگر پوری قوم کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا:
"میرا دل خراب ہے۔"
یہ بات سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف نے حالیہ دنوں میں سینئر صحافی انصار عالم سے کہی، جب ان سے بلوچستان اور ملک کے سیاسی استحکام میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس سے پہلے یہی جملہ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہہ چکے ہیں — "دل خراب ہے"۔
سوال یہ نہیں کہ ان شخصیات کا دل کیوں خراب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خدمت کرنے والوں کا دل آخر خراب کیوں نہ ہو؟
ایک طرف قوم ہے جو ان ہی شخصیات کو نجات دہندہ سمجھتی ہے، اور دوسری طرف طاقت کا وہ نامعلوم مرکز ہے جو ہر بار خدمت کرنے والوں کو یا تو رسوا کرتا ہے، یا خاموشی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔
نواز شریف کو بلوچستان کے رہنما محمود خان اچکزی، مولانا فضل الرحمان، اور شاہد خاقان عباسی جیسے سینئر سیاست دانوں نے قومی قیادت کے لیے آگے بڑھنے کو کہا۔ مگر جواب میں یہ جملہ: "دل خراب ہے" — ان کے اندر کی تھکن، رنج اور بےبسی کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔
کیا یہ وہی نواز شریف نہیں جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا؟ کیا ہر بار اسے گھر بھیجنے کا فیصلہ عوام نے کیا، یا کہیں اور سے ہوتا رہا؟ کیا کبھی ترقی کے منصوبے اس کی حکومت سے منسلک کیے گئے، یا صرف مقدمے، نااہلیاں، اور جلاوطنی؟
پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیجیے، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، مگر انہیں نظر بند کیا گیا، ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ کیا یہ سب ایک آزاد ملک میں ہوا؟ یا کہیں نہ کہیں غیر ملکی اثر و رسوخ نے فیصلہ سازوں کو مجبور کیا؟
پاکستان کی تاریخ ایسے ہی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو اگر ریاست کے حقیقی مفاد کی بات کریں تو یا تو "چڑھا دیے جاتے ہیں"، یا "خاموش کر دیے جاتے ہیں"۔
بینظیر بھٹو کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور آج کل کی صحافت میں انصار عباسی، سلیم صافی، مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کی گمشدگیاں یا مقدمات — سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بولنے، سوچنے، یا کچھ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
یہ سب ایک سوچے سمجھے نظام کا حصہ ہے، جس میں "ریاست کے مفاد" کو عوامی مفاد سے بالاتر کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھانے والے کو غدار، اور سچ بولنے والے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
اور یہی وہ ماحول ہے جہاں ایک مخلص سیاستدان، ایک عظیم سائنسدان یا ایک بےباک صحافی آخر کار کہہ اٹھتا ہے:
"میرا دل خراب ہے۔"
یہ جملہ دراصل ایک فرد کی مایوسی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔
یہ ان تمام پاکستانیوں کی زبان ہے جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں، مگر جنہیں اس محبت کی سزا ملتی ہے۔
یہ ان کرداروں کی آواز ہے جو پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر ہر بار کوئی "پوشیدہ ہاتھ" انہیں روک لیتا ہے۔
اور جب تک یہ سوال باقی ہے — کیا پاکستان کسی کو پاکستان کی خدمت کرنے دیتا ہے؟ —
تب تک دل خراب ہوتے رہیں گے… اور شاید دل ٹوٹتے بھی رہیں۔
جمعہ، 3 مئی، 2019
بندہ نواز
بدھ، 1 مئی، 2019
وقت
پیر، 4 مارچ، 2019
پنجاب پولیس
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا
اتوار، 3 مارچ، 2019
تلوار سےایٹمی میزائل تک
اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔
جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔
ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔
جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ
ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ
ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔
پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔
جمعرات، 24 جنوری، 2019
بدھ، 14 نومبر، 2018
زندگی اور موت
ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018
تشدد
دوسری قسم کا انسان جب علم کا ایک زینب طے کر کے اس پر قناعت کر لیتا ہےتو وہ سابقہ زینوںکو کم تر سمجھ کر انھینں مردود قراردیتا ہے، اور علوی زینوں سے نا مانوسیت کے سبب ان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ خوفزدہ شخص اپنی لا علمی کے سبب متشدد ہو جاتا ہے ۔ گو تشدد کا سبب خوف ہوتا ہے مگرسبب لا علمی ہی بنتا ہے ۔ یہ وہ عنصر ہے جو معاشرے کو تشدد کی طرف دھکیلتا ہے ۔سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بد زبانی لچر پن اور گالی گلوچ بھی تشدد ہی کی ایک قسم ہے
اتوار، 6 مئی، 2018
5th Generation War
ففتھ جنریشن وار کی تشریح کرتے ایک امریکی جرنیل شانون بیبی Shannon Beebi نے کہا تھا کہ یہ تلخی اور مایوسی کا پیدا کردہ ایسا پر تشدد بھنور ہو گا جو کسی کو کچھ سجھائی نہ دینے والی کیفیت پیدا کر دے گا۔ مگر مقتدر قوت کی گرفت میں رہے گا ۔ اس کو یون بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھنور کو جو گرفت میں لے پائے گا وہی مقتدر قوت ہو گی۔
اس کی ابتداء یون ہو گی کہ معاشرے اور انسانوں کی تمام تر محرومیاں آنکھوں کے سامنے یون سجا دی جائیں گی جیسے میز پر رکھے گلدان میں رنگین پھول سجائے جاتے ہیں، ہر پھول اور ہر رنگ آنکھوں کے ذریعے دماغ میں احساس محرومی پیدا کرتا رہے گا۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد فورتھ جنریشن وار کی تکنیک کے ذریعے اس جنگ کو جیتا جائے گا جس کا تجربہ 1979 میں افغانستان سے شروع ہو کر عراق اور لیبیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
میرین کارپ مییگزین Marine Corp Magazine میں سائع ہونے والے ایک مضمون میں Lt Col Stanton Coerr کے مطابق ملکوں اور معاشروں میں سیاسی تعطل اس جنگ کے حربوں میں ایک حربہ ہے۔کرنل نے لکھا ہے اس جنگ کو فوجی جنتا ہی جیتے گی جس کی ہم نصرت کر رہے ہوں گے، وہ کچھ بھی نہ کھو کر کامیاب ہوں گے تو ہم ناکام نہ ہو کر کامیاب ہو جائیں گے
جمعہ، 30 مارچ، 2018
عوام پوچھتے ہیں
اکیسویں صدی کے اٹھارویں سال میں ہم ججوں کی زبانی سنتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔دوسرے چینل پر ایک ایسے شخص کا انٹرویو نشر ہوتاہے جس پر عدالت کے حکم سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔وہ عدالت کے بارے صاف بتاتا ہے کہ فلاں جرنیل نے عدالت پر اثر انداز ہو کر اس کے حق میں عدالت کو مجبور کیا ہے۔مشرف جھوٹاہے یا جج سچے ہیں ۔یہ سوال ہے مگر جواب میں کہا جاتا ہے کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو نظر بھی آئے ۔محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شائد مسعود کے مقدمے میں فرمایا ہوا ہے کہ آج کے دن معافی کا موقع ہے ۔آج کے بعد یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔شاید اس کیس میں انصاف ہوتا ہوا لوگوں کو نظر آ جائے۔مگر عوام کا انصاف پر اعتماد قائم ہے البتہ راو انور کیس میں مجرم کے سامنے ججوں کی بے بسی نے عوام کے ججوں پر اعتماد کو شدید مجروع کیا ہوا ہے۔
دوسری طرف سیاست دانوں کا ایک گروہ ہے ۔ جس کوججوں نے سیسلین مافیا بتایا ہوا ہے۔ اور اس گروہ کے رہنماء کی رہبری پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے شاعری کے اعلیٰ ذوق اور انگریزی ناول کے ایسے کردار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔جس کا نام سن کرحکومتیں لرز جاتی ہیں مگر پاکستان میں عوام نے جوتا مار کر ان سیستدانوں کی بے بسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔
ہمارے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ کا بیان معنی خیز ہے جب انھوں نے افغانستان میں موجود طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تناطر میں کہا کہ کسی منظم فوج کو شکست دینے کی نسبت ذہن میں راسخ ہوئے نظریات کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔مسٗلہ یہ ہے کہ ایسے بیانات صرف امریکہ ہی میں نہیں ملک کے اندر بھی پڑہے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا بیان صرف ہمسائے کے لیے ہے ؟
بدھ، 14 مارچ، 2018
مسکراتے لیڈر
فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سول ادارے اور پولیس ان کو جان کا تحفظ دینے میں ناکام ہوئی ہے اور عسکری اداروں نے دہشت اور خوف کو قابو کر کے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔ آسمان ابھی تک صاف نہیں ہے ،دہشت کے سائے اور خوف کے کالے بادل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی جان کو اپنے تحفظ کا یقین نہیں ہے۔ جب انسان کی جان پر بنی ہوتو اس کی بھوک مفقود اورنیند عنقا ہو جایا کرتی ہے۔ ذائقے اور نرم بسترے بھی اسی وقت راحت بخشتے ہیں جب انسانی جان کو تحفظ دستیاب ہو۔متذکرہ علاقوں سے عسکری چھتری کو ہٹا کر حالات کا تصور کریں تو انسانی خون سڑکوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں جمہوری تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے موجودہ سینٹ کے انتخاب کے نتائج کو دیکھیں تو ان علاقوں سے منتخب ہونے والے افراد ، ان کا کردار ، جان کی خوف کا ڈر اور جان کے تحفظ کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی حالت کو اگر یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ بہت سی آسائشوں کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حکمرانی ایسا نشہ ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہمارے سابقہ نہ ڈرنے والے حکمران کی کتاب میں موجود ہے۔انسانوں کو عمارتوں کے اندر بند کر کے جلا دینا، جسم کو جلا دینے والے بارود سے بے ضرر بچیوں کو بھون دینا حکمرانی کے کھیل گردانے جاتے ہیں۔ دنیا میں آنکھوں پر پٹی صرف دو لوگوں کی آنکھوں پر بندھی دکھائی دیتی ہے ایک طاقت کی طمع کے حریص حکمران اور دوسرے انصاف کا میزان برابر رکھتے جج۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے حکمران کئی آنکھوں سے دیکھتا اور کئی کانوں سے سن رہا ہوتا ہے تو یہی حال جج کا ہوتا ہے کو ایک قاتل کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے کئی آنکھوں سے واقعات کو دیکھتا اور کئی کانوں سے حالات کو سنتا ہے۔
حکمرانی کو قائم رکھنے طریقے دو ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو عمر بن خطاب نے اختیار کیا تھا مگر وہ مشکل اور کانٹوں بھری راہ ہے ۔ صرف کفار ہی اس کو اپنانے میں اپنی بقا پاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو پاکستان میں ستر سالوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا لازمی نہیں ہے ۔ سادہ سا فارمولا ہے اور فارمولا بھی ایسا کہ مساوات کے دائیں رکھو یا بائیں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ اور فارمولا یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھو۔
جان کا خطرہ درٓمدی اورنیا ہے مگر کارگر ہے۔ فاٹا و بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ جمہوریت کے متوالوں کو جان کی امان پا کر کرسی پر براجمان مسکراتے رہنماء مبارک ہوں ۔
جمعہ، 9 مارچ، 2018
خاکہ
کے الیکشن کا زمانہ تھا ۔ لاہور سے اٹھی پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے سپوت ذولفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا۔نعرہ ان کا ْ روٹی، کپڑا اور مکان ْ کا تھا ۔ بھوک ، نا انصافی، جاگیرداروں اور غاصب حکمرانوں سے مایوس عوام نے سکھ کا سانس لیا۔بھٹو نے حلقے میں کھمبے کو ووٹ دینے کا کہا تو لوگوں نے دیا۔کھمباکیا ہوتا ہے؟ راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے، مقدمہ ان کے پاس کوئی نہیں،بھٹو کی پارٹی جائن کی اور ایم این اے بن گئے۔پہلے وزیر بے محکمہ پھر ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے۔پہلی بار ہم نے اخباروں میں پڑہا کہ ریلوے کا پورا انجن کیسے غائب ہوتا ہے۔بھٹو البتہ امین تھے۔کیا سیاستدان صادق ہو سکتا ہے ۔ اس موضوع پر فتویٰ لال حویلی ولے شیخ کا حق ہے۔
بھٹو کی مقبولیت کم نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا الیکشن بھی جیت گئے تھے۔ چاند صورت ،بھٹو کے خلاف پہلے نو ،پھر گیارہ ستارے چنے گئے۔ اصغر خان بھٹو کے مخالف تھے، جیسے عمران خان نواز شریف کے مخالف ہیں۔عوام نے روز روز کے جلوسوں سے تنگ آ کر راولپنڈی میں بینر لگایا ْ خلقت مٹ جائے گی تو انصاف کرو گے ْ ۔ عوام کے ساتھ انصاف ہوا ۔بھٹو پھانسی کے پھندے پرجھول گئے۔عوام کے نصیب میں جنرل ضیا ء آئے۔کسی نے انھیں بطل اسلام کہا، کسی نے امیر المومنین جانا،کسی نے فلم سٹار کی آنکھوں کو لے کر ان پر طنز کیا مگر تقدیر کے سامنے سب ہار گئے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر صحن میں دفن ہیں۔
بھٹو کی بیٹی بے نظیر آئی، نواز شریف نے ان کی ٹانگ کھینچی، شور شرابہ ہوا اور نوز شریف حکمران چن لیے گئے۔ان کو ایک اور بطل نڈر جنرل مشرف نے چلتا کیا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جس دن جنرل مشرف نے پیارے ہم وطنوں کو مخاطب کیاتو دوسرے دن نوجوان گل محمد مسکراتا میرے پاس آیا
ْ آپ نے تقریر سنی ْ
میری بد قسمتی کہ میں تقریر نہ سن پایا تھا۔نوجوان کی خوشی دیکھ کر میں نے اسے کریدا
ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ
جنرل مشرف کے صیح یا غلط ہونے پر صفحات بھرے پڑے ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ ہماری تلاش ْ صیح آدمیْ کی ہے۔مطلوب صیح آدمی کی جو صفات ہمارے ذہن میں رچ بس گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ عمر بن خطاب کی طرح اپنے کرتے میں سترہ پیوند سجائے ہو، یقین اس کا ابوبکر کی طرح مضبوط ہو، شجاع علی المرتضی جیسا ہو، حق گوئی میں حسین ابن علی کے ہم پلہ ہو، خالدبن ولید جیسا فاتح ہو، رات کو عبادت میں کھڑا ہو یا عوام کی پہرے داری کرے اور دن کو انصاف کا بول بالا کرے۔
ہم چند دوست مل کر اپنے مطلوب رہنماء کا خاکہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مشق میں سالوں بیت گئے مگر خاکہ بن نہیں پا رہا۔ ایک دوست نے خاکہ بنایا تھا بالکل قائداعظم کی طرح تھامگر دوسرے دوست نے اس خاکے کو شلوار قیض پہنا دی، تیسرے نے داڑھی بنا دی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
ہم پانچ لوگ کسی خاکے پر متفق نہیں ہو پارہے ہیں۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ آپ بھی ایک خاکہ بنائیں ، اپنے دوستوں کی رائے لیں ۔ اگر آپ پانچ لوگ بھی کسی خاکے پر متفق ہو جاتے ہیں تو آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔