pakistan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
pakistan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 17 جون، 2025

"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"




دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری

چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز، اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے، اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری

امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے، جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ

امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ، اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین

اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ

امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"

جمعرات، 12 جون، 2025

ایران پر اسرائیلی حملہ




13
 جون 2025 کا دن مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب بن کر ابھرا۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے بھرپور حملوں نے نہ صرف خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی، بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی ایک نئے بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

ان حملوں کا کوڈ نام 
"Rising Lion"
 رکھا گیا۔ اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات، خصوصاً نطنز، کے ساتھ ساتھ عسکری اور میزائل مراکز پر فضائی حملے کیے۔ ایران کی طرف سے اس کارروائی کو "بقیہ حسرت" کا نام دیا گیا، جو اس کے شدید ردعمل کا مظہر ہے۔
اسرائیل نے صرف عمارات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ایران کی فوجی اور سائنسی قیادت کو بھی چن چن کر نشانہ بنایا۔

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلیمی، میجر جنرل غلام علی راشد اور ممکنہ طور پر چیف آف اسٹاف محمد باقری شائد زخمی ہیں ۔ یہ وہ نام ہیں جو ایران کی عسکری حکمت عملی کا دماغ سمجھے جاتے تھے۔ خامنہ‌ای کے سینیئر مشیر علی شمخانی شدید زخمی ہو کر ہسپتال منتقل کیے گئے۔

جوہری پروگرام میں ایران کے چند بڑے دماغ بھی اس حملے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ فریدون عباسی-داوانی جیسے معروف سائنسدان کی ہلاکت کی ریاستی میڈیا نے تصدیق کی ہے۔ شاہد بہشتی یونیورسٹی سے وابستہ محمد مهدی طهرانچی، عبدالحمید منوشہر اور احمدرضا زلفغہری جیسے پروفیسر بھی مارے گئے۔ ان کی موت ایران کے سائنسی منظرنامے میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئی ہے۔

یہ حملے صرف فوجی نوعیت کے نہیں تھے۔ تہران جیسے شہری علاقوں میں بھی بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں خواتین، بچے اور عام شہری زخمی یا ہلاک ہوئے۔ زیرِ زمین جوہری مرکز نطنز میں دھماکوں نے بنیادی انفراسٹرکچر کو تہس نہس کر دیا، اور اب IAEA اس کی نگرانی کر رہی ہے۔

رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ‌ای نے اعلان کیا ہے کہ ایران اس حملے کا "شدید جواب" دے گا۔ دوسری طرف امریکہ نے اسرائیلی کارروائی میں براہِ راست ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، مگر اس دعوے پر دنیا بھر میں شکوک پائے جاتے ہیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات پہلے ہی نازک موڑ پر تھے۔ اب یہ کارروائی ان مذاکرات کو مکمل طور پر دفن کر سکتی ہے۔ اسرائیل نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور تمام تر فوجی یونٹس کو الرٹ پر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا وہ ایران کے ممکنہ جوابی حملے کے لیے تیار ہے۔

اسرائیل اور ایران کی یہ سرد جنگ اب کھلے میدان میں آ چکی ہے۔ یہ صرف دو ممالک کی جنگ نہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ کی مجموعی سیاست اور دنیا کے ایندھن کے ذخائر پر حملہ ہے۔ جو کچھ بھی ہو، اس کے اثرات نہ صرف تہران اور تل ابیب میں بلکہ دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔

بدھ، 11 جون، 2025

طاق اور دیا



 

1980 

کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"

میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)

انہوں نے دوسرا سوال کیا: "کیا وہ مسلمان تھا؟"
میں نے بتایا کہ "اس کی ساری زندگی کمیونزم کے نفاذ کی جدوجہد میں گزری ہے۔"
عبدالباسط نے سرد آہ بھری، "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھا۔
میں نے حیرت سے پوچھا: "آپ کو ٹیٹو کے مرنے کا دکھ ہے؟"
ان کا جواب آج تک میرے دل میں نقش ہے:
"میں ٹیٹو کو نہیں جانتا، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پڑھے لکھے شخص تک میں اسلام کی حقانیت کا پیغام نہ پہنچا سکا۔"

یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔

ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔

معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔

علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے 


منگل، 10 جون، 2025

دانت ٹوٹنے کے بعد بھی ۔۔۔





دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت اب ایک ایسے ملک میں بدل چکا ہے جس کا اصل چہرہ ’’دکھانے والے دانتوں‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو باہر سے قانون، انسانیت، کثرتیت اور جمہوریت کی بات کرتا ہے، مگر اندر سے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے جہنم بن چکا ہے۔
ہندوتوا کا نظریہ اور RSS کی پالیسی
بھارت کا ریاستی بیانیہ اب مکمل طور پر ہندوتوا کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے نظریہ ساز، ایم ایس گولوالکر نے لکھا تھا:
"ہندوؤں کے سوا باقی سب کو، یا تو ہندو بننا ہو گا، یا بھارت چھوڑنا ہو گا۔"
— We or Our Nationhood Defined (1939)
آج یہی نظریہ بھارتی سیاست، میڈیا، اور عدالتوں میں جھلکتا ہے۔ بی جے پی حکومت اسی فلسفے پر کاربند ہے۔
مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ریاستی اور سماجی مظالم
▪ دہلی فسادات (2020)
بی جے پی رہنماؤں کی تقاریر کے بعد منظم مسلم کش فسادات ہوئے۔ 53 افراد مارے گئے، درجنوں مسجدیں جلائی گئیں۔
نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ریاست گجرات میں 2,000 سے زائد مسلمان قتل ہوئے۔
شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا۔
 NRC 
کی آڑ میں آسام اور بنگال میں لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔
▪ مساجد پر حملے، اذان پر پابندیاں، لو جہاد کا جھوٹا پروپیگنڈا
مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش میں درجنوں مسلمان جوڑوں پر ’لو جہاد‘ کے تحت جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔
بھارتی میڈیا آج حکومت کا ہتھیار بن چکا ہے۔ وہ جو جرم خود کرتا ہے، اس کا الزام پاکستان، بنگلہ دیش، یا کسی مسلمان فرد پر لگا دیتا ہے۔
پلوامہ حملہ 
(2019)
 اس کی مثال ہے جہاں جھوٹے الزامات کے بعد پاکستان پر جنگی دباؤ بڑھایا گیا، حالانکہ بعد میں خود بی جے پی رہنماں نے تسلیم کیا کہ "انتخابی فائدے" کے لیے یہ سب کیا گیا۔
بھارت نے ایک بار پھر اپنے غرور میں پاکستان پر حملے کی کوشش کی، مگر مئی 2025 کی جنگ میں اسے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جدید پاکستانی دفاعی حکمتِ عملی اور عوامی اتحاد کے آگے بھارتی فوج بوکھلا گئی۔
بھارت نے پہلے غرور سے حملہ کیا، اور پھر ترکی، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ کی منتیں کیں کہ "جنگ بندی" کرائی جائے۔ مگر جنگ بندی کے فوراً بعد، یہی بھارت اقوامِ عالم کو آنکھیں دکھانے لگا، گویا اسے شکست ہوئی ہی نہیں۔
یہ اس کی پرانی عادت ہے:
’’طاقتور کے قدموں میں جھک جانا، کمزور کو گلے سے دبوچ لینا۔‘‘
وہی بھارت جو دنیا کے سامنے للکار کر بولتا ہے، بند کمروں میں گڑگڑا کر اپنے مخالف کے پاؤں پکڑتا ہے۔ جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کی میٹنگز میں بھارت نے جھوٹ پر جھوٹ بولا کہ اس نے "فتح حاصل کی ہے"، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے کئی طیارے تباہ ہوئے، بارڈر پر پسپائی ہوئی، اور عالمی سطح پر رسوائی الگ۔
آج کا بھارت:
مسجدیں گراتا ہے، مندر بناتا ہے۔
اقلیتوں کو شہریت سے محروم کرتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلاتا ہے۔
دنیا سے جھوٹ بولتا ہے، اور اپنے عوام کو دھوکہ دیتا ہے۔
جنگ میں شکست کھا کر بھی "جیت" کے بینر چھاپتا ہے۔
دنیا کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کے ’’دکھانے والے دانت‘‘ کچھ اور ہیں، اور کاٹنے والے دانت کچھ اور۔ یہ ملک صرف جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر اقلیتوں کو کچلنے، پروپیگنڈا پھیلانے، اور اپنے جرائم کا الزام دوسروں پر ڈالنے میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا اس ’’دکھاوے‘‘ کو پہچانے۔ بھارت کا اصل کردار بے نقاب ہو چکا ہے، مگر اس پر خاموشی جاری رہی، تو دنیا کو "جمہوریت کے لبادے میں فاشزم" کا سامنا ہو گا۔

جمعرات، 5 جون، 2025

سعودی شہزادہ


 

عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے

تحریر: دلپزیر

سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔

پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔

اگر کوئی وجہ باقی ہے، تو وہ ہے سعودی تعلقات — اور خاص طور پر محمد بن سلمان کا وہ اثر جو ٹرمپ پر قائم ہوا۔ ایک حالیہ مثال رچرڈ گرنیل کی سرگرمی ہے، جو ٹرمپ کے مشیر رہے اور پاکستان کے خلاف سخت بیانیے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب وہ پاکستان پر تنقید کر رہے تھے، تو نہ کسی سفارتکار کی تقریر مؤثر ہوئی، نہ یوتھیاؤں کی امریکہ میں لابنگ کامیاب ہوئی۔
لیکن پھر ایک کال — سعودی وزیرِ دفاع کی طرف سے — اور رچرڈ گرنیل کی آواز بند ہو گئی۔

یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے — اور وہ ہے عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری۔
سعودی ولی عہد کو عمران خان کی شخصیت سے خاصی ناپسندیدگی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آ چکی ہیں:
اول، وہ قیمتی گھڑی جو
 MBS
 کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی، بازار میں بیچ دی گئی۔
دوم، عمران خان کی کابینہ یا قریبی حلقے سے 
MBS
 کے خلاف نازیبا کلمات سعودی سفارتی ذرائع تک پہنچے، جسے ولی عہد نے ذاتی توہین کے مترادف سمجھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما اگر کبھی پاکستان کے لیے کسی نرم گوشے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ نہ اسلام آباد ہے، نہ واشنگٹن کی کوئی پالیسی۔
وہ صرف اور صرف
 MBS
 کی ذاتی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہو گی۔

پاکستان کو مستقبل میں اگر دنیا میں کوئی حیثیت درکار ہے، تو اسے اپنے خارجی تعلقات کو انا، ضد اور ذاتی رویوں سے الگ رکھنا ہو گا۔
سفارت صرف بیانات اور تصویروں سے نہیں چلتی — یہ رشتوں، عزت داری، اور بھروسے سے چلتی ہے۔

یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔


Field Marsha Asim Munir



 In a landmark decision that will be remembered in Pakistan’s military and political history for years to come, General Asim Munir has been promoted to the highest military rank of Field Marshal—a rare and symbolic honor. The move was initiated by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif, approved by the federal cabinet, and formally endorsed by the President of Pakistan, Asif Ali Zardari. This unanimous act of state reflects a powerful message of unity, national pride, and deep appreciation for military leadership.

The entire country witnessed this moment with respect and admiration. The Pakistan Army celebrated the promotion as a symbol of continuity, strength, and stability. Among civilians, the sentiment was no different—streets, homes, and digital spaces echoed with pride as people recognized the elevation of a General who has never shied away from duty or sacrifice.

Field Marshal Asim Munir, known for his calm yet resolute demeanor, did not take the occasion as a personal victory. In a humble and deeply touching statement, he said, "This promotion is not for me, but an appreciation of the sacrifices made by our military and civilian martyrs." He further declared, "A thousand Asims will sacrifice for Pakistan," a statement that has since captured the hearts of millions. These words carry the power of inspiration—reminding every soldier and citizen that the spirit of sacrifice and love for the motherland is eternal.

In recent years, Pakistan has faced multiple regional and global challenges. Whether it is the looming threat from across the eastern border or international diplomatic pressure, Field Marshal Asim Munir has stood his ground with dignity and resolve. His ability to take timely, bold decisions and stay at the war front alongside his troops has not gone unnoticed.

Where many choose to lead from behind, he chose to lead from the front, showing the courage and confidence of a true commander. His Command  has sent a strong message to adversaries: Pakistan may face a force ten times larger, but it will never bend, never break.

In Field Marshal Asim Munir, the nation sees the return of something it had long yearned for: a man who speaks clearly, acts decisively, and embodies the will of the people and the soldier alike. His rise is not just a military promotion—it is a revival of faith in leadership, strategy, and national defense.

His words have stirred the soul of a nation, his actions have strengthened the resolve of the armed forces, and his presence has reminded the Muslim world what it looks like when a general stands with unwavering will and a clean heart.

This historic promotion has not only strengthened the morale of the military but also brought a renewed sense of unity and confidence to the people. For the first time in years, Pakistanis across the board feel that the state has recognized a General who leads with vision and loyalty, not for personal gain but for the cause of the nation.

At this proud moment, the people of Pakistan salute this decision taken by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif and President Asif Ali Zardari. Their act has not only strengthened the institution of the Army but also demonstrated the power of democracy working in harmony with national defense.

بدھ، 4 جون، 2025

پرانی ڈھولکی نئی تھاپ


عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم          

جب قوم کے بچے بچے کو "نیوٹرل" کا مطلب سمجھ آ جائے، اور "پیرنی" گوگل پر ٹاپ ٹرینڈ بن جائے، تو سمجھ لیں کہ تبدیلی آ چکی ہے — اور تبدیلی کسی درخت پر نہیں، بنی گالہ کے ایوانوں میں پکی ہوئی ہے۔

جی ہاں، جناب عمران خان! ایک ایسا نایاب سیاسی پیکج جس میں تھوڑی سی کرکٹ، تھوڑا سا روحانیت کا تڑکا، اور باقی سب پیٹرن۔ جی ہاں، پیٹرن! وہی جس سے کپڑے تو بن سکتے ہیں، لیکن قوم کا مستقبل نہیں۔

شروع کرتے ہیں اُس مشہور زمانہ پیٹرن سے جس میں بغیر نکاح بچی بھی “نعمت” اور الزام بھی "سازش"۔ اسے کہتے ہیں "جدید خاندانی نظام"، جس پر مغرب بھی تحقیق کرنے لگا ہے۔

پھر آیا زکوٰة پیٹرن — جس میں اسپتال کے نام پر چندہ، اور بہنوں کے بزنس کے لیے بونس۔ یہ کوئی عام پیٹرن نہیں، یہ وہ ماڈل ہے جسے

Harvard Business School

نہیں سمجھ پایا ورنہ نصاب میں شامل ہو چکا ہوتا۔

جوئے والا پیٹرن تو خیر ورلڈ کپ جیتنے کے دن سے چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب اس میں "قوم کا مقدر" بھی شامل ہے — ہارے تو عوام، جیتے تو خان صاحب۔

اور بچوں کی پرورش؟ وہ بھی

Elite-International Style

میں۔ یعنی بچے گولڈ سمتھ کے کچن سے ناشتہ کرتے ہیں، اوربا شعور قوم خالی وعدوں سے دن کا آغاز کرتے ہیں

اُدھر جمائما نے بنی گالہ چھوڑا، اِدھر خان صاحب نے اس پر قبضہ جما لیا — اسے کہتے ہیں قبضہ اورپیار کا مکافات

اب آتے ہیں جنرل باجوہ والے پیٹرن کی طرف — پہلے "قوم کا باپ باجوہ"، پھر "میر جعفر"۔ یعنی مطلب درآمد اور تعلقات بر آمد

اور جس برق رفتاری سے خان صاحب نے مانیکا فیملی سے پیرنی کو الگ کیا، اُس پر لاہور ہائی کورٹ کو خود نوٹس لینا چاہیے تھا، کہ یہ کیس طلاق نہیں، تاوان کا بنتا ہے!


کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، کیونکہ خان صاحب کا کمال یہی ہے کہ ہر اسکینڈل ایک نئی قسط بن جاتا ہے۔
رمل علی کی ڈھولکی، مراد سعید کی ٹنل، اور عائلہ ملک کی چھاؤنی — سب کہانیاں "ایکسکلوسو" بھی ہیں، اور "چٹپٹی" بھی۔




توشہ خانہ میں تحفے رکھے نہیں، سیدھے بیچے — پھر رسید دکھا کر فرمایا: "یہ سب قانونی ہے!"
اور القادر ٹرسٹ؟ ارے بھائی، یہ کوئی عام ٹرسٹ نہیں، یہ ڈرامائی ٹرسٹ ہے، جہاں
Trust
کم اور
Trick
زیادہ ہے۔



آخر میں، سانحہ 9 مئی۔ اگر تاریخ میں کبھی "بغاوت کے ناکام خاکے" کے نام سے کوئی کتاب لکھی گئی تو اس کا پہلا باب خان صاحب کے نام سے منسوب ہوگا۔

اور آج خان صاحب خود بن گئے ہیں "پیٹرن اِن چیف" — یعنی ہر پیٹرن، ہر پلاٹ، ہر پلان کے بانی و مہربان!


قوم سوچ رہی ہے کہ "خان صاحب اب کیا کریں گے؟"
ہم عرض کرتے ہیں: خان صاحب کچھ نہ کریں، بس ڈٹیں رہیں… کیونکہ ڈرامے ختم ہو جائیں تو با شعور قوم
اداس ہو جائے گی



عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم

بدھ، 28 مئی، 2025

نریندرمودئ سے سرینڈرمودی تک کا سفر



مئی 2025 میں جب بھارت نے پہلگام حملے کے بعد "آپریشن سندور" کا اعلان کیا، تو نریندر مودی کا انداز، زبان اور لب و لہجہ مین روایتی "چوکیدار" مودی تھا جو پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرتا، گولی کا جواب گولی سے دینے کے نعرے لگواتا اور اپنے ووٹر کو ایک جارحانہ طاقت کا خواب دکھاتا تھا۔

آپریشن سندور بھی اسی بیانیے کا تسلسل تھا۔  بھارتی میڈیا پر جنگی ترانے، ٹاک شوز میں فتح کے نعرے، اور مودی کے چہرے پر روایتی اکڑ نمایاں تھی۔

مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ بیانیے صرف بولنے سے نہیں، نبھانے سے بنتے ہیں — اور یہی وہ مقام تھا جہاں "نریندر" کا بیانیہ "سریندر" میں بدلنے لگا۔

پاکستان کی طرف سے روایتی شور شرابے کے بجائے ایک غیر متوقع خاموشی دیکھنے کو ملی — لیکن یہ خاموشی طوفان سے کم نہ تھی۔ ایک طرف سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھرپور موجودگی دکھائی، اقوام متحدہ، چین، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کو صورتحال سے آگاہ کیا؛ دوسری طرف عسکری سطح پر بھارت کو سمجھا دیا گیا کہ "حقیقی طاقت وہ نہیں جو کیمرے دکھائیں، بلکہ وہ ہے جو دشمن کی زبان میں جواب دے۔"

بھارت کو اندرون خانہ دفاعی پوزیشن لینی پڑی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مودی حکومت کو اندازہ ہوا کہ بیانیہ اب نہیں چلے گا۔

مودی حکومت نے آہستہ آہستہ اپنی زبان بدلنی شروع کی۔ گولی، بدلہ، جنگ، دشمن، اور فتح جیسے الفاظ کی جگہ ترقی، خودانحصاری، آتم نربھر بھارت، نوجوانوں کی تربیت، اور میک ان انڈیا جیسے نرم مگر بھاری الفاظ نے لے لی۔

وزیر اعظم مودی نے ایک تقریر میں کہا:

"آپریشن سندور اب صرف فوجی کارروائی نہیں، ایک قومی مہم ہے۔ یہ ہماری اندرونی ترقی، قومی یکجہتی اور خودانحصاری کی علامت ہے۔"
یہ وہی مودی تھے جنہوں نے دو ہفتے قبل کہا تھا:

"ہم گھر میں گھس کر ماریں گے، اور دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔"

 

نریندر مودی اب اپنے بیانیے میں دفاعی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تحمل، تیاری اور بروقت ردعمل نے انہیں مجبور کیا کہ وہ عسکری رنگ کو دھندلا کر ترقیاتی رنگ چڑھائیں۔ ایک ایسا لیڈر جس کی پوری سیاست پاکستان مخالف جذبات پر کھڑی تھی، آج "ہر شہری آپریشن سندور کا سپاہی ہے" جیسے نعرے لگا رہا ہے۔

یعنی بندوقوں کی جگہ بازو، ٹینکوں کی جگہ تربیتی ادارے، اور "سرجیکل اسٹرائیک" کی جگہ "اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام"۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں نریندر، سریندر بنے۔

مودی کو یقین تھا کہ وہ جارحانہ فوجی کارروائی سے پاکستان کو دباؤ میں لے آئیں گے، جیسا کہ وہ اپنے ووٹروں کو باور کراتے تھے۔ مگر اس بار، ان کی غلط فہمی دور ہو گئی — اور وہ بھی اسی زبان میں جو وہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے مودی کو پیغام دے دیا کہ نہ صرف وہ تیار ہے، بلکہ اب دنیا کو بھی اپنا مؤقف منوانا جانتا ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو نریندر کو شاید سیاست کے میدان میں پہلی بار اتنے خاموش انداز میں پڑھایا گیا ہے۔

آج آپریشن سندور کا ذکر "ترقی" اور "یکجہتی" کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ روشنی اصل میں بیانیے کے اس دھوئیں سے نکلی ہے جو میزائل کی زبان میں بولا گیا اور خاموشی سے دفن ہوا۔

مودی کے لیے اب یہ بیانیہ نہ صرف شکست کی علامت ہے، بلکہ سیاسی چالاکی کی آخری پناہ بھی۔ مگر تاریخ یہ  ضرور لکھے گی کہ مئی 2025 میں مودی نے جو جنگ 
بیانیے کےٹھندے کمرے میں بیٹھ کر شروع کی تھی اسے پاکستان نے جنگ کے گرم محاذ پر دفن کر دیا ہے 


جمعہ، 11 اپریل، 2025

میرا دل خراب ہے



یہ محض ایک جملہ نہیں تھا، ایک فقرہ تھا جو دل کی گہرائیوں سے نکلا، مگر پوری قوم کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا:
"میرا دل خراب ہے۔"

یہ بات سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف نے حالیہ دنوں میں سینئر صحافی انصار عالم سے کہی، جب ان سے بلوچستان اور ملک کے سیاسی استحکام میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس سے پہلے یہی جملہ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہہ چکے ہیں — "دل خراب ہے"۔

سوال یہ نہیں کہ ان شخصیات کا دل کیوں خراب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خدمت کرنے والوں کا دل آخر خراب کیوں نہ ہو؟

ایک طرف قوم ہے جو ان ہی شخصیات کو نجات دہندہ سمجھتی ہے، اور دوسری طرف طاقت کا وہ نامعلوم مرکز ہے جو ہر بار خدمت کرنے والوں کو یا تو رسوا کرتا ہے، یا خاموشی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔

نواز شریف کو بلوچستان کے رہنما محمود خان اچکزی، مولانا فضل الرحمان، اور شاہد خاقان عباسی جیسے سینئر سیاست دانوں نے قومی قیادت کے لیے آگے بڑھنے کو کہا۔ مگر جواب میں یہ جملہ: "دل خراب ہے" — ان کے اندر کی تھکن، رنج اور بےبسی کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔

کیا یہ وہی نواز شریف نہیں جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا؟ کیا ہر بار اسے گھر بھیجنے کا فیصلہ عوام نے کیا، یا کہیں اور سے ہوتا رہا؟ کیا کبھی ترقی کے منصوبے اس کی حکومت سے منسلک کیے گئے، یا صرف مقدمے، نااہلیاں، اور جلاوطنی؟

پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیجیے، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، مگر انہیں نظر بند کیا گیا، ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ کیا یہ سب ایک آزاد ملک میں ہوا؟ یا کہیں نہ کہیں غیر ملکی اثر و رسوخ نے فیصلہ سازوں کو مجبور کیا؟

پاکستان کی تاریخ ایسے ہی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو اگر ریاست کے حقیقی مفاد کی بات کریں تو یا تو "چڑھا دیے جاتے ہیں"، یا "خاموش کر دیے جاتے ہیں"۔

بینظیر بھٹو کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور آج کل کی صحافت میں انصار عباسی، سلیم صافی، مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کی گمشدگیاں یا مقدمات — سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بولنے، سوچنے، یا کچھ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

یہ سب ایک سوچے سمجھے نظام کا حصہ ہے، جس میں "ریاست کے مفاد" کو عوامی مفاد سے بالاتر کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھانے والے کو غدار، اور سچ بولنے والے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔

اور یہی وہ ماحول ہے جہاں ایک مخلص سیاستدان، ایک عظیم سائنسدان یا ایک بےباک صحافی آخر کار کہہ اٹھتا ہے:
"میرا دل خراب ہے۔"

یہ جملہ دراصل ایک فرد کی مایوسی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔
یہ ان تمام پاکستانیوں کی زبان ہے جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں، مگر جنہیں اس محبت کی سزا ملتی ہے۔
یہ ان کرداروں کی آواز ہے جو پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر ہر بار کوئی "پوشیدہ ہاتھ" انہیں روک لیتا ہے۔

اور جب تک یہ سوال باقی ہے — کیا پاکستان کسی کو پاکستان کی خدمت کرنے دیتا ہے؟
تب تک دل خراب ہوتے رہیں گے… اور شاید دل ٹوٹتے بھی رہیں۔

جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

پیر، 4 مارچ، 2019

پنجاب پولیس

                  
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی ابینندن نامی ہوا باز جس کے جہاز کو پاکستان نے گرایا اور اسے گرفتار کرنے کے بعدامن اور جذبہ خیر سگالی کے اظہارکے طور پر آزاد کر کے واپس بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی رہائی پر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہلکے پھلکے اندازمیں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک منچلے نے لکھا 
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ 
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔ 
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔ 
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔ 
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا 


اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

تشدد


انسان دو قسم پر ہیں ایک وہ جو اپنے علم و تجربہ کے بل بوتے پر ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔ علم مگر ایک جاری عمل ہے جب انسان علم 
کی ایک سیڑھی طے کر کے دوسری سیڑھی کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنے سابقہ خیالات اور اعتقادات کے بل بوتے پر ہی نیا ادراک پاتا ہے وہ سابقہ ادراک کی نفی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ نیا وسیع ادراک اس کے سابقی محدود ادراک ہی کی ایک بہتر شکل ہوتی ہے۔علم حاصل کرنے اور اس کی بڑہوتی میں اختلافی دلیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ 
دوسری قسم کا انسان جب علم کا ایک زینب طے کر کے اس پر قناعت کر لیتا ہےتو وہ سابقہ زینوںکو کم تر سمجھ کر انھینں مردود قراردیتا ہے، اور علوی زینوں سے نا مانوسیت کے سبب ان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ خوفزدہ شخص اپنی لا علمی کے سبب متشدد ہو جاتا ہے ۔ گو تشدد کا سبب خوف ہوتا ہے مگرسبب لا علمی ہی بنتا ہے ۔ یہ وہ عنصر ہے جو معاشرے کو تشدد کی طرف دھکیلتا ہے ۔سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بد زبانی لچر پن اور گالی گلوچ بھی تشدد ہی کی ایک قسم ہے

اتوار، 6 مئی، 2018

5th Generation War


ففتھ جنریشن وار پاکستان میں بہت پہلے شروع ہو چکی تھی ۔ ہم اس کو سیاست کا کھیل سمجھتے رہے، بلوچستان کی حکومت گرنے سے لے کر فاٹا سے اٹھے حقوق کا واویلا کرتے نوجوان ہی نہیں بلکہ مہینوں پہلے پاناما یا اقامہ پر فیصلہ آنے کے بعد بدلتے سیا سی حالات کی کھلتی گرہیں ، پھر نا اہلیوں اور چلتی گولیوں نے ففتھ جنریشن وار کی اصلیت کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ عنوان جس کو ہم دور کا ڈھول گرداننتے تھے ۔ اپنے صحن مین بجتا دیکھ لیا۔ جب تصور حقیقت مجاز کا روپ دھار کر آنکھوں کے سامنے آ جائے تو پھر یقین نہ کرنا کفر ہی کہلاتا ہے اور اللہ جو کہ ستار العیوب بھی ہے کفر کے گناہ سے محفوظ رکھے ۔
ففتھ جنریشن وار کی تشریح کرتے ایک امریکی جرنیل شانون بیبی Shannon Beebi نے کہا تھا کہ یہ تلخی اور مایوسی کا پیدا کردہ ایسا پر تشدد بھنور ہو گا جو کسی کو کچھ سجھائی نہ دینے والی کیفیت پیدا کر دے گا۔ مگر مقتدر قوت کی گرفت میں رہے گا ۔ اس کو یون بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھنور کو جو گرفت میں لے پائے گا وہی مقتدر قوت ہو گی۔
اس کی ابتداء یون ہو گی کہ معاشرے اور انسانوں کی تمام تر محرومیاں آنکھوں کے سامنے یون سجا دی جائیں گی جیسے میز پر رکھے گلدان میں رنگین پھول سجائے جاتے ہیں، ہر پھول اور ہر رنگ آنکھوں کے ذریعے دماغ میں احساس محرومی پیدا کرتا رہے گا۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد فورتھ جنریشن وار کی تکنیک کے ذریعے اس جنگ کو جیتا جائے گا جس کا تجربہ 1979 میں افغانستان سے شروع ہو کر عراق اور لیبیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
میرین کارپ مییگزین Marine Corp Magazine میں سائع ہونے والے ایک مضمون میں Lt Col Stanton Coerr کے مطابق ملکوں اور معاشروں میں سیاسی تعطل اس جنگ کے حربوں میں ایک حربہ ہے۔کرنل نے لکھا ہے اس جنگ کو فوجی جنتا ہی جیتے گی جس کی ہم نصرت کر رہے ہوں گے، وہ کچھ بھی نہ کھو کر کامیاب ہوں گے تو ہم ناکام نہ ہو کر کامیاب ہو جائیں گے

جمعہ، 30 مارچ، 2018

عوام پوچھتے ہیں


اکیسویں صدی کے اٹھارویں سال میں ہم ججوں کی زبانی سنتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔دوسرے چینل پر ایک ایسے شخص کا انٹرویو نشر ہوتاہے جس پر عدالت کے حکم سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔وہ عدالت کے بارے صاف بتاتا ہے کہ فلاں جرنیل نے عدالت پر اثر انداز ہو کر اس کے حق میں عدالت کو مجبور کیا ہے۔مشرف جھوٹاہے یا جج سچے ہیں ۔یہ سوال ہے مگر جواب میں کہا جاتا ہے کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو نظر بھی آئے ۔محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شائد مسعود کے مقدمے میں فرمایا ہوا ہے کہ آج کے دن معافی کا موقع ہے ۔آج کے بعد یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔شاید اس کیس میں انصاف ہوتا ہوا لوگوں کو نظر آ جائے۔مگر عوام کا انصاف پر اعتماد قائم ہے البتہ راو انور کیس میں مجرم کے سامنے ججوں کی بے بسی نے عوام کے ججوں پر اعتماد کو شدید مجروع کیا ہوا ہے۔ 
دوسری طرف سیاست دانوں کا ایک گروہ ہے ۔ جس کوججوں نے سیسلین مافیا بتایا ہوا ہے۔ اور اس گروہ کے رہنماء کی رہبری پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے شاعری کے اعلیٰ ذوق اور انگریزی ناول کے ایسے کردار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔جس کا نام سن کرحکومتیں لرز جاتی ہیں مگر پاکستان میں عوام نے جوتا مار کر ان سیستدانوں کی بے بسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔

ہمارے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ کا بیان معنی خیز ہے جب انھوں نے افغانستان میں موجود طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تناطر میں کہا کہ کسی منظم فوج کو شکست دینے کی نسبت ذہن میں راسخ ہوئے نظریات کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔مسٗلہ یہ ہے کہ ایسے بیانات صرف امریکہ ہی میں نہیں ملک کے اندر بھی پڑہے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا بیان صرف ہمسائے کے لیے ہے ؟

بدھ، 14 مارچ، 2018

مسکراتے لیڈر

 

فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سول ادارے اور پولیس ان کو جان کا تحفظ دینے میں ناکام ہوئی ہے اور عسکری اداروں نے دہشت اور خوف کو قابو کر کے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔ آسمان ابھی تک صاف نہیں ہے ،دہشت کے سائے اور خوف کے کالے بادل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی جان کو اپنے تحفظ کا یقین نہیں ہے۔ جب انسان کی جان پر بنی ہوتو اس کی بھوک مفقود اورنیند عنقا ہو جایا کرتی ہے۔ ذائقے اور نرم بسترے بھی اسی وقت راحت بخشتے ہیں جب انسانی جان کو تحفظ دستیاب ہو۔متذکرہ علاقوں سے عسکری چھتری کو ہٹا کر حالات کا تصور کریں تو انسانی خون سڑکوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں جمہوری تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے موجودہ سینٹ کے انتخاب کے نتائج کو دیکھیں تو ان علاقوں سے منتخب ہونے والے افراد ، ان کا کردار ، جان کی خوف کا ڈر اور جان کے تحفظ کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی حالت کو اگر یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ بہت سی آسائشوں کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حکمرانی ایسا نشہ ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہمارے سابقہ نہ ڈرنے والے حکمران کی کتاب میں موجود ہے۔انسانوں کو عمارتوں کے اندر بند کر کے جلا دینا، جسم کو جلا دینے والے بارود سے بے ضرر بچیوں کو بھون دینا حکمرانی کے کھیل گردانے جاتے ہیں۔ دنیا میں آنکھوں پر پٹی صرف دو لوگوں کی آنکھوں پر بندھی دکھائی دیتی ہے ایک طاقت کی طمع کے حریص حکمران اور دوسرے انصاف کا میزان برابر رکھتے جج۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے حکمران کئی آنکھوں سے دیکھتا اور کئی کانوں سے سن رہا ہوتا ہے تو یہی حال جج کا ہوتا ہے کو ایک قاتل کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے کئی آنکھوں سے واقعات کو دیکھتا اور کئی کانوں سے حالات کو سنتا ہے۔
حکمرانی کو قائم رکھنے طریقے دو ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو عمر بن خطاب نے اختیار کیا تھا مگر وہ مشکل اور کانٹوں بھری راہ ہے ۔ صرف کفار ہی اس کو اپنانے میں اپنی بقا پاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو پاکستان میں ستر سالوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا لازمی نہیں ہے ۔ سادہ سا فارمولا ہے اور فارمولا بھی ایسا کہ مساوات کے دائیں رکھو یا بائیں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ اور فارمولا یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھو۔
جان کا خطرہ درٓمدی اورنیا ہے مگر کارگر ہے۔ فاٹا و بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ جمہوریت کے متوالوں کو جان کی امان پا کر کرسی پر براجمان مسکراتے رہنماء مبارک ہوں ۔ 

جمعہ، 9 مارچ، 2018

خاکہ

1970
 کے الیکشن کا زمانہ تھا ۔ لاہور سے اٹھی پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے سپوت ذولفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا۔نعرہ ان کا ْ روٹی، کپڑا اور مکان ْ کا تھا ۔ بھوک ، نا انصافی، جاگیرداروں اور غاصب حکمرانوں سے مایوس عوام نے سکھ کا سانس لیا۔بھٹو نے حلقے میں کھمبے کو ووٹ دینے کا کہا تو لوگوں نے دیا۔کھمباکیا ہوتا ہے؟ راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے، مقدمہ ان کے پاس کوئی نہیں،بھٹو کی پارٹی جائن کی اور ایم این اے بن گئے۔پہلے وزیر بے محکمہ پھر ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے۔پہلی بار ہم نے اخباروں میں پڑہا کہ ریلوے کا پورا انجن کیسے غائب ہوتا ہے۔بھٹو البتہ امین تھے۔کیا سیاستدان صادق ہو سکتا ہے ۔ اس موضوع پر فتویٰ لال حویلی ولے شیخ کا حق ہے۔
بھٹو کی مقبولیت کم نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا الیکشن بھی جیت گئے تھے۔ چاند صورت ،بھٹو کے خلاف پہلے نو ،پھر گیارہ ستارے چنے گئے۔ اصغر خان بھٹو کے مخالف تھے، جیسے عمران خان نواز شریف کے مخالف ہیں۔عوام نے روز روز کے جلوسوں سے تنگ آ کر راولپنڈی میں بینر لگایا ْ خلقت مٹ جائے گی تو انصاف کرو گے ْ ۔ عوام کے ساتھ انصاف ہوا ۔بھٹو پھانسی کے پھندے پرجھول گئے۔عوام کے نصیب میں جنرل ضیا ء آئے۔کسی نے انھیں بطل اسلام کہا، کسی نے امیر المومنین جانا،کسی نے فلم سٹار کی آنکھوں کو لے کر ان پر طنز کیا مگر تقدیر کے سامنے سب ہار گئے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر صحن میں دفن ہیں۔
بھٹو کی بیٹی بے نظیر آئی، نواز شریف نے ان کی ٹانگ کھینچی، شور شرابہ ہوا اور نوز شریف حکمران چن لیے گئے۔ان کو ایک اور بطل نڈر جنرل مشرف نے چلتا کیا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جس دن جنرل مشرف نے پیارے ہم وطنوں کو مخاطب کیاتو دوسرے دن نوجوان گل محمد مسکراتا میرے پاس آیا
ْ آپ نے تقریر سنی ْ 
میری بد قسمتی کہ میں تقریر نہ سن پایا تھا۔نوجوان کی خوشی دیکھ کر میں نے اسے کریدا 
ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ 
جنرل مشرف کے صیح یا غلط ہونے پر صفحات بھرے پڑے ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ ہماری تلاش ْ صیح آدمیْ کی ہے۔مطلوب صیح آدمی کی جو صفات ہمارے ذہن میں رچ بس گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ عمر بن خطاب کی طرح اپنے کرتے میں سترہ پیوند سجائے ہو، یقین اس کا ابوبکر کی طرح مضبوط ہو، شجاع علی المرتضی جیسا ہو، حق گوئی میں حسین ابن علی کے ہم پلہ ہو، خالدبن ولید جیسا فاتح ہو، رات کو عبادت میں کھڑا ہو یا عوام کی پہرے داری کرے اور دن کو انصاف کا بول بالا کرے۔
ہم چند دوست مل کر اپنے مطلوب رہنماء کا خاکہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مشق میں سالوں بیت گئے مگر خاکہ بن نہیں پا رہا۔ ایک دوست نے خاکہ بنایا تھا بالکل قائداعظم کی طرح تھامگر دوسرے دوست نے اس خاکے کو شلوار قیض پہنا دی، تیسرے نے داڑھی بنا دی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
ہم پانچ لوگ کسی خاکے پر متفق نہیں ہو پارہے ہیں۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ آپ بھی ایک خاکہ بنائیں ، اپنے دوستوں کی رائے لیں ۔ اگر آپ پانچ لوگ بھی کسی خاکے پر متفق ہو جاتے ہیں تو آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔