pakistan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
pakistan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

پیر، 4 مارچ، 2019

پنجاب پولیس

                  
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی ابینندن نامی ہوا باز جس کے جہاز کو پاکستان نے گرایا اور اسے گرفتار کرنے کے بعدامن اور جذبہ خیر سگالی کے اظہارکے طور پر آزاد کر کے واپس بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی رہائی پر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہلکے پھلکے اندازمیں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک منچلے نے لکھا 
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ 
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔ 
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔ 
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔ 
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا 


اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

تشدد


انسان دو قسم پر ہیں ایک وہ جو اپنے علم و تجربہ کے بل بوتے پر ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔ علم مگر ایک جاری عمل ہے جب انسان علم 
کی ایک سیڑھی طے کر کے دوسری سیڑھی کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنے سابقہ خیالات اور اعتقادات کے بل بوتے پر ہی نیا ادراک پاتا ہے وہ سابقہ ادراک کی نفی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ نیا وسیع ادراک اس کے سابقی محدود ادراک ہی کی ایک بہتر شکل ہوتی ہے۔علم حاصل کرنے اور اس کی بڑہوتی میں اختلافی دلیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ 
دوسری قسم کا انسان جب علم کا ایک زینب طے کر کے اس پر قناعت کر لیتا ہےتو وہ سابقہ زینوںکو کم تر سمجھ کر انھینں مردود قراردیتا ہے، اور علوی زینوں سے نا مانوسیت کے سبب ان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ خوفزدہ شخص اپنی لا علمی کے سبب متشدد ہو جاتا ہے ۔ گو تشدد کا سبب خوف ہوتا ہے مگرسبب لا علمی ہی بنتا ہے ۔ یہ وہ عنصر ہے جو معاشرے کو تشدد کی طرف دھکیلتا ہے ۔سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بد زبانی لچر پن اور گالی گلوچ بھی تشدد ہی کی ایک قسم ہے

اتوار، 6 مئی، 2018

5th Generation War


ففتھ جنریشن وار پاکستان میں بہت پہلے شروع ہو چکی تھی ۔ ہم اس کو سیاست کا کھیل سمجھتے رہے، بلوچستان کی حکومت گرنے سے لے کر فاٹا سے اٹھے حقوق کا واویلا کرتے نوجوان ہی نہیں بلکہ مہینوں پہلے پاناما یا اقامہ پر فیصلہ آنے کے بعد بدلتے سیا سی حالات کی کھلتی گرہیں ، پھر نا اہلیوں اور چلتی گولیوں نے ففتھ جنریشن وار کی اصلیت کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ عنوان جس کو ہم دور کا ڈھول گرداننتے تھے ۔ اپنے صحن مین بجتا دیکھ لیا۔ جب تصور حقیقت مجاز کا روپ دھار کر آنکھوں کے سامنے آ جائے تو پھر یقین نہ کرنا کفر ہی کہلاتا ہے اور اللہ جو کہ ستار العیوب بھی ہے کفر کے گناہ سے محفوظ رکھے ۔
ففتھ جنریشن وار کی تشریح کرتے ایک امریکی جرنیل شانون بیبی Shannon Beebi نے کہا تھا کہ یہ تلخی اور مایوسی کا پیدا کردہ ایسا پر تشدد بھنور ہو گا جو کسی کو کچھ سجھائی نہ دینے والی کیفیت پیدا کر دے گا۔ مگر مقتدر قوت کی گرفت میں رہے گا ۔ اس کو یون بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھنور کو جو گرفت میں لے پائے گا وہی مقتدر قوت ہو گی۔
اس کی ابتداء یون ہو گی کہ معاشرے اور انسانوں کی تمام تر محرومیاں آنکھوں کے سامنے یون سجا دی جائیں گی جیسے میز پر رکھے گلدان میں رنگین پھول سجائے جاتے ہیں، ہر پھول اور ہر رنگ آنکھوں کے ذریعے دماغ میں احساس محرومی پیدا کرتا رہے گا۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد فورتھ جنریشن وار کی تکنیک کے ذریعے اس جنگ کو جیتا جائے گا جس کا تجربہ 1979 میں افغانستان سے شروع ہو کر عراق اور لیبیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
میرین کارپ مییگزین Marine Corp Magazine میں سائع ہونے والے ایک مضمون میں Lt Col Stanton Coerr کے مطابق ملکوں اور معاشروں میں سیاسی تعطل اس جنگ کے حربوں میں ایک حربہ ہے۔کرنل نے لکھا ہے اس جنگ کو فوجی جنتا ہی جیتے گی جس کی ہم نصرت کر رہے ہوں گے، وہ کچھ بھی نہ کھو کر کامیاب ہوں گے تو ہم ناکام نہ ہو کر کامیاب ہو جائیں گے

جمعہ، 30 مارچ، 2018

عوام پوچھتے ہیں


اکیسویں صدی کے اٹھارویں سال میں ہم ججوں کی زبانی سنتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔دوسرے چینل پر ایک ایسے شخص کا انٹرویو نشر ہوتاہے جس پر عدالت کے حکم سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔وہ عدالت کے بارے صاف بتاتا ہے کہ فلاں جرنیل نے عدالت پر اثر انداز ہو کر اس کے حق میں عدالت کو مجبور کیا ہے۔مشرف جھوٹاہے یا جج سچے ہیں ۔یہ سوال ہے مگر جواب میں کہا جاتا ہے کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو نظر بھی آئے ۔محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شائد مسعود کے مقدمے میں فرمایا ہوا ہے کہ آج کے دن معافی کا موقع ہے ۔آج کے بعد یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔شاید اس کیس میں انصاف ہوتا ہوا لوگوں کو نظر آ جائے۔مگر عوام کا انصاف پر اعتماد قائم ہے البتہ راو انور کیس میں مجرم کے سامنے ججوں کی بے بسی نے عوام کے ججوں پر اعتماد کو شدید مجروع کیا ہوا ہے۔ 
دوسری طرف سیاست دانوں کا ایک گروہ ہے ۔ جس کوججوں نے سیسلین مافیا بتایا ہوا ہے۔ اور اس گروہ کے رہنماء کی رہبری پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے شاعری کے اعلیٰ ذوق اور انگریزی ناول کے ایسے کردار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔جس کا نام سن کرحکومتیں لرز جاتی ہیں مگر پاکستان میں عوام نے جوتا مار کر ان سیستدانوں کی بے بسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔

ہمارے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ کا بیان معنی خیز ہے جب انھوں نے افغانستان میں موجود طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تناطر میں کہا کہ کسی منظم فوج کو شکست دینے کی نسبت ذہن میں راسخ ہوئے نظریات کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔مسٗلہ یہ ہے کہ ایسے بیانات صرف امریکہ ہی میں نہیں ملک کے اندر بھی پڑہے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا بیان صرف ہمسائے کے لیے ہے ؟

بدھ، 14 مارچ، 2018

مسکراتے لیڈر

 

فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سول ادارے اور پولیس ان کو جان کا تحفظ دینے میں ناکام ہوئی ہے اور عسکری اداروں نے دہشت اور خوف کو قابو کر کے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔ آسمان ابھی تک صاف نہیں ہے ،دہشت کے سائے اور خوف کے کالے بادل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی جان کو اپنے تحفظ کا یقین نہیں ہے۔ جب انسان کی جان پر بنی ہوتو اس کی بھوک مفقود اورنیند عنقا ہو جایا کرتی ہے۔ ذائقے اور نرم بسترے بھی اسی وقت راحت بخشتے ہیں جب انسانی جان کو تحفظ دستیاب ہو۔متذکرہ علاقوں سے عسکری چھتری کو ہٹا کر حالات کا تصور کریں تو انسانی خون سڑکوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں جمہوری تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے موجودہ سینٹ کے انتخاب کے نتائج کو دیکھیں تو ان علاقوں سے منتخب ہونے والے افراد ، ان کا کردار ، جان کی خوف کا ڈر اور جان کے تحفظ کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی حالت کو اگر یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ بہت سی آسائشوں کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حکمرانی ایسا نشہ ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہمارے سابقہ نہ ڈرنے والے حکمران کی کتاب میں موجود ہے۔انسانوں کو عمارتوں کے اندر بند کر کے جلا دینا، جسم کو جلا دینے والے بارود سے بے ضرر بچیوں کو بھون دینا حکمرانی کے کھیل گردانے جاتے ہیں۔ دنیا میں آنکھوں پر پٹی صرف دو لوگوں کی آنکھوں پر بندھی دکھائی دیتی ہے ایک طاقت کی طمع کے حریص حکمران اور دوسرے انصاف کا میزان برابر رکھتے جج۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے حکمران کئی آنکھوں سے دیکھتا اور کئی کانوں سے سن رہا ہوتا ہے تو یہی حال جج کا ہوتا ہے کو ایک قاتل کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے کئی آنکھوں سے واقعات کو دیکھتا اور کئی کانوں سے حالات کو سنتا ہے۔
حکمرانی کو قائم رکھنے طریقے دو ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو عمر بن خطاب نے اختیار کیا تھا مگر وہ مشکل اور کانٹوں بھری راہ ہے ۔ صرف کفار ہی اس کو اپنانے میں اپنی بقا پاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو پاکستان میں ستر سالوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا لازمی نہیں ہے ۔ سادہ سا فارمولا ہے اور فارمولا بھی ایسا کہ مساوات کے دائیں رکھو یا بائیں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ اور فارمولا یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھو۔
جان کا خطرہ درٓمدی اورنیا ہے مگر کارگر ہے۔ فاٹا و بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ جمہوریت کے متوالوں کو جان کی امان پا کر کرسی پر براجمان مسکراتے رہنماء مبارک ہوں ۔ 

جمعہ، 9 مارچ، 2018

خاکہ

1970
 کے الیکشن کا زمانہ تھا ۔ لاہور سے اٹھی پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے سپوت ذولفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا۔نعرہ ان کا ْ روٹی، کپڑا اور مکان ْ کا تھا ۔ بھوک ، نا انصافی، جاگیرداروں اور غاصب حکمرانوں سے مایوس عوام نے سکھ کا سانس لیا۔بھٹو نے حلقے میں کھمبے کو ووٹ دینے کا کہا تو لوگوں نے دیا۔کھمباکیا ہوتا ہے؟ راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے، مقدمہ ان کے پاس کوئی نہیں،بھٹو کی پارٹی جائن کی اور ایم این اے بن گئے۔پہلے وزیر بے محکمہ پھر ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے۔پہلی بار ہم نے اخباروں میں پڑہا کہ ریلوے کا پورا انجن کیسے غائب ہوتا ہے۔بھٹو البتہ امین تھے۔کیا سیاستدان صادق ہو سکتا ہے ۔ اس موضوع پر فتویٰ لال حویلی ولے شیخ کا حق ہے۔
بھٹو کی مقبولیت کم نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا الیکشن بھی جیت گئے تھے۔ چاند صورت ،بھٹو کے خلاف پہلے نو ،پھر گیارہ ستارے چنے گئے۔ اصغر خان بھٹو کے مخالف تھے، جیسے عمران خان نواز شریف کے مخالف ہیں۔عوام نے روز روز کے جلوسوں سے تنگ آ کر راولپنڈی میں بینر لگایا ْ خلقت مٹ جائے گی تو انصاف کرو گے ْ ۔ عوام کے ساتھ انصاف ہوا ۔بھٹو پھانسی کے پھندے پرجھول گئے۔عوام کے نصیب میں جنرل ضیا ء آئے۔کسی نے انھیں بطل اسلام کہا، کسی نے امیر المومنین جانا،کسی نے فلم سٹار کی آنکھوں کو لے کر ان پر طنز کیا مگر تقدیر کے سامنے سب ہار گئے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر صحن میں دفن ہیں۔
بھٹو کی بیٹی بے نظیر آئی، نواز شریف نے ان کی ٹانگ کھینچی، شور شرابہ ہوا اور نوز شریف حکمران چن لیے گئے۔ان کو ایک اور بطل نڈر جنرل مشرف نے چلتا کیا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جس دن جنرل مشرف نے پیارے ہم وطنوں کو مخاطب کیاتو دوسرے دن نوجوان گل محمد مسکراتا میرے پاس آیا
ْ آپ نے تقریر سنی ْ 
میری بد قسمتی کہ میں تقریر نہ سن پایا تھا۔نوجوان کی خوشی دیکھ کر میں نے اسے کریدا 
ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ 
جنرل مشرف کے صیح یا غلط ہونے پر صفحات بھرے پڑے ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ ہماری تلاش ْ صیح آدمیْ کی ہے۔مطلوب صیح آدمی کی جو صفات ہمارے ذہن میں رچ بس گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ عمر بن خطاب کی طرح اپنے کرتے میں سترہ پیوند سجائے ہو، یقین اس کا ابوبکر کی طرح مضبوط ہو، شجاع علی المرتضی جیسا ہو، حق گوئی میں حسین ابن علی کے ہم پلہ ہو، خالدبن ولید جیسا فاتح ہو، رات کو عبادت میں کھڑا ہو یا عوام کی پہرے داری کرے اور دن کو انصاف کا بول بالا کرے۔
ہم چند دوست مل کر اپنے مطلوب رہنماء کا خاکہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مشق میں سالوں بیت گئے مگر خاکہ بن نہیں پا رہا۔ ایک دوست نے خاکہ بنایا تھا بالکل قائداعظم کی طرح تھامگر دوسرے دوست نے اس خاکے کو شلوار قیض پہنا دی، تیسرے نے داڑھی بنا دی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
ہم پانچ لوگ کسی خاکے پر متفق نہیں ہو پارہے ہیں۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ آپ بھی ایک خاکہ بنائیں ، اپنے دوستوں کی رائے لیں ۔ اگر آپ پانچ لوگ بھی کسی خاکے پر متفق ہو جاتے ہیں تو آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

پیر، 5 مارچ، 2018

بھٹو زندہ ہے


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ عوام اور مبصرین کی توقع کے مطابق ہی آیا ہے۔ پنجاب سے چوہدری سرور کی کامیابی بہر حال پی ٹی آٗئی کی بجائے ذاتی کہی جائے تو شائد مبالغہ نہ ہو۔ ایک کامیابی بعض اوقات بہت سی ناکامیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی ہے۔ چوہدری سرور برطانوی شہریت کے باوجود پنجاب کی سیاست کو اپنے لیڈر سے بہتر منظم کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہے بلکہ وہ ارائیں ازم کی بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کر چکے۔ جادو کی نسبت سائنس معجزہ ثابت ہو چکی۔ کپتان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنا پروگرام اور بیانیہ دینے میں ناکام ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ْ بے ووٹ ْ ہجوم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھانت متی کے کنبے کے افراد عمران خان کا گھیراو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ، حالانکہ وقت گذر چکا ہے ، سوچنا چاہیے کہ اس کے نظریاتی کارکنوں کو آخر شکوہ کیا ہے ۔ جرنیل سپاہیوں کے بل بوتے پر جنگ جیتتا ہے ۔ اور سپاہیوں کا یہ گلہ بے جا نہیں ہے کہ ْ چوری کھانے والے رانجھے ْ جسم کا ماس کاٹ کر نہیں دیا کرتے۔ مولانا سمیع الحق بارے کپتان کا فیصلہ اس کی پارٹی نے نا پسند کیا ہے اور پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنا مقام بنانے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں محنت کرنا ہو گی۔ سینٹ کے الیکشن سے فوری قبل نادیدہ قوتوں اور مہروں کا کردار عوام کو پسند آیا نہ جمہوریت ہی کو اس سے کوئی فائدہ ہوا۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے سب یہ کوشش تھی کہ کمر کے درد کا مریض تین تلوار پر کھڑا ہو کر مکہ لہرا کر کہہ سکے کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے جو سفر طے کیا ہے اس میں خونی قربانیاں شامل ہیں۔ قربانی قبولیت کا مقام نہ بھی حاصل کرے مگر قربانی کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔مکہ بازکی بیماری ختم ہوتی نظر نہیں ٓتی۔
اس الیکشن کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا پیر مذکر ہی نہیں جادو کی کاٹ کا بھی ماہر ہے۔ حالانکہ نواز شریف وزیراعظم ہاوس میں اونٹوں کی قربانی کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے سہارا دیا ہے۔ کل وقتی قائد مسلم لیگ کو نواز کر کس کو کیا حاصل ہوا ہے ۔ کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔ بیان باز بابے بھی انگشت بدنداں کی کیفیت میں ہیں۔ مگر شہباز شریف کو چوہدری سرور واقعی لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔
زرداری کی پیپلز پارٹی نے کرامت یہ دکھائی ہے کہ ایک غریب ، عورت، ہندو کو سینٹ کا ممبر بنوایا ہے ۔ لگتا ہے بلاول بھٹو زرداری میں بھٹو متحرک ہوا ہے یا واقعی ذولفقار علی بھٹو زندہ ہے۔ سنا کرتے تھے کہ جن لوگوں کو ناحق قتل کیا جاتا ہے ان کی روح زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ؟

بدھ، 28 فروری، 2018

جگاڑ


گل خان نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ، سند مجھے دکھائی اور جلیبی بھی کھلائی ۔ میں نے ویسے ہی پوچھا لیا ْ جگاڑ ْ کیا ہوتا ہے۔ گل خان نے میری طرف عالمانہ انداز میں دیکھا ۔گلا صاف کیا
ْ ْ جگاڑ در اصل ایک ایسا عمل ہوتاہے جس کو مقامی حالات کے مطابق ڈھال کر اس پر اخراجات کو انتہائی حد تک کم کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاتا ہے معاشرتی رویے ایک طرح سے انفرادی اعمال کے اچھا یا برا ہونے کی سند ہوتے ہیں۔ جگاڑ کو ہمارا معاشرہ تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسے سند قبولیت عطا کرتا ہے۔
بہت خوب ، کو ئی مثال بیان کر سکتے ہو
ْ دھرنا ْ 
وہ کیسے 
ْ دھرنا دینابھی معاشرتی عمل ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ ایک مسئلہ کی طرف مبذول کر ا کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ْ 
اس میں جگاڑ کہا ں ہے
ْ سر جی جگاڑ یہ ہے کہ پانچ سو بندے لے کر دھرنے کے کنٹینڑ پر چڑھ کر ہر آتے جاتے راہگیر سے کلمہ شہادت سنا جائے جس کو نہ آتا ہو، جس کا تلفظ ٹھیک نہ ہو ، جس کے مخرج اپنے ،مقام سے نہ نکلتے ہوں ۔۔۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے

اگر کوئی آپ کو منع کرے تو مائیک پر اہل پاکستان کو بتائیں کہ اسلامی ملک میں اسلام کتنا مظلوم ہے۔کوئی زبردستی کنٹینر سے اتارنے کی کوشش کرئے تو آپ کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر باندھ لیں اور اسلام کے نام پر شہید ہونے کا اعلان کر دیں
میں نے جیب سے نوٹ نکال کر کہا گل خان جلیبی بہت مزے کی تھی اور لے آو ۔ گل خان نے منہ بنایا مگر جلیبی لینے چل دیا۔

منگل، 27 فروری، 2018

جذبے


ٓ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام صرف نعرہ تھا مگر پاکستان میں اسلام عملی حقیقت ہے، پاکستان کے ابتدائی دنو ں میں گھوڑوں پر سفر کرنے والے آج ہائی ویز پر ہائی برڈ گاڑیاں دوڑاتے ہیں ۔گھریلو اور انفرادی آسائشوں نے ہماری معاشرت کو آسان تر کر دیاہے۔سیاسی طور پر ہم آگے ہی بڑھے ہیں ، دفاع میں ہم نے معجزے دکھائے ہیں۔۔۔گذشتہ ستر سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے معاشی ، سیاسی،دفاعی، معاشرتی، مذہبی ہی نہیں بلکہ تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے۔
ہمارے دیہاتی معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ کمزور اور پسماندہ طبقات نے تعلیم میں پناہ لے کرخود کو خود کفیل کرنے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔یعنی تعلیم وہ جادو ہے جس سے انسان مستفید ہو کر معاشرے میں اپنی اگلی نسل کو بہتر معاشرتی مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ مگرقابل تشویش یہ ہے کہ ہماری تعلیم افراد میں یہ ادراک نہ پیدا کر پارہی کہ ْ جس کا کام اس کو ساجھے ْ آج ایک فرد فزکس کا پرفیسر ہے تو وہ ہمیں معاشرت سکھا رہا ہے، کھلاڑی ہے تو وہ معاشیات کو بہتر کرنے کے درپے ہے، سوشل سائنسز والا مکان بنا نے میں مصروف ہے ، وغیرہ وغیرہ
تعلیم کی اہمیت تسلیم، عالم ہمارے سر کا تاج، مگر ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی سلیبس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے اس ْ جذبےْ کو نکالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو ہر فن مولا بناتا ہے مگر اپنے کام کا نہیں رہنے دیتا۔

جمعرات، 1 فروری، 2018

نئے راستے


 ٓ تجارتی راستوں پر اجارہ داری اور ان کی حفاظت ، اور اپنے تجارتی سامان کی بحفاظت منڈیوں تک ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس کو کوئی بھی ملک یا معاشرہ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی سرپرستی میں معرض وجود میں آنے والا
Asian Quad 
ایک ایسا ہی اتحاد ہے جس میں دوسروں کے ساتھ امریکہ، بھارت، جاپان اور اسٹریلیا شامل ہیں۔دوسری طرف چین کی سرپرستی میں 
One Belt One Route .OBOR
 کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جس میں چین کو روس کی حمائت حاصل ہے اور اس میں سری لنکا، مالدیپ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ 
اس خطہ میں امریکہ کی سرپرستی میں ناٹو کے نام سے ایک اتحاد پہلے ہی قائم ہے جو دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے لیے متحرک ہے، اس کے باوجود افغانستان سے لے کر لیبیا تک علاقائی طاقتور تنظیموں نے مقامی حکومتیں گرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
کیا ناٹو اپنی افادیت کھو چکی ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب اگر ہاں میں نہ ہو تو بھی اس کا کردار مشکوک ضرور ہو چکا ہے۔اس بے یقینی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک ْ اسلامی ْ ہیں ۔ اور ان ممالک میں خود حفاظتی کا گہرا حساس پایا جاتا ہے۔ مگر یہ ممالک انفرادی طور پر وسائل کی کمی اور سیاسی حالات کی ستم ظریفی کے باعث مجبور ہو گئے کہ وہ اپنے خطے کے تجارتی راستوں سمیت اپنے مفادات کی حفاظت خود کریں۔ان ممالک کو بنیادی طور پر خطرہ ان ہی طاقتور علاقائی تنظیموں سے ہے جو یا تو حکومتوں سے نظریاتی اختلاف رکھتی ہیں ، یا پھر وہ دشمن ممالک کے ساتھ مالی مفادات کے لیے گٹھ جوڑ رکھتی ہیں۔ اسلامی ممالک میں ایسی تنظیمی عام طور پر مذہبی بنیاد پر بنتی ہیں یا پھر مسلکی تقسیم ان کا نظریاتی اثاثہ ہوتی ہے اور پھر دشمن ممالک کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی مین ملوث ہو جاتی ہیں۔ 
ٰٰIMCTC
یا ْ التحالف الاسلامی العسکری لمحاربۃالارھاب ْ کے نام سے قائم ہونے والا اکتالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد ایک ایسی کوشش ہے ۔ پاکستان سمیت کچھ ممالک کے اندر اس اتحاد کے بارے میں عوام کا ایک طبقہ یہ کہتا پھر رہا ہے کہ یہ سعودی عرب کی سرپرستی میں سنی مسلک کے ممالک کا ایسا اتحا د ہے جس نے مگر سعودی و ایرانی علاقائی کشمکش میں سعودیہ کی طرف داری کر نا ہے۔ اور اس خدشہ کو تقویت اس اتحاد کی بناوٹ سے ملتی ہے ، سعودیہ نہ صرف اس اتحاد کا سرپرست ہے بلکہ اس کا اپریشنل مرکز بھی 
ریاض ہی میں ہے۔ اس اتحاد پر سب سے پہلے تحفظات کا اظہار بھی ایران ہی کی جانب سے کیا گیا تھا۔

مگر پاکستان کے آرمی چیف جناب باجوہ صاحب اپنے دورہ ایران کے دوران ایران کو یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ یہ صرف دہشت گردی کے خلاف اتحاد ہے اس کے بعد ایران کی جانب سے اس اتحاد مخالف بیانات کا سلسلہ رک گیا ہے۔ پاکستان آرمی کے سابقہ چیف جناب راحیل شریف صاحب کا اس اتحاد کی کمانڈ قبول کرنا ایسا عمل ہے جس نے ایران نے اس اتحاد کے بارے میں خدشات کو اگر ختم نہیں کیا تو بھی کم ضرور کیا ہے۔

جناب راحیل شریف نے یہ عہدہ قبول ہی اسی شرط پر کیا ہے کہ ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے گا۔اسلامی سربراہی کانفرنس اس اتحاد کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اقوم متحدہ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، چین نے اس اتحاد کو پسندکرتے ہو ئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔مصر کی الازہر یونیورسٹی نے اسے تاریخی اور مثبت قرار دیا ہے۔جرمنی نے اس اتحاد کی حوصلہ افرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو بھی اس اتحاد کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس اتحاد کے اساسی بیانئے مین شامل ہے کہ یہ تمام ممبران ، امن دوست ممالک، عالمی اور علاقائی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرئے گا ۔
ریاض میں ملک کے اندر سخت گیر پالیسیوں کے خلاف گہرا اور مصمم ارادہ پایا جاتا ہے، اور وہ اکیسویں صدی میں دنیا کے ساتھ قدم بقدم شامل ہونا چاہتے ہیں ، قدامت پسندی کا چغہ اتار دیا گیا ہے ۔ حکمرانوں کی نئی سوچ نے نوجوان سعودیوں میں گویا نیا ولولہ پیدا کر دیا ہے اوریہ کہنا درست ہے کہ اس وقت ریاض میں ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ 
نئے فوجی اتحاد کا بنیادی مقصدہی یہ ہے کہ ترقی کی راہ میں حائل قدامت پسندی کو کچلا جا سکے تاکہ علاقے کے باسی امن و سکون کے ساتھ ترقی کی شارع پر گامزن ہو سکیں۔امن وہ بنیادی عنصر ہے کہ جس کی غیر موجودگی انفرادی سکون اورمعاشرتی تحفظ کا حصول ممکن نہیں رہتا ۔ بد امنی کاروباری مقامات اور تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بناتی ہے۔ اور علاقائی تجارتی منڈیوں اور گذرگاہوں کا تحفظ سارے خطے ہی کے مفاد میں ہے ۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد امن کو قائم رکھنا ہے اور امن سے کسی کو بھی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

جمعرات، 4 جنوری، 2018

تہذیوں کی جنگ

عالمی سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیزی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔عالمی قوتیں اس قدر جلدی میں ہیں ، ایک ملک کے امن کو دیاسلائی دکھائی جاتی ہے اور حالات پر تیل چھڑک کر دوسرے ملک کا رخ کر لیا جاتا ہے ۔ فلسطین میں قتل و غارت پر ماتم کناں انسانیت کی افسردگی اور بے چارگی سے شہہ پا کر ٹرمپ نامی انسانیت دشمن خونی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان تو چند دنوں کی معاشی مار ہے اور پاکستان کی سیکورٹی معطلی کے اعلان کے موقع پر امریکی ترجمان کے لہجے کی رعونت یہ رہی کہْ جب تکْ پاکستان امریکہ کے اطمینان کے مطابق اپنے ہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم نہیں کرتااس وقت تک امداد اور سیکورٹی معطل رہے گی اور جب پاکستان یہ کر لے گا تو پھر امداد کی بحالی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ 

امریکی صدر نے سعودیہ کے دورے کے دوران جہاز میں ْ اپنے میڈیا ْ کے لوگوں سے بات چیت کی جو بعد میں ایک امریکی اخبار میں اور وہاں سے شرق الاوسط کے ایک جریدے میں نقل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کو اپنی یہ طاقت استعمال کر کے دنیا پر اپنے رعب کو بحال کرنا ہو گا اور یہ محتاج ممالک
 Client States
 پر دھاک سے ہی ممکن ہے ۔القدس کے مسٗٗلے پر دھاک جما لینے کے بعد ہی اکلوتی سپر پاور کا رخ پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔اور ابھی پاکستان رد عمل کی تیاری میں ہی ہے تو سوچ لیا گیا ہے کہ پاکستان نے تو خود کشی کا راستہ اختیار کر ہی لیا ہے لہذا خطے میں پاکستان کے متبادل کے طور پر امریکہ کی نظر ایران پر ہے۔

مریکہ کا خیال ہے کہ ایران خطے میں تنہا ہے ، اس کے ہمسائیوں میں بھارت اسرائیل کی محبت میں کلی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔شام اور عراق برباد ہو چکے ہیں۔سعودیہ اور ایران کے حالات ْ تومار یا میں ماروںْ تک کشیدہ ہیں ۔ پاکستان کو اپنی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔ واحد سہارا ایران کی اندرونی یکجہتی ہے مگر اس کے خلاف امریکہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں حکومت مخالف ایرانی عناصر سر گرم ہو چکے ہیں ۔ جمعرات کے دن ایرانی حکومت کے مخالفین کی جانب سے جو تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں ۔ان میں یہ تصویر بھی شامل ہے۔
القدس میں سفارت خانے کی منتقلی کے بعد لگتا ہے امریکہ نے یقین کر لیا ہے کہ اس کی دھاک کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اسی لیے پاکستان کو کسی قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا اور ایران میں مظاہرین کی اعانت شروع کر دی گئی ہے ۔ امریکی عوام پر ایسا بدبخت ٹولہ مسلط ہو گیا ہے جس کو خود امریکہ میں مست ہاتھی کہا جا رہا ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا کا با خبر ترین ملک ہے ۔حکمران ٹولہ اپنے تھنک ٹنکس کی سنتا ہے نہ جرنیلوں کی ۔قدرت کو معلوم نہیں کس کا امتحان مقصود ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر امتحان کے بعد نتیجہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکہ نے خطے میں بہت وسیع امتحان گاہ چنی ہے اور اس کو یقین ہے کہ امتحان میں کامیابی چوہدری کے صاحبزادے کو ہی ہونی ہے ۔اور اس یقین دہانی میں بھارت کا بہت بڑا کردار ہے ، اور یہ طے ہے کہ بھارت نے پاکستان اور ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔ مگر رولا یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان( جو امریکہ کے نزدیک کمی کمین ہیں ) سترہ سالوں سے اسی امتحان کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور یقین یہ ہے کہ یہ ْ کمی کمین ْ دہاندلی کے باوجود پاس ہوں یا نہ ہوں البتہ فیل نہیں ہوں گے ۔مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ جذباتی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کے بارے میں امریکہ کی سوچ رعونت پر مبنی ہے تو ایران کے بارے اس کا یہ یقین کہ شیعہ ایران ،ایران کے اندر ،شام اور عراق میں شیعہ سنی لڑاہیوں کے باعث سنیوں کو اپنا دشمن بنا چکا ہے ۔ 

علاقے میں جاری تصادم مسلکی ہیں یا ان کا سبب معیشت ہے اس کا فیصلہ بھی اب امتحان کے بعد ہی ہو گا ۔ امریکہ جو کشیدگی دین کی بنیاد پر شروع کیے ہوئے ہے اس کشیدگی کو اسرائیل کی شہہ اور بھارت کی معاونت نے جنگ کے شعلوں میں تبدیل کرنا ہے ۔ اور اگر ( خدا نہ ، نہ ، نہ کرے ) جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی ابتداء ہو گی اور یہ جنگ افغانستان کی طرح سترہ سالوں تک بے نتیجہ نہیں رہے گی مگر سرعت کے ساتھ اس کا رخ سرمایہ داری 
Capitalism 
نظام کے خلاف ہو جائے گا ۔اس کے متحارب فریق ممالک نہیں بلکہ مفلوک الحال لوگ بمقابلہ سرمایہ دار ہوں گے ۔ سابقہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکیوں اورمغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ یہ جنگ ان کے گھروں سے دور لڑی جائے گی ۔جس جنگ کی ابتداء ہی بے اصولی پر ہو چکی ہے وہ کسی امریکی صدر کے اصول کی پابند کیوں اور کیسے رہ سکے گی کہ بھوک مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اس کا مداوا روٹی ہی ہے ۔ ایک امریکی دانشور نے لکھا تھا نا کہ یہ جنگ تہذیوں کی ہو گی ۔ اس نے سچ لکھا تھا۔ تہذیبیں مگر دو ہی ہیں ایک سرمایہ دار دوسری مفلوک الحال۔

اتوار، 31 دسمبر، 2017

بے نظیر کی ڈائری



میرے دوسرے دور حکومت میں مجھے جی ایچ کیو میں سیکورٹی کے بارے میں بریفنگ کے لئیے دعوت دی گئی ڈائریکٹر آف ملٹری آپریشنز میجر جنرل پرویز 
مشرف (جو بعد میں چیف آف اور صدرمملکت بنا) نے بریفنگ دی
اس بریفنگ میں ایک بار پھر دہرایا گیا کہ پاکستان سرینگر پر قبضہ کیسے کرے گا مشرف کے آخری الفاظ کے مطابق جنگ بندی ہوجائے گی جبکہ سری نگر پاکستان کے قبضے میں ہوگا اس کے بعد کیا ہوگا ؟میرا سوال تھا وہ میرے سوال پر حیران ہوا اور کہنے لگا اگلا قدم یہ ہوگا کہ پاکستان کا جھنڈا سرینگر پارلیمنٹ پر لہرا رہاہوگا اس کے بعد کیا ہوگا؟؟ میں نے پھر سوال کیا ، آپ اقوام متحدہ کا دورہ کریں گئی اور انہیں بتائیں گئ کہ سرینگر پر پاکستان کا قبضہ ہے ، اور پھر کیا ہوگا میں نے سوال کیا ، مجھے محسوس ہوا کہ جنرل مشرف نے ایسے سوالات کے جوابات کی تیاری نہیں کی تھی وہ گھبرا گیا اس نے کہا آپ انہیں دنیا کی نقشے میں تبدیلی کے لئیے کہیں گئی اور نئے جغرافیائی حقائق کو تسلیم کرنے پر توجہ دلائیں گئی،
اور کیا آپ جانتے ہیں اقوام متحدہ مجھے کیا بتائے گی میں نے جنرل مشرف کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا ، کمرے کا ماحول سنجیدہ ہوگیا ، میں نے زور دے کر کہا سلامتی کونسل ہمارے خلاف مذمت کی قرارداد پاس کرے گی اور ہمیں سرینگر سے واپسی کا مطالبہ کرے گی ہمیں اپنی کوششوں کا کوئی صلہ نہیں ملے گا بلکہ بےچارگی اور تنہائی ہمارا مقدر ہوگی اسکے بعد میٹنگ کا اختتام کر دیا گیا ، ،

اتوار، 8 اکتوبر، 2017

باپ

                                                                                   
میں نے جمعہ بازار سے سستے داموں خریدی کتاب بغل میں دبائی اور مولوی رشید کو دینے ان کے مسجد سے متصل حجرے میں گیا۔ انھیں کتاب کا تحفہ خوش کر دیتا تھامگر اس دن وہ رنجیدہ تھے۔ کتاب کو انھوں نے کونے میں رکھ دیا۔ بتانے لگے ْ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں ْ ۔۔۔ ملک صاحب اپنے وقت میں دبدبے والے سرکاری افسر تھے، مسجد کے ساتھ تیسرا بنگلہ ان کا تھا۔ دونوں بیٹے بھی سرکاری افسر تھے ْ مغرب کے بعد ہسپتال کی ایمبولنس میں میت آئی ، میں بھی موجود تھا ، لوگوں نے میت اتاری ْ خاموش ہو گئے سانس لیا ْ بڑے بیٹے نے کہا میت گیراج میں رکھ دو ، اندر بچے ڈریں گےْ              

منگل، 2 دسمبر، 2014

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔