religion لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
religion لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 11 جون، 2025

ایمان کو ہائیڈریٹ کرنے والی تحریر


 پانی میں چھپی قدرت — ذائقوں سے سجی کاک ٹیل


جب وقت میں ذرا سا ٹھہراؤ ہو، نگاہ میں شکر کا رنگ ہو، اور سوچ پر کائناتی نظم کی جھلک اترے — تب انسان 
بے اختیار پکار اٹھتا ہے:
"پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟"



ایک لمحہ کو رُک کر سوچیں: وہ پانی جو نہ رنگ رکھتا ہے، نہ خوشبو، نہ ذائقہ — وہی پانی تربوز کی مٹھاس بن کر بہتا ہے، کھیرا بن کر ٹھنڈک دیتا ہے، سنترہ بن کر چھلکے میں خوشبو سمیٹ لیتا ہے، اور ناریل بن کر فطری الیکٹرولائٹ بن جاتا ہے۔ یہ محض قدرتی عمل نہیں، بلکہ رب کی حکمت ہے، مہربانی ہے، محبت ہے۔
ربّ العالمین نے ہماری غذاؤں میں ایسا نظام رکھا ہے کہ ہم بےخبری میں بھی پی رہے ہوتے ہیں، مگر اصل میں اُس کی عطا کو جذب کر رہے ہوتے ہیں۔ آج کی سطر میں ہم اُن پھلوں اور سبزیوں کا ذکر کریں گے جو 80٪ یا اس سے بھی زیادہ پانی پر مشتمل ہیں، مگر ساتھ ہی روح کو تازہ کرنے والا ذائقہ، رنگ، تاثیر اور شفا اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
کھیرا – 96٪ پانی، جسم و دل کی ٹھنڈک
سلاد کے پتے – 95٪ پانی، سادگی میں غذائیت
لوکی – 92٪ پانی، گرمی کا قرآنی علاج
ٹماٹر – 94٪ پانی، مٹی کا رس بھرا پھول
مولی – 95٪ پانی، زمین کی گواہی
گوبھی، شلجم، توری، شملہ مرچ — سب قدرت کے خوش ذائقہ معجزے
تربوز – 92٪ پانی، گرمیوں کا سایہ
خربوزہ، کینو، پپیتا، آڑو – سب میں رنگ، خوشبو اور مٹھاس کی جھلک
ناریل کا پانی – فطرت کا شفاف تحفہ
گریپ فروٹ، آلوچہ، اسٹرابیری – ترشی اور مٹھاس میں توازن کا شاہکار
جب ہم اِن سب نعمتوں کو دیکھتے ہیں، چکھتے ہیں، اور فائدہ اُٹھاتے ہیں — تو کیا یہ ہمیں رب کی طرف متوجہ نہیں کرتے؟ کیا یہ سب چیزیں ہمیں یہ نہیں کہتیں:
"اے ابنِ آدم! دیکھ، میں نے پانی کو بھی تیرے لئے ذائقہ بنا دیا!"
ہم ان نعمتوں کے درمیان رہتے ہوئے اکثر مشینی انداز میں جیتے ہیں، مگر روحانی انداز میں جینا بھول جاتے ہیں۔ ہمارا خالق ہمیں ہر نوالے، ہر گھونٹ، ہر پھل اور ہر سبزی میں یاد دلاتا ہے کہ:
وہی ہے جو بنجر زمین کو سیراب کرتا ہے؛
وہی ہے جو پانی کو رنگ دیتا ہے؛
اور وہی ہے جو بے ذائقہ شے کو مٹھاس بخشتا ہے۔
کیا ہم نے کبھی تربوز کھاتے ہوئے "الحمدللہ" دل سے کہا؟
کیا کبھی کھیرا چباتے وقت رب کی کاریگری پر حیرت کی؟
آئیے! اس موسمِ گرما میں صرف جسم کو ہی نہیں، ایمان کو بھی ہائیڈریٹ کریں — شکر، ذکر اور شعور کے پانی سے!

تحریر: دلپزیر

طاق اور دیا



 

1980 

کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"

میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)

انہوں نے دوسرا سوال کیا: "کیا وہ مسلمان تھا؟"
میں نے بتایا کہ "اس کی ساری زندگی کمیونزم کے نفاذ کی جدوجہد میں گزری ہے۔"
عبدالباسط نے سرد آہ بھری، "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھا۔
میں نے حیرت سے پوچھا: "آپ کو ٹیٹو کے مرنے کا دکھ ہے؟"
ان کا جواب آج تک میرے دل میں نقش ہے:
"میں ٹیٹو کو نہیں جانتا، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پڑھے لکھے شخص تک میں اسلام کی حقانیت کا پیغام نہ پہنچا سکا۔"

یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔

ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔

معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔

علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے