پیر، 9 ستمبر، 2019

اوئے شرم کرو

پاکستان کے فوجی جوان جو غازیوں کی زندگی جیتے ہیں اور جب وطن پر قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے گاوں اور محلے والے ان کی تربت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ہماری بہترسالہ فوجی تاریخ قربانیوں اور معجزوں سے عبارت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک تن تنہا پاکستانی مجاہداللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمن کے دو سو فوجیوں کو گھیر لایا تھا۔ 

سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کی شام کوئی پاکستانی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ ہمارے ۹۲،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مگر ایسا ہوا اور ایسا کرنے والا اس وقت کا کمانڈر انچیف اور ایسٹرن کمانڈ کا جنرل تھا۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تو اپنا پستول دشمن جنرل کے حوالے کر کے قید ہو چکا تھا مگر راولپنڈی میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمدیحیی خان سے جب زبردستی استعفیٰ لیا گیا تو وہ شراب کے نشے میں دہت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید بن معاویہ شرابی تھااور شراب کے نشے میں چھڑی سے ایک متبر ک اور پاکیزہ کٹے ہوئے سر کو ٹھکورا تھا۔ یہ چھڑی بڑی ظالم شے ہے تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ڈہاکہ کے پلٹن میدان میں نیازی سے پستول لینے سے بھی پہلے اس کی چھڑی لے لی گئی تھی۔جب مغربی پاکستان میں چھڑی کے خلاف بغاوت ابھری تو یہاں بھی چھڑی والے سے چھڑی لے لی گئی۔مگر پاکستان کے فوجی جوانوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو شہید نے مغربی پاکستان میں انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر فوجی جوانوں سے کہا تھاکہ یہ شکست فوجی شکست نہیں ہے بلکہ سیاسی شکست ہے۔ یہ بھٹو کا نعرہ تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔فوج ہتھیاروں کے بل بوتے پر لٹرتی ہے اور اسے جذبہ اپنی قوم مہیا کرتی ہے۔ہتھیار اپنا ہونے کا فلسفہ ۱۹۴۷ ہی میں پاکستانیوں کو سمجھ آ گیا تھا جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے حملہ کیا تو نظام نے جو نقد رقم دے کر بندوقیں خریدیں تھیں میدان عمل میں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت زمینی حالات یہ ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ا ہو یا نہ ہو مگر سبز ہلالی پرچم کے لیے چیر پھاڑنے کو بے تاب ہے۔ ۲۲ کروڑ لوگ ان کی پشت پر صرف زبانی نہیں کھڑے بلکہ نصف صدی تک تین نسلوں نے گھاس کھا کر اپنے فوجیوں کے لیے وہ بندوق تیار کر کے رکھی ہے۔جو چلے تو چاغی کے سب سے بڑے پہاڑ کو خاکستر کر کے رکھ دے اور دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بندوق کے موثر ہونے کی گواہی دیں۔ 

ہماری فوج وہ ہے جو تین دہائیوں سے دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ہماری دو نسلیں تو پیدا ہی دہماکوں کے دوران ہوئی ہیں اور بموں سے کھیل کر جوان ہوئی ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بوڑہے اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں کو دفنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جوان خون وطن کی مٹی میں ہی جذب ہوا ہے۔
سابقہ ایک سال میں اس ملک خداداد پر کون سا کالا جادو کیا گیا ہے کہ فوجی جوان حیران ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے؟

عوام یہ جان کر دانتوں میں انگلی دے لیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست فاش دی جا چکی ہے۔ پاکستانی عوام جو اداروں سے مایوس ہو چکی ہے سوائے پاک فوج کے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اور اس کی پریشانی کا سبب کوئی راز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد جو لوگ عوام پر مسلط کیے گیے ہیں۔ وہ حکمران چور اور ڈاکو بن گئے ہیں۔عوام نان جویں کر ترس رہی ہے۔ ۔ نوجوان اپنے مستقبل سے نا امید ہو چلا ہے۔ عام ٓدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔اداروں کے کرنے کے کام سوشل میڈیا فورس کے حوالے کر دیے گٗے ہیں۔ 

اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکو آصف علی زرداری بتایا جاتا ہے مگر اس کے دور میں تو زندگی معمول پر تھی۔ ہمساٗے رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھا کرتے تھے۔ دشمن منہ کھولنے سے پہلے کئی بار سوچا کرتا تھا۔ سب سے بڑا چور نواز شریف بتایا جاتا ہے۔ عدالت نے تو اس کو اقامہ پر سات سال کے لیے جیل میں بھیجا ہوا ہے۔ اگر اس نے چوری کی ہے تو برآمد کیوں نہیں ہو رہی۔مگر اس کے دور میں بھی عوام کی امید کی ڈوری مضبوط ہی ہوئی تھی۔ کیا ملک کے میں موٹر ویز کا جال نہیں بچھایا گیا۔ میڑوبسوں کا چلنا اس خطے میں منفرد کام نہ تھا۔لاہور میں اورنج ٹرین پورے بر صغیر میں نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ کیا چوری کا شاخسانہ ہے۔

۔یہی مودی جو پاکستانی حکمرانوں کا فون اٹھانے کا روادار نہیں ہے خود چل کر لاہور آیا تھا۔ اس کے پیش رو نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کچھ اعترافات بھی کیے تھے۔

ہمارے حقیقت پسند وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستانی احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ حالانکہ پاکستانی خود کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے احمقوں کی جنت میں وہ رہتے ہیں جو پاکستان کو مصر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو اس بیانئے پر یقین ہے کہ فوج اور پولیس میں ہمارے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ عوام اور فوجی جوانوں کا خون ایک ہے۔ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بندوق لے کر نکلیں گے تو پورا پاکستان ان کی دفاعی لائن کو قائم رکھے گا۔ ہمارے سپہ سالار کا فرمانا ہے کہ اخلاقی قوت عسکری قوت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا موجودہ مسلط کردہ حکمران قوم کو اخلاقی طور پر متحد کر رہے ہیں یا عوام اور افواج پاکستان میں غلط قہمیوں کے بیج ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے صرف منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔یہاں تو اقتدار کو ایسے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں جن کو عدالتوں نے ناہل قرار دیا ہوا ہے۔ 

یہ بیانیہ البتہ قابل قبول نہیں ہے کہ جو موجودہ حکومت کے جھوٹ کو سچ نہ مانے وہ دین کا منکر اور پاکستان کا غدار ہے۔ جو انصاف کے معیار پر انگلی اٹھائے اسے عدلیہ کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سن کر انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر ظلم اور بے انصافی کا راج ہو گاتو لا محالہ قوم کی سوچ تقسیم ہو گی۔ یہ کیسا اجینڈا ہے جو عوام کو گروہوں میں بانٹ کر مایوسی کی آبیاری کررہا ہے اور امید کی ٹہنیاں کاٹ کرجلا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ ایشیاء ٹائیگر بننے سے انکار کر کے عوام کے معاشی ترقی کے عزم کے سیلاب کے آگے بند باندہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے کس منشور کا حصہ ہے۔ لوگ ووٹ منشور کو دیتے ہیں۔ یہاں منشور کو لیٹ کر رکھ دیاگیا ہے۔

غریبوں کی روزمرہ اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین ٹیکس لگا کر رقم جہاز والوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عمران خان کنٹینر پا کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے اوئے شرم کرو۔۔یہ تمھارے باپ کا پیشہ ہے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ۲۰۸ ارب کس کے باپ کا پیسہ ہے جو گیس کے بلوں اور کھاد کی قیمت کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ۴۰۰ ارب کا ٹکہ لگا یا گیا مگر سرکاری خزانے میں کچھ بھی جمع نہ ہوا۔۔

وزیر اعظم کو ایسی خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں، حالانکہ اس صدارتی آرڈیننس کی سمری وزیر اعظم نے قصر صدارت بھیجی تھی۔ جب ٓرڈیننس جاری ہو گیا تو دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے اس کے فضائل بیان کیے اورجب لوگ اس آرڈیننس سے مستفید ہو چکے تو وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔پھر اس نوٹس لینے پر قوالوں کی پوری پارٹی میدان میں اتاری گٗی جس کی سربراہی حفیظ شیخ نے کی۔ 

وزیر اعظم سیاست کو تجارت بنا کر تجارت پر سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں قانون، آئین حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور رزاق داود کے جہازوں میں جلنے والے ایندہن کا جب بھی لیبارٹری میں فرانزک ہوا اس میں غریب عوام کے نچوڑے خون اور محنت کے پسینے کی آمیزش ضرور ثابت ہو گی۔عوام پر ظلم، زیادتی اور بے انصافی پر حکمرانوں نے کان اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں کہ غریب جب روزمرہ استعمال کی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو مہنگائی اسے ایسا کرنٹ مارتی ہے کہ اس کا دماغ شل ہو کے رہ جاتا ہے۔

حکومتی باجوں پر نئی دہن یہ بجائی جا رہی ہے کہ اس کرپشن کا سبب وہ عدالتی اسٹے آرڈر ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں بقول عمران خان یہی کہا جا سکتا ہے اوٗے شرم کرو مگر شرم اور حیا، قانوں اور قانون کی پاسداری سے عملی طور پر حکومت ہاتھ دہو چکی ہے۔

جمعہ، 9 اگست، 2019

لمبڑ سے نمبر ایک

پانچ اگست 2019 کو بھارت کے صدر نے ایک فرمان کے ذریعے لداخ اور جمون و کشمیر کے جغرافیے کی ترتیب نو کی ہے۔
اس فرمان کے جاری ہونے سے پہلے کشمیرمیں سیکورٹی فورسز کی تعداد اس حد تک بڑہائی جا چکی تھی کہ ہر گھر کے باہر آٹھ سے دس فوجی یا پولیس والے موجود تھے۔ محلوں کا آپس میں رابطہ کاٹنے کے لیے کانٹے دار تار بچھ چکے تھے۔ تعلیمی ادارے اور بازار بند ہوچکے تھے۔کشمیریوں کو قتل اور زخمی کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔لینڈ لائن اور سیل فون کام چھوڑ چکے تھے۔ انٹر نیٹ معطل ہو چکا تھا۔ لوگوں کے پاس نقدی ختم ہو چکی ہے۔ اے ٹی ایم خالی پڑے ہیں۔ ہوائی سفر کے لیے کارڈ قبول نہیں کیے جا رہے۔ کرفیو نافذ کر کے عملی طور پر کشمیریوں کو اپنے ہی گھروں میں قید کر دیا گیاالبتہ دودھ، دہی، سبزیوں اور کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہو چکی ہیں۔اس کا سبب آرتیکل 370 اور اے 35 بتائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ان اقدامات پر اگر دنیا خاموش ہے تو یقینااس کے اسباب بھی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں عوام کا مسٗلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں عوام جاہل ہے اس لیے وہ سچ جاننے کا حق نہیں رکھتے اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حکمران غلط بیانی کرتے ہیں۔ مگر بعض حکومتی اقدامات عوام کو ان ہونی پر یقین کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جیسے بھارت اور پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ کوئی تہاڑ میں بیمار پڑا ہے تو کوئی کوٹ لکھپت میں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور ٓزاد کشمیر میں اجتماع کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔اسلام کا نام لینے والوں پر وہاں بھی زمین تنگ ہے تو یہاں بھی حافظ سعید کے بعد توپوں کا رخ طاہر اشرفی کی طرف پھر چکا ہے۔
 پچھلے تین ماہ کے حالات اور واقعات تینوں کو ایک پیچ پر بتاتے ہیں۔ امریکہ درمیان میں بیٹھتا ہے۔ جاپان میں مودی کو بائیں طرف بٹھاتا ہے تو واشنگٹن میں کپتان کو دائیں ہاتھ رکھتاہے۔
بھارتی اعلان کے بعد پاکستان کی جان کو آئےایف ٹی ایف ٹی کے رویے میں نرمی آ چکی ہے ۔ایشیائی بنک نے پاکستان کو 500 ملین ڈالر جاری کر دیے ہیں حالانکہ دو سال ہونے کو ہیں کہ پاکستان کے لیے بجٹ سپورٹ فنڈ بند تھا۔امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں کے نقل و حرکت پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں۔کہا جاتا ہے  سی پیک کے پہیے کو پنکچر کر کے ٹائر واپس چین بجھوا دیا گیا ہے البتہ جو کچھ پاکستان میں رہ گیا ہے زنگ کی نظر ہو گا۔ اورنج ٹرین واٹر پروف نہیں ہے۔ پیسہ مگر ان غریبوں کاہے جو18 فیصد جی ایس ٹی ادا کر کے بھی تیکس نا دہندہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ عوام سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خود پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔
 مودی کے الیکشن جیتنے کے بعدان اقدامات کے برپا کر دیے جانے کی بازگشت بھارتی، پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا میں سنائی دیتی رہی۔مگر منتقم مزاج دانش کو معلوم ہی نہ ہوا اور سیلاب ان پلوں کو بہا کر لے گیا جوسات دہائیوں سے سیلابوں کا راہ روکے ہوئے تھا۔
پاکستان کے اندر اسلام کے نام پر کام کرنے والی 79تنظیموں پر کو یا تو خلاف قانوں قرار دیا جا چکا ہے یا ان کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔آشا کے نام پر کشمیر میں عائشہ کا دوپٹہ بھارتی فوجیوں کے قدموں میں گر چکا ہے۔بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہو کر ہندو توا کو آگے بڑہا رہا ہے اور پاکستان اسلامی جمہوری ہو کر بھی مذہبی لوگوں کے خیالات اور اعمال پر شرمندہ ہے۔ 
قومی اسمبلی میں سوال اٹھا یا جاتاہے کہ ہر دس سال بعد ہم فسطائیت کی طرف کیوں لوٹ آتے ہیں۔ لوگوں کو گلہ ہے کہ  ادارے اپنا اپنا کام نہیں کر رہے ۔کرپشن کی حالت یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیف جسٹس کے سامنے ایک شہری ان پر رشوت لینے کا الزام لگاتا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کون سا مطالبہ دین کا کافر یاملک کا غدار بناتا ہے۔
ہمارے سامنے عدالت کی مثالیں ہیں ساٹھ کی دہائی میں غلط طور پر سنائی گئی پھانسی کی سزاوں پر عمل درامد نہ ہو سکا۔بھارت کا ایجنٹ اور غدار ہونے کا بیانیہ اسی کی دہائی میں پٹ چکا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے اور کلاشنکوف کی گولی مار کر گرانے کے تجربات بھی بہتری نہ لا سکے۔ موجودہ دور میں جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔
سب سے بڑا سچ اداروں کا ایک پیچ پر ہونا ہے مگر اس پیج کی ہر سطر کی داستان البتہ لرزہ خیز ہے۔
ہمارے سامنے پاکستان ٹوٹا۔ ہم نے سبق حاصل نہ کیا۔ ہمارے سامنے سویت یونین کا شیرازہ بکھرا مگر ہم اپنے ہی بیانئے کے اسیر رہے۔ ایک بیانیہ امریکہ کا ہے جو چاہے تو دس دن میں ایک کروڑ افراد کو ہلاک کر کے دنیا میں فتح کا جشن منا سکتا ہے۔ ایک بیانیہ بھارت کا ہے کہ بابر اور شیر شاہ سوری کی حکمرانی کا بدلہ کشمیریوں کو نہتاکر کے اور ان کو خون میں نہلا کر لینا ہے۔ البتہ ہم نے پچھلی تین دہائیوں سے ایک ہمسائے کے بیانئے کو قریب سے دیکھا اور بھگتا بھی ہے۔ افغانیوں کا یہ بیانیہ دعوت فکر دیتا ہے۔اس بیانئے نے روس کا شیرازہ بکھیرا، امریکہ اپنے دعووں کے برعکس نا مراد لوٹنے کا ارادہ باندھ رہا ہے۔ راز یہ کھلا کہ ان کے حوصلے اور ہمت نے انھیں  لمبڑ سے نمبر ایک   بنا دیا۔



جمعہ، 2 اگست، 2019

امید کی نوید

متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ  کے قریب ایک گاوں میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔  فرید خان نامی ایک شخص نے شیر شاہ سوری   (1486۔ 1545)  کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کے کنارے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹنا شروع کیا۔ گاوں کے ایک فرد نے اسے سرکاری درخت کاٹنے سے منع کیا مگر فرید خان نے سنی ان سنی کردی اور اپنا کام جاری رکھا۔ دیہاتی گاوں سے کچھ اور لوگوں کو بلا لایا جنھوں نے اس اجنبی کو سرکاری درخت نہ کاٹنے کی تلقین کی۔ اجنبی نے ان کی بات بھی نہ مانی تو یہ لوگ گاوں کے مکھیا کو بلا لائے۔ مکھیا نے آتے ہی گرجدار لہجے میں کہا میں اس گاوں کا مکھیا ہوں یہ سرکاری درخت تم نہیں کاٹ سکتے۔ فرید خان نے کلہاڑا پھینک دیا۔ چہرے پر پڑا نقاب اتار دیا۔ ایک فوجی دستہ بھی سامنے گیا۔ گاوں والوں پر منکشف ہوا کہ درخت پر کلہاڑا چلانے والا فرید خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ علاقے بھر کی انتطامیہ بھی دوڑی آئی۔ شیر شاہ سوری نے کہا ایک درخت کاٹنے پر تم سب لوگ دوڑے آئے ہومگر یہاں ایک مسافر قتل ہوا تھا۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے اور تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے مجرم زنجیروں میں جکڑا ہوا بادشاہ کے قدموں میں پڑا تھا۔یہ واقعہ اسلام آباد میں واقع ایوان بالا میں چیرمین سینٹ کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے یاداشت میں تازہ ہوا ہے۔
انسان کے کندہوں پر سوار کرامالکاتبین کے اعمال لکھنے کا سلیقہ یہ ہے کہ گناہ کو ایک جب کہ نیکی کو دس سے ضرب دے کر لکھتے ہیں۔لیکن دنیاوی اداروں کی بنائی ہوئی فائلوں میں انسانوں کی بد اعمالیوں کو قیافے سے درج کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے در گذر کیا جاتا ہے۔ بلکہ قیافہ گروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ گناہگاروں کو وقت پڑہنے پر اپنا اعمال نامہ پڑہا بھی دیتے ہیں۔ 
 قران پاک میں درج نبی اللہ حضرت یونس کی دعا سے ماخوذ ہے کہ کامل اور سبحان صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ کچھ خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی پردہ پوشی قائم رکھنے کے لیے بدنامی اور تاریک مستقبل کی سرنگ اور مال و زر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔حکمرانی بڑی ظالم شے ہوتی ہے۔ تخت اور تختہ منتخب کرنے کا چوائس مہیا کرتی ہے۔انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھ سے اپنے گلے میں پہنا ہے۔ ایسے انسان لوگوں کے ہیروز ہوتے ہیں۔ معاشروں میں ایسے ہیروزبھی پائے جاتے ہیں جو مشکل وقت پڑنے پر زیرو بن جایا کرتے ہیں۔یکم اگست والے دن ایوان بالا میں اپوزیشن رہنما راجہ ظفرالحق نے سینٹ کے چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائی تو پی پی پی اور نون لیگ سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے 64 ممبران نے کھڑے ہو کر اور کندہے سے کندہا ملا کر اس کی تائید کی۔پھر خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کو پچاس ووٹ ملے۔ 14  ووٹ یا تو حکومتی امیدوار کو ملے یا جان بوجھ کر ضائع کر دیے گئے۔ جرنیلی سڑک کے کنارے لگے 14 درخت نامعلوم طاقتوں نے کاٹ ڈالے۔ نہ شیر شاہ سوری موجود ہے جو ان کٹے درختوں کا حساب لے نہ اداروں ہی کو کوئی زحمت کرنے کی فکر ہے۔ عوام البتہ حیران ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔گو یہ تصویر جاذب نظر نہیں ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا امید افزاء ہے۔خاص طور پر پاکستان میں بسنے والے جمہویت پسندوں کے لیے یہ واقعہ امید کی نوید ثابت ہوا ہے۔پاکستان،  جہاں بہت سے کام پہلی بار ہو رہے ہیں، یہ ادراک بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری پودا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کسی کو اعلانیہ اس پر کلہاڑا چلانے کی جراٗت نہیں ہو رہی۔ سینٹ کے ہال میں، گیارہ سالوں کی ٹوٹی پھوٹی، نحیف و لنگڑاتی جمہوریت نے اپنے آپ کو یوں منوایا ہے کہ چودہ منحرفین خود کو اس قدر مجبور پاتے ہیں کہ کھڑے ہونے والوں کے کندہے کے ساتھ کندہا ملانے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہ منحرفین ہیں ہی نہیں، انھوں نے تو اپنے بے وضو اماموں کی اقتداء میں تکبیر تحریمہ کے لیے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا لیے ہیں۔ ان کی نماز کے کامل نہ ہونے کے فتوئے مسجد کے باہر کھڑے لوگ لگا رہے ہیں۔ امام کی مسکراہٹ کا قاتل پن بتا رہا ہے کہ منافقت کے حمام میں کپڑوں سمیت گھس آنے کا اشارہ حمام کے اندر سے ملا ہے، اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دولت انسان کو مصلحت کیش بنا دیتی ہے۔ اور پاکستان میں سیاست کے رقص سے فیض یاب ہونے کے لیے    مینوں دہرتی قلعی کرا دے    والی ضرورت پورا کرنا ہوتی ہے۔بے سلوٹ اجلے جامے، چون ہزار کے جوتے، بیٹھنے کے لیے کھلے ڈلے ڈیرے، ڈیروں میں ہمہ وقت روشن چولہے، مہمان نوازیاں، سفر کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، مہلک اسلحہ بردار محافظ، محلے اور گاوں کے معاملات کا مالی تحفظ، ان سب سے بڑھ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے چندے، پھر جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کے سامنے دو ہندسوں میں ناپ لیے جانے والے کروڑوں کی اہمیت ہی کیاہے۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ زر کی تھیلی اٹھانے سے انکار کی صورت میں ناگ کاٹ کھائے گا۔ایسے میں کوئی دیوانہ ہی ہیرو بننے کی کوشش کرے گا۔
 اس بھدی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے صرف 11 سال کے جمہوری دور کے بعد ہی ممکن ہوا ہے کہ اعلانیہ مارشل لاء نہیں لگایا جا سکا۔ جمہوری عمل کے دشمن یہ چودہ لوگ بھی، ووٹنگ کے بعد ہونے والے حزب اختلاف کے اجلاس میں موجود تھے یعنی ان تاریک ستاروں کی قسمت میں روشن ہونا نہیں ہے۔
صرف گیارہ سالوں میں عوام کو جمہوریت کا یہ پودا کچھ نہ کچھ پھل دینے لگا ہے۔

ہفتہ، 20 جولائی، 2019

پٹکے


پاکستان کا نظام عدل اور تفتیش کا انتظام برطانیہ کا بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ کے تفتیشی ادارے اپنی مستعدی کی شہرت کے باوجود بعض مقدمات میں پھنس جایا کرتے تھے اور تفتیش آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ اٹھارویں صدی میں لندن کی پولیس نے جرائم میں ملوث گروہوں کی سر کوبی کے لیے ادارے سے باہر کے لوگوں کو مجرموں گروہوں میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ گینگ میں شامل ہو کر جرم کرتے اور ساتھ ساتھ مخبری کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ جب مجرم گینگ پکڑا جاتا تھا یہ مخبر بھی گرفتار شدگان میں شامل ہوتے۔انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ پولیس عدالت کے سامنے مخبر سے کیا گیا معافی کا وعدہ رکھتی اور عدالت مخبر کو رہا کر دیتی۔ اس بندوبست کا بانی لندن کا ایک قانون دان اور جج فیرنی چارلس (متوفی ۴۹۷۱)  تھا۔ لندن میں اس بندوبست کی کامیابی کے بعد اس بندوبست کو انڈیا میں بھی رائج کیا گیا۔ مگر یہاں اس بندوبست میں وہ شفافیت نہیں رہی جو لندن میں تھی۔ 
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں یہ بندوبست اب بھی موجود ہے البتہ سیاسی مقدمات میں اس کا استعمال  ۷۷۹۱ میں جنرل ضیاء االحق کے دور میں کامیابی سے ہوا۔ اس دور میں میں فیڈرل سیکورٹی فورس کے دو افسران اور ایک سپاہی وعدہ معاف گواہ بنے۔ ان کی گواہی پر پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد جو بھی سیاسی کیس بنا اس میں عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ عدالت میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔اور اس مجرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ایماء پر اس نے جرم کیا ہوتا ہے۔ مقدمے کے اختتام پر تفتیشی ادارہ عدالت سے اس کی معافی کی درخواست کرتا ہے۔ یہ اختیار عدالت کا ہوتا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کر بری کر دے یا اسے سزا دے۔ 
ایم کیو ایم کے رہنماء الطاف حسین پر مقدمات بننا شروع ہوئے تو صولت مرزا کا نام بطور وعدہ معاف گواہ سامنے آیا۔صولت مرزا کو گو پھانسی دے دے گئی مگر اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔
پاکستان میں سابقہ صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی بنیاد وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر رکھی گئی۔ لیاری گینگ کے مشہور کیس میں زرداری صاحب کے خلاف مقدمات ایک وعدہ معاف گواہ عزیر بلوچ کے بیانات پر رکھی گی۔جج ارشد ملک کی عدالت میں زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف چلنے میں مقدمے میں شیر محمد کا نام بطور وعدہ معاف گاہ سامنے آیا۔ 
سابق وایر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور مقدمے میں شائد رفیع صاحب وعدہ معاف گاہ بنے۔
راجہ پرویز مشرف کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ رانا محمد امجد ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے مقدمے کے وعدہ معاف گواہ گلزار احمد ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں 
جنرل مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔
مشرف ہی کے دور میں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنا تھا اس میں وعدہ معاف گواہ امین اللہ چوہدری بنے۔
موجودہ دور چوروں اور ڈاکووں کے خلاف، سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے صادق اور امین کی سند پانے والوں کا ہے۔ مگر تمام مقدمات کے ساتھ کوئی نہ کوئی وعدہ معاف گواہ جڑا ہوا ہے مثال کے طور پر سابقہ وزیر ریلوے 
خواجہ رفیق کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں قیصر امیں بٹ، سلیمان شہباز کے خلاف مقدمے میں مشتاق چینی،شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ، سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقدمے میں عابد سعید وعدہ معاف گواہ ہیں۔ 
پاکستان میں جتنے بھی سی ایس پی افسر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ اپنے اعترافی بیان کے چند دنوں بعد ہی رہا ہو کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ البتہ شہبازشریف کے خلاف مقدمات سے جڑے ایسے گواہوں کو رہا نہ کرنے کی وجوہات قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو بھی وعدہ معاف گواہ کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جنھوں نے نیب کی کوششوں کے باوجود وعدہ معاف گواہ کا پٹکا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کیا ہے ایک نام کیپٹن محمد صفدر اعوان کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے پناما کیس میں اور دوسرا نام عبدالجبار قدوائی کا ہے جنھوں نے آصف زرداری کے خلاف بے نامی مقدمات میں وعدہ معاف گاہ بننے سے انکار کیا۔
وعدہ معاف گواہوں کے بارے میں پاکستان کے ماہر قانون سابقہ جسٹس ناصر الملک صاحب نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ایسے گواہوں کے بیان پر انحصارکر کے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔


بدھ، 19 جون، 2019

سید قطب کے بعد محمد مرسی

بہار عرب کی انقلابی ہوائیں جب مصر میں داخل ہوئیں تو قاہرہ کے التحریر اسکواہر میں جمہوریت کے حامیوں کے سامنے حسنی مبارک کی آمریت نے دم توڑ دیا۔ فری ایڈ فیئر الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ تو اخوان المسلمین  کے حمائت یافتہ محمد مرسی (1951 ۔  2019)  مصر کے پانچویں اور عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے پہلے جمہوری صدر بنے۔
محمدمرسی ایک سیاستدان، پروفیسراور انجینئر تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور اسٹنٹ پروفیسر پڑہاتے رہے۔حافظ قرآن مرسی ابتداہ ہی سے اخوان کے ساتھ وابستہ تھے مگر امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بنائی یاد رہے اخوان المسلمین کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس پارٹی نے مرسی کی قیادت میں مصری عوام کی 51.7 فیصد حمائت حاصل کر لی۔ مصری عوام کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا تھا۔ لہذا الیکشن مین کامیابی حاصل کرتے ہی امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد مرسی نے اپنی پارٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ اب اپنی پارٹی کے نہیں بلکہ پورے مصر کے صدر ہیں۔ اہل جمہور نے ایک عبوری آئین نافذ کیا اور اس آئین کے تحت جمہوری صدر کو لا محدود اختیارات حاصل ہو گئے جن میں ایسے ادارے بھی شامل تھے جن کی باگ 1952 سے فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔فوج مرسی کے ان اقدامات پر غیر مطمئن تھی۔ مرسی کے سیاسی مخالفین، جنھوں نے ووٹ مرسی کے خلاف دیا تھا۔ التحریر اسکوائر میں دھرنا دینے اکھٹے ہونا شروع ہوئے۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے،  وہ ان اقدامات کی تحسین کر رہے تھے جو مرسی نے فوج کے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے کیے تھے۔ان اقدامات میں حسنی مبارک کے دور کے فوجی افسران کو ہٹا کر جونئیر افسران کی تعیناتی شامل تھی۔مرسی نے ان تمام جرنیلوں کو نکال باہر کیا تھا جو تیس سالون سے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔ حتیٰ کے طویل مدت تک وزیر دفاع رہنے والے فیلڈ مارشل اور اس کے متوقع جانشین کو بھی گھر بھجوا دیا تھا۔اور انٹیلی جنس چیف کو بھی فارغ کر دیا۔
عبد الفتح السیسی کو کو نیا وزیر دفاع خود مرسی نے مقرر کیا تھا۔
التحریر اسکوائر میں جمع مرسی کے حامی فوج کی نظر میں امن و امان کے لیے خطرہ تھے۔ فوج نے مرسی کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ سیاسی افراتفری کو روکیں۔ صدر محمد مرسی نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تو فوج نے قصر صدارت پر قبضہ کر کے صدر کو گرفتار کر لیا۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے تو سات سو مظاہرین کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔  ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔
گرفتار صدر پر قتل،  قطر کے لیے جاسوسی کرنے،  جیل توڑنے اور حماس تنظیم جو مصر میں خلاف قانون قرار دی گئی تھی کے ساتھ روابط کے الزام لگے۔ 
شستہ اورروان لہجے میں انگریزی بولنے والے محمدمرسی کو عدالت میں پہلی بار پیش کیا گیا تو وہ ایک ساونڈ پروف پنجرے میں بند تھے۔ پہلی سماعت پر سابقہ صدر کا یہ موقف سامنے آیا کہ فوج نے غیر قانونی طور پر تختہ الٹا ہے اور عدالت کے اختیار سماعت کو بھی مسترد کر دیا۔ مصری عدالت نے تیز ی سے سماعت مکمل کی،  سابقہ صدر کو سزائے موت، دوسرے مقدمے میں بیس سال قید اورتیسرے مقدمے میں تین سال کی قید کی سزا سنائی۔ ان کی موت کی سزا تو اپیل کے بعد ختم کر دی گئی مگر دوسری سزاہیں بحال رہیں۔ 
کمرہ عدالت میں موت سے قبل محمد مرسی، جن کی تین بیویاں،  چار بیٹے اور ایک بیٹی  ہے، کو چھ سال تک اس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا کہ ان کے خانداں کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ان کے خلاف ملک کے اندر زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ جس کے مطابق وہ غیر ملکی ایجنٹ، مصر کا غدار،  جیلوں کو توڑ کر اپنے حامی آزاد کرانے والا، قانون اور آئین کو نہ ماننے والا،  دہشت گردوں کا حامی، ملکی راز دوسرے ملکوں میں افشا ء کرنے والااور قاتل بتایا گیااور ملک کی فوج، عدلیہ اور اداروں کا دشمن ظاہر کیا گیا۔ ایمنسٹی والوں کا کہنا ہے دوران اسیری، ملک کے سابقہ صدر کو سونے کے لیے ننگا فرش میسر رہا۔ ان کا قرآن مہیا کرنے کا مطالبہ رد کر دیا گیا۔ان کے دونوں بھائیوں اور مصر میں موجود ان کے بیٹوں (دو بیٹے امریکی شہری ہیں)سمیت کسی کو بھی ان چھ سالوں میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔موت کے بعد جیل کے ہسپتال کے لان میں مرسی کے بیٹون کو جنازہ پڑہنے کی اجازت دی اور فوج نے اپنی نگرانی میں میت کو دفنا دیا۔
سید قطب کے بعد اخوان کے ہاں محمد مرسی طویل عرصہ تک یاد رکھے جائیں گے۔ البتہ ان کی سیاسی زندگی، قصر صدارت تک رسائی اور پھر بے کسی کی موت تاریخ کا حصہ ہے۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت محمد مرسی کے چالیس ہزار حامی جیلوں میں بند ہیں۔
 ملکوں میں بٹی امت مسلمہ،  ملکوں کے اندر سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم مسلمان،  شائد ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ جنگ جاری ہے۔ سابقہ امریکی صدر بش سینٗرکے الفاظ میں یہ جنگ امریکہ سے دور ممالک میں لڑی جارہی ہے ۔اس جاری جنگ کی نوعیت پر ایک مصری اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا     مرسی، احمق ہی نہیں بے وقوف بھی ہے    اس اخبار کا اشارہ اس ڈیڑھ بلین ڈالر کی طرف تھا جو امریکہ مصری فوج کو ہر سال وعدوں کو پورا کرنے کے عوض ادا کرتا ہے۔ 

اتوار، 16 جون، 2019

ہتھوڑا


قرآن پاک میں ہے 
   بے شک ہم نے اپنے رسولوں کوواضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں    
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے   لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے     ایک اور فرمان نبوی  ﷺ  ہے  جب وہ عدل کرے گا تو اس کے لیے اجر ہے    اجر کو قران مجید میں کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے     اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ )۔  عدالت، میزان اور دلیل وہ تکون ہے جس پر پر امن معاشرہ ترتیب پاتا ہے۔ 
کالم نویس ڈاکٹر اے ار  خان صاحب نے ہائی کورٹ کے ججوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا تھا     جج مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے سامنے پانی کا گلاس ضرور رکھے۔ جونہی سماعت شروع ہو، ایک گھونٹ منہ میں پینے کی غرض سے نہیں، اپنی زبان روکے رکھنے کی غرض سے، تاکہ فریقین کا موقف سن سکے   
امریتا پریتم نے تو یہاں تک کہا کہ    ترازو کے ایک پلڑے میں ہمیشہ پتھر ہوتے ہیں۔شائد اسی کا نام سچائی یا انصاف ہے    پتھروں میں جذبات نہیں ہوتے اسی لیے کمزور نہیں پڑتے۔ منصف کے لیے لازمی ہے اس کا دل اور آنکھ پتھر کے ہوں کیونکہ انصاف ایک بڑی امانت اور اعلی اخلاقی ذمہ داری اور بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ منصف کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ انصاف کا معیار مقرر کرتا ہے جو معاشرتی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ پاکستان میں سماعت کے دوران بولنے والے ججوں میں سب سے زیادہ نام جسٹس ثاقب نثار نے کمایا۔مگر یہ نام کمانے والے پہلے جج نہیں تھے ان سے قبل چوہدری محمد افتخار، نسیم حسن شاہ، ایم  ار کیانی  یہ بدعت پوری کر چکے تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ، مولوی منیر، شیخ انوارعدالتوں میں بہت کم بولتے تھے مگر ان کے فیصلے چیخ و پکار کرتے ہوئے کمرہ عدا؛ت سے برامد ہوا کرتے تھے۔
آج کل سیاسی حلقوں میں ایک حکائت کا بہت چرچا ہے۔ حکایت یوں ہے کہ مسلمانوں کے ایک خلیفہ نے جنگل میں ایک کمہار کے گدہوں کے نظم و ترتیب پر حیرت کا اظہار کیا تو کمہار نے قریب ہو کر خلیفہ کو بتایاکہ جو گدہا نظم توڑے اسے ڈنڈے سے مارتا ہوں وہ واپس قطار میں آ جاتا ہے۔کسی گدہے کی کیا مجال جو میرے بنائے ہو نظم کی خلاف ورزی کرے۔خلیفہ کمہار کی ڈسپلن قائم کرنے کی صلاحیت کے باعث اپنے ساتھ لے آیا اور اسے منصف کی کرسی پر بٹھا دیا۔ پہلا مقدمہ چوری کا پیش ہوا۔ جج نے مجرم کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا۔ وزیر نے اشارے سے اسے رک جانے کا کہا اور اٹھ کر جج کے پاس گیا اور اس کے کان میں کہا یہ اپنا آدمی ہے، جج نے دوسرا حکم وزیر کی زبان کاٹنے کا دیا۔جج کے حکم پر مجرم کا ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دی گئی۔ اس کے بعد ملک میں ایسا امن ہوا کہ پورا ملک ہی سدہر گیا۔ہمارے ایک وزیر با تدبیر نے ٹی وی پر بیٹھ کر فرمایا ہے کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے چین میں مقدمات کا سرعت سے فیصلہ ہوتا ہے اور انھیں گولی سے اڑا کر اطمینا ن حاصل کر لیا جاتا ہے۔ کوریا سے بھی ایسے ہی سریع انصاف کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ عراق کے معزول صدر صدام حسین اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے پستول سے میٹنگ کی میز پر ہی انصاف مہیا کر دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس قسم کا انصاف پاکستان میں عوام کو قابل قبول نہیں ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام تو اس انصاف کو بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کرتے۔ جس میں جج کا کرادار بھی انصاف پر مبنی نہ ہو۔ کیونکہ پاکستانیوں کو جمعہ کے خطبوں مین بتایا جاتا ہے    جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو توانصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ خدا تمھیں خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے   (النساء)
امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چیف جسٹس کا عہدہ اس لیے ٹھکرا دیا تھا کہ ان کے پیش نظر یہ فرمان نبوی  ﷺ  تھا    جو صیح فیصلہ نہیں کرے گا اس کا مقام جہنم ہے   ۔  جس معاشرے میں جج یا منصف حکمران کے ہاتھ کی چھڑی اور زور آور کی جیب کی گھڑی بن جائے وہاں عدالت کی عزت باقی رہتی ہے نہ جج کی۔ 
کیا پاکستانی عدالتوں کے ججوں کا کردار واقعی ایسا ہے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا ہے۔ اور پاکستان کے سپریم کورٹ کی عمارت پر نصب میزان وہی ہے جو آسمان سے اتاری گئی تھی؟  یہاں تو جسٹس ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ اپنے ہتھوڑے کے زور پر اپنی توقیر پر بضد رہی۔سرکاری ملازمیں کو بتایا جاتا کہ وہ حکومت کے نہیں ریاست کے ملازمیں ہیں۔مگر اپنے بارے میں ان کی رائے مختلف رہی۔اس دور میں سولی چڑھ جانے کے بعد بریت کے فیصلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔وقت کی حکومت کے وزیر داخلہ کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا جاتاا مگر کسی ادارے کے افسرکو جج سے ملنے کی سہولت دستیاب رہی۔دوسری طرف پاکستان کی سب سے اعلی ٰ عدالت میں چیف جسٹس کی موجودگی میں ایک شہری جج کے رو برو کھڑے ہو کر ان پررشوت ستانی کا الزام لگاتا ہے۔ نہ عدالت کی چھت پھٹتی ہے نہ جج حیرت سے کرسیوں سے اچھلتے ہیں۔ البتہ سیکورٹی کے ذریعے اسے کمرہ عدالت سے ضرور نکال باہر کیا جاتا ہے۔اس دور میں سیاسی مقدمات میں دہرا معیار اپنا کر عوام کو حیرت زدہ کیا گیا۔ آئین کو پاما کرنے والوں اور شہریوں کے قاتلوں سے مخاطب ہونے سے پہلے لہجوں میں میٹھا رس گھولا جاتا۔البتہ اپنے وسائل سے دوسرے شہریوں کی خدمت کرنے والوں کو طعنہ زنی کا شکار بنایا گیا۔امیر اور غریب کے لیے انصاف کے پیمانے علیحدہ علیحدہ کر دیے گئے۔ اورخود کو اعلانیہ سیاسی طور پر متنازعہ بناکربقول فیض عدل کا   حشر   اٹھا دیا گیا۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں بے شمار ججوں میں سے صرف چند لوگوں ہی کی مثال مل سکتی ہے جنھوں نے عدلیہ کو بدنام کیا اور اپنی ذات کو رسوا، ورنہ سیاسی، معاشی اور سماجی عدم مساوات کو ہماری عدلیہ ہی برابر رکھے ہوئے ہے۔ عدل کے لفظ کے لیے عبرانی میں صداقت کا لفظ ہے۔ ہماری عدالتوں کے جج صداقت کی حد تک عدل کرتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ نظام عدل میں پراسیکیوشن اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور ہمارے پراسیکیوشن کے اداروں کا کردار نیب کے کردار سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
پراسیکیوشن کے کردار کو جانچنے کے لیے مختلف سیاسی  مقدمات میں بنائی جانے والی جے ائی ٹی اور ان کے مرتب کردہ  والیوم کو ذہن میں لایئے۔۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایسی دستاویزات جو ٹرالیوں پر لاد کر عدالت میں لائی گئی مگر عملی طور لندن میں ترازوکے اس پلڑے کو اٹھانے میں ناکام رہی جس میں صرف ایک قانونی شق رکھی ہوئی تھی۔
 اس کے باوجود جج اپنے علم کے بل بوتے پر حقیقت جان لیتاہے۔ اللہ کی یہ نصیحت ہر جج کو ازبر ہوتی ہے   جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو  ۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ ججوں کے فیصلے انصاف کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی مستقبل سنوارتے نظر آتے ہیں اور سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ جو  
اپنی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اہل خانہ سمیت لندن جا بسے ہیں۔ 
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جناب ثاقب نثار صاحب ایسے جج کے طور پر یادگار رہیں گے جنھوں نے عدالتی ہتھوڑے کے ذریعے اپنا تاریخی مقام منتخب کیا

پیر، 10 جون، 2019

گر پڑی

                   
                   
راوی بیان کرتا ہے کہ ایک شخص کو ہندوستان میں اپنی زمین کے بدلے میں راولپنڈی کے مضافات میں واقع علاقے    ٹپئی    میں زمین  الاٹ ہوئی۔ اجنبی مسافر الاٹمنٹ لیٹر جیب میں ڈالے راولپنڈی کے ریلوے سٹیشن پر اترا۔ لوگوں سے مطلوبہ جگہ کا پتہ پوچھا مگر سٹیشن پر موجود مقامی لوگ بھی سرکاری کاغذ میں لکھے نام
Tai pai
سے واقف نہ تھے۔
 اس زمانے میں اجنبی مسافروں خاص طور پر ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کی مدد و رہنمائی کا جذبہ عروج پر تھا۔ لوگ اکٹھے ہو ئے اور کسی نے بتایا کہ انگریزی میں یہ نام    ٹپئی    کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اجنبی کی رہنمائی کی گئی اور اسے بتایا گیا کہ وہ کمپنی باغ میں موجود بسوں کے اڈے پر چلا جائے وہاں سے اسے    ٹپئی   جانے والی بس مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے انسان جو زبان بھی بولے سوچتا اپنی مادری زبان ہی میں ہے۔ اردو بولنے والے اس مسافر کے ذہن میں  ٹپئی کا سن کر   گر پڑی    کا تصور پید ا ہوا۔ جب وہ کمپنی باغ  (موجودہ نام لیاقت باغ) پہنچا تو اس کے سامنے مطلوبہ بس ڈہونڈنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس نے کاغذ دکھا کر کسی سے پتہ پوچھنے کا ارادہ کیا تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ کاغذ تو ریلوے سٹیشن پر ہی کسی کے ہاتھ میں تھما آیا ہے۔ اس نے اللہ کو یاد کیا اور    گر پڑی    جانے والی بس ڈہونڈنا شروع کی۔ اس کو بتایا گیا کہ گر پڑی نام کا تو کوئی گاوں ہے ہی نہیں۔ اجنبی مسافر کی رہنمائی کے لیے مجمع اکٹھا ہوا اور عقل اجتماعی نے فیصلہ کیا کہ مسافر اردو سپیکنگ ہے ناموں سے ناموس ہے یقینا اس نے   چڑ پڑی   جانا ہو گا۔ مسافر کو چڑپڑی جانے والی بس میں سوار کر دیا گیا۔ قصہ پاکستان بننے کے دنوں کا ہے، دلچسپ ہونے کی وجہ سے زبان زد عام ہوا، عام طور پر ایسے قصوں کی  تحقیق کی جائے تو لطیفہ ہی ثابت ہوتے ہیں، اس کے باوجود زبان کی چاشنی اسے علاقے میں مقبول رکھے ہوئے ہے، 
 پڑی   نام سے راولپنڈی میں کئی گاوں اور علاقے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک غیر معروف اور غیر ترقی یافتہ علاقے کا نام   تخت  پڑی    ہوا کرتا تھا۔ تخت پڑی جی ٹی روڈ کے کنارے اور راولپنڈی سے صرف چھ کلو میٹر دور ہونے کے باوجود غیر معروف علاقہ اس لیے تھا کہ 2210 ایکڑ پر پھیلا ہوا سرکاری جنگل تھا۔ جس کو مقامی زبان میں    رکھ    کہا جاتا تھا۔  (راولپنڈی کا موجودہ ایوب پارک بھی ان دنوں    توپی رکھ    ہوا کرتا تھاجس کا رقبہ 2300  ایکڑہوا کرتا تھا۔البتہ ایوب پارک کا اس وقت رقبہ 300  ایکڑ ہے) ۔ تخت پڑی کو شہرت اس وقت ملی جب اس جنگل کو کاٹ کر اس کے درخت بیچ دیے گئے۔ پھر اس سرکاری جنگل کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔    بندر بانٹ    کا دلچسپ مرحلہ حصہ نہ پانے والے بندر کا رد عمل ہوا کرتا ہے۔
تخت پڑی رکھ کی زمین کی بانٹ کے دوران رد عمل پیدا کرنے والوں نے معلومات میڈیا کو لیک کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اس میں کئی نامور اور بااثر خاندانوں کے افرادکے نام شامل ہیں۔ کچھ حصہ ایک ہاوسنگ سوسائٹی کو بھی الاٹ ہوا۔ جس نے اس جگہ کو ڈویلپ کر نا شروع کیا تو اپنے اثرو رسوخ کے بل بوتے پر 6000 کنال کے غیر الاٹ شدہ رقبے پر بھی قبضہ کر کے اسے اپنی ہاوسنگ سکیم میں شامل کر لیا۔ پہلے عام عوام نے حیرت کا اظہار کیا، پھر اخباروں میں مرچ مصالحے کے ساتھ کہانیاں شائع ہوئیں اور انجام کار بات عدالت تک جا پہنچی۔ ان دنوں ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہوا کرتے تھے۔ عدالت اسی ہاوسنگ سوسائٹی کو کراچی میں الائٹ کی گئی زمین کے ساتھ غیر قانونی طور پر قبضہ میں لی گئی زمین کے بارے میں ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے460  ارب روپے قسطوں میں بطور جرمانہ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے چکی تھی۔ اب راولپنڈی میں واقع  600 کنال کی غیر قانونی قابض زمین کا عدالت میں فیصلہ ہونا ہے۔ ہاوسنگ سوسائٹی والوں نے عدالت کو 15 لاکھ روپے فی کنال ادا کرنے کی تجویز دی ہے۔ہمیں ہاوسنگ سوسائٹی کے کردار سے دلچسپی ہے نہ سرکاری اداروں کی کرکردگی پر گلہ ہے۔ البتہ عدالت کو دیکھ کر وہ غریب، اجنبی مسافر یاد آتا ہے جو پنجابی کے لفظ    ٹپئی    کو اردومیں  بطور   گر پڑی    سوچتے سوچتے اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھا تھا۔ حالانکہ عدالت کے بارے میں  گر پڑی کا لفظ انتہائی نا مناسب ہے 

جمال زہرہ


اللہ سلامت رکھے واپڈا کو اور دعا ہے مچھروں کے لیے، اگر بجلی بند نہ ہوتی تو میں کبھی بھی صبح کے تین بجے تکیہ اٹھا کر چھت پر نہ آتااور مچھر پل بھر کے لیے بھی غفلت کرتے تو آپ اس تحریر سے محروم ہی رہتے۔مچھروں سے پنجہ آزمائی میں ہار مان کر توجہ خطہ افلاک پر روشن ستاروں پر جما دی۔ دب اکبر اور قطبی ستارے کے بارے میں سکول کے زمانے میں پڑہا تھا۔ آج انھیں دریافت کر ہی لیا۔ ایک اور ستارے سے بھی شناسائی ہے مگر وہ ابھی نکلا نہیں ہے۔ جگر مراد ٓبادی نے کہا تھا:
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گذرے
تو پھرکیسے کٹے   زندگی کہاں گذرے
مجھے انتظار ہے اسی کوکب حسن زہرہ کے طلوع ہونے کاجس کے ساتھ کئی حکائتیں اور داستانیں منسلک ہیں۔ رومیوں نے اسے وینس کہہ کر اس کی پرستش کی تو یونان والے افرودیت سمجھ کر اس کے نام قربانیاں کرتے رہے۔ ایران والوں نے اسے نائید کا نام دیا۔ عرب اسے زہرہ کہتے اور ہم صبح کا ستارہ پکارتے ہیں۔ہم حقیقت پسند لوگ ہیں یہ سورج کے نکلنے سے آدھا گھنٹہ پہلے طلوع ہوتا ہے اسی لیے اسے صبح کا ستارہ کہتے ہیں۔ہم جسے شام کا ستارہ کہتے ہیں جو غروب آفتاب کے ساتھ ہی مغرب کی جانب چمکتا نظر آتا ہے وہ بھی دراصل یہی زہرہ ہی ہے۔
قصص الانبیاء کے مطابق حضرت ابراہیم کی قوم سورج اور چاند کے ساتھ ساتھ زہرہ کی بھی پجاری تھی۔زمانہ جاہلیت کے عرب زہرہ کے نام پر خوبصورت عورت چڑہایا کرتے تھے ان کا اعتقاد تھا اس طرح ان کی عورتیں خوبصورت پیدا ہوں گی۔مگر لاہور میں فورمن کرسچین کالج کے استاد مولانا پادری سلطان محمد صاحب پال نے لکھا ہے کہ قربانی کے باوجود انکی عورتیں اور عورتوں کی طرح بعض خوبصور ت ہیں اور بعض بد صورت۔
شاہ عبدالعزیزنے تفسیر عزیزی میں ا لکھا ہے کہ حضرت ادریس کے زمانے میں ایک بار اللہ تعالی نے آسمان کے پردے ہٹا دیے تو فرشتوں نے دنیا میں لوگوں کو گناہوں میں مبتلاء دیکھا۔اس پر انھوں نے شکائت کی کہ انسان کو تو دنیا میں عبادت کے لیے بھیجا گیا تھااوریہ گناہ کے کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالی ٰ انسانوں کی پکڑ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری ذات دنیا والوں سے پردے میں ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ گناہ کی جرات کرتے ہیں۔فرشتوں کے اظہار تعجب پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تم خود میں سے سب سے زیادہ پارسا چنو۔ فرشتوں نے تین فرشتے چنے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمھیں زمین پر اتاروں گا۔ مگر تم نے وہا جا کر چار کام نہیں کرنے۔ شراب نہیں پینی، زنا نہیں کرنا، قتل نہیں کرنا اور بت پرستی سے دور رہنا ہے۔ایک فرشتے نے تو شرائط سے خوفزدہ ہو کر انکار کر دیا مگر ہاروت اور ماروت کو خواہشات عطا کر کے زمین پر بھیج دیا گیا۔وہ دنیا میں منصف تھے۔ ان کے پاس دو خوب صورت عورتیں انصاف حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ہاروت اور ماروت پر خواہشات کو غلبہ ہوا۔ عورتوں سے کہا ہماری خواہش پوری کر دو تمھارے حق میں فیصلہ کر دیں گے۔ عورتوں نے شرط رکھی، ہمارے ہم مذہب ہو جاو، بتوں کو سجدہ کرو تو ہم تمھاری خواہش پور کر دیں گی۔ انھوں نے بتوں کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ عورتین واپس چلی گئیں مگر ایک مدت کے بعد واپس آئیں۔ انھوں نے پھر خواہش کی، عورتوں نے کہا پہلے ہمارے شوہروں کو قتل کرو تاکہ وہ ہمارے اور تمھارے لیے فتنہ پیدا نہ کر سکیں۔ ہاروت اور ماروت نے قتل کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ تو عورتوں نے شراب پینے کا کہا۔انھوں نے اسے معمولی سمجھ کر پی لیا۔ شراب پی چکے تو زنا کیا، پھر ان کے شوہروں کو قتل کر کے بت کے سامنے سجدہ ریز بھی ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کے پردے ہٹا دیے تو فرشتے اپنے پارسا ساتھیوں کی جرات پر ششدر رہ گئے۔عورتوں نے  پوچھا تم آسمان پر کیسے چلے جاتے ہو۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس اسم اعظم ہے۔ عورتوں نے بھی وہ اسم سیکھ لیا اور دونوں ہاروت اورماروت کے ساتھ زمیں سے آسمان پر آ گئیں۔ آسمان پر ان دونوں کو تو اچک لیا گیا مگر ہاروت اور ماروت کے پر کاٹ کر زمین کی طرف دھتکار دیا گیا۔ہاروت اور ماروت کو معلوم تھاکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا پیغمبر موجود ہے جن کی دعا قبول ہوتی ہے۔ دونوں نبی اللہ کے پاس پیش ہوئے اور معافی کے لیے سفارش کی درخواست کی۔ آخرت میں عذاب یا دنیا میں سزا میں سے چناو کا اختیار دیا گیا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا عارضی ہے انھوں نے دنیا کی سزا مانگی۔ عراق کے شہر بابل میں وہ بطور سزا ایک کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ مولانا مودودی مرحوم نے اپنی تفہیم القرآن میں اس قصے پر سوال اٹھائے ہیں۔ 
زہرہ ستارے سے پاکستانیوں کی دلچسپی کا سبب یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان کے نجومیوں کے بیانا ت اخبارات میں چھپے تھے کہ پاکستان پچاس سال میں ختم ہو جائے گااور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر پاکستان نے جیسے تیسے پچاس سال پورے کر لیے تو پھر پاکستان کا اچھا وقت شروع ہو جائے گا کیونکہ ہندو جوتشیوں کے مطابق زہرہ پاکستان کے گھر میں داخل ہوکر بیٹھ جائے گا۔ جناب انتظار حسین زنجانی کے مطابق  زہرہ27  دسمبر2012 کو پاکستان کے گھر میں داخل ہو چکا ہے۔زنجانی صاحب کے مطابق پاکستان کے جنم کا جو زائچہ 1847 میں بنایا گیا تھا وہ  16 دسمبر 1971 کے سقوط ڈھاکہ کے بعد کارآمد نہ رہا تو 20 دسمبر 1971 دوسرا زائچہ بنایا گیا۔ نئے زائچے کے مطابق پاکستان کا طالع برج ثور ہے اور اس کا مالک ستارہ زہرہ ہے۔اب پاکستان کو  عالم افلاک سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
علم نجوم کے مطابق مرد کے زائچے میں زہرہ اس کی شریک حیات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے خوبصورتی کو زہرہ لقا، زہرہ جمال،زہرہ وش اور زہرہ جبین جیسے مرکب الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
زہرہ کے نام سے ایک پتھر بھی پایا جاتا ہے۔ زہرہ مہرہ نایاب ہونے کے باعث بہت قیمتی ہے۔اس پتھر کو جسم کے ساتھ مس کر کے رکھنے والے سے جنات اور جادو کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ فشار خون کو معتدل رکھنے میں معاون بنتا ہے۔زہرہ مہرہ سے زہر کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ زہرہ مہرہ پتھرکے برتن میں کھانا کھانے سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔  پاکستان کی شہید وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ نے جب سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا تھا تو عزت مآب پرنس آغا خان صاحب نے ان کی دعوت کی تو کھانازہرہ مہرہ کے برتنوں میں پیش کیا گیا تھا۔

جمعرات، 6 جون، 2019

سمرقندی جج


حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مسلمانوں کے ایک کمانڈر  قنیبہ بن مسلم نے اسلام کے بتاٗے ہوئے کچھ اصول نظر انداز کر کے سمرقند پر قبضہ کر لیا۔ مفتوعہ آبادی عیسائیوں کی تھی۔ پادری نے ایک پیامبر کے ذریعے خلیفہ کو ایک خط بجھوایا جس میں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شکائت کی گئی تھی۔جب یہ خط خلیفہ کو پیش کیا گیاتو خلیفہ نے اسی خط کی پشت پر لکھا   عمر بن عبدالعزیز کی جانب سے اپنے عامل کے نام، ایک منصف مقرر کروجو پادری کی شکائت سنے   
پادری اس حکم کو دیکھ کر مایوس تو ہوا مگر اس نے مناسب سمجھا کہ یہ پیغام سمرقند میں خلیفہ کے گورنر تک پہنچائے۔ جب گورنر نے اپنے خلیفہ کا حکم نامہ دیکھا تو اس نے اسی وقت جمیع نامی ایک منصف مقرر کر دیا۔ جمیع نے اپنی عدالت سجائی۔پادری اور قنیبہ دونوں کو طلب کر لیا۔ قاضی نے دونوں کو ایک جیسا پروٹوکول دیا۔ پہلے شکائت کنندہ پادری کی بات سنی گئی۔ پادری نے کہا  کمانڈر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ دعوت اسلام دی کہ اس پر سوچ بچار کرتے۔ 
منصف نے قنیبہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا تو قنیبہ نے کہا جنگ تو ہوتی ہی فریب ہے۔ اور یہ کہ سمرقند کے جوار میں لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے ہماری مزاحمت کی تھی۔لہذا ہم نے حملہ کر کے سارے سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
منصف نے پوچھا  پیشگی اطلاع دی تھی یا نہیں۔ قنبیہ کے پاس خاموشی کے سوا جواب نہ تھا۔وہ خاموش رہے تو منصف نے کہا   قنبیہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہو۔اب عدالت حکم جاری کرے گی۔۔ اور عدالت نے کمانڈر کو اپنی فوج سمیت سمرقند سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔
قصص من التاریخ نامی کتاب کے مصنف شیخ علی طنطاوی نے اس قصے کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس دن شام کے وقت سمر قند والوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر واپس جا رہا ہے اور پیچھے گرد و غبار کے بادل ہیں۔ گرد کے بیٹھ جانے کے بعد
سمرقندیوں کو حقیقت حال معلوم ہوئی۔ ان کو احساس ہوا کہ ان کے عارضی حکمرانوں کا ان کے ساتھ برتاو ان کے پرانے حکمرانوں کی نسبت اخلاقی، معاشرتی اور معاملات کے لحاظ سے بہت بہتر تھا۔لوگ اسی پادری کے پاس گئے جس نے قنیبہ کی شکائت کی تھی اور اسے مجبور کیا کہ وہ ان کیساتھ جا کر نئے حکمرانوں کو پاس لائے۔مسلمانوں بطور حکمران واپس آئے۔ طویل عرصہ سمر قند پر حکومت کی اور ایک وقت آیا کہ سمر قند مسلمانوں کا دارلخلافہ بھی بنا۔
عمر بن عبدالعزیر کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔اور ان کے منصفوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ منصف کا کام انصاف کرنا ہے خواہ وہ اپنی حکومت ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ یہ ایسا اصول ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا پھل انتہائی شیرین ہوتا ہے۔ انصاف کے طلب گار ہمیشہ کمزور طبقات ہوا کرتے ہیں۔ منصف انصاف کر کے کمزور کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو بالا دست طبقات کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نا عاقبت اندیش حکمران تو منصف کی کرسی ہی کو الٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک جج کی کرسی کو الٹانے کی کوشش میں خود جنرل صاحب کی کرسی الٹ چکی ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت کو سہارا دیتے وقت اور حکومت کی اعانت کے دوران تو جج اچھا تھا مگر جب ایک فیصلہ جو ابھی آنا تھا اور مشرف حکومت کو شک تھا کہ فیصلہ خلاف بھی آ سکتا ہے تو جج کو جی ایچ کیو میں بلا کر اس سے استعفیٰ طلب اور گاڑی سے جھنڈا اتار لیا گیا۔ ایک جج جو سالوں سے فیصلے کر رہا ہے اس کے سب فیصلے تو منظور ہوں مگر حکومت کی مستقبل کی پلاننگ میں کوئی فیصلہ روڑا بنتا نظر آئے تو پہلے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر تحریک چلائی جائے۔ پھر اپنے تنخواہ دار صحافیوں اور ٹی وی کے اینکروں کی مدد سے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جائے تو عوام بھی ششدر ہو کر رہ جاتی ہے۔
 دنیا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتی ہے  ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیاں دنیا کے لیے مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہر دور حکومت میں کچھ جج حکمرانوں کی نظروں میں کھٹکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی سابقہ روایات کو برقرار رکھنے کی رسم پر پورا اتر رہے ہیں    

جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

جمعرات، 2 مئی، 2019

خالی قبر



میں نوشہرہ میں ایک قبر کے کنارے کھڑا تھا۔یہ قبر دوسری قبروں سے اس لیے مختلف تھی کہ اس میں میت تھی ہی نہیں۔ اس سے قبل ہم نوشہرہ کے قریب ہی ایک بستی سے ہو کر آئے تھے جس کے باسی افغانستان سے آ کر یہاں بس گئے تھے۔ گفتگو میں دہماکوں کا ذکر آیا۔ جنگ کی باتیں ہوئیں اور ایک صاحب نے دعا کے انداز میں کہا، خدا اس قبر بنانے والے کو اس قبر میں دفن ہونا نصیب کرے۔ ایک عمر رسیدہ شخص کا کہنا تھا 
    قبر بھی نصیب والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے    
یہ بات سن کر میرے ذہن میں سری نگر کے مزار شہداء میں بنی دو قبریں ابھریں۔ ایک قبرکشمیری رہنماء مقبول بٹ کی ہے اور دسری افضل گرو کی۔ یہ دونوں قبریں فی الحال اپنی میتوں کی منتظر ہیں حالانکہ دونوں کو تہاڑ کی جیل میں پھانسی دی جا چکی ہے۔ 
ایک قبر بنگلہ دیش میں میں کھودی گئی تھی۔بتایا گیا تھا کہ اس قبر میں پاک فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ مطیع الرحمان کی میت د فنائی جائے گی۔ مطیع الرحمان نے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس نشان حیدر کا طیارہ اغوا کر کے بھارت لے جانے کی کوشش کی تھی مگر نوجوان منہاس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔ پاکستانی قوم نے سب سے معززعسکری ایوارڈ دے کر اپنے شہید کو خراج پیش کیا تھاتو بنگالی بھی اپنے ہیرو کو بھولے نہیں۔ 
مطیع الرحمان کی بیٹی نے  1990 میں کراچی میں اپنے والد کی قبر پر حاضری دی اور واپس جا کر قبر کھدوائی۔قبر کھودنے کا مقصد یہی تھا کہ خالی قبر ان کو یاد دلاتی رہے کہ مطیع الرحمان کی میت جو کراچی میں دفن ہے اسے ڈھاکہ لا کر اس قبر میں دفن کرنا ہے2004میں سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنگالی اپنے ہیرو کی میت لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا عسکری ایوارڈ دیا گیا، جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا گیا۔اور میت کو سرکاری پروٹول کے ساتھ منتظر قبر میں دفن کر دیا گیا۔ 
پاکستان کے ایک مایہ ناز، بہادر، شہید، نشان حیدر کے حامل سپوت کا جسد خاکی بنگلہ دیش کے ضلع دیناج پور میں موجودہے۔ جہلم کے شہر میں ایک یادگار قوم کو ان کی یاد دلاتی ہے۔ البتہ ہماری نئی نسل کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ میجر محمد اکرم شہید  نشان حیدر کا جسد خاکی  پاکستان میں نہیں ہے۔ جنرل مشرف جب مطیع الرحمان کی میت بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا تو کچھ لوگوں نے دبے لفظوں میں میجر شہید نشان حیدر کا نام لیا تھا مگر جنرل مشرف نے یہ زبانیں خاموش کرا دیں تھیں۔اس کا سبب یہ تھا کہ گجرات والوں نے کبھی میجر شہید کے لیے کوئی قبر کھودی ہی نہیں تھی۔ کشمیریوں کے بس میں قبر یں کھودنا ہی تھا۔ مگر انھیں یقین ہے قبر کی موجودگی میں ان کی آنے والی نسلیں یہ رکھیں گی کہ انھوں نے تہاڑ جیل میں مدفوں دو میتوں کو مزار شہداء میں لا کر دفن کرنا ہے  اور یہ بھی حقیقت ہے خالی قبر زیادہ دیر اپنی میت کو انتظار نہیں کراتی۔ محکوم ہو کر کشمیریوں نے وہ کام کرلیا جو آزاد ہو کر پاکستانی نہ کر سکے کہ اپنے شہید ہیرو کے لیے قبر ہی کھود لیں۔

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

محبت


بیج زمین مین دفن کیا جاتا ہے۔ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے مگر جب وہ پھٹ کر، پھوٹ کر اورزمین کو پھاڑ کر نکلتا ہے تو نظر آتا ہے۔  جب درخت بنتا ہے تو مخلوق اس سے مستفید ہوتی ہے۔کچھ کے لیے پناہ گاہ بنتا ہے۔کوئی اس کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔پتے اور چھلکے سے شفا حاصل ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کئی بیچ پیدا ہوتے ہیں۔محبت بھی ایک بیج ہے انسان کے دل میں پھوٹتا ہے تو زبان اور اعضاء سے لوگوں کو نظر آتا ہے۔محبت وہ جوہر ہے جورشتوں، ناطوں، قرابتوں اور دوستیوں کو مستحکم بناتا ہے۔فرد، خاندان اور معاشرے پر اثر انداز ہو کرزندگیوں میں امن، سکون اور عافیت لاتا ہے۔
اہل علم کے نزدیک محبت کے تین درجے ہیں۔ محبت، شدید محبت اور اشد محبت۔ اشد محبت کوامام فخرالدین رازی نے عشق کا نام دیا ہے۔۔محبت کے بارے میں صاحب کنزالایمان نے لکھا ہے    جو کسی چیز سے محبت کرے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے  ۔اشد محبت کا ذکر قرآن پاک میں  ہے   ایمان والے اللہ سے اشد محبت کرتے ہیں    (البقرہ:165) 
محبت کا تعلق جبلت، فطرت،اطاعت، عطا،احسان وغیرہ سے ہوتا ہے۔ البتہ شدید محبت ایک کیفیت ہے اور عشق جوہر ہے۔ ہر جوہر کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ جیسے گھی کی بنیاد دودھ ہے۔ انسانوں کی آپس میں محبت ایک فطری عمل ہے جو   یوم الست   کو آپس میں مانوس ہو جانے والی ارواح کے درمیان پایا جاتا ہے۔ 
محبت خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ جس کابیچ ہر دل میں رکھ دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں دفن یہ بیج پھوٹ کر ظاہر ہو جاتا ہے ان سے اللہ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے
     اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (البقرہ:222)
     اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (آلعمران:159)
     اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (آلعمران:139)
     اللہ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے    (التوبہ:6)
     اللہ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے    (التوبہ:108)
     اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ:13)
     اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ:62)
     اللہ اپنی راہ میں قتال کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (الصف:6)
مزیدرسول اکرم  ﷺ  کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تین قسم کے لوگوں سے محبت کرتا ہے  (1)  جو خلوص نیت سے اس کی راہ میں اپنی جان فدا کرتے ہیں  (2)  جو اپنے پڑوسی کے ظلم پر صبر کرتے ہیں  (3)  جو رات کو اس وقت اٹھتے ہیں جب قافلہ سفر سے تھک کر آرام کے لیے اپنا بستر لگاتاہے۔
انسان کو دنیا میں عزیز ترین چیز اپنی اور اہل و عیال کی جان ہوتی ہے۔مگررسول اللہ ﷺ  کی دعا کے الفاظ پر غور فرمائیں    میں تیری محبت مانگتا ہوں اور جو تجھ سے محبت کرتا ہو اسکی محبت اور اس عمل کی محبت جو تیری محبت سے قریب کر دے   ایک دوسری دعا کے الفاظ ہیں    اے اللہ تو اپنی محبت کو میری جان سے میرے اہل وعیال سے  اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب بنا  
رحم کا منبع محبت ہے۔ دنیا میں رحم بھرے مناظر جن کا ہم اپنی آنکھوں سے مشائدہ کرتے ہیں جیسے انسانوں کے درمیان ایثار کے واقعات، اولاد کے لیے والدین کی مشقت، معذروں سے ہمدردی یہ سب اس سرمایہ محبت کا سو میں سے ایک حصہ ہے جو خالق نے پوری مخلوق کو عطا کیا ہے۔دور رسالت میں ایک شخص کو بار بار شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کرکے پایا جاتا تھا۔کسی نے کہا    اللہ اس پر لعنت کر کہ باربار لایا جاتا ہے    رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا اس پر لعنت نہ کروکہ اسے اللہ اور رسول سے محبت ہے   ۔ موذن رسول سید نا بلال اللہ اور رسول اللہ سے محبت کا جیتا جاگتا نام ہے
مدینہ میں ایک مسلمان فوت ہوا۔کاشانہ نبوت سے ہدائت آئی   اس کے ساتھ نرمی کرو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ نرمی کی ہے  کیونکہ اس کو اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت تھی   ۔  قبر کھودنے والوں سے فرمایا    اس کی قبر کشادہ رکھو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ کشادگی فرمائی ہے   ۔ کسی نے پوچھا    یا رسول اللہ آپ کو مرنے والی کی موت کا غم ہے    فرمایا    
   ہاں، کیونکہ یہ اللہ اور رسول سے محبت کرتا تھا   ۔
لوگوں کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ  نے ایک صحابی سے پوچھا ہر نماز میں ایک ہی سورۃ  کیون پڑہتے ہو۔عرض کیا اس میں اللہ کی صفات ہیں اور مجھے اس کے پڑہنے سے محبت ہے۔ فرمان جاری ہوا    ان کو بشارت ہو اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے  
یہ واقعہ تو بار بار سنا اور سنایا اور لکھا جاتا ہے کہ ایک نے پوچھا تھا    قیامت کب آئے گی   استفسار فرمایا  تم نے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے۔نادم نے عرض کیا  نمازوں کا ذخیرہ ہے نہ روزوں کا۔ صدقات و خیرات سے بھی تہی دامن ہوں۔البتہ سرمایہ امید اللہ اور رسول کی محبت ہے۔  ارشاد فرمایا  انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رہے گا۔
اللہ تعالی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی اس سے محبت کرو۔پھر زمین پر اسے محب بنا دیا جاتا ہے۔
محبت وہ ثمر شیریں ہے کہ آپ  ﷺ  نے فرمایا    لوگو، اللہ سے محبت کرو کہ وہ تمھیں اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے  اور اس کی محبت کے سبب سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب سے میرے اہل بیت سے محبت کرو   ۔
یہ محبت ہی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ  کو    حبیب اللہ   بنایا۔ 
سنن نسائی میں درج یہ واقعہ اللہ، بندے اور محبت کے تعلق پر سے چادر ہٹاتا ہے ۔ ایک عورت اپنا بچہ گود میں لے کر سوال کرتی ہے    یا رسول اللہ، ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے، کیا اللہ کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ محبت نہیں ہے  
فرمایا    بے شک ایسے ہی ہے  
بولی    کوئی ماں تو اپنی اولاد کوخود آگ میں ڈالنا گوارہ نہ کرے گی   
ان الفاظ کے فرط اثر سے  رسول اللہ ﷺ  کی آنکھوں میں صرف آنسو ہی نہ آئے بلکہ گریہ طاری ہو گیا۔رب العالمین کے صادق و امین رحمت العالمین نبی خاتم المرسلین  ﷺ  نے فرمایا     اللہ صرف اس بندے کو عذاب دیتا ہے جو سرکشی سے ایک کو دو کہتا ہے   



اتوار، 28 اپریل، 2019

کہانی بڑی پرانی


کہانی بڑی پرانی
کہانی ہے اور پرانی ہے مگر ہر دور میں ترمیم کر کے دہرائی جاتی رہی ہے۔جب شروع میں یہ کہانی لکھی گئی اس کا ہیرو،   یقین کی دولت سے مالا مال ایک غریب اور نیم خواندہ، نورحیات نام کاشخص تھا۔ اس نے ایک عالم دین کا وعظ سنا اور اپنی ساری جمع پونچی خرچ کر کے گاوں کے باہر اس رستے پر کنواں کھدوایاں جس رستے پر مسافروں کی آمدو رفت ہوا کرتی تھی۔ وہ صبح کی نماز پڑھ کر کنویں کی منڈہیر پر بیٹھ جاتا اور پیاسے مسافروں کو پانی پلاتا۔شیطان کو اس کا یہ عمل کھٹکتا تھا۔ اس نے نور حیات کے ساتھ دوستی لگائی اور انتظار کرنے لگا کہ موقع ملے تو اسے خدمت خلق سے باز رکھے۔ 
گرمیوں کی ایک دوپہر نور حیات نے ایک مسافر جو   راز دار لوح مقد ر تھا    کو پانی پلایا۔ مسافر کا کلیجہ تازہ پانی پی کرٹھنڈا ہوا تو اس نے نظر بھر کے نور حیات کو دیکھا اور بولا    اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے   ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا   جو چاہیں عطا کر دیں   ۔ مسافرنے اس کے ہاتھ ہر اپنی انگلی سے ایک کا ہندسہ لکھا اور چل دیا۔ چند دنوں میں ہی نورحیات کو احساس ہو گیاکہ اس کی آمدن بڑھ کر ایک روپیہ روز ہو گئی ہے۔ وقت گزرتا رہا کہ ایک دن نور حیات کے ہاتھوں سے ایک اور    راز دار لوح مقدر    نے پانی پیا اور کہا    اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے   ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا   جو چاہیں عطا کر دیں    مسافر نے اس کے ہاتھ پر ایک کا ہندسہ دیکھا تو اس کے دائیں طرف ایک صفر ڈال کر چل دیا۔ نور حیات کی روزانہ آمدن دس روپے ہوگئی۔ جس زمانے کی کہانی ہے دس روپے روازانہ بڑے بڑے رئیسوں کی آمدن بھی نہ تھی۔ طاق میں بیٹھے نور حیات کے دوست نے اسے یہ روپیہ کاروبار میں لگانے کا مشورہ دیا۔دونوں دوستوں نے مشورہ کیا اور اور اونے پونے داموں بنجر زمیں خرید کر اس پر اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگا لیا۔ دس روپے روزانہ میں بھٹے کی کمائی بھی شامل ہو گئی۔ چند سالوں میں نور حیات نے علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں کا جا ل پھیلا دیا۔ اس کا دوست اس کو مشورہ دیتا کہ وہ کنویں کی منڈہیر پر کسی ملازم کو بٹھائے اور خود اپنے کاروبار پر توجہ دے۔ مگر نورحیات کو کنویں پر لوگوں کو پانی پلا کر قلبی سکون ملتا تھا۔ ادھر اس کا دوست اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ نور حیات فیصلہ نہ کر پاتا کہ وہ دل کی مانے یا دوست کی۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن گرمیوں کی تپتی دوپہر کو ایک گھڑ سوار کہ    راز دار لوح مقدر    تھا ،  پنے ساتھی سمیت کنویں پر اترا۔نور حیات نے اسے پانی کا پیالہ پیش کیا اس نے پیالہ پکڑانے والے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کو دیکھا پھر نور حیات کے ماتھے کو پڑہا اور بولا     اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے    نور حیات نے ہاتھ پھیلا دیا۔ مسافر نے پوچھا بولتے کیوں نہیں کیا مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا ،  نور حیات نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مسافر نے اپنے ساتھی سے کہا۔
مولوی، اس کے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کے دائیں طرف ایک صفر ہماری طرف سے ڈال دے، ساتھ ہی مولوی کی طرف متوجہ ہو کر کہا تیرا چلہ بھی ختم ہوا اب تو اسی نیک بخت کے ساتھ رہ اور اسے مانگنے کا نہیں خرچ کرنے کاسلیقہ سکھا۔یہ کہہ کر مسافر گھوڑے پر سوار ہوکر چل دیا۔ 
گھڑ سوار کے جاتے ہی مولوی نے نور حیات کو باور کرا دیا کہ سو روپے میں نوے روپے اس کے استاد کے دیے ہوئے ہیں اس لیے یہ رقم سلیقہ سیکھنے پر ہی خرچ ہو گی۔ نور حیات رضا مند ہو گیا۔ 
مولوی کے مشورے پر نور حیات نے کنویں کے ساتھ ہی ایک مسافر خانہ بنا لیا۔ اس میں کھانا پکتا مسافر اور ارد گرد کے لوگ کھاتے اور نور حیات کو دعائیں دیتے۔ آمدن زیادہ تھی اور اخراجات کم۔کچھ ہی عرصے میں مولوی کے کہنے پر ایک مسجد بھی بن گئی، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اہل علم بھی علاقے کے راستوں سے آشنا ہوئے۔یہ سب نور حیات کے دوست کو پسند نہ تھا۔ اس نے علاقے کے لوگوں کو قائل کیا اور نور حیات کے خلاف کے تھانے میں، نیب کے دفتر اور انکم ٹیکس کے دفتر میں درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ تفتیش شروع ہوئی، پولیس کو ہدائت ہوئی   ایک کا ہندسہ   لکھنے والے کو گرفتار کیا جائے۔ کہا جاتا ہے پولیس چاہے تو ملزم کو پاتال سے بھی ڈہونڈ کر لا سکتی ہے۔ پولیس نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا، ملزم کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا لکھا ہوا    ایک کا ہندسہ    مٹائے۔ نیب کا خیال تھا کہ ایک کے مٹ جانے کے بعد، صفر، خواہ کتنے ہی ہوں اپنی وقعت کھو دیں گے۔ایسا ہی ہوا، اینٹوں کے سارے ہی بھٹے بیٹھ گئے۔ البتہ کہانی کے مطابق ایک مٹ جانے کے بعد وہ صفر بے وقعت ہو گیا جو ایک کو دس بناتا تھا  البتہ تیسرا  صفرجو سو بناتا تھا اپنے مقام پر قائم ہے مگر اس کی    قیمت    نوے ہے۔  
کہانی، کہانی ہی ہوتی ہے، ہمارا کام لکھنا ہے، نتیجہ نکالنا یا سبق حاصل کرنا قاری کا حق ہے اور پڑھ کر نذر انداز کردینے والوں کے اپنے حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا رواداری ہے، اس سے بڑھ کر رواداری کیا ہو سکتی ہے کہ دستر خوان بچھا کر معترض کو بھی کھلایا جائے اور اس کی تنقید کوبھی مسکرا کر سنا جائے۔



ہفتہ، 27 اپریل، 2019

زبان اور عمل کی لگام

؂
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے انسانوں کو ہدائت ار رہنمائی سے کبھی بھی محروم نہ رکھا۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی اسے عقل و شعورکے ساتھ ساتھ اپنی ایک بڑی صفت ْ علیم ْ میں سےعلم عطا فرما کر انسان کو اس قابل کر دیا کہ وہ راہ حیات کے روشن اور تاریک راستوں کو پہچان سکے۔ہم صبح و شام اپنے خدا سے سیدھی راہ کی طلب کرتے ہیں۔حالانکہ یہ راہ تو موجود ہے البتہ ہماری دعاوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ سیدہی راہ روشن ہو کر ہمیں اس طرح دکھائی دے کہ ہم یقین کامل اور دل کے اطمینان کے ساتھ اس پر چل سکیں۔ ذہنی بے یقینی انسان کی جبلت کا حصہ ہے، اس کے باوجود کامیاب لوگوں کی زندگی سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔
کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ مختلف لوگوں کے قابل تقلید لوگ (ہیرو) مختلف ہوتے ہیں۔البتہ اس عالم رنگ و بو میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دنیا کے اخلاقی طور پر تاریک ترین حصے میں روشن ہوااور اخلاقی، سماجی، نظریاتی اور عملی طور پر ایسے انقلابی اقدامات اٹھاٗے کہ دنیا کے کونے کونے سے اہل علم نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اس ہستی کا نام مبارک محمد    ہے جو اللہ کے اخری رسول ﷺ ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو ان کی اتباع میں لانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو بطور نمونہ اپنانے کے خواہش مند اپنے جبلی تعصبات سے بالا تر ہو کر بھی اس اجتماعیت سے دورہیں جس اجتماعیت نے رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں (اصحاب ) کے ایمان کو اس طرح راسخ کر دیا تھاکہ ان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی کامیابی گویا نظرآ رہی تھی۔جبلی طور پر انسان وہی ہے۔فطرت آدم بھی تبدیل نہیں ہوئی۔  قران بھی وہی ہے جو اصحاب رسول پڑہا کرتے تھے۔تعلیمات نبوی ﷺ بھی محفوظ ہیں ۔مگرآج اسلام کی وحدانیت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذہب ایک تقسیم کارآلہ بن کر رہ گیا ہے۔مقام غور ہے کہ ْ تبدیلی ْ کہاں ہوئی ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے

 ْ فی الحقیقت تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہائت ہی حسین نمونہ ہے ْ (الاحزاب)

اسوہ حسنہ عنوان ہے رسول اللہ کی حیات طیبہ کااور اس عنوان کے کئی ابواب اور پہلو ہیں، ان میں ایک پہلو کی خود خدا نے نشاندہی کی ہے ۔ فرمان الہی ہے

 ْ تم کیوں کہتے ہو جو کرتےنئیں ، بڑی بے زاری ہے اللہ کے یہاں ، کہ کہو وہ جو کرو نہ ْ ۔ اس عمل کو 

اردو کے ایک محاورے میں کہا گیا ہے ْ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ْ یہ عمل انسان کا ایسا کمزور پہلو ہے جس کی خدا نے نظریاتی طور پر اور خدا کے رسول نے عملی طور پر حوصلہ شکنی کی ہے۔سیرت النبی کا مطالعہ بتاتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہرنصیحت کے الفاظ میں عمل کی روح پھونک کراپنی تعلیمات کو ابدیت عطا فرمائی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا

 ْ جو قران میں الفاظ کی صورت میں ہے ،وہی حامل قرآن کی سیرت مین بطور عمل تھا ْ ۔

 انھوں نے اگر دوسروں کو کھلانے کی نصیحت کی تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا، اگر دوسروں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو ہند اوراس کے غلام کومعاف کیا، زہر کھلانے والوں سے در گذر کیا۔ اگر سوال کرنے والوں کے سوال پورا کرنے کی ہدایت کی تو شدید ضرورت کے ایام میں اپنی چادر اتار کر دے دی۔فرمان و اعمال میں ہم آہنگی کتاب اسوہ حسنہ کا روشن باب ہے۔اس فرمان نبی کا ہر لفظ عمل کی گردش پوری کرنے کے بعد زبان مبارک سے نکلا ہے

 ْ مومن وہ ہے جس کو لوگ امین سمجھیں ، مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ، 
مہاجر وہ ہے جس نے بدی کو چھوڑ دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصہ سے محفوظ نہ رہا ہو ْ 

قول و فعل کا ہم آہنگ نہ ہونا ایسا عیب ہے جو الفاظ کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔وعظ کو بے اثر بے جان الفاظ نہیں کیا کرتے۔ شخصیت کو گہن اقوال و افعال کی بے آہنگی لگایا کرتی ہے۔ ہمارے پاس خوبصورت اور مرصع الفاظ کی کمی ہے نہ دلپذیر حکائتوں کی قلت ۔ ناصحین کی بھی بہتات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زبان کو عمل کی لگام پہنانے کی ضرورت ہے

جمعہ، 26 اپریل، 2019

سمیع و علیم


زیادہ پرانی بات نہیں، 1992 کا سال تھا، کپمیوٹر میں ونڈو انسٹال کی، اس مشین میں حیرت انگیز انقلاب آیا۔ محنت کم اور نتیجہ رنگین۔ وہ کمپیوٹر جو میرے بچوں کے لیے معمہ تھا اب گھر میں ان کی پسندیدہ شے تھی۔ انٹر نیٹ نایاب نہیں مگر مہنگی  تھی۔ اس کے باوجود بچوں کو کچھ دیر اس انٹرنیٹ نامی نئے کھلونے سے کھیلنے کی اجازت تھی۔ البتہ میرا ایک بیٹا اس پر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا  ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے 
 لاہور سے  ایک صاحب راولپنڈی تشریف لائے، ایک پروفیسرصاحب سے انھوں نے ملاقات کی۔ لاہور واپس جا کر انھوں نے اپنا طبی معائنہ کرایا۔ ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ پروفیسر صاحب جن کا طب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اوروہ بیماری جو مجھ سے بھی پوشیدہ تھی کیسے جان گئے۔ 
وہ لوگ جو حکمرانی کے خواہش مندوں کو خوش خبریاں سناتے ہیں یا وزیر اعظم ہاوس مین بیٹھ کر وقت کے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب اونٹوں کی قربانی کا وقت آں پہنچا ہے، یا وہ لوگ جو کسی میڈیا ہاوس میں بیٹھ کر دور کے ملک کے بارے میں پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دیتے ہیں یہ لوگ کوئی غیب دان نہیں ہوتے البتہ وہ علم کے بڑے درخت کی ایک شاخ کے ماہر ضرور ہوتے ہیں، امام محمد بن سیرین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو خوابوں کی تعبیر بتانے میں ید طولی ٰ حاصل تھا۔ ان کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ ابن سیرین نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمھارا ہاتھ کاٹا جائے گا، مذکورہ شخص کی موجودگی میں ایک اور شخص اسی محفل میں داخل ہوااور اس نے بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ امام نے اسے تعبیر بتائی کہ وہ حج کو جائے گا۔ پہلا شخص حیران ہوا مگر وقت نے ثابت کیا کہ پہلے شخص کا ہاتھ کاٹا گیا اور دوسرے شخص نے حج کیا۔ 

علم کیا ہے، کسے حاصل ہوتا ہے، کیسے حاصل ہوتا ہے، انسان کتنا علم حاصل کر سکتا ہے تشنہ بحث ہے مگر ایک بات پر سب صاحبان علم متفق ہیں کہ انسان کا علم ناقص اور ادہورا ہے۔ تمام علوم کی کی مکمل اجارہ داری خدا ہی کے پاس ہے کہ وہ تمام مخلوقات کا موجد اول ہے۔

انسان کو دیکھنے کے لیے بینا آنکھ کے ساتھ ساتھ روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دن کو سورج آنکھ کی یہ ضرورت پوری کرتا ہے اور حد نگاہ تک مناطر روشن ہو جاتے ہیں۔ رات کے اندہیرے میں آنکھ کی حد نگاہ مصنوعی روشنی کی لو تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔صاحب شمس الفقراء نے لکھاہے کہ انسان کو اندر سے دیکھنے کے لیے قلبی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس ضیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو نور اسم ذات سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اسم ذات کے نور سے مستفید ہونے والا انسان دوسرے انسان کے اندر تک جھانک سکتا ہے۔ یہ تو صاحبان علم کی باتیں ہیں۔کچھ لوگ ان اقوال کی حقیقت تک پہنچتے ہیں اور بعض کا کم علم انھیں ان باتوں کے انکار پر پر اکساتا ہے۔ البتہ خالق کائنات ایسی ہستی ہے جس کے ہاں علوم کلی ازل سے سجدہ ریز ہیں اور تا ابد اس کی اجارہ داری مستحکم ہے۔ 
   جب ابراہیم نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں تو رجوع کیا اور دعا کی  اے ہمارے رب، ہم سے قبول فرما بے شک آپ سنتے اور جانتے ہیں  (البقرۃ:127) ۔ علمائے دین کا کہنا ہے کہ نبیوں کا ہر عمل امر ربی کا مظہر ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے اس میں اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس دعا میں پوشیدہ اسباق قابل غور ہیں 

۔     ا س دعا کے لیے رفع ید سے قبل خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک بامقصد نیک عمل کو پورا کیا  
   ۔    اپنے اللہ کی طرف رجوع ہو کر اپنے ایمان کی سچائی کو ثابت کیا
۔    عمل کرتے وقت دل میں اخلاص تھا۔ غافل دل کے ساتھ نہیں بلکہ دل کو مائل کر کے اپنے قلب کی کیفیت کو اللہ کے سامنے رکھ کر ہی دعا کا سلیقہ پورا ہوتا ہے 
۔    دعا کے لیے مقام کی اہمیت بھی ظاہر کر دی گئی ہ
۔    اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ واسطہ بھی اسی قادر مطلق اور بے پرواہ کی صفات کا کارآمد ہے۔

   نیکی پر نیکی کرنے والوں کے دل حساب دینے کے لیے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں  (المومنوں: 60,61) ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کا دل خیالات کاایسا بھنور ہے جس میں سیاہ و بے رنگ لہروں کا جنم لینا اورعدم ہو جاتا جبلت انسان ہے۔ البتہ انسان کی حوصلہ افزائی یہ کہہ کر کی گئی ہے    مجھے پکارو، مین تمھاری دعا قبول کروں گا    (الغافر:60)
دنیا میں بسنے والا انسان بھی سنتا ہے  لیکن وہ دوسروں کے دل کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے۔سمیع تو ضرور ہے مگر علیم نہیں ہے۔   اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انھیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں بڑہا دیتا ہے  (البقرہ:15,16)۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ منافقین اس بہکاوے میں ہیں کہ شائد اللہ صرف سنتا ہے۔اہل ایمان اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں کو بصارت عطا کی جاتی ہے    تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمھارے آبا بھی نہیں جانتے تھے  (الانعام:19)
حدیث قدسی ہے    میرے بندو،  تم سب کے سب گمراہ ہو، سواے اس شخص کے جسے میں ہدائت دوں، اس لیے مجھ سے ہدائت مانگو میں تمھیں ہدائت دوں گا۔ میرے بندو تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاوں، اس لئے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاوں گا۔ میرے بندو، تم سب کے سب بے لباس ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں لباس پہناوں، اس لیے مجھ سے لباس مانگو، میں تمھیں لباس پہناوں گا۔ میرے بندو،  تم دن رات گناہ کرتے ہواور مین تمھارے گناہ معاف کر سکتا ہوں، اس لیے تم مجھ سے بخشش مانگو، میں تمھیں معاف کر دوں گا    البتہ رسول اکرم  ﷺ  کی یہ ہدائت پیش نظر رہے    اللہ کسی ایسے دل سے دعا قبول نہیں کرتاجو سہو و لہو مین مبتلاء  ہو 
وہ سنتا اور جانتا ہے۔ 
    ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے    اور علیم تو جمیع علوم کا اجارہ دار ہے۔ دعا گو کے ذہن میں یہ بچپنا نہیں ہونا چاہیے
    ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے 

جمعرات، 25 اپریل، 2019

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور

 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں یہ دعا مانگی تھی   اے ہمارے رب، اور ان میں ان ہی سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو سنوارے، بے شک آپ غالب اور حکمت والے ہیں    اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا   جس طرح ہم نے آپ میں آپ ہی سے ایک رسول بھیجاجو آپ کو ہماری آیات سناتے اور آپ کو سنوارتے ہیں، اور آپ کو کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں اور وہ سکھاتے ہیں جو آپ نہیں جانتے تھے ۔صرف اس سوال اور عطا میں ہی حکمت کا ذکر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس نعمت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ حکمت ہے کیا۔
لغت میں درج ہے     حکمت بہتریں چیز کو بہتریں علم کے ذریعے جاننے کو کہتے ہیں  
 علامہ سید سلیمان ندوی(۴۸۸۱ ۔  ۳۵۹۱) نے لکھا ہے  حکمت عقل و فہم کی اس کامل ترین حقیقت کا نام ہے جس سے صیح و غلط، صواب و خطا،حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان تمیزوفیصلہ بذریعہ غور وفکر، دلیل و برہان اور تجربہ و استقراء کے نہیں بلکہ منکشفانہ طور پر ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق صاحب حکمت کا عمل بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں اشیاء کے حق وباطل اور افعال کے خیر وشر کی تمیزکا صیح وجدان اور صیح ذوق ہوتا ہے، وہ ان امور کے دقیق سے دقیق مسئلہ کے متعلق اپنے ربانی ذوق و وجدان سے ایسی صیح رائے دیتے ہیں جو دوسرے لوگ وسیع مطالعہ اور غور وفکر کے بعد بھی نہیں دے سکتے۔ یہی وہ معرفت اور نور الہی ہے جو جدوجہد اورسعی و محنت سے نہیں بلکہ عطا و بخشش سے حاصل ہوتی ہے۔اور اسی کانام حکمت ہے۔اس کے مختلف درجے اور رتبے عام انسانوں کو ملتے ہیں لیکن اس کا اعلیٰ ترین اور کامل ترین درجہ اور رتبہ حضرات انبیاء کو حاصل ہوتا ہے
حکمت کو عام طور پر کتاب اورعلم کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے   بے شک ہم نے ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی    (النساء:۴۵)۔    اور جب میں نے آپ کو کتاب اور حکمت اور توراۃ اور انجیل دی   (المائدہ:۰۱۱)۔    اور جب اللہ نے انبیاء سے وعدہ لیا کہ جب میں آپ کوکوئی کتاب اور کوئی حکمت دوں    (آل عمران:۱۸) ۔    بے شک ہم نے ایمان والوں پر احسان کیاکہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کواس کی آیات پڑھ کر سناتاہے اور ان کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے    (آل عمران: ۴۶۱)۔    وہی اللہ جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتے ہیں اور ان کو پاک و صاف کرتے ہیں اور کتاب وحکمت سکھاتے ہیں اور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے    (الجمعہ:۲)۔    اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری    (النساء:۳۱۱) ۔    اور اللہ کا جوآپ پر احسان ہے اور اس نے آپ پر جو کتاب اور حکمت اتاری ہے ان کو یاد کرو۔ اللہ آپ کو اس سے سمجھاتا ہے    (البقرہ: ۱۳۲) ۔
 علم اگر جاننے کا نام ہے تو حکمت اس دانشمندی کانام ہے جو علم کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ایک بار اللہ کے آخری نبی  ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ لطیف پیرائے میں تبادلہ خیالات فرما رہے تھے،اصحاب اپنی اپنی پسند بتا رہے تھے۔ حضرت جبریل اترے اور انھوں نے بھی اس تبادلہ خیالات میں شامل ہو کر اپنی پسند بتائی،پھر آسمان کی طرف گئے اور واپس آ کر اللہ تعالیٰ کی پسند بیان فرمائی۔ اس محفل میں رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی پسند بتائی ان میں خوشبو، عورت اور نماز کا ذکر تھا۔ نماز کو نبی اکرم ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھندک بتایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انبیاء کو علم کے ساتھ جو حکمت عطا کی جاتی ہے وہ اعمال کی حقیقت منکشف کر دیتی ہے۔عام مسلمانوں کے لیے نماز پڑہنا مشکل عمل ہے مگراصحاب حکمت پر جب حقیقت منکشف ہو جاتی ہے تو وہ مرغوب عمل بن جاتا ہے۔حکمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ  کی ازدواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا ہے      اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جو آیات اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو    (الاحزاب:۴۳) ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیات تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر حکمت کی باتیں وہ ہیں جو زبان مبارک رحمت العالمین سے عطا ہوتی ہیں۔امام شافعیؒ کا قول ہے    حکمت آنحضرت  ﷺ کی سنت کا نام ہے اور آپ کی سنت وہ حکمت ہے جوآپ  ﷺ  کے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالی جاتی ہے   ۔سورۃ جمعہ میں آنحضرت  ﷺ  کے بارے میں فرمان ہے    مسلمانوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم فرماتے ہیں    یعنی کتاب اور حکمت دو مختلف چیزیں ہیں۔جب  اللہ کے رسول دوسروں کو حکمت کی تعلیم دیتے ہیں تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منکشفانہ علم تقسیم کرتے ہیں۔اس منکشفانہ علم کا اعجاز ہے کہ یہ صاحب علم کو صاحب عمل بنادیتا ہے۔مقاتلؒ کا قول ہے    حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کو کہتے ہیں   ۔اور ابو جعفر محمدبن یعقوب کا قول ہے   ہر وہ صیح با ت جو صیح عمل پیدا کرے حکمت ہے  ۔ہم کہہ سکتے ہیں حکمت وہ جوہر ہے جس کو عطا کیا جاتا ہے وہ سراپا عمل بن جاتا ہے۔
آپ کو کتابوں میں ایسے اصحاب علم کا نام ضرور ملے گا جن کے علم ہی نے ان کو دھوکا دیا مگرآپ کوشش کریں تو بھی کسی کو ڈہونڈ نہ پائیں گے کہ جس کو حکمت عطا کی گئی ہو اور وہ ناکام ہوا ہو۔سورۃ النساء کی آیت:۳۱۱ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جس کو حکمت عطا کردی جائے وہ گمراہ ہو ہی نہیں سکتا، پوری آیت یوں ہے    اگر اللہ کا فضل و کرم آپ پر نہ ہوتاتو ان میں سے ایک گروہ نے چاہا تھاکہ آپ کو گمراہ کرے،اور وہ گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے آپ کو،اور آپ کو ذرا سابھی نقصان نہیں پہنچائیں گے، اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری اور آپ کو سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے،اور اللہ کا آپ پر بڑا فضل ہے   ، اور فضل یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ  آپ  ﷺ  کو حکمت عطا کی گئی ہے۔ اس آیت میں کھل کر بتا دیا گیا ہے   جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو خیر کثیر عطا ہوئی    (البقرہ: ۹۶۲)۔ حکمت کی مزید وضاحت اس فرمان  رسول  ﷺ میں ہے   رشک و حسداگر جائز ہے تو صرف دو اشخاص پر، ایک اس پر جس کو مال کی دولت ملی تو وہ اس کو صیح صرف کرتا ہے، دوسرے اس شخص پرجس کو حکمت ملی ہے تو وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہے۔اور دوسروں کو سکھاتا ہے اور اس میں معلم ہونے کی شان پیدا ہوتی ہے
امام مالک کا قول ہے    حکمت دین میں سمجھ اور اس فہم کو کہتے ہیں جو ایک فطری ملکہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ہے