# Pakistan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
# Pakistan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 5 اگست، 2020

ان پڑھ جاہل



ہم یقین رکھتے ہیں کہ علم کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے۔  اس فانی زمین پر علم جس شہر میں اتارا گیا۔ اس کے اکلوتے دروازے 
پر کنندہ ہے کہ ظلم  تو برداشت کر لیا جاتا ہے مگر بے انصافی تباہی لاتی ہے۔  اس جملے کو یوں ہی کہا جا سکتا ہے کہ میرٹ کے بغیر شہر کھوکھلے ہو جایا کرتے ہیں۔ کھوکھلا درخت ہو کہ معاشرہ تیز ہواوں کے سامنے سر نگوں ہو جاتا ہے۔ 
حکومت کے  لیے دولت و قوت بنیادی عوامل ہوتے ہیں اور 1947 میں جب پاکستان بن رہا تھا۔ تاج برطانیہ کے پاس دولت کی کمی تھی نہ قوت کی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد وہ فاتح قوم تھی۔ مگر ہندوستان میں اس کی اخلاقی برتری محض اس لیے ختم ہو چکی تھی وہ کچھ طبقات کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام تھی۔ 
بہادر شاہ ظفر کو اگر دو گز زمین نہ ملی تو اس کا سبب انگریزوں کے ساتھ اس کے اپنے بھی تھے جن کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تھا۔ ترکی کے سلیمان دی گریٹ جس کی حکومت  بیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی کے وارثین جب دستبرداری کے معاہدے پر عمل کر رہے تھے تو ان کے اپنے وزیر و مشیر ان کے ساتھ نہ تھے۔اور ان کو بے انصافی نے دشمنوں کی گود میں جا بٹھایا تھا۔ یہ ماضی کی نہیں حال کی تاریخ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہم خود ستائی کے دور گذر رہے ہیں۔ ہر زبان غدار وطن اور ہر لفظ کافر دین  قرار پاتا ہے۔  دشنام طرازی سے بڑھ کر بات اغواء  باالجبر اور گولی سے بھی آگے جا چکی ہے۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ نظریات پر روٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کا جواب تھا روٹی کا بندوبست کرو نظریہ قبول ہو جائے گا۔ ایک سیاسی اجتماع کے دوران ایک صاحب نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں مقدس کتاب پکڑ کر لوگوں کو روٹی پر کتاب کو ترجیح دینے کی نصیحت کی تھی ووٹ مگر روٹی کو ملے تھے۔ انسان  کی بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے اسی لیے  سب سے بڑی نیکی لوگوں کو کھلانا ہے تو سب سے بڑی بے انصافی خدا کے کنبے کو بھوکا رکھنا ہے۔ 
 ہم اسلام کے جس قلعے کے باسی ہیں اس کی دیواریں ضخیم اور بلند ہیں۔ اس قلعے کے اندر بعض چھتیں عام چھتوں سے چالیس گناہ زیادہ مضبوط ہیں۔ اس کی منڈیر کے کنگروں پر ایٹمی ابابیل اس قلعے کی حفاظت کرتی ہیں تو ایٹمی چھتری اس قلعے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔  مگر اس قلعے کے باہر ہمارے کہے کا اثر نہیں ہوتا۔ ہماری دہمکیاں ہوا بھرے غبارے ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طاقت ہمارا بوجھ بن جاتی ہے۔ ہمارا نظریاتی ٖ فخرخاک راہ ثابت ہوتا ہے۔ہمارے ہمدرد بے سروپا کر دیے جاتے ہیں۔  اس قلعے کے اندر ہماری محنتیں بے ثمر رہ جاتی ہیں۔ ہماری قابلیت اور ہنر بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے فتوے نا قابل عمل بن جاتے  ہیں۔ امید وہ سہارا ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر انسان زندگی بسر کر لیتا ہے مگر مایوسی کے لشکر اس مضبوط قلعے کے خفیہ راستوں سے مانوس ہو چکے ہیں۔
ملکوں میں سویت یونین اور شخصیات میں حسین شہید سہروردی، دونوں ہی داستان بن چکے مگر ہم داستانوں سے کیا سبق سیکھیں گے۔ 
آج کل پاکستان میں ارطغرل کے کارناموں پر عوام کو ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ دنیا پر 600 سال تک حکمرانی کرنے والے اس گروہ کے بارے میں کتابوں میں درج ہے وہ یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم دلوایا کرتے تھے۔پاکستان میں میٹرک تک مفت تعلیم مہیا کرنا آئینی تقاضا ہے مگر عملی طور پر     آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے    جس کا مقام   ردی کی ٹوکری    ہے ۔  اور بیانیہ یہ ہے کہ قوم ان پڑھ اور جاہل ہے۔

ہفتہ، 30 مئی، 2020

درد لا دوا

1968
ءمیں ایوب خان نے ”ترقیاتی جشن“ پورے پاکستان میں منانے کا اعلان کردیا 


 عوامی لیگ کے طلباءتنظیم ”چھاترو لیگ“ نے احتجاجی تحریک شروع کررکھی تھی۔ عوام بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں شکر کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ جس کے نتیجہ میں لاہو اور گوجرانوالہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شدت اختیار کرتی جارہی تھی۔1969ء میں مشرقی پاکستان کا شمالی شہر ” پار بتی پور“ میں ایک سازش کے تحت ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کو توڑنے کے لئے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان تصادم کرا دیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی سنگین سیاسی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ایوب خان نے لاہور میں ”راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس“ کا انعقاد کیا اور شرکت کے لئے جیل سے مجیب الرحمن کو رہا کردیا۔ بھٹو نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ شیخ مجیب الرحمن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات ناکام رہے۔ ملک میں شدید سیاسی بحران آگیا جس کے نتیجہ میں جنرل ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار سے علیحدہ ہو کر جنرل آغا محمدیحیٰ خان کو سونپ دیا۔ جنرل یحی ٰ خان نے مارشلاءنافذ کردیا اور جلد الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔


شیخ مجیب الرحمن کے ”اعلان آزادی “ سے چند گھنٹہ قبل 25 اور 26 مارچ 1971ء کی رات کو پاکستانی افواج نے ملک دشمنوں کے خلاف ایکشن شروع کردیا ایک ایک انچ پر دوبارہ حکومتی رٹ قائم کرنے کےلئے پاکستان بچانے کےلئے پاکستانی فوج کی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے چپہ چپہ پر پھیل گئے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کےلئے اقدامات کرنے شروع کر دیئے۔ اگست 1971ءتک حالات معمول پر آنا شروع ہوئے۔ حکومت نے ”عام معافی“ کا اعلان کیا۔ مکتی باہنی، لال باہنی، راکھی باہنی اور دیگر نیم عسکری و عسکری اداروں کے افراد جنہوں نے پاک افواج سمیت دیگر محب وطن پاکستانیوں کا قتل عام کیا تھا۔ وہ تمام معافی کے ذریعہ ہندوستان سے واپس آکر مزید مستحکم ہونے لگے۔ دسمبر 1971ءکی جنگ پہلے ہفتہ میں ہی فضائی اڈے تباہ کر دیئے گئے۔ پہلے ہی سے تیار بھارتی فوج اندر آگئی تھی۔ پاکستانی فوج اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہو گئی تھی۔ پاکستانی افواج اور ان کے ساتھ محب وطن پاکستانیوں نے دفاع پاکستان میں گرانقدر قربانیاں دیتے ہوئے شہید کا رتبہ پا رہے تھے۔ فضائی برتری ختم ہونے سے ان کی حالت مخدوش سے مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔ ایڈمرل احسن کے بعد جنرل ٹکا خان اور پھر کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (اے اے کے نیازی) اور گورنر مشرقی پاکستان جناب مالک بنے لیکن بین الاقوامی سازش ہندوستان کی کارفرمانیاں ہمارے سیاسی اکابرین خصوصاً مغربی پاکستان کے زعمائے ملک اور سیاسی اکابرین اور حکمرانوں نے نوشتہ دیوار نہ پڑھ سکے اور 16 دسمبر 1971ءکو ڈھاکہ غروب ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا دنیا کے سامنے ہے۔ اَنا‘ ضد اور تکبر نے ہمیں بحرالکاہل میں ڈبو دیا۔ حب الوطنی کو ”جرم“ بنا کر پیش کیا گیا۔ محصور پاکستانی آج بھی بنگلہ دیش کے 66 کیمپوں میں قید و بند کی زندگی گذار رہے ہیں اور پاکستان آنے کی آس میں موت کو گلے لگا رہے ہیں۔

ہفتہ، 27 اپریل، 2019

زبان اور عمل کی لگام

؂
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے انسانوں کو ہدائت ار رہنمائی سے کبھی بھی محروم نہ رکھا۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی اسے عقل و شعورکے ساتھ ساتھ اپنی ایک بڑی صفت ْ علیم ْ میں سےعلم عطا فرما کر انسان کو اس قابل کر دیا کہ وہ راہ حیات کے روشن اور تاریک راستوں کو پہچان سکے۔ہم صبح و شام اپنے خدا سے سیدھی راہ کی طلب کرتے ہیں۔حالانکہ یہ راہ تو موجود ہے البتہ ہماری دعاوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ سیدہی راہ روشن ہو کر ہمیں اس طرح دکھائی دے کہ ہم یقین کامل اور دل کے اطمینان کے ساتھ اس پر چل سکیں۔ ذہنی بے یقینی انسان کی جبلت کا حصہ ہے، اس کے باوجود کامیاب لوگوں کی زندگی سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔
کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ مختلف لوگوں کے قابل تقلید لوگ (ہیرو) مختلف ہوتے ہیں۔البتہ اس عالم رنگ و بو میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دنیا کے اخلاقی طور پر تاریک ترین حصے میں روشن ہوااور اخلاقی، سماجی، نظریاتی اور عملی طور پر ایسے انقلابی اقدامات اٹھاٗے کہ دنیا کے کونے کونے سے اہل علم نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اس ہستی کا نام مبارک محمد    ہے جو اللہ کے اخری رسول ﷺ ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو ان کی اتباع میں لانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو بطور نمونہ اپنانے کے خواہش مند اپنے جبلی تعصبات سے بالا تر ہو کر بھی اس اجتماعیت سے دورہیں جس اجتماعیت نے رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں (اصحاب ) کے ایمان کو اس طرح راسخ کر دیا تھاکہ ان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی کامیابی گویا نظرآ رہی تھی۔جبلی طور پر انسان وہی ہے۔فطرت آدم بھی تبدیل نہیں ہوئی۔  قران بھی وہی ہے جو اصحاب رسول پڑہا کرتے تھے۔تعلیمات نبوی ﷺ بھی محفوظ ہیں ۔مگرآج اسلام کی وحدانیت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذہب ایک تقسیم کارآلہ بن کر رہ گیا ہے۔مقام غور ہے کہ ْ تبدیلی ْ کہاں ہوئی ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے

 ْ فی الحقیقت تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہائت ہی حسین نمونہ ہے ْ (الاحزاب)

اسوہ حسنہ عنوان ہے رسول اللہ کی حیات طیبہ کااور اس عنوان کے کئی ابواب اور پہلو ہیں، ان میں ایک پہلو کی خود خدا نے نشاندہی کی ہے ۔ فرمان الہی ہے

 ْ تم کیوں کہتے ہو جو کرتےنئیں ، بڑی بے زاری ہے اللہ کے یہاں ، کہ کہو وہ جو کرو نہ ْ ۔ اس عمل کو 

اردو کے ایک محاورے میں کہا گیا ہے ْ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ْ یہ عمل انسان کا ایسا کمزور پہلو ہے جس کی خدا نے نظریاتی طور پر اور خدا کے رسول نے عملی طور پر حوصلہ شکنی کی ہے۔سیرت النبی کا مطالعہ بتاتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہرنصیحت کے الفاظ میں عمل کی روح پھونک کراپنی تعلیمات کو ابدیت عطا فرمائی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا

 ْ جو قران میں الفاظ کی صورت میں ہے ،وہی حامل قرآن کی سیرت مین بطور عمل تھا ْ ۔

 انھوں نے اگر دوسروں کو کھلانے کی نصیحت کی تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا، اگر دوسروں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو ہند اوراس کے غلام کومعاف کیا، زہر کھلانے والوں سے در گذر کیا۔ اگر سوال کرنے والوں کے سوال پورا کرنے کی ہدایت کی تو شدید ضرورت کے ایام میں اپنی چادر اتار کر دے دی۔فرمان و اعمال میں ہم آہنگی کتاب اسوہ حسنہ کا روشن باب ہے۔اس فرمان نبی کا ہر لفظ عمل کی گردش پوری کرنے کے بعد زبان مبارک سے نکلا ہے

 ْ مومن وہ ہے جس کو لوگ امین سمجھیں ، مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ، 
مہاجر وہ ہے جس نے بدی کو چھوڑ دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصہ سے محفوظ نہ رہا ہو ْ 

قول و فعل کا ہم آہنگ نہ ہونا ایسا عیب ہے جو الفاظ کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔وعظ کو بے اثر بے جان الفاظ نہیں کیا کرتے۔ شخصیت کو گہن اقوال و افعال کی بے آہنگی لگایا کرتی ہے۔ ہمارے پاس خوبصورت اور مرصع الفاظ کی کمی ہے نہ دلپذیر حکائتوں کی قلت ۔ ناصحین کی بھی بہتات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زبان کو عمل کی لگام پہنانے کی ضرورت ہے

بدھ، 6 دسمبر، 2017

سیکولرازم




سعودیہ ایک وسیع اور تاریخی ملک ہے۔ وہاں ، اگر کہا جائے ، دین لوگوں کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ قبائل پرمشتمل اس ملک کے ایک صوبے نجد میں جو روایات کا قلعہ کہا جاتا ہے میں اشیقر نامی قلعے سے متصل ایک ویران گلی میں ایک نوجوان لڑکی نے علاقے کی روایات سے ہٹ کر ایسا لباس زیب تن کیا جو اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ وہ لڑکی کوئی عام لڑکی نہ تھی، اس کا نام خلود ہے جو سعودیہ کی ایک پروفیشنل ماڈل ہے، جب خلود سکرٹ پہن کر ایک ویران گلی میں چہل قدمی کر رہی تھی اس کے اس عمل کو فلمایا گیا۔ لوگوں نے اس کی شکائت کی  . اس کے خلاف تفتیش ہوئی ، اس کے جرم کو نا قابل گرفت بتاتے ہوئے اس کے خلاف تفتیش بند کر دی گئی۔ البتہ اس کاویڈیو 
 کلپ ایک بحث کا عنوان بن گیاکہ  " فرد کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نہیں۔

اب ایک مثال پاکستان کی، ایک دھرنے میں موجود ایک علامہ صاحب کے طرز تخاطب کو بنیاد بنا کر ، مولویوں ، علماء اور دینی مبلغین کے طرز تخاطب کو دین سے جوڑ کر دین کی بے ثمراتی پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔ اوربحث کا مرکز ی نقطہ یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے کو دینی ہونا چاہیے یا سیکولر ؟ 

سوشل میڈیا ایسا فورم ہے جہاں آ پ اپنا بیانیہ دوسرے کی رضامندی کے بغیر بھی اس کے ذہن میں انڈیل سکتے ہیں۔ جب پکتی دیگ میں خیالات کا ایک دانہ بھی ڈال دیا جائے تو اس نے پک جانا ہے اور کسی مرحلے پر اس کے اثرات بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر جاری سیکولرازم پر تبصروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہمارے لبرلز ہیں جن کو ْ دیسی ْ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک روایات، اخلاقیات اور دین ایسے سنگ گراں ہیں جو معاشرے اور ملک کی ترقی میں حائل ہیں ۔ 

یہ بحث اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ ، قوم پرست اور دین دار طبقے کو اس بحث کا حصہ بن جانا چاہئے تاکہ نوجوان ذہن یک طرفہ بیانئے سے متاثر ہونے سے پہلے بیانئے کا دوسرا رخ بھی جان سکے۔